217
گيارہواںسبق:
امام على ابن موسى الرضا (ع)
كى سوانح عمري
219
ولادت
آسمان ولايت كے آٹھويں ستارہ حضرت على ابن موسى الرضا (ع)11 ذى القعدہ 148 ھ ق كو اپنے جد بزرگوار امام جعفر صادق _كى شہادت كے سولہ دن بعد پيدا ہوئے_1
آپ كا نام على ركھا گيا مشہور لقب رضا اور كنيت ابوالحسن ہے پدر بزرگوار كا اسم گرامى امام موسى كاظم (ع) اور مادر گرامى كا نام نجمہ ہے 2، جو خردمندى ايمان اور تقوى ميں ممتازترين عورتوں ميں سے تھيں_3
امامت پر نص
امام على ابن موسى الرضا نے 183 ھ ق ميں_ جناب موسى ابن جعفر _كى شہادت كے بعد 35 برس كى عمر ميں منصب امامت سنبھالا_
آپ كى امامت كا تعيّن تمام ائمہ معصومين عليم السلام كى امامت كى طرح رسول خدا كى تعيين و تصريح اور آپ كے پدر گرامى امام موسى كاظم _كے تعارف سے ہوا_
اپنى شہادت سے پہلے موسى ابن جعفر _نے زمين پر آٹھويں حجت خدا اور اپنے بعد كے امام كا تعارف مسلمانوں كے درميان كرايا تاكہ لوگ كجروى اور گمراہى ميں نہ جائيں_
''مخزومي'' نقل كرتے ہيں كہ موسى ابن جعفر _نے مجھ كو اور چند دوسرے افراد كو بلايا اور فرمايا: تم كو معلوم ہے كہ ميں نے تم لوگوں كو كيوں بلايا ہے؟ ہم نے كہا نہيں آپ نے فرمايا ميں
220
چاہتا ہوں كہ تم لوگ گواہ رہو كہ ميرا يہ بيٹا_ امام رضا كى طرف اشارہ كر كے_ وصى اور ميرا جانشين ہے ... ''4
يزيد بن سليط نقل كرتے ہيں كہ عمرہ بجالانے كے لئے ميں مكہ جارہا تھا، راستہ ميں امام موسى كاظم _سے ملاقات ہوئي_ ميں نے ان سے عرض كى كہ ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائيں آپ بھى اپنے پدر بزرگوار كى طرح مجھكو بتايئے اور اپنے بعد آنے والے امام كا تعارف كرايئےامام(ع) نے امامت كے بارے ميں تھوڑى وضاحت كرنے اور اس بات كو بيان كرنے كے بعد كہ امام (ع) خدا اور پيغمبر (ص) كى طرف سے معين ہوتا ہے_ فرمايا'' ميرے بعد ميرے فرزند على (ع) (ابن موسي(ع) ) امام ہوں گے جو على (ع) اور علي(ع) ابن الحسين (ع) كے ہم نام ہيں_5
اخلاق و سيرت
ائمہ معصومين پسنديدہ اخلاق اور بہترين سيرت ميں دوسروں كے لئے نمونہ عمل تھے اور عملى طور پر لوگوں كو پاكيزہ زندگى اور فضيلت كا درس ديتے تھے، وہ لوگ باوجود اس كے كہ امامت كے بلند مقام پر فائز اور خدا كے برگزيدہ بندہ تھے ليكن پھر بھى انہوں نے اپنے كو لوگوں سے جدا نہيں كيا_
ابراہيم ابن عباس كہتے تھے كہ : ميں نے كبھى يہ نہيں ديكھا كہ امام رضا(ع) اپنى باتوں سے كسى كو تكليف پہنچاتے ہوں اور كسى كے كلام كو قطع كرتے ہوں اور كسى حاجتمندكو_ امكان كے باوجود_ بھگا ديتے ہوں، دوسروں كى موجودگى ميں پير پھيلاتے يا ٹيك لگاتے ہوں يا اپنے غلاموں ميں سے كسى كو كوئي ناروا بات كہتے ہوں، يا لعاب دہن كو دوسروں كے سامنے پھينكتے ہوں اور قہقہہ مار كر ہنستے ہوں، ان كى ہنسى بس تبسم كى حد تك تھى ، جب دسترخوان بچھايا جاتا تو تمام گھر والوں كو حتى كہ دربان اور خدمت گزار كو بھى اس پر بٹھاتے اور ان لوگوں كے ساتھ كھانا كھاتے، راتوں كو كم
221
سوتے اور رات كے زيادہ حصہ ميں صبح تك بيدار رہتے اور عبادت كيا كرتے تھے، بہت روزے ركھتے_6
'' محمدبن ابى عباد'' نقل كرتے ہيں كہ : گرمى ميں آپ كا فرش چٹائي اور جاڑوں ميں كمبل ہوتا تھا، گھر ميں كھردرا كپڑا زيب تن فرماتے ليكن جب كبھى لوگوں كے درميان جاتے تو ( معمولاً جو لباس پہننا جاتا ہے وہى پہنتے تھے) اپنے كو سنوار تے_7
ايك شب اپنے مہمانوں كے ساتھ بيٹھے ہوئے باتيں كر رہے تھے كہ ناگاہ چراغ ميں كوئي خرابى پيدا ہوگئي ، مہمان نے ہاتھ بڑھا يا تا كہ چراغ كو روشن كردے حضرت نے منع فرمايا اور خود اس كام كو انجام د يا اور فرمايا'' ہم وہ ہيں كہ جو مہمانوں سے كام نہيں ليتے_8
حمام ميں ايك شخص نے جو آپ كو نہيں پہچانتا تھا، كہا كہ : ذرا كيسہ سے ميرا جسم مل ديں_ امام(ع) نے قبول كيا _اس نے جب امام(ع) كو پہچان ليا تو شرمندگى كے ساتھ عذر خواہى كرنے لگا_ امام(ع) نے كيسہ سے اس كا جسم ملتے ہوئے اس كا دل ركھ ليا كہ نہيں كوئي بات نہيں_9
اہل بلخ كاايك شخص نقل كرتا ہے كہ ميں خراسان كے سفر ميں امام رضا (ع) كے ساتھ تھا_ ايك دن دسترخوان بچھايا گيا امام رضا _نے تمام خدمت گاروں كو حتى كہ سپاہ ناموںجلد والوں كو بھى دسترخوان پر بٹھايا تا كہ وہ بھى آپ كے ساتھ كھانا كھائيں، ميں نے عرض كي: ميں آپ پر فدا ہوجاؤں بہتر ہے كہ يہ لوگ دوسرے دسترخوان پر بيٹھ جائيں_آپ (ع) نے فرمايا: ٹھہرو، بيشك خدا ايك ہے، سب كے ماں باپ ايك ہيں اور جزاء عمل كے مطابق ہے_10
امام رضا (ع) كے خادم_ ياسر_ نقل كرتے ہيں كہ امام (ع) نے ہم سے فرمايا كہ '' جب تم كھانا كہا رہے ہو اور ميں تمہارے پاس آكر كھڑا ہوجاؤں تو تم ( ميرے احترام كے لئے) كھڑے نہ ہونا يہاں تك كھانا كھا كر فارغ ہوجاؤ_ اسى وجہ سے اكثر ايسا اتفاق ہوا كہ امام(ع) نے ہم كو آواز دى اور ان كے جواب ميں كہہ ديا گيا كہ '' كھانا كھانے ميں مشغول ہيں، امام(ع) ايسے موقع پر كہہ ديتے تھے كہ '' اچھا رہنے دو يہاں تك كہ كھانا كھا كر فارغ ہوجائيں''_11
222
يعقوب نوبختى نقل فرماتے ہيں كہ ايك سائل نے امام رضا _سے كہا كہ مروت كے بقدر مجھے عطا كيجئے امام(ع) نے فرمايا كہ ہمارى وسعت ميں يہ بات نہيں ہے_ سائل نے عرض كيا، ميرى مروت كے بقدر عطا كيجئے_ امام(ع) نے غلام كو حكم ديا كہ اس كو دو سو دينار دے ديئےائيں_12
امام كا علمى مقام
آٹھويں امام علم و فضل كے اعتبار سے اس منزل پر فائز تھے كہ ہر آدمى آپ كو پہچانتا، آپ كى علمى عظمت كا اعتراف كرتا اور آپ كے سامنے سر تعظيم خم كرديتا تھا_
آپ كا زمانہ وہى زمانہ ہے جس زمانہ ميں مختلف عقائد و افكار سے سابقہ تھا_ علوم منتقل ہو رہے تھے_ معارف يونان و اسكندريہ كے متون كا ترجمہ ہوكر دنيائے اسلام اور عرب ميں آرہا تھا، مختلف قسم كے مكاتب فكر كے نظريات اور ان كے گوناگوں عقائد معاشرہ ميں آرہے تھے اور اس كے نتيجہ ميں تضاد اور مختلف خيالات و عقائد ابھر رہے تھے، ايسے وقت ميں لوگوں كے لئے اعتماد كے قابل صرف امام رضا _كا وجو د پر فيض تھا_
آپ كا پركشش اور پر فيض محضر مبارك شاگردوں اور محققين سے موجيں مار رہا تھا، مختلف فكرى جماعتوں كے رہبروں جيسے ثنويہ، دھريہ، يہود، نصارى ،زردشتي، زنديق كے مناظروں كى مركز خلافت بنى عباس ميں گرما گرم نشستيں تاريخ ميں موجود ہيں جن ميں سے ہر مناظرہ آپ كے علمى اور ارشاد و ہدايت كے بلند مقام كو پايہ ثبوت تك پہنچاتا ہے_13
ان مناظروں ميں ايك طرف تو امام _انحرافات كا سد باب كرتے اور دوسرى طرف لوگوں كو اسلامى علوم و معارف سكھاتے تھے اور چونكہ خلفاء بنى عباس كے توسط سے ان كتابوں كے ترجمہ كا مقصد سياسى تھا جيسے علم امام(ع) سے مقابلہ يا لوگوں كے ايمان كو اہل بيت(ع) سے برگشتہ كردينا اس لئے امام(ع) نے بھى مخصوص انداز سے ان كے منصوبہ كو خاك ميں ملاديا_
223
امام (ع) كى شخصيت
امام رضا _كى عظمت و ممتاز شخصيت كے متعلق تمام مورخين اور محدثين اتفاق نظر ركھتے ہيں يہاں تك كہ مامون جو آپ كا سخت دشمن تھا اس نے بھى بارہا اس كا اعتراف كيا ہے_
اس نے اپنے معين كردہ شخص رجاء بن ابى ضحاك سے جب امام(ع) كے مدينہ سے مرو سفر كرنے كى خفيہ خبر سنى تو كہا : '' يہ ( امام(ع) كى طرف اشارہ ) روئے زمين پر بہترين فرد اور انسانوں ميں سب سے بڑے عالم اور عابد ہيں ...''14
نيز امام(ع) كى ولى عہدى كے سلسلہ ميں مامون نے بيس ہزار افراد كو جمع كركے خطاب كيا:'' ... ميں نے فرزندان عباس اور فرزندان على كے درميان تلاش كيا ليكن ان ميں سے كسى كو اس امر كے لئے على ابن موسى رضا(ع) سے زيادہ لائق، متدين، پارسا اور بافضيلت نہيں پايا_15
امامت كا زمانہ
على ابن موسى _نے اپنے پدر بزرگوار كے قيد خانہ ميں شہادت كے بعد، 35 سال كى عمر ميں رہبرى اور امامت كا عہدہ سنبھالا_ آپ (ع) كى امامت كى مدت بيس سال تھي، ہارون الرشيد كے زمانہ كے دس سال، امين كى حكومت كے زمانہ كے پانچ سال اور مامون كى خلافت كے عہد كے پانچ سال_
آپ (ع) كى امامت كے زمانہ ميں آپ (ع) كے مبارزات اور آپ (ع) كے موقف و رويہ عباسى خلافت كى مشينرى كے مد مقابل تھا، واضح كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ اس زمانہ كے حالات اور خصوصيات كو ديكھتے ہوئے آپ كے زمانہ امامت كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جائے_
1_ آغاز امامت سے خراسان بھيجے جانے تك ( 183 ھ ق تا 201 ھ ق)
2_ خراسان بھيجے جانے كے بعد ( 201 ھ ق سے 203 ھ ق تك)
224
الف_ آغاز امامت سے خراسان بھيجے جانے تك
على ابن موسى الرضا (ع)اپنے زمانہ كے حكام جور كى طاقت سے بے پروا ہوكر ہدايت و رہبرى اور امامت كے فرائض انجام ديتے رہے اس راستہ ميں آپ (ع) نے كسى بھى كوشش سے دريغ نہيں كيا_ حكومت كے مقابل امام (ع) كا رويہ_ اس استبدادى زمانہ ميں_ ايسا واضح تھا كہ آپ (ع) كے كچھ اصحاب آپ (ع) كى جان كے بارے ميں ڈرنے لگے تھے_
صفوان ابن يحيى نقل كرتے ہيں كہ امام رضا (ع) نے اپنے والد كى رحلت كے بعد ايسى باتيں كہيں كہ ہم ان كى جان كے بارے ميں ڈرگئے، اور ہم نے ان سے عرض كيا، آپ (ع) نے بہت بڑى بات كو آشكار كرديا ہے_ ہم آپ (ع) كے لئے اسى طاغوت ( ہارون) سے ڈر رہے ہيں آپ (ع) نے فرمايا: جو كوشش چاہے كر لے وہ ميرا كچھ نہيں بگاڑ سكتا_16
'' محمد ابن سنان'' فرماتے ہيں كہ ہارون كے زمانے ميں، ميں نے امام رضا(ع) سے عرض كيا: آپ نے امر امامت كے لئے اپنے كو مشہور كر ليا اور باپ كى جگہ بيٹھے ہيں جبكہ ہارون كى تلوار سے خون ٹپك رہا ہے_
آپ (ع) نے فرمايا كہ : '' ... اگر ہارون ميرے سر كے بال ميں سے ايك بال بھى كم كردے تو تم گواہ رہنا كہ ميں امام نہيں ہوں_17
آٹھويں امام (ع) كى اس زمانہ ميں ہرچند كہ بڑى وسيع كاركردگى تھى ليكن مصلحت اسلام كا تقاضا يہ تھا كہ خلافت سے براہ راست ٹكرانے كى بجائے اپنے فريضہ الہى كو دوسرى طرح انجام ديں تا كہ وہ دشمن امام رضا _كے موقف سے ٹكرانے كے لئے تيار نہ ہوجائيں جو چھٹے امام (ع) كى عمر كے آخرى زمانہ ميں اس بنيادى نقشہ كى گہرائي اور اہميت سے واقف ہوچكے تھے جو نقشہ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (عليہماالسلام)نے جعفرى يونيورسٹى كے قالب ميں پيش كيا تھا_
آپ نے علويوں كے بہت سے قيام_ جيسے اسلامى ثقافت كى نشر و اشاعت كے لئے زيد ابن
225
على كے قيام_ كى پشت پناہى اور حمايت كے علاوہ، اسلامى ثقافت كے مختلف پہلوؤں كى مخصوص انداز ميں اپنے زمانہ كے تقاضا كے مطابق حمايت كي_
امام (ع) كى امامت كا يہ آٹھ سالہ دور ( ابتداء امامت سے خراسان بھيجے جانے تك) جو امين و مامون كى خلافت كا زمانہ تھا ايك رخ سے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام كے زمانہ سے مشابہ تھا_
اس لئے كہ ايك طرف امين و مامون كے درميان خلافت كے مسئلہ پر خونين اختلافات اور كشمكش چھڑى ہوئي تھي_ 18 اور نتيجہ ميں 198 ھ ق ميں امين قتل كرديا گيا اور مامون تخت خلافت پر بيٹھا_
دوسرى طرف انحرافى ثقافت نئے قالب اور جديد شكل ميں پھيل رہى تھى علم كلام، فقہ اور اخلاق والے مكاتب فكر ہر لحظہ پراگندہ ہو رہے تھے اور انتشار پھيلا رہے تھے_ علماء ملل و اديان ، خدمت، تعاون، ترجمہ، طبابت اور قدرتى ذخائر سے فائدہ اٹھانے كے ساتھ ساتھ تفرقہ اندازى اور ايسے مسائل كو نشر كرنے ميں لگے ہوئے تھے جو اسلام سے دوراور منحرف كرنے كا سبب بنتے تھے_ مامون نے اس زمانہ ميں علم و حكمت سے دوستى كے نام پر اپنے سياسى مقاصد كو حاصل كرنے كے لئے ان كے لئے ميدان خالى كر ركھا تھا، اور اس بات كى كوشش كر رہا تھا كہ حق دار پارٹى كے ثقافتى نفود كو_ جو كہ امام محمد باقر _كے زمانہ سے مائل بہ وسعت تھا_ محدود كر دے اور معاشرہ كے ذہن كو انقلابى اور اہل بيت كى حق پر استوار ثقافت سے ہٹادے_
يہى وہ جگہ ہے جہاں اسلامى معاشرہ كے لئے اس آٹھ سالہ دور ميں امام كى شخصيت ابھر كر سامنے آئي اور شيعوں كو بھى موقع ملا كہ مسلسل آپ سے رابطہ ركھيں اور آپ كى رہنمائي سے بہرہ مند ہوتے رہيں خاص كر اس وقت سے جب آپ نے بصرہ اور كوفہ كا سفر كيا اور عوامى مركز سے براہ راست ارتباط پيدا كيا تو ان دو شہروں كے عوام نے پہلے سے آمادگى كى بنا پر اپنے رہبر كا شاندار استقبال كيا_ امام(ع) نے اپنے دوستوں اور شيعوں سے ملاقات كے علاوہ مختلف قوموں كے
226
دانشمندوں اور مختلف جماعتوں كے ليڈروں سے بحث و مناظرہ كى نشستيں تشكيل ديں اور معارف اسلامى كى مختلف انداز سے نشر و اشاعت كي_19
امام (ع) اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے موقف كے استحكام اور اسلامى معاشرہ كے مختلف طبقوں كے درميان اپنے نفوذ كو وسعت دينے ميں كامياب ہوئے_
مامون سے ايك گفتگو ميں آپ (ع) لوگوں كے در ميان اپنے نفوذ كے ميزان كى طرف اشارہ فرماتے ہيںكہ:اس امر _ولى عہدى _ نے ہمارے لئے كسى نعمت كا اضافہ نہيں كيا ہے _ ميں جب مدينہ ميں تھا تو ميرى تحرير مشرق و مغرب ميں چلتى تھى ...(20)
اكثر ايسا ہوتا تھا كہ حكومت كے مسائل كو حل كرنے اور مختلف گروہوں كے غصہ كوٹھنڈا كرنے كے لئے مامون امام رضا _سے رابطہ قائم كرتا تھا اور ان سے يہ خواہش كرتا تھا كہ لوگوںسے باتيں كريں اور ان كو خاموش رہنے اور چپ ہو جانے كى دعوت ديں_(21)
علويوں كا قيام
علويوں نے بھى دربار خلافت كے جھگڑوں اور ان كے آپس ميں الجھ جانے سے فائدہ اٹھا يا اور امام _كى شخصيت اور ان كے موقف پر تكيہ كرتے ہوئے خلافت كى مشينرى كے خلاف قيام اور شورش بر پا كى منجملہ اُن كے :(ابوالسرايا) كا قيام تھا ، (22)انہوں نے محمد ابن ابراہيم طباطباكى بيعت كے نعرہ كے ساتھ 199 ھ ق ميں كوفہ ميں خروج كيا اور لوگوں كو خاندان پيغمبر(ص) كى نصرت اور شہيدان آل محمد (ص) كے خون كا انتقام لينے كى دعوت دى _ابوالسرايا كا لشكران تمام سپاہيوں كو ختم كرديتا تھا جن كو حكومت ان لوگوں سے مقابلہ كے لئے بھيجتى تھى اور يہ لشكر جس شہر ميں بھى جاتا اس كو اپنے قبضہ ميں لے ليتا تھا (23)
وہ دو ماہ سے كم عرصہ ميں مامون كے دو لاكھ كے لشكر كو قتل كرنے ميں كامياب رہے _اس
227
طرح كوفہ، جس نے حسين ابن على كے ساتھ خيانت كا ثبوت ديا اور زيد ابن على كو تنہا چھوڑدياتھا ، اس بار ابن طباطباكى ہمراہى ميں علوى تحريك اور اس كے اعلى مقاصد كے دفاع كيلئے اٹھ كھڑاہوا_
كوفہ ميں ابوالسراياكے قيام كے علاوہ مختلف علاقوں جيسے بصرہ ، يمن،واسط،مدائن حتى بين النہرين اور شام ميں علويوں اور غير علويوں نے قيام كيا اور حكومت عباسى كے مدمقابل ڈٹ گئے_(24)
يہ تمام چيزيں اس بات كى بيّن دليل ہيں كہ مختلف طبقات كے لوگ غير اسلامى حكومت اور عباسيوں كے ظلم كے خلاف تھے اور اہل بيت(ع) كے حق طلب اور مكتب عدالت كے گرويدہ ہوتے جارہے تھے _
اسى وجہ سے ہم ديكھتے ہيں اسلامى مملكت كے اندر مامون كى تمام تر كوششوں كے باوجود يہاں تك كہ اپنے بھائي امين كے قتل كردينے كے بعد بھى تمام اسلامى علاقوں پر جيسا چاہتا تھا ويسا تسلط نہ حاصل كرسكا_
اگر چہ اس زمانہ ميں _ ظاہرى قدرت اور ذر و زور كے اعتبار سے _ نگا ہيں حكومت كے پايہ تخت (مرو) پرجمى ہوئي تھيں ،ليكن دينى وراثت ،آوازہ حق اور حق كے اصلى رہبر كے چہر ہ كو ديكھنے كے لئے نگاہيں مدينہ كى طرف متوجہ تھيں يعنى اس شہر كى جانب جہاں فرزندپيغمبر(ص) اور پيشوائے حق حضرت على ابن موسى رضا _رہتے تھے _
اس عرصہ ميں دوسرے تمام لوگوں سے زيادہ اچھى طرح مامون كو معلوم تھا كہ كون سا حادثہ اس كے انتظار ميں ہے ان تحريكوں كا سرچشمہ كہاں ہے كس كى پشت و پناہى اور موقف پر اعتماد كرتے ہوئے يہ تحريكيں چل رہى ہيں اس وجہ سے اس نے اس بنيادى اور بڑى بات كى اصولى چارہ جوئي كرنے كى تركيب سوچى _
228
ب_ سفر خراسان كى پيشكش كے آغاز سے شہادت تك
امام(ع) كى زندگى كا يہ حصہ جو تقريباً 18 مہينوں پر پھيلا ہوا ہے _ كم مدت ہونے كے با وجود اس واقعہ كو اپنے دامن ميں لئے ہے جس نے خلافت عباسى كے مد مقابل امامت كے موقف كو دوسرى سطح ميں قرار ديا _
مشكلات اور دشوارياں جو علويوں كى طرف سے پيدا ہوگئي تھيں جن كا سرچشمہ ان كے راس و رئيس امام رضا _كى گراں قدر شخصيت تھى ، وہ دشوارياں جنہوں نے حكومت كو زوال كے معرض خطر ميں ڈال ركھا تھا _ ان كے چنگل سے نجات حاصل كرنے كے لئے مامون نے وہ نيا طريقہ اپنا يا جس كو آج تك اس نے نہيں اپنا يا تھا _ اور وہ طريقہ يہ تھا كہ وليعھدى كى پيشكش كركے اہم ترين مخالف شخصيت كو اپنے مركز قدرت ميں آنے كى دعوت دے اور ان كو اپنا بالا دست بنادے_
لہذا نہ چاہنے كے با وجود اپنے وزير (فضل ابن سہل ) سے مشورہ كے بعد امام (ع) كو مدينہ سے مامون نے مرو بلايا اور وليعہدى قبول كرنے كے لئے مجبور كيا_
مامون كے اس خلاف توقع اور نئے اقدام ميں ابتداء ميں اس كى حكومت كے لئے بڑى مشكليں پوشيدہ تھيں جن ميں سب سے بڑى مشكل يہ تھى كہ عباسيوں اور علويوں كى رائے اس اقدام كا استقبال نہيں كررہى تھى _ اس لئے كہ وہ لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ اس نے مسند خلافت تك پہنچنے كے لئے اپنے بھائي كو قتل كرديا اور خود بھى اہل بيت(ع) كے سخت ترين دشمنوںميں شمار كياجاتاتھا اس لئے مامون نے كسى بھى ممكنہ صورت سے اپنے صدق و اخلاص كو ثابت كرنے كے لئے مندرجہ ذيل اقدامات كئے :
1_سياہ لباس كو جو عباسيوں كا شعار تھا، جسم سے اتار پھينكا اور سبز لباس جو علويوں كا شعار تھا پہن ليا_
229
2_اس نے حكم ديا كہ امام رضا(ع) كے نام كے سكّے ڈھالے جائيں اور ہرشہر ميں منجملہ ان كے مدينہ ميں ان كے نام كا خطبہ پڑھا جائے _
3_اپنى بيٹى ام حبيبہ كو_ با وجود اس كے كہ امام (ع) سے چاليس سال چھوٹى تھى _امام _كى زوجيت ميںدے ديا_
4_امام رضا(ع) اور علويوں كا بظاہر احترام واكرام كرنے لگا_
مامون مطمئن تھا كہ ان اقدامات ميں سے كوئي بھى اقدام يہاں تك كہ امام (ع) كے لئے بيعت حاصل كرنا بھى اس كے نقصان كا سبب نہيں ہے _ اس سياست كو اپنا نے كا مقصد يہ تھا كہ اس وقت فوراًعلويوں كى شورش كو روك ديا جائے اور ايك طويل مدتى منصوبہ كے تحت امام _كو ميدان سے الگ ہٹاديا جائے _
ولى عہدى كا واقعہ
امام رضا _كى ولى عہدى كے واقعہ كو دو لحاظ سے ديكھنا چاہئے ، ايك تو اس زمانہ كى خلافت كى مشينرى كى سياست كے اعتبار سے اور دوسرے امام كے نظريہ كے مطابق _
الف _خلافت كى سياست كے اعتبار سے
ولى عہدى كے مسئلہ ميں مامون كے چند مقاصد پوشيدہ تھے ان ميں سے اہم ترين مقاصد كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے _
1_ امام رضا _كى شخصيت سے جو خطرہ تھا اس سے اپنے آپ كو بچالينا _
2_امام رضا _كو اپنے زير نظر ركھنا اور شايد مامون نے اپنى بيٹى سے آپ كى شادى اسى وجہ سے كى تھى كہ ان كى بيرونى سرگرميوں كو زير نظرركھنے كے علاوہ ان كى داخلى زندگى ميں بھى ايك نگہبان معين كردے جو ہمارے لئے بھى قابل اطمينان ہو اور ان كا بھى اعتماد حاصل كرلے _
230
چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ امام _كو مرو بلاتے ہى اس نے جاسوسوں كو معين كرد يا منجملہ ان كے ہشام ابن ابراہيم راشدى جو امام _كے نزديك ترين افراد ميں سے تھا اور امام _كے امور اسى كے ہاتھ سے انجام پاتے تھے وہ فضل ابن سہل اور مامون سے رابطہ پيدا كركے اپنى مخصوص حيثيت كو ان كے سامنے بيان كرتاہے اور مامون اس كو (عمومى رابطہ كا ذمہ دار ) امام (ع) كا نگہبان بنا ديتا ہے اس كے بعد امام _سے وہى ملاقات كرسكتا تھا جس كو ہشام چاہتا _نتيجہ يہ ہوا كہ امام كے دوستوںكى ملاقات كم ہوگئي اور جو كچھ امام كے گھر ميں ہوتا اس كى خبر ہشام مامون كو ديتا _(25)اور وہ اس طرح امام كے شيعوں اور رشتہ داروں كو مكمل طور پر پہچانتا تھا _
3_معاشرتى زندگى اور عوام كے مراكز سے امام _كا رابطہ منقطع كردينا _ تا كہ اس طرح آپكے چاہنے والے آپ تك نہ پہنچ سكنے كى وجہ سے پراكندگى كا شكار ہو جائيں _
4_امام كى معنوى حيثيت اور نفوذ سے علويوں كى شورشوں كو ختم كرنے اور عباسيوں كے خلاف لوگوں كے غيظ و غضب اور كينہ كو ختم كرنے ميں فائدہ حاصل كرنا _ اس نے يہ سمجھاتھا كہ آپ كى شخصيت كا جتنا معنوى نفوذ ہے اور جتنى عوامى پشت پناہى آپ كو حاصل ہے آپ سے اپنا سلسلہ جوڑ كراتنى ہى جگہ اس كى حكومت بھى لوگوں كے در ميان پيدا كرلے گى _
5_اپنى حكومت كو شرعى حيثيت دينا: اس لئے كہ علويوں كے علاوہ _ جو حكومت بنى عباس كى حكومت كى بنياد كو غير شرعى سمجھتے تھے _جو لوگ مامون كے ذريعہ قانونى خليفہ يعنى امين كے قتل كى وجہ سے _ خلافت بنى عباس كو مانتے ہوئے _ بھى وہ مامون كى خلافت كو شك و ترديد كى نظر سے ديكھتے تھے _ اس لئے بہت سے لوگوں نے مامون كى بيعت نہيں كى تھى _(26)
6_ اہل بيت كى الہى رہبرى كو داغدار كرنا اور امام رضا _كى اجتماعى اور معنوى حيثيت كو چكنا چور كردينا _ اس لئے كہ مامون يہ سمجھتاتھا كہ امام (ع) كا ولى عہدى كو قبول كر لينا آپ كى معنوى رہبرى كو بہت نقصان پہنچائے گا اور امام پر لوگوں كا اطمينان ختم ہو جائے گا_
خاص طور پر سن كے اس فرق كى وجہ سے جو امام (ع) اور مامون كے در ميان تھا _ امام _مامون
231
سے 22سال بڑے تھے (اب ايسى صورت ميں )ولى عہدى قبول كرلينے كو لوگ امام _كى دنيا پرستى پر محمول كرتے _ اس لئے كہ اس مسئلہ كو اہل بيت (عليہم السلام) كے اس نظريہ اور نعرہ كے خلاف پاتے جو وہ بلند كيا كرتے تھے _
آٹھويںامام (ع) نے مامون كے ساتھ اپنى ايك گفتگو ميں اس نقشہ كى طرف اشارہ كيا ہے :آپ(ع) فرماتے ہيں :تم يہ چاہتے ہو كہ لوگ كہنے لگيں كہ على ابن موسى الرضا (ع) دنيا سے روگرداں نہيں ہيں ، يہ دنياہى تو ہے جوان تك آئي ہے ، كيا تم لوگ نہيں ديكھتے كہ انہوں نے كس طرح خلافت كى طمع ميں ولى عہدى قبول كرلى (27)
دوسرى طرف مامون كو يہ معلوم تھا كہ امام (ع) كا حكومت كا مشينرى ميں داخل ہونا_ ان تمام خرابيوں اور عظيم انحرافات كے بعد _ اصلاح كا باعث نہيں بنے گا وہ چاہتا تھا كہ امام (ع) كو ايسى جگہ پر لايا جائے تا كہ لوگوں كو سمجھايا جا سكے كہ امام (ع) امر خلافت كے لائق نہيں ہيں _
مامون نے حميد ابن مھران اور دوسرے عباسيوں كے جواب ميں جو امام رضا _كو ولى عہدى سپردكرنے پر سرزنش كررہے تھے ، اپنے بعض مقاصد كو شمار كرتے ہوئے اعتراف كيا ہے كہ ...يہ ہم سے پوشيدہ اور دور تھے اپنى طرف لوگوں كو دعوت ديتے تھے ہم نے چاہا كہ ان كو اپنا ولى عہد قرار ديں تا كہ ان كى دعوت ہمارے لئے ہوجائے اور يہ ہمارى سلطنت و خلافت كا اعتراف كرليں اور ان كے شيدائي يہ سمجھ ليں كہ جس چيز كا وہ دعوى كرتے ہيں ان ميں وہ چيز نہيں ہے _ہم كو يہ خوف تھا كہ اگر ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا جائے تو يہ ہنگامہ بر پا كرديں گے _ ايسا ہنگامہ جس كو ہم لوگ نہيں روك سكتے اور يہ ايسى صورت حال پيدا كريں گے كہ جس كے مقابلہ كى تاب ہم ميں نہيں ہے _(28)
ب:امام _كے نكتہ نظر سے
امام (ع) كو پہلے مامون كى پيش كش كا سامنا ہوا ليكن امام (ع) نے بڑى شدت سے اس كو قبول كرنے
232
سے انكار كيا اور جواب ميں فرمايا : ''اگر خلافت تمہارا حق ہے تو تم كو يہ حق نہيں ہے كہ خدا كے پہنائے ہوئے اس لباس كو اپنے جسم سے اتار كردوسرے كے جسم پر پہنادو اور اگر تمہارا حق نہيں ہے تو اس چيز كو كس طرح تم دے رہے ہو جو تمہارى ملكيت نہيں ہے ''_(29)
مامون نے ولى عہدى كى پيش كش كى اور امام _كو ہر طرح سے اسے قبول كرنے پر مجبور كيا اس نے كہا : ''عمر ابن خطاب نے اپنے بعد خلافت كے منصب كے لئے ايك شورى (كميٹي) بنائي اور انكو حكم ديا كہ جو مخالفت كرے اس كى گردن اڑادينا _ اب جو ميں نے ارادہ كيا ہے اس كو قبول كرلينے كے سوا اور كوئي چارہ نہيں ہے ور نہ ميں آپ كى گردن اڑادوں گا_امام (ع) نے اس كى پيش كش كو چند بار ٹھكرانے كے بعد بجبرو اكراہ ، مشروط طريقہ پر ولى عہدى كو قبول كرليا(30)_مامون نے 5رمضان 201ھ ق كو امام (ع) كى ولى عہدى اور بيعت كا جشن منايا _
مسئلہ ولى عہدى كے بارے ميں امام (ع) كا موقف واضح ہوجانے كيلئے ہم_ مختصر طور پر_ تين موضوعات كى تحقيق كريں گے _
1_امام(ع) كى ناراضگى كے دلائل
2_ولى عہدى قبول كرنے كے دلائل
3_امام(ع) كا منفى رويہ
امام (ع) كى ناراضگى كے دلائل
1_ريان ابن صلت نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام رضا _كى خدمت ميں عرض كيا :اے فرزند رسول كچھ لوگ كہتے ہيں كہ آپ نے مامون كى ولى عہدى كو قبول كرليا ہے جبكہ آپ دنيا كى نسبت زہد اور بے رغبتى كا اظہار فرما تے ہيں ؟امام _نے فرمايا:''يہ كام ميرى خوشى كا باعث نہ تھا ليكن ميں ولى عہدى قبول كرنے اور قتل كئے جانے كے در ميان قرار ديا گيا مجبورا ميں نے ولى
233
عہدى كو قبول كيا ...''(31)
2_ محمد ابن عرفہ نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام (ع) سے عرض كيا اے فرزند رسول خدا(ص) آپ (ع) نے ولى عہدى كو كيوں قبول كيا ؟آپ (ع) نے فرمايا :اسى دليل سے جس دليل سے ميرے جد على (ع) كو شورى ميں شركت كرنے پر آمادہ كيا گيا تھا ''_(32)
3_امام (ع) كے خادم ياسر نقل كرتے ہيں كہ : امام (ع) كے ولى عہدى كو قبول كرلينے كے بعد ميں نے ان كو ديكھا كہ آپ ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كركے فرماتے تھے : خدايا تو جانتا ہے كہ ميں نے بجبرو اكراہ اسے قبول كيا ہے _لہذا مجھ سے مؤاخذہ نہ كرنا جس طرح تو نے اپنے بندہ يوسف كا_ جب انہوں نے مصر كى حكومت كو قبول كيا _ مؤاخذہ نہيں كيا _ (33)
ولى عہدى قبول كرنے كے دلائل :
ولى عہدى كو ان شرطوں كے ساتھ قبول كرنا جو امام(ع) نے ركھى تھيں ، اس زمانہ كى سياسى اور اجتماعى مصلحت كا تقاضا تھا ور نہ اگر كوئي بھى مصلحت اس كے قبول كرنے ميں نہ ہوتى تو امام (ع) قبول ہى نہ كرتے چاہے نتيجہ ميں ان كا خون ہى كيوں نہ بہاديا جاتا اس موضوع كو واضح كرنے كے لئے چند نكات پيش كيے جاتے ہيں _
1_ انكار كى صورت ميں امام(ع) كو جو قيمت ادا كرنى پڑتى وہ صرف ان كى جان نہ تھى بلكہ آپ كے پيروكار سب كے سب واقعى خطرے ميں پڑجاتے اور اس سے كوئي مطلوبہ نتيجہ بھى ہاتھ نہ آتا _
2_شيعوں كى امامت كى جگہ اس وقت تك زندانوں اور شہادت گاہوں كے اندر ہى تھى اور شيعہ جو خلافت اسلامى كے اہل تھے _ امير المؤمنين كے زمانہ كے علاوہ_ كبھى بھى قانونى حيثيت (ظاہرى حيثيت) ان كو نہيں ملى تھى كہ وہ تخت خلافت كے دامن ميں ترقى كريں اور راستہ طے كريں _
234
سلف كے مسلسل جہاد اور ان كے خون پاك كى قيمت تھى كہ يہ حيثيت امام على ابن موسى الرضا (ع)كى بلند و بالا شخصيت ميں اجا گر ہوئي تھى لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے تھا تا كہ لوگ يہ نہ سوچ بيٹھيں كہ اہل بيت (ع) _ جيسا كہ لوگوں نے مشہور كر ركھا ہے _ صرف عالم اور فقيہ ہيں جن كا سياست اور عملى ميدان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور شايد ابن عرفہ كو امام (ع) كا جواب بھى اس بات كى طرف اشارہ ہو_
3_امام (ع) اپنى ولى عہدى كے زمانہ ميں مامون كے اصلى چہرہ كو لوگوں كے در ميان پہچنوانے اور اس كى نيت و مقصد كا پول كھول كر لوگوں كے ذہن و دماغ سے ہر طرح كے شك و شبہ كو ختم كرنے ميں كامياب ہوگئے _
4_ جو نشستيں مامون نے منعقد كيں ان ميں امام ،علوم اہل بيت كى برترى اور دوسروں كے انحراف كو آشكار كرنے ميں كامياب ہوگئے _
امام كا منفى رويہ
امام (ع) نے مامون كى بہانہ بازى والى سياست كو پہچان كر شروع ہى سے ، يہاں تك كہ ولى عہدى قبول كرنے سے پہلے ہى مامون كى مشينرى كے مقابل منفى موقف اختيار كيا نمونہ كے طور پران ميں سے كچھ مواقف پيش كئے جارہے ہيں _
1_مامون كى خواہش يہ تھى كہ آپ اپنے خاندان ميں سے جس كو چاہيں اپنے ہمراہ لائيں ليكن اس كے برخلاف امام (ع) يہ تبانے كے لئے كہ يہ ايك زبر دستى كا سفر ہے اور مجھ كو وطن سے دور كيا جارہا ہے _ اپنے خاندان ميں سے كسى كو حتى اپنے اكلوتے بيٹے امام جواد(ع) كو بھى اپنے ساتھ نہيں لائے اور گھرسے نكلتے وقت انہوں نے اپنے خاندان والوں سے اپنے سامنے گر يہ كرنے كى خواہش كي_(34)
235
2_ امام _مدينہ سے ''مرو''كے راستہ ميں جب نيشاپور پہنچے تووہاں علماء اور مختلف گروہ كے لوگوں نے استقبال كيا امام (ع) نے ان كى خواہش پر اس حديث كو بيان فرمايا جو''سلسلة الذہب ''كے نام سے مشہور ہے :
'' ...اللہ عزوجل يقول :لاالہ الا اللہ حصنى فمن قالھا دخل حصنى و من دخل حصنى امن من عذابي''(35)
خداوند عالم فرماتا ہے كہ كلمہ توحيد ميراقلعہ ہے جو اس كلمہ كو پڑھے وہ ميرے قلعہ ميں داخل ہوگيا اور جو ميرے قلعہ ميں داخل ہو گيا وہ ميرے عذاب سے محفوظ ہوگيا_
جب حديث ختم ہوگئي تو امام(ع) نے اپنى سوارى آگے بڑھادى ليكن چند قدم چلنے كے بعد پھرٹھہرے اور سر كو كجاوہ سے باہر نكال كر فرمايا :''بشروطھا و انا من شروطھا'' كلمہ توحيد كے كچھ شرائط ہيں اور منجملہ ان شرائط كے ميں ہوں_
اس مقام پر امام (ع) نے ولايت كے مسئلہ كو توحيد كے بنيادى مسئلہ كے ساتھ بيان فرمايا اور جملہ ''انا من شروطھا'' كے ذريعہ آپ (ع) نے بنيادى اور كلى موضوع كى نشاندہى فرمائي، اسى وجہ سے آپ(ع) نے روايت بيان كرنے سے پہلے اس روايت كے سلسلہ كو بھى بيان فرمايا اور لوگوں كے كثير مجمع كو يہ سمجھايا كہ امت كى رہبرى اور ولايت كا تعلق مبدا اعلى اور خدا سے ہے _ اس طرح آپ (ع) نے اپنى امامت كو خدا كى طرف منسوب كركے حكومت مامون كى مشروعيت پر خط بطلان كھينچ ديا_
3_امام (ع) نے ولى عہدى كو قبول كرنے كے لئے كچھ شرطيں ركھيں اور فرمايا (وليعہدى ) مجھے قبول ہے ليكن اس كى شرط يہ ہے كہ ميں امر و نہى كر نيو الا اور مفتى و قاضى نہيں رہوں گا كسى كو معزول و منصوب نہيں كروں گا اور كسى چيز كو تبديل نہيں كرونگا_ (36)
امام (ع) نے يہ منفى موقف اختيار كركے مامون كے بعض مقاصد پر خط بطلان كھينچ ديا اس لئے كہ اس روش كو اختيار كرنا مندرجہ ذيل باتوں كى دليل ہے :
236
الف _لوگوں كے ذہنوں ميں بہت زيادہ شبہ اور ابہام كا پيدا كرنا اور نتيجہ ميں مامون كو متہم كردينا _
ب_مامون حكومت كى شرعى حيثيت كو ختم كرنا_
ج_اپنى پارسائي اور زہدكااثبات
4_نماز عيد اور امام كا موقف_
مامون نے امام (ع) سے چاہا كہ نماز عيد پڑھاديں آپ (ع) نے جواب ديا كہ ميرے اور تمہارے درميان جو شرطيں ہيں ان كى بنا پر تم مجھ كو معذور سمجھو_ مامون نے كہا ''اس سے ہمارا مقصديہ ہے كہ لوگ مطمئن ہو جائيں اور آپ كى فضيلت كو پہچان ليں _
امام (ع) نے جب مامون كا اصرار ديكھا تو فرمايا كہ اگر مجبوراً مجھے اس كام كے لئے جانا ہى پڑا تو ميں نماز ادا كرنے كے لئے رسول خدا (ص) اور حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى طرح نكلوںگا_
مامون نے قبول كيا اور حكم ديا كہ حكام ،دربارى اور عام افراد عيد كى صبح كو امام رضا(ع) كے گھر كے پاس حاضر ہوں_
عيد كى صبح ہوئي ، امام (ع) نے غسل فرمايا اور سفيد عمامہ مخصوص انداز سے اپنے سر پر ركھا اپنے آپ كو خوشبو سے معطر كيا ، ہاتھ ميں عصاليا اور ننگے پير اس حالت ميں كہ اپنے لباس كے دامن كو آدھى پنڈلى تك اوپر اٹھاركھا تھا نكلے اور اپنے گھر كے افراد كو بھى آپ(ع) نے حكم ديا كہ اسى انداز سے باہر نكليں اس كے بعد سر كو آسمان كى طرف بلند كركے آپ (ع) نے تكبير كہى ، آپ (ع) كے ساتھ چلنے والوں نے بھى آپ (ع) كى آواز سن كر تكبير كہى _ لشكر كے كمانڈر ، مملكت كے اعلى عہدوں پر فائز افراد اور عوام گھر سے با ہر نہايت سج دھج كے ساتھ منتظر كھڑے تھے جب امام (ع) كو ايسى حالت ميں ديكھا تو سواريوں سے اتر پڑے اور پيروں سے جوتے نكال ڈالے _ امام (ع) تكبيروں كو بار بار دہرا تے رہے اور جم غفير،ان كے ساتھ تكبير كہتارہا _ما حول ميں ايسى عظمت برس رہى تھى اور ايسا شور ہورہا تھا جيسے آسمان وزمين، در و ديوار شہر مرو، ان كے ساتھ تكبير كہہ رہے ہوں لوگوں ميں ايسى كيفيت
237
تھى كہ بے اختيار نالہ و گريہ كى آواز بلند ہونے لگى _امام (ع) راستہ ميں چلتے رہے ليكن ہر دس قدم كے بعد كھڑے ہوجاتے اور چار بار تكبير كہتے _(37)
فضل بن سہل نے اس كى رپورٹ مامون كو دى اور اتنا اضافہ كيا كہ '' اگر رضا (ع) اسى طرح بڑھتے رہے تو فتنہ و آشوب بر پا ہو جائے گا اور ہمارے پاس جان بچانے كا كوئي ذريعہ نہيں ہے آپ ان تك يہ پيغام بھيج ديں كہ لوٹ جائيں ''_
مامون نے امام (ع) سے كہلو ا بھيجا كہ '' ہم نے آپ كو زحمت دى آپ لوٹ جائيں جو پہلے نماز پڑھاتا تھا وہى نماز پڑھائے گا ''_
امام (ع) وہيں سے پلٹ گئے (38) او وہ لوگ جو آشفتہ اور پراگندہ تھے انہوں نے مامون كے نفاق اور عوام فريبى كو سمجھ ليا اور يہ جان ليا كہ مامون امام (ع) كے لئے جو كچھ كررہا ہے وہ فقط دكھا واہے اس كا ہدف صرف اپنے سياسى مقاصد تك پہنچنا ہے _
شہادت امام(ع)
مامون امام (ع) كى روز افزوں عزت ووقعت كو ديكھ كر ہميشہ خوف زدہ رہتا تھا _ جب اس نے يہ سمجھ ليا كہ امام (ع) كو اپنے سياسى اغراض و مقاصد كے لئے كسى طرح بھى استعمال نہيں كر سكتا تو اس نے امام (ع) كے قتل كا ارادہ كر ليا ، اس لئے كہ وہ جانتا تھا كہ جتنا زمانہ گذر تا جائے گا اتنى ہى زيادہ امام (ع) كى عظمت اور حقانيت نماياں ہوتى جائے گى اور اس كا فريب و نفاق واضح ہوتا جائے گا _
دوسرى طرف امام (ع) كو وليعہدى كے لئے معين كرنے سے بنى عباس خليفہ كے بارے ميں برانگيختہ ہو گئے _ اتنا بر ہم ہوئے كہ مخالفت ظاہر كرنے كے لئے انہوں نے '' ابراہيم ابن مہدى عباسى '' كى بيعت كر لى _ (39)
لہذا مخصوص منصوبہ كے تحت ماہ صفر كے آخر ميں 203 ھ ق ميں جب آپ (ع) كى عمر پچپن سال
238
كى تھى آپ (ع) كو زہر دے ديا _ (40)
اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے كے لئے شہادت كى خبر پھيلنے كے بعد گريبان چاك ، سر پيٹتے آنكھوں سے آنسو بہاتے ہوئے امام (ع) كے گھر كى طرف دوڑا_
لوگ امام (ع) كى شہادت كى خبر سنتے ہى آپ (ع) كے گھر كے اردگرد جمع ہو گئے _گريہ و نالہ كى آواز بلند تھى ، مامون كو آپ كے قاتل كى حيثيت سے لوگ ياد كررہے تھے اور بلند آواز سے فرياد كررہے تھے كہ'' فرزند رسول خدا قتل كرديئے گئے ''(41) اور اپنے كو حضرت (ع) كے جسد مطہر كى تشييع كے لئے آمادہ كررہے تھے_
مامون نے محسوس كيا كہ اگر آپ كے جسد مطہر كى آشكارا تشييع كى گئي تو ممكن ہے كہ كوئي حادثہ پيش آجائے لہذا اس نے حكم ديا كہ اعلان كرديا جائے كہ آج تشييع نہيں ہو گي_ جب لوگ متفرق ہو گئے تو راتوں رات امام (ع) كو غسل ديا گيا اور ہارون كى قبر كے پاس جو باغ'' حميد ابن قحطبہ '' ميں واقع ہے سپرد خاك كرديا گيا_(42)
239
سوالات
1 _ آٹھويں امام (ع) كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور كس تاريخ اور سن ميں آپ نے امامت كا منصب سنبھالا ، آپ كى امامت كى مدت كتنى تھى اور اس مدت ميں كتنے خلفائے بنى عباس كا زمانہ رہا ؟
2_ ہارون كى حكومت كے مد مقابل امام (ع) كا موقف كيا تھا اور آپ (ع) كے بعض اصحاب آپ كى جان كے سلسلہ ميں كيوں خوف ركھتے تھے؟
3_ امين اور مامون كے درميان كشمكش اور جھگڑے نے امام (ع) رضا كو كيا حيثيت اور موقع فراہم كيا _
4_ امام (ع) كى زندگى كے 18 مہينے ميں كيا اہم اتفاقات رونما ہوئے اور يہ مسئلہ كس كى طرف سے اور كيوں اٹھا؟
5_ ولى عہدى كى پيش كش كے مقابل امام (ع) كا كيا موقف تھا؟ آپ كے دو اقوال ذكر فرمايئے
6_ آخر كار امام (ع) نے ولى عہدى كيوں قبول كى ؟
7_ نيشاپور او رنماز عيد كے واقعہ كى مختصر توضيح كيجئے ؟
8_ امام (ع) كس عمر اور تاريخ ميں كس طرح شہيد ہوئے ، شہادت كے بعد مامون كا كيا رد عمل رہا_؟
240
حوالہ جات
1 كافى ج 1 /406 ،اعلام الورى 213، ارشاد مفيد /304 ، بحار جلد 49/ 2،3 فصول المہمہ / 244 _
2 اس خاتون كا دوسرا نام تكتُّم تھا_
3 اعلام الورى / 313_
4 اعلام الوري/ 316 كافى ج 1 / 249 ، ارشاد مفيد /306 ،الفصول المہمہ 244_
5 '' ... والامر الى ابنى على سمى على و علي''،/ اعلام الورى 318_317 ،كافى ج 1/252 _ 251 ،ارشاد مفيد 307 _ 306_
6 اعلام الوري/ 327 ، بحار جلد 49 /91_90 ،مناقب جلد 4/ 360 ،عيون اخبار الرضا ج2 / 183_182_
7 اعلام الوري/ 228، بحار جلد 49 /89 ،عيون اخبار الرضا ج2 / 176،مناقب جلد 4/ 360 _
8 ''انا قومٌ لا نستخدم اضيافنا'' كافى جلد 6/284، بحار جلد 49/102_
9 مناقب جلد 4/ 362 بحار جلد 49/ 99_
10 مہ ان الرب واحدٌ و الاب واحدٌ والجزاء بالاعمال ، بحار جلد 49/ 101 ،كافى جلد 8/230_
11 كافى جلد 6 / 298، بحار جلد 49/ 102
12 مناقب جلد 4/ 360
13 ان مناظروں كے بارے ميںمعلومات حاصل كرنے كے لئے كتاب بحار جلد 49 / 198 كے بعد كے صفحات اور عيون اخبار الرضا جلد 1/165_95 ملاحظہ ہوں_
14 ''ہذا خير اہل الارض واعلمہم و اعبدہم ...'' عيون اخبار الرضا جلد 2/ 182 ، بحار ج 49 / 95_
5 دائرة المعارف فريدو جدى جلد 4/ 250 ''مادہ رضا'' مروج الذہب 3/ 441، كامل ابن اثير ج6 / 326، طبرى جلد 8/ 554_
16 ارشاد مفيد / 318 ،بحار جلد 49 / 113،115، مناقب جلد 4/340، اعلام الورى / 325، الفصول المہمہ / 345_
17 '' ... ان اخذہا رون من را سى شعرة فاشہدوا انى لست بامام ''كافى جلد 8/258 _ 257 مناقب جلد 4 / 329،آخر كار وہى ہوا جو كہ امام نے فرمايا تھا ہارون كو امام پرہاتھ ڈالنے كى فرصت پانے كى
241
بجائے اپنے سپاہيوں كے ساتھ مشرقى ايران ميں پيدا ہونے والى شورش دبانے كے لئے خراسان كى طرف سے گذرا راستہ ميں بيمار ہوا اور انجام كار 193 ھ ميں طوس ميں انتقال كرگيا تاريخ ابى الفداء جلد 1 جزء دوم / 18''_
18 اس اختلاف كا سبب يہ تھا كہ ہارون نے امين كو اپنے بعد خلافت كے لئے مقرر كيا تھا ليكن اس كى شرط يہ تھى كہ وہ مامون كو اپنا وليعہد بنائے اور خراسان كے صوبہ كى حكومت اس كے حوالہ كردے ليكن امين نے ہارون كى موت كے بعد مامون كو ولى عہدى سے معزول كرديا اور اپنے بيٹے موسى كو اس عہدہ كے لئے نامزد كرديا _يہى بات ان دونوں كے درميان كشمكش اور خوں چكان جنگ كا باعث بنى ، كامل جلد 6/227_
19 امام كے بصرہ اور كوفہ كے سفر اور آپ كى خدمت ميں پہونچ كر شيعوں كے استفادہ اور اسى طرح آپ كے مناظرہ كے بارے ميں بحار جلد 49/ 81 _79 ملاحظہ ہوں_
20 ...ولقد كنت بالمدينہ و كتابى ينفذ فى المشرق والمغرب ... بحار جلد 49/155_144،كافى ج 8/151 _
21 عيون اخبار الرضا جلد 2/162،161_الحياة السياسية لامام الرضا/146،مناقب ج 4/347،اعلام الورى /338_
22 يہ امام حسن مجتبى (ع) كى نسل سے تھے ،ابوالفرج نے جابر جعفى سے روايت كى ہے كہ حضرت امام محمد باقر _نے ان كى خروج كى خبر دى اور فرمايا 199ھ ميں ہم اہل بيت (ع) ميں سے ايك شخص منبر كوفہ پر خطبہ پڑھے گا خدا اس كے وجود كى بنا پر ملائكہ پر مباحات كرے گا تتمةالمنتہى /264،مقاتل الطالبين /348_
23 ضحى الاسلام ج 3 /294،تاريخ طبرى جلد 8/350،الحياة السياسية لامام الرضا/183_
24 الحياة السياسية لامام الرضا /183منقول از مقاتل الطالبين ،البدايہ والنہايہ _
25 الحياة السياسية لامام الرضا (ع) 214_213،بحار جلد 49/139،مسند امام رضا 1/78،77،عيون اخبار الرضا ج 2 /152_
26 الحياة السياسية لامام الرضا/189_188_
27 مناقب جلد 4/363_عيون اخبارالرضا جلد 2/139،بحارجلد 49/129_
28 انوار البھيّہ /207،مناقب ج 4 /367،اعلام الورى /343_
29 مناقب ج 4/363،بحار ج 49/129،عيون اخبار الرضا جلد 2/139_138_
242
30 اس سلسلہ ميں ملاحظہ ہو مناقب جلد 4/363_362،بحار جلد 49/130_129،ارشاد مفيد /310،عيون اخبار الرضا جلد 2/139_138اعلام الورى /333_334_عنقريب ان شرائط كى طرف اشارہ كيا جائے گا امام جن شرطوں كے قائل تھے _
31 عيون اخبار الرضا جلد 2/136،بحار جلد 49/130_
32 عيون اخبار الرضا جلد 2/139،مناقب جلد 4/364،بحار جلد 49/140_ شايد امام كا نظريہ يہ رہا ہو كہ لوگ اہل بيت كو سياست كے ميدان ميں ديكھ ليں اور ان كو بھول نہ جائيں _ شايد اصل كى تشبيہ خفيہ مصالح پر مشتمل رہى ہو _
33 مناقب جلد 4/364،بحار جلد 49 /130_
34 بحار جلد 49/117،مناقب جلد 4/340،عيون اخبار الرضا جلد 2/219_
35 بحار جلد 49/ 123_ مسند امام رضا جلد 1/59 ''مقدمہ ''و 43 ،عيون اخبار الرضا جلد 2/ 132_134،الفصول المہمہ/254_
36 مناقب جلد 4/363،ارشاد مفيد /310،اعلام الورى /334''اجيبك الى ما تريد من ولاية العہد على اننى لا امر و لاانھى و لا افتى و لا اقصى و لا اوى و لا اعزل و لا اغيرّ شيئاً مما ہو قائمٌ''_
37 تكبير كى صورت اس طرح تھى :اللہ اكبر ،اللہ اكبر على ما ھدانا ،اللہ اكبر على ما رزقنا من بھيمة الانعام و الحمداللہ على ما ابلانا _
38 ارشاد مفيد /313_312_الحياة السياسة الامام الرضا /355_353،عيون اخبار الرضا جلد 2/149 _148 _ بحار جلد 49/135_134_اعلام الورى /336_337الفصول المہمة/261_260_
39 عيون اخبار الرضا جلد 2/163،كامل ابن اثير جلد 6/327_341_
40 بحار جلد 49/2،ارشادمفيد /304،مسند امام الرضا جلد1/10،كافى جلد 1/406،فصول المہمہ/264_
41 قتل ابن رسول اللہ _
42 عيون اخبار الرضاجلد 2/244،مسند الامام الرضا جلد 1/131_130_
|