خاتمہ
 

وھابیت نجد وحجاز كے باھر
وھابیت كے آغاز سے وھابیوں كی یھی كوشش رھی ھے كہ اس مذھب كوپوری دنیا میں پھیلا دیا جائے، اور اسی مقصد كے تحت نجد وحجاز پر غلبہ پانے كے لئے قرب وجوار كے علاقوں پر بھی دست درازی كی، لیكن یہ لوگ اپنی تمام تر كوششوں كے بعد بھی كوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ كرسكے،اور لوگوں نے ان كی دعوت كو قبول نھیں كیا۔
لیكن حجاز پر غلبہ پانے كے بعد چاھے پھلی مرتبہ میں هو كہ محمد علی پاشا كے حملے كے ذریعہ وھابیوں كے قبضہ سے نكالا گیا، یا دوسری مرتبہ هو جو جاری رھا، جیسا كہ ھم نے اس كی تفصیل بھی بیان كی، اس بھترین موقع سے انھوں نے فائدہ اٹھایا وہ اس طرح كہ جو لوگ مختلف مقامات سے حج كے زمانہ میں حج وزیارات كے لئے مكہ ومدینہ جاتے تھے اور ان میں اس دعوت كو قبول كرنے كی ذہنیت بھی پائی جاتی تھی ان پر وھابیوں نے كام كرنا شروع كردیا، اور ان كو اپنے عقائد او رنظریات كی تعلیم دینا شروع كی، تاكہ ان كے ذریعہ یہ مذھب دنیا كے تمام گوشوں میں پھیل جائے، اور جیسا كہ آپ حضرات جانتے ھیں كہ دنیا كے مختلف گوشہ وكنار میں ایسے افراد كے ذریعہ ھی یہ مذھب پھیلا ھے جو حج كے لئے مكہ ومدینہ جاتے تھے اور وھابیوں كے تحت تاثیر واقع هوجاتے تھے۔
قارئین كرام! ھم یھاں دنیا كے مختلف ممالك میں وھابیت پھیلنے كی كیفیت اور طور طریقہ كو بیان كرتے ھیں، توجہ رھے كہ وھابیت كے پھیلانے كی جس قدر كوششیں كی گئیں ھیں اتنی زیادہ وھابیت نھیں پھیلی ھے جو خود وھابیوں كے تصور كے خلاف ھے كیونكہ یہ لوگ تو پوری دنیا میں وھابیت كو پورے آن بان سے پھیلانا چاھتے تھے اور اس كی وجہ بھی ھم پھلے بیان كرچكے ھیں۔

وھابیت ہندوستان میں
سر زمین ہندوستان قدیم زمانہ سے مختلف ادیان اور مذاھب كا مركز رھا ھے، ہندوستان میں ھر نئے نظریہ كو قبول كرلیا جاتا تھا بشرطیكہ وہ نظریہ جواب دہندہ بھی هو یعنی لوگوں كی نظر میں كامل هو ناقص نہ هو، اسی وجہ سے ہندوستان میں بھی وھابیت كا نفوذ هونے لگا اور لوگوں میں بھت سی بحث وگفتگو هوئی۔
چنانچہ مولوی اصغر علی ہندی فیضی صاحب، شیخ حسین حلمی استامبولی كو ایك خط لكھتے ھیں، (اس كی فوٹو كاپی كتاب الصواعق الالہٰیہ موٴلف شیخ سلیمان نجدی (برادر محمد بن عبد الوھاب) اور كتاب فتنة الوھابیة سید احمد زینی دحلان میں چھپ چكی ھے۔
اس خط میں تحریر تھا كہ ”چند ریك“ نامی یومیہ اخبار كی ایك كاپی آپ كو بھیجی جارھی ھے، جس میں ایك مناظرہ كا خلاصہ موجود ھے جو 14 76 سے 12 4 76تك شھر ”كالی كاٹ“ میں اھل سنت اور مجاہدین (وھابیوں) كے درمیان هوا، اس كے بعد اس خط میں تحریر ھے كہ ھمارے ملك میں كچھ بدعت گذار پیدا هوگئے ھیں مثلاً وھابی ،(جن كا نام مجاہدین ھے) اور ”مردودی“ جن كا نیا نام جماعت اسلامی ھے، اور قادیانی اور اھل قرآن جن كا عقیدہ فقط حفظ قرآن ھے اور احادیث رسول كو نھیں مانتے، اس كے بعد اس خط میں تحریر ھے كہ وھابیوں نے ھمارے ملك میں مدرسے كھولے ھیں مثلاً ”اریكوٹ“ میں مدرسہ ”سُلَّمُ السَّلاٰم“ اور شھر ”بولكل“ میں مدرسہ ”مدینة العلم“اور شھر ”ولانور“ میں مدرسہ” انصاریہ“ ۔
قارئین كرام !اس خط كے ذریعہ یہ بات واضح اور روشن هوجاتی ھے كہ ہندوستان كے دوسرے اسلامی فرقے شدت كے ساتھ وھابیت سے بر سرِ پیكار تھے، ھم نے پھلے بھی وھابیت كی ردّ میں ہندوستانی علماء كی طرف سے لكھی جانی والی كتابوں كی طرف اشارہ كیا اس وقت ہندوستان میں وھابیت كی ترویج كرنے والے دو علماء كے بارے میں مختصر طور پر بیان كرتے ھیں:

سید احمد هندی
سید احمد بن محمد عرفان (حضرت امام حسن مجتبیٰ ں كی نسل سے) محرم1201ھ كے شروع میں شھر بریلی میں پیدا هوئے، موصوف نے اپنی تعلیم لكھنوٴ شھر میں شروع كی اور پھر اعلیٰ تعلیم كے لئے دھلی پهونچے اور وھاں1222ھ تك شاہ عبد العزیز صوفی، شاہ ولی اللہ كے بڑے فرزند كے سامنے زانوئے ادب تہ كئے، كھا یہ جاتا ھے كہ سید احمد نے اپنے نظریات كو شاہ عبد العزیز سے حاصل كئے ھیں جن كی وجہ سے بعد میں بھت شھرت هوئی۔
چند سال تعلیم حاصل كرنے كے بعد سید احمد نے لوگوں كو وعظ ونصیحت كی خاطر چند دینی سفر كئے (جس میں اپنے نظریات اور افكار كی تبلیغ كی) سید احمد كے بعض نظریات عربی وھابیوں كے نظریات سے ملتے تھے كیونكہ یہ بھی انبیاء او رمرسلین كی یاد میں جلسہ ومجالس كو عبادتِ خداوندی كے خلاف مانتے تھے۔
سید احمد كے ساتھ سفر میں ان كے شاگردوں میں سب سے قریب دو افراد مانے جاتے تھے ان میں سے ایك ان كے بھتیجے مولوی محمد اسماعیل صاحب جنھوںنے كتاب ”صراط المستقیم“ (اردو) لكھی، چنانچہ یہ كتاب سید احمد كے پیروكاروں كے نزدیك بھت اھم كتاب ھے، ان میں سے دوسرے جناب مولوی عبد الحی ھیں جو عبد العزیز كے داماد تھے۔
سید احمد كی تبلیغ كا اثر تمام جگهوں پر هونے لگا، اور ہزاروں مسلمان ان كی باتوں كے عاشق هوگئے، اور خلیفہ حق اور مہدی منتظر كے عنوان سے ان كی بیعت هونے لگی، مولوی عبد الاحد جنھوںنےسید احمد كی سیرت كے بارے میں ایك كتاب لكھی ھے، اس طرح كھتے ھیں : سید احمد كی تبلیغ كا یہ اثر تھا كہ تقریباً چالیس ہزار ہندو مسلمان هوگئے ۔
سید احمد1232ھ میں حج كے لئے اپنے وطن سے نكلے اور راستہ میں چند مھینہ كلكتہ میں قیام كیا ان كا یہ سفر دو سال تك جاری رھا، واپسی پر انھوں نے یہ منصوبہ بنا لیا كہ پنجاب میں سكھوں او رہندووں كی حكومت كے خلاف اعلان جھاد كریں ،اور جس وقت كابل اور قندھار كے مسلمانوں نے ان كی مدد كا وعدہ كیا اور وہ مطمئن هوگئے، تو انھوں نے1241ھ میں اپنے حملے كا آغاز كردیا، ان كے ساتھیوں كی تعداد دس یا گیارہ ہزار تھی جو ان كے ساتھ بھادرانہ طور پر جنگ كرتے تھے۔
سید احمد نے پشاور كے حدود پر بھی حملہ كیا، اور یہ حملے كئی سال تك جاری رھے، آخر كار1246ھ میں بالكوٹ كے علاقہ میں ایك سخت جنگ هوئی اور سید احمد قتل كردئے گئے، اور ان كے اكثر سپاھی بھاگ نكلے۔ 752
اس سلسلہ میں احمد امین صاحب كھتے ھیں كہ جب سید احمد حج كرنے كے لئے گئے تو وھاں پر انھوں نے محمد بن عبد الوھاب كے مذھب كو اختیار كرلیا، اور جب ہندوستان واپس لوٹے تو وھاں انھوں نے وھابیت كی تبلیغ شروع كردی، قبور كی زیارت، كسی كو شفیع قرار دینا وغیرہ كو حرام قرار دیا اور یہ اعلان كیا كہ ہندوستان دار الحرب ھے نہ كہ دار الاسلام، اور یھاں مسلمانوں پر جھاد واجب ھے۔
چنانچہ موصوف اور ان كے پیرو كار انگلینڈ كی حكومت (چونكہ اس وقت ہندوستان انگریزوں كے قبضہ میں تھا) سے مقابلہ كر بیٹھے، طرفین میں مزید دشمنی بڑھتی گئی، اور بھت سے مسلمان مارے گئے جس كا كوئی خاص نتیجہ بھی نہ نكلا۔ 753
سید احمد كے بعد ان كے شاگرد كرامت علی ان كے جانشین هوئے، اور كرامت علی صاحب نے نماز جمعہ كے واجب هونے كا فتویٰ دیا، لیكن دیار مسلمین كو دار الحرب كا نام نھیں دیا۔ 754
قارئین كرام!توجہ رھے كہ یہ سید احمد، مشهور ومعروف سر سید احمد خان كے علاوہ ھیں، یہ دونوں ھم عصر تھے اور دونوں ہندوستان كی آزادی كے لئے انگریزوں سے مقابلہ كررھے تھے، لیكن سر سید احمد خان كا نظریہ تھاكہ جنگ اور خونریزی كا كوئی خاص فائدہ نھیں ھے، بلكہ وھی حربہ استعمال كیا جائے جو انگریزوں نے اپنا كر ہندوستان اور دوسرے علاقوں پر قبضہ كیا ھے، یعنی علم وصنعت اور ثقافتی ترقی كی جائے اور مدارس كھولے جائیں تاكہ تمام لوگ پڑھ لكھ كر ان كا مقابلہ كرسكےں، یھی سر سید احمد خان تھے جنھوںنے ہندوستان كی مشهور ومعروف” علی گڈھ مسلم یونیورسٹی “ كی بنیاد ڈالی ۔

مولوی اسماعیل دھلوی
خواجہ محمد حسن ہندی موٴلف كتاب الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة (یہ كتاب فارسی میں ھے) كھتے ھیں كہ ہندوستان میں اس فرقہ (وھابیت) كا سب سے پھلا استاد مولوی اسماعیل دھلوی تھے جو تقریباً 1250ھ میں رونما هوئے، اور انھوں نے محمد بن عبد الوھاب كی كتاب توحید كو فارسی میں ترجمہ كیا جو ”تقویة الایمان“كے نام سے ہندوستان میں چھپ چكی ھے، اور اس كے بعد مسلمانوں كو بھڑكانے كے لئے كتاب صراط المستقیم اور دوسرے رسالے لكھے، ان كے شاگردوں كی فھرست میں عبد اللہ غزنوی، نذیر حسین دھلوی، صدیق حسن خان بھوپالی، رشید احمد گنگوھی اور مدرسہ دیوبند كے كچھ طلباء بھی ھیں جنھوںنے بھت سے مسلمانوں كو اس جال میں پھنسانے كے لئے بھت سی كتابیں اور رسالے لكھے۔
اس فرقہ نے دو طریقے اپنائے كچھ نے خود كو اھل سنت كھا اور كسی كی تقلید كرنے سے انكار كیا اور گذشتہ علماء، صالحین اور اولیاء كو مشرك اور بدعت گذار كھا۔
اوركچھ نے نفاق كے راستہ كو اپنایا اور اپنے كو پردہ حنفیت (ابو حنیفہ كے تابع) میں اپنے كو چھپا لیا، جو ظاھراً حنفی مذھب ھیں لیكن اعتقاد كے لحاظ سے پھلے والے فرقہ كے ھم آہنگ ھیں، كیونكہ اگر وہ بھی وھابیت كو قبول كرلیتے تو لوگوں كی نفرت كا شكار هوجاتے، گویا انھوں نے اس مكر وحیلہ سے اپنے مقصود كو حاصل كرنے كے لئے یہ راستہ اختیار كیا، اور واقعاً یہ اپنے مقصد میں كامیاب بھی هوگئے، لیكن اس فرقہ كا ضرر رساں هونا مسلمانوں كے عقائد كو خراب كرنے اور مسلمانوں كو اسیر كرنے میں پھلے فرقے سے كھیں زیادہ رھا، اس بناپر ھماری اس كتاب كے مخاطب بھی اسی فرقہ سے تعلق ركھتے ھیں۔ 755

نذیر حسین
نذیر حسین صاحب اسماعیل دھلوی كے شاگرد تھے كہ جنھوں نے بھی دھلی میں وھابیت كی علمبرداری كی، اور وھابیت كے عقائد كے سلسلہ میں فتوے دئے، محمد عبد الرحمن حنفی نے ”سیف الابرار“ نامی كتاب انھیں كے عقائد كی ردّ میں لكھی، جس كے بارے میں ھم پھلے بھی بیان كر چكے ھیں، یہ كتاب نذیر حسین كے تقلید نہ كرنے كے فتوے كی ردّ میں لگھی گئی ھے۔

سید محمد سنوسی (شمالی آفریقہ میں)
سید محمد تقریباً 1800ء شھر” مستغانم“ (الجزائر) میں پیدا هوئے، موصوف پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ایك اصیل خاندان سے تعلق ركھتے تھے۔
موصوف كو بچپن ھی سے تعلیم كا بھت شوق تھا اور بڑے متقی اور پرھیزگار تھے، انھوں نے دینی علوم ” فاسی یونیورسٹی“756 میں حاصل كئے،اور اس كے بعد شمالی افریقہ واپس گئے اور بھت سے شھروں كا سفر كیا، اور وہ دینی امور كی اصلاح كے لئے تبلیغ كیاكرتے تھے، اس كے بعد حج كرنے كے لئے مكہ معظمہ گئے، اور اس سفر میں كافی عرصہ تك مكہ معظمہ میں رھے، اور وھابی اساتیذ سے اس مذھب كی تعلیمات حاصل كی اور 1843ء میں شمالی افریقہ واپس چلے گئے، اور ”طرابلس“ (لیبی) میں سكونت اختیار كی، اور وھاں وھابیت كی تبلیغ میں مشغول هوگئے چنانچہ وھاں كے لوگ بھی دستہ دستہ ان كے پاس آتے تھے، اس وقت طرابلس عثمانیوں كے ماتحت تھا اسی لئے عثمانی حكام، سید محمد كے نفوذ سے خوف ز دہ تھے، رفتہ رفتہ ان دونوں كے درمیان تعلقات خراب هونے لگے، جس كی بنا پر سید محمد لیبی كے جنوبی صحرائی علاقہ ”واحہٴ جغبوب“ پهونچ گئے۔
اور آخر كار موصوف 1859ء میں اس دنیا سے چل بسے،جبكہ ان كا یہ مذھب شمالی افریقہ كے بعض اھم علاقوںمیں پھیل چكا تھا، اس كے بعد ان كا بیٹا سید مہدی اپنے باپ كا جانشین هوا اور باپ كی سیرت پر چلتے هوئے وھابیت كی تبلیغ میں مشغول هوگیا۔ 757
یہ تھا امریكن رائٹر ”لوتروپ ستوادارد“ كی تحریر كا خلاصہ، اس كے بعد شكیب ارسلان صاحب اس كتاب كے حاشیہ میں كھتے ھیں كہ ”سنوسیوں“ كی یورپیوں سے دشمنی ”اویش“758 كے دوسرے فرقوں سے زیادہ سخت ھے، ان كا نعرہ كفار سے جھاد اور ان كے مقابلہ میں مسلمانوں كو جمع كرنا ھے، سیدی 759 محمد علی جو طریقہ سنوسی كے مذھبی رھبر ھیں اپنے فقھی نظریات میں مستقل ھیں اور كسی بھی مذاھب اربعہ كے مقید نھیں ھیں، (لیكن حاشیہ میں یہ وضاحت كی گئی كہ موٴلف (یعنی شكیب ارسلان) نے سیدی احمد شریف (سیدی محمدبن علی كے پوتے اور خلیفہ)سے اس مسئلہ كی واقعیت كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے انكار كرتے هوئے كھا كہ ھمارے دادا سلف صالح (جس طرح سے وھابی لوگ كھتے ھیں) كے تابع تھے بھر حال سید محمد 1839ء میں جب جامع الازھر گئے تو وھاں كے ایك استاد نے ان كو استقلال فكر سے روكا، اور فتویٰ دیا كہ یہ بات شریعت كے خلاف ھے، اسی طرح یہ شبہ بھی پیدا هوگیا تھا كہ وہ مكہ میں وھابیوں كی صحبت میں رہ كر ان كے اصول كی طرف مائل هوگئے تھے، (اگرچہ حاشیہ میں كھا گیا ھے كہ سنوسی اس بات كو نھیں مانتے)۔
سید محمد نے پھلے سید احمد بن ادریس فاسی (شیخ قادریہ) سے اتفاق كیا لیكن ان كے انتقال كے بعد اپنا ایك نیا مذھب بنالیا، اور 1855ء میں اپنے مركز كو ”جغبوب“ میں قرار دیا، آہستہ آہستہ یہ شھر مبشرین اسلام كا سب بڑا مدرسہ بن گیا، اور سنوسیوں كی تعداد (ساٹھ ستر سال پھلے) تقریباً چالیس لاكھ بتائی جاتی تھی، افریقی قبیلوں میں سنوسیوں كے اسلام پھیلانے كا طریقہ یہ هوتا تھا كہ چھوٹے سیاہ فام غلاموں كو خریدكر اپنے مدرسہ میں لے جاتے تھے اور وھاں پر ان كی تعلیم وتربیت هوتی تھی، اور جب وہ كافی بڑے هوجاتے تھے اور تعلیم و تربیت حاصل كرلیا كرتے تھے تو ان كو آزاد كردیا كرتے تھے تاكہ اپنے قبیلوں میں جاكر لوگوں كی ہدایت كریں، چنانچہ اس مدرسہ سے ھر سال سیكڑوں كی تعداد میں مبلغ نكلتے تھے اور پورے افریقہ میں سومالی سواحل سے لے كر سنگالی سواحل تك یعنی شمال سے غرب افریقہ تك یہ لوگ پھیل جایا كرتے تھے، اور وھاں پر تبلیغی مشن كو آگے بڑھاتے تھے۔
سید محمد اور اس كے جانشین افراد كا اصلی ہدف اور مقصد یہ تھا كہ اگر ھم نے افریقہ میں اسلام پھیلادیا تو پھر انگریزوں كے نفوذ كو ختم كرسكتے ھیں۔ 760
قارئین كرام!یھاں پر سوال یہ پیدا هوتا ھے كہ سید محمد سنوسی صاحب وھابی مذھب پھیلارھے تھے یا ایك مستقل مذھب كی تبلیغ كیا كرتے تھے، شواہد اور بھت سے قرائن موجود ھیں كہ وہ اپنے مخصوص مذھب كی تبلیغ كیا كرتے تھے، وھابی مذھب كی تبلیغ نھیں كیا كرتے تھے۔

وھابیت سوڈان میں
سب سے پھلے جو شخص وھابیت كے تحث تاثیر واقع هوا، اور نجد وحجاز سے باھر اس كی تبلیغ میں قدم اٹھایا ھے وہ ”شیخ عثمان دان فودیو“ مغربی سوڈان كے ”فولا“ (یا فلالی) قبیلہ سے ھیں، چونكہ جب وہ حج كے لئے مكہ معظمہ پهونچے تو وھابیوں كے مذھب سے متاثر هوئے اور پھر ان سے تعلیم حاصل كركے اپنے وطن واپس لوٹے اور وھابیت كی تبلیغ شروع كردی، چنانچہ سوڈان میں موجود رسم ورواج جو ان كی نظر میں بدعت دكھادئے ان سب سے مقابلہ كرنا شروع كردیا۔
شیخ عثمان نے اپنے دینی تعلقات كو بروئے كار لاتے هوئے اپنے قبیلے كے متفرق افراد كو ایك فلیٹ فارم پر جمع كرلیا اور ان كی مدد سے وھاں كے بت پرست قبیلوں سے جنگ كرنا شروع كردی، 1804ء سے ان كے درمیان جنگوں كاسلسلہ شروع هوگیااور 1806ء سے پھلے پھلے انھوں نے سوڈان میں ”سوكوتورا“ نامی علاقہ پر اپنی مستقل حكومت تشكیل دی جو وھابی بنیادوں پر قائم تھی اور اس حكومت كا دائرہ ”تمبكتو“ اور دریائے ”چاد“ تك پھیلا هوا تھا، یہ حكومت ایك صدی تك قائم رھی، لیكن اس كے بعد انگریزوں نے اس پر حملے كركے اپنے قبضے میں لے لیا۔ 761
شیخ عثمان كا ایك نظریہ یہ بھی تھا كہ میت پر دردو اور سلام بھیجنا یا ان اولیاء كی یادگار منانا جو اس دنیا سے گذر چكے ھیں جائز نھیں ھے، اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی اپنی زبان سے كی هوئی تمجید وتعریف كے منكر تھے۔ 762

وھابیت، سوماترا میں
سوماترا سے 1803ء میں تین افراد حج كے لئے گئے اور مدینہ میں قیام كیا اور وھابیوں كے بھت زیادہ تحت تاثیر واقع هوگئے،اور جب اپنے وطن واپس هوئے تو وھاں وھابیت كی تبلیغ كرنے لگے،اوران كے نظریہ ٴ توحید كوپھیلانا شروع كیا،اور اس سلسلہ میں بھت زیادہ شدت عمل سے كام لیا۔
ان لوگوں نے اولیاء اللہ سے توسل كو حرام قرار دیدیا، نیز شراب خوری، قمار بازی اورقرآن مجید كے دیگر مخالف كاموں سے روكا۔ 763
اس زمانہ میں مذھب وھابیت كے ماننے والوں اور غیر مسلموں میں كافی جنگ وجدال هوئی،1821ء میںھالینڈ نے (جو انگریزوں كے قبضہ میں تھا) وھاں كے وھابی مسلمانوں سے جنگ كرنا شروع كردی، چنانچہ یہ سلسلہ تقریباً سولہ سال تك جاری رھا، آخر كار ھالینڈ وھابیوں پر غالب آگیا۔ 764

وھابیت ،مصر میں
مصر كے شیخ محمد عبدہ وھابیوں كی دو چیزوں پر عقیدہ ركھتے تھے :
ایك بدعتوں سے مقابلہ كرنا دوسرے جھاد كا دروازہ كھلا رہنے كا عقیدہ ركھنا، وہ رواق عباسی جامع الازھر 765 میں تفسیر كا درس كھتے تھے، اس موقع سے انھوں نے فائدہ اٹھایا اور پرستش صالحین (یعنی اولیاء اللہ كی یاد گار منانے)، زیارت قبور، شفاعت او رتوسل وغیرہ كے بارے میں كافی كچھ كھا،اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی یوم ولادت كے موقع پر جشن منانے كو ممنوع قرار دیا، اور كھا كہ اس جشن كے خرچ كو فقراء كی تعلیم پر خرچ كیا جائے۔
موصوف نے سورہ ”عمّ یتسائلون“ كی تفسیر میں ان تمام ممنوعہ چیزوں كو بیان كیا ھے۔
شیخ محمد عبدہ اور وھابیوں كے دوسرے طرفداروں میں ایك اھم فرق یہ تھا كہ موصوف دین اور دنیا كے بارے میں بھت زیادہ معلومات ركھتے تھے،دنیا بھر كے حالات اور اس كے نشیب وفراز سے آگاہ تھے، اس كی وجہ یہ تھی كہ موصوف فرانس كے كلچر سے كافی اطلاع ركھتے تھے اور یورپ كے متعدد سفر بھی كئے تھے، نیز علمائے فلاسفہ اور مغربی سیاستمداروں كے ساتھ ملاقات ركھتے تھے، اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ طے كیا كہ محمد بن عبد الوھاب كی دعوت كو نفسیاتی اور معاشرہ شناسی كے تحت پیش كیا جائے۔ اس سلسلہ میںشیخ محمد عبدہ كی ان كے شاگرد سید محمد رشید رضا نے مدد كی اور ان كے عقائد اور نظریات ”المنار“ نامی مجلہ میں نشر كئے اور عالم اسلام تك پهونچائے۔ 766

وھابیت مراكش میں
مراكش میں شیخ ابو العباس تیجانی نے بھی محمد بن عبد الوھاب كی طرح لوگوں كو اس طرح كیبدعتوں اور قبروں كی زیارت سے روكا، چنانچہ بھت سے لوگوں نے اس كی پیروی كی، لیكن وہ اپنی اس دعوت میں كامیاب نہ هوسكے۔ 767

مدارك كتاب
آل شیخ : شیخ عبد الرحمن بن حسن، محمد بن عبد الوھاب كا پوتہ، متوفی1285ھ۔
1۔ فتح المجید فی شرح كتاب التوحید محمد بن عبد الوھاب، طبع مكہ معظمہ، مكتبہ سلفیہ، پانچواں ایڈیشن۔
2۔ رسالہ شرح حال جدّ وآغاز دعوت وھابیت، اس رسالہ كا متن تاریخ ابن بشر ج2 ص 23 تا 26 پر بھی موجود ھے۔
آلوسی: سید محمود، متوفی 1270ھ ۔
تاریخ نجد، طبع مصر1347ھ۔
آنٹونیوس: (جرج) متوفی 1942ء۔
قظة العرب، طبع بیروت، 1969ء، تیسرا ایڈیشن۔
ابن اثیر : علی بن محمد شیبانی جزری، متوفی 630ھ۔
الكامل، طبع مصر، 1356ھ، ناشر منیریہ۔
ابن الاثیر : مبارك بن محمد جزری، متوفی606ھ۔
النھایہ، طبع مصر دار احیاء الكتب العربیہ۔
ابن ایاس: محمد بن احمد بن ایاس، متوفی 930ھ۔
1۔ بدایع الزهور فی وقایع الدهور، طبع قاھرہ، 1961ء۔
2۔ المختار من بدایع الزهور، طبع بیروت،1960ء۔
ابن بشر: عثمان بن بشر نجدی، متوفی 1288ھ۔
عنوان المجد فی تاریخ نجد، طبع ریاض، مطبعة الیوسفیہ۔
ابن بطوطة: محمد بن عبد اللہ طنجی، متوفی779ھ۔
تحفة النظار معروف بہ رحلة ابن بطوطہ، طبع مصر1938ء۔
ابن تیمیہ: احمد بن عبد الحلیم حرانی، متوفی728ھ۔
1۔ الایمان، طبع بیروت۔
2۔ الجواب الباھر فی زوار المقابر، طبع مصر، مطبعہ سلفیہ۔
3۔ الراعی والرعیة، طبع مصر۔
4۔ كتاب الرد علی الاخنائی، طبع مصر مطبعہ سلفیہ۔
5۔ رفع الملام عن ائمة الاسلام، طبع بیروت۔
6۔ السیاسیة الشرعیہ فی اصلاح الراعی والرعیة، طبع مصر، دار الكتاب العربی۔
7۔ العبودیة، طبع بیروت۔
8۔ الفتاوی الكبری، دار المعرفة، طبع بیروت۔
9۔ مجموعة الرسائل الكبریٰ، طبع بیروت،1972ء، دوسرا ایڈیشن۔
10۔ منھاج السنة النبویہ، طبع قاھرہ، مكتبہ دار المعروبہ۔
ابن جبیر: محمد بن احمد بن جبیر اندلسی، متوفی614ھ۔
رحلة ابن جبیر، طبع بغداد ،3156ھ ق
ابن الجوزی: عبد الرحمن بن علی بن الجوزی متوفی597ھ۔
المنتظم فی تاریخ الامم، طبع حیدر آباد دكن، 1358ھ۔
ابن حجر: احمد بن علی عسقلانی، متوفی852ھ۔
الدرر الكامنة فی اعیان الماٴة الثامنہ، دار الكتب الحدیثہ، طبع مصر۔
ابن حنبل: احمد بن محمد بن حنبل شیبانی مروزی، متوفی 241ھ۔
مسند احمد بن حنبل، طبع مصر، مطبعہ میمنیہ، 1313ھ۔
ابن خلكان: احمد بن محمد، متوفی681ھ۔
وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان، طبع مصر، با تصحیح مُحییّ الدین عبد الحمید۔
ابن السویدی: عبد الرحمن بن عبد اللہ السویدی، متوفی 1805ء۔
تاریخ بغداد، یا حدیقة الزوراء فی سیرة الوزراء، بحثی در تاریخ عراق در نیمہ قرن 18، طبع بغداد،1962ء۔
ابن شاكر: محمد بن شاكر حلبی دمشقی ملقب بہ صلاح الدین، متوفی764ھ۔
فوات الوفیات، جو وفیات الاعیان ابن خلكان كے خاتمہ میں موجود ھے، با تصحیح و تحقیق مُحییّ الدین عبد الحمید، طبع مصر۔
ابن طولون: شمس الدین محمد صالحی دمشقی حنفی متوفی953ھ۔
1۔ مفاكہة الخلان فی حوادث الزمان، نویں اور دسویں صدی كی مصر اور شام كی تاریخ، طبع قاھرہ، دار الاحیاء الكتب العربیہ ،1962ء۔
2۔ اعلام الوریٰ، بمن ولیّ نائباً من الاتراك بدمشق الشام الكبریٰ، طبع دمشق، 1964ء۔
ابن عبد البرّ: یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البرّ، متوفی 463ھ۔
الاستیعاب فی اسماء الاصحاب، طبع مصر، المكتبة التجاریہ۔
ابن عماد : عبد الحيّ بن عماد الحنبلی، متوفی 1089ء۔
شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، بیروت آفسیٹ، المكتبہ التجاری للطباعة والنشر۔
ابن قیم الجوزیہ: محمد بن ابی بكر دمشقی حنبلی،751ھ ،ابن تیمیہ كے خاص شاگرد۔
1۔ اعلام الموقعین، طبع مصر، مطبعہ سعادت، 1374ھ۔
2۔ الكافیة الشافیة فی الانتصار للفرقة الناجیة، ابن تیمیہ اور خود اپنے اعتقاد اور نظریات كے بارے میں چار ہزار سے بھی زیادہ اشعار كا مجموعہ، ھمراہ با شرح قصیدہ بنام توضیح المقاصد،طبع بیروت، 1392ھ،
ابن كثیر: ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن كثیر دمشقی، متوفی 774ھ۔
البدایة والنھایة، طبع بیروت 1966ء۔
ابن ماكولا: علی بن ھبة اللہ عجلی ملقب بہ سعد الملك، متوفی475ھ۔
الاكمال فی الموتلف والمختلف فی اسماء الرجال، طبع حیدر آباد دكن، 1381ھ۔
ابن ماجہ: محمد بن یزید قزوینی، متوفی273ھ۔
سنن ابن ماجہ، (صحاح ستہ میں سے ایك) طبع مصر، دار احیاء الكتب العربیہ۔
ابن الندیم:محمد بن اسحاق (كاتب بغدادی) متوفی 385ھ۔
الفھرست، طبع مصر ،1348ھ۔
ابن ہشام: عبد الملك بن ہشام الحمیری، متوفی213ھ۔
سیرة النبی (ص) با تصحیح محمد محی الدین، طبع مصر ۔
ابن الوردی: عمر بن مظفر وردی بن عمر شافعی متوفی749ھ۔
تاریخ ابن الوردی، مختصر تاریخ ابو الفداء وذیلی بر آن، طبع نجف اشرف،1969ء، مطبعة الحیدریة۔
ابو زھرہ : (محمد) معاصر۔
1۔ ابن تیمیہ حیاتہ وعصرہ وآرا ئہ وفقہہ، طبع بیروت، دار الفكر۔
2۔ المذاھب الاسلامیہ، طبع مصر، مكتبة الادب۔
ابو حامد بن مرزوق: التوسل بالنبی (ص) وجھلة الوھابین، طبع استامبول، 1396ھ۔
ابو طالب خان اصفھانی: فتح علی شاہ كے زمانہ میں ایرانی سیاح۔
مسیر طالبی، یا سفر نامہ میرزا ابو طالب، تالیف1219ھ، طبع تھران1352ھ ش،چاپ اول۔
ابو داؤد: سلیمان بن اشعث بن اسحاق سجستانی، متوفی272ھ۔
سنن ابی داوٴد، (صحاح ستہ سے) با حواشی وتعلیقات بعنوان عون المعبود، طبع ہندوستان، 1323ھ۔
ابو الفداء: عماد الدین، اسماعیل بن علی شافعی ایوبی، متوفی732ھ۔
كتاب المختصر فی اخبار البشر معروف بہ تاریخ ابو الفداء، طبع بیروت دار المكتبة اللبنانیہ۔
ابو المحاسن: یوسف بن تغری بردی مصری، متوفی874ھ۔
النجوم الزاھرة فی اخبار مصر والقاھرہ، طبع مصر دار الكتب۔
احمد بن ابراھیم: (علماء حنبلی میں سے)
توضیح المقاصد، در شرح قصیدہ ابن قیم بنام الكافیة الشافیہ، طبع بیروت، 1392ھ۔
احمد امین :(معاصر)
زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، طبع بیروت۔
ازرقی : ابو ا لولید محمد بن عبد اللہ، متوفی تیسری صدی ہجری كے درمیان میں۔
اخبار مكہ، طبع مكہ معظمہ،1965ھ۔
اشعری: ابو الحسن علی بن اسماعیل ،متوفی 324ھ۔
مقالات الاسلامیین، تصحیح وتحقیق محمدمحیی الدین، طبع مصر۔
اعتماد السلطنة: محمد حسن خان قارجاریہ زمانہ كے مورخ۔
منتظم ناصری، طبع تھران، چاپ سنگی۔
امین الریحانی: سوریہ كے ایك عیسائی مورخ، (تقریباً ستر سال قبل)
ملوك العرب، طبع مصر،1924ء۔
امین سعید : معاصر۔
الثورة العربیة الكبریٰ، طبع مصر۔
امین عاملی: علامہ حاج سید محسن، متوفی1371ھ ق۔
كشف الارتیاب عن عقائد محمد بن عبد الوھاب، طبع دمشق،1347ھ۔
امین الممیز:(الحاج)،ملك سعود كے زمانہ میں سعودی عرب میں عراق كا سفیر، (معاصر)
المملكة العربیة السعودیہ كما عرفتھا، طبع بیروت، دار الكتب، 1963ء۔
امین محمد سعید: معاصر۔
ملوك المسلمین المعاصرون ودولھم، طبع مصر، 1933ء۔
امینی : علامہ حاج شیخ عبد الحسین تبریزی، متوفی 1390ھ۔
1۔ الغدیر، طبع بیروت ،1387ھ
2۔ سیرتنا وسنتنا، طبع نجف، 1384ھ۔
باسلامہ: حسین عبد اللہ (معاصر) متوفی1364ھ۔
تاریخ الكعبة المعظمہ، طبع مصر 1384ھ۔
بخاری: محمد بن اسماعیل، متوفی253ھ۔
صحیح بخاری، طبع مصر، مطبوعات محمد علی صبیح۔
بلنٹ: ایك انگریز خاتون، جس نے 1879ء میں اپنے شوھر ویل فریڈ كے ساتھ حجاز كا سفر كیا ھے۔
سفر نامہ، جس كا ایك حصہ ”رحلة الی بلاد نجد“ عربی میں ترجمہ هوكر چھپ چكا ھے، انتشارات دار الیمامہ، ریاض1967ء۔
بیطار: شیخ محمد بہجة۔
حیاة شیخ الاسلام ابن تیمیہ، طبع لبنان، 1392ھ۔
ترمذی: محمد بن عیسیٰ متوفی279ھ۔
سنن یا جامع ترمذی (جس كا شمارصحاح ستہ میں هوتا ھے) شرح احوذی كے ساتھ، طبع ہندوستان،1343ھ۔
تنوخی: (قاضی) محسن بن علی متوفی384ھ۔
نشوار المحاضرة، طبع بیروت، 1391ھ۔
تھرانی: علامہ شیخ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ ق، 2 جلد اول، دار الكتاب عربی۔
جاحظ: عمرو بن بحر بصری، متوفی 255ھ۔
العثمانیہ، طبع مصر، مكتبة الجاحظ۔
جبرتی: شیخ عبد الرحمن بن حسن حنفی، متوفی 1237ھ۔
1۔ عجائب الآثار فی التراجم والاخبار معروف بہ تاریخ جبرتی، طبع بیروت، دار الفارس۔
2۔ المختار من تاریخ الجبرتی، طبع مصر، 1958ء۔
جمعی از خاورشناسان:(مشرق زمین كے ماھرین كا گروہ)
دائرة المعارف الاسلامی، ترجمہ عربی، طبع مصر۔
جوینی: امام الحرمین، عبد الملك بن عبد اللہ شافعی، متوفی478ھ۔
لمع الادلة فی عقائد اھل السنة والجماعة، طبع مصر1385ھ۔
چند تن از خاورشناسان:(مشرقی زمین كے ماھرین)
دراسات الاسلامیہ، ترجمہ عربی، طبع مصر۔
حافظ وھبہ: سعودی عرب كی علمی اور سیاسی شخصیت، (معاصر)
جزیرة العرب فی القرن العشرین، طبع مصر، 1354ھ۔
خلیلی: جعفر،(معاصر)
1۔ موسوعة العتبات المقدسہ، قسمت كربلا، طبع نجف اشرف،1966ء۔
2۔ موسوعة العتبات المقدسہ جلد ایك قسمت نجف اشرف، طبع نجف اشرف، 1966ء۔
خواجہ محمد حسن جان صاحب سرہندی۔
الاصول الاربعة فی تردید وھابیہ، طبع استانبول، 1976ء۔
خونساری: سید محمد باقر، متوفی 1313ھ۔
روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، طبع قم، 1390ھ۔
داود بن سلیمان بغدادی:
المنحة الوھبیة فی رد الوھابیة، طبع استانبول، تیسرا ایڈیشن۔
دفتر دار ومزعبی، ھاشم ومحمد علی (معاصر)۔
الاسلام بین السنة والشیعہ، طبع بیروت، 1369ھ۔
دنبلی: میرزا عبد الرزاق، فتح علی شاہ كے زمانہ كے مشهور ومعروف موٴلف ۔
مآثر سلطانیہ، طبع تبریز، 1241ھ۔
دواداری: ابو بكر بن عبد اللہ، آٹھویں صدی ہجری كے مورخ۔
كنز الدرر وجامع الغرر، طبع قاھرہ، تحقیق صلاح الدین المنجد،1380ھ۔
دیار بكری: حسین بن محمد مالكی، قاضی مكہ معظمہ، متوفی نیمہ دوم دسویں صدی ہجری۔
تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس، طبع مصر 1283ھ، مطبعہ وھبیہ۔
ذھبی: محمد احمد بن عثمان بن قایماز تركمانی، متوفی748ھ۔
1۔ دول الا سلام حید ر آباد دكن، 1364ھ۔
2۔ العبر فی خبر من غبر، طبع كویت، پھلا ایڈیشن۔
3۔ ذیل العبر، طبع كویت، پھلا ایڈیشن۔
راوندی: محمد بن علی، سلجوقی زمانہ كے موٴلف۔
راحة الصدور وآیة السرور فی تاریخ آل سلجوق، طبع لِیڈن، (ھلینڈ)
رشید رضا: سید۔
رحلات بیروت، 1971ء۔
رفاعی : سید ابراھیم، معاصر۔
رسالة الاوراق البغدادیہ فی الحوادث النجدیہ، مطبعہ نجاح، بغداد۔
رفعت پاشا: امیر الحجاجِ المصری ،1320ھ۔ 1321ھ۔ 1325ھ۔ میں ۔
مرآة الحرمین، طبع مصر، 1344ھ۔
روملو، حسن بیك: صفویہ زمانہ كے شروع كے مورخ۔
احسن التواریخ، (جلد 12)، طبع تھران، 1349ھ ش۔
زكی :ڈاكٹر عبد الرحمن(معاصر)
المسلمون فی العالم، طبع قاھرہ، 1958ء۔
زھاوی: جمیل افندی صدقی۔
الفجر الصادق فی الردّ علی منكری التوسلِ والخوارق، طبع مصر، 1323ھ۔
زینی دحلان: احمد مكی شافعی، شیخ الاسلام ومفتی مكہ، متوفی 1304ھ۔
1۔ الفتوحات الاسلامیہ، طبع مصر، 1354ھ۔
2۔ فتنة الوھابیہ، طبع استانبول، 1396ھ۔
3۔ الدرر السنیة فی الردّ علی الوھابیة، طبع استانبول، 1396ھ۔
سباعی: شیخ احمد (معاصر)
تاریخ مكہ، طبع مصر، 1380ھ۔
سُبكی: تاج الدین، متوفی771ھ۔
طبقات الشافعیة الكبریٰ، طبع مصر، پھلا ایڈیشن، مطبوعہ عیسی البابی الحلبی۔
سُبكی: (تقی الدین)۔
شفاء السقام فی زیارة خیر الانام، طبع استانبول، 1396ھ۔
سپھر: میرزا محمد تقی لسان الملك كاشانی، قاجاریہ دور كے مورخ۔
ناسخ التواریخ، قاجاریہ سے متعلق جلد، چاپ اسلامیہ تھران، 1344ھ۔ ش۔
سخاوی: محمد بن عبد الرحمن شافعی، متوفی902ھ۔
تحفة الاحباب وبغیة الطلاب فی الخطط والمزارات، طبع مصر، 1356ھ ۔
سرٹوماس، و، آرنولڈ۔
الدعوة الی الاسلام، ترجمہ عربی طبع مصر، 1957ء۔
سلیمان بن عبد الوھاب: شیخ۔
الصواعق الالہٰیہ فی الرد علی الوھابیة، دوسرا ایڈیشن، طبع استانبول، 1396ھ۔
سلیمان فائق بك: عثمانی موٴلف، متوفی1896ء۔
تاریخ بغداد (تركی اسلامبولی) ترجمہ عربی، طبع بغداد، 1962ء۔
سمعانی: عبد الكریم بن ابی بكر تمیمی شافعی، متوفی 562ھ۔
الانساب لندن، نسخہ عكسی مرگلیوث۔
سمهودی: نورالدین علی بن عبد اللہ حسینی شافعی، متوفی 911ھ۔
وفاء الوفاء بہ اخبار دار المصطفیٰ، طبع مصر، 1326ھ۔ وچاپ 1374ھ۔
سنٹ جَون فیلبی: (عبد اللہ)
تاریخ نجد ودعوة الشیخ محمد بن عبد الوھاب، ترجمہ عربی، طبع بیروت منشورات مكتبة الاھلیہ۔
سیوطی: جلال الدین عبد الرحمن ابی بكر شافعی، متوفی 910 ھ۔
1۔ تاریخ الخلفاء، طبع مصر، 1351ھ۔
2۔ الخصائص الكبریٰ، طبع مصر، دار الكتب الحدیثة۔
شاہ طھماسب صفوی: صفویہ زمانہ كے مشهور ومعروف بادشاہ۔
تذكرة… برلن۔
شافعی: محمد بن ادریس، شافعی مذھب كے پیشوا اور امام، متوفی 204ھ۔
كتاب” الام“، طبع بیروت، دار المعرفة۔
شاہ فضل رسول،قادری۔
سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار، طبع اسلامبول، 1395ھ۔
شلتوت: محمود، جامع الازھر كے سابق صدر، (معاصر)
الاسلام عقیدة وشریعة، طبع قاھرہ، دار القلم۔
شوشتری: سید عبد اللطیف، قاجاریہ زمانہ كے مورخ۔
ذیل تحفة العالم (ذیل التحفة)، طبع بمبیٴ۔
شوكانی: محمد بن علی یمنی صنعانی، متوفی 1250ھ۔
1۔ ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من الاصول، طبع مصر، 1356ھ۔
2۔ البدر الطالع، طبع مصر، 1348ھ۔
3۔ نیل الاوطار من احادیث سید الاخیار، شرح منتقی الاخبار، طبع بیروت، 1973ء۔
شیروانی: حاج زین العابدین متخلص بہ تمكین، فتح علی شاہ كے معاصر۔
1۔ بستان السیاحة، طبع تھران، پھلا ایڈیشن۔
2۔ حدائق السیاحة، طبع تھران، 1348ھ،ش۔
صفدی: صلاح الدین، خلیل بن ایبك شافعی، متوفی764ھ۔
الوافی بالوفیات، طبع بیروت، 1969ھ، پیش كش جماعتِ ماھرین علم ودانش۔
صلاح الدین مختار : (معاصر)
تاریخ المملكة العربیة السعودیہ، طبع بیروت، 1390ھ۔
طبری: محمد بن جریر آملی، متوفی 310ھ۔
تاریخ الرسل والملوك، معروف بہ تاریخ طبری، طبع لیڈن، (ھلینڈ)
ظاھر شاہ، ابن عبد العظیم:
ضیاء الصدور لمنكر التوسل باھل القبور، طبع استانبول۔
عاملی: علامہ سید محمد جواد غروی، متوفی 1226ھ۔
مفتاح الكرامة فی شرح قواعد العلامة، طبع مصر، پھلا ایڈیشن۔
عباسی: شیخ احمد دسویں صدی ہجری،كے علماء میں سے ایك۔
عمدة الاخبار، طبع مصر، مكتبة التجاریہ۔
عباس محمود العقاد: (معاصر)
الاسلام فی القرن العشرین، طبع بیروت،1969ء۔
عبد الرزاق حسنی: سید، عراقی عالم۔
1۔ تاریخ الوزارات العراقیہ، طبع لبنان، تیسرا ایڈیشن،1385ھ۔
2۔ العراق قدیماً وحدیثاً، طبع بیروت، 1391ھ۔ چوتھا ایڈیشن۔
عبد القاھر بغدادی: ابو منصور شافعی، متوفی429ھ۔
الفرق بین الفِرق، با تصحیح محمد محیی الدین عبد الحمید، طبع مصر۔
عبد العزیز المحمد السلمان:
الاسئلة والاجوبة علی العقیدة الواسطیہ، (عقیدة الواسطیہ سے مراد ابن تیمیہ كے عقائد ھیں)، طبع كویت،1390ھ۔
علامہ حلّی: حسن بن المطھر، ساتویں او رآٹھویں صدی ہجری كے بزرگ شیعہ عالم دین، متوفی726ھ۔
1۔ منھاج الكرامة، اس كتاب كی پوری عبارت ابن تیمیہ كی كتاب منھاج السنة كی پھلی جلد میں (طبع تھران كے مطابق) بیان كی گئی ھے، طبع قاھرہ، 1384ھ۔ ۔
2۔ شرح تجرید الاعتقاد خواجہ نصیر الدین طوسی، طبع قم۔
فاسی: تقی الدین محمد بن احمد حسینی مكی، متوفی832ھ۔
شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، طبع مصر، 1956ء۔
فراھانی: سید حسین، ناصر الدین شاہ كے ھم عصر۔
سفر نامہ حج، طبع تھران، 1342ھ ش۔
فرھاد میرزا: (حاج) زمانہ قاجاریہ كے شہزادے۔
سفر نامہ حج، بنام ہدایة السبیل، طبع تھران، 1294ھ۔
فریدی وجدی: (معاصر)
دائرة المعارف القرن العشرین، طبع مصر، دوسرا ایڈیشن۔
فلیب حتی:
تاریخ عرب ترجمہ فارسی ابوالقاسم پایندہ، طبع تبریز، ایران۔
قادری: عامر، مدارج السنیة فی ردّ علی الوھابیة (اردو زبان میں) باترجمہ عربی، طبع كراچی، پاكستان،1976ء۔
قلقشندی: احمد بن علی، شھاب الدین شافعی، متوفی821ھ۔
صبح الاعشیٰ فی صناعة الانشاء، طبع مصر، چاپ عكسی از طبع امیری۔
كحالہ، عمر رضا: (معاصر)
جغرافیة شبہ جزیرة العرب، طبع مصر، دوسرا ایڈیشن، 1384ھ۔
كرد علی : محمد۔
خطط الشام، طبع بیروت، 1970ء۔
كردی: (محمد طاھر مكی شافعی) معاصر۔
التاریخ القویم لمكة وبیت اللہ الكریم، طبع بیروت، 1385ھ۔
كركو كل لی: شیخ رسول، متوفی1240ھ۔
دوحة الوزراء، (اسلامبولی تركی زبان میں) مترجم عربی نورس، طبع بیروت، مطبعہ كرم۔
كلیددار:
تاریخ كربلا وحائر حسین ں، مترجم فارسی: صدر ھاشمی، طبع اصفھان۔
گلدزیھر:
العقیدة والشریعة فی الاسلام مترجمان عربی:ڈاكٹر محمد یوسف موسیٰ، ڈاكٹر حسن علی عبد القادر، عبد العزیز عبد الحق، طبع مصر، دوسرا ایڈیشن۔
لوٹروپ استوڈارڈ: امریكن مستشرق۔
حاضر العالم اسلامی، ترجمہ وتعلیقات مفصل شكیب ارسلان، طبع بیروت، دار الفكر۔
لیڈی ڈرور: ایك انگریز خاتون، پھلی عالمی جنگ كے بعد عراق میں هونے والے واقعات كے درمیان یہ خاتون عراق میں تھی اور اس كی كتاب عراقی تاریخ كے مدارك میں شمار هوتی ھے۔
دجلہ وفرات: انگریزی كتاب كا (عربی) ترجمہ، بتوسط فواد جمیل، بنام فی بلاد الرافدین، طبع بغداد، 1961ء۔
مالك بن انس:پیشوا وبانی مذھب مالكی، متوفی174ھ۔
الموطاٴ طابع مصر،1387 ھ۔
محبیّ :محمد امین بن فضل اللہ حموی حنفی متوفی1111 ھ۔
خلاصة الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر، طبع بیروت، مكتبہ خیاط۔
محمد عبد الرحمن حنفی:
سیف الابرار المسلول علی الفجار، طبع كانپور، ہندوستان، 1300ھ۔
محمد بن عبد الوھاب : بانی مذھب وھابی، متوفی 1206ھ۔
1۔ كتاب التوحید (متن فتح المجید، نیز رسالہ دھم از مجموعہ كتاب توحید)
2۔ ثلاث رسائل فی العقیدة الاسلامیہ، طبع مكہ۔
3۔ عقیدة الفرقة الناجیہ، طبع بیروت، 1391ھ۔
4۔ كشف الشبھات، طبع مكہ۔
5۔ مجموعة التوحید، محمد بن عبد الوھاب او ردیگر علماء كے سولہ رسالے پر مشتمل، طبع قطر۔
6۔ مختصر سیرة الرسول، طبع قطر۔
7۔ مسائل الجاھلیة، طبع قطر۔
8۔ ہدیہٴ طیبہ، (مجموعہ توحید كے ضمن میں) طبع قطر۔
محمد بن ثابت : (مصری)معاصر۔
جولة فی ربوع شرق الادنی، مصر، 1952ء، تیسرا ایڈیشن۔
مسعودی : علی بن الحسین متوفی 345ھ۔
مروج الذھب ومعادن الجوھر، طبع بیروت، دار الاندلس۔
مسكویہ: احمد بن محمد بن یعقوب رازی اصفھانی، متوفی421ھ۔
تجارب الامم، طبع مصر، 1333ھ۔
مسلم بن حجاج نیشاپوری قشیری: متوفی261ھ۔
جامع صحیح، معروف بہ صحیح مسلم، طبع مصر، مكتبہ محمد علی صبیح۔
مطیعی: شیخ محمد نجیب، از علماء جامع الازھر۔
تطھیر الفوٴاد من دنس الاعتقاد، طبع استانبول، 1396ھ۔
مغینہ: شیخ محمد جواد لبنانی، معاصر۔
ھذی ھی الوھابیہ، طبع بیروت، 1964ء۔
مقدسی: بشاری فلسطینی، چوتھی صدی ہجری كے مشهور سیاح۔
احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، طبع لیڈن (ھلینڈ)1906ء۔
مقریزی: احمد بن علی مصری، متوفی 845 ھ۔
1۔ خطط، طبع بیروت، منشورات دار احیاء العلوم۔
2۔ السلوك لمعرفة دول الملوك جلد اول ازقسم سوم، طبع قاھرہ،1939ء۔
مناوی: محمد بن علی مصری، متوفی1031ھ۔
شرح جامع صغیر سیوطی، طبع مصر،1373ھ۔
نائب الصدر الشیرازی حاج: (ناصر الدین شاہ كے زمانہ كے مولف)
تحفة الحرمین، سفر نامہ حج، طبع بمبی۔
ناصر خسرو: ابو معین ناصر بن خسرو قبادیانی، مشهور ومعروف سیّاح، متوفی 481 ھ۔
سفر نامہ، طبع تھران، 1335ھ،ش۔
نبھانی : شیخ یوسف بن اسماعیل۔
شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق، طبع بیروت، 1350ھ۔
نجفی: شیخ عبد الحسین، معاصر۔
ماضی النجف وحاضرھا، طبع نجف اشرف، 1378ھ ۔ ۔
نویری احمد بن عبد الوھاب: متوفی732ھ۔
نھایة الارب فی فنون الادب، طبع مصر، دار الكتب۔
واقدی: محمد بن عمر : متوفی206ھ۔
كتاب المغازی، لندن، 1966ء۔
ہدایت: رضا قلی خان، قاچاریہ زمانہ كا مورخ۔
روضة الصفائے ناصری، (تین جلدیں جن كو ہدایت صاحب نے میر خواند كی روضة الصفا سے ملحق كیا ھے) طبع تھران۔
افعی: عبد اللہ بن اسعد شافعی، متوفی755ھ۔
مرآة الجنان، طبع حیدر آباد، ہند 1338ھ۔
اقوت: ابن عبد اللہ رومی حموی، شھاب الدین، متوفی626ھ۔
1۔ ارشاد الاریب الی معرفة الادیب، معروف بہ معجم الادباء، با تصحیح مرگلیوث، طبع مصر، 1930ء۔
2۔ معجم البلدان، طبع لایپزیگ،1866ء۔
عقوبی: احمد بن ابی یعقوب معروف بہ ابن واضح، متوفی278 ھ، 284ھ كے درمیان میں۔
تاریخ یعقوبی، طبع بیروت،1379ھ۔
كتاب ھذا میں درج ذیل اخباروں اور مجلوں سے بھی استفادہ كیا گیا ھے۔
امّ القری اخبار، طبع مكہ۔
مجلہ البلاد السعودیہ، طبع مكہ۔
البلاد اخبار طبع جدّہ۔
عكاظ اخبار طبع جدّہ۔
مجلہ قافلة الزیت، طبع ظھران۔
مجلہ المنھل، طبع مكہ۔
مجلہ یاد گار، طبع تھران۔
مذكورہ كتابوں كے علاوہ دوسری كتابوں اور مدارك سے بھی استفادہ كیا گیا جن كا ذكر صفحات كے نیچے كردیا گیا ھے۔

--------------------------------------------------------------------------------

752. دائرة المعارف اسلامی جلد اول ص 496، 497، البتہ اس كتاب میں سید احمد كا انگریزوں سے مقابلہ كا ذكر نھیں ھے۔
753. زعماء الاصلاح فی الحصر الحدیث ص 126۔
754. الاسلام فی القران العشرین ص 81۔
755. الاصول الاربعة ص 1، 2، یہ مذكورہ كتاب اسماعیل دھلوی كے عقائد كے بارے میں ھے۔
756. یہ یونیورسٹی قرویین(فاس) كے علاقہ فاس، میں موجود ھے جو عالم اسلام كے لحاظ سے دوسری الازھر كا درجہ ركھتی ھے۔
757. خلاصہ از حاضر العالم الاسلامی، جلد اول ص 195۔
758. سنوسی لوگ اگرچہ احتمال قوی كے مطابق وھابیوں كے طرفدار ھیں، لیكن اویش میں ایك الگ فرقہ شمار كیا جاتا ھے، یہ لوگ اپنے لئے ایك جگہ معین كرتے تھے اور وھاں نماز اور قرئت قرآن كرتے تھے اور لوگوں كے تمام فیصلہ وغیرہ وھیں پر انجام دیتے تھے۔
759. شمالی افریقہ میں لفظ ”سیدی“ یا ”مولای“ كو اھم شخصیتوں كے شروع میں لگاتے ھیں جیسے ایران میں آقا، ہندوستان میں مولوی۔
760.حاضر العالم الاسلامی ج2 ص 398۔
761 .المسلمون فی العالم ج3 ص 67۔
762.الدعوة الی الاسلام ص 360۔
763. الدعوة الی الاسلام ص 410۔
764. المسلمون فی العالم ج3 ص 68، ”سوماترا “مجمع الجزائر انڈونیزی كے جزیروں میں سے ھے۔
765. قدیمی جامع الازھر میں رواق یا بھت سے ھال تھے جن كے الگ الگ نام تھے اور بھت سے دوسرے اسلامی ملكوں كے نام سے بھی یہ ھال مخصوص تھے، اور غیر ملكی طلباء كے لئے ھر ھال كے دروازے پر نام لكھا هوتا تھا، مثلاً ”رواق المغاربہ“ یعنی مراكشی طلباء كا ھال۔
766. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، احمد امین، ص 21تا 24، بعض لوگوں كا یہ نظریہ ھے كہ سید رشید رضا صاحب وھابیت كی طرف مائل نہ تھے، اور شاید اس كی وجہ یہ هو كہ جب وہ حجاز گئے، وھاں پر انھوں نے شریف حسین كی طرفداری كی، (رحلات رشید رضا، ص173 پر رجوع فرمائیں)، لیكن یہ بات طے ھے كہ بعد میں انھوں نے وھابیت كی طرفداری كرنا شروع كردی، اور اس سلسلہ میں انھوںنے بھت سے مقالات بھی لكھے ھیں، (كشف الارتیاب ص 62 پر رجوع فرمائیں)
767. زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث احمد امین ص 18۔