293
چودہواںسبق:
امام حسن عسكرى (ع) كي
سوانح عمري
295
ولادت
شيعوں كے گيا رہويں امام 10 ربيع الثانى 232 ھ ق كو مدينہ ميں پيدا ہوئے (1)آپ كا نام حسن ، كنيت ابومحمد اور سب سے زيادہ مشہور لقب عسكرى تھا _ آپ كے والد بزرگوار امام ہادى _اور مادر گرامى ''حديث '' تھيں(2)
امامت كى تعيين
بار ہويں امام (ع) تك تمام ائمہ كا عام روايتيں تعارف كراتى ہيں ان كے علاوہ امام ہادى _نے ہر طرح كے ابہام كو دور كرنے اور تاكيد كے لئے اپنے فرزند ارجمند امام حسن (ع) كا تعارف اپنے شيعوں كے درميان امام اور پيشوا كى حيثيت سے كرايا _ ان ميں سے كچھ تصريحات كى طرف يہاں اشارہ كيا جارہا ہے_
1_ ''ابوہاشم جعفرى '' امام ہادى _سے نقل كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا : ميرے جانشين ميرے بيٹے حسن (ع) ہيں ، ميرے جانشين كے ساتھ كس طرح رہوگے ؟ميں نے عرض كيا كہ كيسے رہنا چاہيے ،ميں آپ پرنثار ہوجاؤں ؟
آپ نے فرمايا : جب كوئي شخص ان كو نہ ديكھے تو اس كے لئے درست نہيں ہے كہ انكے نام كا ذكر كرے _
ميںنے پوچھا:پھر ان كو ہم لوگ كيسے پكاريں گے ؟آپ نے فرمايا :تم كہنا'' الحجة من
296
آل محمد''(3)
2_ ''صقر بن دلف '' كہتے ہيں كہ ميں نے امام ہادى _كو فرماتے ہوئے سنا كہ: بيشك ميرے بعد ميرا بيٹا ''حسن(ع) '' امام ہے اور ان كے بعد ان كے بيٹے ''قائم'' ہوں گے يہ وہ ہيں جو زمين كو ظلم جور سے پر ہونے كے بعد عدل و انصاف سے بھر ديں گے _(4)
3_ ''يحيى بن يسار قنبري'' نقل كرتے ہيں كہ امام ہادى _نے اپنى رحلت سے چار مہينہ پہلے اپنے بيٹے امام حسن (ع) سے وصيت كى اور ان كى امامت و خلافت كى طرف اشارہ فرمايا مجھ كو اور كچھ دوستوں كو اس پر گواہ قرار ديا_(5)
والد بزرگوار كے ساتھ
امام حسن عسكرى (ع)نے اپنى عمر كے 22 سال اپنے پدربزرگوار كے دامن تربيت ميں گذارے_ دو سال كى عمر ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ سامرا تشريف لے گئے اور بيس سال كى اس تمام مدت ميں آپ امام ہادى _كى خدمت ميں تھے ، خلفاء بنى عباس نے آپ كے كردار اور روابط كى نگرانى كى ، بنى عباس كے حكمرانوں خصوصاً متوكل كى خاندان على (ع) اور خاص كر آپ كے والد امام ہادى _كے ساتھ برتے جانے والے مظالم اور كينہ توزى كو امام حسن عسكرى (ع)نے بہت قريب سے مشاہدہ فرمايا _
امام حسن عسكرى (ع)اس طويل مدت ميں اپنے والد كے مددگار ان كے موقف كے پشت پناہ رہے _ ليكن'' عسكريين'' عليہما السلام كو خلفاء بنى عباس نے چونكہ حدسے زيادہ محدود كرديا تھا اس لئے ان دونوں بزرگوار وں كى سياسى اورمبارزاتى زندگى كے متعلق ابہام پايا جاتاہے اسى وجہ سے ہم ديكھتے ہيں كہ تاريخ ،امام حسن عسكرى (ع)كى كوششوں اور ان كے موقف كے بارے ميں خاموش ہے _
297
اخلاقى خصوصيات و عظمت
امام حسن عسكرى (ع) معنوى فضل و كمالات ميں پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور اپنے تمام اسلاف كے مكمل آئينہ دار تھے چنانچہ ہر دوست و دشمن آپ كى اخلاقى عظمت و خصوصيات كا معترف تھا_
حسن ابن محمد اشعرى ، محمد بن يحيى اور كچھ دوسرے لوگوں نے نقل كيا ہے كہ ايك دن احمد ابن عبداللہ خاقان (6)_ قم كى زمينوں اور خراج كا نگران _ كى نشست ميں علويوں اور ان كے عقائد كا تذكرہ چل رہاتھا _ احمد ابن عبداللہ نے _ جو اہل بيت كے سخت ترين دشمنوں اور ناصبيوں ميں سے تھا _ كہا ''كردار، وقار، عفت، نجابت، فضيلت اور عظمت ميں ،ميں نے اپنے خاندان اور بنى ہاشم ميں حسن بن على _جيسا كسى كو نہيں ديكھا ،ان كا خاندان ان كو سن رسيدہ اورمحترم شخصيتوں پر مقدم ركھتا تھا اور لشكر كے صاحب حيثيت افراد، وزراء اور ديگر افراد كے نزديك بھى ان كا يہى مقام تھا _
اس كے بعد وہ اپنے باپ سے امام حسن عسكرى كى ملاقات كا واقعہ_ جو اس كے باپ كے نزديك آپ كى عظمت و بزرگى كا حاكى ہے _ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے :
ميرے باپ نے امام حسن عسكرى (ع)كے بارے ميں مجھ سے كہا: ''اگر خلافت بنى عباس كے ہاتھ سے نكل جائے تو مقام خلافت كو بچانے كے لئے بنى ہاشم ميں سے ان سے زيادہ كوئي مناسب نہيں ہے اور يہ بات ان كى فضيلت ،عفت،زھد،عبادت اور نيك اخلاق كى بناپر ہے _ اگر تم نے ان كے والد كو ديكھا ہوتا تو تم كو ايك بزرگ اور بافضيلت انسان كى زيارت كا شرف حاصل ہوتا''_(7)
298
امام حسن عسكرى (ع) كا زھد
''مفوّضہ''(8)ميں سے كچھ لوگوں نے ''كامل بن ابراہيم مدنى '' كو چند مسائل پوچھنے كے لئے امام (ع) كى خدمت ميں بھيجا ان كا بيان ہے كہ ''جب ميں آپ كى خدمت ميں پہنچا تو ميں نے ديكھا كہ سفيد اور لطيف لباس آپ كے جسم پرہے ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ ولى اور حجت خدا نرم اور لطيف لباس پہنتے ہيں اور ہم كو دوسرے بھائيوں كے ساتھ ہمدردى كا حكم ديتے ہيں اور ايسے لباس پہننے سے روكتے ہيں _
امام(ع) مسكرائے پھر اپنى آستين چڑھائي ،ميں نے ديكھا كہ كھر درا اور كالالباس (اس لباس كے نيچے )پہنے ہوئے ہيں _ پھر آپ نے فرمايا :''ھذا لللہ و ھذالكم'' يہ _ كھر درالباس _ خدا كے لئے اور يہ نرم و سفيد لباس جو ميں نے اس كے اوپر پہن ركھا ہے _ تمہارے لئے ہے _(9)
عبادت اور بندگي
اپنے والد بزرگوار كى طرح امام حسن عسكرى (ع)بھى خداكى عبادت اور بندگى كا بہترين نمونہ تھے _
''محمد شاكرى '' نقل كرتے ہيں كہ امام (ع) كا طريقہ يہ تھا كہ محراب عبادت ميں بيٹھ جاتے اور سجدہ ميں چلتے جاتے ،ميں سوجاتا تھا اور پھر جب بيدار ہوتا تھا تو ديكھتا كہ امام اسى طرح سجدہ كى حالت ميں ہيں _ (10)
جب امام (ع) قيد خانہ ميں تھے اس زمانہ ميں بعض عباسيوں نے ''صالح بن وصيف'' _داروغہ زندان _كو سمجھايا كہ ان كے ساتھ سختى كرو _ اس نے اپنے آدميوں ميں سے دو نہايت شرير افراد كو اس كام كے لئے معين كيا ليكن وہ دونوں حضرت كے ساتھ رہ كر بدل گئے اور عبادت و نماز ميں بلند مقام پر پہنچ گئے _ داروغہ زندان نے ان كو بلايا اور كہا تم پروائے ہو تم اس شخص كے لئے ايسے
299
بن گئے ؟
انہوں نے كہا'' ہم اس شخص كے بارے ميں كيا كہيں جو دن كو روزہ ركھتا ہے ، پورى رات عبادت كے لئے كھڑا رہتا ہے كسى سے بات نہيں كرتا ،سوائے عبادت كے اس كا دوسرا كوئي كام نہيں ہے _ جب وہ ہم كو ديكھتا ہے تو ہمارا جسم لرزنے لگتا ہے اور اہم اپنا توازن كھوبيٹھتے ہيں(11)
جودو كرم
''على ابن ابراہيم ابن موسى ابن جعفر'' فرماتے ہيں كہ ايك زمانہ ميں ،ميں تہى دست ہوگيا تھا ميں نے اپنے بيٹے ''محمد'' سے كہا اس شخص كے پاس (امام حسن عسكرى (ع) ) چلاجائے جو، جود و كرم ميں مشہور ہے _
اور جب ميں امام _كى خدمت ميں پہنچا تو انہوں نے مجھ كو آٹھ سو درہم عطا فرمائے(12)
''ابوہاشم جعفرى '' نقل كرتے ہيں كہ ميں بہت تنگ دستى ميں مبتلا تھا _ميں نے امام حسن عسكرى (ع) سے مدد طلب كرنے كا ارادہ كيا ليكن مجھے بہت شرم آئي جب ميں گھر لوٹا تو اما م (ع) نے ايك خط كے ساتھ سو دينار ميرے لئے بھجوائے _ خط ميں لكھا تھا _ جب تم كو ضرورت ہو بغيرشرمائے مجھ سے مدد مانگ لينا انشاء اللہ جو مانگو گے ملے گا_(13)
زمانہ امامت
اپنے والد گرامى كے بعد امام حسن عسكرى (ع)نے 254ھ ق ميں منصب امامت كو سنبھالا آپ اپنى امامت كے قليل دور _چھ سال _ ميں خلفائے بنى عباس ميں سے تين خلفاء معتز (ايك سال) مھتدى (ايك سال) اورمعتمد(چارسال) كے ہمعصر رہے _
300
امام (ع) كے بارے ميں خلفاء كى سياست
آپ كے زمانہ كے تينوں خلفاء كى سياست وہى گندى سياست تھى جو پہلے خلفاء كى آپ كے بزرگوں كے ساتھ تھى _ سياست ،مامون كے زمانہ كے بعد اور بھى زيادہ شديد اور تكليف دہ ہو گئي جيسا كہ ديكھتے ہيں كہ تين اماموں يعنى امام جواد (ع) 25سال ،امام ہادى (ع) 41سال ، امام حسن عسكرى (ع) 28 سال، كى مجموعى زندگى 94 سال سے آگے نہيں بڑھتى _
ان اماموں كے ہم عصر خلفاء كا رويہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ وہ ائمہ كى كوششوں اور مبارزات سے بے حد خائف تھے اور انہوں نے انسانى معاشرہ كى ان روشن شعلوں كو اسى وجہ سے محدود كردياتھا اور ان كے اوپر كڑى نظر ركھّے ہوئے تھے _
اس در ميان امام حسن عسكري(ع) دوسرے دونوں ائمہ كى بہ نسبت زيادہ نظربندى اور نگرانى ميں تھے اس كى وجہ يہ تھى كہ :
1_ امام حسن عسكري(ع) كے زمانہ ميں اہل بيت كے پيرو ايك عظيم اور قابل توجہ طاقت كى صورت ميں ابھر كر سامنے آئے تھے ، وہ لوگ مسلسل قيام كرنے اور ''رضا ئے آل محمد'' كا نعرہ لگانے كى بناء پر عوام الناس كے خيالات كو خاندان رسالت كى طرف متوجہ كررہے تھے _ اور خاندان رسالت كى ممتاز شخصيت امام حسن عسكرى (ع)تھے_
معتز كے زمانہ ميں ، علويوں اور خاندان جعفر طيار و عقيل ميں سے سترسے زيادہ ايسے افراد كو قيد كركے سامرا لايا گيا جنہوں نے حجاز ميں قيام كيا تھا _(14)
2_ متواتر اخبار و روايات كے ذريعہ ان لوگوں كو معلوم تھا كہ مھدى موعود (ع) جو تمام باطل اور خود ساختہ حكومتوں كى بنياد كو ختم كرديں گے _ وہ نسل امام حسن عسكري(ع) سے ہوں گے _
خود امام حسن عسكرى (ع) كے بارے ميں خليفہ نے قتل كا ارادہ كيا اور ''سعيد حاجب ''كو حكم ديا كہ امام (ع) كو كوفہ لے جائے اور لوگوں كى نظروں سے دور ،راستہ ميں قتل كردے ليكن امام (ع) نے اپنے ايك
301
ايسے صحابى كے خط كے جواب ميں جو ايسى خبر سن كر تشويش ميں پڑگئے تھے لكھا كہ ''تين دن كے بعد سب كچھ ٹھيك ہو جائے گا(15)
اور تين دن كے بعد در بار عباسى كے تركوں نے _ جنہوں نے معتز كو اپنے لئے نفع بخش نہيں پايا ، حملہ كركے خلافت سے ہٹاكر ايك تہہ خانہ ميں قيد كرديا اوروہ وہيں مرگيا _(16)
معتز كے بعد 255ھ ق ميں مھتدى مسند خلافت پر پہنچا اس كى روش _ جيسا كہ تاريخ بيان كرتى ہے _ خلفائے بنى عباس كے در ميان ايسى تھى كہ خلفاء بنى اميہ كے درميان جيسى روش عمربن عبدالعزيز كى تھى _ اس نے لوگوں كى فرياد رسى كے لئے قبة المظالم'' نام كا خيمہ نصب كيا وہ وہاں بيٹھ جاتا تھا اور لوگوں كے مشكلات كو حل كيا كرتا تھا _ اسى طرح اس نے شراب كو حرام قرار ديا اور گانے بجانے سے گريز كيا (17)ليكن يہ ظاہرى اور منافقانہ باتيں تھيں اور اس ميں محض سياسى غرض پوشيدہ تھى امام حسن عسكرى (ع) كے ساتھ اس كا سخت رويہ اس بات كى بہترين دليل ہے ،امام _كو مدتوں قيد ميں ركھا يہاں تك كہ اس نے آپ كے قتل كا ارادہ كيا ليكن اس كو اجل نے موقع نہيں ديا اور وہ ہلاك ہوگيا_(18)
مھتدى اگر چہ حق و عدالت كى طرفدارى ظاہر كرتا تھا ليكن جو حق وہ چاہتا تھا وہ اسلامى اصولوں پر منطبق نہيں ہوتا تھا اسى وجہ سے اس كى روش عمومى تنفر اور ملامت كا نشانہ قرار پائي _
امام(ع) اور ان كے پيرو دونوں ہى اسلام كے نگہبان اور سماجى حق و انصاف قائم كرنے والے تھے _
امام كى نظر ميں معاشرہ كى بنيادى مشكل يہ نہيں تھى كہ مھتدى قابض تھا، بلكہ بنيادى مشكل يہ تھى كہ رہبرى اپنى اصلى روش سے منحرف ہوگئي تھى اور لوگ اسلامى تعليم و تربيت و ثقافت سے دور ہوگئے تھے_
جو دربارى اور دربار خلافت سے وابستہ افراد لہو و لعب اور عياشى سے انس پيدا كرچكے تھے ان كے لئے بھى مھتدى كا رويہ بڑا گراں تھا_
302
ان دونوں باتوںكى وجہ سے اس كى خلافت گيارہ مہينہ سے زيادہ نہ چل سكى اور آخر كار تركوں كى شورش سے وہ قتل كرديا گيا _اور اس كى جگہ ''معتمد''خليفہ بنا(19)
معتمد كا بھى اپنے اسلاف كى طرح سوائے ستمگرى اور عياشى كے اور كوئي كام نہ تھا وہ اپنا زيادہ تر وقت عياشى ميں گذار تا تھا_ يہاں تك كہ اس كا بھائي ''موفق'' رفتہ رفتہ سارے امور پر مسلط ہوگيا _ اور اس نے سارے امور اپنے ہاتھوں ميں لے لئے _(20)
اس كى حكومت كے زمانہ ميں علويوں كا ايك گروہ نہايت بے دردى سے شہيد كرديا گيا اس كى خلافت كے زمانہ ميں جنگ و فساد بہت تھا_ اتنا خون خرابہ كہ مسلمانوں كے جانى نقصان كى تعداد مورخين نے 15 لاكھ افراد لكھى ہے_(21)
معتمد نے امام حسن عسكرى (ع)كو قيد خانہ ميں ڈال ديا اور داروغہ زندان سے ہميشہ آپ (ع) كے بارے ميں پوچھا كرتاتھا اور وہ ہميشہ يہى رپورٹ ديتا تھا كہ دن ميں روزہ ركھتے ہيں اورراتوں كو نماز و عبادت ميں گذارتے ہيں_(22)
شورشيںاور انقلابات
علويوں اور غير علويوں كى شورشوں اور انقلابات كا سلسلہ امام حسن عسكرى (ع) كى امامت كے زمانہ ميں بھى جارى تھا ان ميں سے نمونہ كے طور پر كچھ انقلابات كا ذكر كيا جاتا ہے _
1_''ابراھيم بن محمد علوى ''كى تحريك جو ''ابن صوفي'' كے نام سے مشہور تھے _ انہوں نے 256ھ ق ميں مصر ميں قيام كيا اور شہر ''اسنا'' پر قبضہ كرليا _''احمد ابن طولون'' كے سپاہيوں كو شكست ديدى ليكن دوسرى بار اس كے لشكر سے شكست كھا گئے _ اور بہت نقصان اٹھانے كے بعد بھاگ كر رو پوش ہوگئے _ پھر 259ھ ق ميں دوبارہ قيام كيا اور لوگوں كو اپنے گرد جمع كيا _نتيجتاً مكہ پہنچنے كے بعد اس شہر كے حاكم كے ذريعہ گرفتار ہوئے اور ابن طولون كے پاس بھيجے گئے _پھر قيد
303
كرديئے گئے زندان سے رہائي كے بعد مدينہ لوٹے اور وہيں انتقال كيا _(23)
2_'' على ابن زيد علوى '' كى تحريك :آپ نے 254ھ ق ميں كوفہ ميں قيام كيا اور شہر پر قبضہ كركے حكومت كے نمائندہ كو شہر سے نكال ديا _خليفہ كا لشكر متعدد باران سے لڑا آخر كار 257ھ ق ميں آپ قتل كرديئے گئے (24)
3_''عيسى ابن جعفر علوى '' كى تحريك :انہوں نے ''على ابن زيد'' كے ساتھ كوفہ ميں قيام كيا''معتز''نے ان سے جنگ كے لئے ايك لشكر بھيجا اور ان كو شكست دے دى _مسعودى نے 255ھ ق ميں ان كے قيام كا ذكر كيا ہے_(25)
4_''صاحب زنج'' كى شورش :255ھ ق ميں اس نے قيام كيا _ اس كى شورش ميں ہزاروں آدمى مارے گئے _ لوگوں كى عزت و ناموس پر اس كے سپاہيوں نے حملہ كيا _دسيوںشہروں ميں آگ لگادى گئي اس نے اپنے كو ''على ابن محمد''اور علوى بتايا وہ اپنا سلسلہ نسب ''على ابن حسين(ع) '' تك پہنچا تا تھا جبكہ وہ جھوٹا تھا _بلكہ اس كا سلسلہ نسب''عبد قيس'' تك پہنچتا تھا اور اس كى ماں ''بنى اسد ابن حزيمہ ''سے تھي_(26)
صاحب زنج كا نعرہ غلاموں اور مزدوروں كى حمايت تھااسى وجہ سے اس كو صاحب زنج كہتے تھے _
اس كى شورش پندرہ سال تك چلتى رہى وہ 252ھ ق ميں قتل كرديا گيا (27)
5 _ خوارج كى شورش;252ھ ق سے''مساوربن الحميد'' كى رہبرى ميں خوارج كى شورش شروع ہوئي 263ھ ق تك اس كے انتقال كے بعد بھى چلتى رہى _مساور نے تھوڑے دنوں ميں عراق كے بہت سے شہروں پر قبضہ كرليااور اس نے خليفہ كو خراج اور ٹيكس بھيجنے سے انكار كرديا اور تمام معركوں ميں اس نے خليفہ كے سپاہيوں پر غلبہ حاصل كيا_(28)
6_''يعقوب ليث صفارى '' كا قيام: 262ھ ق ميں خراسان كے بہت سے لوگوں كے ساتھ انہوں نے قيام كيا اور بہت سى زمينوں پر تسلط حاصل كرليا _(29)
304
امام حسن عسكرى (ع)كى كوششيں اور موقف
حوادث كے مقابلہ ميں امام _كے اقدامات اور ان كى روش كو چار حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _
الف _ سياسى واقعات كے سلسلہ ميں امام _كا موقف
اپنے پدر بزرگوار كى طرح امام حسن عسكرى (ع)نے بھى اس سلسلہ ميں بڑا محتاط رويہ اختيار كيا حكومت كے مقابلہ ميں امام (ع) كے منفى رويہ نے ان كے احترام اور قدر و منزلت كا موقع فراہم كيا_
ايسى منزلت جس كو نزديك ترين درباريوں نے بھى سمجھ ليا تھا _ اس طرح كہ ''عبيداللہ ابن خاقان '' سے امام (ع) كى ملاقات والے واقعہ سے وہ محض اس بات كى جانب متوجہ ہوگيا تھاكہ ''موفق''_ طلحہ ابن متوكل _ يہ چاہتا ہے كہ ان كے پاس آئے تو اس نے امام (ع) كو سمجھايا اور عرض كيا كہ آپ جب چاہيں تشريف لے جائيں ،چونكہ وہ جانتا تھا كہ موفق سے امام كى ملاقات ميں اس كے لئے بھى خطرہ ہے اور امام (ع) كے لئے بھى _(30)
بہت سے اہم واقعات جو آپ كى امامت كے زمانہ ميں دربار خلافت كو پيش آئے اور آپ نے ان ميں سكوت اختيار كيا_ ان ميں سے شورش ''صاحب زنج'' كا نام ليا جا سكتا ہے امام (ع) كے موقف سے واقفيت كے لئے ضرورى ہے كہ اس واقعہ پر تين پہلووں سے غور كيا جائے _
1_ صاحب زنج كا دعوى كہ اس كا سلسلہ نسب اميرالمومنين _تك پہنچتاہے_
2_ اسلامى قدروں اور اس كے قوانين كے خلاف اس كا قيام_
3_ حكومت بنى عباس كے خلاف اس كا قيام_
پہلى بات كے بارے ميں امام _نے نہايت واضح موقف اپنايا_ آپ نے فرمايا : ''صاحب الزنج ليس منّا اھل البيت ''(31)صاحب زنج ہمارے خاندان سے نہيں ہے_
305
دوسرے پہلو كے بارے ميں امام (ع) كا موقف بڑا واضح ہے _ جن جرائم كا ارتكاب صاحب زنج كررہا تھا آپ قطعى طور پر اس سے متنفر تھے _ كيونكہ اس كے سارے كام عدل اسلامى اور پيغمبر(ص) كى واقعى تعليمات كے خلاف تھے اور يہ بات ہر ايك پر روشن تھى اور اس سلسلہ ميں امام (ع) كے سكوت كى شايد يہى وجہ تھى كہ سب لوگ جانتے ہى ہيں _
ليكن تيسرى بات كے سلسلہ ميں امام (ع) نے كوئي خاص موقف اختيار نہيں فرمايااور ايسا راستہ اختيار كيا كہ ان كے اقدام كو حكومت كى ضمنى تائيد نہ شمار كيا جائے _ اگر چہ صاحب زنج كى شورش ميں ضعف اور بہت زيادہ انحراف موجود تھا ليكن سياسى نكتہ نظر سے يہ شورش بنى عباس كى حكومت كو كمزور كرنے اور ان كى طاقت اور نفوذ كو ختم كرنے كے لئے تھى ،اس كے ساتھ ساتھ صاحب زنج سے حكومت وقت كا ٹكراؤ ،امام (ع) اور ان كے پيرووں كے فائدہ ميں تھا اس لئے كہ خلافت كى مشينرى كا دباؤ كچھ كم ہوگيا تھا
ب:علمى اوروثقافتى تحريك ميں امام (ع) كا موقف
اگر چہ امام (ع) نے اپنى زندگى كا زمانہ حكومت كى نظر بندى ميں گذارا ليكن اس كے با وجود علمى اور ثقافتى پہلووں ميں بلند اور بيش قيمت قدم اٹھا نے ميں كامياب رہے كچھ علماء نے اس بارے ميں كہاہے كہ ''آپ سے نقل ہونے والے مختلف علوم و دانش نے كتابوں كے صفحات پر كرديئے(32)
كفر آميز افكار و شبھات كى رد ميں آپ كے استدلالى اور منطقى جوابات ،مناظرے ،علمى بحثيں، بيانات ،علمى خطوط ،تاليف كتاب (33) اور شاگردوں كى تربيت كے ذريعہ حق كو واضح كرنا ،آپ كى علمى اور ثقافتى كوششوں كى آئينہ دارہے _چونكہ ان تمام موارد كو ذكر كرنا ہمارے (موجودہ)كام كے دائرہ سے خارج ہے اس لئے ہم كچھ موارد كے ذكر پر ہى اكتفا كرتے ہيں _
1_'' يعقوب ابن اسحاق كندى '' عراق كے مشہور فلسفيوں ميں سے تھا _ اس نے تناقض قرآن
306
كے موضوع پر كتاب لكھنے ميں اپنا كافى وقت صرف كيا تھا _امام حسن عسكرى (ع) اس واقعہ سے مطلع ہوئے اور اس فلسفى كے شاگردوں ميں سے ايك كو ايك جملہ بتا كر اس كو اس كے عقيدہ سے منصرف اور اس بات پر آمادہ كيا كہ جو كچھ اس نے لكھا ہے اس كو اس كے عقيدہ سے منصرف اور اس كتاب كو جلاڈ الے _
آپ نے اس كے شاگرد سے فرمايا كہ اس سے جاكر كہو كہ كيا اس بات كا احتمال نہيں ہے ، كہ تم نے جو كچھ سمجھا ہے ، ان كلمات (قرآن) كے كہنے والے نے اس كے علاوہ كسى اور مطلب كا ارادہ كيا ہو(34)
2_ ''ابوحمزہ نصير''نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام _ كو بارہا روم،فارس اور دوسرے مختلف نسل و زبان كے اپنے غلاموں سے ان كى زبان ميں باتيں كرتے ديكھا مجھے تعجب ہوا اور ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ امام(ع) تو مدينہ ميں پيدا ہوئے اور دوسرے افراد نيزملتوں سے آپكارابطہ نہيں رہا پھر يہ زبانيں آپ نے كہاں سے سيكھيں؟
امام (ع) نے اس بات كى كوشش كى كہ اس طريقہ سے امامت كے حالات كو غلاموں كے لئے واضح كرديں اور ان كو يہ سمجھا ديں كہ امام (ع) كو بھى پيغمبر (ص) كى طرح اپنى طرف رجوع كرنے والوں كى زبان سے واقف ہونا چاہيے ور نہ وہ امام (ع) نہيں ہے اور اس استدلال كے ساتھ كہ ''خدا نے اپنى حجت ''امام''كو تمام مخلوقات سے جدا بنايا ہے ،علم و معرفت اور ہر چيز اسے عطا كى ہے اس وجہ سے وہ تمام ناد اور حوادث روزگار كو جانتے ہيں اس كے علاوہ دوسرى صورت ميں حجت خدا اور دوسروں كے در ميان كوئي فرق نہيں رہ جائے گا_(35)
وہ اپنى علمى قدرت كو خدا كى دى ہوئي قدرت جان كراس كو اپنى امامت پر دليل جانتے تھے _
ج_عوامى مركز كى نگرانى ،اس كى پشت و پناہى اور تياري
اپنے پيرووں كے چال چلن اور اعمال كى نگرانى كے ساتھ ساتھ امام _ان كو عباسيوں كے
307
دام ميں پھنسنے سے بچاتے اور ضرورى مقامات پر معنو ى و اقتصادى مسائل ميں ان كى مدد فرماتے تھے _نمونہ كے طور پر ملاحظہ ہو_
1_معتز كے قتل سے بيس دن پہلے امام (ع) نے اپنے ايك چاہنے والے كو لكھا:''الزم بيتك حتى يحدث الحادث'' (36)اپنے گھر كے اندر بيٹھے رہو اور ہرگز باہر نہ نكلنا يہاں تك كہ كوئي حادثہ پيش آئے _
2_'' محمد ابن على سمري''آپ كے ايك اصحابى اور آپ كے فرزند كے چوتھے نائب تھے آپ نے ان كو لكھا :''فتنةً تظلّكم فكونوا على اھبہ''(37)ايك فتنہ ہے جو تمہارے اوپر سايہ ڈال رہا ہے اس بناپر ضرورى تيارى كئے رہو_
3_ ''ابوطاہرابن بلبل '' نے سفر حج ميں على ابن جعفر ھمّانى كو ديكھا كہ بہت زيادہ بخشش و عطا كررہے ہيں واپسى پر ايك خط ميں آپ نے امام حسن عسكرى (ع)كو لكھا،امام (ع) نے جواب ميں تحرير فرمايا:''ہم نے خود ان كو (اس كام كے لئے )ايك لاكھ دينار ديئے ہيں اور جب ہم نے چاہا كہ ايك لاكھ دينار اور دے ديں تو انہوں نے قبول نہيں كيا''(38)
روايت يہ بيان كرتى ہے كہ ''على ابن جعفر ''كى بخشش و عطا امام كى زير نگرانى تھى اور آپ كو اس كى خبر تھى ،اور عطا كى جانيوالى خطير رقم (ايك لاكھ دينار ) اس بات كى دليل ہے كہ پيسے عمومى مصالح اور شيعوں كى ضرورتوں ميں خرچ ہورہے تھے _
د:آپ كے فرزند حضرت مھدى (ع) كى غيبت كے بارے ميں آپ كا موقف:
چونكہ امام حسن عسكري(ع) جانتے تھے كہ خدا كى مشيت ميں ان كے فرزند كى غيبت ہے _اس لئے آپ غيبت كے مسئلہ كو اپنى حيات ہى ميں حل كردينے كى كوشش كررہے تھے _ اور اپنى امامت پر اعتقاد ركھنے والے معتقدين كے عمومى افكار كو ايسے اہم واقعہ كو قبول كرنے كے لئے آمادہ كررہے تھے جس كى مثال ماضى ميں نہيں تھى _
308
البتہ وہ متواتر روايتيں جو پيغمبر اكرم (ص) اور ائمہ معصومين سے بارہويں امام كى غيبت كے بارے ميں پہنچى تھيں ان روايتوں نے اس اہم امر كو قبول كرنے كے لئے راہ ہموار كردى تھي_ليكن امام حسن عسكري(ع) كى ''موعود منتظر'' كے باپ ہونے كى حيثيت سے جو سب سے مشكل ذمہ دارى تھى وہ يہ تھى كہ وہ مسلمانوں كو آگاہ كرديںكہ ان روايتوں اور پيشن گوئيوںكے تحقق كا زمانہ آگيا ہے اور ان كے فرزند ارجمند ،ان روايتوں كے مصداق اوروہى ''قائم آل محمد(ص) '' ہيں _
ايسے افكار كا بيان اور اس كى تبليغ _ عقيدہ كے ايك اہم موضوع كے عنوان سے _لوگوں كے اذہان ميں ، وہ بھى ايسے سنگين حالات ميں بيشك بڑا مشكل اور حساس كام تھا_
اسى وجہ سے امام حسن عسكرى (ع)نے اپنى تمام كوششوں كو صرف كرديا تا كہ لوگوں كا عقيدہ اور ايمان ڈگمگانے نہ پائے اور عمومى اذہان كو اس بات كے قبول كرنے كے لئے آمادہ كرليں اور اپنے پيرووں كو متوجہ كرديں كہ غيبت پر اعتقاد ركھنا لازمى اور ضرورى ہے _
مذكورہ مقصد كو پورا كرنے كے لئے امام كى فعاليت دوحصوں ميں تقسيم ہوتى ہے _
1_ اپنے فرزند كو لوگوں كى نظروں سے پوشيدہ ركھنا اور ان كى حفاظت كرنانيز خاص لوگوں كو ان كى نشاندہى كرنا چاہتے تھے اور اس اقدام كے علاوہ آپ نے لوگوں سے رابطہ كو محدود كركے ايك خاص تعداد تك ركھا اور آپ كى روش يہ تھى كہ خط و كتابت يا اپنے معين كئے ہوئے نمائندوں كے توسط سے شيعوں سے رابطہ پيدا كرنا تا كہ وہ اس كے عادى ہوجائيں _
2_مسئلہ غيبت كا بيان اور اس كى تشريح ''انتظار فرج''كى فكر كومسلمانوں كے ذہنوں ميں بٹھانا،اس موقف كوواضح اور مستحكم كرنے كيلئے مختلف مناسبتوں سے آپ كا بيان اور اعلان ہوتا رہتا تھا_
ان بيانات كے چند پہلو ملاحظہ ہوں:
1_امام مھدى _كے صفات كے بارے ميں عمومى اور كلى پہلو نيز امام مھدى (ع) كے ظہور اور قيام كى خصوصيتيں بيان كرناجيسا كہ اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى كے جواب ميں آپ نے
309
فرمايا:قائم (ع) جب قيام كريں گے تو اس وقت حضرت داؤد (ع) كى طرح بغير بينّہ كے اپنے علم كى بنياد پر لوگوں كے درميان فيصلہ كريں گے _(39)يا وہ قول جس ميں آپ فرماتے ہيں جس زمانہ ميں قيام كريں گے اس زمانہ ميں آپ حكم ديں گے كہ مينارے اور مسجدوں ميں مخصوص جگہيں ويران كردى جائيں _(40)
امام (ع) ان خصوصيتوں كو بيان كركے اس بدعت كے مقابلہ ميں اپنے منفى رويہ كو بيان كررہے،ہيں_
2_ اس اہم مسئلہ كو قبول كرنے كيلئے شيعوں كے واسطے عمومى اور خصوصى بيانات منجملہ ان كے وہ خط ہے جو آپ نے ''ابن بابويہ'' قمى كو لكھا ہے _ آپ لكھتے ہيں كہ ميں تم كو بردبارى اور انتظار فرج كا حكم ديتا ہوں _پيغمبر (ص) نے فرمايا :ہمارى امت كا سب سے بہتر عمل انتظار فرج ہے ہمارے شيعہ ہميشہ غم و الم ميں مبتلا رہيں گے يہاں تك كہ ميرا فرزند ظہور كرے گابيشك رسول خدا(ص) نے ان كے ظہور كى بشارت دى ہے ،وہ زمين كو ايسے ہى عدل و انصاف سے بھر ديں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوگى _
اے مرد بزرگوار تم صابر رہو اور ہمارے تمام شيعوں كو صبر و شكيبائي كى دعوت دو_اس لئے كہ زمين خدا كى ملكيت ہے وہ اپنے بندوں ميں سے جس كو چاہے گا اس كا وارث بنائے گا اور عاقبت (نيك انجام)پرہيزگاروں كے لئے ہے (41)
شہادت امام حسن عسكري(ع) :
خلفاء بنى عباس _ منجملہ ان كے معتمد _ جانتے تھے كہ پيغمبر (ص) كے جانشين بارہ افراد ہيں_ ان ميں سے بارہواں غيبت كے بعدظہور كرے گا اور ظلم و جور كى بساط كو الٹ كر ركھدے گا_
اسى وجہ سے معتمد نہايت شدّت سے امام حسن عسكرى (ع) كى نگرانى كرتا تھا ،اور طبيب يا معالج يا
310
خدمتگذار كے عنوان سے اس نے جاسوسوں كو امام حسن عسكرى (ع) كے گھر ميں ركھ ديا تھا تا كہ وہ امام كى زندگى كو نزديك سے ديكھتے رہيں اور ان كے فرزند كے بارے ميں جستجو كريں_(42)
آخر كار جب معتمد نے ديكھا كہ لوگوں كى توجہ دن بدن امام (ع) كى طرف بڑھتى جارہى ہے ،نگرانى اور قيدى بنانے كا الٹا اثر ہو رہا ہے تو اس نے آپ كو قتل كردينے كا ارادہ كرليا _اور خفيہ طور پر اس نے زہر دے ديا_امام آٹھ روز كے بعد صاحب فراش ہوگئے اور 8 ربيع الاول 260ھ ق ميں عالم جاودانى كى طرف كوچ كرگئے اور اپنے والد بزرگوار كى قبر كے پاس سامرا ميں سپرد لحد كئے گئے (43)_
311
سوالات:
1_ امام حسن عسكرى (ع) نے كس تاريخ ميں ولادت پائي اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ اپنى عمر كے كتنے دن گذارے؟
2 _ امام حسن عسكرى (ع) كى امامت كا زمانہ كس سن ميں شروع ہوا _ اور كتنے دن تك رہا آپ كتنے خلفا كے معاصر رہے اور ان ميں سے ہر ايك كے ساتھ كتنے سال رہے؟
3 _ آپ كے زمانہ كے خلفاء كا آپ كے ساتھ كيسا سلوك تھا اور امام حسن عسكرى (ع) ميں دوسرے ائمہ كى بہ نسبت كيا خصوصيتيں تھيں؟
4 _ امام حسن عسكرى (ع) كے زمانہ ميں خلافت بنى عباس كے خلاف جو انقلاب اور شورشيں برپاہوئيں ان ميں سے چند نمونے بيان كيجئے؟
5 _ آپ كے فرزند حضرت مہدى (عج) كى غيبت كے بارے ميں آپ كے موقف كى تشريح فرمايئے
6 _ امام حسن عسكرى (ع)نے كس تاريخ ميں كس طرح اور كس شخص كے ذريعے شہادت پائي؟
312
حوالہ جات
1 بحار جلد 50/236،منقول از مصباح كفعمى و اقبال الاعمال ،آپ كى ولادت كى تاريخ كے بارے ميں دوسرے اقوال بھى ہيں منجملہ ان كے8 ربيع الآخر 232ھ ق(مناقب جلد 4/422اعلام الورى /367)ربيع الاول 230ھ ق و غيرہ_
2 بحار جلد 50/236''حديثہ''بھى لكھا گيا ہے نيز ''سوسن ''كہا گيا ہے _
3 ارشاد مفيد /338،بحار 50/240،منقول از كمال الدين صدوق اور غيبت شيخ،اعلام الورى /207،كافى جلد 1/328،كشف الغمہ جلد 2/406_
4 بحار جلد 50/239منقول از كمال الدين صدوق _
5 بحار جلد 50/146،اعلام الورى /370 ، كافى جلد1/325،ارشاد /335،غيبت شيخ /120،كشف الغمہ جلد 2/404،فصول المہمة/384،ارشاد و غيبت شيخ راوى كا نام يحيى بن يسار عنبرى لكھا ہے _
6 احمد كا باپ (عبداللہ ابن خاقان )حكومت بنى عباس كے وزيروں اور نماياں لوگوں ميں سے تھا_
7 ارشاد مفيد 339_338،اعلام الورى /377_376،كافى جلد 1/503 ،كشف الغمہ جلد 3/197،بحار جلد 50/327_325،كمال الدين صدوق جلد 1/42_40 مطبوعہ جامعہ مدرسين_
8 مفوضہ ان لوگوں كو كہتے ہيں جو بندوں كے افعال كے بارے ميں ارادہ الہى كو بے اثر مانتے ہيں ان كے مقابل والے فرقہ كو جبريہ كہتے ہيں
9 بحار جلد 50/253منقول از غيبت شيخ ائمتنا جلد 2/271منقول از اثبات الھداة_
10 سفينة البحار ج 1/260_ائمتنا جلد 2/269_
11 بحار جلد 50/308،اعيان الشيعہ جلد 2/41،كافى جلد 1/512،اعلام الورى /379،كشف الغمہ جلد 12/414،مطبوعہ تبريز _مناقب جلد 4/429،ارشاد /344_
12 اعيان الشيعہ جلد 2/40 كافى جلد 1/506،ارشاد /341،بحار جلد 50/278،مناقب جلد 4/438_ 437، كشف الغمہ جلد 3/300(تين جلدوں والى مطبوعہ بيروت)_
13 اعلام الوري/372،مناقب ج 4/439،بحار جلد 50/267_
14 مروج الذہب جلد 4/91
313
15 ''بعد ثالث : ياتيكم الفرج''بحار ج 50/251بہ نقل ا ز غيبت شيخ 134، كشف الغمہ ج 3/206_295 فصوال المہمہ/285_
16 مروج الذہب ج4/92_
17 ملاحظہ فرمايئےروج الذہب ج4/96و كامل ابن اثير ج 7/335_333_
18 بحار ج 50/313 ''و كان المہتدى قد صحّح العزم على قتل ابى محمد فشغلہ للہ بنفسہ حتى قتل''
19 تاريخ الخلفائ/363،مروج الذہب جلد 4/99_
20 مروج الذہب جلد 4/363_365_367_
21 مروج الذہب جلد4/364_
22 انوار البھيّہ /286_
23 كامل ابن ثير جلد 7/238_263_264_
24 مروج الذہب جلد4/94_
25 مروج الذہب جلد 4/94_
26 كامل ابن اثير جلد 7/206_205_
27 مروج الذہب جلد 4/108،كامل بن اثير جلد7/255_206_
28 كامل ابن اثير جلد7/174_
29 مروج الذہب جلد4/112_
30 اس وزير كے سلسہ ميں جو تاريخ سے استفادہ ہوتا ہے اور جو كچھ خود اس كى باتوں سے آشكارہوتا ہے وہ امام(ع) كا احترام كرتا تھا اور آپ كى منزلت اور عظمت كا قائل تھا_شايد اسى وجہ سے امام (ع) اس كے ديدار كيلئے تشريف لے گئے تھے تا كہ اس كى اس كيفيت كو اور قوى بنا ياجا سكے _
31 مناقب جلد 4 ص 429_
32 ''فقد روى عنہ من انواع العلم ما ملا بطون الدفاتر ''اعيان الشيعہ جلد 1/40
33 اس تفسير كى طرف اشارہ ہے جو تفسير حسن عسكري(ع) كے نام سے مشہور ہے مرحوم علامہ مجلسى بحار الانوار ميں فرماتے ہيںكہ ''امام حسن عسكري(ع) كى طرف منسوب تفسير مشہور كتابوں ميں سے ہے اور مرحوم صدوق كے لئے
314
مورد وثوق ہے ہر چند كہ كچھ محدثين نے امام (ع) كى طرف اس كى نسبت سے انكار كيا ہے ليكن صدوق كا قول _ چونكہ وہ امام(ع) كے زمانہ سے قريب تھے _ اس لئے معتبر ہے _اعيان الشيعہ ج2/41(دہ جلدى چاپ بيروت)_
34 '' ھل يجوزان يكون مرادہ بما تكلم منہ غير المعانى التى ظننتھا انّك ذھبت اليھا'' بحار جلد 50/311،مناقب 4/424_
35 ''ان اللہ تبارك وتعالى بيّن حجتہ من سائر خلقہ و اعطاہ معرفة كل شى فھو يعرف اللغات و الانساب و الا جال و الحوادث و لولا ذلك لم يكن بين الحجة و الحجوج فرق''اعلام الورى /356،مناقب ج 4/428،كشف الغمہ ج 3/202،ارشاد /343،بحار ج 50/268
36 كشف الغمہ جلد 3/200،كافى جلد 1/506،بحار جلد 50/277،مناقب ج 4/436،ارشاد/340_
37 كشف الغمہ 3/207،تاريخ الغيبة الصغرى تاليف محمدصدر /199،بحار جلد 50/298،اما م كا يہ جملہ بھى معتز كے قتل كى طرف اشارہ ہے _
38 ''قد كنا امرنا لہ بماة الف دينار:، ثم امرنا لہ بمثلھا فابى قبولہ ابقاء ً علينا''بحار جلد 50/20_306،اعيان الشيعہ جلد 2/41،ائمتنا جلد 2/273،مناقب ج 4/224_عبارت ميں تھوڑے اختلاف كے ساتھ _
39 ''اذا قام يقضى بين الناس بعلمہ كقضاء داود(ع) و لا يسئل البينّة''بحار جلد 50/264،مناقب جلد 4/431، كشف الغمہ ج 3/203،ارشاد 343_
40 ''اذا قام القائم امر بھدم المنائر و المقاصير التى فى المساجد '' ...بحار جلد 50/250،مناقب جلد 4/437،اعلام الورى /355،مناقب اور اعلام الورى ميں ''منائر''كى جگہ ''منابر''لكھا ہوا ہے _
41 عليك بالصبر و انتظار الفرج ،قال النبى افضل اعمال امتى انتظار الفرج و لا يزال شيعتنا فى حزن حتى يظھر ولدى الذى بشر بہ النبى يملا الارض قسطاً و عدلاً كما ملئت جوراً و ظلماً ،فاصبر يا شيخى يا ابالحسن ،على و امر جميع شيعتى بالصبر فانّ الارض للہ يورثھا من يشاء من عبادہ و العاقبة للمتقين _مناقب ج4/426_بحار ج50/318_
42 كمال الدين صدوق ج1/43_42،مطبوعہ جامعہ مدرسين_
43 مناقب جلد 2/422،بحار جلد 50/236_237،كشف الغمہ جلد3/192_اعلام الورى /349،ارشاد مفيد /345،فصول المہمہ /289_
|