265
تيرہواںسبق:
امام على النقى (ع) كي
سوانح عمري
267
ولادت
شيعوں كے دسويں امام 15 ذى الحجہ 212ھ ق كومدينہ كے''صريا'' (1)نامى قريہ ميںپيدا ہوئے_(2)آپ (ع) كا اسم گرامى ''علي''اورسب سے مشہور القاب ''نقي''اور ''ہادي'' ہيں اور آپ (ع) كى كنيت ''ابوالحسن'' ہے _ آپ (ع) ابوالحسن ثالث كے نام سے مشہور ہوئے _(3)
نويں امام كے والد گرامى امام جواد _تھے اور آپ كى والدہ ''سمانہ''ايك بافضيلت و با تقوى خاتون تھيں آپ مقام ولايت سے آشنائي ركھنے والى اور خلافت الہى كى زبر دست دفاع كرنے والى خاتون تھيں _ خود امام ھادي(ع) اپنى والدہ گرامى كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ميرى والدہ ميرے حق سے آشنا اور اہل بہشت ميں سے ہيں _
شيطان سركش ان سے نزديك نہيں ہوتا اور دشمن جبار كا مكر ان تك نہيں پہنچتا ، خدا ان كا محافظ اور نگہبان ہے _ وہ ہرگز صديقين و صالحين ماؤںكے صفوں سے باہر نہيں ہيں (4)
امام (ع) كى پرورش كا ما حول
امام ہادى _نے اپنى عمر كے سات سال اور كچھ دن اپنے والد كے ساتھ ان كى تربيت اور خاص نگرانى ميں گذار ے _
آپ (ع) جس ما حول ميں پروان چڑھے وہ ما حول ، دانش كے فروغ تقوى و اخلاق ،وسعت علم اور زندگى كے تمام شعبوں ميں فكر كى بلندى سے سرشار ما حول تھا _دوسرى صدى ہجرى ميں علماء كى
268
فكرى تحريكيں اور مامون كى خلافت كى مشينرى كى طرف سے ان كے استقبال كى وجہ سے دينى حقائق كو واضح كرنے اور اس زمانہ كے روشن فكر اور سوجھ بوجھ ركھنے والى نسل تك پيغام اسلام كے پہونچانے كے مواقع اس زمانہ كے ائمہ معصومين(ع) كو حاصل تھے _
اسلام كے ترقى پذير عناصر كے گہوارہ پرورش اور زيادہ تر ائمہ كى جائے پيدائشے _مدينہ_ ميں ماں باپ كى توجہ سے اور تدبير سے امام _كے جسم و روح نے پارسائي اور دور انديشى كى منزل كمال كو سر كيا _ وہ جن كى پاكيزہ سرشت ميں دور انديشى اور ہوشمندى پوشيدہ تھى ، جو الہام الہى كے فيوض و بركات سے تمام شعبوںميں كمالات اور امتيازات كے حامل تھے _ وہ خلافت عباسى كے ظلم و ستم سے جہاد كرنے والوں كے پيشرو اور اسلامى معاشرہ كى مشعل ہدايت قرار پائے _
امامت پر نص
سوائے على _اور موسي(جو كہ موسى مبرقع كہ نام سے مشہور تھے ) نويں امام كى اور كوئي اولاد نہ تھى ، چونكہ حضرت ہادى (ع) ،علم و معرفت ، تقوى و عبادت ميں اپنے زمانہ كے سارے لوگوں سے بلند تھے ان سے كسى كا حتى كہ ان كے بھائي كا بھى موازنہ نہيں كيا جا سكتا _ اس لئے ان كے والد كے بعد امامت اور رہبرى كا بلند مقام ان كو تفويض كيا گيا_
اسى لياقت كى بنياد نيز دوسرى باتوں كى بنا پر ان كے پدر بزرگوار نے بارہا اپنے بعد كے لئے ان كى امامت كو صراحت سے بيان فرمايا ہے _
''اميہ ابن على قيسي''نقل كرتے ہيں كہ ميں نے ابو جعفر _سے عرض كيا كہ آپ (ع) كا كون جانشيں ہوگا_ تو آپ(ع) نے فرمايا : ميرے فرزند على (ع) _(5)
''صقر ابن دلف'' كہتے ہيں كہ ميں نے ابو جعفر امام جواد _سے سناآپ فرما رہے تھے كہ ميرے بعد پيشوا ميرا بيٹا على ہے ،ان كا فرمان ميرا فرمان ، انكى گفتار ميرى گفتار اور ان كى پيروى
269
ميرى پيروى ہے اور ان كے بعد ان كے بيٹے حسن(ع) ،امام ہيں_(6)
امام (ع) كا اخلاق اور ان كى سيرت
امام ہادى _اپنے اسلاف كى طرح اخلاق اور فضائل انسانى كا مجسمہ اور كمالات نفس كا مظہر تھے _
ابن صباغ مالكى اپنى كتا ب ميں آپ(ع) كى اخلاقى خصوصيات اور فضائل كا مرقع كھينچتے ہوئے فرماتے ہيں _
ابوالحسن ،على ابن محمد _كى فضيلت اور برترى كى شہرت تمام عالم ميں پھيلى ہوئي ہے_ (ان كى فضيلت ہر جگہ سايہ فگن ہے اور اس سے دوسروں كى چمك دمك ماند پڑگئي ہے ) اور ان كے بلنديوں كى طرف بڑھنے والے سلسلے آسمان كے ستاروں پر حكمرانى كررہے ہيں _ كوئي چيز منقبت نہيں شمار كى جا سكتى مگر يہ كہ اس كا لب لباب آپ(ع) كے وجود ميں جلوہ گر ہے اور كوئي فضيلت و كرامت بيان نہيں ہوتى مگر يہ كہ اس كا برتر ين حصہ آپ (ع) ہى كى ملكيت ہے _ ہر قابل تعريف خصلت جب بيان كى منزل ميں آتى ہے تو اس كا بلندترين اور مكمل ترين حصہ آپ (ع) ہى سے متعلق ہوتا ہے _ آپ (ع) كا وجود ہر نيك و ارجمند خصلت كى ايسى تجلى گاہ ہے جو آپ (ع) كى عظمت كى تعريف كرتى ہے ان تمام كمالات كے استحقاق كا سرچشمہ وہ بزرگى اور كرامت ہے جو آپ (ع) كے جوہر زندگى كے ساتھ ملى ہوئي ہے _ وہ عظمت و بزرگى ہے جو آپ (ع) كى سرشت ميں پوشيدہ ہے _آپ كا وجود آب زلال معرفت كے علاوہ كسى اور پانى كے پينے سے منع كرتا ہے _ اس لئے آپ (ع) كى جان ، پاك ہے ، آپ (ع) كا اخلاق شيرين ہے، آپكى سيرت،عادلانہ اور آپ كے تمام صفات نيك ہيں آپ وقار ،سكون،صبر،عفت،طہارت،زيركى اور دانائي ميں طريقہ نبوى اور سرشت علوى پر گامزن تھے _ ايسے تزكيہ شدہ نفس كے اور ايسى بلند ہمت كے مالك تھے كہ كوئي آپ (ع) كے پايہ كو پہنچ
270
نہيں سكتا _آپ (ع) كى نيك روش ميں آپ (ع) كا كوئي ثانى نہيں اور كسى نے ان چيزوں كى طمع نہيں كي ...(7)
عبادت و بندگي
متوكل كے معين كيے ہوئے افراد چھان بين كے لئے متعدد بار آپ (ع) كے گھر ميں اچانك گھس آئے تو آپ كو كھر در الباس پہنے ہوئے ايك چٹائي پر نماز كے لئے ايستادہ لكھتے_
يحيى ابن ہرثمہ نقل كرتے ہيں كہ امام ہادى ہميشہ مسجد ميں رہتے تھے اوردنيا سے كوئي رابطہ نہيں ركھتے تھے_(8)
حائرى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں كہ عبادت پروردگار سے شديد محبت كى بنا پر آپ راتوں كو آرام نہيں كرتے تھے اور تھوڑى دير كے علاوہ آپ سوتے نہيں تھے _ آدھى رات كو كنكروں اور ريگزاروں پربيٹھتے اور عبادت و استغفار اور تلاوت ميں رات بسركرتے تھے _ (9)
جودو بخشش
امام _كے دوستوں ميں سے چند افراد جيسے ابو عمر و عثمان ابن سعيد ،احمد ابن اسحاق اشعرى اور على ابن جعفر ہمدانى ،آپ (ع) كى خدمت ميں پہنچے _احمد ابن اسحاق نے اپنے بھارى قرض كى امام (ع) سے شكايت كى ، امام ہادى (ع) نے اپنے وكيل ''ابوعمرو''سے فرمايا تيس ہزار دينار ،احمد ابن اسحاق كو اور تيس ہزار دينا ر على ابن جعفر كو ديدو اور اپنے لئے بھى تيس ہزار اٹھالو(10)
ابو ہاشم جعفرى نقل كرتے ہيں كہ ميں بہت زيادہ محتاج ہو گيا _ ميں امام ہادى _كى خدمت ميں پہنچا جب ميں بيٹھ گيا تو آپ نے فرمايا : اے ابوہاشمخدا نے جو نعمتيں تم كو دى ہيں ان ميں سے كسى ايك نعمت كا شكر بجالا سكتے ہو؟ ميں چپ رہا اور يہ نہ سمجھ سكا كہ كيا كہوں_
271
امام (ع) نے فرمايا :خدا نے تم كو ايمان ديا ہے اور اس كے ذريعہ اس نے تمہارے جسم كو دوزخ كى آگ سے بچايا ہے ، خدا نے تم كو صحت و عافيت عطا كى ہے اور اس نے اپنى عبادت كے لئے تمہارى مدد كى ،خدا نے تم كو قناعت دى ہے اور اس كے ذريعہ اس نے تمہارى آبرو بچائي ہے ، اے ابوہاشمميں نے يہ باتيں اس لئے شروع كيں كہ ميں نے گمان كيا كہ تم اس كے بارے ميں مجھ سے شكايت كرنا چاہتے ہوجس نے يہ تمام نعمتيں تم كو دى ہيں _ ميں نے حكم ديد يا ہے كہ سو(100)دينار تم كو ديئے جائيں تم ان كو لے لو_ (11)
عقدہ كشائي
'' محمد ابن طلحہ '' نقل كرتے ہيں كہ ايك دن امام ہادى (ع) سامرا سے ايك اہم كام كے لئے ايك ديہات كى طرف روانہ ہوئے _ اس در ميان ايك آدمى آپ (ع) كے گھر آيا جب اس نے امام (ع) كو دہاں نہ پايا تو وہ بھى اس ديہات كى طرف روانہ ہوا جب امام كى خدمت ميں پہنچا تو اس نے عرض كيا كہ ميں كوفہ كارہنے والا ہوں آپ (ع) كے خاندان كے چاہنے والوں ميں سے ہوں ليكن بہت زيادہ قرضدار ہوگيا ہوں ، اتنا قرض ہے كہ ميں اسے ادا نہيں كر سكتا اور آپ (ع) كے علاوہ مجھے اور كوئي نظر نہيں آتا جو ميرى ضرورت پورى كردے _امام (ع) نے پوچھا تمہارا قرض كتنا ہے ؟اس نے كہا تقريباًدس ہزار درہم_
امام (ع) نے اس كى دلجوئي كى اور فرمايا : تم پريشان نہ ہونا اور ميں جو حكم دوں اس پر عمل كرنے ميں كوتاہى نہ كرنا پھر آپ (ع) نے اپنے ہاتھ سے ايك رقعہ لكھا اور اس سے فرمايا: اس خط كو اپنے پاس ركھو اور جب ميں سامرا پہنچوں تو جتنا پيسہ اس ميں لكھا ہے اس كا ہم سے مطالبہ كرنا ،چاہے تم كو لوگوں كے سامنے ہى ايسا كرنا پڑے ،خبردار اس ميں كوتاہى نہ كرنا _
امام _كے سامراء لوٹنے پر جب خليفہ كے حلقہ بگوش افراد آپ (ع) كے پاس بيٹھے ہوئے تھے
272
وہ مرد عرب وہاں پہنچا اور اس دستخط كو دكھا كر اصرار كے ساتھ اس نے پيسے كا مطالبہ كيا، امام (ع) نے نہايت نرمى اور ملائمت سے تاخير كى معذرت كرتے ہوئے اس سے مہلت مانگى تا كہ كسى مناسب وقت پر آپ (ع) وہ پيسے ادا كرديں _ ليكن وہ شخص اسى طرح اصرار كرتا رہا اور اس نے مہلت نہيں دي_
يہ بات متوكل تك پہنچى تو اس نے تيس ہزار دينا رامام (ع) كے لئے بھيجنے كا حكم ديا_
جب پيسے امام (ع) كے ہاتھوں تك پہنچے تو آپ (ع) نے اس مرد عرب كو بلايا اور تمام پيسے اس كو دے ديئے _ اس نے بتايا كہ اس پيسے كے ايك تہائي سے كم ميں ميرى ضرورت پورى ہو جائے گى ليكن امام _نے تمام تيس ہزار دينار اس كو مرحمت فرما ديئے (12)
امام (ع) كى معنوى ہيبت و عظمت
''محمد ابن حسن اشترعلوى ''نقل كرتے ہيں كہ '' ميں اپنے والد كے ساتھ متوكل كے گھرتھا اور آل ابوطالب و آل عباس و آل جعفر كى بھى ايك جماعت وہاںموجود تھى كہ امام ہادى (ع) تشريف لائے _ وہ تمام لوگ جو وہاں كھڑے تھے امام _كے احترام ميں سواريوں سے اتر پڑے امام (ع) گھر ميں داخل ہوئے _ حاضرين ميں سے كچھ لوگوں نے ايك دوسرے سے كہا : ہم ان كيلئے كيوں اپنى سوارى سے اتريں ،وہ نہ تو ہم سے زيادہ صاحب شرف ہيں اور نہ ہم سے عمر ميں بڑے ہيں خدا كے قسم ہم ان كے لئے سوارى سے نہيں اتريں گے _
ابوہاشم جعفرى نے _ جو وہاںموجودتھے _كہا خدا كى قسم تم لوگ جب انكو ديكھو گے تو نہايت حقير بن كر سوارى سے اتر پڑوگے _
ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ امام ہادى (ع) واپس پلٹے ،جب حاضرين كى نظر آپ (ع) پرپڑى تو بے اختيار سواريوں سے اترپڑے ،ابوہاشم نے كہا :''كيا تم نے نہيں كہا تھا كہ ہم نہيں اتريں گے؟
273
''لوگوں نے كہا:'' خداكى قسم ہم اپنے كو نہيں روك سكے اور بے اختيار اترپڑے _(13)
امام _كا علمى مقام
خدا نے اپنى لامتناہى قدرت اور اپنے وسيع علم سے خاندان رسالت (ع) كو علم كے خزانے عطا كئے اور ان كو زيور علم سے آراستہ كيا_ ايسا علم كہ ان سے زيادہ علم دوسرى جگہوں پر نہيں پايا جا سكتا_
شيعوں كے ائمہ علم الہى كے پرچم دار ،خزينہ دار اور اسرار توحيد كے محافظ ہيں _ امام ہادى _اسى شجرہ طيبہ كى ايك شاخ ہيں جو وسيع اور جامع علم سے مالامال تھے _ آپ (ع) كى علمى عظمت و منزلت نے عقلوں كو حيرت و استعجاب ميں ڈال دياتھا_
صفات خداوند عالم ،تنزيہ و تقديس پروردگار كے بارے ميں آپ (ع) كى حديثيں ،مذہب ،جبرو تفويض،اور جبر و تفويض كے در ميانى امر كے اثبات پر مفصل خط ،زيارت ائمہ كے كلمات جو''زيارت جامعہ''كے نام سے مشہور ہے ،آپ (ع) كى يادگاريں ہيں _مخالفين كے ساتھ مختلف موضوعات پر احتجاجات(14) و غيرہ ...علماء كے لئے مورد توجہ ہيں جو كہ آپ (ع) كے علمى پہلووںكى گہرائي اوروسعت كا پتہ ديتے ہيں _
امامت كا زمانہ
امام ہادى _ 220ھ ق ميں _ اپنے والد بزرگوار كى شہادت كے بعد _آٹھ سال كى عمر ميں امامت كے عہدہ پر فائز ہوئے ، آپ (ع) كى امامت كى مدت 33 سال اور كچھ دن تھى اس مدت ميں بنى عباس كے چھ خلفاء آپ (ع) كے ہم عصر رہے _ ان كے نام معتصم ،واثق ،متوكل ،منتصر،مستعين ا ور معتزہيں_
274
دوران امامت كى خصوصيتيں
دسويں امام (ع) كى امامت كا زمانہ پريشانى ،تشويش اور انقلاب كا زمانہ تھا _ اس زمانہ ميں خاندان على _اور ان كے پيروكاروں كے ساتھ حكومت كا سخت اور براسلوك اپنے عروج پرپہنچا ہواتھا _ اور اس شدت پسند روش كى بنا پر وسيع و عريض اسلامى مملكت كے گوشہ و كنار ميں علويوں كى شورشيں بہت پھيلى ہوئي تھيں _
يہاں پر اب ہم خلافت كے اس زمانہ كى بعض خصوصيات كى طرف اشارہ كرتے ہيں تا كہ دسويں امام كے سياسى حالات كو اچھى طرح سمجھاجا سكے _
الف :دربار خلافت كى ہيبت و عظمت كا زوال اور موالى كا تسلط
اس زمانہ ميں ترك ،قبطى اور موالى كا سرنوشت مملكت اسلامى پر تسلط اور مملكت كے امور سے خليفہ كى كنارہ كشى نے دربار خلافت كى عظمت و ہيبت كو ختم كرديا ،خلافت مذكورہ لوگوں كے ہاتھوں ميں ايك گيند كى طرح تھى جسے جدھر چاہتے تھے پھينك ديتے تھے (15)
يہاں تك كہ ''معتمد''نے اس تلخ حقيقت كا اعتراف كيا اور چنداشعار ميں اس نے كہا: كيا يہ تعجب خيز نہيں ہے كہ ميرے جيسا شخص نہايت چھوٹى چيز سے روك ديا جائے _ اس كے نام پر پورى دنيا حاصل كى جائے حالانكہ اس ميں سے كوئي چيز اس كے ہاتھ ميں نہيں ہے _ فراوان مال و دولت اس كى طرف منتقل ہو ليكن ان ميں سے ذرا سى چيز بھى اس كو نہ دى جائے _(92)
خلافت كى مشينرى ميں ان لوگوں كا دخل و رسوخ اور اہل بغداد كے لئے حدسے زيادہ مزاحمت و پريشانى اس بات كا سبب بنى كہ معتصم ان لوگوں كو_جن كى فوج اور انتظامى فورس ميں كثرت تھي_ لوگوں كى دسترس سے باہر كسى دوسرى جگہ منتقل كردے _ چنانچہ شہر سامرہ كو اس كام كيلئے چناگيا اور اسى كو دارالخلافہ قرار ديا گيا اور لشكركو بھى اسى شہر ميں منتقل كرديا گيا_
ان عناصر كے راس و رئيس ''موسى ابن بغا'' ان كے بھائي ''محمد ابن بغائ''_''بغا شرابى كوچك
275
''اور ''وصيف''تھے مؤخرالذكر دونوں افراد مستعين پر ايسے مسلط تھے كہ ان كے بارے ميں كہا جاتا تھا كہ ''خليفہ وصيف اور بغاء كے در ميان قفس ميں قيد ہے وہ لوگ جو بھى كہتے ہيں يہ طوطے كى طرح وہى بولتا ہے_(16)
ب: علويوں كى تحريك كى وسعت
اس زمانہ ميں ''رضا ئے آل محمد(ص) '' اور حكومت كے ظلم و جور كے خلاف اور اعتراض كے عنوان سے بہت سى تحريكيں اٹھيں _ تحريك كے ليڈر يہ ديكھ رہے تھے كہ ان كے امام فوجى اڈہ كے اندر سامرا ميں قيد ہيں اور خلافت كى مشينرى ان كى نگرانى كررہى ہے اور كسى مخصوص آدمى كے نام پرلوگوں كو اكٹھا كرنا اس كے قتل كا باعث ہوتا ہے _ اس لئے وہ لوگوں كو كلى طور پر رضائے آل محمد (ص) كى طرف دعوت ديتے تھے _
مورخين نے اٹھارہ تحريكوں كے نام بيان كئے ہيں _ ہم ان ميں سے اختصار كے ساتھ چند تحريكوں كا نام ذكركر رہے ہيں :
1_محمد ابن قاسم علوى كى تحريك :يہ ايك عالم ،زاہد اور متقى آدمى تھے _انہوں نے معتصم كے زمانہ ميں طالقان ميں قيام كيا _ اور عبداللہ ابن طاہر كے ساتھ ايك جھڑپ كے بعد 219ھ ق ميں عبداللہ كے ہاتھوں گرفتار ہو كر معتصم كے پاس لائے گئے _(17)
2_يحيى ابن عمر علوى كى تحريك :يحيى ايك زاہد متقى اور باعلم و عمل آدمى تھے _ انہوں نے 250ھ ميں كوفہ ميں قيام كيا اور بہت سے لوگوں كو اپنے اردگرد جمع كرليا اور بيت المال پرحملہ كركے بيت المال اپنے قبضہ ميں كرليا ،زندانوں كے دروازے كھول كر قيديوں كو آزاد كرديا اور شہر كے حكام كوشہر سے باہر نكال ديا ليكن آخر ميں شكست كھا كر ''حسين ابن اسماعيل '' كے ہاتھوں قتل ہوئے _ ان كى لاش كو دار پر لٹكايا گيا _(18)
3_حسين ابن زيد كى تحريك : انہوں نے 250ھ ق ميں طبرستان ميں قيام كيا ''اس سرزمين
276
اور (شہر)گرگان پر قبضہ كرليا اور 270ھ ق ميں انتقال فرما گئے ان كے بھائي ''محمد''ان كے جانشين ہوئے (19)
4_محمد ابن جعفر علوى كى تحريك :آپ نے 250ھ ق ميں خراسان ميں قيام كيا ليكن عبداللہ ابن طاہر كے ہاتھوں گرفتار ہو كر قيد كرديئے گئے اور وہيں انتقال فرمايا_(20)
امام (ع) كے ساتھ متوكل كا سلوك
امام ہادى (ع) اگر چہ خلفائے بنى عباس ميں سے چھ خلفاء كے ہمعصر رہے ليكن متوكل اور معتز سے آپ (ع) نے دوسرے خلفاء كى بہ نسبت زيادہ دكھ سہے _ ان دونوں خلفاء كى سياست مخالفين ،خصوصاً علويوں كا قلع قمع كرڈالو كى سياست تھى _
متوكل حكومت بنى عباس ميں سب سے بڑا ظالم اور بد سرشت بادشاہ تھا اس كى حكومت كى مدت چودہ (14)سال كچھ دن تھى (232ھ ق_247ھ ق)اور يہ زمانہ د سويں امام (ع) اور ان كے تابعين كے لئے سخت ترين زمانہ شمار كيا جاتا ہے _
متوكل جس كا دل اميرالمؤمنين ،ان كے خاندان اور ان كے شيعوںكے لئے كينہ سے بھرا ہواتھا _ وہ اس بات كى كوشش كرتاتھا كہ اس خاندان كے نماياں افراد كو نہايت بے دردى سے ختم كردے _ اسى لئے اس نے علويوں كے ايك گروہ كو قتل كيا اور دوسرے گروہ كو بھى نيست و نابود كرڈالا_
وہ ائمہ كى جانب بڑھتے ہوئے عمومى افكار كو روكنے اور ائمہ (ع) كو گوشہ نشين بنانے كے لئے جھوٹے خواب نقل كركے لوگوں كو محمد ابن ادريس شافعى كى _جو گذر چكے تھے _ پيروى كرنے كا شوق دلاتاتھا_(22)اور 236ھ ق كو اس نے حكم ديا كہ سيدالشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام كے مرقد مطہر كو ويران كرديا جائے اور اس زمين پر زراعت كى جائے تا كہ لوگ اس مرقد مطہر كى
277
زيارت كونہ جائيں جو شيعوں كا مركز اور دربار خلافت كے ظلم و استبداد كے خلاف شيعوں كى تحريكوں كے لئے الھام بخش ہے _(23)
ليكن نہ صرف يہ كہ شيعہ كسى بھى طرح اس تربت پاك كى زيارت سے باز نہيں آئے بلكہ يہ جرم ان كے مبارزات كى شدت كو بڑھانے كا سبب بنا اور انہوں نے اپنے نفرت و غصہ كو نعروں اور اشعار كى شكل ميں بغداد كے شہر اور مسجد كى ديواروں پر لكھ كر ظاہر كيا _ ايك شعر كا مضمون ملاحظہ ہو :'' خدا كى قسم اگر بنى اميہ نے ظلم و ستم كے ساتھ فرزند پيغمبر (ص) كو قتل كرديا تو اب بنى عباس _ جو فرزندان عبدالمطلب اور ان كى نسل سے ہيں _ انہوں نے بھى بنى اميہ كے جرائم كى طرح جرم كا ارتكاب كيا،يہ قبر حسين (ع) ہے جو ويران ہو گئي ہے _ اور يہ كہ بنى عباس كو اس بات كا افسوس ہے كہ انہوں نے قتل امام حسين (ع) ميں شركت نہيں كى اور اب آنحضرت (ص) كى تربت پر ظلم اور ان كى قبر كو ويران كركے وہ بنى اميہ كے جرائم كى پيروى كررہے ہيں _(24)
ائمہ اہل بيت كى دوستى اور ان كى پيروى كے جرم ميں متوكل لوگوں پر سختى كرتا اور ان كو سزائيں ديتا تھا_
ابن سكيت ايك شيعہ اديب اور شاعر متوكل كے بيٹوں _ معتز اور مؤيد _ كے معلم تھے ايك دن خليفہ نے دونوں بيٹوں كى طرف اشارہ كركے ابن سكيت سے پوچھا كہ ''تيرے نزديك يہ دونوں زيادہ محبوب ہيں يا امام حسن و امام حسين(عليہما السلام) ؟ابن سكيت نے بے جھجك جواب ديا كہ امير المؤمنين كے غلام قنبر تيرے دونوں بيٹوں سے بہتر ہيں _(25)
متوكل كو ہرگز ايسے جواب كى اميد نہ تھى چنانچہ وہ بڑا غضب ناك ہوا اس نے ان كى زبان گدّى سے كھنچ لئے جانے كا حكم ديا اور اس دردناك طريقہ سے ان كو شہيد كرديا_ (26)
امير المؤمنين (ع) سے كينہ اور عداوت نے متوكل كوايسى پستى اور رذلت ميں پہنچا ديا تھا كہ وہ ناصبيوں اور دشمنان اہل بيت (ع) كو اپنے قريب كرتاتھا اور كينہ سے لبريز دل كى تسكين كے لئے حكم ديتا تھا كہ ايك مسخرہ اپنى شرم آور حركات سے امير المؤمنين كا مذاق اڑائے اور ايسے ميں متوكل
278
شراب پيتا اور يہ مناظر ديكھ كر قہقہہ لگا تا _(27)
سامرا ميں امام _كى جلا وطني
232ھ ق ميں جب متوكل نے اقتداراپنے ہاتھ ميں ليا تو اس نے مختلف طبقہ كے لوگوں ميں امام ہادى (ع) كے نفوذ اور ان سے لوگوں كى محبت كو ديكھا تو بہت خوفزدہ ہوا اس وجہ سے اس نے چاہا كہ امام (ع) كو مدينہ سے سامرا بلائے اور آٹھويں امام (ع) كے سلسلہ ميں مامون كے رويہ كى پيروى كرے تا كہ آپ كو ان كے چاہنے والوں سے دور كرنے كے ساتھ ساتھ فعاليت سے بھى روك دے اور قريب سے نگرانى كرتا رہے _
حرمين كے امام جماعت اور والى مدينہ نے امام _كے بارے ميں متوكل سے جو چغلى لگائي تھى اس نے خليفہ كو اس ارادہ كو عملى جامہ پہنانے پر اكسايا اس وجہ سے اس نے 234ھ ق(104)
ميں امام كے لئے ايك خط لكھا اور اس كو يحيى ابن ہر ثمہ كے ذريعہ بھيجا اور حكم ديا كہ سامرا لاياجائے _(28)
امام (ع) اگر چہ متوكل كى برى نيت سے واقف تھے پھر بھى آپ (ع) نے اپنے آباء كرام كى پيروى كرتے ہوئے اس بات ميں بھلائي نہيں محسوس كى كہ متوكل كى مخالفت كى جائے اس لئے كہ اس كى مخالفت چغلى لگانے والوں كے لئے سند بن جاتى اور خليفہ كو اور زيادہ بھڑ كاديتى اسى وجہ سے آپ (ع) اس جبرى سفر پر آمادہ ہوگئے _(29)
اور اپنے بيٹے امام حسن عسكرى (ع) كولے كر خليفہ كے بھيجے ہوئے آدميوں كے ساتھ سامرا ء كے سفر پر چل پڑے _
متوكل نے آپ كى شخصيت كو نقصان پہنچانے اور اپنى طاقت كے مظاہرہ كے لئے حكم ديا كہ امام (ع) كو ايك نامناسب جگہ جس كا نام ''خان الصعاليك'' تھا ،جو گدا گروں كى جگہ تھى ،وہاں
279
اتاراجائے اور ايك دن وہاں ٹھہرانے كے بعد محلہ عسكر(30)ميں امام (ع) كے لئے ايك گھر ليا گيا اور آپ (ع) كو اس ميں منتقل كيا گيا (31)آخر عمر تك آپ (ع) اسى جگہ مقيم رہے اور متوكل اور اس كے بعد كے خلفا ء كى طرف سے ہميشہ نظر بند رہے _ سامرا ميں بيس سالہ قيام كے دوران آپ (ع) نے بڑے دكھ سہے ،خاص كر متوكل كى طرف سے ہميشہ تہديد اور آزار كا شكار رہے _ بغير كسى اطلاع كے پيسہ اور اسلحہ كى تلاشى كے بہانہ بارہا آپ (ع) كے گھر كى تلاشى ہوتى رہى اور بہت سے مواقع پر خود آپ (ع) كو خليفہ كے پاس لے جايا گيا_
معتز ،متوكل كا بيٹا بھى اپنے باپ سے كم نہ تھا _ علويوں كے ساتھ اس كا سلوك بہت ناروا تھا _ اس كى حكومت كے زمانہ ميں بہت سے علويوں كو يا تو زہر ديا گيا يا قتل كرڈالاگيا _ امام ہادى (ع) اسى كے زمانہ ميں شہيد ہوئے _
امام (ع) كى فعاليت اور آپ (ع) كا موقف
امام ہاد ى _كى علمى اور سماجى فعاليت اور خلافت كى مشينرى كے مقابل آپ كے موقف سے آگاہى كے لئے ضرورى ہے كہ ہم مسئلہ كى دوحصوں ميں تشريح كريں _
1_مدينہ ميں آپ (ع) كى فعاليت اور آپ (ع) كا موقف
2_ سامرا ميں حضرت (ع) كى كار كردگى اور آپ كا موقف
الف :مدينہ ميں آپ كى فعاليت اور موقف
اپنے والد بزرگوار كى شہادت كے بعد اپنى امامت كے زمانہ ميں امام ہادى (ع) نے تقريباً تيرہ سال نہايت دشوار گذار اور كھٹن ما حول ميں مدينہ ميںزندگى بسر كى اور آپ (ع) نے مختلف گروہوں كو آگاہى بخشنے ،طاقتوں كو جذب كرنے اور عوامى مركز تشكيل دينے ميں اپنى تمام تركوششيں صرف كيں _
280
يہ كوششيں اتنى موثر اور دربار خلافت كے لئے ايسى خطرناك تھيں كہ حرمين كے امام جماعت ''بريحہ'' نے متوكل كولكھا اگر تم كو مكہ اور مدينہ كى ضرورت ہے تو على ابن محمد ہادي(ع) كو اس ديار سے نكال دو اس لئے كہ وہ ،لوگوں كو اپنى طرف بلاتے ہيں چنانچہ بہت سے افراد بھى ان كے گرويدہ ہيں_(32)
اسى بات كو حكومت بنى عباس كے طرفداروں نے ،منجملہ ان كے والى مدينہ نے بھى متوكل كو لكھا اور يہى فعّاليت اور لوگوں كى چغلى ، اس بات كا باعث ہوئي كہ متوكل امام (ع) كو سامرا منتقل كرنے كے نگرانى ميں ركھے _
سامرا لے جاتے وقت مدينہ كے عوام كاردّ عمل ،امام كى سياسى اور سماجى كوششوں اور معاشرہ ميں ان كى حيثيت پر دوسرى بولتى ہوئي دليل ہے _
يحيى بن ہرثمہ نقل كرتا ہے كہ جب مدينہ والوں كو معلوم ہوا كہ ہم امام ہادى (ع) كو مدينہ سے لے جانے كے لئے آئے ہيں تو ان كے نالہ و فرياد كى ايسى آواز يں بلند ہوئيں كہ ميں نے اس سے پہلے ايسى آوازيں نہيں سنى تھيں، جب ميں نے قسم كھا كر يہ بات كہى كہ امام (ع) كے ساتھ كوئي برا سلوك نہيں كروں گا تب لوگ چپ ہوئے _ (33)
مدينہ والوں كے نالہ و شيون او ران كى فرياد سے دو حقيقتوں كا پتہ چلتا ہے _ پہلى بات تو يہ ہے كہ اس سے امام كے سلسلہ ميں ان كى محبت اور الفت كا اندازہ ہوتا ہے _ اور دوسرى بات ہے كہ امام (ع) كے بارے ميں حكومت كے معاندانہ رويہ سے لوگ آگاہ ہوگئے _
لوگوں كا غم و غصہ اور ان كى تشويش دو باتوں كى بنا پر تھى :
1_آپ كى رہبرى اور آپ كے فيوض و بركات سے محرومى اور جدائي _
2_اس بات كا احتمال كہ پايہ تخت منتقل كرنے كہ بعد امام (ع) كو شھيد كرديا جائيگا اور اس احتمال كو خليفہ كے بھيجے ہوئے آدميوں نے لوگوں كے شك آلود چہرہ اور ان كے نالہ و فرياد سے بخوبى محسوس كرليا تھا _ اسى وجہ سے يحيى بن ہرثمہ نے قسم كھائي كہ كہيں كوئي حادثہ نہ پيش آجائے _
281
ب: سامرا ميں امام (ع) كى فعاليت اور موقف
امام ہادى (ع) نے جو بيس سال سامرا ميں زندگى گذارى اس كھٹن ما حول ميں اپنے دوستوں اور خود اپنى نگرانى كے ، با وجود امكان كى حدتك پيغام الہى كو ہميشہ كى طرح پہنچانے ميں كامياب رہے_
آپ (ع) كى كاركردگى كا خلاصہ دو حصوں ميں بيان كيا جا سكتا ہے :
1_اپنے برحق موقف كو بيان كرنا اور اسے مضبوط بنانا اور باطل كے موقف پر تنقيد كرنا _
2_ عوامى مركز كى پشت پناہى اور لوگوں كو دربار خلافت ميں داخل ہونے اور اس كى مدد كرنے سے روكنا _
1_پہلا موقف
اس موقف كو بيان كرنے كے لئے چند نمونوں كا بيان كردينا ضرورى ہے _
1_ خليفہ پر كھلم كھلا امام كى تنقيد اور واضح بيانات _
اس كا واضح ترين نمونہ وہ اشعار ہيں جو امام _نے خليفہ كى بزم ميں پڑھے اور متوكل نے گريہ كيا _
متوكل نے ايك بزم منعقد كى اور اس نے حكم ديا كہ امام ہادى _كو بھى لا يا جائے ، جب امام (ع) وہاں پہنچے تو_ متوكل جو شراب خورى ميں مشغول تھا _ اس نے امام(ع) كو اپنے پہلو ميں بٹھايا اور امام (ع) سے اس نے اس كا م كى بھى خواہش كى (معاذاللہ) امام (ع) نے فرمايا ''ميرا گوشت اور ميرا خون ہرگز شراب سے آلودہ نہيں ہوا ہے''_
متوكل آپ كو شراب پلانے سے مايوس ہوگيا اور اس نے اشعار پڑھنے كى پيشكش كى ، امام_نے فرمايا كہ ميں بہت كم شعر پڑھتا ہوں متوكل نے كہا شعر پڑھنے كے سوا اور كوئي چارہ ہى نہيں ہے _
282
امام _نے اشعار پڑھے جس سے خليفہ بہت متاثر ہوا اتنا متاثر ہوا كہ خود خليفہ اور حاضرين مجلس نے گريہ كيا _پھر اس نے بساط شراب كو سميٹ دينے كا حكم ديا اور امام ہادى _كو چار ہزار دينار دے كر احترام سے واپس بھيجديا_ (34)
لوگوں كے در ميان انفرادى يا اجتماعى طور پر اپنى حقانيت اور امامت كا اثبات كے مرحلہ ميں آپ كا موقف كچھ اس طرح تھا كہ جو دربار خلافت سے آپ كے كلى منفى رويہ كے خلاف نہ تھا _
تاريخ ميں اس سلسلہ ميں بہت سے نمونے درج ہيں كہ امام (ع) نے اپنى پيش گوئي اور معجزات كے ذريعہ لوگوں كو اپنى حقانيت كى طرف متوجہ كرنے اور انہيں خواب غفلت سے بيدار كرنے كى بہت كوشش كى _
اس ميں سے ايك نمونہ حضرت كا ''سعيد ابن سھل '' بصرى سے سلوك ہے _ سعيد خود نقل كرتے ہيں كہ ميں واقفى (35)مذہب كا تھا _ ايك دن امام ہادى (ع) سے ملا آپ نے مجھ كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ،كب تك سوتے رہوگے ؟كيا تم نہيں چاہتے كہ اس غفلت سے بيدار ہوجاؤ؟امام _كى باتوں نے مجھ پر ايسا اثر كيا كہ ميں نے اپنا عقيدہ چھوڑ كر حق كو قبول كرليا(36)
كسى خليفہ كے بيٹے كے وليمہ كے سلسلہ ميں امام ہادى (ع) كى بھى دعوت تھى جب آپ تشريف لے گئے تو حاضرين آپ كے احترام ميں ساكت ہوگئے ليكن ايك جوان اسى طرح باتيں كرتا اور ہنستارہا وہ چاہتا تھا كہ امام _كو لوگوں كے در ميان سبك كردے امام (ع) نے اس نوجوان كى طرف رخ كيا اور فرمايا يہ كيسى ہنسى ہے جس نے تجھے ياد خدا سے غافل بنا ديا ہے ؟در آن حاليكہ تم تين دن كے بعد مرجاؤ گے _
وہ جوان يہ باتيں سن كر چپ ہوگيا ،تمام حاضرين امام _كى پيشين گوئي كى صداقت كو پركھنے كے لئے دن گنتے رہے يہاں تك كہ تيسر ا دن آيا اور وہ نوجوان مرگيا (37)
283
2_علمى كاركردگي
لوگوں كو آگاہ كرنے ،امامت كے موقف كى وضاحت اور اس كى تفسير بيان كرنے كے لئے امام _كى فعاليت كے محورمند مندرجہ ذيل ہيں :
1_ مختلف اقوال يا تحريريں جو حق كو ثابت كرنے والے اور لوگوں كے ذہن ميں ابھر نے والے شبہات كو ختم كرنے كے لئے ضرورى مقامات پر سامنے آئيں _
2_ مناظرہ كے جلسوں ميں شركت كرنا اور خليفہ يا ان لوگوں كے سوالات كے جواب دينا جن كو خليفہ سوال كرنے پراكساتا تھا _ پھر ان كو عملى اعتبار سے عاجز كردينا_
متوكل نے ايك دن ابن سكيت (38) كو اكسايا كہ امام سے مشكل مسائل پوچھے ،انہوں نے ايك نشست ميں امام سے وہ مسائل پوچھے جو ان كى نظر ميں مشكل تھے امام نے ان تمام سوالوں كے جواب ديئے _
اس كے بعد ابن سكيت ،يحيى ابن اكثم كو ميدان مقابلہ ميں لايا ليكن يحيى نے بھى منہ كى كھائي اور مغلوب ہوا_ اس نے متوكل سے كہا كہ ايسے جلسے منعقد كرنا حكومت كى بھلائي كے لئے مفيد نہيں ہيں ، اس لئے كہ امام _كى برترى اور كاميابى كى آواز شيعوں كے كانوں تك پہنچ چكى ہے يہ جلسے ان كے استحكام اور فخر كا باعث بنيںگے_(39)
3_شاگردوں كى تربيت
دربار خلافت كى طرف سے محدوديت كا شكار ہونے اور آپ كے گھر آنے جانے والوں كى نگرانى ہوتے رہنے كے با وجود امام ، قدر آور شخصيتوں اور بافضيلت لوگوں كى تربيت كرنے ميں كامياب ہوگئے ،شيخ طوسى نے ان لوگوں كى تعداد جو حضرت سے روايت كرتے تھے ايك سوپچاسي(185)لكھى ہے جن كے در ميان بڑے نماياں افراد بھى نظر آتے ہيں منجملہ ان كے :
1_ حضرت عبدالعظيم حسنى ہيں جن كا سلسلہ چار واسطوں سے امام حسن مجتبي(ع) سے مل جاتا ہے
284
آپ محدثين اور بزرگ علماء ميں شمار ہوتے تھے اور زہد و تقوى ميں بڑا مقام ركھتے تھے _
2_ حسين ابن سعيد اہوازى ہيں جنہوں نے فقہ و ادب و اخلاق كے موضوع پر تقريباً تيس كتابيں لكھى ہيں ، آپ علمى مقام و منزلت كے حامل ہونے كے علاوہ لوگوں كى ارشاد و ہدايت بھى فرماتے تھے (40)
3_على ابن جعفر ميناوى جن كو متوكل نے قيد خانہ ميں ڈال ديا تھا _
4_ مشہور اديب ابن سكيت جو متوكل كے ہاتھوں شہيد ہوئے ...
4_ زيارت جامعہ
امام ہادى _كى باقى رہ جانيو الى يادگار ميں سے ايك چيز ''زيارت جامعہ'' ہے ''موسى ابن عبداللہ نخعى '' نامى ايك شيعہ كى درخواست پر آپ نے ان كو يہ زيارت تعليم فرمائي تھى _ ولايت اور معرفت امام كے سلسلہ ميں شيعوں كے حيات بخش معارف ميں سے ايك دريا اس ميں موجز لايئےور مرحوم شيخ صدوق عليہ الرحمةجيسے بزرگ عالم نے ''من لا يحضرہ الفقيہ '' اور عيون اخبار الرضا ميں ، مرحوم شيخ طوسى ''قدس سرہ'' نے تہذيب الاحكام ميں اس زيارت كو نقل كيا ہے اور اب تك اس كى مختلف شرحيں لكھى جاچكى ہيں _
2_ دوسرا موقف
اس موقف كى وضاحت كے لئے بھى ہم چند موارد كو بطور نمونہ ذكر كريں گے _
1_ شيعوں كى حمايت اور پشت پناہي
اس سلسلہ ميں امام (ع) كى كوشش يہ تھى كہ اپنے دوستوں كى معنوى اور اقتصادى مشكلات كى حمايت و مدد كريں، چنانچہ مختلف علاقوں سے جو پيسے خمس ،زكوة اور خراج كے پہنچا كرتے تھے امام (ع) ان لوگوں كو دے ديتے تھے تا كہ وہ لوگ اسے عمومى مصالح اور لازمى ضرورتوں ميں صرف كريں _
285
اصحاب ميں سے تين افراد كے در ميان نوّے ہزار دينار ديئےانے كا واقعہ ہم گذشتہ صفحات ميں بيان كرچكے ہيں جو اس حقيقت پر واضح دليل ہے _
مذكورہ رقم كا ديا جانا ايسا حيرت انگيز ہے كہ ابن شہر آشوب اس واقعہ كو نقل كرتے كے بعد لكھتے ہيں كہ اتنى بڑى رقم كا خرچ كرنا صرف بادشاہوں كے بس كا كام ہے اور اب تك سنا نہيں گيا كہ كسى نے ايسے بخشش كى ہو_
جو قرآئن اس روايت ميں نظر آتے ہيں وہ اس احتمال كى نفى كرتے ہيں كہ امام نے يہ سارے پيسے اپنے اصحاب كو ذاتى مصارف كے لئے ديئےوں _
رقم كى زيادتى ان ميں سے دو افراد كو بغير در خواست اور بغير كسى ضرورت كے اتنى بڑى رقم ديا جانا _ يہ ہمارے دعوى كے گواہ بن سكتے ہيں _
2_اصحاب كو حكومت كے شيطانى پھندے ميں پھنسنے سے روكنا اور ان كى ہدايت كرنا _
اپنے بھائي كو متوكل كى بزم شراب سے امام (ع) كا روكنا امام (ع) كے اس موقف كا بڑا واضح نمونہ ہے_(41)
3_اپنے پيرووں سے مسلسل تحريرى رابطہ ركھنا اور ان كو ضرورى ہدايات ديتے رہنا _نمونہ ملاحظہ فرمائيں :
محمد ابن فرج رخجى كو آنے والے ايك خطرہ سے آگاہ كرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں كہ :''يا محمد اجمع امرك و خذ حذرك '' اپنے كاموں كو سميٹ لو اور ہوشيار ہو _ محمد فرماتے ہيں كہ ميںنے امام_كا مطلب نہيں سمجھا يہاں تك كہ خليفہ كے معين كردہ آدمى آگئے اور انہوں نے گرفتار كرنے اور بہت زيادہ مارنے پٹينے كے بعد مجھ كو قيد ميں ڈال ديا اور ميں آٹھ سال تك قيد ميں رہا_(42)
اگر محمد ابن فرج امام (ع) كا مطلب سمجھ گئے ہوتے تو شايد اس خطرہ سے نكل جاتے _
286
شہادت امام (ع)
تمام پريشانيوں اور محدوديتوں كے با وجود امام _بنى عباس كے ظالموں سے معمولى سمجھوتہ پر بھى راضى نہيں تھے اور يہ بات طبيعى ہے كہ امام (ع) كى الہى شخصيت ان كى اجتماعى حيثيت اور خلفاء كے ساتھ ان كا منفى رويہ ان لوگوں كے لئے خوف و ہراس پيدا كرنے والا اور ناگوار تھا _ اس وجہ سے آپ كے حق ميں تمام مظالم كرنے يہاں تك كہ زندان ميں ڈال دينے كے بعد بھى خوف و ہراس سے محفوظ نہ تھے ،اور ان كے پاس كوئي راہ چارہ نہ تھى كہ وہ نور خدا كو خاموش كرديں اور آپ كو قتل كرديں _
چنانچہ تيسرى رجب 254ھ ق ميں 42سال كى عمر ميں معتز كى خلافت كے زمانہ ميں آپ كو زہر ديا گيا اور سامرا ميں آپ اپنے ہى گھر ميں سپر و لحد كئے گئے_(43)
287
سوالات
1_ امام ہادى (ع) كس مقام پر كس تاريخ كو پيداہوئے ،آپ كے والداور والدہ كا نام لكھيے ؟
2_ دسويں امام (ع) نے كس تاريخ اور كس سن ميں امامت كے عہدہ كى ذمہ دارى سنبھالى آپ كى امامت كى مدت كتنى ہے ؟آپ كے معاصر خلفاء كا نام بتايئے
3_ دسويں امام (ع) كى امامت كے زمانہ كى خصوصيت كو مختصر طور پر بيان كيجئے ؟
4_ متوكل كا امام ہادى (ع) كے ساتھ كيسا سلوك تھا _ اس نے امام (ع) كو كس وجہ سے سامرابلوايا؟
5_ كيا مدينہ ميں امام _كى سياسى اجتماعى فعاليت پر دليليں موجود ہيں ؟
6_سامرا ميں امام ہادى (ع) كى فعاليت اور ان كے موقف كو اختصار سے بيان فرمايئے
7_امام (ع) كى شہادت كس تاريخ كو اور كيسے ہوئي؟
8_شہادت كے وقت دسويں امام (ع) كى كيا عمر تھى ؟
288
حوالہ جات
1. ''صريا '' مدينہ سے تين ميل كے فاصلہ پر ايك قريہ ہے جس كو موسى ابن جعفر (ع) نے آباد كيا تھا ،مناقب جلد 4/382،بحار جلد 50/115''صربا''بھى لكھا گيا ہے _
2. بحار جلد 50/114،115،مناقب ج 4 /401،اعلام الورى /355،ارشاد /327،انوار البھية 244_
3. اصطلاح راويان شيعہ ميں ابوالحسن اول امام ہفتم اور ابوالحسن ثانى امام ہشتم ہيں_
4. ''امى عارفہ بحقى و ھى من اھل الجنة لا يقربھا شيطان ما رد و لا ينالھا كيد جبار عنيد و ھى مكلوئَة بعين اللہ التى لا تنام و لا تخلف عن امھات الصديقين و الصالحين ''سفينة البحار 2/240،انوار البہية /245_
5. اثباة الہداة جلد 6/209_
5. بحار جلد 50/118_
6. الفصول المہمہ/283_282_
7. المقنا جلد 2/218 نوشتہ '' دخيل '' منقول از اصول كافى ، تذكرة الخواص /322_
8. نور الابصار /277 ، ائمتنا نوشتہ ،''دخيل'' جلد 218_
9. مناقب جلد 4/409_
10. بجار جلد 50/129، انوار البہيہ/247_
11. بحار جلد 50/175، كشف الغمہ جلد 3/ 165 _ 164 _ نور الابصار شنبلنجى /182_ 181 _ الفصول المہمہ /279 _ 278 ، الصواعق المحرقہ /207 _ 206، انوار البہيہ / 256_255_
12. اعلام الورى /361_ 360_ مناقب جلد 4/407، بحار جلد50/137_ انوار البہيہ /247_
13. مزيد معلومات كے لئے جبر و تفويض كے مسئلہ ميں امام كا خط اور اسى طرح آ پ كے احتجاجات جو كتاب تحف العقول ميں صفحہ 256_338 پر موجود ہيں ملاحظہ فرمائيں_
14. اور شايد اس دور ميں بنى عباس كے چھ خليفہ تك ہاتھوں ہاتھ خلافت پہنچنے كى علتوں ميں سے ايك بڑى وجہ يہى مسئلہ تھا_ اور خلافت كے عہدہ پرنسبتاً زيادہ دنوں تك متوكل كے قابض رہنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ ايك حد تك قدرت كو اپنے ہاتھوں ميں لئے رہنے اور ان لوگوں كى اسيرى سے اپنے آپكو نجات دينے ميں كامياب ہو گيا_
289
15.
اليس من العجائب ان مثلى
يرى ما قل ممتنعاً عليہ
و تو خذباسمہ الدنيا جميعا
و ما من ذاك شيئي فى يديہ
اليہ يحمل الاموال طرًا
و يمنع بعض ما يجبى اليہ
16. '' خليفة فى قفس بين و صيف: و بغاء ، يقول ما قالالہ كما يقول البغائ''_مروج الذہب جلد 4/61_
17. مقاتل الطالبين / 384_ 382_
18. مقاتل الطالبين /424_420 كامل ابن اثير جلد 7/130_126_
19. مقاتل الطالبين /406 ، كامل ابن اثير جلد 7/130،248،407_ مروج الذہب ج 4/68_
20. مقاتل الطابين /406، مروج الذہب جلد 4/69_
21. تاريخ الخلفاء /251_350_
22. تاريخ الخلفائ/347، تاريخ ابوالفداء /جزء دوم /38_
23.
باللہ ان كانت اميّہ قد اتت
قتل بن بنت نبيّہا مظلوما ً
فلقد اتاہ بنو ابيہ بمثلہ
ہذا لعمرى قبرہ مہدوماً
اسفو على ان لا يكونوا شاركوا
فى قتلہ فتتّبعوہ رميماً
24. الفداء نے اپنى تاريخ ميں ابن سكيب كا بيان اس طرح لكھا ہے كہ '' قنبر تجھ سے اور تيرے دونوں بيٹوں سے زيادہ مجھ كو محبوب ہيں_
25. تاريخ الخلفاء / 348، تاريخ ابى الفداء جلد1/جزء دوم /41_40
26. المختصر فى اخبار البشر (معروف تاريخ ابى الفدائ) جلد 1 / جزء دوم /38
27. امام كے سامرا جانے كى تاريخ ميں اختلاف ہے ، مرحوم مفيد نے ارشاد ميں امام كو متوكل كے خط لكھنے كى تاريخ جمادى الآخر 243ھ ق( ارشاد /333 ) بتائي ہے ليكن جو مناقب جلد 4/401 اور ديگر كتابوں ميں سامرا ميں امام كى قيام كى مدت بيس سال لكھى ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ آپ كے سامرا جانے كى تاريخ وہى 234 ھ قہے ، اس لئے يہ بات بعيد معلوم ہوتى ہے كہ متوكل امام كى فعاليت سے گيارہ سال غافل رہا ہو اور اس نے كوئي فكر نہ كى ہو _
28. بحار جلد 50/201_ 200 ، ارشاد مفيد / 332 ، تذكرة الخواص / 322
290
29. آپكا سفر زبردستى كا سفر تھا اس كى دليل خود آپ كا قول ہے آپ نے فرمايا: مجھ كو مدينہ سے زبردستى سامرا لايا گيا بحار 50/129
30. چونكہ وہ گھر جہاں امام ہادى _اور ان كے بعد امام حسن عسكرى _ نظر بندكئے گئے تھے عباسى لشكرگاہ كے پاس تھا اور اس محلہ كو محلہ عسكر كہتے تھے اس لئے يہ دونوں امام عسكريين كے نام سے مشہور ہوئے بحار 50/ 362_
31. فصول المہمہ /281_280،ارشاد مفيد /334_333،تذكرہ الخواص 362،انوار البہيّة /259،بحار ج50 /200_
32. ''ان كان لك فى الحرمين حاجة فاخرج على بن محمد منھا فانّہ قد دعا الناس الى
نفسہ و اتبعہ خلق كثير''بحار جلد 50/209،سيرة الائمہ الاثنى عشر جلد 2/485_
33. مروج الذہب جلد 4/84،بحار جلد 50/217،تذكرة الخواص /332_
34. تذكرة الخواص /323،مروج الذہب جلد 4/12_10،تو ر الابصار شبلخى /182،بحار جلد 50/211،امام نے جو اشعار پڑھے ان ميں سے كچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
با تو على قلل الاجبال تحرسھم
غلب الرجال فما اغنتھم القلل
و استنزلوا بعد عزمن معاقلھم
و اسكنوا حضراً يا بئس ما نزلوا
ناداھم صارخٌ من بعد دفنھم
اين الاساور و التيجان و العلل
اين الوجوہ التى كانت منعمہ
من دونھا تضرب الاستار و الكلل
فافصح القبر عنھم حين سائلھم
تلك الوجوہ عليھا الدّود تنتقل
قد طال ما اكلوا دھراً و ما شربوا
فاصبحوا بعد طول الا كل قد اكلوا
انہوں نے پہاڑ كى چوٹيوں كو اپنے رہنے كى جگہ قرار دى اور مسلح افراد ان كى حفاظت كررہے تھے ليكن ان ميں سے كوئي چيز بھى موت كو نہ روك سكى _
انجام كار عزت كى بلند چوٹيوں سے قبر كے گڑھے ميں گر پڑے انہوں نے كتنى برى جگہ كو اپنے رہنے كى جگہ قرار ديا ايسى صورت ميں آواز آئي كہ وہ تاج و زينت و جلال و شكوہ سب كہاں چلے گئے _
كہاں گئے وہ نعمتوں ميں غرق چہرے جو مختلف پردوں كے پيچھے زندگى گذارتے تھے (جہاں بارگاہ تھى پردے اور دربان تھے ) ايسے موقع پر قبر نے آواز دى اور كہا : نازوں كے پروردہ چہروں كو كيڑے مكوڑے
291
كھارہے ہيں_
35. واقفى وہ لوگ ہيں جنہوں نے موسى ابن جعفر (ع) كى امامت پر توقف كيا ان كے بعد آپ كى امامت كو انہوں نے قبول نہيں كيا ، ان كا عقيدہ ہے كہ موسى بن جعفر كا انتقال نہيں ہوا ہے بلكہ وہ نظروں سے پنہاں ہوگئے اور ايك دن ظہور فرمائيں گے _
36. مناقب جلد 4/407، بحار جلد 50/172_
37. مناقب جلد 4/415 _414_
38. مناقب جلد 4/405 _403،بحار جلد 50/172_164_
39. ابن سكيت ہر چند كہ دل سے شيعہ اور دوستدار اہل بيت تھے ليكن چونكہ وہ متوكل كے بيٹوں كے معلم بھى تھے اور شايد وہ اپنے عقيدہ كو چھپا تے تھے اس وجہ سے انہوں نے يحيى بن اكثم كو اس بات كے لئے آمادہ كيا كہ وہ امام سے سوال كرے _
40. تنقيح المقال جلد 1/329_
41. اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ :جب متوكل امام ہادى پر دسترسى حاصل نہ كر سكا اور آنحضرت كو مجلس لہو لعب اور عيش و عشرت ميں نہ كھينچ سكا تو كچھ لوگوں كى پيشكش پر اس نے آپ كے بھائي موسى كو اپنى محفل ميں دعوت دينے كا ارادہ كيا _ اور يہ دكھا كر كہ ابن رضا اس كے دستر خوان پر بيٹھے ہيں امام ہادى (ع) كى شخصيت اور حيثيت كو داغدار بنا نا چاہا _ موسى اس كى دعوت پر سامراء پہونچے اور تمام چيزيں پہلے سے فراہم تھيں جو لوگ پہلے سے تيار بيٹھے تھے وہ ان كے استقبال كو پہنچے امام (ع) بھى ان كے ساتھ وہاں گئے اور پہلى ملاقات ميں انہوں نے اپنے بھائي كو متوكل كے خيانت آميز نقشہ ميں پھنستے ہوئے ديكھ كر ان كو اس كے جلسہ ميں شركت كرنے سے روكا ليكن موسى نے امام كے نصيحتوں كا اثر نہيں ليا امام نے جب يہ محسوس كرليا تو آپ نے نہايت يقينى لہجہ ميں كہا :تم كو متوكل كى بزم ميں شركت كرنے كا موقع ہى نہيں ملے گا _ آخر كار وہى ہوا جسكى پيشين گوئي امام (ع) نے كى تھى _ ارشاد مفيد /332_321_مناقب جلد 4/410_419بحار 50/158_
42. اعلام الورى /358،مناقب جلد 4/414،بحار ج 50 /140_
43. اعلام الورى /355،ارشاد مفيد /334،مناقب جلد 4/401،بحار جلد 50/114_117_
|