243
بارہواںسبق :
امام محمد تقى (ع)كى سوانح عمري
245
ولادت
امام رضا _كى عمر 45 سال سے زيادہ ہو چكى تھى ليكن ابھى تك آپ كے ہاں كوئي اولاد نہيں تھيں_
يہ بات شيعوں كے لئے جو كہ _ پيغمبر -(ص) اور ائمہ (ع) كى روايتوں كى بنا پر _ اس بات كے معتقد تھے كہ نويں امام كو آٹھويں امام كا بيٹا ہونا چاہيئے اسى وجہ سے كبھى امام كى خدمت ميں پہنچ كر شيعہ اپنى تشويش كا اظہار كرتے اور امام (ع) جواب ميں ان كا دل ركھتے ہوئے فرماتے تھے كہ '' خدا ہم كو بيٹا دے گا _(1)
آخر كار انتظار كى گھڑياں ختم ہوئيں اور دسويں ماہ رجب 195 ھ ق كو آسمان ولايت كا نواں ستارہ طلوع ہوا (2) _ آپ كا نام ''محمد '' كنيت ''ابوجعفر '' اور سب سے مشہور القاب '' جواد'' اور ''تقي'' ہيں _ آپ كى والدہ گرامى كا نام ''سبيكہ '' تھا امام رضا (ع) نے ان كا نام '' خيزران'' ركھا _ آپ رسول خدا (ع) كى زوجہ جناب ماريہ قبطيہ كے خاندان سے تھيں_
اس خاتون كى عظمت و بزرگى كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ امام موسى ابن جعفر (ع) نے آپ كے گھرامام رضا _كے آنے سے برسوں پہلے آپ كى بعض خصوصيات كو بيان فرمايا اور _ اپنے ايك صحابي_ ابن سليط سے كہا كہ اگر ان سے ملاقات ممكن ہو تو ان تك ميرا سلام پہنچانا _(3)
ابو يحيى صنعانى نقل كرتے ہيں كہ ميں امام (ع) رضا _كى خدمت ميں حاضر تھا كہ لوگ امام جواد (ع) كو _ جو اس وقت كم سن تھے_ لے آئے حضرت(ع) نے فرمايا '' يہ بچہ وہ مبارك بچہ ہے كہ ہمارے
246
شيعوں كے لئے اس سے زيادہ مبارك بچہ پيدا نہيں ہوا ہے _ (4)
شايد امام كے قول كى دليل وہى ہو جس كى طرف اس سے پہلے اشارہ ہو چكا ہے اس لئے كہ امام جواد (ع) كى پيدائشے نے شيعوں كى يہ تشويش ختم كردى كہ امام رضا _كا كوئي جانشين نہيں ہے چنانچہ آپ كى ولادت ايمان و اعتقاد كى استوارى كا سبب بنى _(5)
تعيين امامت
ہر چند كہ نويں امام (ع) كى امامت محتاج بحث نہيں ہے اس لئے كہ رسول اكرم (ص) اور سابق ائمہ (ع) كے تصريحى بيانات كے علاوہ يہ بات بھى ہے كہ آپ (ع) آٹھويں امام (ع) كے ايك ہى بيٹے تھے اور آپ كے علاوہ خاندان علوى ميں كوئي بھى اس الہى منصب كے لائق نہ تھا ليكن نمونہ كے طور پر آپ(ع) كى امامت كے سلسلہ ميں امام رضا _كے چند صريحى بيانات پيش كئے جارہے ہيں _
1_ '' محمد ابن ابى عباد '' نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام رضا _سے سنا آپ فرما رہے تھے كہ ميرے بعد ابوجعفر ميرے خاندان كے درميان ميرے وصى اور جانشين ہوں گے (6)_
2_ '' عبداللہ ابن جعفر '' نقل كرتے ہيں كہ ميں صفوان ابن يحيى كے ساتھ امام رضا (ع) كى خدمت ميں پہنچا ، امام جواد _بھى جو ابھى تين سال كے تھے وہاں موجود تھے ميں نے امام (ع) سے پوچھا كہ اگر كوئي حادثہ پيش آجائے تو آپ كا جانشين كون ہوگا؟ امام (ع) نے ابوجعفر (ع) كى طرف اشارہ كيا اور فرمايا: '' ميرا بيٹا'' ميں نے عرض كيا كہ '' اس سن و سال ميں؟'' آپ (ع) نے فرمايا '' ہاں اسى سن و سال ميں ، خداوند عالم نے حضرت عيسى ابن مريم (ع) كو اپنى حجت قرار ديا جبكہ آپ دوسالہ بچے تھے_''(7)
3_ '' خيراني'' اپنے باپ سے نقل كرتے ہيں كہ انہوں نے كہا كہ ميں خراسان ميں امام رضا_كے پاس تھا كسى نے آپ سے دريافت كيا ، اگر آپ كے ساتھ كوئي حادثہ پيش آجائے تو
247
كس كى طرف رجوع كيا جائے ؟
آپ نے فرمايا:'' ميرے بيٹے ابوجعفر _كى طرف''گويا سوال كرنے والے نے حضرت امام جواد(ع) كى عمر كو كافى نہيں سمجھا _ اسى لئے امام (ع) نے اضافہ فرمايا كہ خداوند عالم نے حضرت عيسى بن مريم (ع) كو نبوت و رسالت كے لئے معين فرمايا جبكہ ان كى عمر ، ابوجعفر كى اس وقت كى عمرسے بھى كم تھى _(8)
والد كے ساتھ
امام جواد _نے اپنى عمر كے تقريباً چھ سال (9) اپنے والد بزرگوار امام رضا(ع) كے ساتھ گذارے ، جس سال حضرت رضا (ع) كو خراسان بھيجا گيا آپ اپنے والد كے ساتھ مكہ تشريف لے گئے _ حالت طواف ميں آپ نے نہايت غور اور دقت نظر سے اپنے پدر بزرگوار كے اعمال اور ايك ايك بات كا جائزہ ليا اور يہ محسوس كيا كہ آنحضرت (ص) اس شخص كى طرح خانہ خدا كو وداع كررہے ہيں جسے اب پھر دوسرى بار لوٹ كر نہيں آنا ہے اس وجہ سے آپ _ جبكہ آپ كے چہرہ پر غم و اندوہ كے آثار تھے_ حجر اسماعيل كے اندر بيٹھے تھے اور امام رضا _كے خادم سے جس نے آپ كو وہاں سے اٹھانا چاہا فرمايا : ميں يہيں رہوں گا اور اپنى جگہ سے حركت نہيں كروں گا جب تك خدا كا حكم نہ ہو _
خادم نے يہ ماجرا امام رضا _سے بيان كيا امام (ع) بہ نفس نفيس اپنے بيٹے كے پاس پہنچے اور آپ (ع) نے فرمايا ميرے لال اٹھو چليں ، آپ نے عرض كيا '' بابا جان ،ہم كيسے چليں جبكہ ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ آپ (ع) كعبہ كو اس طرح وداع كررہے ہيں جيسے دوسرى بار پلٹ كر نہيں آناہے(10)''
ايك معصوم بچے كى چھ سال كى عمر ميں اس درجہ كمال اور ذاتى نبوغ كا اظہار ہو رہا ہے _
248
آپ (ع) كى امامت
نبوت كى طرح امامت بھى ايك الہى عطيہ ہے جسے خداوند عالم اپنے منتخب اور لائق بندوں كو عطا كرتا ہے او اس بخشش و عطا ميں سن و سال كا كوئي دخل نہيں ہے _ نويں اما م آٹھ يا نو سال كى عمر ميں امت كى امامت اور رہبرى كے منصب پر فائز ہوئے _
''معلّى بن محمد '' نقل كرتے ہيں كہ امام رضا (ع) كى رحلت كے بعد ميں امام جواد _سے ملا اور ان كے قد و قامت كو بغور ديكھا تا كہ شيعوں كے سامنے ان كى توصيف كر سكوں اسى اثنا ء ميں آپ (ع) بيٹھ گئے اور فرمايا : '' اے معلّى ، خدا نے امامت ميں بھى نبوت كى طرح احتجاج كيا ہے اور فرمايا ہے:
'' و اتنيناہ الحكم صبيّا''(11)
ہم نے يحيى كو بچپن ميں نبوت دي_(12)
مكارم اخلاق و فضائل
ائمہ معصومين كى خصوصيتوں ميں سے ايك حقيقتوں كى شناخت اور اس كا ادراك عام لوگوں كى قوت ادراك سے زيادہ تھا _ اس ذاتى نبوغ اور عقلى فروغ كے ظہور كے لئے بچپن بھى مانع نہيں تھا ، اسى وجہ سے ان حضرات كى زندگى اور ان كى عادتيں پيدائشے ہى سے دوسروں كے لئے اسوہ اور نمونہ قرار پاتى ہيں _ ان حضرات كى علمى برترى اور مراتب كمال كا علماء اور بزرگوں كا اعتراف ، اس حقيقت كى مؤيد ہے _ امام محمد تقى (ع)كے اخلاقى فضائل كا گوشہ بيان كرنے سے پہلے اہل سنت كے علماء كاان كے بارے ميں نظريہ بيان كرنا ضرورى ہے _
سبط ابن جوزى فرماتے ہيں : ''محمد جواد (ع) علم ، تقوى ، پرہيزگارى اور سخاوت ميں اپنے والد بزرگوار كے راستہ پر تھے _(13)
249
'' ابن تيميہ'' كا بيان ہے كہ محمد ابن على _جن كا لقب جواد تھا بنى ہاشم كے بزرگوں اور ممتاز شخصيتوں ميں سے تھے وہ سخاوت اور بزرگى ميں مكمل شہرت ركھتے تھے _ اسى وجہ سے جواد نام پڑا_ (14)
الف _ جود وسخاوت
امام جواد _، بخشش و عطا اور كرامت كا مكمل مصداق تھے لوگ ان كے عطيوں او عنايتوں سے بہرہ ورہوتے تھے _ اس حقيقت كى نشان دہى '' جواد(ع) '' كے لقب سے ہوتى ہے '' على بن ابراہيم '' اپنے والد سے نقل كرتے ہيں كہ ميں امام جواد (ع) كى خدمت ميںتھا كہ '' صالح ابن محمد'' _ قم كے اوقاف كے متولى (15) _ وہاں آئے اور عرض كيا : ميرے آقا وقف كى آمدنى ميں سے دس ہزار درہم حلال كر ديجئے ، اس لئے كہ ہم نے اس كو اپنے خاندان كے نفقہ ميں خرچ كرديا ہے _
امام نے خندہ پيشانى سے فرمايا : ميں نے حلال كيا _(16)
ب_ دوسروں كى مشكل كو حل كرنا
بست سجستانى (17) سے قبيلہ بنى حنيفہ كا ايك شخص نقل كرتا ہے كہ ميں معتصم كى خلافت كے ابتدائي زمانہ ميں مكہ كے سفر ميں امام (ع) كے ساتھ تھا_ حكومت كى كچھ ذمہ دار افراد بھى دستر خوان پر حاضر تھے _ ميں نے امام (ع) سے عرض كيا كہ آپ پر فدا ہوجاؤں ، ميرے علاقہ كا حاكم آپ كے خاندان كے دوستداروں ميں سے ہے اور خراج كے سلسلہ ميں ، ميں اس كے محكمہ كا قرضدار ہوں ليكن مجھ ميں ادا كرنے كى طاقت نہيں ہے _ اگر آپ مصلحت سمجھيں تو اس كو ايك خط لكھ ديں تا كہ وہ اس سلسلہ ميں ہمارے حق ميں محبت كا ثبوت دے _
امام (ع) نے فرمايا: كہ ميں اس كو نہيں پہچانتا ميں نے عرض كيا كہ:'' جيسا كہ ميں نے كہا كہ وہ آپ كا عقيدت مند ہے اس لئے يقينى طور پر آپ كا خط ميرے لئے مفيد ہو گا _ امام (ع) نے كا غذ قلم اٹھا يا اور لكھا حامل رقعہ نے تمہارے عقيدہ كى تعريف كى ، جان لو كہ اگر تم احسان اور نيك كام
250
كروگے وہ تمہارے لئے فائدہ مند ہو گا _ اس بنا پر اپنے برادران دينى كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرو اور يہ جان لو كہ خداوند عالم ايك ذرہ برابر شے كے بارے ميں بھى تم سے سوال كريگا(18)ميں نے خط ليا اور چل پڑا جب خط كى اور ميرے پہنچنے كى خبر سجستان كے انچارج كے پاس پہنچى تو وہ شہر سے دو فرسخ دور تك ميرے استقبال كے لئے آيا اس نے خط ليا اس كو چوما اور اپنى آنكھوں سے لگايا اور پوچھا تمہارى كيا حاجت ہے؟ ميں نے اس سے اپنى پريشانى بيان كى اس نے حكم ديا كہ ميرا نام قرض والے رجسٹر سے نكال ديا جائے _ اور جب تك وہ انچارج كام پررہا ميرا ٹيكس معاف رہا _ اس كے علاوہ اس نے ميرى اچھى خاصى مدد كى اور جب تك وہ زندہ رہا اس خط كى بركت سے اس نے ميرے حق ميں نيكى اور حسن سلوك ميں كوئي كمى نہيں كى (19)
3_ '' محمد ابن سہل قمى '' نقل كرتے ہيں كہ ميں مدينہ گيا اور امام جواد (ع) كے پاس پہنچا اور ميں نے چاہا كہ ان سے ايك لباس مانگ لوں ليكن ميں مانگ نہ سكا ، ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ اپنى خواہش لكھ كردوں پھر ميں نے لكھ ديا ... ليكن ميرے دل ميں يہ بات گذرى كہ خط كو نہ بھيجوں ، ميں نے خط پھاڑ ڈالا اور مكہ كى طرف چل پڑا _ اسى حال ميں ايك شخص كو ميں نے ديكھا كہ اس كے ہاتھ ميں ايك رومال ہے اور وہ قافلہ ميں مجھ كو ڈھونڈھ رہا ہے_ وہ مجھ تك پہنچا اور اس نے كہا: ميرے آقا نے تيرے لئے يہ لباس بھيجا ہے _(20)
امام جواد (ع) كى شخصيت
امام جواد (ع) نے امامت كے انوار مقدس كے پر تو اور خدا كى عبادت و بندگى ميں ايسى اجتماعى شخصيت اور حيثيت حاصل كى كہ جس كا اعتراف دوست و دشمن دونوں ہى كرتے ہيں _
آپ (ع) كے سخت ترين دشمن مامون نے آپ سے اپنى بيٹى كى شادى كے سلسلہ ميں عباسيوں كے اعتراض كے جواب ميں كہا : ميں نے ان كا انتخاب اس لئے كيا ہے كہ ميں نے كمسنى كے
251
باوجود علم و فضل ميں ان كو سب سے ممتاز پايا_(21)
آپ (ع) كى شخصيت اپنے پدر بزرگوار كے نزديك ايسى تھى كہ '' محمد ابن ابى عباد'' _ كاتب امام رضا(ع) بيان كرتے ہيں كہ امام رضا _اپنے بيٹے محمد كو ہميشہ كنيت كے ساتھ ياد كرتے تھے (22) _ ( اور جب امام جواد (ع) كا خط پہنچتا تھا) تو فرماتے تھے كہ '' ابوجعفر نے مجھے لكھا ہے''(23)
'' محمد بن حسن ابن عمار'' نقل كرتے ہيں :
'' دو سال تك ميں مدينہ ميں على بن جعفر كى خدمت ميں جاتا رہا انہوں نے جو روايت اپنے بھائي موسى ابن جعفر سے سنى تھى مجھ سے بيان كيا كرتے تھے اور ميں لكھتا رہتا تھا _
ايك دن ميں مسجد نبوى ميں ان كے پاس بيٹھا تھا كہ امام جواد(ع) تشريف لائے _ على ابن جعفر بغير جوتے اور ردا كے اپنى جگہ سے اٹھے ، آپ كے ہاتھوں كو بوسہ ديا آپ كى تعظيم كى ، امام (ع) نے ان سے فرمايا اے چچا آپ بيٹھئے خدا آپ پر رحمت نازل كرے _
انہوں نے كہا : اے ميرے سردار : ميں كيسے بيٹھ سكتا ہوں جبكہ آپ كھڑے ہيں ، جب على ابن جعفر اپنى جگہ پلٹ آئے تو ان كے دوستوں اور ساتھيوں نے ان كى سرزنش كى اور كہا كہ آپ ان كے باپ كے چچا ہيں اور اس طرح ان كا احترام كرتے ہيں
على ابن جعفر نے فرمايا : چپ رہو خدا نے اس سفيد داڑھى كو _ اپنى داڑھى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے _ امامت كے لائق نہيں سمجھا اور اس جوان كو اس كے لائق پايا اور امام قرارد يا ( كيا تم چاہتے ہو كہ) ان كى فضليت كا انكار كردوں ؟ تم جو كہتے ہو ميں اس سے خدا كى پناہ مانگتا ہوں ، ميں اس كا بندہ ہوں _(24)
خلافت كے مقابلہ ميں امام(ع) كا موقف
آپ (ع) كے سات سالہ زمانہ امامت ميں آپ (ع) كے ہم عصر ،مامون اور معتصم نامى دو خلفا ء تھے
252
ان كى حكومت كے زمانہ ميں آپ كا موقف امام على ابن موسى الرضا (ع) كے موقف كو جارى ركھنا تھا ، اور اس كى وجہ يہ تھى كہ خلافت كى مشينرى كے موقف ميں اتحاد پايا جاتا تھاجيسا كہ اس سے پہلے بيان ہو چكا ہے كہ امام رضا _كى وليعہدى سے امامت كا موقف بنى عباس كى طاقت كے مركز تك پہنچ گيا تھا _ اور چونكہ حكومت نے اپنے موقف كو تبديل نہيں كيا اس بنا پر بيٹھ رہنا درست نہ تھا_
خلافت كى مشينرى نے بھى اس مسئلہ كو بخوبى درك كرليا تھا اور امام رضا(ع) كو نماز عيد سے روك دينا بھى اسى حقيقت كى بنا پر تھا _ مامون اس سے ڈرتا تھا كہ ايك نماز پڑھا كر خلافت پر تصرف كرنے كے لئے امام (ع) كہيں زمينہ ہموار نہ كرليں_
شادى كى سازش
مامون نے بہت كوشش كى كہ امام رضا (ع) كو زہر ديا جانيوالا واقعہ بہت خفيہ اور پوشيدہ طور پر انجام پاجائے ليكن تمام پردہ پوشيوں اور ريا كاريوں كے باوجود آخر كار علويوں پر يہ بات آشكار ہو گئي كہ امام (ع) كا قاتل اس كے علاوہ اور كوئي نہيں تھا لہذا مامون بہت ناراض ہوا اور انتقام پر ا ترآيا_
انقلابيوں كى چارہ جوئي كرنے اور ان كى رضامندى حاصل كرنے كے لئے مامون نے آٹھويں امام كے فرزند كے لئے مہربانى اور دوستى كا اظہار كيا اور زيادہ فائدہ حاصل كرنے كے لئے اس نے يہ ارادہ كيا كہ اپنى بيٹى '' ام الفضل'' كى شادى امام جواد (ع) سے كردے _ اور اس نے كوشش كى كہ امام رضا (ع) پر ولى عہدى تھوپ كر اس نے جو فائدہ حاصل كرنے كى كوشش كى تھى اس رشتہ كو قائم كر كے وہى فائدہ حاصل كرلے _
بنى عباس كو مامون كے اس ارادہ سے خوف محسوس ہوا اور صورت حال كو قبل از وقت روكنے كے لئے جو امام رضا(ع) كے زمانہ ميں پيدا ہو گئي تھى ، جمع ہو كر ايك وفد كى صورت ميں مامون كے
253
پاس پہنچے اور كہنے لگے گذشتہ زمانہ ميں ہمارے اور علويوں كے درميان جو كچھ ہوا آپ اس سے اچھى طرح واقف ہيں اور آپ يہ بھى جانتے ہيں كہ گذشتہ خلفاء نے ان كو شہر بدر كيا اور ان كى توہين كى ہے _ ہم اس سے پہلے امام رضا (ع) كى ولى عہدى سے فكرمند تھے ليكن خدا نے وہ مشكل حل كردى _
اب ہم آپ كو خدا كا واسطہ ديتے ہيں كہ آپ ہم كو دوبارہ غمگين نہ كريں اور اس شادى سے صرف نظر كريں اور اپنى بيٹى كو بنى عباس كے كسى ايسے فرد سے بياہ ديں جو اس رشتہ كے لائق ہو ، '' مامون نے ان كے جواب ميں علويوں كى بزرگى ، خلفاء سابقين كى خطا اور ولى عہدى كے مسئلہ كى تائيد كرتے ہوئے امام جواد(ع) كى تعريف كى اور بزرگى بيان كى او ر كہا كہ ميں اس جوان كو تم سے زيادہ جانتا ہوں يہ ايسے خاندان سے ہيں جن كا علم خداداد ہے ، ان كے آباء و اجداد ہميشہ علم دين و ادب ميں لوگوں سے بے نياز تھے_(25)
يہ دوستى كا مظاہرہ اور مكارانہ رياكاريوں كے ذريعہ اس شادى سے سياسى مقصد حاصل كرنے كے علاوہ مامون كا اور كوئي مقصد نہ تھا ، جو مقاصد وہ حاصل كرنا چاہتا تھا ان ميں سے چند كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے :
1_ اس كا ارادہ تھا كہ اس رشتہ سے دامن پر لگے ہوئے قتل امام رضا (ع) كے داغ كو صاف كردے اور اپنے خلاف علويوں كے اعتراضات اور قيام كو روك دے اور اہل بيت(ع) كے دوستدار و طرفدار كے عنوان سے اپنا تعارف كرائے _
2_ اپنى بيٹى كو امام (ع) كے گھر بھيج كر ہميشہ كے لئے حضرت كے كاموں كى نگرانى كرنا _
3_ مامون كا خيال خام يہ تھا كہ اس ازدواج كے ذريعہ امام (ع) كو عيش و عشرت كے دربار سے وابستہ كرديگا اور ان كو لہو ولعب اور عيش و عشرت والى زندگى گذار نے پر آمادہ كردے گا _ تا كہ اس راستہ سے امام (ع) كى عظمت اور تقدس كو ٹھيس پہنچائے اور آپ (ع) كو عصمت و امامت كے بلند مقام سے گرا كر لوگوں كى نظروں ميں حقير كردے _
254
'' محمد ابن ريان'' نقل كرتے ہيں كہ مامون نے بہت كوشش كى كہ امام كو لہو و لعب كے لئے آمادہ كرے ليكن كامياب نہيں ہو ا _ اس كى بيٹى كى شادى كے جشن ميں سو ايسى خوبصورت كنيزيں جو جواہرات سے بھرے ہوئے جام اپنے ہاتھوں ميں لئے تھيں ، مامون نے ان سے كہا كہ امام(ع) كے آنے كے بعد ان كے استقبال كو بڑھيں ، وہ كنيزيں استقبال كو بڑھيں ليكن امام جواد (ع) بغير كوئي توجہ ديئےہاں وارد ہوئے اور آپ(ع) نے عملى طور پر يہ بتاديا كہ ہم ان كاموں سے بيزار ہيں_(26)
مامون ان مقاصد اور دوسرے مقاصد تك پہنچنے كے لئے _ امام رضا(ع) كى شہادت كے ايك سال بعد 204ھ ق ميں امام جواد (ع) كو مدينہ سے بغداد لے آيا اور اس نے اپنى بيٹى كى ان سے شادى كردى اور اس بات پر اصرار كيا كہ امام بغداد ہى ميں اس كے مزيّن محلوں ميں زندگى گذاريں _
ليكن امام (ع) نے مدينہ واپس جانے پر اصرار كيا ، تا كہ مامون كے بنائے ہوئے نقشہ كو نقش بر آب كرديں اس وجہ سے آپ (ع) اپنى بيوى كے ساتھ مدينہ پلٹ گئے اور 220 ھ ق تك مدينہ ميں مقيم رہے _
علمى اور ثقافتى كوششيں
امام جواد _نے بادل نخواستہ مختلف صورتوں ميں خلافت كى مشينرى كے زير نگرانى زندگى گذارى مگر اس درميان امكانى حد تك سماجى اور ثقافتى محاذوں پر كوششيں كرتے رہے _
ان محاذوں ميں سے '' بحث و مناظرہ'' كا ايك محاذ ہے _ امام (ع) نے اس موقف ميں اپنے پدر بزرگوار كى روش كو برقرار ركھا اور آپ (ع) نے ان جلسوں ميں شركت كى جو مامون نے امام (ع) كى علمى اور ثقافتى حيثيت كو شكست دينے كے لئے منعقد كئے تھے اور حقائق و معارف اسلامى كے بيان كے
255
ساتھ ساتھ آپ (ع) نے دربار خلافت سے وابستہ فقاہت اور دربارى قاضى القضاة كے چہرہ كو بے نقاب كيا _
مامون نے امام نہم كى امامت كے آغاز ميں دوبار مجلس مناظرہ منعقد كى ايك مجلس ميں جس ميں بنى عباس كے بہت سے افراد ، نماياں اور ممتاز دربارى شخصيتيں موجود تھيں ، مامون نے _ اس زمانہ كے قاضى القضاة _ '' يحيى بن اكثم'' كو امام(ع) سے سوال كرنے كے كئے كہا _
اس نے پہلا سوال اس طرح كيا:
آپ اس شخص كے بارے ميں كيا فرماتے ہيں جس نے حالت احرام ميں شكار كيا ہو ؟ امام (ع) نے فرمايا ( مسئلہ كى مختلف صورتيں ہيں) حرم كے اندر تھا يا باہر ، اس كو اس كا م كى حرمت كى خبر تھى يا نہيں ، عمداً اس نے شكار كيا يا سہواً ، غلام تھا يا آزاد ، شكار چھوٹا تھا يا بڑا ، اس نے پہلى بار ايسا كيا ہے يا دوسرى بار ، شكار پرندہ كا تھا يا غير پرندہ ،چھوٹا تھا يا بڑا ، شكار كے بعد اپنے فعل پروہ پشيمان تھا يا پھر كرنے كا ارادہ ركھتا تھا ، شكار رات ميں كيا تھا يا دن ميں ،اس كا احرام عمرہ كا احرام تھا يا حج كا؟
امام (ع) نے جب مسئلہ كى اس طرح عالمانہ شقيں بيان كيں اور اس كى يوں تشريح كردى تو يحى بن اكثم انگشت بدندان رہ گيا ، اس كے چہرہ پر شكست كے آثار نماياں ہوگئے ، اس كى ز بان لكنت كرنے لگى اس طرح كہ وہ مذكورہ بالا صورتوں ميں سے كسى صورت كا يقين نہ كر سكا _ حاضرين نے امام (ع) كى علمى صلاحيت و قدرت اور قاضى القضاة كى شكست كا اندازہ كر ليا_(27)
امام جواد _مامون كے منعقدكئے ہوئے جلسوں كے علاوہ ضرورى موقع پر اسلامى ثقافت كى توسيع اور شبہات و اشكالات كو دور كرنے كے لئے مختلف گوشہ و كنارسے مدينہ آئے ہوئے علماء اور دانشمندوں كے ساتھ بحث و گفتگو كرنے كيلئے بيٹھتے تھے ، نمونہ كے طور پر ايك مورد پيش كيا جاتا ہے : بغداد اور دوسرے شہروں كے اسّى افراد حج كے بعد مدينہ كو چلے تا كہ امام(ع) جواد سے ملاقات كريں ، وہ لوگ پہلے عبداللہ ابن موسى ( امام كے چچا) سے ملے ليكن وہ ان كے مسائل كے جواب سے عاجز رہے اتنے ميں امام جواد _ تشريف لائے اور آپ نے ان كے ايك ايك مسئلہ اور
256
مشكلات كا جواب عنايت فرمايا ، علماء نہايت مسرت كے عالم ميں اس مجلس سے نكلے اور امام (ع) كے لئے دعا كى _(28)
امام (ع) كے بچپن كو ديكھتے ہوئے ان جلسوں اور باتوں كے ضمن ميں جو مسئلہ مناظرہ كے دونوں فريق كے درميان مورد توجہ تھا وہ آپ (ع) كى امامت كا مسئلہ تھا_
ايك طرف امام (ع) نے علمى مشكلات سے پردہ اٹھا يا اور امامت كے موقف كى تشريح اور حقائق كو بيان كرتے ہوئے ان لوگوں كو _ جو آپ (ع) كى كمسنى كى وجہ سے _ آپ (ع) كى امامت كے بارے ميں شك اور تردد ميں مبتلا تھے، حقيقت سے آشنا كيا اور ہر طرح كے شبہ اور ترددسے ان كے ذہنوں سے صاف كيا _ اور دوسرى طرف عبداللہ ابن موسى ، امام كے چچا و غيرہ جيسے افراد كو جو بغير لياقت اور صلاحيت كے اپنے كو امامت كى جگہ پر لارہے تھے ، عملى طور پر ميدان سے دور ہٹا ديا اور ان كو گوشہ گير بناديا_
نماياں افراد كى تربيت
امام جواد _كے علمى اور ثقافتى كاموں ميں سے ايك كام ايسے ممتاز افراد كى تربيت تھى جن ميں سے ہر ايك ثقافت و معارف اسلامى كا ايك منارہ كہا جاتا تھا _
مرحوم شيخ طوسى نے امام جواد (ع) كے شاگردوں ، راويوں اور اصحاب كى تعداد تقريباً ايك سو دس افراد بتائي ہے(29) _ اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس زمانہ ميں لوگوں كا حضرت سے ملنا كتنا محدود اور مشكل تھا_ ليكن اس كے با وجود انہيں محدود افراد ميں كچھ روشن چہرے موجود ہيں منجملہ انكے :
1_ ابوجعفر ، محمد ابن سنان زہري
2_ احمد ابن ابى نصر بزنطي
3_ ابو تمام حبيب ابن اوس طائي
257
4_ ابوالحسن ، على ابن مہزيار اہوازي
5_ فضل بن شاذان نيشاپوري
6_ زكريا ابن آدم و غيرہ ہيں
امام (ع) كے مكتب كے پروردہ افراد ميں سے ہر ايك كسى نہ كسى انداز سے پريشانى اور سختى ميں مبتلا تھا _ عبداللہ ابن طاہر _ حاكم نيشاپور نے _ فضل بن شاذان كو نيشاپور سے باہر نكال ديا _ پھراس كے بعد ان كى كتابوں كى تفتيش كى جب ان كتابوں كے مندرجات سے لوگوں نے اس كو آگاہ كيا_ تب اس كو اطمينان حاصل ہوا اور اس نے كہا كہ ميں ان كے سياسى عقيدہ كو بھى جانتا ہوں_(30)
ابو تمام بھى اس دشمنى سے نہ بچ سكے ، اس زمانہ كے امراء جو خود بھى اہل شعر و ادب تھے ، وہ بھى ان كے شعر كو سننے كے لئے تيار نہ تھے جبكہ آپ اس زمانہ كے بہترين شاعر تھے اور اگر كسى نے پہلے سے بتائے بغير ان كا شعر پڑھ ديا اور اميروں كو پسند آگيا تو يہ سمجھ لينے كے بعد كہ يہ ابوتمام كا شعر ہے فوراً اصلى نوشتہ كو پھاڑڈالنے كا حكم ديتے تھے_(31)
معتصم كے دور حكومت ميں
مامون كى موت كے بعد 218 ھ ميں اس كا بھائي اس كى جگہ پر خلافت كے منصب بيٹھا اور امام جواد (ع) كے سلسلہ ميں اس نے مامون والى ہى سياست اختيار كى ، جب مدينہ ميں امام كى فعاليت سے خوفزدہ ہوا تو وہ 220 ھ ميں امام (ع) كو زبر دستى مدينہ سے بغداد لے آيا تا كہ نزديك سے ان كى نگرانى كر سكے اسكى حكومت ميں ايك شخص نے چورى كا اقرار كيا اور اس نے خليفہ سے يہ خواہش ظاہر كى كہ الہى حدود جارى كر كے اس كو پاك كرديا جائے ، معتصم نے تمام فقيہوں كو جلسہ ميں جمع كيا اور امام جواد _كو بھى بلايا _
258
پہلے اس نے '' ابن ابى داؤد'' (32) سے سوال كيا كہ چور كا ہاتھ كہاں سے كاٹنا چاہيے ؟
ابن ابى داؤد نے كہا كہ '' كلائي سے'' اور اپنى دليل ميں قرآن كى آيت '' فاغسلوا وجوہكم و ايديكم ... '' پڑھي_
فقہا كا ايك گروہ ان كى موافقت ميں تھا ليكن دوسرے گروہ نے ان كے نظريہ كى مخالفت كى اور كہا كہ كہنيوں سے ہاتھ كاٹنا چاہيے اور انہوں نے اپنے نظريہ كہ تائيد ميں آيہ '' فاغسلوا وجوہكم و ايديكم الى المرافق ''(33) كو دليل بنايا _
معتصم نے امام جواد (ع) كى طرف رخ كيا اور پوچھا '' اس مسئلہ ميں آپكا نظريہ كيا ہے ؟ امام (ع) نے فرمايا يہ لوگ اپنا نظريہ پيش كر چكے اب مجھے معاف ركھ_
معتصم نے اصرار كيا اور امام (ع) كو قسم دے كر كہا : آپ اپنا نظريہ بيان كريں _
امام (ع) نے فرمايا: چونكہ تم نے قسم دلائي ہے اس لئے ميں اپنا نظريہ بيان كرتا ہوں دونوں فريقوں نے غلط فيصلہ كيا ہے _ كيونكہ چور كى فقط انگلياں كاٹى جائيں گى _
آپ (ع) نے فرمايا : اس لئے كہ رسول خدا نے فرمايا ہے كہ سجدہ سات اعضاء پر واجب ہے _ چہرہ ، پيشانى ،دونوں ہاتھوں كى ہتھيلياں ،دونوں گھٹنے اور دونوں پيروں كے انگھوٹھے لہذا چور كا ہاتھ اگر كہنيوں سے كا ٹا جائے تو اس كا ہاتھ نہيں بچے گا كہ وہ سجدہ بجالائے اور دوسرے يہ كہ خدا فرماتا ہے كہ ''انّ المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احداً''(34) سجدوں كى جگہيں خدا كے لئے ہيں پس خدا كے ساتھ كسى كو نہ پكارو'' لہذا جو خداكيلئے ہے اس كو قطع نہيں كيا جائے گا _
معتصم كو امام (ع) كا نظريہ پسند آيا اور اس نے حكم ديا كہ چور كى انگلياں كاٹى جائيں _
''ابن ابى داود ''_ جو خود اس واقعہ كے ناقل ہيں _ فرماتے ہيں كہ اس مجلس ميں ميں نے (شرم و حيا سے ) موت كى تمنّا كى _
وہ تين دن كے بعد معتصم كے پاس گيا او ركہا كہ چند دن پہلے والى نشست تمہارى حكومت كے لئے اچھى نہيں تھي، اس لئے كہ تمام علماء اور مملكت كے بزرگ افراد كے سامنے تم نے ابوجعفر(ع) كے
259
فتوى كو_ جن كو آدھے مسلمان اپنا پيشوا مانتے ہيں اور امر خلافت كے لئے تم سے زيادہ مناسب سمجھتے ہيں _ دوسروں كے نظريہ پر ترجيح دى _ يہ خبر لوگوں كے در ميان پھيل گئي اور خود ان كے شيعوں كے لئے برہان بن گئي ہے _
معتصم جو پہلے ہى سے ہر طرح كى دشمنى اپنے دل ميں ركھتا تھا اور امام (ع) كو راستہ سے ہٹانے كے لئے موقع كى تلاش ميں رہتا تھا ، اس كو ابن ابى داود كى باتوں سے سخت جھٹكالگا اور امام (ع) كو قتل كرنے كے بارے ميں سوچنے لگا_(35)
آخر كار اس نے اپنے منحوس منصوبہ كو عملى جامہ پہناديا اور امام جواد _كو جن كى عمر شريف 25 سال سے زيادہ نہ تھى آخر ذى القعدہ 220 ھ ق ميں آپ (ع) كو بغداد بلايا اور زہر سے شہيد كرديا_(36)
آپ (ع) كے جسد اطہر كو آپ (ع) كے جد گرامى قدر حضرت امام موسى ابن جعفر (ع) كے پہلو ميں سپرد لحد كيا گيا آج بھى ان دونوں اماموں كا مزار مقدس كاظمين كے نام سے مشہور ہے _
260
سوالات
1_حضرت امام محمد تقى (ع)كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور ان كى پيدائيش سے پہلے شيعہ كيوں تشويش ميں مبتلا تھے؟
2_امام جواد _نے اپنى عمر كے كتنے دن اپنے والد كے ساتھ گذار ئے كيا اس زمانہ كا كوئي واقعہ آپ كو ياد ہے ؟
3_امام جواد(ع) كس عمر ميں منصب امامت پر فائز ہوئے ، كيا آپ (ع) كى عمر عہدہ امامت كى ذمہ دارى قبول كرنے كى متقاضى تھى ، اس سلسلہ ميں امام (ع) كے ايك بيان كو ذكر كيجئے؟
4_امام كى امامت كے ابتدائي زمانہ ميں مامون نے كون سا اقدام كيا اور اس سے اس كا كيا مقصد تھا؟
5_ مامون كى خلافت كے مقابل امام (ع) كا كيا رو يہ تھا؟
6_اسلامى علوم و ثقافت كى نشر و اشاعت ميں امام(ع) كا كيا كردار رہا ؟
7_معتصم نے امام (ع) كو كيوں بغداد بلايا اور پھر آپ (ع) كے قتل كادر پے كيوں ہوا؟
8_ امام جواد _كس تاريخ كو اوركيسے شہيد ہوئے ؟
261
حوالہ جات
1 انوار الہيہ/227،بحارج 5/15منقول ازعيون المعجزات_
2 بحار جلد 50/7،11،13،14_ايك قول كى بنا پر اسى سنہ ميں رمضان كے مہينہ ميں آپ كى ولادت ہوئي تھي_
3 بحار جلد 50/11،انوار البہيہ /225_
4 كافى ج 1/252''فى باب النص على ابى الحسن الرضا''انوارالبھيّہ /226_225_
5 اور يہ بھى احتمال ہے كہ مذكورہ بالا قول سے امام كا مقصديہ ہو كہ بچپن ميں حضرت امام جواد (ع) كى امامت سے شيعوں كيلئے يہ بات روشن ہوگئي كہ پيغمبر (ص) كى طرح يہاں بھى عمر كا سوال نہيں ہے اور ان كا علم خدا كى طرف سے ہوتا ہے _
6 عيون اخبار الرضاج2/242_
7 بحار ج 50/35_
8 ارشادمفيد /139،كافى ج1 /259_258،315_
9 امام رضا (ع) كى عمر كے آخرى دو سال 201 سے 203 تك مراد نہيں ہيں جب آپ كو خراسان لے جايا گيا_
10 '' ...كيف اقوم و قد ودّعت البيت و داعاًلارجوع بعدہ ''،كشف الغمہ ج 3/153_152،سيرة الائمہ الاثنا عشر ج2 /443،انوار البہيّہ /202_
11 سورہ مريم /11_
12 ارشاد مفيد /325،مناقب جلد 4/389_
13 ''و كان على منھا ج ابيہ فى العلم و التقى و الزھد و الجود ''تذكرة الخواص 321_
14 ''محمد بن على الجواد كان من اعيان بنى ھاشم و ہو معروف بالسخاء و السود ولھذا سمتى الجواد'' منھاج السنة ج 2/137_
15 جو وقف حضرت كے نام سے تھا آپ اس وقف كے متولى تھے_
16 بحار جلد 50/105منقول از كافى و غيبت شيخ _
17 بست افغان كا ايك قديم شہر ہے جو بلوچستان او رھند كے راستہ ميں واقع ہے اس كا مركز سجستان تھا جس كا اطلاق وسيع علاقہ پر ہوتا تھا _ ہرات سے 80 فرسخ ہے _ر_ك ،معجم البلدان و المنجد باب اعلام ،كلمہ بست و
262
سجستان _
18 اما بعد فان موصل كتابى ھذا ذكر عنك مذھباًجميلاً و ان مالك من عملك ما احسنت فيہ فاحسن الى اخوانك و اعلم ان اللہ عزوجل سائلك عن مثاقيل الذر و الخردل _
19 بحار جلد 50 / 87_86،انوار البھيية/238_237_
20 بحار جلد 50/44 منقول از خرائج راوندى _
21 ''اخترتہ لتبريزہ على كافة اھل الفضل فى العلم و الفضل مع صغر سنّہ'' _ بحار ج 50/75_
22 عرب احتراماًكسى كو اس كى كنيت سے پكارتے ہيں _
23 عيون اخبار الرضاجلد 2/242_
24 ''نعوذ باللہ مما تقولون ، بل انا لہ عبد ''كافى ج 1/258_انوار البھييہ /228_227_
25 ''انى اعرف بھذاالفتى منكم و انّ اھل ھذالبيت علمھم من اللہ و موادہ و الھامہ ،لم تزل آبائہ اغنياء فى علم الدين و الادب عن الرعايا الناقصہ عن حد الكمال ''_بحار 50/75_74،ارشاد /320_319،كشف الغمہ جلد 3/144/ 143 _مناقب جلد 4/381_380_اعلام الورى /151_ اسى جلسہ ميں مامون نے ايك مناظرہ كا انعقاد كيا تھا اس واقعہ كو ''علمى اور ثقافتى كوششيں ''كے عنوان كے ذيل ميں بيان كيا گيا ہے _
26 بحار جلد 50/63_61_مناقب جلد 4/396،كافى جلد 1/414_413_
27 ارشاد مفيد /321_320،مناقب جلد 4/381،اعلام الورى /352_351_بحار جلد 50/76 _75 ، كشف الغمہ جلد 3/145_144،فصول المھمہ/268_البتہ اس نشست ميں دوسرے مباحث بھى آئے منجملہ ان كے امام كا يحيى بن اكثم سے سوال اور يحيى كا امام كے جواب ميں عاجز رہ جانا اور مذكورہ بالامسئلہ كے شقوں سے متعلق امام كے جواب كو_اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے پيش نہيں كيا گيا ہے _
28 بحار ج 50 /100_
29 رجال شيخ طوسى /409_397_
30 رجال كشى /539_538_
263
31 مروج الذہب جلد 3/485_483_
32 مامون،معتصم،واثق اور متوكل كے زمانہ كے بغداد كے بڑے قاضى القضا ميں سے ايك تھے _
33 سورہ مائدہ /6_
34 سورہ جن/28_
35 بحار جلد 50/7_5،منقول ازتفسير عياشى ج 1/320_319،انوار البھية/243_241
36 بحار جلد 50/ 1 بعض روايتوں ميں يہ آيا ہے كہ معتصم نے مامون كى بيٹى ام الفضل كے ذريعہ امام كو زہر دے ديا بحار جلد 50/10و اعيان الشيعة ج 2/36_
|