پھلا باب: وھابیت كے بانی
 

وھابی فرقہ كھاں سے اور كیسے وجود میں آیا؟ سب سے پھلے وھابی فرقہ كوبنانے والا اور اس كو نشركرنے كے لئے انتھك كوشش كرنے والا شخص محمد بن عبد الوھاب ھے جو بارهویں صدی ہجری كے نجدی علماء میں سے تھا۔ (اس كی سوانح حیات اسی كتاب كے تیسرے باب میں بیان هوگی)۔
لیكن یہ معلوم هونا چاہئے كہ وھابیت كے عقائدكو وجودبخشنے والا یہ پھلا شخص نھیں ھے بلكہ صدیوں پھلے یہ عقیدے مختلف صورتوں میں ظاھر هوتے رھے ھیں، لیكن یہ ایك نئے فرقہ كی صورت میں نھیں تھے اور نہ ھی ان كے زیادہ طرفدار تھے۔ 2
ان میں سے :چوتھی صدی میں حنبلی فرقہ كے مشهور ومعروف عالم دین ”ابومحمد بَربھاری“ نے قبور كی زیارت سے منع كیا، لیكن خلیفہ عباسی نے اس مسئلہ كی بھرپور مخالفت كی ۔
حنبلی علماء میں سے ”عبد اللہ بن محمد عُكبَری“ مشهور بہ ابن بطّہ (متوفی 387ھ) نے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت اور شفاعت كا انكار كیا۔ 3 اس كا اعتقاد تھا كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر منور كی زیارت كے لئے سفر كرنا گناہ ھے، اسی بناپر اس سفر میں نماز تمام پڑھنا چاہئے اور قصر پڑھنا جائز نھیں ھے۔ 4
اسی طرح اس كا یہ بھی عقیدہ تھا كہ اگر كوئی شخص انبیاء اور صالحین كی قبور كی زیارت كے سفر كو عبادت مانے، تو اس كا عقیدہ اجماع اور سنت پیغمبر اكرمكے خلاف ھے۔ 5
ساتویں اور آٹھویں صدی كے حنبلی علماء كا سب سے بڑا عالم ”ابن تیمیہ“ ھے اور محمد بن عبد الوھاب نے اكثر اوراھم عقائد اسی سے اخذ كئے ھیں۔
ابن تیمیہ كے دوسرے شاگرد؛ جن میں سے مشهور ومعروف ابن قیم جوزی ھے اس نے اپنے استاد كے نظریات وعقائد كو پھیلانے كی بھت زیادہ كوششیں كی ھیں۔
شیخ محمد بن عبد الوھاب كا سب سے اھم كارنامہ یہ تھا كہ اپنے عقائد كو ظاھر كرنے كے بعد ان پر ثابت قدم رھا اور بھت سے نجدی حكمرانوں كو اپنے ساتھ میںملالیا اور ایك ایسا نیا فرقہ بنالیاجس كے عقائد اھل سنت كے كے چاروں فرقوں سے مختلف تھے، اس میںشیعہ مذھب سے بھت زیادہ اختلاف تھا جب كہ وہ حنبلی مذھب سے دیگر مذاھب كے مقابلہ میں نزدیك تھا۔

ان كو وھابی كیوں كھا گیا؟ وھابی لفظ فرقہ وھابیت كے بانی كے باپ یعنی عبد الوھاب سے لیا گیا ھے لیكن خود وھابی حضرات اس كو صحیح نھیں مانتے۔
سید محمود شكری آلوسی(وھابیت كی طرفداری میں) كھتا ھے:وھابیوں كے دشمن ان كو وھابی كھتے ھیں جبكہ یہ نسبت صحیح نھیں ھے بلكہ اس فرقہ كی نسبت اس كے رھبر محمد كی طرف هونا چاہئے، كیونكہ اسی نے ان عقائد كی دعوت دی ھے، اس كے علاوہ شیخ عبد الوھاب اپنے بیٹے (محمدابن عبد الوھاب) كے نظریات كا سخت مخالف تھا۔ 6
صالح بن دخیل نجدی (المقتطف نامی مجلہ مطبع مصرمیں ایك خط كے ضمن میں) اس طرح لكھتا ھے:
”اس كے بعض معاصرین وھابیت كی نسبت صاحب دعوت (یعنی محمد بن عبد الوھاب) كے باپ كی طرف حسد وكینہ كی وجہ سے دیتے تھے تاكہ وھابیوں كو بدعت او رگمراھی كے نام سے پہچنوائیں، اور خود شیخ كی طرف نسبت نہ دی (اور محمدیہ نھیں كھا) اس وجہ سے كہ كھیں ایسا نہ هو كہ اس مذھب كے ماننے والے پیغمبر اكرمكے نام كے ساتھ كسی طرح كی شركت نہ سمجھ بیٹھیں۔ 7
مشهور ومعروف مصری موٴلف احمد امین، اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھے:
”محمد بن عبد الوھاب او راس كے مرید اپنے كو موحّد كھلاتے تھے، لیكن ان كے دشمنوں نے ان كو وھابی كانام دیا ھے، اور اس كے بعد یہ نام زبان زد خاص و عام هوگیا“۔ 8
قبل اس كے كہ محمد بن عبد الوھاب كے اعتقادات كے بارے میں تفصیلی بحث كی جائے مناسب ھے بلكہ ضروری ھے كہ پھلے سلفیہ كے بارے میں كچھ مطالب ذكر كئے جائیں جو وھابیت كی اصل اور بنیاد مانے جاتے ھیں، اس كے بعد بربَھاری اور ابن تیمیہ كے مختصر اعتقادات او رنظریات جو وھابیوں كی اصل اور بنیاد ھیں ؛ ذكر كئے جائیں۔

سلفیّہ كسے كھتے ھیں؟ سلفیہ9 حنبلی مذھب كے پیروكاروں كا ایك گروہ تھاجوچوتھی صدی ہجری میں وجود میں آیا، یہ لوگ اپنے اعتقادات كو احمد حنبل كی طرف نسبت دیتے تھے، لیكن بعض حنبلی علماء نے اس نسبت كے سلسلے میں اعتراضات كئے ھیں۔
اس زمانہ میں سلفیوں اور فرقہ اشاعرہ كے درمیان كافی جھگڑے او ربحثیں هوتی رھتی تھیں، اور دونوں فرقے كھتے تھے كہ ھم مذھب سلف صالح كی طرف دعوت دیتے ھیں۔
سلفیہ، فرقہ معتزلہ كے طریقہ كی مخالفت كرتا تھا، كیونكہ معتزلہ اپنے اسلامی عقائد كو یونانی منطق سے متاثر فلاسفہ كی روش بیان كرتے تھے، اور سلفیہ یہ چاھتے تھے كہ اسلامی عقائد اسی طریقہ سے بیان هوں جو اصحاب اور تابعین كے زمانہ میں تھا،یعنی جومسئلہ بھی اسلامی اعتقاد كے متعلق هو اس كو قرآن وحدیث كے ذریعہ حل كیا جائے، اور علماء كو قرآن مجید كی دلیلوں كے علاوہ دوسری دلیلوں میں غور وفكر سے منع كیا جائے۔
سلفیہ چونكہ اسلام میںعقلی اور منطقی طریقوں كو جدید مسائل میں شمار كرتے تھے جو صحابہ اور تابعین كے زمانہ میں نھیں تھے لہٰذا ان پر اعتقاد نھیں ركھتے تھے، اور صرف قرآن وحدیث كی نصوص اور ان نصوص سے سمجھی جانے والی دلیلوں كو قبول كرتے تھے، ان كا ماننا یہ تھا كہ ھمیں اسلامی اعتقادات اور دینی احكام میں چاھے وہ اجمالی هوں یا تفصیلی، چاھے وہ بعنوان اعتقادات هوں یا بعنوان استدلال قرآن كریم اور اس سنت نبوی جوقرآنی هو اور وہ سیرت جو قرآن وسنت كی روشنی میں هو؛ كے علاوہ كوئی دوسرا طریقہ اختیار نھیں كرنا چاہئے۔
سلفیہ دوسرے فرقوں كی طرح توحید كو اسلام كی پھلی اصل مانتے تھے، لیكن بعض امور كو توحید كے منافی جانتے تھے جن كو دوسرے اسلامی فرقے قبول كرتے تھے، مثلاً كسی مخلوق كے ذریعہ خدا كی بارگاہ میں توسل كرنا یا اس كو وسیلہ قراردینا، حضرت پیغمبر اكرمكے روضہٴ مبارك كی طرف منھ كركے زیارت كرنا، اور روضہٴ اقدس كے قرب وجوار میں شعائر (دینی امور) كو انجام دینا، یا كسی نبی اللہ یا اولیاء اللہ كی قبر پر خدا كو پكارنا ؛ وغیرہ جیسے امور كو توحید كے مخالف سمجھتے تھے، اور یہ اعتقاد ركھتے تھے كہ یہ امور(مذكورہ امور كو توحید كے مخالف سمجھنا) سلف صالح كا مذھب ھے اور اس كے علاوہ تمام چیزیں بدعت ھیں جو توحید كے مخالف اور منافی ھیں۔

صفات ثبوتیّہ اور سَلبیّہ سلفیوں كا كہنا یہ ھے :خداوندعالم كے صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ كے بارے میں علماء كے درمیان صرف فكر و نظر میں اختلاف ھے،حقیقت واصل میں نھیں، اور یہ اختلاف اس بات كا سبب نھیں هوتا كہ دوسرے تمام فرقے ایك دوسرے كو كافر كھیں۔ خود سلفیہ (برخلاف اختلاف) اپنے كسی مخالف فرقہ كو كافر نھیں كھتے تھے۔
وہ خداوندعالم كے صفات وذات كے سلسلہ میں جو كچھ قرآن مجید میں وارد هوا ھے اس پر عقیدہ ركھتے ھیں چنانچہ خداوندعالم كی محبت،غضب ،غصہ، خوشنودی، ندا اور كلام كے معتقد ھیں، ساتھ ھی وہ خدا وندعالم كا لوگوں كے درمیان بادلوں كے سایہ میںنازل هونے، اس كے عرش پر مستقرهونے كا بھی اعتقاد ركھتے ھیں، اور بغیر كسی تاویل وتفسیر كے خداوندعالم كے لئے چھرے اور ھاتھوں كے قائل ھیں،یعنی آیات صرف كے ظاھری معنی كو اخذ كرتے ھیں، لیكن خداوندعالم كی ذات گرامی كو مخلوقات كی طرح ھاتھ پیر اور چھرہ ركھنے سے پاك و منز ّہ مانتے ھیں۔ 10

بربَھاری كا واقعہ ابو محمد حسن بن علی بن خَلَفِ بربھاری جو بغدادی حنبلیوں كا رئیس تھا؛اور كچھ خاص نظریات ركھتا تھا،اگر كوئی شخص اس كے عقائد اور نظریات كی مخالفت كرتا تھا تواس كی شدت سے مخالفت كرتا تھا، اور اپنے ساتھیوں كو بھی اس كے ساتھ سختی كرنے كا حكم دیتا تھا۔ اس كے ساتھی لوگوں كے گھروں كو ویران كردیتے تھے ۔ لوگوں كو خرید و فروخت سے بھی روكتے تھے، اور اگر كوئی اس كی باتوں كو نھیں مانتا تھا تو اس كو بھت زیادہ ڈارتے تھے۔
بربَھاری كے كاموں میں سے ایك كام یہ بھی تھا كہ حضرت امام حسین ں پر نوحہ وگریہ وزاری، اور كربلا میں آپ كی زیارت سے كو منع كرتا تھااور نوحہ ومرثیہ پڑھنے والوں كے قتل كا حكم دیتا تھا۔
چنانچہ ”خِلب“نام كا ایك شخص نوحہ اور مرثیہ پڑھنے میں بھت ماھر تھا، جس كا ایك قصیدہ تھا جس كا پھلا مصرعہ یہ ھے:
”اَیُّها الْعَیْنَانِ فَیضٰا وَاسْتَہِّلاٰ لاٰ تَغِیْضٰا“
جو امام حسین ں كی شان میں پڑھا كرتا تھا، ھم نے اس كو كسی ایك بڑے گھرانے میں سناھے، اس زمانہ میں حنبلیوں كے ڈر سے كسی كو حضرت امام حسین ں پر نوحہ ومرثیہ پڑھنے كی جراٴت نھیں هوتی تھی، اور مخفی طور پر یا بادشاہ وقت كی پناہ میں امام حسین ں كی عزاداری بپا هوتی تھی۔
اگرچہ ان نوحوں اور مرثیوں میں حضرت امام حسین علیه السلام كی مصیبت كے علاوہ كچھ نھیں هوتا تھا اور اس میں سلف كی مخالفت بھی نھیں هوتی تھی،لیكن اس كے باوجودجب بربھاری كو اطلاع هوئی تو اس نے نوحہ خوان كو تلاش كركے اس كے قتل كا حكم دیدیا۔
اس زمانہ میں حنبلیوں كا بغداد میں اچھا خاصا رسوخ تھا جس كی بناپریہ لوگ ھمیشہ فتنہ وفساد كرتے رھتے تھے۔ 11 جس كا ایك نمونہ محمد ابن جَرِیر طبری صاحب تاریخ پر حملہ تھا:
طبری، اپنے دوسرے سفر میںطبرستان سے بغداد پهونچے اور جمعہ كے روز حنبلیوں كی جامع مسجد میںپهونچے وھاں پر ان سے احمد حنبل اور اس حدیث كے بارے میں جس میں خدا كے عرش پر بیٹھنے كا تذكرہ ھے، نظریہ معلوم كیا گیا، تو اس نے جواب دیاجو احمد حنبل كی مخالفت بھی نھیں تھی، لیكن حنبلیوں نے كھا: علماء نے اس كے اختلافات كو اھم شمار كیا ھے، اس پر طبری نے جواب دیا: میں نے نہ خوداس كو دیكھا ھے، اور نہ اس كے كسی مودر اعتماد صحابی سے ملاقات كی ھے جو اس بارے میں مجھ سے نقل كرتا،اور خدا وندعالم كے عرش پر مستقر هونے والی بات بھی ایك محال چیز ھے۔
جس وقت حنبلیوں اور اھل حدیث نے اس كی یہ بات سنی تواس پر حملہ شروع كردیا، اور اپنی دوا توں كو اس كی طرف پھینكنا شروع كردیا، وہ یہ سب دیكھ كر وھاں سے نكل بھاگے، حنبلیوں كی تعداد تقریباً ایك ہزار تھی انھوںنے ان كے گھر پرپتھروں سے حملہ كردیا یھاں تك كہ گھر كے سامنے پتھروں كا ایك ڈھیر لگ گیا۔
بغداد كی پولیس كا افسر ”نازوك“ ہزار سپاھیوں كا لشكر لے كر وھاں پهونچا اور طبری صاحب كو ان كے شر سے نجات دلائی، او رپورے ایك دن وھاں رھا، اور حكم صادر كیا كہ اس كے گھر كے سامنے سے پتھروں كا ڈھیر ہٹایا جائے۔ 12
حنبلی مذھب كے علماء مثلاً ابن كثیر اور ابن عماد وغیرہ نے بربھاری كے بارے میں بھت باتیں بیان كی ھیں جن میں سے بعض مبالغہ ھیں، ابن كثیر اس كو ایك زاہد، فقیہ اور واعظ كھتے هوئے لكھتا ھے: چونكہ بربھاری كو اپنے باپ كی میراث كے سلسلے میں ایك شبہ پیدا هوا جس كی بناپر اس نے میراث لینے سے انكار كردیا جبكہ اس كے باپ كی میراث ستّر ہزار (اور ابن عماد كے قول كے مطابق 90ہزار) درھم تھی۔
اسی طرح ابن كثیركا قول ھے : خاص وعام كے نزدیك بربھاری كا بھت زیادہ احترام ا ور عزت تھی، ایك روز وعظ كے دوران اس كو چھینك آگئی تو تمام حاضرین نے اس كے لئے دعائے رحمت كرتے هوئے جملہٴ ”یرحمك اللہ“كھا جو چھینك آنے والے كے لئے كہنا مستحب ھے، اور یہ آواز گلی كوچوں تك پهونچی، اور جو بھی اس آواز كو سنتاتھا یرحمك اللہ كھتا تھا، اور اس جملہ كو تمام اھل بغداد نے كہنا شروع كردیا، یھاں تك كہ یہ آواز خلیفہ كے محل تك پهونچی، خلیفہ كو یہ شور شرابہ گراں گذرا اور كچھ لوگوں نے اس كے بارے میں مزید بدگوئی كی جس كے نتیجہ میں خلیفہ نے اس كو گرفتار كرنے كی ٹھان لی لیكن وہ مخفی هوگیا اور ایك ماہ بعد اس كا انتقال هوگیا۔ 13
لیكن خلیفہ وقت كے ناراض هونے اور اس كو گرفتار كرنے كے ارادہ كی اصل وجہ یہ تھی كہ وہ عام عقیدوں كی مخالفت كرتا تھا اسی وجہ سے خلیفہ نے اس كے خلاف اپنا مشهور ومعروف حكم صادر كیا جس كی طرف بعد میں اشارہ كیا جائے گا۔
ابو علی مُسكُویہ323ھ كے حالات میں كھتا ھے كہ اسی سال بَدرخَرشنی (صاحب شُرطہ) نے بغداد میں یہ اعلان كروایا كہ ابو محمد بربھاری 14 كے مریدوں میں كوئی بھی دوآدمی ایك جگہ جمع نہ هوں، بدر خرشنی نے اس كے مریدوں كو جیل میں ڈلوادیا لیكن بربھاری وھاں سے بھاگ نكلا یا مخفی هوگیا، اس كی وجہ یہ تھی كہ بربھاری اور اس كے پیروكار ھمیشہ فتنہ وفساد كرتے رھتے تھے۔ اس گروہ كے سلسلے میں خلیفہ الراضی كا ایك فرمان صادر هوا جس میں بربھاری كے مریدوں كے عقائد مثلاً شیعوں كی طرف كفر وضلالت كی نسبت دینا اور ائمہ كی قبور كی زیارت وغیرہ كو ناجائز ماننا جیسے امور كا تذكرہ تھا اور ان كو اس بات سے ڈرایا گیا تھا كہ یا تو وہ اس كام سے باز آجائیں، ورنہ ان كی گردن قلم كردی جائے گی،اور ان كے گھر او رمحلوں كو آگ لگادی جائے گی 15
ابن اثیر حنبلیوں كے بغداد میں فتنہ وفساد كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھے كہ323میں حنبلیوںنے بغداد میں كافی اثر ورسوخ پیدا كرلیا اور قدرت حاصل كرلی، بدرخرشنی صاحب شرطہ نے دسویں جمادی الآخر كو فرمان صادر كیا كہ بغداد میں یہ اعلان كردیا جائے كہ بربھاری كے مریدوں میں سے دو آدمی ایك ساتھ جمع نھیں هوسكتے، اور اپنے مذھب كے بارے میں كسی سے مناظرہ كرنے كابھی حق نھیں ركھتے، اور ان كا امام جماعت نماز صبح ومغرب وعشاء میں بسم اللہ كو بلند اور آشكار كھے۔ لیكن بدرخرشنی كا یہ كام مفید ثابت نھیں هوا بلكہ بربھاری كے مریدوں میں مزید فتنہ وفساد پھیل گیا۔
ان كاایك كام یہ تھا كہ وہ نابینا حضرات جو مسجدوں میں اپنی پناہ گاہ بنائے هوئے تھے ان كو اس كام كے لئے آمادہ كرتے تھے كہ جو بھی شافعی مذھب مسجد میں داخل هو، اس كو اتنا مارو كہ وہ موت كے قریب پهونچ جائے۔
ابن اثیر خلیفہ راضی كے حنبلیوں كے بارے میں فرمان سے متعلق گفتگو كرتے هوئے یوں تحریر كرتاھے كہ خلیفہ راضی نے بربھاری كے مریدوں پر سختی كی اور ان كو ڈرایا، كیونكہ وہ خدا وندعالم كی مثل اور تشبیہ كے قائل تھے اور خداوند عالم كو ھتھیلیوں اور دوپیر اور سونے كے جوتے اور گیسوٴں والا مانتے تھے اور كھتے تھے كہ خداوند عالم آسمانوں میں اوپر جاتا ھے اور دنیا میں نازل هوتا ھے، اسی طرح منتخب ائمہ پر طعنہ زنی كرتے تھے اور شیعوں كو كفر وگمراھی كی نسبت دیتے تھے، اور دیگر مسلمانوں كو كھلی بدعتوں كی طرف دعوت دیتے تھے جن كا قرآن مجید میں كھیں تذكرہ تك نھیں، اور ائمہ علیهم السلام كی زیارت كو منع كرتے تھے اور زائرین كے عمل كو ایك برے عمل سے یاد كرتے تھے۔ 16
بربھاری329ھ میں 96سال كی عمر میں مرگیا، وہ كسی عورت كے گھر میں چھپا هوا تھا، اور اس كو اسی گھر میں بغیر كسی دوسرے كی اطلاع كے غسل وكفن كے بعد دفن كردیا گیا۔ 17
ابن اثیر اس سلسلہ میں كھتا ھے : بر بھاری حنبلیوں كا رئیس جو مخفی طور پر زندگی گذار رھا تھا329 ھ میں 76 سال كی عمر میں فوت هوا، اور اس كو ” نصر قشوری “ كے قبرستان میں دفن كیا گیا۔ 18
قارئین كرام!آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا كہ بربھاری كے بارے میں خلیفہ الراضی كا فرمان ان عقائد كی طرف اشارہ ھے جو بعد میں ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب كے ذریعہ ظاھر هوئے، (اور فرقہ وھابیت تشكیل پایا)

بربھاری كے عقائد او رنظریات كا خلاصہ مسئلہ زیارت او رچند دوسرے مذكورہ مسائل كے علاوہ بربھاری كے كچھ اور بھی عقائد تھے ھم یھاں صرف ابن عماد حنبلی كے قول كو نقل كرنے پر اكتفاء كرتے ھیں:
بربھاری نے شرح كتاب السنة میں كھا: اس زمانہ میںجو كچھ بھی لوگوں سے سنو، اس كو قبول كرنے میں جلدی نہ كرو، اور اس كے مطابق عمل نہ كرو، یھاں تك كہ كسی دوسرے سے یہ معلوم كرلوكہ اس سلسلہ میں اصحاب پیغمبریا علماء اسلام نے نظریہ بیان كیا ھے یا نھیں؟ اور اگر معلوم هوگیا كہ ان باتوں پر اصحاب پیغمبر یا علماء كرام میں سے كسی نے فرمایا ھے تو اس پر عمل كیا جائے لیكن اس كے علاوہ دوسری باتوں پر عمل نہ كرو، ورنہ مستحق جہنم هوجاؤ گے۔
خداوندعالم كے بارے میں كچھ نئی نئی باتیں پیدا هوگئی ھیں جو بدعتیں او رگمراھی كے علاوہ كچھ بھی نھیں ھے،(لہٰذا ان كو قبول نھیں كرنا چاہئے) خداوندعالم كے بارے میں صرف وھی باتیں كھی جاسكتی ھیں جن كو خود خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے بارے میں بیان فرمایا ھے یا پیغمبر اكرم نے اصحاب كے مجمع میں ان كو بیان فرمایا ھے۔
ھم لوگوں كو چاہئے كہ خدا وندعالم كا روز قیامت ان ھی سر كی آنكھوں سے دیدار كا عقیدہ ركھیں، روز قیامت خود خداوندعالم بغیر كسی پردہ اور حجاب كے لوگوں كے حساب وكتاب كے لئے سب كے سامنے آئے گا۔
اسی طرح یہ ایمان بھی ركھنا ضروری ھے كہ پیغمبر اكرم (ص)كے لئے روز قیامت ایك حوض هوگا، اور تمام دیگرپیغمبروں كا بھی ایك حوض هوگا، سوائے صالح پیغمبر كے ،كہ ان كا حوض ان كے ناقہ (اونٹنی)كے پستان هوںگے۔
اسی طرح یہ عقیدہ بھی ركھنا ضروری ھے كہ حضرت رسول اكرم (ص)روز قیامت پل صراط پر تمام گناہكاروں اور خطا كاروں كی شفاعت كریں گے، اور ان كو نجات دلائیںگے،نیز تمام پیغمبروں، صدّقین اور شہداء وصالحین كو روز قیامت حق شفاعت هوگا۔
اسی طرح اس بات پر بھی ایمان ركھنا ضروری ھے كہ خداوندعالم نے جنت وجہنم كو خلق كرركھا ھے اور جنت ساتویں آسمان پر ھے اور اس كی چھت عرش ھے، اور دوزخ زمین كے ساتویں طبقہ میں ھے۔
نیز اسی طرح یہ عقیدہ بھی ضروری ھے كہ حضرت عیسیٰ ں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے، اور دجّال كو قتل كریں گے اور شادی كریں گے، اور قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) كے پیچھے نماز پڑھیں گے، اس كے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے۔
جو شخص كسی بدعت گزار كی تشییع جنازہ میں شركت كرے تو وہ وھاں سے واپس لوٹ آنے تك خدا كا دشمن ھے، وغیرہ وغیرہ ۔ 19

ابن تیمیہ اس كا نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی (متولد661 ھ متوفی728ھ) تھا اور ابن تیمیہ كے نام سے مشهور تھا، وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری كے مشهور ومعروف حنبلی علماء میں سے تھا، لیكن چونكہ اس كے نظریات اور عقائد دوسرے تمام مسلمانوں كے برخلاف تھے جن كووہ ظاھر كرتا رھتا تھا جس كی بناپر دوسرے علماء اس كی سخت مخالفت كرتے رھتے تھے، اسی وجہ سے وہ مدتوں تك زندان میں رھا اور سختیاں برداشت كرتا رھا، چنانچہ اسی شخص كے نظریات اور عقائد بعد میں وھابیوں كی اصل اور بنیاد قرار پائے ھیں۔
ابن تیمیہ كے حالات زندگی دوستوں اور دشمنوں دونوں نے لكھے ھیں اور ھر ایك نے اپنی نظر كے مطابق اس كاتعارف كرایاھے، اسی طرح بعض مشهور علماء نے اس كے عقائد اور نظریات كے بارے میں كتابیں بھی لكھی ھیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ھیں، اس سلسلہ میں جوسب سے قدیم او رپرانی كتاب لكھی گئی ھے اور جس میں ابن تیمیہ كے حالات زندگی كو تفصیل كے ساتھ لكھاھے اور اس كی بھت زیادہ عظمت واھمیت بیان كرنے كی كوشش كی گئی ھیں، وہ ابن كثیر كی كتاب البدایہ والنھایہ ھے ،اسی طرح عمربن الوَردی نے اپنی تاریخی كتاب میں، صلاح الدین صفدی نے اپنی كتاب الوافی بالوفَیات میں، ابن شاكر نے فوات الوفَیات میں اور ذھبی نے اپنی كتاب تذكرة الحفاظ میں ابن تیمیہ كی بھت زیادہ تعریف وتمجید كی ھے۔ 20
لیكن دوسری طرف بھت سے لوگوں نے اس كے عقائد ونظریات كی سخت مذمت اور مخالفت كی ھے، مثلاً ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ ”تحفة النُظّار“ میں، عبد اللہ بن اسعد یافعی نے ”مرآة الجنان“میں، تقی الدین سبكی(آٹھویں صدی ہجری كے علماء میں سے) نے” شفاء السِقام فی زیارة خیر الانام “ اور” درّة المفیدہ فی الردّ علی ابن تیمیہ“میں، ابن حجر مكی نے كتاب ”جوھر المنظم فی زیارة قبر النبی المكرم“ اور ”الدُّرَرُ الكامنہ فی اعیان الماٴة الثامنہ“ میں، عز الدین بن جماعہ اور ابو حیان ظاھری اندلسی، كمال الدین زَملكانی (متوفی 727ھ) 21 نے كتاب ” الدّرَةُ المضیئة فی الرد علی ابن تیمیہ“ حاج خلیفہ كی” كشف الظنون“كی تحریر كے مطابق، ان تمام لوگوں نے ابن تیمیہ كی سخت مخالفت كی ھے اور اس كے عقائد كو ناقابل قبول كھا ھے۔
قاضی اِخنائی 22 ابن تیمیہ كے ھم عصر)نے” المقالة المرضیة“ میں اور دوسرے چند حضرات نے بھی ابن تیمیہ كی شدت كے ساتھ مخالفت كی ھے اور اس كے عقائد كی سخت مذمت كرتے هوئے ان كو مردود اور ناقابل قبول جانا ھے۔ 23
اسی زمانہ میں ابن تیمیہ نے (نبی اكرم (ص)سے) استغاثہ كا انكار كیا،اس پر اس كے ھم عصر عالم علی ابن یعقوب بكری(متوفی724ھ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ كے سلسلہ میں ایك كتاب لكھی جس میں اس بات كو ثابت كیا كہ جن موارد میں خداوندعالم سے استغاثہ كیا جاسكتا ھے ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی استغاثہ كرنا جائز ھے۔ ابن تیمیہ نے اس كتاب كی ردّمیں ایك كتاب لكھی جو اس وقت بھی موجود ھے۔ 24
ابن تیمیہ كے ایك اور ھم عصر بنام شیخ شھاب الدین بن جُھبُل (شافعی) متوفی733ھ نے ایك رسالہ لكھا جس میں خداوندعالم كے لئے جھت وسمت كو مضبوط ومحكم دلیلوں كے ذریعہ مردود اور باطل قرار دیاھے۔ 25
ابن تیمیہ كے طرفدار لوگ كھتے ھیں:چونكہ ابن تیمیہ بھت سے علوم اور قرآن وحدیث میں مھارت ركھتا تھا جس كی بناپر اس وقت كے حكمراں اور بادشاہ نیز دیگر علماء اس كا بھت زیادہ احترام كرتے تھے اور اس كی اھمیت كے قائل تھے، اسی وجہ سے دوسرے علماء كو اس سے حسد هونے لگا جس كی وجہ سے اس كے عقائد كو فاسد اور كفر آور كہنے لگے۔
ابن تیمیہ كے مخالف افراد كھتے ھیں: اس نے مسلمانوں كے اجماع كے خلاف اپنی آواز اٹھائی اوروہ خداوندعالم كے دیدار اور اس كے لئے جھت وسمت كا قائل هوا، نیز اولیاء اللہ كی قبور كی زیارت سے ممانعت كی، وغیرہ وغیرہ۔
متاخرین میں بھی ابن تیمیہ كے طرفدار اور مخالفوں نے ابن تیمیہ كے حالات زندگی میں كتابیں لكھی ھیں فارسی زبان میں اب تك جو كتابیں اس كے بارے میں لكھی گئی ھیں ”كتابنامہٴ دانشوران“ میں ان كتابوں كو شمار كیا گیا ھے۔
عصر حاضر میں عرب كے ایك مشهور موٴلف محمد ابو زَھرہ نے ”ابن تیمیہ حیاتہ وعصرہ وآرائہ وفقہہ“ نامی كتاب لكھی جس میں ابن تیمیہ كے حالات زندگی كو تفصیل كے ساتھ لكھا ھے،اور اس كے احوال زندگی كے تفصیلی اور دقیق گوشوں كے علاوہ اس كے عقائد اور نظریات كا تجزیہ وتحلیل بھی كیا ھے۔
ہندوستانی دانشوروں میں ابو الحسن علی الحسنی ندوی نے بھی اردو زبان میں ”خاصٌ بحیاةِ شیخ الاسلام الحافظ احمد بن تیمیہ“نامی كتاب 1376ھ میں لكھی ھے جس كاسعید الاعظمی ندوی نے عربی میں ترجمہ كیا ھے جو 1395ھ میں كویت سے چھپ چكی ھے، یہ كتاب ابن تیمیہ كے حالات زندگی اور عقائد ونظریات پر مشتمل ھے۔
محمد بہجة البیطار نامی شخص نے بھی حیاة الشیخ الاسلام ابن تیمیہ نامی كتاب لكھی، جو1392ھ میں لبنان سے چھپ چكی ھے۔
ابن تیمیہ كے حالات زندگی كا خلاصہ مختلف كتابوں اور منابع كے پیش نظر اس طرح ھے:
”ابن تیمیہ ربیع الاول661ھ كو حَرّان(عراق كا مُضَرنامی علاقہ) میں پیدا هوا، اس كا باپ حنبلیوں كے بڑے عالموں میں سے تھا جو مغلوں كے ظلم وستم كی وجہ سے شام چلا گیا تھا۔
ابن تیمیہ كے والد بیس سال كی عمر میں اس دنیا سے رخصت هوگئے اور ابن تیمیہ نے اپنے باپ كی جگہ تدریس كے عہدہ سنبھالا، اور691ھ میں حج كے لئے گیا۔
چند سال بعد جس وقت وہ قاھرہ میں قیام پذیر تھااس نے خداوندعالم كے صفات كے بارے میں ایك انوكھا فتویٰ دیا جس كی بناپر اس وقت كے علماء مخالفت كرنے لگے، جس كے نتیجہ میں اس كو تدریس كے عہدہ سے محروم كردیا گیا، اسی طرح اس نے سیدة نفیسہ(حضرت امام حسین ں كی اولاد میں سے مصر میں ایك قبر ھے جس كی مصریوں كے نزدیك بھت زیادہ اھمیت ھے)كے بارے میں كچھ كھا جس كی بناپر عوام الناس بھی اس سے برھم هوگئے۔ 26
اسی زمانہ میں اسے لوگوں كو مغلوں سے جنگ كرنے كے لئے آمادہ كرنے پر مامور كیا گیا، جس كی بناپر وہ شام چلا گیا اور چند جنگوں میں شركت كی۔
299ھ میں اس نے غازان خان مغل كے مقابلہ میں ایك زبردست اقدام كیا اور لوگوں كو مغل سپاھیوں سے (جو شام تك پهونچ چكے تھے) لڑنے كے لئے بھت زیادہ تحریك كیا۔ 27

ابن تیمیہ كی غازان خان سے ملاقات جس وقت غازان خان دمشق كے نزدیك پهونچا تو دمشق كے لوگ كافی حیران وپریشان تھے، یكم ربیع الاول699ھ بروز شنبہ ظھر كے وقت شھر دمشق سے نالہ وفریاد كی آوازیں بلند هونے لگیں۔ عورتیں بے پردہ گھروں سے نكل پڑیں اور مرددكانیں چھوڑچھوڑ كر بھاگ نكلے، ان حالات میں لوگوں نے قاضی القضاة اور شیخ الاسلام تقی الدین سبكی ابن تیمیہ اور شریف زین الدین 28 نیز دیگر بڑے بڑے امراء اور فقھاء كو غازان كے پاس امان كی در خواست كرنے كے لئے بھیجا ۔ جس وقت لوگوں كے یہ تمام نمائندے ”بُنْك“ نامی جگہ پر غازان كے پاس پهونچے دیكھا كہ وہ گھوڑے پر سوار چلا آرھا ھے، یہ تمام لوگ اس كے سامنے زمین پر اتر آئے اور ان میں سے بعض لوگ زمین پر جھك كربوسہ دینے لگے ۔ غازان ركا، اور اس كے بعض ساتھی گھوڑوں سے اترگئے، اھل دمشق كے نمائندوں نے كسی ایك مترجم كے ذریعہ اس سے امان كی درخواست كی، اور اپنے ساتھ لائی هوئی غذا پیش كی، جس پر غازان نے كوئی توجہ نہ كی، لیكن امان كی درخواست كو قبول كرلیا۔ 29
ابن تیمیہ كی مغلوں سے دوسری ملاقات اس وقت هوئی جب مغل بیت المقدس كے قرب وجوار میں تباھی اور غارت گری كے بعد دمشق لوٹے، تو ان كے ھمراہ بھت سے اسیر بھی تھے، اس موقع پر بھی ابن تیمیہ نے ان سے اسیروں كی رھائی كی درخواست كی، چنانچہ ان كو رھا كردیا گیا۔ 30
جس وقت مغل دمشق سے باھر نكل آئے،اور امیر اَرجْوُاس وھاں كا حاكم هوا ،تو اس نے ابن تیمیہ كے كہنے كی وجہ سے مغلوں كے بنائے هوئے شراب خانوں كو بند كرادیا، شراب كو زمین پر بھا دیا، اور شراب كے ظروف توڑڈالے۔ 31

وہ باتیں جن پر اعتراضات هوئے پھلی بارجب لوگوں نے ابن تیمیہ كے پریہ پر اعتراض ماہ ربیع الاول698ھ میں كیا كیونكہ اس نے رسالہٴ حمویہ میں خداوندعالم كی صفات كے بارے میں ایك فتویٰ دیا جس كی وجہ سے اكثر فقھاء اس كے مقابلہ كے لئے كھڑے هوگئے، اس سے بحث وگفتگو كی، اور اس كو اس نظریہ كے اظھار سے روكا۔ 32
اس سلسلہ میں” صَفَدی“ كھتا ھے كہ ربیع الاول698ھ میں شافعی علماء میں سے بعض لوگ ابن تیمیہ سے مقابلہ كے لئے كھڑے هوگئے اور خداوندعالم كے بارے میں اس كی باتوں كو باطل اور مردود قرارد یا، رسالہٴ حمویہ میں اس كے صادر كردہ فتویٰ كو ناقابل قبول گردانا، اور اس سے بحثوگفتگو كے بعد دمشق شھر میں یہ اعلان كرادیا كہ حمویہ كے عقائد باطل اور بے بنیاد ھیں، اور اس سلسلہ میںابن تیمیہ كو بھی اپنے عقائد كے اظھار سے رو ك دیا گیا33 اور مالكی قاضی كے حكم سے اس كو بحث وگفتگو كے جلسہ سے جیل بھجوادیاگیا، اور جب قاضی مالكی كو اس بات كی خبر هوئی كہ جیل میں بھی كچھ لوگ اس سے ملاقات كے لئے آمدورفت كرتے ھیں تو اس پر سختی كرنے كا حكم صادر كردیا، كیونكہ اس كا كفر ظاھر اور آشكار هوتا جارھا تھا۔
عید فطر كی شب میں اس كو جیل كے بُرج سے نكال كر ایك كویں میں منتقل كردیا گیا، اور دمشق میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ جو شخص بھی ابن تیمیہ كے عقائد كا طرفدار هوگا اس كی جان ومال حلال ھے، خصوصاً اگرایساشخص فرقہ حنبلی كا طرفدار هوگا۔ حاكم كے اس حكم كو ابن الشِّھاب محمود نے جامع مسجد میں سب كے سامنے پڑھكر سنایا۔ اس كے بعدتمام حنبلیوں كو ایك جگہ جمع كیا اور انھوں نے سب كے سامنے یہ گواھی دی كہ ھم لوگ شافعی مذھب كے پیروں ھیں،(یعنی ابن تیمیہ كے طرفدار نھیںھیں)۔ 34
ابن تیمیہ اسی كنویں میں قید تھا یھاں تك كہ ”مُہَنّا“ امیر آل فضل نے اس كی سفارش كی اور 23 ربیع الاول كو زندان سے آزاد هوا، اس كے بعد جبل نامی قلعہ میں اس كے اور دیگر فقھاء كے درمیان بحث وگفتگو هوئی اور ایك تحریر لكھی گئی كہ ابن تیمیہ خود كو اشعری مذھب كھلائے، اور خود اس نے ایك تحریر پیش كی جس میں اس طرح لكھا هوا تھا:
میں اس چیز كا اعتقاد ركھتا هوں كہ قرآن كریم ایسے معنی ھے جو خداوندعالم كی ذات پر قائم ھے اور وہ خدا كی صفات میں سے ایك قدیمی صفت ھے، اور قرآن مخلوق نھیں ھے اور حرف اور آواز نھیں ھے، اور اس آیہ شریفہ< اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ۔ >35 كا مطلب ظاھر نھیں ھے اور میں اس حقیقت كو سمجھنے سے قاصر هوں، بلكہ خدا كے علاوہ اس كے معنی كوئی نھیں جانتا، اور میرا وہ فتویٰ جو خدا كے نزول (خدا كا آسمان یا عرش سے نازل هونا) كے بارے میں تھا بالكل وھی ھے جو مذكورہ آیت <اسْتَویٰ>كے بارے میں كھا۔ اس تحریر كے آخر میں مرقوم تھا: كتبہ احمد بن تیمیہ ۔
اس موقع پرجلسہ میں موجود تمام فقھاء نے گواھی دی كہ ابن تیمیہ نے 25ربیع الاول707ھ كو اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے مذكورہ مطالب كے علاوہ اپنے عقائد سے توبہ كرلی ھے ۔ 36
یہ تھی ابن حجر كی گفتگو، لیكن ابن الوَردی كابیان ھے كہ ابن تیمیہ نے مدتوں تك كسی معین مذھب كے مطابق فتویٰ نھیں دیا، بلكہ اس كا فتویٰ وھی هوتا تھا جودلیل سے اس پر ثابت هو جاتا تھا اس نے وھی بات كہہ دی جس كو علمائے قدیم اور جدید سبھی نے اپنے دل میں ركھا لیكن اس كو زبان پرجاری كرنے سے پر ھیز كیا، لیكن حب ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں اپنی زبان كھولی تو اس وقت كے مصر وشام كے علماء نے اس كی مخالفت شروع كردی،اور اس سے مناظرہ اور مقابلہ كرنے كے لئے كھڑے هوگئے، لیكن وہ بغیر كسی خوف وھراس كے ھر وہ چیز جو اس كے اجتھاد كے مطابق هوتی تھی اس كو پیش كردیتا تھا۔ 37
شعبان المعظم726ھ میں ایك بار پھر علماء نے ابن تیمیہ كی مخالفت شروع كردی، كیونكہ ابن تیمیہ نے زیارت كے خلاف فتوی دیا تھا۔ 38
ابن تیمیہ نے یہ فتویٰ دیا كہ پیغمبروں كی قبور كی زیارت كے قصد سے سفر نھیں كرنا چاہئے، چنانچہ مختلف علماء نے اس كا جواب دیتے هوا كھا : چونكہ اس كا مطلب عظمت ِ نبوت كو گرانا ھے، لہٰذا اس طرح كا فتویٰ دینے والا كافر ھے، دوسرے لوگوں نے فتویٰ دیا كہ ابن تیمیہ نے اس فتوے میں غلطی كی ھے لیكن یہ غلطی ان غلطیوں میں سے ھے جو قابل بخشش ھیں، چنانچہ اس امر كی عظمت اور اھمیت زیادہ هوگئی، اور ابن تیمیہ كو الجبل نامی قلعہ میں دوبارہ قید كردیا گیا وھاں وہ بیس ماہ سے زیادہ قید رھا، قید كی مدت میں اس كو لكھنے پڑھنے سے بھی محروم ركھاگیا۔ 39
ابن تیمیہ ،مفسروں كی طرح منبر سے گفتگو كرتا تھااور ایك گھنٹہ میں قرآن وحدیث اور لغت سے وہ مطالب بیان كرتا تھا كہ دوسرے لوگ كئی گھنٹوں میں وہ مطالب بیان كرنے سے عاجز تھے، گویا یہ تمام علوم اس كے سامنے هوتے تھے كہ جھاں سے بھی بیان كرنا چاھے فوراً ان مطالب كو بیان كردیتا تھا، اسی وجہ سے اس كے طرفدار اس كے بارے میں بھت غلو سے كام لیتے تھے، اور خود (ابن تیمیہ) بھی اپنے اوپر رشك كرتا تھا او رخود پسند هوگیا تھا جس كا نتیجہ یہ هوا كہ دیگر تمام علماء سے اپنے قدم آگے بڑھائے اور گمان كرلیا كہ وہ مجتہد هوگیا ھے، چنانچہ قدیم وجدید تمام چھوٹے بڑے علماء پر اعتراضات كیا كرتا تھا، یھاں تك كہ اس نے عمر كو بھی ایك مسئلہ میں خطاكار اور قصوروار ٹھھرایا، اور جب یہ خبر شیخ ابراھیم رَفّی كے پاس پهونچی تووہ بھت ناراض هوئے اور اس كو برابھلا كھا، لیكن جس وقت ابن تیمیہ كو شیخ كے پاس حاضر كیا گیا تو اس نے معافی چاھی اور توبہ واستغفار كی۔
ابن تیمیہ نے 17مقامات پر حضرت علی ں پر بھی اعتراض كیا، وہ چونكہ حنبلی مذھب سے بھت زیادہ لگاوٴ ركھتا تھا لہٰذا اشاعرہ كو برا كھتا تھا یھاں تك كہ غزالی كو گالی بھی دیتا تھا ،
اسی وجہ سے بھت سے لوگوں نے اس كا مقابلہ كیا یھاں تك كہ قریب تھا اس كو قتل كردیں۔ 40
ابن تیمیہ كے سلسلہ میں لوگ متعدد گروهوں میں تقسیم هوگئے تھے، بعض لوگ كھتے تھے كہ وہرسالہ حمویہ اور واسطیہ میں خدا كے بارے میں جسم كا قائل هوا ھے جس میں ابن تیمیہ كا یہ كہنا تھا كہ خداوندعالم كے ھاتھ، پیر اور چھرہ ركھنا اس كی حقیقی صفات میں سے ھے، اور یہ كہ خدا بذات خود عرش پر مستقر ھے۔
دوسرا گروہ ابن تیمیہ كو زندیق (كافر) جانتا تھا كیونكہ ابن تیمیہ كا یہ كہنا تھا كہ پیغمبر اكرمسے استغاثہ نھیں كیا جاسكتا، لہٰذایہ لوگ كھتے تھے كہ ابن تیمیہ نے اس قول سے پیغمبر اكرم (ص)كی توھین كی ھے اور آنحضرت (ص)كی عظمت گھٹائی ھے۔
تیسرا گروہ اس كو منافق كھتا تھا كیونكہ اس نے حضرت علی ں كی شان میں جسارت كی ھے نیز اسی طرح كی دوسری باتیں كھیں، جبكہ پیغمبر اكرم (ص)نے حضرت علی ں كے بارے میں یہ حدیث بیان كی ھے: ”لایبغضك الاالمنافق“ (اے علی (ع)!تم سے كوئی دشمنی نھیں كرے گا مگر یہ كہ وہ منافق هو)، ابن تیمیہ نے عثمان كے بارے میں كھا كہ عثمان دولت پسند تھے، نیز اسی طرح ابوبكر كے بارے میں بھی ایسے ھی كلمات كھے ھیں۔ 41
قارئین كرام! س بات كی طرف اشارہ كرنا ضروری ھے كہ خود ابن حجر نے اس حدیث نبوی كو بیان كیا ھے جس كو صحیح مسلم نے ابومعاویہ سے اس نے اَعمش سے اس نے عدیّ بن ثابت سے اس نے زرّ سے اس نے حضرت علی ں سے روایت كی ھے كہ انھوں نے فرمایا:
”وَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَاَ النَّسْمَةَ اٴنَہُ لَعَہِدَ النَبِیُّ اِلَیَّ اَنْ لاٰ یُحِبُّنِی. اِلاّٰ مُوٴْمِنٌ وَلاٰ یُبْغِضُنی اِلاّٰ مُنَافِقٌ “42
”قسم اس پروردگار كی جس نے دانہ كو شگافتہ كیا اور انسان كو خلق كیا، پیغمبر اكرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے وصیت كی اور كھا كہ تم كو كوئی دوست نھیں ركھے گا مگر یہ كہ مومن هو اور تم كو كوئی دشمن نھیں ركھے گا مگر یہ كہ منافق هو“۔
افعی كھتے ھیں : ابن تیمیہ نے بھت عجیب وغریب مسائل بیان كئے جو اھل سنت كے نظریات كے مخالف تھے اور انھیں كی وجہ سے اس كوقید هوئی، اس كا سب سے عجیب فتوی یہ تھا كہ اس نے پیغمبر اكرم (ص)كی زیارت سے منع كیا، اور اس نے بڑے بڑے صوفیوں كی شان میں جسارت كی مثلاً حجة الاسلام ابو حامد غزالی، ابو القاسم قُشَیری، ابن عَرِیف اور شیخ ابو الحسن شاذلی وغیرہ ۔ 43

ابن تیمیہ كی بحث وگفتگو كا انداز جیسا كہ معلوم ھے كہ ابن تیمیہ بحث وگفتگو میں زبان درازی اور اس ڈالی سے اس ڈالی چھلانگ لگانے كا زیادہ ماھر تھا او رموضوع بحث سے ہٹ كر دوسرے موضوعات میں چلاجاتا تھا جس كی بناپرمد مقابل كو گفتگو كرنے كا موقع كم ملتا تھا اسی وجہ سے اس سے بحث كرنے كے لئے ماھر اور سخنور افراد كا انتخاب كیا جاتا تھا۔
تاج الدین سبكی كااس سلسلہ میں بیان ھے:مسئلہ حمویہ (ابن تیمیہ كا خدا كے بارے میںجھت وسمت كو ثابت كرنے كا فتویٰ) كے سلسلہ میں منعقدہ جلسہ میں كہ جس میں امیر تَنگزُ بھی موجود تھا علماء حاضرین نے امیر سے درخواست كی كہ شیخ صفی الدین ہندی اُرْموی جو تقریر میں مھارت ركھتے ھیں اور تمام مطالب كی طرف توجہ ركھتے ھیں اور كسی بھی مسئلہ كو بیان كرتے وقت اس میں كوئی شك وشبہ كی گنجائش نھیں چھوڑتے ان كو بھی اس جلسہ میں بلایا جائے۔
شیخ صفی الدین جلسہ میں حاضر هوئے اور مناظرہ شروع هوا، ابن تیمیہ اپنی عادت كے مطابق موضوع سے ہٹا تو صفی الدین نے اس سے كھا: اے تیمیہ كے بیٹے میں دیكھ رھا هوں كہ جب میں تم كو پكڑنا چاھتاهوں تو تم ایك چڑیا كی طرح ایك شاخ سے دوسری شاخ پر اڑجاتے هو، آخر كار اس مناظرہ كے نتیجہ میں ابن تیمیہ كو زندان بھیج دیا گیا۔ 44
تاج الدین سبكی نے ابن تیمیہ كے حالات زندگی كو لكھتے هوئے ایسے نظریات بیان كئے ھیں جو لوگوں كے نظریہ كے خلاف تھے45 شام كے حكمرانوں نے اس سے مناظرہ وبحث كرنے كے بعد اس كو ایك شافعی عالم كے ساتھ قاھرہ بھیج دیا، وھاں پر بھی بحث وگفتگو اور مناظرات هوئے، چنانچہ ابن تیمیہ نے مختلف اسلامی مذاھب كے علماء سے تفصیلی گفتگو اور مناظرات كئے، جس كے نتیجہ میں یہ طے پایا كہ ابن تیمیہ كو الجبل نامی قلعہ(شام كے ایك پھاڑی علاقہ) میں ایك كنویں میں قید كردیا جائے، لیكن چھ مھینے بعد اس كو قید سے رھائی ملی، لیكن چونكہ اس كے مقابلہ میں بادشاہ اور حاكم وقت تھے، اور یہ شخص بھی اپنے عقائد كے بیان كرنے سے باز نھیں آتا تھا، لہٰذا دوبارہ قید میں ڈال دیا گیا، لیكن ایك مدت كے بعد پھر آزاد هوا اور درس وتدریس میں مشغول هوگیا، اس كے بعد قاھرہ سے دمشق جاپہنچا لیكن وھاں پهونچنے كے بعد اس پر علماء كی طرف سے كفر كا فتویٰ صادر هوگیا اور پھر زندان بھیجدیا گیا۔
ابن تیمیہ خود اپنی كتاب فتاوی الكبری جلد پنجم كے شروع میں اس طرح لكھتا ھے : ماہ رمضان المبارك726ھ میں قضّات اور حكمرانوں كی طرف سے ایك انجمن كے تحت دوافراد میرے پاس آئے اور مجھ سے كھا كہ آپ بحث كے لئےقضّات كے پاس چلیں۔
ابن تیمیہ ان كے سلوك پر اعتراض اور سخت شكوہ وشكایات كرتا ھے، اور گزشتہ جلسوں كی طرف اشارہ كرنے كے بعد قضات سے مخاطب هوكر كھتا ھے كہ میں نے اپنے عقائد لكھ دئے ھیں آپ حضرات جو بھی جواب دینا چاھیں لكھ دیں، ابن تیمیہ مذكورہ مسئلہ كو نقل كرنے كے بعد اس طرح كھتا ھے كہ قضات نے ایك كاغذ پریہ تحریر كیا: ابن تیمیہ كو چاہئے كہ خداوندعالم سے جھت وسمت كی نسبت سے انكار كرے اور لوگوں میں اس طرح كی باتیں نہ كرے كہ كلام خدا (قرآن مجید) حرف اور آواز ھے جو خداوندعالم كی ذات سے تعلق ركھتاھے، بلكہ یہ حرف اور مخلوق كی آواز ھے، اور اس كو یہ عقیدہ ركھنا چاہئے كہ خدا كی طرف انگلی سے حسّی طور پر اشارہ نھیں كرسكتے، اور صفات خداوندعالم سے متعلق احادیث كو نہ پڑھے، نیز ان احادیث كو دوسرے شھروں میں لكھ كر نہ بھیجے۔
ابن تیمیہ نے مذكورہ باتوں كا تفصیلی تذكرہ كیا ھے اور ھر ایك كا جواب دیا ھے، لیكن گویا ابن تیمیہ كا جواب مخالفوں كو مطمئن نھیں كرسكا كیونكہ انھوں نے اس كا پیچھا نھیں چھوڑا، اور بار بار اس كو قید كی سزا هوتی رھی، آخر كار وہ ماہ شوال728ھ میں زندان میں ھی مرگیا، آخری بار زیارت كو ممنوع قرار دینے كے سلسلہ میں زندان میں گیاتھا۔ 46
شوكانی كا بیان ھے: قاضی مالكی كے فتوے كے مطابق ابن تیمیہ كوزندان میں بھیج دیا گیا،تو اس كے بعد دمشق میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ جو كوئی اس كے عقائد كا طرفدار پایا گیا اس كی جان ومال حلال ھے۔ 47
جیسا كہ ظاھر ھے ابن تیمیہ كے مقابلہ میں اس زمانہ كے اكثر علماء تھے لیكن ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم هوتا ھے كہ اس كے بھت سے طرفدار بھی تھے جو اس كے بھت زیادہ گرویدہ تھے، چنانچہ اس كے جنازہ میں شركت كرنے والوں كی تعداد دولاكھ تك بتائی جاتی ھے، اور یہ كہ بعض لوگوں نے اس كے غسل كے پانی كو بطور تبرك پیا، اور اس سے متعلق چیزوں كو قابل احترام سمجھا۔ 48
لوگ رومالوں اور عماموں كو بطور تبرك اس كے جنازے سے مس كرتے تھے۔ 49
ان تمام باتوں كے مدّ نظر یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ اس كے چاہنے والوں كی ایك بڑی تعداد شام میں باقی رھی، یھاں تك كہ محمد بن عبد الوھاب كے زمانہ تك اس كے ماننے والے شام میں باقی رھے، وھی محمد بن عبد الوھاب جس نے وھابیت كو ایك فرقہ كی شكل بخشی، شیخ محمد عبدہ (عصر حاضر كے مشهور موٴلف) كے احتمال كے مطابق محمد بن عبد الوھاب نے اپنے عقائد میں ابن تیمیہ كی تقلید كی ھے۔
حافظ وَھبہ كے قول كے مطابق جو سعودی عرب كے حكومتی افراد میں سے ھے؛ابن تیمیہ كی كوششیں كامیاب نہ هوسكیں كیونكہ اس وقت كے حكمراں اور بادشاہ اس كے مخالف تھے لیكن وھی ابن تیمیہ كے عقائد اور نظریات تقریباً چارصدی كے بعد محمد بن عبد الوھاب كے ذریعہ اور بادشاہ وقت محمد بن سعود كی پشت پناھی كے سبب بارهویں صدی میں عملی شكل اختیار كرگئے50،(اور ایك نیا فرقہ وجود میں آگیا۔ )

ابن تیمیہ كے فقھی عقائد و نظریات ابن تیمیہ كے حالات زندگی كے آخرمیں اور اس كے عقائد كی گفتگو سے پھلے اس بات كی طرف یاد دھانی ضروری ھے كہ وہ خود او راس كے باپ كا حنبلی علماء میں شمار هوتا تھا لیكن فقھی مسائل میں وہ احمد حنبل یا دوسرے مذاھب كی پیروی كا پابند نہ تھا او رمختلف فقھی مسائل میں انھیں مسائل كو انتخاب كرتاتھا جو خود اس كی نظر میں صحیح هوتے تھے، یھاں تك كہ شیعوں كی شدید مخالفت كے باوجود اس نے بعض مسائل میں شیعوں كی پیروی بھی كی ھے۔ 51
مثلاً طلاق كے مسئلہ 52 میں اس كا فتویٰ یہ تھا كہ اگر كوئی اپنی بیوی كو اس لفظ كے ساتھ طلاق دے ”انتِ طالق ثلاثاً“ (یعنی میں نے تجھے تین طلاقیں دیں) تو یہ تین طلاق واقع نھیں هوتی بلكہ صرف ایك طلاق واقع هوتی ھے۔ 53 (شیعہ مراجع عظام كا فتویٰ بھی یھی ھے)
اسی طرح ابن تیمیہ بعض جگہ شیعوں كی فقھی نظر كو بیان كرتا ھے اور امام محمد باقر ں اور امام جعفر صادق ں نیز دیگر ائمہ علیهم السلامكی روایات كو نقل كرتا ھے۔ 54
اسی طرح فتاوی الكبری (ابن تیمیہ كے فتووں كا مجموعہ) میں بعض مسائل كے بارے میں ایسے فتوے بیان كئے جواھل سنت كے ائمہ اربعہ كے فتووں سے بالكل جدا تھے۔ 55
اس سلسلہ میں ایك بات یہ ھے كہ ابن تیمیہ حنبلی مذھب كو دوسرے مذاھب پر ترجیح دیتا تھا كیونكہ اس مذھب كو قرآن واحادیث سے نزدیك پاتا تھا 56 یہ باتبعد میں بیان كی جائے گی كہ ابن تیمیہ اور اس كی پیروی كرنے والے (وھابی) قرآن وحدیث كے ظاھر سے تمسك كرتے رھے ھیں۔

--------------------------------------------------------------------------------

2. وھابی حضرات اپنے فرقہ كو نیا فرقہ نھیں كھتے بلكہ كھتے ھیں یہ فرقہ ”سَلَف صالح“ كا فرقہ ھے اور اسی وجہ اپنے كو سَلَفیہ كھتے ھیں۔
3. ابن بطّہ كی سوانح حیات كتاب المنتظم، تالیف ابن جوزی جو 387ھ میں وفات پانے والوں كے سلسلہ میںھے اور سمعانی كی انساب میں بطّی اور عكبری (بغداد سے دس فرسنگ كے فاصلہ پر ایك جگہ كا نام ھے) دونوں لفظوں كے تحت بیان هوئی ھے، نیز خطیب بغدادی نے بھی اپنی كتاب تاریخ بغداد ج10 ص 371 میں ابن بطہ كے حالات بیان كئے ھیں اور اس پر كچھ اعتراضات بھی كئے ھیں كہ ابن جوزی نے ان اعتراضات كا جواب بھی دیا ھے۔ (منتظم ج7ص193) ،ابن ماكولا نے بھی لفظ بطہ كے ذیل میں ابن بطہ كے حالات زندگی كو مختصر طور پر لكھا ھے۔ (الاكمال ج1ص330) 4. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص27۔
3. ابن بطّہ كی سوانح حیات كتاب المنتظم، تالیف ابن جوزی جو 387ھ میں وفات پانے والوں كے سلسلہ میںھے اور سمعانی كی انساب میں بطّی اور عكبری (بغداد سے دس فرسنگ كے فاصلہ پر ایك جگہ كا نام ھے) دونوں لفظوں كے تحت بیان هوئی ھے، نیز خطیب بغدادی نے بھی اپنی كتاب تاریخ بغداد ج10 ص 371 میں ابن بطہ كے حالات بیان كئے ھیں اور اس پر كچھ اعتراضات بھی كئے ھیں كہ ابن جوزی نے ان اعتراضات كا جواب بھی دیا ھے۔ (منتظم ج7ص193) ،ابن ماكولا نے بھی لفظ بطہ كے ذیل میں ابن بطہ كے حالات زندگی كو مختصر طور پر لكھا ھے۔ (الاكمال ج1ص330) 4. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص27۔
5. كتاب الرد علی الاخنائی تالیف ابن تیمیہ ص30۔
6. تاریخ نجد ص 111۔ شیخ عبد الوھاب كی مخالفت كے علاوہ اس كا بھائی شیخ سلیمان بھی محمد بن عبد الوھاب كا سخت مخالف تھا، ھم انشاء اللہ اس بارے میں تفصیلات بعد میں بیان كریں گے،اور باپ بیٹے كے درمیان بھت سے مناظرات اور مباحثات بھی هوئے، لہٰذااس فرقہ كی اس كی طرف كیسے نسبت دی جاسكتی ھے جو خود ان نظریات كا سخت مخالف هو۔
7. دائرة المعارف فرید وجدی ج10 ص 871 بہ نقل از مجلہ المقطف ص 893۔
8. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص 10۔
9. یہ لوگ خود كو اس وجہ سے سلفیہ كھتے تھے كہ ان كا ادعایہ تھا كہ وہ لوگ اپنے اعمال واعتقادات میں سلف صالح یعنی اصحاب پیغمبر اور تابعین (وہ لوگ جو خود تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت نہ كرسكے لیكن انھوں نے اصحاب پیغمبر كے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے كلام اور گفتگو كو سنا ھے) كی پیروی كرتے ھیں۔
10. خلاصہ از كتاب ا لمذاھب الاسلامیہ ص 311 ۔
11. نشوار المحاضرہ ج2 ص 134وھی مدرك:بربھاری كے مریدوںنے بغداد میں ایك مسجد بنائی جو فتنہ وفساد كا مركز تھی اسی وجہ سے دوسرے لوگ اس كو مسجد ضَرار كھتے تھا، (اور اس مسجد كو پیغمبر اكرمكے ذریعہ گرائی جانے والی مسجد ضرار كی طرح جانتے تھے) چنانچہ اس وقت كے وزیر علی ابن عیسیٰ سے شكایت كی جس كی بناپر اس نے اس مسجد كے گرانے كا حكم صادر كردیا۔
12. ارشاد یاقوت ج6 ص 436۔
13. البدایہ والنھایہ ج11ص 201۔
14. بربَھاری، بھار كی طرف نسبت ھے، جوحشیش كی طرح ایك قسم كی دوائی ھے ،اور وہ ہندوستان میں پائی جاتی ھے۔ (سمعانی مادہ بربھاری)
15. تجارب الامم ج5 ص 322، خلیفہ كا فرمان اس كتاب میں موجود ھے، خلیفہ كے فرمان سے ظاھر یہ هوتا ھے كہ بربھاری كے مرید زائرین قبور ائمہعلیهم السلامكو بدعت گذار گردانتے تھے، لیكن ایك عام آدمی كی قبر كی زیارت كا حكم دیتے تھے، جس كو رسول اللہسے كوئی نسبت بھی نھیں تھی۔
16. الكامل ج6 ص 248۔ خلیفہ الراضی كے فرمان میں خداوندعالم كے بارے میں بربھاری كے مریدوں كے نظریات كو اجمالی او رمختصر طور پر ذكر كیا گیاھے، لیكن ابن اثیر نے جیسا كہ متن سے معلوم هوا ان كی باتوں كی وضاحت كی ھے، ابو الفداء نے بھی اپنی تاریخ (ج2ص103) میں خلیفہ كے فرمان كے بارے میں اس طرح نقل كیا ھے كہ تم یہ گمان كرتے هو كہ تمھارا بدنما چھرہ خداوندعالم كے چھرہ كی طرح ھے، اور تمھاری شكل وصورت خداوندعالم كی طرح ھے، اور خداوند عالم كے لئے گُندھے هوئے بالوں كا ذكر كرتے هو اور كھتے هو كہ خداوندعالم آسمانوں میں اڑتا ھے ،اوپر جاتا ھے اور كبھی نیچے آتا ھے۔
17. المنتظم ابن الجوزی ج6 ص 32۔
18. الكامل ج6 ص 282۔
19. خلاصہ از شذرات الذھب ابن عماد ج 2 ص 321۔
20. ذھبی نے ایك خط كے ضمن میں(جس كو مرحوم علامہ امینی صاحب نے اپنی كتاب الغدیر ج5 ص 87 میں ذكر كیا ھے، ابن تیمیہ كے عقائد كے سلسلہ میںجو مسلمانوں میں شدید اختلاف كا سبب هوئے) اس كو نصیحت كی ھے۔ اور جیسا كہ ذھبی كی تحریر سے معلوم هوتا ھے كہ ذھبی ابن تیمیہ كے عقائد اور نظریات سے زیادہ متفق نھیں تھا، چنانچہ اس نے اپنی كتاب العِبَرمیں ابن تیمیہ كے عقائد وغیرہ كا ذكر كرتے هوئے (جو علماء كرام كی مخالفت كا سبب بنے) ابن تیمیہ كی باتوں كو فتنہ وفساد سے تعبیر كیا ھے۔ ص 30۔
21. سبكی كی تحریر اس طرح ھے: زملكانی نے ابن تیمیہ كی ردّ میں دومسئلوں(طلاق اور زیارت)كے بارے میں ایك كتاب لكھی ھے، (طبقات الشافعیہ ج9 ص 191۔ )
22. اِخْناء ْ، مصر كا ایك قدیمی شھر ھے۔
23. رسالة العقیدة الواسطیہ، ابن تیمیہ پراس كے چند ھم عصر علماء نے اعتراضات كئے ھیں، خود اس نے رسالہٴ المناظرہ فی العقیدة الواسطیہ میں اس كے مفصل جوابات تحریر كئے ھیں۔ (مجموعة الرسائل جلد اول ص 415 سے)
24. فتح المجید ص 230۔
25. مذكورہ رسالہ كی عبارت كو سبكی نے طبقات الشافعیہ ج 9 ص 35 میں نقل كیا ھے۔
26. صَفَدی ج7 ص 19۔
27. ابن شاكر جلد اول ص 72۔
28. زین الدین سے مراد، شریف زین الدین قمی ھے ،جس كوغازان خان نے دوسرے تین لوگوں كے ساتھ دمشق كے لئے روانہ كیا تھا۔ (السلوك جلد اول ازق 3 ص 890)
29. مقریزی در السلوك جلد اول از قسم 3 ص 889
30. مقریزی در السلوك جلد اول از قسم 3 ص 896۔
31. مقریزی در السلوك جلد اول از قسم 3 ص 900۔
32. الدرر الكامنہ جلد اول ص 155۔
33. الوافی بالوفیات ج7 ص 22،رسالہٴ حمویہ كی بحث عقائد ابن تیمیہ كے ضمن میںآئے گی۔
34. ابن حجر جلد اول ص 157، ذھبی705ھ كے تاریخی واقعات كے بارے میں رقمطراز ھے كہ اسی سال ابن تیمیہ كا فتنہ رونما هوا، اور یہ سب كچھ اس كے عقیدہ واسطیہ كی وجہ سے هوا، جس كی وجہ سے بعض لوگ اس كے طرفدار اور بعض لوگ اس كی مخالفت میں كھڑے هوگئے، تین جلسوں میں عقیدہٴ واسطیہ كو پڑھا گیا، آخر كار اس كو مصر بھیج دیا گیا، اور وھاں قاضی مالكی كے حكم سے وہ اس كے بھائی كو زندان میں ڈال دیا گیا، اس كے بعد ابن تیمیہ كو اسكندریہ میں شھر بدر كردیا گیا، ابن تیمیہ پر مصر میں یہ اعتراضات اٹھائے گئے كہ وہ كھتا ھے كہ خداوندعالم بطور حقیقی عرش پر مستقر ھے اور گفتگو كرتا ھے، اس كے بعد دمشق اور اس كے قرب وجوار میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ جو كوئی بھی ابن تیمیہ كے عقیدہ كا طرفدار هوگا اس كی جان ومال حلال ھے، (ذیل العبر ص 30، 31)
35. سورہ طٰہٰ آیت 5۔
36. ابن حجر جلد اول ص 158۔
37. تاریخ ابن الوردی ج2 ص 410۔
38. ابن حجر جلد اول ص 159، ابن الوردی كھتا ھے كہ جب لوگوں نے اس كی یہ تحریر دیكھی، جس میں لكھا هوا تھا پیغمبر انبیاء اور صالحین كی قبور كی زیارت ممنوع ھے، توسلطان كے حكم سے اس كو زندان بھیج دیا گیا اور اس كو فتویٰ دینے سے بھی روكا گیا،ابن قیّم جوزی بھی زندان میں اس كے ساتھ تھا۔ (تاریخ ابن الوردی ج2 ص 399)
39. ابن الوردی، ج2 ص 412،413،ابن تغری بردی كھتا ھے كہ ابن تیمیہ كو زندان میں لكھنے پڑھنے سے محروم كردیا گیا یھاں تك كہ اس كے پاس كوئی قلم وكاغذ اور كتاب تك نہ چھوڑی (ج9 ص272)
40. ابن حجرجلد اول ص 164، ابن تیمیہ ،محي الدین عربی اور ابن فارض پر بھی اعتراض كیا تھا اور صوفیوں كی سخت مخالفت كرتا تھا نیز علمائے اھل كلام اور اھل فلسفہ یونان بالخصوص مرحوم ابن سینا اور ابن سبعین سے ٹكرایاھے۔
41. ابن حجر جلد اول صفحہٴ 165،166 كا خلاصہ ۔
42. صحیح مسلم، جلد اول ص 61۔
43. مرآت الجنان ج4 ص 278۔
44. طبقات الشافعیہ، ج9ص 163، یہ تھا صفی الدین اور ابن تیمیہ كا مناظرہ، لیكن ابن تیمیہ كے طرفدار مثلاً ابن كثیر وغیرہ نے اس مناظرہ كے بارے میں كھاھے : صفی الدین مناظرہ میں ابن تیمیہ كا مقابلہ نہ كرسكا، كیونكہ اس كی معلومات اتنی زیادہ نھیں تھی كہ ابن تیمیہ كا مقابلہ كرسكے۔
45. ابن تیمیہ، صفدی اور ابن تغری بَردی (جو ابن تیمیہ كے طرفداروں میں سے ھیں) ؛ كی تحریر كے مطابق اپنے مخالفوں كو نازیبا الفاظ سے نوازتا تھا، (الوافی ج7 ص 19، النجوم الزاھرہ ج9 ص 367، اسی طرح منھاج السنہ میں علامہ حلّیكے لئے توھین آمیز كلمات كھے، جلد اول ص 13)
46. فوات الوفیات جلد اول ص 77، اور الوافی بالوفیات ج7 ص 18۔
47. البدر الطالع، جلد اول ص 67۔
48. ابن كثیر ج 14 ص 136۔
49. ابن الوردی ج2 ص 406، یھی موٴلف لكھتا ھے كہ ابن تیمیہ كے جنازے میں شركت كرنے والے دولاكھ مرد اور 15ہزار عورتیں تھیں۔
50. جزیزة العرب فی القرن العشرین ص 335۔
51. ابن تیمیہ شیعوں سے اپنی تمام تر مخالفتوں كے باوجود اپنی كتاب منھاج السنہ جو كہ شیعہ عقائد كی ردّ میں لكھیھے بعض اوقات اپنی اسی كتاب میں شیعہ اثنا عشری كا دفاع بھی كیا ھے، ان مقامات میں(جلد اول منھاج السنہ ص 25)پر شیعوں اپنی تمام شدید تھمتوں اور توھینوں كے بعد كھتا ھے : ممكن ھے یہ چیزیں شیعہ اثناعشری میں موجود نہ هوں اور اسی طرح فرقہ زیدیہ میں بھی نہ هوں، او ران (تھمتوں) میں سے اكثر غلات اور عوام الناس میں پائی جائیں۔
52. ابو زھرہ كابیان ھے: ھمارے بھائی ملك ایران كے لوگ شیعہ اثنا عشری ھیں، جن كی فقہ قائمبالذات،اصیل وریشہ دار ھے اور فروع كے علاوہ اصول كے بھی قائل ھیں او رھمارے مصر كے جدید قوانینمیں شیعہ اثنا عشری فقہ سے اقتباس كیا گیا ھے منجملہ ان میں سے وارث كے لئے وصیت كے جائز هونے كا مسئلہ ھے، (كتاب شرح حال ابن تیمیہ ص 170)
53. ابن عماد ج2 ص 85 ،اور ابن شاكر جلد اول ص 74، ابن شاكر كے بقول ابن تیمیہ كا مسئلہ طلاق كے بارے میں بھی ایك رسالہ تھا۔
54. فتاوی الكبری ج3 ص 20 وغیرہ۔
55. فتاوی الكبری ج 3 ص 95، شیخ محمد بہجة البیطار كے قول كے مطابق ابن تیمیہ كے تقریباً100 كے نزدیك مخصوص فتوے تھے جو دوسروں سے بالكل مختلف تھے۔ (حیاة شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص 46)