293
سولہواں سبق
شورشيں
اسود عنسى كا واقعہ
يمن ميں انقلابى بغاوت
مسيلمہ كذاب كا واقعہ
جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''
جھوٹوں كا انجام
رحلت پيغمبر(ص) كے وقت كے حالات كا تجزيہ
لشكر اسامہ كى روانگي
اہل بقيع كے مزار پر
واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير
ناتمام نماز
وداع پيغمبر(ص)
يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا
سوالات
295
شورشيں
حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خدا (ص) چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_
اسود عنْسيّ كا واقعہ
نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلام (ص) كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم
296
كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_
اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(1) ايرانى جو رسول (ص) خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرت(ص) كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_
اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(2)
يمن ميں انقلابى بغاوت
بستر علالت ہى سے رسول خدا (ص) نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(3)
297
آپ(ص) نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپ(ص) كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_ (4)
يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خدا (ص) كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(5)
اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_
'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح
298
مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _
شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(6)
جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرت(ص) كو معلوم ہوگيا آپ(ص) نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپ(ص) نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(7)
مسيلمہ كذاب كا واقعہ
يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خدا (ص) ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپ(ص) كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمد(ص) خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپ(ص) كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(8)
رسول اللہ(ص) بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد
299
نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپ(ص) نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(9)
جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''
طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟
لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''
اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''
جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟
'' ہاں''
كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟
ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_
نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟
مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''
اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمد(ص) سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(10)
300
جھوٹوں كا انجام
نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(11) رسول خدا (ص) كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(12)
رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خدا (ص) نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(13) اس طرح رسول خدا (ص) كى تدبير سے آپ(ص) كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپ(ص) كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_
رحلت پيغمبر (ص) كے وقت كے حالات كا تجزيہ
بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرت (ص) دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_
301
بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلام (ص) كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _
لشكر اسامہ كى روانگي
رسول خدا (ص) نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر 17 يا18 سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(14)اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرت(ص) نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(15)پيغمبر اسلام(ص) نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_
رسول (ص) خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپ(ص) نے جوان سال اسامہ كا
302
انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپ(ص) يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _
اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_
رسول خدا (ص) نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرت(ص) بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى
303
مناسب ہے_
آنحضرت (ص) گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(16)
ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرت(ص) نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو'' (17)
اہل بقيع كے مزار پر
رسول خدا (ص) شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت على (ص) (18) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپ(ص) كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(19)
واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير
آنحضرت (ص) كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپ(ص) نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپ(ص) كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے
304
ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپ(ص) نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلام (ص) كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خدا (ص) نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(20)
ناتمام نماز
آنحضرت (ص) كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرت(ص) كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز ... خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خدا (ص) بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپ(ص) نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرت(ص) نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپ(ص) شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرت (ص) كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپ(ص) نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسول (ص) خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-(ص) گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،
305
عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپ(ص) كے پاس آئے تو آپ(ص) نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپ(ص) سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپ(ص) كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(21)_
وداع پيغمبر(ص)
پيغمبر اسلام (ص) كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرت(ص) كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں تھا پڑھا _
وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجہہ
ثمال اليتامى عصمة للارامل
يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _
رسول خدا (ص) نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :
'' وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْلہ الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْہ فَلَنْ يَضُرَّ اللّہَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّہُ الشَّاكريْنَ(22)
'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلام (ص) خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر
306
انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_
رسول خدا (ص) نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلام (ص) اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپ(ص) نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _
بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خدا (ص) نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپ(ص) نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(23)
پيغمبر اسلام (ص) نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_
اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپ(ص) كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپ(ص) رحمت بارى سے جا ملے _
يہ عظيم حادثہ 28/صفر 11 ہجرى بروز پير بمطابق 28 مئي 632 ء كورونما ہوا (24) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلام (ص) كى رحلت 12 ربيع الاول سنہ 11 ھ ق (25)بمطابق 10 جون سنہ 632كو ہوئي_
حضرت على (ع) نے رسول (ص) خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم
307
ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _
'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسول(ص) بيشك آپ(ص) كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_
وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) ... اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(26)
رسول خدا (ص) كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلام (ص) كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ (27) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسول(ص) خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپ(ص) كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(28)
يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا
پيغمبراسلام (ص) دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرت (ص) كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_
آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپ(ص) (محمد(ص) ) پر درود بھيجتے
308
ہيں اور آسمانى كتاب كو پڑھتے اور اس سے سبق حاصل كرتے ہيں _ قرآن كريم 114 سورتوں كے ساتھ حضرت محمد(ص) كى رسالت كا جاودانہ معجزہ اور زندہ گواہ ہے _خدا نے ان كے دين كو آخرى دين اور ان كو آخرى پيغمبر اسلام (ص) قرار ديا ہے _(29) جو ان كے آئين كى پيروى نہ كرے (گمراہ ہے ) خدا اس كى عبادت كو قبول نہيں كرے گا اور آخرت ميں وہ گھاٹے ميں رہے گا_(30)
جى ہاں يہ نور آج بھى لوگوں كے دلوں اوران كى عقل و خرد پر جگمگارہا ہے _
يہ نور ہر جگہ چمكا اور تھوڑى ہى مدت ميں جزيرة العرب سے نكل كر ہر جگہ پھيل گيا_ روم اور ايران كى مطلق العنان حكومتوں كو اپنے ہالہ ميں لے ليا_ اور ايك طرف قلب فرانس اور اسپين تو دوسرى طرف ہندتك پہنچ گيا_ڈوبتى ہوئي بشريت كو نجات بخشى اور اس كو ايك عظيم تمدن سے روشناس كرايا _
ختم نبوت كے بعد يہ نور معصوم رہنماؤں ميں درخشندہ ہوا اور ہدايت كے يہ پاك انوار اور نورى پيكر، فتنوں كى تيرگى ميں انسانوں كى ہدايت كے لئے كمر بستہ ہوئے اور انسانيت كو الہى واسلامى زندگى كى طرف بلايا اور آج بھى نجات بشريت كا واحد راستہ قرآن و عترت كى پيروى ہے_
آخر كلام ميں عرض ہے كہ مسلمان ،ان كى تعليمات سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے راستہ كو تلاش كريں ،ستم كے بوجھ تلے دبے ہوئے تيرہ بخت اور حيران و سرگردان انسان كى رہائي كا واحد راستہ آنحضرت(ص) كا آئين ہے _ تحريكيں شروع ہوں گى اور كفر و ارتداد و نفاق اور ظلم و ستم مغلوب ہوں گے اور كمزور افراد زمانہ كے راہبر اور زمين كے وارث ہوںگے_(31)
309
امام مہدى ( عجل اللہ لہ الفرج) تشريف لائيں گے پھر سارى دنيا ميں ايك اسلامى حكومت قائم ہوگى اور سارى دنيا ميں ايك پرچم لہرائے گا : لاَ الہَ الَّااللّہَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّہ _يہ نور كبھى بجھ نہيں سكتا_
310
سوالات
1_ اَسوَدعسنيّ كون تھا؟
2_ رسول خدا (ص) نے مدعيان پيغمبر سے كيسے مقابلہ كيا ؟
3_رسول(ص) خدانے اسامہ كو سپہ سالار كے عنوان سے كيوں منصوب فرمايا؟
4_ رسول(ص) خدااسامہ كے لشكر كى روانگى پر كيوں اصرار كررہے تھے؟
5_رسول خدا (ص) ''تحرير''كيوں نہ لكھ سكے؟
6_ رسول خدانے كس تاريخ كو رحلت فرمائي؟
7_ پيغمبر اسلام (ص) كو كس نے غسل و كفن ديا ؟
8_ پيغمبراسلام (ص) نے حضرت فاطمہ(ع) كے كان ميں كيا راز بتايا؟
9_ كيا آخر ميں لشكر اسامہ روانہ ہوا ؟ كس وقت؟
10_ رسول خدا (ص) كہاں مدفون ہوئے ؟
311
حوالہ جات
1_ باذان بھى مرقوم ہے _ ر_ك كامل بن اثير ج 2 ص 337_
2_ تاريخ طبرى ج 3 ص 240 _227_
3_ در آستانہ سال زاد پيامبر (ص) ص 247_
4_ تاريخ طبرى ج 3 ص 231_
5_ تاريخ طبرى ج 3 ص 231_
6_تاريخ طبرى ج 3 ص 227_236_
7_تاريخ طبرى ج 3 ص 239_
8_ خط كا متن : من مسيلمہ رسول اللہ الى محمد رسول اللہ اما بعد فاننى قد اشركتُ فى ہذا الامر معك و ان لنا نصف الارض و لقريش نصف الارض ولكن قريشا قوم يعتدون تاريخ طبرى ج 3 ص 146 _ العبر ج 2 ص 58 _
9_ خط كا متن : بسْم اللّہ الرّحْمن الرَّحيم ، منْ مُحَمَّد رَسُول اللّہ الى مُسَيْلمہ الكَذَّاب: السَّلامُ عَلَى مَن اتَّبَعَ الْہُديْ، اَمَّا بَعْدُ : فَانَّ الْاَرْض للّہ يُورثُہَا مَنْ يَشَائُ منْ عبَادہ وَالْعَاقبَةُ للْمُتَقين_ تاريخ طبرى ج 3 ص 146 _العبر ج 2 ص 58_
10_ تاريخ طبرى ج 3 ص 286 _
11_ تاريخ طبرى ج 3 ص 274 _
12__ تاريخ طبرى ج 3 ص 290_
13_ تاريخ طبرى ج 3 ص 256_
14_ سيرت حلبى ج 3 ص 207_ پرمرقوم ہے كہ اسامہ 17 سال كے اور بعض نے 18 سال لكھا ہے ليكن مُسلَّمہ طور پر انكى عمر 20سال سے زيادہ تھى _
15_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 190_
16_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 190 _191_
17_ شر ح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 2 ص 21 _منتہى الآمال ص 128 _انيس المومنين نسخہ قلمى ص 3_
312
18_ ابن سعد نے لكھا ہے كہ اُبوُ مَؤيھَبَة كے ساتھ گئے ،طبقات 204_
19_ ارشاد شيخ مفيد ص 97_
20_ ارشاد ص 98_ منتہى الآمال ص 128_بحارالانوار ج 22ص 469_ جناب عمر كا يہ قول اہل سنت كى كتابوں ميں مختلف طريقوں سے مذكور ہے _ ابن اثير تاريخ كامل ميں لكھتا ہے : رسول خدا (ص) نے فرمايا قلم اور دوات لاؤ تا كہ تمہارے لئے وہ بات لكھ دوں جس سے تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے _ لوگوں نے كہا رسول خدا (ص) ہذيان بك رہے ہيں (نعوذ باللہ)_ برہان الدين حلبى شافعى لكھتے ہيں _ قال بعضہم و ہو سيدنا عمر : بعض نے كہا يعنى عمر نے كہا رجوع كريں كامل ابن اثير ج 2 ص 320 _ سيرت حلبيہ ج 3 ص 344 _مزيد مطالعہ كے ليے ملاحظہ فرمائيں صحيح بخارى كتاب العلم ج 1 ص 22 _ مسند احمد ج 1 ص 324 _ طبقات ج 2 ص 37 _صحيح مسلم ج 2 ص 14_ مسند احمد ج 1 ص 221_ البدا ية و النہايہ ج 5 ص 220 _حياة محمد ص 475 _شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 2 ص 220 _ملل و نحل ج 1 ص 3 1 _ سقيفہ جوہرى _ الوفاء ج 2 ص 789_كنز العمال ج 3 ص 138 _ مجمع الزوائد ج 9 ص 33_
21_ ارشاد شيخ مفيد ص 97_98 منتہى الآمال ص 128 _ تلخيص الشافى شيخ طوسى ج 3 ص 226_
22_ آل عمران /144_
23_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 247 و 248 _ارشاد شيخ مفيد ص 98 _اعلام الورى ص 143 _ ذہبى نے كتاب سيرت ميں لكھا ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے حضرت زہرا سلام اللہ عليہاسے فرمايا تم اس بات سے راضى نہيں ہو كہ تم مومنہ عورتوں كى سردار ہو ، يا اس امت كى عورتوں كى سردار ہو؟ تو فاطمہ(ع) زہر ا ہنس پڑيں _ سيرت ذہبى ص 380 _
24_ بحار الانوار ج 22 ص 514_
25_بحارالانوار ج 22 ص 534_
26_نہج البلاغہ فيض خطبہ 226ص 732_
27_سائبان والى جگہ جہاں لوگ جمع ہوتے تھے_
28_ بحار الانوار ج 22 ص 518_
29_ وَلكنْ رَسُوُلُ اللّہ وَ خَاتَمُ النَّبيّنَ(سورہ احزاب/40)
30_ وَ مَنْ يَبْتَغ غَيْرَ الاسْلاَمَ دينَاً فَلَنْ يّقْبَلَ منْہُ وَ ہُوَ فى اْلآخرَة منَ الْخَاسريْنَ( آل عمران/85)
31_ وَ نُريْدُ اَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذيْنَ اسَتُضْعفُوا فى الْاَرْض وَ نَجْعَلَہُمْ اَئمَّةً وَ نَجْعَلَہُمُ الْوارثيْنَ (قصص/5)
|