تاريخ اسلام 4 (حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ
  193
دسواںسبق :
امام موسى بن جعفر (ع)كي سوانح عمري

195
ولادت
ساتويں امام حضرت موسى بن جعفر (ع) 7 صفر 128 ھ ق كو مقام ابواء 1 ميں پيدا ہوئے_ 2 آپ كے والد بزرگوار حضرت امام جعفر (ع) ابن محمد(ع) تھے اور مادر گرامى حميدہ بربريہ تھيں ان كا تعلق ايك بافضيلت غير عرب بزرگ خاندان سے تھا_ آپ كى والدہ خاندانى اصل اور فضائل انسانى سے مالامال تھيں امام جعفر صادق _نے ان كے بارے ميں فرمايا : '' حميدہ خالص سونے كى طرح پليدگى سے پاك ہيں ... ہمارے اور ہمارے بعد والے امام(ع) پر يہ خدا كا لطف ہے كہ ان كے قدموں كو اس نے ہمارے گھر تك پہنچايا_3
امام جعفر صادق(ع) كے گھر اور ان كے علوم سے استفادہ كرنے كے بعد وہ اس منزل پر پہنچ گئيں كہ امام (ع) نے حكم ديا كہ مسلمان عورتيں دينى مسائل حاصل كرنے كے لئے ان كے پاس آئيں_ 4
امام جعفر صادق _نے اپنے بيٹے كى ولادت كى خبر معلوم ہونے كے بعد فرمايا: '' ميرے بعد امام (ع) اور خداوند كى بہترين مخلوق نے ولادت پائي ...'' 5
اس نومولود كے لئے جس نام كا انتخاب كيا گيا وہ '' موسى '' تھا اس زمانہ تك خاندان نبوت ميں يہ نام نہيں ركھا گيا تھا_ يہ نام موسى بن عمران (ع) كى كوششوں اور بت شكنى كى ياد دلانے والا نام تھا_
آپ كے مشہور القاب ميں كاظم، عبدصالح، باب الحوائج اور آپ كى سب سے مشہور كنيت ابوالحسن اور ابوابراہيم ہے_ 6

196
باپ كى خدمت ميں
امام موسى كاظم _نے بچپن ہى سے باپ كى نگراني، اور خاص تربيت كے تحت اور مہربان ماں كى نوازشوں كے سايہ ميں مراحل كمال و رشد طئے كئے _ اپنى زندگى كے بيس سال آپ نے اپنے پدر عاليقدر كى با فيض خدمت اور حيات كى تعمير كرنے والے مكتب فكر ميں گذارے اور اس تمام مدت ميں تمام جگہوں پر اپنے والد بزرگوار كے بلند اور بيش قيمت كاموں سے الہام ليتے اور ان كے علم و دانش سے بہرہ ور ہوتے رہے_ بہت كم مدت ميں اس درس گاہ ميں جسكى بنياد آپ (ع) كے والد كے ہاتھوں ركھى گئي تھي، آپ (ع) نے ايسا بلند مقام پاليا كہ اس عظيم جعفرى يونيورسٹى كى توسيع اور تكميل ميں اپنے والد كى مدد كرنے لگے_

اخلاقى فضائل
جناب موسى ابن جعفر (ع)نے نہ صرف يہ كہ علمى اعتبار سے اپنے زمانہ كے تمام دانش مندوں اور علمى شخصيتوں كو تحت الشعاع قرار دے ديا بلكہ اخلاقى فضائل اور نماياں اور امتيازى صفات كى بنا پر ہر شخص كى زبان پر آپكا نام تھا_ تمام وہ افراد جو آپ كى پر افتخار زندگى سے واقفيت ركھتے ہيں آپ كى اخلاقى عظمت اور ممتاز فضيلت كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہيں_
ابن حجر عسقلاني_ اہل سنت كے ايك بہت بڑے دانش مند اور محدث_ لكھتے ہيں كہ موسى كاظم (ع) اپنے باپ كے علوم كے وارث اور صاحب فضل و كمال تھے آپ نے جب بہت زيادہ بردبارى اور درگذر ( جو سلوك آپ نادان لوگوں كے ساتھ كرتے تھے) كا اظہار كيا تو كاظم كا لقب ملا_ آپ كے زمانہ ميں معارف علمى اور علم و سخاوت ميں كوئي بھى شخص آپ كے پايہ كو نہيں پہنچ سكا_7

197
امامت حضرت موسى ابن جعفر(ع)
امام جعفر صادق(ع) كے اصحاب ميں سے كچھ لوگ آپ كے بڑے بيٹے اسماعيل كو خاندان كا چشم و چراغ شمار كئے جانے كى بنا پر آئندہ كيلئے اپنا پيشوا اور امام سمجھتے تھے ليكن جوانى ہى ميں اسمعيل كى موت نے انتظار كرنے والوں كو نااميد كرديا چھٹے امام نے بھى انكى موت كى خبر كا اعلان كيا يہاں تك كہ بزرگان قوم كو ان كا جنازہ بھى دكھايا تا كہ (انكى امامت والے) عقيدہ كو اپنے دل سے نكال ديں_ 8
امام جعفر صاق _نے اسماعيل كى موت كے بعد عباسى حكومت كے دباؤ كے باوجود مناسب موقع پر مختلف انداز سے اپنے بعد ہونے والے امام، موسى ابن جعفر (ع)كى طرف اپنے اصحاب كى رہنمائي فرمائي ان كے دو نمونے پيش كئے جارہے ہيں_
1_ على ابن جعفر نقل كرتے ہيں كہ ميرے والدامام جعفر صادق (ع) نے اپنے اصحاب كى ايك جماعت سے كہا ''ميرے بيٹے موسى كے بارے ميں ميرى وصيت قبول كرو اس لئے كہ وہ ميرے تمام بيٹوں اور ان لوگوں سے جو ميرے بعد ميرى يادگار رہ جائيں گے، برتر ہيں اور ميرے بعد ميرے جانشين اور خدا كے تمام بندوں پر اس كى حجت ہيں_ 9
2_ منصور بن حازم نقل كرتے ہيں كہ '' ميں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض كيا كہ : اگر آپ كو كوئي حادثہ پيش آجائے تو ہمارا امام كون ہوگا؟ امام نے اپنے بيٹے موسى كے داہنے شانہ پر ہاتھ ركھ كر فرمايا: اگر مجھ كو كوئي حادثہ پيش آجائے تو مير ا يہ بيٹا تمہارا امام ہوگا_ 10

امامت كا زمانہ
موسى بن جعفر (ع)نے اپنے والد كى رحلت كے بعد 148 ھ ق ميں 20 سال كى عمر ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كى ذمہ دارى سنبھالي_آپ اپنے امامت كے زمانہ ميں جو 25 سال كى

198
طويل مدت پر محيط ہے _ اپنے عہد كے خلفاء منصور دوانقي، مہدي، ہادى اور ہارون الرشيد كے معاصر رہے_
امام موسى كاظم _كے جہاد كى شكل اورروش، اس روش كے سلسلہ كى اگلى كڑى تھى جو امام جعفر صادق _نے معاشرہ كے حالات سے روبرو ہونے اور مخالفين كى محاذ آرائي پر اختيار كى تھي_
اس زمانہ كے اسلامى معاشرہ پر حكومت كرنے والے حالات كے تجزيہ كى بنياد پر امام موسى كاظم _كے جہاد كے اصلى محور كو مورد تحقيق قرار ديں گے_

الف_امام موسى كاظم _كى علمى تحريك كى تحقيق
اپنے والد بزرگوار كى رحلت كے بعدامام موسى كاظم _نے اس عظيم درسگاہ كى علمى اور فكرى رہبرى كو اپنے ذمہ ليا جس كى بنياد مدينہ ميں پڑچكى تھى اور آپ نے بہت سے محدثين ، مفسرين، فقہاء متكلمين اور تمام اسلامى دانشمندوں كى اپنے تربيتى مكتب فكر ميں پرورش كى اور وسيع فقہ اسلامى كو اپنے جديد خيالات و نظريات سے غنى اور مالامال كرديا_
منصور كى جابرانہ حكومت اور سياسى حالات كے تقاضا كے تحت امام(ع) نے پہلے مرحلہ ميں اپنے جہاد كو معارف كى نشر و اشاعت اور باطل عقائد كى روك تھام كى صورت ميں نبھايا_ مندرجہ ذيل واقعہ اس كے جبر كے اس گوشہ كو بيان كرتا ہے_
امام جعفر صادق (ع) كو جب منصور دوانقى نے زہر دے ديا تو اس كے بعد اس نے امكانى مخالفين كو راستہ سے ہٹانے كا يہ مناسب موقع سمجھا_ اس وجہ سے اس نے مدينہ كے حاكم محمد بن سليمان كو لكھا كہ اگر جعفر بن محمد نے كسى كو اپنا جانشين مقرر كيا ہو تو اس كو حاضر كرو اور اسكى گردن اڑادو
حاكم مدينہ نے جواباً لكھا '' جعفر ابن محمد نے وصيت نامہ ميں پانچ آدميوں كو اپنا وصى اور

199
جانشين قرار ديا ہے ان كے نام ہيں: 1_ منصور دوانقى 2_محمد ابن سليمان (حاكم مدينہ)3_ عبداللہ بن جعفر (امام جعفر صادق كے بڑے بيٹے) 4_ موسى ابن جعفر 5_ حميدہ امام كى بيوي'' اور خط كے آخر ميں حاكم مدينہ نے خليفہ سے پوچھا كہ ان ميں سے كس كى گردن اڑادوں؟
منصور كے وہم و گمان ميں بھى يہ بات نہيں تھى كہ ايسے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اس كو بہت غصہ آيا اوركہا: ان ميں سے تو كسى كو بھى قتل كيا نہيں جاسكتا_ 11
امام جعفر صادق _نے ايسا سياسى وصيت نامہ لكھ كر امام موسى كاظم _كو قتل سے بچاليا_ اس كے علاوہ دوسرى كسى بھى صورت ميں امام موسى كاظم (ع) كا قتل يقينى تھا_
امام موسى كاظم(ع) كى علمى اور ثقافتى كوششوں ميں سے دو اہم مندرجہ ذيل ہيں:
1_ ايسى علمى اور فكرى آمادگى كا ہونا كہ جس سے مختلف فكرى اور اجتماعى مكاتب سے مقابلہ ہوسكے ان مكاتب فكر ميں سب سے زيادہ خطرناك الحادى شعوبيہ 12 مكتب فكر تھا جو اسلام كى بنياد كو چيلنج كر رہا تھا_
ايك مذہبى پيشہ ہونے كے ناطے ان عقيدتى خطرات اور آفتوں كے مقابلہ ميں امام (ع) كا كردار يہ تھا كہ مضبوط دلائل كے ساتھ اصولى راستوں كى رہنمائي كركے ان افكار كے سامنے ديوار بن كر كھڑے ہوجائيں اور ان كے بے مايہ ہونے كو ثابت كركے اسلامى ماحول كو كفر، زندقہ اور شعوبيوں و غيرہ سے پاك كرديں_
اس جہاد كى مشكلات ميں جو اضافہ كا سبب بنا وہ مسلمانوںكا نظرياتى اختلاف تھا اور اس وقت كى حكومتوں نے بھى لوگوں كے افكار كا رخ موڑنے كے لئے ان اختلافات كو پيدا كيا_
الفاظ قرآن كے قديم ہونے والے نظريہ كى پيدائشے، مكتب معتزلہ اور اشاعرہ كا ظہور اور چار فقہوں كا قانونى شكل اختيار كرنا اس كے بڑے واضح نمونے ہيں_
امام كا يہ اقدام خلافت عباسى كے لئے بڑا گراں تھا_ امام كے مكتب فكر ميں تربيت پانے والے افراد جو اس سلسلہ ميں بڑى مہارت اور فعاليت كے حامل تھے سختى ميں مبتلا كرديئے گئے اور

200
عقيدہ كے بارے ميں ان كو زبان كھولنے سے روكا گيا_ يہاں تك كہ ہشام ابن حكم كى جان كى حفاظت كے لئے_ جو مختلف جماعتوں اور مكتب فكر كے لوگوں سے بحث و مناظرہ ميں يد طولى ركھتے تھے، خود امام(ع) نے كسى شخص كو ان كے پاس بھيج كر وقتى طور پر ان كو بحث و مناظرہ سے روك ديا_ ہشام نے بھى مہدى عباسى كى موت تك كوئي بات نہيں كہي_ 13
2_ علم فقہ، حديث، كلام، تفسير اور ديگر علمى شعبوں ميں بزرگ اور بافضيلت شاگردوں كا پرورش پانا: سيد ابن طاؤس نقل كرتے ہيں كہ امام(ع) كے قريبى اصحاب مجلس درس ميں حاضر ہوتے اور جو كچھ بھى حضرت(ع) سے سنتے اس كو اس لوح ميں جو آستينوں ميں ركھتے تھے لكھتے جاتے تھے_ 14
يہ سب كچھ ان حالات ميں ہورہا تھا جب كہ عباسى حكومت نے امام (ع) كى علمى سرگرميوں پرپابندى لگادى تھى _ آپ كے شاگردوں پر سختى كى جا رہى تھي_ ظاہر ہے كہ اس صورت ميں وہ كھلم كھلا امام(ع) كا نام بھى نہيں لے سكتے تھے بلكہ ابوابراہيم، عبدصالح، عالم، صابر اور امين ايسے ناموں سے ياد كرتے تھے_
ان تمام باتوں كے باوجود امام(ع) علمي، اسلامى اور ثقافتى تحريك كى ارتقا ميں بہت بڑا قدم اٹھانے اور سينكڑوں دانشمند اور علمى شخصيتوں كى تربيت ميں كامياب ہوگئے_ 15 محمد ابن ابى عمير، على بن يقطين، ہشام ابن حكم، ہشام ابن سالم، يونس بن عبدالرحمن اور صفوان ابن يحيى كا نام بطور نمونہ ليا جاسكتا ہے_
امام (ع) كے شاگردوں كى روحانى عظمت اور انكى علمى اور مجاہدانہ شخصيت نے مخالفين، خصوصاً حكومت وقت كى آنكھوں كو خيرہ كرديا ان كو يہ خطرہ لاحق ہوگيا كہ يہ كہيں اپنى اس حيثيت و محبوبيت كى بناء پر جو لوگوں كے درميان ہے انقلاب برپا نہ كرديں_ اس لئے وہ ہميشہ ايسے افراد كو معين كرتے رہتے تھے جو ان كى كاركردگى كى نگرانى كرتے رہيں_ نمونہ كے طور پر پيش ہے_
ابن ابى عمير امام موسى كاظم _كے ممتاز صحابى تھے وہ اس بات ميں كامياب ہوئے كہ مختلف مباحث ميں اپنى پچاس جلد كتا بيں يادگار چھوڑيں_

201
ہارون جس كو امام موسى كاظم (ع) كے نزديك محمد ابن ابى عمير كے موقف كى اجمالى اطلاع تھى اس نے محمد ابن ابى عمير كى فعاليت اور كاركردگى پر نظر ركھنے كے لئے جاسوسوں كو معين كرديا_ انہوں نے اطلاع دى كہ عراق كے تمام شيعوں كے نام محمد كے پاس ہيں_ اس خبر كے ملتے ہى ابن ابى عمير ہارون كے حكم سے گرفتار كركے قيد ميں ڈال ديئے گئے اور شيعوں كے نام اور راز كو بتانے كے لئے ان پر سختى كى جانے لگى ليكن وہ راز اگلنے پر تيار نہيں ہوئے_ 16

ب_ امامت كا تحفظ اور عمومى انقلاب كيلئے ميدان كى توسيع
امامت كے تحفظ كے لئے موسى ابن جعفر (ع) كا مجاہدانہ منصوبہ كچھ اس طرح تھا:
1_ اپنے طرفداروں كى مدد اور ان كى نگرانى كرنا اورحكومت عباسى كے مقابل منفى موقف اختيار كرنے كے لئے ان كو ہم آہنگ بنانا_
2_ امام اپنے طرفداروں كو حكم ديتے تھے كہ حكومت عباسى سے ہر سطح كا ہر معاملہ اور رابطہ منقطع كرليں_
صفوان بن مہران سے امام (ع) كى گفتگو امام (ع) كے اس صريحى نظريہ اور موقف كو بيان كرتى ہے_ جناب موسى بن جعفر (ع)نے صفوان سے فرمايا: تمہارى ہر بات اچھى سے سوائے ايك بات كے اور وہ يہ كہ تم اپنے اونٹ ہارون كو كرايہ پر ديتے ہو_ صفوان نے عرض كيا ميں ان كو سفر حج كے لئے كرايہ پر ديتا ہوں اور خود ان كے ساتھ نہيں جاتا، آپ نے فرمايا_ كيا كرايہ پر دينے كے بعد_ تمہارى يہ خواہش نہيں رہتى ہے كہ كم از كم مكہ سے لوٹ آنے تك ہارون زندہ رہے، تا كہ تمہارا كرايہ ادا كردے؟ صفوان نے كہا كيوں نہيں_ امام (ع) نے فرمايا: جو ستمگروں كى بقا كو دوست ركھتا ہو وہ انہيں ميں سے شمار كيا جاتا ہے_ اور جو ان كے ساتھ ہو اس كى جگہ جہنم ہے_ 17
امام موسى كاظم (ع) اپنے دوستوں كو ہر اس منصب اور عہدہ كو قبول كرنے سے منع فرماتے تھے جو ظالم حكومت كى تقويت كا باعث ہو_ آپ نے زياد ابن سلمہ سے فرمايا:'' اے زياد اگر ميں كسى

202
بلندى سے گر كر ٹكڑے ٹكڑے ہوجاؤں تو يہ ميرے لئے اس سے بہتر ہے كہ ميں ظالم حكومت كے كسى منصب كو قبول كروں يا اس كى كسى ايك بساط پر بھى قدم ركھوں_ 18
موسى بن جعفر(ع) نے ايسى روش اختيار كركے يہ چاہا كہ خلافت عباسى كى مشينرى كى مشروعيت پر خط نسخ كھينچے كے ساتھ ساتھ ان كو گوشہ گير بناديں اور عوامى مركز بننے سے ان كو محروم كرديں_

ايك استثنى
امام نے عباسى ستمگر حكومت كے تعاون كو حرام كردينے كے باوجود اپنے لائق اور معتمد اصحاب كے اہم عہدوں پر باقى رہنے كى مخالفت نہيں كى اس لئے كہ ايك طرف تو يہ كام حكومت كى مشينرى ميں نفو ذكا باعث بنا دوسرى طرف اس بات كا باعث بنا كہ لوگ خصوصاً امام(ع) كے چاہنے والے ان كى حمايت كے زير سايہ آجائيں_
على ابن يقطين كا حكومت كى مشينرى ميں قوت حاصل كرلينا اسى منصوبہ كا ايك جزء تھا_
على ابن يقطين جو امام ہفتم كے ممتاز شاگردوں ميں سے تھے ايك پاكيزہ نفس اور امام (ع) كے لئے مورد اطمينان شخصيت كے مالك تھے، عباسيوں سے انہوں نے رابطہ قائم كيا اور ہارون كى طرف سے وزارت كے لئے چنے گئے اور على ابن يقطين نے امام (ع) كى حمايت سے اس منصب كو قبول كيا_ 19
بعد ميں آپ نے كئي بار يہ چاہا كہ استعفى ديديں ليكن امام (ع) نے ان كو روك ديا_ 20
ايك دن امام موسى كاظم _نے ان سے فرمايا كہ : ايك كام كا وعدہ كرو تو ميں تمہارے لئے تين چيزوں كى ضمانت ليتا ہوں 1_ تم قتل نہيں كئے جاؤگے2_فقر ميں مبتلا نہيں ہوگے3_ قيدى نہيں كئے جاؤگے_
على ابن يقطين نے كہا كہ جس كام كے مجھے پابند ہونا ہے وہ كيا ہے؟ امام(ع) نے فرمايا: '' وہ كام

203
يہ ہے كہ جب ہمارے دوستوں ميں سے كوئي تمہارے پاس آئے تو اس كى ضرورت پورى كرو اور اس كا اكرام كرو_ على ابن يقطين نے قبول كيا_ 21
آپ جب تك اس عہدہ پر باقى رہے شيعوں كے لئے ايك مضبوط قلعہ اور ايك قابل اطمينان پناہ گاہ شمار كئے جاتے رہے_ اور ان دشوار حالات ميں زندگى كى حفاظت كے لئے ضرورى اعتبار قائم كرنے اور امام(ع) كے دوستوں كو اقتصادى طور پر آزاد بنانے ميں آپ نے بڑا موثر كردار ادا كيا_
2_ خلافت كى مشينرى كے مقابل امام(ع) كا صريحى اور آشكار موقف جو اس بات پر مبنى تھا كہ خلافت انكا حق ہے اور وہ اس مقام كو بچانے ميں تمام لوگوں پر برترى ركھتے تھے_

امام كے اس موقف كو واضح كرنے والا ايك نمونہ
ہارون رشيد حج سے واپسى پر رسول اكرم (ص) كى قبر مطہر كے پاس حاضر ہوا_ اور اس نے قريش اور دوسرے قبائل كے بہت سے لوگوں كے سامنے آنحضرت(ص) پر اس طرح سلام كيا'' ... السلام عليك يابن عم'' سلام ہو آپ پر اے چچا كے بيٹے( چچيرے بھائي) اور اس نے نبي(ص) سے اپنى نسبت پر فخر كا اظہار كيا _ امام موسى كاظم _نے_ جو وہاں موجود تھے _ جب اس كى بات سنى تو ضريح مقدس كے پاس كھڑے ہو كر آپ نے كہا: ''السلام عليك يا ابة ''سلام ہو آپ پر اے پدر_ ہارون اس بات پر سخت ناراض ہوا_ اتنا ناراض كہ اس كے چہرہ كا رنگ بدل گيا_ ليكن ردّ عمل كے طور پر كچھ نہ كرسكا_ 22
يہاں تك كہ ايك دن اس نے امام(ع) سے كہا كہ آپ لوگ كيسے يہ دعوى كرتے ہيں كہ فرزند پيغمبر(ص) ہيں جبكہ آپ كے باپ تو على (ع) ہيں؟ امام نے فرمايا اگر پيغمبر(ص) زندہ ہوتے اور تمہارى بيٹى كا رشتہ مانگتے تو تم قبول كر ليتے؟ اس نے كہا، سبحان اللہ كيوں نہيں؟ ايسى صورت ميں، ميں عرب عجم اور

204
قريش پر فخركرتا_
حضرت نے فرمايا: كہ اگر رسول خدا زندہ ہوتے تو ہمارى بيٹى كا رشتہ نہ مانگتے اور ميں بھى يہ رشتہ قبول نہ كرتا، ہارون نے پوچھا كيوں؟ آپ نے فرمايا: اس لئے كہ وہ ہمارے باپ ہيں (ہرچند ماں كى طرف سے) ليكن تمہارے باپ نہيں ہيں_ 23
امت كے انقلابى وجدان كو بيدار كرنا اور انقلابى تحريكوں كى پشت پناہي: منصور كے زمانہ ميں اور اس كے بعد بہت سے سادات متقى اور حق طلب علوى جن كو آئمہ سے قريبى نسبت تھي، ظلم و ستم كے ختم ہونے، عدالت اور امربالمعروف و نہى عن المنكر كى نشر و اشاعت كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے نتيجتاً شہيد ہوگئے_
بہت سے انقلابى پوشيدہ طور پر امام(ع) سے ملحق تھے اور آپ سے رہنمائي حاصل كرتے رہتے تھے، نمونہ كے طور پر حسين ابن على جو مدينہ كے علويوں 24 ميں سے تھے_ اپنے ہى قول كے مطابق _امام موسى كاظم (ع) سے مشورہ 25 كے بعد ہادى عباس كے خلاف قيام كيا اور تقريباً تين سو افراد كے ايك گروہ كے ساتھ مدينہ سے مكہ كى طرف چل پڑے، سرزمين '' فخ'' پر خليفہ كے سپاہيوں كا سامنا ہوا_ شديد جنگ كے بعد علوى شكست كھا گئے اور واقعہ كربلا كى طرح عباسيوں نے تمام شہداء كے سر كاٹے اور مدينہ لے آئے اور ايك ہى نشست ميں جس ميں فرزندان اميرالمؤمنين كى ايك جماعت منجملہ ان كے امام موسى كاظم _تشريف فرماتھے ان سروں كو دكھانے كے لئے لے آئے، سوائے موسى ابن جعفر (ع)كے كسى نے كچھ نہيں كہا_ آپ نے جب حسين ابن علي_ قيام فخ كے رہبر_ كا سر ديكھا تو فرمايا: انّا للہ و انا اليہ راجعون_ خدا كى قسم وہ اس حالت ميں درجہ شہادت پر فائز ہوئے كہ مسلمان اور صحيح كام كرنے والے تھے، بہت روزے ركھتے تھے، بڑے شب زندہ دار تھے، امربالمعروف اور نہى عن المنكر كرتے تھے_ ان كے خاندان ميں ان جيسا كوئي نہيں تھا_26
ہادى عباسى كو جب معلوم ہوا كہ علويين امام ہفتم كے ايما پر عمل كرتے ہيں تو حادثہ ''فخ'' كے

205
بعد بہت ناراض ہوا_ اور آپ كے قتل كا اس نے ارادہ كرليا_ اس نے كہا : خدا كى قسم حسين نے موسى ابن جعفر(ع) كے حكم سے ميرے خلاف قيام كيا ہے_ اس لئے كہ اس خاندان كا امام سوائے موسى ابن جعفر كے اور كوئي نہيں ہے_ اگر ميں ان كو زندہ چھوڑ دوں تو خدا مجھے قتل كرے_27
امام (ع) كى جو رپورٹيں خلفاء كے پاس پہنچى تھيں نيز وہ اعترافات جو خلفاء كو تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت حكومت كى مشينرى كى كمين ميں بڑے شد و مد سے تھے اور اس كى سرنگونى كى فكر كر رہے تھے_
لوگوں نے لكھا ہے كہ مہدى عباسى نے امام(ع) سے كہا كہ '' كيا آپ ہم كو اپنے خروج سے محفوظ ركھيں گے ...؟28
نيز ہارون نے اپنے اس اقدام كى توجيہ ميں جو اس نے امام(ع) كو گرفتار كرنے كے لئے كيا تھا_ كہا '' ميں ڈرتا ہوں كہ يہ فتنہ برپا كريں گے اور خون بہے گا''_29

ج_ خلفاء كے عيش و نشاط كے خلاف جنگ
خلفاء بنى اميہ و بنى عباس اور ان سے وابستہ افراد كى زندگى كى نماياں خصوصيت عيش و نشاط اور تجمل پرستى تھى وہ لوگ جو ٹيكس اور پيسے عوام سے وصول كرتے تھے ان كو اسلامى وسيع و عريض ملك كى آبادكارى اور ترقى ميں استعمال كرنے اور لوگوں كے رفاہ اور آرام كے كاموں ميں خرچ كرنے كے بجائے بزم سلطنت كى تشكيل ،بساط عيش و نشاط بچھانے اور خوشنما محل بنانے ميں خرچ كرتے تھے_
ہارون كى زندگى ميں دوسرے خلفاء كى بہ نسبت يہ خصوصيت زيادہ نظر آتى ہے_ ہارون نے بغداد ميں بڑا خوشنما محل بنوايا_ اپنى عظمت اور ظاہرى شان و شوكت كو واضح كرنے كيلئے موسى ابن جعفر (ع) كو وہاں لے گيا_ طاقت كے نشے ميں مست تكبر آميزلہجہ ميں اس نے پوچھا، يہ قصر كيسا ہے؟ آپ نے فرمايا: فاسقوں كا گھر ہے وہى لوگ جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا : '' جو لوگ روئے

206
زمين پر ناحق تكبر كرتے ہيں _ ہم جلد ہى اپنى آيات پر ايمان سے ان كو منصرف كرديں گے ( اس طرح كہ ) جب وہ كسى آيت يا نشانى كو ديكھيں گے تو ان پر ايمان نہيں لائيں گے اور اگر ہدايت كے راستہ كو ديكھيں گے تو اپنے راستہ كے عنوان سے اس كا انتخاب نہيں كريں گے ( يہ سب اس لئے ہے كہ ) انہوں نے ہمارى آيات كى تكذيب كى ہے اور اس سے غافل ہوگئے ہيں_30
ہارون جو اس جواب سے سخت ناراض تھا اس نے غضبناك ہوكر پوچھا كہ پھر يہ گھر كس كا ہے؟
يہ گھر ايك زمانہ كے بعد ہمارے شيعوں كا ہوگا ليكن ( اس وقت ) فتنہ كى جڑ اور دوسروں كے لئے آزمائشے ہے_
( اگر يہ شيعوں كا ہے ) تو صاحب خانہ اس كو كيوں نہيں لے ليتا؟
آبادى ہونے كے بعد اس كو اس كے مالك سے لے ليا جائيگا اور جب تك آباد نہيں ہوگا واپس نہيں ليا جائے گا_31

شہادت
ہارون كے جبر كے مقابلہ ميں امام موسى كاظم _كے رويہ نے اس كو اس بات پر اكسايا كہ وہ امام _كو نظر بند كرے اور لوگوں سے ان كے رابطہ كو منقطع كردے اس وجہ سے اس نے امام (ع) كو گرفتار كيا اور زندان بھيج ديا_ ليكن مدينہ سے باہر لے جانے كے لئے ہارون نے مجبور ہو كر كہا دو كجاوے بنائے جائيں اور ہر كجاوہ كو مدينہ كے الگ الگ دروازوں سے باہر نكالا جائے اور ہر ايك كے ساتھ كچھ شہ سوارفوجى چليں_32 صرف امام كے عقيدتمندوں كے خوف سے يہ انتظام نہں گيا گيا تھا بلكہ ہارون كو يہ فكر تھى كہ ان كے پاس كچھ افراد اور كچھ گروہ تيار ہيں جو ايسے موقع پر حملہ كركے امام(ع) كو اس كے مزدوروں كے چنگل سے چھڑالے جائيں گے_ اس وجہ سے اس نے

207
ايسى احتياطى تدبير اختيار كى تھيں_
حضرت موسى ابن جعفر (ع)پہلے بصرہ كے زندان ميں لے جائے گئے اور ايك سال كے بعد ہارون كے حكم سے بغداد منتقل كرديئے گئے اور كسى كو ملاقات كى اجازت ديئے بغير كئي سال تك قيد ميں ركھے گئے_34
آخر كار 45 رجب 183 ھ ق كو ''سندى بن شاہك'' كے قيد خانے ميں ہارون كے حكم سے زہر ديا گيا، تين دن كے بعد شہيد ہوگئے اور بغداد ميں قريش كے مقبرہ ميں سپرد لحد كئے گئے_34
شہادت كے بعد ہارون كے آدميوں نے بہت اصرار كيا كہ لوگ اس بات كو قبول كرليں اور گواہى ديں كہ موسى ابن جعفر (ع)كو زہر نہيں ديا گيا اور وہ طبيعى موت سے دنيا سے رخصت ہوئے ہيں_ تا كہ اس بہانہ سے اپنے دامن كو ايسے سنگين جرم كے داغ سے بچاليں اور لوگوں كى ممكنہ شورش بھى روك ديں_
اور يہ ايك دوسرا گواہ ہے جو عباسى حكومت سے امام كے ٹكراؤ كى طرف ہمارى رہنمائي كرتا ہے_

آپ كى عملى اور اخلاقى سيرت كے نمونے
الف: عبادت
خدا كى خصوصى معرفت آپ كو مزيد عبادت اور پروردگار سے عاشقانہ راز و نياز كى طرف كھينچتى تھى اس وجہ سے اجتماعى كاموں سے فراغت كے بعد آپ عبادت ميں اپنا وقت گذارتے تھے_
جب ہارون كے حكم سے آپ كو زندان ميں ڈال ديا گيا تو آپ نے خدا كى بارگاہ ميں عرض كيا پروردگارا مدتوں سے ميں يہ چاہتا تھا كہ تو اپنى عبادت كے لئے مجھے فرصت ديدے اب ميرى خواہش پورى ہوگئي لہذا ميں تيرا شكر ادا كرتا ہوں_35

208
جب آپ قيد خانہ ميں تھے اس وقت جب كبھى ہارون كوٹھے سے زندان كى طرف ديكھتا تھا تو يہ ديكھتاتويہى لباس كى طرح كى كوئي چيز زندان كے ايك گوشہ ميں پڑى ہے_ ايك بار اس نے پوچھ ليا كہ يہ كس كا لباس ہے؟ ربيع نے كہا: يہ لباس نہيں ہے، يہ موسى ابن جعفر (ع)ہيں جو زيادہ تر سجدہ كى حالت ہيں رہتے ہيں_ ہارون نے كہا سچ ہے وہ بنى ہاشم كے بڑے عبادت گزار افراد ميں سے ہيں_ ربيع نے پوچھا، تو پھر ان پر اتنى سختى كيوں كرتا ہے ہارون نے كہا: افسوس اس كے سوا كوئي چارہ نہيں ہے_ 36
امام _اس دعا كو بہت پڑھتے تھے'' اللہم انى اسئلك الراحة عند الموت و العفو عند الحساب''37 خدايا ميں تجھ سے موت كے وقت آرام اور حساب كے وقت بخشش كا طلبگار ہوں_
آپ كى عبادت كو بيان كرنے كے لئے وہ جملہ كافى ہے جو ہم آپ كى زيارت ميں پڑھتے ہيں كہ '' درود ہو موسى ابن جعفر (ع)پر جو پورى رات مسلسل عبادت اور استغفار ميں گذارتے تھے، سجدہ ريز رہتے ، بہت زيادہ مناجات اور نالہ و زارى فرماتے تھے_38

ب_ درگذر اور بردباري
امام موسى كاظم _كا درگذر اور ان كى بردبارى بے نظير اور دوسروں كيلئے نمونہ عمل تھي، آپ كے لئے '' كاظم'' كا لقب اسى خصلت كو بيان كرنے والا اور درگذر كى شہرت كى نشان دہى كرنيوالا ہے_
مدينہ ميں ايك شخص تھا وہ ہميشہ امام كو_ دشنام اور توہين_ كے ذريعہ تكليف پہنچا تا رہتا تھا_ امام(ع) كے كچھ صحابيوں نے يہ پيشكش كى كہ اس كو درميان سے ہٹا ديا جائے_
امام(ع) نے ان لوگوں كو اس كام سے منع كيا پھر اس كے بعد اس كے گھر كا پتہ پوچھ كر_ جو مدينہ سے باہر ايك كھيت ميں تھا_ تشريف لے گئے آپ(ع) چوپائے پر سوار تھے جب اس كے كھيت ميں

209
داخل ہوئے، وہ شخص چلانے لگا كہ ہمارے كھيت كو پامال نہ كريں حضرت نے كوئي پروا نہيں كى اور سوارى ہى كى حالت ميں اس كے پاس پہنچے اور سوارى سے اترنے كے بعد اس سے ہنس كر پوچھا: اس زراعت كے لئے كتنے پيسے تم نے خرچ كئے ہيں؟ اس نے جواب ديا سو دينار_ آپ نے فرمايا : كتنے فائدے كى اميد ہے اس نے جواب ديا ''دوسو دينا'' _ آپ نے اس كو تين سو دينار مرحمت فرمائے اور كہا:'' زراعت بھى تيرى ہے، جس كى تو اميد لگائے ہوئے ہے خدا تجھكو اتنا ہى دے گا_ وہ شخص اٹھا اور اس نے امام(ع) موسى كاظم _كے سر كو بوسہ ديا اور اس نے اپنے گناہوں سے درگذر كرنے كى خواہش ظاہر كي_ امام مسكرائے اور پلٹ گئے ... اس كے بعد ايك دن وہ شخص مسجد ميں بيٹھا ہوا تھا كہ حضرت موسى ابن جعفر(ع) وہاں وارد ہوئے جب امام(ع) پر اس شخص كى نظر پڑى تو اس نے كہا: خدا بہتر جانتا ہے كہ اپنى رسالت كو كس خاندان ميں قرار دے_39 اس كے دوستوں نے اس سے تعجب سے پوچھا: كيا بات ہے؟ تم تو اس سے پہلے ان كو بہت برا بھلا كہتے تھے اس نے دوبارہ امام كے لئے دعا كى اور دوستوں سے الجھ پڑا_
امام(ع) نے اپنے اصحاب سے_ جو پہلے اس كو قتل كرنے كا ارادہ ركھتے تھے_ كہا كيا بہتر ہے، تمہارى نيت يا ہمارا سلوك جو اس كو راہ راست پر لانے كا باعث بنا؟ 40

ج_ كام اور كوشش
امام موسى كاظم _كے پاس زراعت اور كھيتى تھى آپ خود اس كے كام ميں لگے رہتے تھے، حسن ابن علي_ آپ كے صحابى اور شاگرد_ اپنے باپ كا قول نقل كرتے ہيں ميں نے امام موسى ابن جعفر (ع) سے ان كے كھيت ميں اس حالت ميں ملاقات كى كہ وہ محنت و مشقت كى وجہ سے قدموں تك پسينے سے بھيگے ہوئے تھے_ ميں نے ان سے كہا: ميں آپ پر قربان جاؤںآپ كے آدمى (كام كرنے والے) كہاں ہيں، آپ خود كيوں مشغول ہيں؟
آپ نے فرمايا: مجھ سے اور ميرے والد سے بھى زيادہ بزرگ افراد اپنے كھيت ميں كام

210
كرتے تھے ميں نے عرض كيا وہ كون لوگ ہيں؟ آپ نے فرمايا: ميرے جد رسول خدا اور اميرالمؤمنين(ع) اور ہمارے آباء ، اس كے بعد آپ نے فرمايا: كھيتى باڑى پيغمبروں مرسلين اور صالحين كا كام ہے_41

د_ سخاوت و كرم
جود و كرم، ساتويں امام(ع) كى صفتوں ميں سے ايك بڑى نماياں صفت تھي_ آپ نے اپنے مالى امكانات كو_ جو كھيتى باڑى كے ذريعہ آپ نے حاصل كئے تھے_ اس طرح ضرورت مندوں كے حوالہ كر ديتے تھے كہ مدينہ ميں ضرب المثل كے طور پر لوگ آپس ميں كہا كرتے تھے '' اس شخص پر تعجب ہے جس كے پاس موسى ابن جعفر (ع)كى بخشش و عطا كى تھيلى پہنچ چكى ہو ليكن وہ پھر بھى تنگ دستى كا اظہار كرے_42
آپ(ع) كى سخاوت و كرم كے بارے ميں ابن صباغ مالكى تحرير فرماتے ہيں: موسى كاظم _اپنے زمانہ كے لوگوں ميں سب سے زيادہ عابد، دانا اور پاك نفس شخص تھے_ آپ (ع) پيسے اور كھانے پينے كا سامان مدينہ كے ستم رسيدہ افراد تك پہنچاتے اور كسى كو خبر بھى نہيں ہوتى تھى كہ يہ چيزيں كہاں سے آئي ہيں_ مگر آپ كى رحلت كے بعد پتہ چلا_43
ايك شخص جس كا نام '' محمد ابن عبداللہ بكري'' تھا اپنے مطالبات كو وصول كرنے كے لئے مدينہ آيا ليكن اس كو كچھ نہيں ملا_ واپسى پر امام _سے ملاقات ہوئي اس نے اپنا ماجرا آپ كو سنايا_ امام(ع) نے حكم ديا كہ اس كو تين سو دينار سے بھرى تھيلى دى جائے تا كہ وہ خالى ہاتھ اپنے وطن واپس نہ جائے_44

ھ_ تواضع اور فروتني
امام موسى ابن جعفر (ع)ايك كالے چہرہ والے كريہہ المنظر شخص كے پاس سے گذرے آپ(ع) نے اس كو سلام كيا اور اس كے پاس بيٹھ گئے اس سے باتيں كيں اور پھر اس كى حاجت پورى

211
كرنے كے لئے اپنى آمادگى كا اظہار فرمايا آپ سے كہا گيا كہ اے فرزند رسول كيا آپ ايسے شخص كے پاس بيٹھتے ہيں اور اس كى حاجتيں پوچھتے ہيں؟
آپ نے فرمايا: وہ خدا كے بندوں ميں سے ايك بندہ ہے اور خدا كى كتاب ميں وہ ايك بھائي ہے، اور خدا كے شہروں ميں وہ ہمسايہ ہے، حضرت آدم (ع) جو بہترين پدر ہيں، اس كے باپ ہيں اور آئين اسلام جو تمام دينوں ميں برترين دين ہے اس نے ہم كو اور اس كو باہم ربط ديا ہے_45

212
سوالات
1_ امام موسى كاظم _كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور آپ نے اپنے والد بزرگوار كے ساتھ كتنے دن زندگى گذارى آپ كے والد و والدہ كا نام اور آپ كى سب سے مشہور كنيت اور لقب بيان كيجئے_
2_ امام جعفر صادق _كے ارشادات ميں سے ايك قول جو آپ كے فرزند موسى ابن جعفر_ كى امامت كے بارے ميں ہے بيان فرمايئے
3_ امام موسى كاظم _نے اپنے باپ كى علمى تحريك كو كن حالات ميں جارى ركھا_ اس زمانہ ميں اسلامى معاشرہ پر حكومت كرنے والے حاكم كے رويہ كا ايك نمونہ بيان فرمايئے
4_ امام موسى كاظم (ع) كى علمى اور ثقافتى كوششوں كا كيا نتيجہ رہا؟
5_ امامت كے محاذ كى نگہبانى كے لئے امام موسى كاظم _كے جہاد كا محور كيا چيزيں تھيں_
6_ امام موسى كاظم _كس تاريخ كو كس طرح اور كہاں شہيد ہوئے؟

213
حوالہ جات
1 ابواء مكہ اور مدينہ كے درميان ايك جگہ كا نام ہے_ پيغمبر(ص) اسلام كى والدہ گرامى جناب آمنہ بنت وہب كى قبر اسى جگہ ہے_
2 بحار الانوار جلد 48/ 1_مناقب جلد 4/323 _
3 بحار جلد 48/6، كافى جلد 1/398_
4 انوار البھيتہ/163_
5 بحار جلد 48/3_
6 بحار جلد 48/11_
7 الصواعق المحرقہ /203_
8 بحار جلد 48/21_
9 اعلام الوري/ 291، ارشاد مفيد /290، بحار جلد 48/20_
10 بحار جلد 48/18_
11 بحار جلد 47/3، مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/320_
12 شعوبيہ غير عرب لوگوں كے ايك گروہ كا نام ہے جو عمر كے زمانہ خلافت ميں نيشنلسٹ مخالف فكر كے ساتھ ظاہر ہوا اور اموى و عباسى دور حكومت ميں اس كو زيادہ رونق ملي_ يہ لوگ مسلمان معاشرہ ميں اختلاف اور شگاف ڈالنے كا اہم سبب بنے ''ك'' حياة الامام موسى ابن جعفر (ع) ج 2/ 110_ 117 اور واہ نامہ اجتماعى و سياسى مضقہ حسين رہجو /1140_
13 رجال كشى /266، معجم رجال الحديث جلد 19/279_ 278_
14 انوار البھيّة/ 170_ 169_
15 مرحوم شيخ طوسى نے اپنى ( كتاب) رجال ميں موسى ابن جعفر (ع)كے شاگردوں كى تعداد دو سو بہتر 272 لكھى ہے ليكن حياة الامام موسى ابن جعفر (ع) كے مؤلف محترم نے امام كے تين سو اكيس 321 شاگردوں كے تفصيلى حالات درج كئے ہيں حياة الامام موسى (ع) جلد 2/374_ 224_
16 رجال كشى /591_
214
17 من احبّ بقائہم فہو منہم من كان منہم كان وَرَدَ النار رجال كشي/441 ، معجم رجال الحديث جلد 9/122_
18 يا زياد لان اسقط من شاہق فاتقطّع قطعةً قطعةً احبُّ اليَّ من ان التوّلى منہم عملاً او اطا بساط رجل: منہم'' مكاسب شيخ مرتضى انصارى باب ولايت جائر/ 48 و تنقيح المقال مامقانى ج 1/453_
19 رجال كشى /433_
20 بحار 47/136_
21 رجال كشى /433، بحار جلد 48/136_
22 ارشاد مفيد /298، تاريخ بغداد جلد 13/31، مناقب جلد 4/320، اعلام الورى /197، الصواعق المحرقہ/204، تذكرة الخواص/314، بحار جلد 48/103، احتجاج طبرسى جلد 2/167_
23 عيون اخبار الرضا جلد 1/68، احتجاج طبرسى جلد 2/163، بحار جلد 48/129_ 125_
24 يہ حسين ابن على ابن حسن ابن حسين ابن على ابن ابيطالب ہيں چونكہ سرزمين ''فخ'' ميں جو مكہ سے ايك فرسخ كے فاصلہ پر واقع ہے_ عباسى سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے اس لئے '' صاحب فخ'' يا '' شہيد فسخ''كے نام سے مشہور ہوئے_
25 مقاتل الطالبين /457 نشر دار المعرفة بيروت تحت عنوان ذكر من خرج مع الحسين _ حسين ابن على اور يحى ابن عبداللہ كى باتوں كا متن ملاحظہ ہو '' ما خرجنا حتى شاورنا اہل بيتنا و شاورنا موسى ابن جعفر فامرنا بالخروج''_
26 مقاتل الطالبين''مضى و اللہ مسلماً صالحاً صوّاماً قوّاماً آمراً بالمعروف ناہيا عن المنكر ما كان من اہل بيتہ مثلہ ''_
27 بحار جلد 48/151 '' و اللہ ما خرج حسين الا عن امرہ و لا عن امرہ و لا اتبع الا محبتہ لانہ صاحب الوصيتہ فى اہل ہذا البيت قتلنى اللہ ان ابقيتُ عليہ''_
28 وفيات الاعيان جلد 2/256_
29 بحار الانوار جلد 48/213،232،ارشاد مفيد/300، مقاتل الطالبين/334_
30 ساصرفٌ عن آياتى الذين يتكبرون فى الارض بغيرالحق و ان يروا كل آية: لا يؤمنوا بہا و ان يروا سبيل الرشد لا يتخذہ سبيلا و ان يروا سبيل الغى يتخذہ سبيلا ذلك بانّہم كذّبوا باآياتنا و كانوا عنہا غافلون_
215
31 '' اُخذَت منہ آمرةً و لا ياخذہاالا معمورة'' بحار جلد 48/138 ،تفسير عياشى جلد 2/30، تفسير برہان جلد 2/37 شايد اس آخرى جملہ سے امام كى مراد يہ ہو كہ جب تك گھر كو آبادكرنے كا امكان نہ ہو اس وقت تك اس كو واپس نہيں ليں گے اور اس وقت اس كا وقت نہيں ہے_
32 الفصول المھمة /239 ، مناقب جلد 4/327، ارشاد مفيد/300، اعلام الورى /299، مقاتل الطالبين /334_
33 ہارون كے زندان ميں امام كتنے دنوں تك رہے اس ميں اختلاف ہے چارسال، دس سال، بھى مذكور ہے_ تذكرة الخواص/314 سيرة الائمة الاثنى عشر جلد 2/351، بحار جلد 48/206_ 228 ، مہدى عباسى كى قيد ميں جتنے دنوں رہے يہ مدت اس كے علاوہ ہے_
34 الفصول المہمہ /241، انوار البھيہ /181، تاريخ ابوالفداء جلد 2/16 يہ بتا دينا ضرورى ہے كہ امام موسى كاظم اور مام جواد عليہما السلام كے مرقد اطہر آج كل كاظمين كے نام سے مشہور ہيں_
35 اللہم انّى طالماً كُنتُ اَسئَلُكَ اَن تُفَرّغَنى لعبادتك وَ قَد استَجَبتَ منّى فلك الحمد على ذالك'' مناقب جلد 4/318 ، بحار جلد 8، ارشاد مفيد /300، الفصول المہمہ /240_ تھوڑے سے فرق كے ساتھ_ امام كا يہ جملہ زندان جانے سے پہلے آپ كے اجتماعى كام ميں مشغوليت كى شدّت كو بيان كرتا ہے_
36 بحار جلد 48/108، حياة الامام موسى بن جعفر(ع) جلد 1/142_ 140_ عيون اخبار الرضا جلد 1/78_ 77_
37 ارشاد مفيد /296، مناقب جلد 4/318، اعلام الورى /296_
38 الصلوة على موسى بن جعفر(ع) الذى يحيى الليل بالسہر الى السّحر بمواصلة الاستغفار حليف السجدة و الدموع الغزيرةَ و المناجاتَ الكثيرة الضّراعات و الضراعات المتصلة_ انوار البہيہ مرحوم شيخ عباس قمي/188_
39 اللہ اعلم حيث يجعل رسالتہ _
40 ارشاد مفيد/297، تاريخ بغداد جلد 13/28، مناقب جلد4/319، دلائل الامامہ /151 _ 150، بحار ج 48/103_102، اعلام الورى /296، مقاتل الطالبين /332_
216
41 ''و ہو من عمل النبين و المرسلين و الصالحين''من لا يحضرہ الفقيہ جلد 3/98 مطبوعہ بيروت ميں /401، بحار جلد 48/5_
42 عمدة الطالب /196'' عجباً لمن جائتہ صرة موسى فشكى القلّة''_
43 فصول المہمہ/ 237_
44 المجالس السنية جلد 2/527_
45 تحف العقول /35 '' عبدٌ من عباد اللہ و اخ فى كتاب اللہ و جارٌ فى بلاد اللہ يجمعنا و اباہ خير الاباء آدم و افضل الاديان الاسلام''_