تاريخ اسلام 4 (حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ
  315
پندرہواںسبق:
امام زمانہ حضرت حجت (عج) كي زندگى كے حالات (پہلا حصہ)

317
ولادت
شيعوں كے بار ہويں امام اور پيغمبر اسلام (ص) كے آخرى وصى روز جمعہ صبح صادق كے وقت 15_شعبان 255ھ ق يا 256ھ ق كو مقام سامّرا ميں پيدا ہوئے _(1)
ائمہ نے اپنے شيعوں سے ان كے نام كو بيان كرنے سے منع فرمايا اور اتنا فرمايا كہ وہ پيغمبر(ص) كے ہم نام ہيں ،ان كى كنيت بھى پيغمبر(ص) ہى كى كنيت ہے (2)
آپ كے مشہور ترين القاب مہدى ،قائم،حجت،اور بقية اللہ ہيں_
آپ كے پدر بزرگوار ،گيا رہويں امام حضرت امام حسن عسكرى _اور مادر گرامى ''نرجس'' (3) بنت ''يوشعا'' ہيں جو قيصر روم كے بيٹے اور جناب عيسى (ع) كے ايك حوارى ''شمعون كى نسل سے تھيں ان عظيم المرتبت خاتون كى عظمت كے لئے اتنا كافى ہے كہ امام حسن عسكرى _كى پھوپھى جناب ''حكيمہ''نے جو خاندان امامت كى ايك بزرگ خاتون تھيں _ انھيں اپنى اور اپنے خاندان كى سردار كا خطاب ديا ہے اور خود كو ان كى خدمت گذار سمجھتى تھيں _(4)
جب جناب نرجس روم ميں تھيں تو ايك دن انہوں نے خواب ميں ديكھا كہ پيغمبر (ص) اسلام اور حضرت عيسى (ع) نے امام حسن عسكرى _سے ان كا عقد كرديا _
آپ خواب كے عالم ميں حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام كى دعوت پر مسلمان ہوئيں ليكن انہوں نے اپنے وابستگان سے اپنا اسلام چھپائے ركھا_
آخر كا ر آپ كو خواب ميں حكم ملاكہ كنيزوں اور قيصر كے خدمت گذاروں كے درميان چھپ كر

318
اس لشكر كے ساتھ جو مسلمانوں سے جنگ كے لئے سرحد كى طرف جارہاہے ،چلى جائيں _
آپ نے ايسا ہى كيا اور سرحد پر چند دوسرے افراد كے ساتھ لشكر اسلام كى اسيرى ميں آگئيںاور بغداد لے جائي گئيں_
يہ واقعہ احتمال قوى كى بناپر 248ھ ق ميں رونما ہوا جو امام ہادى _كے سامرا ميں قيام كا تير ھواں سال تھا اور امام حسن عسكرى _اسوقت سولہ سال كے تھے _امام ہادى (ع) كے قاصد نے ايك خط بغداد ميں جناب نرجس كو ديا جو رومى زبان ميں لكھا ہواتھا _اور ان كو بردہ فروشوں سے خريد كر وہ قاصد''سامرا''لايا_
جو كچھ جناب نرجس نے خواب ميں ديكھا تھا امام ہادى _نے اسے بيان كرديا _ اور بشارت دى كہ وہ گيا رہويں امام (ع) كى بيوى اور ايسے بيٹے كى ماں بنيں گى جو سارى دنيا پر تسلط حاصل كركے زمين كو عدل و انصاف سے پر كردے گا_ اس كے بعد آپ نے جناب نرجس كو اپنى بہن''حكيمہ'' كے حوالے كيا تا كہ وہ ان كو آداب و احكام اسلام سكھا ئيں كچھ دنوں كے بعد جناب ''نرجس''امام حسن عسكرى _كى زوجيت ميں آئيں(5)
''حكيمہ'' جب بھى امام حسن عسكري(ع) كى خدمت ميں پہنچتيں دعا فرماتيں كہ خداوند عالم ان كو فرزند عطا فرمائے _ وہ نقل كرتى ہيں كہ ايك روز عادت كے مطابق امام(ع) كے ديدار كے لئے گئيں ميں نے وہى دعا پھر امام (ع) كے سامنے دہرائي امام (ع) نے فرمايا جو بيٹا آپ ميرے لئے خدا سے مانگ رہى ہيں وہ آج كى رات پيدا ہونے والاہے_
ميں نے عرض كيا ميرے سردار وہ بچہ كس سے پيدا ہوگا؟آپ نے فرمايا ''نرجس سے''ميں اٹھى اور ميں نے نرجس كو جستجو كى نگاہ سے ديكھا حمل كى كوئي علامت نہيں ہے _امام(ع) مسكر ائے اور فرمايا:سپيدہ سحرى كے وقت آپ پر آشكار ہوجائے گا_اس لئے كہ وہ مادر موسى (ع) كى طرح ہيں جن كا حمل ظاہر نہيں ہواتھا اور ولادت كے وقت تك كسى كو ان كے حمل كى خبر نہ تھى اس لئے كہ فرعون ،موسى (ع) كى تلاش ميں عورتوں كے شكم كو چاك كرديتا تھا اور يہ بچہ_ جو آج كى رات پيدا ہوگا _حضرت

319
موسى (ع) كى طرح ہے _
جناب حكيمہ نقل فرماتى ہيں كہ ميں سپيدہ سحر تك نرجس كى نگرانى كرتى رہى اور وہ نہايت آرام كے ساتھ ميرے پاس سوئي ہوئي تھيں يہاں تك كہ طلوع فجر كے وقت وہ گبھراكراٹھ بيٹھيں _ميں نے ان كو اپنى آغوش ميں سنبھالا اور ان كے اوپر اسم خدا پڑھ كردم كيا، امام (ع) نے _دوسرے كمرے سے آواز دى _ ان كے اوپر سورہ انا انزلنا دم كيجئے_
ميں نے سورہ اناانزلنا پڑھنے كے بعد نرجس كى حالت كو ديكھنا شروع كيا _انہوں نے فرمايا جو آپ كے سردار نے خبر دى تھى وہ بات ظاہر ہوگئي ہے_
ميں اسى طرح سورہ قدر پڑھنے ميں مشغول تھى كہ بچہ شكم مادر ميں ميرا ہم آواز ہوگيا اس نے بھى سورہ قدر كى تلاوت كى اور مجھ كو سلام كيا ،ميں ڈرگئي ،امام حسن عسكري(ع) نے آواز دى :،امر خدا ميں تعجب نہ كريں _خداوند عالم ہم كو بچپن ميں حكمت سے گويائي عطا كرتا ہے _اور بڑے ہونے كے بعد زمين پر حجت قرار ديتا ہے _
ابھى امام (ع) كى بات ختم بھى نہيں ہوئي تھى كہ يكايك نرجس سامنے سے غائب ہوگئيں جيسے ہمارے اور ان كے درميان پردہ حائل ہوگيا ہو ،ميں آواز ديتى ہوئي امام(ع) كى طرف گئي _امام (ع) نے فرمايا :پھوپھى جان آپ وہيں تشريف لے جائيں ان كو اپنى جگہ پر پائيں گي_
ميں وہاں پلٹ آئي ابھى تھوڑى دير بھى نہ گذرى تھى كہ ميرے اور ان كے درميان پردہ ہٹ گيا_اور ميں نے ''نرجس''كو اس طرح نور ميں غرق ديكھا كہ ميرى آنكھوں ميں ان كو ديكھنے كى طاقت نہ تھي_
اسى عالم ميں ،ميں نے ايك بچہ كو ديكھا جو سجدہ كے عالم ميں تھا اور اپنى انگلى اوپر اٹھائے ہوئے كہہ رہا تھا:''اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شريك لہ و انّ جدى محمداً رسول اللہ و انّ ابى امير المومنين ''اس كے بعد آپ نے ايك ايك امام كى امامت كى گواہى دى اور فرمايا خداياميرے وعدہ كو پورا كر اور ميرے كام كو اتمام كو پہنچا ،ميرے قدم كو ثبات و

320
استوارى عطا كر اور ميرے ذريعہ زمين كو عدل و انصاف سے بھر دے (6)

پوشيدہ ولادت
امام عسكرى (ع) كے زمانہ (ع) امامت ميں حكام بنى عباس كے درميان بڑى تشويش اور فكر مندى تھى ،تشويش ان كثير اخبارات و احاديث كى بنا پر تھى جو_ پيغمبر(ص) اور ائمہ سے _ مروى تھيں _ان ميں يہ ذكر آچكاتھا كہ امام حسن عسكري_ كے ہاں ايك بيٹا پيدا ہوگا جو حكومتوں كى بنيادوں كو پلٹ دينے والا اور تاج و تخت كو الٹ دينے والا ہوگا _ وہ دنيا كو عدل و انصاف سے بھر دے گا _(7)اس لئے امام حسن عسكري(ع) سخت پريشانى ميں تھے اور خلافت كى مشينرى يہ كوشش كررہى تھى كہ اس نو مولود كو پيدا ہونے سے روك دے _(8)
يہى وجہ تھى جو حضرت مہدى (ع) كے حمل اور ولادت كے زمانہ كو لوگوں سے پوشيدہ ركھا گيا اور خدا نے ان كے حمل كو جناب موسى _كى طرح مخفى ركھا_
ولادت كے بعد سوائے خاص اصحاب اور دوستوں كے كسى نے مھدي(ع) كو نہيں ديكھا اور وہ بھى الگ الگ ايك ساتھ اور عام طور پر نہيں _

خواص كيلئے اعلان
امام حسن عسكرى _كى روش يہ تھى كہ اپنے فرزند كو عام لوگوں كى نظروں سے مخفى ركھنے كہ باوجود مناسب موقع پر قابل اطمينان افراد كو حضرت مھدى (ع) كے وجود سے آگاہ فرماتے رہتے اور ان كو حضرت مھدى (ع) كے سامنے حاضر ہونے كا فيض پہنچا تے رہتے تھے ،تا كہ اس طرح وہ ان كى پيدائشے اور وجود كا يقين حاصل كرليں اور مشاہدہ فرماليں نيز ضرورى موقع پر دوسرے شيعوںكو اطلاع ديں تا كہ آپ كے بعد لوگ گمراہى ميں نہ پڑجائيں _

321
اس وجہ سے امام مھدى (ع) كى ولادت سے لے كر امام حسن عسكرى _كى شہادت تك (5 سے 6سال كى مدت تك ) گيا رہويں امام (ع) كے بہت سے قريبى افراد ،شاگرد اور خصوصى اصحاب نے امام مھدى (ع) كى زيارت كى _
نمونہ كے طور پر چند واقعات كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے :
1_امام حسن عسكرى _كے قريبى اصحاب اور بزرگ شيعوں ميں سے ايك شخص ''احمدابن اسحاق ''نقل كرتے ہيں كہ ميں امام حسن عسكري(ع) كى خدمت ميں پہنچااور ميں نے چاہا كہ ان كے جانشين كے بارے ميں ان سے سوال كروں كہ اتفاقاً حضرت نے خود ہى بات شروع كى اور فرمايا:اے احمدبيشك خداوند عالم نے جب سے آدم كو پيدا كيا زمين كو حجت خدا سے خالى نہيں چھوڑا اور كبھى خالى نہيں ركھے گا اور حجت خدا كے واسطے سے اہل زمين سے بلائيں دفع ہوتى ہيں ،بارش ہوتى ہے اور زمين كى بركتيں حاصل ہوتى ہيں _ميں نے عرض كيا :فرزند رسول (ص) آپ كے بعد امام اور جانشين كون ہے ،حضرت گھر كے اندر تشريف لے گئے اور اپنے تين سالہ بچے كو جس كا چہرہ چو دھويں رات كے چاند كى طرح چمك رہاتھا،كاندھے پر بٹھا ئے ہوئے با ہر تشريف لائے اور فرمايا :اے احمد ابن اسحاق اگر خدا اور اس كى حجت ائمہ كے نزديك تم مكّرم نہ ہوتے تو ميں اس بچہ كو تمہيںنہ دكھا تا،بيشك يہ رسول (ص) خدا كا ہم نام اور ہم كنيت ہے يہ وہ ہے كہ جو ظلم و جور سے بھرى ہوئي زمين كو عدل و انصاف سے پر كردے گا(9)
2_''معاويہ ابن حكيم ''محمد ابن ايوب بن نوح اورمحمد ابن عثمان عمرى نے نقل كيا ہے كہ شيعوں ميں ہم چاليس افراد امام حسن عسكرى (ع) كى خدمت ميں پہنچے آپ نے ہم لوگوں كو اپنے بيٹے كو لاكر دكھا يا اور فرمايا: ميرے بعد يہ تمہارا امام اور ميرا جانشين ہے _ ان كى پيروى كرنا اور (ان كے پاس سے )پراگندہ نہ ہونا و رنہ ہلاك ہوجاؤگے اور تمہارا دين تباہ ہوجائے گا اور يہ بھى جان لوكہ آج كے بعد تم ان كو نہيں ديكھو گے _(10)
3_''احمد ابن اسحاق قمي''نقل كرتے ہيں كہ جب حضرت مھدى (ع) پيدا ہوئے تو ميرے جد

322
كے پاس ايك خط ہمارے آقا امام حسن عسكرى (ع) كى طرف سے پہنچا جسے حضرت نے اپنے ہاتھ سے لكھا تھا_
اس ميں لكھا تھا كہ''ہمارے يہاں ايك بيٹاپيدا ہوا ہے _ضرورى ہے كہ تم اس كى ولادت كى خبر كو مخفى ركھوہم اپنے قريبى رشتہ داروں اور دوستوں كو رشتہ دارى اور دوستى كى بنا پر آگاہ كررہے ہيں _ اس كے علاوہ ہم كسى كو اس امر سے آگاہ نہيں كريں گے _ ہم نے اس بات كو پسند كيا كہ اس بچے كى ولادت كى خبر تم كو ديں تا كہ خداوند عالم اس كى وجہ سے تم كو مسرور كرے جيسا كہ اس نے ہم كو مسرور كيا والسلام(11)

حضرت مھدى _كے شمائل اور خصوصيات
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ اكرم سے جو كثرت سے روايتيں نقل ہوئي ہيں ان كى بنياد پر مورخين و محدثين اسلام نے امام عصر(ع) كے شمائل اور اوصاف اپنى كتابوں ميں بيان كئے ہيں يہاں ان ميں سے كچھ باتوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے _(12)
جواں سال ،گندمى رنگ،ہلالى اور كشيدہ ابرو،سياہ اوربڑى بڑى آنكھيں ،چوڑا شانہ ،سفيد براق اور كشادہ دندان مبارك ،ستواں اور خوبصورت ناك ،بلند اورروشن پيشانى _شب زندہ دارى كى بناپر _ سر كے بال دوش پر بكھرے ہوئے _(13)كم گوشت والے گا ذرا ذردى مائل_ داہنے گال پرتل اور شانوں كے درميان علامت نبوت كى سى علامت ہے ...يہ ہے امام زمانہ(ع) كا حليّہ مبارك_
آپ كے خصوصيات ميں سے يہ ہے كہ آپ فرزند پيغمبر (ص) اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كى اولاد ميں سے ہيں _نسل امام حسين _سے نويں پيشوا ،خاتم الاوصياء ،آخرى نجات دھندہ اور عالمى قائد ہيں جو سارى دنيا كو ظلم و جور سے پر ہونے كے بعد عدل و انصاف سے بھر ديں گے _

323
امام حسن عسكرى (ع) كى شہادت
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ،نے اپنے والد كى شہادت كے بعد 260ھ ق ميں امامت كى ذمہ دارى سنبھالى _
امام حسن عسكرى _كى بيمارى كے زمانہ ميں ان كے بيٹے كى تلاش كى كوشش كو جب معتمد نے بے نتيجہ پايا تو ان كى شہادت كے بعد اس نے ''ابوعيسى متوكل''كو معين كيا كہ وہ امام حسن عسكري(ع) كے جنازہ پر نماز پڑھائے اس نے بھى بنى ہاشم اور بقيہ حاضرين كو امام(ع) كا چہرہ دكھايا تا كہ لوگوں كے سامنے ظاہر كرسكے كہ امام (ع) اپنى طبيعى موت سے دنيا سے رخصت ہوئے ہيں پھر اس نے آپ كے جنازہ پر نماز پڑھائي اور حكم ديا كہ جنازہ اٹھايا جائے _(14)
البتہ اس سے پہلے امام(ع) كے گھر ميں بغير كسى ظاہرى دكھاوے كے ايك اور نماز چند خاص افراد كى شركت ميں پڑھى جاچكى تھى اور اس كا واقعہ يہ ہے كہ جعفر ابن على ،جو اس زمانہ تك سياست كے ميدان ميں ظاہر نہيں ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنا حقيقى چہرہ ظاہر نہيں كيا تھا ،صرف يہ ديكھ كر كہ امام حسن عسكرى (ع) كا كوئي شرعى وارث اور جانشين نہيں ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے كو امام كى شہادت كے بعد وارث اور جانشين كے عنوان سے نماياں كرنے كے لئے امام (ع) كے سلسلہ ميں لوگوں كى تعزيت اور اپنى امامت كى مبارك باد قبول كرنے كے لئے گھر كے دروازہ پر كھڑاہوگيا،نماز كے لئے جنازہ تيار ہوتے ہى جعفر آگے بڑھا تا كہ اپنے بھائي كے جنازہ پر نماز پڑھانے تا كہ وہ نئي حيثيت جو ظاہر كى تھى نماز پڑھانے سے اور مستحكم ہوجائے (15)
اتفاقاًايك بچہ گندمى رنگ،بال پريشان،گشادہ دندان مبارك و الاظاہر ہوا اور اس نے جعفر كى عباكھينچى اور كہا:''چچا جان آپ پيچھے كھڑے ہوں ميں اپنے باپ پر نماز پڑھانے كے لئے زيادہ حقدار ہوں _(16)جعفر بلاچون و چرا پيچھے ہٹ گئے_ ان كے چہرہ كا رنگ اڑاہواتھاامام(ع) آگے كھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنے اپنے والد ماجد كے جنازہ پر نماز پڑھائي(17)اس طرح

324
آپ نے اپنے چچا كو رسوا كيا اور ان كے بنائے ہوئے نقشہ كو باطل كرديا _آپ نے اپنے باپ كے مقام امامت اور جانشينى كے لئے اپنى وراثت اور لياقت كو حاضرين كے سامنے ثابت كيا _
امام (ع) عصر اپنے والد كے جنازہ پر نماز پڑھانے اور اپنے حق كو واضح كرنے كے بعد لوگوں كى نظروں سے غائب ہوگئے _

مسئلہ غيبت:
خلافت بنى عباس كى مشينرى جب اس بات كى طرف متوجہ ہوئي كہ حكومت كى تمام كوشش اور پابندى كے باوجود وارث امام پيدا ہوگيا تو اس نے حضرت كو گرفتار كرنے كے لئے پورا زور لگايا _ اس غرض سے حكومت كے مامور كردہ افراد امام حسن عسكرى _كے گھر پر حملہ آور ہوئے ليكن امام _كو گرفتار كرنے ميں كامياب نہ ہوسكے(18)
يہ كوششيںبتارہى ہيں كہ بارہويں امام كى جان كو جو خطرات لاحق تھے وہ واقعى تھے_
كيونكہ ضرورى تھا كہ زمين پر امامت اور حجت خدا كے باقى ماندہ سلسلہ كى نگرانى كے لئے كوئي واقعى اقدام كيا جائے _
امام عصر كى غيبت كے مسئلہ اور اس كى وجوھات كے بارے ميں بہت سى باتيں ہيں_ ان ميں سے جو مسّلم ہيںوہ يہ ہيں كہ آپ كى غيبت حكمت اور مشيت الہى كى بنياد پرہے اور ہم ان حكمتوں كے تمام اسرار سے واقف نہيں ہيں _
ليكن ممكن ہے كہ ظاہرى اور محسوس وجوہات ميں سے مندرجہ ذيل نكتہ ايك طرف بنى عباس كى حكومت كى مشينرى كا امام مھدى (ع) كى تلاش ميں گھر پر حملہ اور چھان بين كرنا اور دوسرى طرف امامت ''عسكريين'' عليہما السلام كے زمانہ ميں لوگوں كى امامت سے روگردانى اور عدم حمايت نے غيبت كيلئے زمين ہموار كردى تھي_اگر لوگ حكومت الہى كو قبول كرنے كے لئے آمادہ ہوتے اور

325
اپنے رہبروں اور اماموں كى حمايت كرتے تو كيا تعجب كہ امام (ع) پردہ غيبت ميں نہ جاتے اور قانون الہى كو جارى كرنے ميں مشغول ہو جاتے جيسا كہ غيبت كے زمانہ كے ختم ہوجانے كے بعد بہت سے لوگ اپنے كو تيار كرليں گے تو پھر امام _ان كے سامنے ظاہر ہوں گے _(19)''ان اللہ لا يغير ما بقوم: حتى يُضيّروا ما بانفسھم''(20)
مرحوم خواجہ نصير الدين طوسى اپنے رسالہ ميں جوانہوں نے امامت كے بارے ميں لكھاہے تحرير فرماتے ہيں :غيبت حضرت مھدى (ع) كے لئے تو يہ سزاوار ہے كہ وہ خداوند سبحانہ كى طرف سے ہوا ور نہ ہى يہ سزاور ہے كہ امام _كى طرف سے ہو ، بس اس بات ميں غيبت منحصر ہے كہ مكلفين اور لوگوں كى طرف سے ہو_اور غيبت كا سبب خوف غالب اور عدم تمكين ہے _جب غيبت كا سبب زائل ہوجائے گا ظہور ہوگا_(21)

غيبت صغرى :
بارہويں امام _كى غيبت كے دومرحلے ہيں: ايك كم مدت كا مرحلہ (غيبت صغرى )اور دوسرا لمبى مدت كا مرحلہ (غيبت كبري)غيبت صغرى زمانہ كے اعتبار سے بھى محدود تھى اور لوگوں سے رابطہ كے اعتبار بھى محدود_زمانہ كے اعتبار سے ستر(70)سال سے زيادہ يہ غيبت نہيں تھى _ گيا رہويں امام(ع) كى شہادت كے بعد 260ھ ق سے 329ھ ق كا زمانہ ہے _ (22)
غيبت صغرى كے زمانہ ميں لوگوں سے امام (ع) كا رابطہ بہت محدود تھا يہ رابطہ بالكل منقطع نہيں ہواتھا كچھ لوگ تھے جن كا آپ سے رابطہ تھا _اور ان كوامام (ع) كے ''نواب خاص '' كے نام سے جاناجاتا تھا_شيعوں ميں سے ہر ايك ان''نواب ''كے ذريعہ اپنے مسائل اور مشكلات امام(ع) تك پہنچاتا تھا اور ان ہى كے ذريعہ اپنا جواب حاصل كرسكتا تھا اور كبھى كبھى ان كو امام (ع) كى زيارت كا بھى شرف حاصل ہوتا _

326
غيبت كبري:
غيبت صغرى كا زمانہ گذر جانے كے بعد غيبت كبرى كا آغاز ہوا جوا بھى تك جارى ہے يہ غيبت دنيا ميں انسانوں كے امتحان كا ذريعہ اور ايمان و عمل كے لئے ميزان قرار پائي_غيبت كے دونوں زمانوں كے بارے ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ غيبت كبرى كا زمانہ اچانك اور ناگہانى آجاتا تو ممكن ہے كہ افكار كے انحراف كا سبب بن جاتا اور اذہان اس كو قبول كرنے كے لئے آمادہ نہ ہوتے ليكن ''نواب خاص ''كے توسط سے شيعوں كا امام(ع) سے رابطہ اور ان ميں سے بعض كى ''غيبت صغري''كے زمانہ ميں امام كى بارگاہ ميں شرفيابى نے آپ كى ولادت اور حيات كے مسئلہ كو زيادہ مستحكم اور افكار كو غيبت كبرى كے قبول كرنے كيلئے آمادہ كرديا(23)

غيبت صغرى ميں امام _كے معجزات:
غيبت صغرى كے زمانہ ميں امام (ع) كى طرف سے ان كے خاص نائبين كے ذريعہ بہت سے كرامات و معجزات ظاہر ہوئے جو آپ كے شيعوں اور پيروؤں كے ايمان كے استحكام كا سبب بنے يہ معجزات كثرت سے ہيں كہ شيخ طوسى كے بقول ان كو شمار نہيں كيا جا سكتا(24)
بطور نمونہ چند معجزات ملاحظہ ہوں
1_ ''عيسى ابن نصر'' نقل كرتے ہيں كہ '' على ابن زياد صميرى '' نے امام (ع) كے لئے خط لكھا اور آپ سے كفن كى درخواست كى ، تو جواب آيا تم كو 80 سال ميں ( 280 ہجرى ميں يا 80 سال كى عمر ميں ) اس كى ضرورت پڑے گي_ اور انہوں نے اسى سال انتقال فرمايا جس سال كا امام (ع) نے فرمايا تھا _ ان كے انتقال سے پہلے امام (ع) نے ان كے لئے كفن بھيجا _ 25
2_ '' محمد بن شاذان'' نقل فرماتے ہيں كہ 480 درہم مال امام (ع) (خمس) ميرے پاس تھا_ اس ميں اپنے مال سے بيس درہم ميں نے اور شامل كرديئےور محمد ابن جعفر 26 كے ذريعے امام (ع) كى

327
خدمت ميں ارسال كرديئے_ ليكن بيس درہم كا اضافہ كرنے كے بارے ميں، ميں نے كچھ نہيں لكھا امام (ع) كے پاس سے پيسوں كى رسيد ميرے پاس پہنچى اس ميں لكھا تھا_ پانچ سو درہم جس ميں 20 درہم تمہارے مال سے تھے مجھ تك پہنچ گئے_ 27
3_ '' على ابن محمد سمري'' نقل فرماتے ہيں كہ امام كى طرف سے ايك فرمان پہنچا اس ميں آپ نے شيعوں كو كربلا اور كاظمين ميں ائمہ كى قبروں كى زيارت سے منع فرمايا تھا_ ابھى كچھ دن نہيں گذرے تھے كہ خليفہ كے وزير نے '' باقطاني'' كو بلايا اس سے كہا كہ بنى فرات سے _ جو وزير كے وابستگان ميں سے تھے سے كہے كہ اہل بَرَس سے ملاقات كريں اور ان سے كہيں كہ وہ لوگ مقابر قريش كى زيارت نہ كريں اس لئے كہ خليفہ نے حكم ديا ہے كہ مامور افراد ہوشيار رہيں اور جو بھى ائمہ (ع) كى زيارت كے لئے جائے اس كو گرفتار كرليں_ 28

امام عصر (ع) كے نائبين
غيبت صغرى يا كبرى كسى دور ميں بھى امام (ع) كا لوگوں سے رابطہ بالكل ختم نہيں ہوا تھا بلكہ سفراء اور '' نواب'' كے ذريعہ شيعوں سے آپ كا رابطہ برقرار تھا اور ہے_
جس طرح غيبت امام (ع) كے دو حصے ہيں اسى طرح آپ كى نيابت كى بھى دو صورتيں ہيں، غيبت صغرى ميںنيابت خاصہ اور غيبت كبرى ميں نيابت عامہ_
نيابت خاصہ يہ ہے كہ امام (ع) خاص افراد كو اپنا نائب قرار ديتے ہيں اور ان كے نام و علامت كا تعارف كرديتے ہيں _ اور نيابت عامہ يہ ہے كہ امام (ع) ايك ايسا كلى ضابطہ ہمارے ہاتھوں ميں دے ديتے ہيں كہ ہم ہر زمانہ ميں ايك يا كئي افراد جن پر ہر جہت سے وہ ضابطہ صادق آتا ہے، نائب امام (ع) كى حيثيت سے پہنچانے جاتے ہيں_

328
الف _ نائبين خاص
امام (ع) عصر كے خاص نائبين چار تھے_ 29

1_ عثمان ابن سعيد
ابوعمرو، عثمان ابن سعيد عمري، حضرت مہدى (عج) كے پہلے خاص نائب اور عسكريين عليہما السلام كے مورد وثوق اصحاب ميں سے تھے اور ان دونوں كے وكيل بھى تھے_ امام ہادى (ع) اور امام حسن عسكرى (ع) دونوں ہى كى طرف سے ان كى توثيق و تمجيد ہوچكى ہے_
احمد ابن اسحاق قمى نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام ہادى (ع) سے عرض كيا كہ ميں كبھى حاضر رہتا ہوں اور كبھى غائب، جب حاضر رہتا ہوں اس وقت بھى ميں ہميشہ آپ كى خدمت ميں نہيں پہنچ سكتا تو ايسى صورت ميں كس كى بات كو قبول كيا جائے اور كس كے حكم كى اطاعت كى جائے آپ نے فرمايا: '' ابوعمرو'' '' عثمان ابن سعيد'' ثقہ اور امين ہيں يہ جو كچھ بيان فرمائيں گے ميرى طرف سے بيان فرمائيں گے اور جو كچھ تم تك پہنچائيں گے، ميرى طرف سے پہنچائيںگے_''
احمد ابن اسحاق فرماتے ہيں: ميں امام ہادى (ع) كى رحلت كے بعد امام حسن عسكرى (ع) كے پاس گيا اور ميں نے وہى بات كہى ( جو اس سے پہلے عرض كرچكا ہوں) آپ نے پھر فرمايا:'' ابوعمرو، ميرے اور ميرے والد كے لئے امين ہيں ميرى زندگى ميں اور ميرے مرنے كے بعد قابل اطمينان ہيں_ يہ جو كہيں گے وہ ميرى طرف سے كہيں گے اور جو پہونچائيں وہ ميرى طرف سے پہنچائيں گے_ 30
گيارہويں امام (ع) كى رحلت كے بعد اور مسئلہ غيبت پيش آنے سے پہلے '' عثمان ابن سعيد'' امام مہدى كے طرف سے نيابت كے عہدہ پر فائز ہوئے امام _اور شيعوں كے درميان رابط بنے_31

329
2_ محمد ابن عثمان
260 ھ ق ميں اپنے انتقال سے پہلے عثمان بن سعيد نے اپنے بيٹے '' محمد '' كو امام (ع) زمانہ كے حكم سے اپنے جانشين اور نائب امام (ع) كى حيثيت سے پہچنوايا _32
ابوجعفر محمد ابن عثمان بھى اپنے والد كى طرح امام حسن عسكرى اور امام مہدى عليہما السلام كے لئے مورد اطمينان تھے_
'' عبداللہ ابن جعفر حميرى '' نقل فرماتے ہيں كہ جب عثمان ابن سعيد كا انتقال ہوگيا تو امام (ع) كا خط آيا جس ميں ابوجعفر '' محمد ابن عثمان'' اپنے والد كى جگہ امام كے نائب مقرر كئے گئے تھے_33
محمد ابن عثمان نے اپنى وفات سے پہلے اپنى موت كى خبر دى 34اور بزرگان شيعہ كے ايك گروہ كى موجودگى ميں انہوں نے حسين ابن روح نوبختى كو امام كے امور كے لئے اپنے جانشين كے عنوان سے تعارف كرايا اور كہا :'' وہ ميرے قائم مقام ہيں تم ان كى طرف رجوع كرو'' _
محمد ابن عثمان 305 ھ ق ميں انتقال فرما گئے 35 اور ان كى نيابت كى مدت 45 سال رہي_

3_ حسين ابن روح
امام كے تيسرے سفير '' ابوالقاسم حسين ابن روح نوبختى '' تھے جو كہ بزرگى اور مخصوص عظمت كے حامل تھے نيز عقل و بينش و تقوى و فضيلت ميں مشہور تھے_
يہ محمد ابن عثمان كے مورد اعتماد اور ان كى جانب سے كچھ امور كے ذمہ دار تھے_36
'' محمد ابن عثمان'' كے لئے قابل اطمينان افراد ميں سے ايك جعفر ابن احمد قمى '' تھے جو دوسروں سے زيادہ محمد سے متعلق رہے_ اتنے قريب تھے كہ كچھ لوگوں نے يہ سمجھ ركھا تھا كہ '' محمد ابن عثمان '' كے بعد انہيں كو نائب بنايا جائے گا_37
جب '' محمد ابن عثمان'' كے انتقال كا وقت قريب پہونچا تو ان كے سرہانے '' جعفر ابن احمد''

330
اور پائنتى '' حسين ابن روح'' بيٹھے ہوئے تھے محمد ابن عثمان نے جعفر ابن احمد كى طرف رخ كيا اور كہا كہ '' مجھے اس بات كا حكم ديا گيا ہے كہ تمام امور كو ابوالقاسم حسين ابن روح كے حوالہ كردوں_
'' جعفر ابن احمد'' اپنى جگہ سے اٹھے انہوں نے حسين ابن روح كے ہاتھوں كو پكڑ كر محمد كے سرہانے بٹھايا اور خود پائنتى بيٹھ گئے_38
حسين ابن روح نے تقريباً 21 سال نيابت كے منصب كى ذمہ دارى بنھائي اور اپنى وفات سے پہلے انہوں نے امام(ع) كے حكم سے نيابت كے امور كو '' على ابن محمد سمري'' كے حوالہ كرديا اور 326 ھ ق ميں انتقال فرماگئے_39

4_ على ابن محمد سمري
امام زمانہ كے چوتھے اور آخرى سفير ابوالحسن على ابن محمد سمرى بزرگ اور جليل القدر تھے كہ صاحب '' تنقيح المقال'' كے قول كے مطابق محتاج توصيف نہيں_''40
انہوں نے بزرگوں كى ايك جماعت سے فرمايا:'' خدا تم كو على ابن بابويہ قمى '' كى مصيبت پر اجر عنايت فرمائے، ان كا انتقال ہو چكا ہے_
ان لوگوں نے اس وقت دن اور مہينہ ياد ركھا اور 17 يا 18 روز بعد خبر پہنچى كہ اسى وقت على ابن بابويہ'' كا انتقال ہوا تھا_41
'' على ابن محمد'' 329 ھ ق ميں انتقال فرماگئے ان كى وفات سے پہلے شيعوں كا ايك گروہ ان كے پاس آيا اور ان كے جانشين كے بارے ميں سوال كيا، آپ نے فرمايا: مجھے اس كے متعلق كوئي وصيت نہيں كى گئي ہے_42 اس كے بعد انہوں نے اس توقيع مبارك كے بارے ميں بتايا جو امام (ع) كى طرف سے صادر ہوئي تھي_ اس كا مضمون كچھ اس طرح تھا_
'' بسم اللہ الرحمن الرحيم _ اے على ابن محمد سمرى خداتمہارے غم ميں تمہارے بھائيوں كو جزائے

331
عظيم عطا كرے، تم چھ روز كے بعد مرجاؤگے لہذا اپنے امور سے جلد فارغ ہونے كى كوشش كرو اور كسى كےابارے ميں وصيت نہ كرنا كہ تمہارے بعد وہ تمہارا جانشين ہو، اب غيبت كبرى كا زمانہ آگيا ہے اور اس وقت تك ظہور نہيں ہوگا جب تك خداوند متعال اجازت نہ دے ...''
چھٹے دن جناب سمرى اس دنيا سے رخصت ہوگئے_43

ب_ عام نائبين
امام (ع) كے آخرى سفير '' على ابن محمد سمري'' كے انتقال كے بعد غيبت كبرى كا زمانہ شروع ہوا ہرچند كہ امام مہدي(عج) كى طرف سے كوئي خاص نائب معين نہيں تھا_ ليكن آپ كى اور بقيہ ائمہ كى طرف سے ضوابط اور معيار كا ايك سلسلہ موجود ہے تا كہ لوگ اس معيار سے آگاہى حاصل كركے ہرزمانہ ميں اس فرد سے رجوع كركے اپنے مسائل كے جوابات معلوم كريں جس كے اندر شرطيں پائي جاتى ہوں اس لئے كہ ان كى نظر مہارت اور روايات كى بنا پر حجت ہے_
مرحوم شيخ طوسى و صدوق و طبرى نے اسحاق ابن يعقوب سے نقل كيا ہے كہ حضرت مہدي_نے ( غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كے فرائض كے بارے ميں) فرمايا ;
'' اما الحوادث الواقعہ فارجعوا فيہا الى رواة حديثنا فانّہم حجتى عليكم و انا حجة اللہ عليہم'' 44
آنيوالے حوادث و واقعات ميں ہمارى حديثيں بيان كرنے والوں كى طرف رجوع كرو _ اس لئے كہ وہ لوگ تمہارے اوپر ہمارى حجت اور ہم ان كے اوپر خدا كى حجت ہيں_
نيز امام حسن عسكرى (ع) ، امام جعفر صادق(ع) سے ايك روايت كے ضمن ميں بيان فرماتے ہيں:
'' اما من كان من الفقھاء صائنا لنفسہ حافظاً لدينہ مخالفاً لہواہ مطيعاً لامر مولاہ فللعوام ان يقلّدوہ ...''45
'' فقہاء ميں سے جو اپنے نفس كو بچانيوالا اپنے دين كا نگہبان اپنے ہوا و ہوس كا مخالف اپنے مولا ( ائمہ ) كے فرمان كا مطيع ہو تو لوگوں پر لازم ہے كہ اس كى تقليد كريں_''

332
اس طرح اسلامى معاشرہ كى رہبرى اور مسلمانوں كے امور كا حل اور ان كا فيصلہ '' غيبت كبرى '' كے زمانہ ميں '' ولى فقيہ'' كے ہاتھوں ميں آيا_ ولى فقيہ امام زمانہ كى نيابت ميں '' ولايت شرعيہ'' كا مالك ہے_ اسلامى معاشرہ كى مشروعيت اور حكومت ذمے قانون كا لازم الاجراء ہونا اس كى تائيد او ر نفاذ سے متعلق ہے اس كے حكم كى مخالفت امام(ع) كے حكم كو رد كرنا ہے اور امام _ كے حكم كو رد كرنا خدا اور حكم خدا كو رد كرنا ہے_46

ديدار مہدى _
غيبت صغرى كے زمانہ ميں ان چار مخصوص نائبين كے علاوہ جو امام كى خدمت ميں پہنچتے رہتے تھے كچھ دوسرے افراد بھى تھے جو ان چاروں كے توسط سے آپ كى خدمت ميں زيارت كا شرف پاتے تھے_
شيعہ بزرگ علماء نے اپنى كتابوں ميں ان لوگوں ميں سے بہت سے افراد كا نام بيان فرمايا ہے جنہوں نے غيبت صغرى كے زمانہ ميں امام (ع) كو ديكھا اور ان كے معجزات كو درك كيا ہے_ علماء نے ان ملاقات كرنے والوں ميں سے ہر ايك كے واقعہ اور قضيہ كو مختلف اسناد كے ساتھ ذكر كيا ہے_
اسى طرح ان بزرگوں ميں سے بعض افراد نے ان لوگوں كى داستان كو اپنى كتابوں ميں بيان كيا ہے جو '' غيبت كبرى '' كے زمانہ ميں آپ كى خدمت ميں پہنچے يا آپ كى كرامات و معجزات كو _ بيدارى يا خواب كے عالم ميں _ مشاہدہ كيا ہے ليكن چونكہ اس وقت اختصار مد نظر ہے اس لئے ان كے ذكر سے چشم پوشى كى جاتى ہے_47

333
سوالات:
1_ بارہويں امام (ع) كس تاريخ كو اور كہاں پيدا ہوئے؟
2_ امام (ع) عصر كى ولادت كو كيوں چھپايا گيا؟
3_ خواص سے امام حسن عسكرى (ع) كا اپنے بيٹے كى ولادت كو بتانے كا مقصد كيا تھا؟ ان ميں سے ايك نمونہ بيان كيجئے_
4_ غيبت صغرى و كبرى كى مدت، دونوں غيبتوں كے درميان تفاوت اور رابطہ كو بيان فرمايئے
5_ غيبت صغرى كے زمانہ كا امام (ع) عصر كا ايك معجزہ بيان فرمايئے
6_ غيبت صغرى كے زمانہ كے امام (ع) كے نائبين كا نام اور ان كى مدت نيابت بيان فرمايئے
7_ غيبت كبرى كے زمانہ ميں امام (ع) عصر كى نيابت كے مسئلہ كى نوعيت بتايئےور توضيح ديجئے_

334
حوالہ جات
1 كافى جلد 1/431'ارشاد مفيد/346'كمال الدين صدوق جلد2/430'بحار جلد1 باب 3ص 31'منتخب الاثر/320'الفصول المہمة/292'اعلام الوري/293'غيبت شيخ/258'اعيان الشيعہ جلد2/44
2 منتخب الاثر 183_182'كافى جلد 1/268
3 آپ كا نام سوسن 'صيقل اور ريحانہ بھى بتا يا گيا ہے _بحار جلد 51/5_15كمال الدين 2/32
4 ''انت سيدتى و سيدة اھلى ''بحار جلد 51/2''بل اخذمك على بصري''بحار جلد 51/12_منتخب الاثر /325'كمال الدين صدوق /424/427'اعيان الشيعہ جلد 2/46_
5 بحار جلد 51/10_8غيبت شيخ طوسى /128_124_كمال الدين صدوق جلد 2/423_ 417_ دلائل الامامہ طبرى /267/262_
6 ''اللھم انجزلى وعدى واتمم لى امرى و ثبت وطئتى و املا الارض بى عدلا و قسطاً''بحار جلد 51/14_12_26_25،كمال الدين صدوق جلد 2/247_438_
7 ان احاديث سے واقفيت كے لئے منتخب الاثر فصل دوم باب 25_34ملاحظہ ہو_
8 امام حسن عسكرى (ع) نے ايك حديث كے ضمن ميں اہل بيت سے بنى اميہ و بنى عباس كى مخالفت كى ايك وجہ اس مسئلہ كو قرار ديا ہے _
9 ''يا احمد ابن اسحاق لو لا كرامتك على اللہ و على حججہ ما عرضت عليك ابنى ھذا انّہ سمّى رسول اللہ و كنّيہ الذى يملا الارض قسطا و عدلا كما ملئت ظلماًو جوراً''_بحار جلد 52/24_23_كمال الدين صدوق جلد 2/384،كشف الغمہ مطبوعہ تبريزجلد2/526_
10 بحار جلد 52/26_25كمال الدين جلد 2/435،منتخب الاثر 355،كشف الغمہ جلد 3/527
11 منتخب الاثر /344_343،كمال الدين صدوق جلد 2/434_433_
12 خصوصيات حضرت مھدى كے بارے ميں زيادہ معلومات كے لئے ملاحظہ ہو منتخب الاثر از باب چہارم تا باب 25، اعيان الشيعہ جلد 2/44،غيبت نعمانى باب 13/312كشف الغمہ جلد 3/464_370_
13 ''يسيل شعرہ على منكبيہ ''اعيان الشيعہ جلد 2/44،منتخب الاثر /185،كشف الغمہ مطبوعہ تبريزجلد2/464_
335
14 ارشاد مفيد /340كمال الدين صدوق جلد1/43،بحار الانوارجلد 50/328_
15 يہ جعفر وہى ہيں جو بعد ميں جعفر كذاب كے نام سے مشہور ہوئے_
16 ''تاخر يا عم فا نا احق بالصلوة على ابي''
17 بحار جلد 50/332_333_
18 كمال الدين مرحوم صدوق جلد 1/ 43 مطبوعہ جامعہ مدرسين_
19 بہ ياد دلادينا ضرورى ہے كہ اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ تمام لوگ اس گناہ ميں آلودہ ہيں بلكہ اس سے مراد نصاب كى وہ حدہے جو امام (ع) كے ظہور كے لئے ضرورى ہے _ ورنہ بہت سے نيك افراد ہميشہ ظہور كے لئے آمادہ رہے ہيں اور آج بھى آمادہ ہيں_
20 سورہ رعد /11_
21 ''اما سبب غيبتہ فلا يجوز ان يكون من اللہ سبحانہ و لا منہ كما عرفت فيكون من المكلفين و ہو الخوف الغالب الغالب و عدم التمكين و الظہور يجب عند زوال السبب'' رسالہ امامت فصل سوم ص 25 منقول از نويد امن و امان 190 چونكہ غيبت ولى عصر كے اسرار و علل كى بحث عقيدہ كى بحث ہے اس لئے اس كے اسرار و علل كى تحقيق اس رسالہ كى ذمہ دارى سے الگ ہے يہاں جس كى طرف اشارہ ہوا ہے، وہ اس عہد كے سياسى اور تاريخى حالات تھے_
22 شيخ مفيد اپنى كتاب ارشاد ص 346 پرغيبت صغرى كے آغاز كو ولادت كے موقع سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ '' غيبت صغرى ولادت مہدى (ع) كے زمانہ سے سفارت كے زمانہ كے اختتام اور آخرى سفير كى رحلت تك ہے اس حساب سے غيبت صغرى كا زمانہ 75 سال ہوتاہے _
23 بلكہ كہا جاسكتاہے كہ غيبت كبرى كيلئے لوگوں كو آمادہ كرنے كا كام امام ہادى (ع) بلكہ امام جواد (ع) كے زمانہ سے شروع ہوچكا تھا اور وہ لوگ زيادہ تر خط و كتابت كے ذريعہ شيعوں سے رابطہ ركھتے تھے اور ان كا ارتباط غيبت صغرى كے زمانہ كے ارتباط كے مشابہ تھا تا كہ لوگ غيبت كبرى كيلئے ضرورى آمادگى پيدا كرليں_
24 غيبت شيخ / 170_
25 بحار جلد 51/ 312، ارشاد مفيد /356، غيبت شيخ /172، منتخب الاثر /390 كشف الغمہ مطبوعة تبريز جلد 2/456
26 شيخ نے اپنى رجال ميں ايك باب كے عنوان ميں ان كا نام ليا ہے'' رجال طوسى باب لم يروعن الائمہ /496 / مجمع الرجال جلد 5/177_
336
27 بحار جلد 51/325، ارشاد مفيد /356_355 دلائل الائمہ طبرى /286، منتخب الاثر /382_ غيبت شيخ /258، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 2/456_
28 وزير كا نام ابوالفتح فضل بن جعفر فرات تھا اور وہ بنى عباس كے وزراء ميں سے تھا_ ''برس'' حلہ اور كوفہ كے درميان ايك قريہ ہے، مقابر قريش سے مراد '' كاظمين'' ہے بحار جلد51/312 غيبت شيخ /172، ارشاد مفيد /356، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 2/456_
29 البتہ ان چار افراد كے علاوہ دوسرے وكلاء بھى مختلف شہروں ميں تھے جو ان ہى چار افراد كے ذريعہ لوگوں كے مسائل كو امام كى خدمت ميں پہنچاتے تھے اور مرحوم سيد محسن امين كے اقوال كے مطابق ان چار افراد كى سفارت عام اور مطلق تھى ليكن دوسرے افراد بھى جيسے محمد ابن جعفر اسدي، احمد ابن اسحاق اشعري، ابراہيم ابن محمد ہمداني، احمد ابن حمزہ بن اليسع كو خاص موارد ميں نيابت حاصل تھي_ اعيان الشيعہ جلد 2/48_
30 بحار جلد 51/344، غيبت شيخ /215، اعيان الشيعہ ج 2/47 ، منتخب الاثر /393، الكنى و الالقاب جلد3/267_266، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين /139_
31 بحار جلد 51/346_
32 بحار جلد 51/349، غيبت شيخ /220، 218_اعيان الشيعہ جلد 2/47_
33 بحار جلد 51/349، غيبت شيخ /220، 218، اعيان الشيعہ جلد 2/47_
34 بحار جلد 51/352، الكنى و الالقاب جلد 3/268، غيبت شيخ /222، اعيان الشيعہ جلد 2/47_
35 بحار جلد 51/352، غيبت شيخ /223، اعيان الشيعہ جلد 2/47، الكنى و الالقاب جلد 3/268_
36 اعيان الشيعہ جلد 2/48، غيبت شيخ /227_
37 بحار ج 51/354_ 353، غيبت شيخ /226، اعيان الشيعہ ج 2/48_47_
38 بحار جلد 51/354_ 353، غيبت شيخ /226، اعيان الشيعہ ج 2/48_47 ، اس سلوك سے پتہ چلتا ہے كہ يہ لوگ معرفت، ايمان اور تسليم و رضا ميں ايسے كامل تھے كہ ہميشہ اور تمام امور ميں اپنے امام كے سامنے سر تسليم خم كرديتے تھے_
39 بحار ج 51/358، اعيان الشيعہ ج 2 ص 48_
40 تنقيح المقال جلد 2/305، ''ثقتہ و جلالتہ اشہر من ان يذكر و اظہر من ان يحرّر''_
41 بحار جلد 51/361، جلد 52/151، غيبت شيخ /243، الكنى و الالقاب جلد 3/266، اعيان الشيعہ جلد 2/48،
337
منتخب الاثر /399، تنقيح المقال جلد 2/305_
42 بحار جلد 51/360، منتخب الاثر /400_
43 اعيان الشيعہ جلد 2/47، بحار جلد 51/361، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 2/530، منتخب الاثر /99، تنقيح المقال جلد 2/305_
44 كمال الدين جلد 2/484، غيبت شيخ /177، احتجاج طبرسى جلد 2/470، مطبوعہ بيروت ،وسائل الشيعہ جلد 18/101، كتاب البيع للامام الخمينى جلد 2/474، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 2/531، بحار جلد 53/181، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين/139_
45 احتجاج طبرسى بيروت جلد 2/458، وسائل الشيعہ جلد 18/195، سفينة البحار جلد 2/381، رسائل شيخ انصارى مطبوعہ جامعہ مدرسين /141_
46 مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے ذيل ميں امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ : ''فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانما استخف بحكم اللہ و علينا ردّ و الراد علينا الرّاد على اللہ و ہو على حد الشرك باللہ'' وسائل جلد 18/99، كافى جلد 1/54، كتاب فضل العلم باب اختلاف الحديث حديث 10 ، تہذيب جلد 6/218 و 301 ، كتاب لبيع للامام الخمينى جلد 2/476، فروع كافى جلد 7/42 حديث 5 باب كراھية ''الارتفاع الى قضاة الجور''_
47 تفصيلى معلومات كے لئے ملاحظہ ہو، اعلام الورى /425، النجم الثاقب /211_209، بحار جلد 51 باب اول، جلد 52، باب 18،19،23 و جلد 53/200 _ 335_ منتخب الاثر فصل چہارم باب اول و فصل پنجم باب دوم و كتاب تبصرة الولى فيمن را ى القائم المہدى تاليف علامہ سيد ہاشم بحراني، كشف الغمہ جلد 2/533، دلائل الامامہ طبري/306_295_