265
چودھواں سبق
منافقين كے سربراہ كى موت
مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ و فود كى آمد
وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں
ابراہيم كا سوگ
خرافات سے جنگ
مشركين سے بيزاري
حضرت على (ع) اہم مشن پر
مباہلہ
حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت
سوالات
267
منافقين كے سربراہ كى موت
واقعہ تبوك كے بعد مسلمانوں كى كاميابيوں ميں سے ايك كاميابى منافقين كے فتنہ پرور سربراہ عبداللہ ابن ابى كى موت ہے وہ تھوڑ ے عرصہ تك بيمار رہ كر مر گيا اور اس طرح تحريك اسلامى كے ايك سخت ترين داخلى دشمن كا شر برطرف ہو گيا_(1)
مدينہ ميں مختلف قبائل كے نمائندہ وفود كى آمد
فتح مكہ اور تبوك پر لشكر كشى كے بعد، ہر طرف سے مختلف قبائل كى نمائندگى كرنے والے وفود مدينہ ميں آئے _ چنانچہ اسى لئے سنہ 9 ھ كو'' عام الوفود'' ( وفود كا سال) كہا جاتا ہے _ اعراب اس بات كے منتظر تھے كہ اسلام اور قبيلہ قريش كى باہمى چپقلش كا كيا نتيجہ نكلتا ہے ؟ اس لئے كہ قريش عرب كے پيشوا اور خانہ كعبہ كے متولى تھے_ جب مكہ فتح ہو گيا اور قريش مغلوب ہوگئے تو دوسرے عرب قبائل يہ سمجھ گئے كہ ان ميں اسلام سے مقابلہ كى طاقت نہيں ہے _ غزوہ تبوك سے يہ حقيقت اور زيادہ روشن ہوگئي تھى _ لہذا ناچار گروہ در گروہ دين خدا ميں داخل ہونے لگے_
268
وہ دين جس ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں
عرب كے سخت ترين قبيلہ ، ثقيف كى جانب سے چھ سركردہ افراد پر مشتمل ايك وفداسلام قبول كرنے كے بارے ميں مذاكرہ كرنے كے لئے مدينہ آيا اور مغيرہ ابن شعبة ثقفى كے گھر ٹھہرا ، پذيرائي كا سامان رسول اللہ(ص) كے گھر سے مغيرہ كے گھر بھيجا گيا انہوں نے اسلام قبول كرنے كے سلسلے ميں كچھ تجويزيں ركھيں منجملہ ان كے ايك يہ تھى كہ ''لات'' كے بتخانہ كو تين سال تك ويران نہ كريں_ دوسرے يہ كہ ان سے نماز معاف ہوجائے ، جب رسول خدا (ص) نے ان كى تجويزوں كو قبول نہيں كيا تو وہ ترك نماز پر اصرار كرنے لگے _ آنحضرت(ع) نے فرمايا '' جس دين ميں نماز نہيں اس كا كوئي فائدہ نہيں''_ آخر كار انہوں نے اسلام قبول كيا اور نماز پڑھنے اور شرعى احكام پر عمل كرنے كے لئے آمادہ ہوگئے_(2)
ابراہيم كا سوگ
پيغمبر اسلام (ص) كى بيوى ماريہ قبطيہ (3) سے ايك بيٹا پيدا ہوا _ ولادت كى صبح پيغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب كو يہ خوش خبرى سنائي كہ كل رات خدا نے مجھے بيٹا عطا كيا ہے جس كا نام ميں نے اپنے جد ا،براہيم (ع) كے نام پر ابراہيم (ع) ہى ركھاہے _ ولادت كے ساتويں دن آپ(ع) نے عقيقہ ميں ايك گوسفند ذبح كيا اورمولود كے سر كے بال تراش كر اس كے برابر چاندى مسكينوں ميں صدقہ كے طور پر تقسيم كي_ پيغمبر اسلام (ص) كى دوسرى بيويوں نے جب يہ ديكھا كہ ماريہ كے ذريعہ پيغمبر اسلام (ص) صاحب اولاد ہوگئے ہيں تو ان كو ماريہ پررشك ہوا_(4)
18/ مہينہ كے بعد پيغمبر اسلام (ص) كا اكلوتا بيٹا بيمار پڑا اور انتقال كر گيا _پيغمبر اسلام (ص) اس كے انتقال سے غم و اندوہ ميںمبتلا ہوئے_
269
خرافات سے جنگ
جس دن ابراہيم كا انتقال ہوا اس دن آفتاب كو گہن لگا _ لوگوںنے يہ سوچا كہ پيغمبراسلام (ص) كے بيٹے كے غم ميں آفتاب كو گہن لگا ہے _ پيغمبراسلام (ص) نہيں چاہتے تھے كہ لوگ خرافات كى طر ف مائل ہوں اس لئے آپ(ص) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا '' آفتاب و ماہتاب قدرت كى نشانى ہيں وہ سنت الہى كے مطابق خاص راستے پر گردش كرتے ہيں اور انہيں ہرگز كسى كى ولادت ياموت پر گہن نہيں لگتا ، سورج گہن كے موقع پر تمہارا فريضہ يہ ہے كہ تم نماز پڑھو_(5)
مشركين سے بيزاري
10/ذى الحجہ 9 ھ بمطابق 22 مارچ 631 ئ
حج كا زمانہ آگيا _ ابھى تك مشركين حج كے مراسم ميں گذشتہ لوگوں كے طريقہ كے مطابق شركت كرتے تھے_اس سال مشركين سے بيزارى ( سورہ برائت)(6) والى آيتيں نازل ہوئيں رسول خدا (ص) نے ابتدا ميں ابوبكر كو امير الحاج كے عنوان سے مكہ روانہ كيا اور حكم ديا كہ ان آيات كو لوگوں كے مجمع ميں پڑھيں_ابوبكر اور ديگر مسلمان حج كے لئے مكہ كى طرف جادہ پيما ہوئے _
حضرت على (ع) اہم مشن پر
ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ جبرئيل نازل ہوئے اور خدا كى طرف سے پيغام لے كر آئے كہ '' مشركين سے بيزارى والے پيغام كو يا آپ خود پہنچا ئيں يا وہ شخص پہنچائے جو
270
آپ(ص) كے اہل بيت (ع) سے ہو'' رسول خدا(ص) نے اپنى اونٹنى ''' ناقہ عضبائ'' كو على (ع) كے حوالہ كيا اور فرمايا ابوبكر سے جا كر وہ آيتيں لے لو جو مشركين سے بيزارى و برائت كے سلسلہ ميں نازل ہوئي ہيں اور زائرين خانہ خدا كے مجمع ميں خود پڑھو_ بروايت شيخ مفيد ،ابوبكر نے آيا ت كو على (ع) كے حوالہ كيا اور مدينہ لوٹ آئے _(7) اور پيغمبر اسلام (ص) كى بارگاہ ميں پہنچ كر كہا '' كيا ميرے بارے ميں وحى نازل ہوئي ہے ؟'' رسول خدا(ص) نے نہايت اطمينان سے فرمايا'' جبرئيل (ع) تشريف لائے اور خدا كا پيغام پہنچايا كہ اس كام كو ميرے يا ميرے اہل بيت كے فرد كے علاوہ كوئي دوسرا انجام نہيں دے سكتا _(8)
حضرت على (ع) حج كے دوران مجمع كے درميان كھڑے ہوئے اور رسول خدا (ص) كے فرمان كے مطابق اعلان كيا كہ '' اے لوگو كوئي كافربہشت ميں نہيں جائے گا اور اس سال كے بعد كسى مشرك كو حج نہيں كرنے ديا جائے گا اور نہ ہى كعبہ كا برہنہ طواف كرنے كى اجازت ہوگى _ جس كى رسول خدا (ص) سے كوئي قرار داديا معاہدہ ہے تو وہ معاہدہ اپنى مدت تك باقى ہے اور دوسروں كو بھى آج سے چارمہينے كى مہلت ہے كہ ہر گروہ اپنے مسكن اور اپنى سرزمين كو پلٹ جائے _ چار مہينے كے بعد كسى بھى مشرك كے لئے كوئي عہد و پيمان نہيں رہ جائے گا مگر ان لوگوں كے لئے جنہوں نے خدا اور اس كے رسول(ص) سے ايك مدت تك كے لئے عہد و پيمان كيا ہے _ اس سال كے بعد مشركين نہ حج بجالائيں گے اور نہ كعبہ كے گرد برہنہ طواف كريں گے _(9)
271
مباہلہ
رسول خدا (ص) نے دنيا كے سر كردہ افراد كو خط لكھنے كے بعد ايك خط اسقف ''نجران'' (مكہ كے جنوب مشرق ميں 910 كيلوميٹر كے فاصلہ پر ايك شہر ہے )كو لكھا اور اس ديار كے عيسائيوں كو اسلام كى دعوت دى _
خط ميں كہا گيا تھا كہ اگر اسلام قبول نہيں كرتے تو جزيہ دو تا كہ تمہيں اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہوجائے يا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ_اسقف نے حضرت عيسى (ع) كے بعد ايك پيغمبر اسلام (ص) كے ظہور كى بشارت آسمانى كتابوں ميں پڑھ ركھى تھى اس لئے اس نے اپنے نمائندوں كو مدينہ بھيجنے كا ارادہ كيا _عيسائيوں كا ايك عالى مرتبہ وفد مذاكرہ اور اسلام كے مسائل كے بارے ميں تحقيق كے لئے مدينہ پہنچا اور يہاں پہنچنے كے بعد انہوں نے مكمل آزادى كے ساتھ اپنے مذہبى مراسم مسجد مدينہ ميں انجام ديئے_ اس كے بعد حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں ايك تفصيلى بحث شروع ہوئي _ رسول خدا (ص) نے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں فرمايا'' وہ خدا كى مخلوق اور اس كے بندے ہيں جن كو خدا نے مريم كے رحم ميں ركھا_(10)
عيسائي نمائندے كہہ رہے تھے كہ '' عيسى (ع) خدا كے بيٹے ہيں اس لئے كہ مريم نے بغير كسى مرد كى قربت كے ان كو جنا ہے _ جواب ميں آيت نازل ہوئي اور رسول خدا (ص) نے اس كو پيش كيا كہ عيسى (ع) كى خلقت آدم (ع) كى تخليق كى طرح ہے خدا نے ان كو خاك سے پيدا كيا _ (11) يعنى اگر باپ كا نہ ہونا خدا كا بيٹا ہونے كى دليل ہے تو آدم كا نہ باپ تھا اور نہ ماں لہذا وہ خدا كا بيٹا ہونے كے زيادہ سزاوار ہيں_
مذاكرات اور بحثيں جارى رہيں ، عيسائي مذہبى نمائندے پيغمبراسلام (ص) كى منطق كے سامنے خاموش ہوگئے ، ليكن ان كا بے جا تعصب حقيقت و ايمان كو ماننے سے ركاوٹ بنا رہا_
272
فرشتہ وحى نازل ہوا اور پيغمبر اسلام (ص) كو حكم ملا كہ ان لوگوں كو مباہلہ كے لئے بلائيں_
يعنى دونوں گروہ صحرا ميں جائيں اور ايك معين وقت پر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں اور جھوٹے پر لعنت بھيجيں_(12)
مباہلہ كے بارے ميں علامہ طباطبائي مرحوم فرماتے ہيں كہ '' مباہلہ''، اسلام كے زندہ معجزات ميں سے ہے ، ہر با ايمان شخص اسلام كے پہلے پيشوا كى پيروى ميں حقائق اسلام ميں سے كسى حقيقت كے اثبات كے لئے مخالف سے مباہلہ كر سكتا ہے اور خداوند عالم سے درخواست كر سكتا ہے كہ مخالف كو كيفر كردار تك پہنچائے اور شكست دے ''(13)
مباہلہ كا وقت قريب آيا رسول خدا (ص) نے مسلمانوں اور اپنے وابستگان كے درميان سے صرف چار افراد كا انتخاب كيا جو اس تاريخى واقعہ ميں شريك ہوئے اور وہ ہيں حضرت على (ع) پيغمبر اسلام (ص) كى باعظمت بيٹى فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا اور حسن و حسين (ع) اس لئے كہ تمام مسلمانوں كے درميان ان چار افراد سے زيادہ پاكيزہ اور با ايمان انسان موجود نہ تھے_
رسول خدا (ص) نے اپنے ساتھ جانے والوں سے كہا كہ جب ہم وہاں پہنچيں تو ہمارى دعا پر آمين كہنا_
پھر بے مثال معنوى شان و شوكت كے ساتھ ، آنحضرت(ص) حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے اور فاطمہ (ع) و على (ع) ان كے پيچھے اس مقام كى طرف چلے جہاں مباہلہ ہونا قرار پايا تھا_ جب عيسائيوں كى منتظر نگاہيں رسول خدا (ص) اور ان كے ساتھ آنے والے نورانى اور ملكوتى چہروں پر پڑيں تواسقف اعظم نے كہا _'' ميں ايسے ديكھ رہاہوں كہ اگر يہ شخصيات بارگاہ الہى ميں دعاكريں تو بيابان ديكھتے ديكھتے جہنم ميں بدل جائے اور عذاب كى چادر سرزمين نجران كو اپنے دامن ميں لپيٹ لے_اس بات كا خطرہ ہے كہ تمام عيسائي ختم
273
ہوجائيں''(14)
آخر كا وہ جزيہ دينے پر تيار ہوگئے اور طے پايا كہ ہر سال دو ہزار حلے اور تيس آہنى زرہيں بطور جزيہ ديا كريں گے _(15)
حضرت على (ع) كى يمن ميں ماموريت
جب يمن كے فرماں روا اور كچھ لوگ اسلام كے گرويدہ ہوگئے تو رسول اللہ(ص) نے ايك دانش مند صحابى معاذبن جبل كو قرآن كى تعليم اور تبليغ اسلام كے لئے اس علاقہ ميں بھيجا _وہ كچھ دنوں كے بعد لوٹ آئے_ پھر چند دنوں كے بعد پيغمبر اسلام (ص) نے خالد ابن وليد كو روانہ كيا _ خالد اپنى خشونت اور سلوك كى بنا پر لوگوں كے دلوں ميں ايمان كى لونہ بڑھا سكے_
اس وجہ سے رسول خدا (ص) نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ يمن جا كر اس علاقہ كے لوگوں كو اسلام كى دعوت ديں ،احكام دين سكھائيں اور واپسى پر نجران كے لوگوں سے جزيہ وصول كرتے ہوئے آئيں_
رسول خدا (ص) كے حكم كے مطابق حضرت على عليہ السلام چند مسلمانوں كے ساتھ يمن كى طرف روانہ ہو گئے _وہاں آپ(ع) نے حيرت انگيز فيصلوں اور پر زور تقريروںسے شيفتگان حق كو اسلام كى طرف مائل كيا _قبيلہ ہمدان كے درميان آپ كى صرف ايك تقرير اور رسول خدا(ص) كے خط كے پڑھنے سے اس قبيلہ كے لئے وہ مثل ثابت ہو گئي كہ '' دل سے جو بات نكلتى ہے اثر كرتى ہے'' اور اس طرح ايك دن سے بھى كم مدت ميں يہ عظيم قبيلہ حلقہ بگوش اسلام ہو گيا _(16) قبيلہ ہمدان كے مسلمان ہو جانے سے پورے يمن ميں اسلام كى اشاعت پر بہت اچھا اثر پڑا_
274
سوالات
1_مشركين سے بيزارى والى آيات كو كس نے لوگوں كے سامنے پڑھا؟
2_ مباہلہ كيا ہے؟
3_ مباہلہ ميں شركت كے لئے رسول خدا (ص) نے على (ع) ، فاطمہ (ع) ، اور حسن (ع) و حسين (ع) ہى كو كيوں منتخب فرمايا؟
4_ نجران كے عيسائيوں نے آخر ميں كيا كيا؟
5_ حضرت علي(ع) نے يمن ميں اپنى ذمہ دارى كو كيسے ادا كيا؟
275
حوالہ جات
1_مغازى واقدى ج 3 ص 1057_
2_ مغازى واقدى ج 3 ص 965_سيرت النبويہ ابن كثير ج 4 ص 56_
3_ماريہ قبطيہ ايك كنيز تھيں جنكو '' مقوقس'' بادشاہ مصر نے پيغمبراسلام (ص) كو ہديہ ديا تھا اور آپ(ص) نے ان سے نكاح كرليا تھا_
4_طبقات ابن سعد ج 1 ص 134، 135_
5_ فروغ ابديت ج 2 ص 803_محاسن ص 313 _ سيرت حلبى ج 3 ص 310_311_
6_ سورہ توبہ كى آيت اسے 5 تك _البتہ بعض افراد بعد كى آيا ت كو بھى اس كا جزء سمجھتے ہيں _
7_ چونكہ اہل سنت نے انكے پلٹ آنے كو اہانت سمجھا اس لئے انكى كتابوں ميں يہ نقل بہت عام ہے كہ ابوبكر اپنى امارت پر باقى رہے اور مكہ چلے گئے ليكن على (ع) نے آيات برائت كو مشركين كے سامنے پڑھا _ملاحظہ فرمائيں تفسير ابن كثير ج 2 ص 333 _ مسند احمد بن حنبل ج 2 ص 332 _ مجمع الزوائد ج 7 ص 29 _ الدر المنثور ج 3 ص 209 _ ليكن نسائي و طبرى لكھتے ہيں كہ ابوبكر پريشانى كے ساتھ مدينہ پلٹے _رجوع كريں خصائص ص 20 تفسير طبرى ج 10 ص 46_
8_ بحار الانوار ج 21 ص 275_
9_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 190 _ امتاع الاسماع ج 1 ص 498 _ مجمع البيان ج 5 ص 3 _تفسير تبيان ج 5 ص198_
10_ انَّمَا الْمَسيْحُ عيْسَى بْنَ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّہ وَ كَلمَتُہُ اَلْقى ہا مَرْيَمَ وَ روُحٌ منْہُ (نسائ/171)_
11_انَّ مَثَلَ عيسَى عنَْدَ اللّہ كَمَثَل آدَمَ خَلَقَہُ منْ تُرَاب: ثُمَّ قَالَ لَہُ كُنْ فَيَكُون (آل عمران/59)_
12_فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَ اَبْنَائَكُمْ وَ نسَائَنَا وَ نسَائَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَہلْ فَنَجْعَلْ
276
لَعْنَةَ اللّہ عَلَى الْكَاذبينَ(آل عمران/61) بحار الانوار ج 21/ص 340 و353_تفسير الميزان ج 3 ص 228_
13_فروغ ابديت ج 2 ص 821 _
14_سيرت نبويہ بر حاشيہ سيرت حلبى ج 3 ص 4_
15_ آيت مباہلہ، اہل بيت (ع) كى شان ميں نازل ہونے كے سلسلہ ميں اہل سنت كى كتابوں ميں بہت سى اسناد موجود ہيں _ ملاحظہ ہو _ صحيح مسلم ج 7 ص 120_ سنن ترمذى ج 4 ص 293 _ مسند احمد ج 1 ص 185 _ تفسير طبرى آيہ مباہلہ كے ذيل ميں _ احكام القران جصاص ج 2 ص 14_مستدرك حاكم ج 3 ص 150_معرفتہ علوم الحديث حاكم ص 50_ دلائل النبوة ابى نعيم ص 297 _ مصابيح السنة ج 2 ص 304_معالم التنزيل ج 1 ص 302بر حاشيہ المخازن _اسباب النزول واحدى ص 75_ الكشاف زمخشرى ج 1 ص 368 _عمدہ بطريق ص 95_تفسير كبير فخر رازى ج 8ص 85_جامع الاصول ابن اثير ج 9 ص 470_الشفا قاضى عياض ج 2 ص 36_مناقب خوارزمى ص 96_كامل ابن اثير ج 2 ص 200_ذخائر العقبى محب الدين طبرى ص 25 _ انوار التنزيل بيضاوى ص 74_ كفاية الطالب ص 55_مطالب السئول ص 7_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص 8_تفسير قرطبى ج 4 ص 104_سيرت احمد زينى دحلان سيرت الحلبيہ كے حاشيہ پر ج 3 ص 5 _ تفسير كشف الاسرار و عدة الابرار ج 2 ص 147_
16_بحار الانوار ج 21 ص 360 _ 363كامل ابن اثير ج 2 ص 305_
|