249
تيرھواں سبق
بے نظير لشكر
منافقين كى واپسي
شخصيت پر حملہ
تپتا صحرا
حضرت ابوذر كا واقعہ
لشكر اسلام تبوك ميں
دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري
پيغمبر اسلام(ص) پر حملہ كى سازش
مسجد ضرار كو ويران كردو
اسلحہ فروخت نہ كرو
جنگ ميں دعا كى تاثير
غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج
سوالات
251
بے نظير لشكر
منافقين كى رخنہ اندازى اور پروپيگنڈے ، راستہ كى دورى ، شديد گرمى ، خشك سالى ، دشمن كا بے شمارلشكر،ان ميں سے كوئي چيزبھى مسلمانوں كو وسيع پيمانہ پر جنگ ميں شركت سے نہ روك سكي_
تقريباً تيس ہزار افراد نے آمادگى كا اعلان كيا اور'' ثنية الوداع ''كى لشكر گاہ ميں خيمہ زن ہوگئے اس مسلح لشكر كے پاس دس ہزار گھوڑے اور بارہ ہزار اونٹ تھے_
رسول خدا(ص) نے لشكر گاہ ميں سپاہيوں كا معائنہ كيا ، پرچم ان كے حوالے فرمايا اور روانگى كے لئے آمادہ ہوگئے_(1)
منافقين كى واپسي
منافقين كے سر براہ عبداللہ ابن ابى نے اپنے چند ساتھيوں كے ساتھ '' ذباب ''كے علاقہ ميں _ ثنية الوداع ميں جو لشكر گاہ تھى اس سے ذرا پيچھے_ خيمے نصب كئے اور وہيں سے مدينہ لوٹ گئے اور كہا '' محمد اس گرمى ، دورى ، اور سختى ميں روميوں سے لڑنے جارہے ہيں ، وہ سمجھتے ہيں كہ روميوں كے ساتھ جنگ ايك كھيل ہے خدا كى قسم ميں ديكھ رہا ہوں كہ كل ان كے اصحاب اسير اور گرفتار ہوجائيں گے_(2)
252
منافقين چاہتے تھے كہ عين روانگى كے موقع پر نفسياتى حربوں كے ذريعہ لشكر اسلام كے حوصولوں كو كمزور كرديا جائے _ ليكن ان كى يہ چال كارگر نہ ہوئي _(3)
شخصيت پر حملہ
رسول خدا (ص) كى ركاب ميں حضرت على (ع) كو ہر جنگ ميں شركت كا افتخار حاصل تھا ليكن اس جنگ ميں رسول خدا (ص) كے حكم سے شريك نہيں ہوئے اور آنحضرت (ص) كے حكم كے مطابق مدينہ كى ديكھ بھال كے لئے مدينہ ميں ہى رك گئے _ رسول اللہ (ص) منافقين كى سازشوںسے آگاہ تھے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ شرك پر باقى رہ جانے والے اعراب كى مدد سے منافقين ، شہر مدينہ پر مجاہدين سے خالى ہو جانے كى بنا پر حملہ كرديں اور كوئي ناگوار حادثہ پيش آجائے_ پريشان كن سياسى حالات ميں سازشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے اسلام كے مركز كى ديكھ بھال صرف علي(ع) كر سكتے ہيں_
رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) كو اپنى جگہ پر اس لئے بٹھايا تا كہ اطمينان سے جہاد كے لئے جا سكيں _ منافقين نے علي(ع) كو اپنى سازشوں ميں ركاوٹ محسوس كيا تو ان كو ميدان سے ہٹانے كے لئے ما حول بنانا ، افواہيں پھيلانا اور در حقيقت ان كى شخصيت پر حملہ كرنا شروع كرديا _ انہوں نے يہ افواہ پھيلائي كہ '' رسول خدا (ص) ،على (ع) سے افسردہ خاطر ہوگئے تھے اس ليے آپ(ص) نے ان سے بے اعتنائي كى اور اپنے ساتھ نہيں لے گئے '' يہ باتيں على (ع) كے كانوں تك پہنچيں تو آپ(ع) نے اسلحہ اٹھايا اور مدينہ سے تين ميل دور مقام '' جرف'' ميں رسول خدا(ص) سے جا ملے اور عرض گيا: اے اللہ كے رسول(ص) منافقين كہتے ہيں كہ آپ (ص) مجھ سے تنگ آگئے ہيں اس لئے مدينہ چھوڑ ے جارہے ہيں ، آنحضرت(ص) نے فرمايا :
253
'' وہ لوگ جھوٹ بولتے ہيں _ ميں نے اپنے بعد تمہيں مدينہ ميں حفاظت اور نگہبانى كے لئے چھوڑا ہے _اس وقت آپ(ص) نے وہاں موجود بہت سارے اصحاب كے سامنے حضرت على (ع) سے فرمايا _
'' ميرے بھائي مدينہ واپس جاؤ، مدينہ كے لئے ميرے يا تمہارے علاوہ كوئي مناسب نہيں، تم ہى ميرے خاندان ، مقام ہجرت (مدينہ) اور ميرى قوم كے در ميان ميرے جانشين ہو ، كيا تمہيں يہ پسند نہيں كہ تم ميرے ليے ايسے ہى ہو جيسے موسي(ع) كےلئے ہارون(ع) مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگا''_
حضرت على (ع) مدينہ لوٹ آئے اور رسول خد ا(ص) اپنے مقصد كے لئے روانہ ہوگئے _(4)
تپتا صحرا
سختيوں ميں گھرے ہوئے لشكر '' جيش العُسْرَہ'' كى كمان 61 سالہ با ہمت و جرى رہبر يعنى رسول خدا(ص) كے ہاتھ ميں تھى _دشمن تك پہنچنے كے لئے سپاہيوں كو 778 ، كيلوميٹر كے گرم ريگستان كو عبور كرنا تھا _لشكر چل پڑا ، آفتاب آگ بر سارہا تھا _ شديد گرمى كا خطرہ دشمن سے كم نہ تھا_ ليكن لشكر اسلام بھى استقامت و مقاومت كا پيكر تھا _ صرف چند منافقين تخريب كارى اور اذيت رسانى كے ارادے سے ساتھ ہوگئے تھے_ يہ لوگ راستہ ميں خيانت آميز حركتيں اور زہر يلے پروپيگنڈے كررہے تھے_ لشكر اسلام كا گزر اصحاب '' حجر'' (5) كے علاقہ سے ہوا، اصحاب حجر كے ويران شہر ميں ايك كنواں تھا سپاہيوں نے كنويں سے پانى كھينچا اور ظروف بھر لئے _ جس وقت يہ لوگ اترے اور سپاہى آرام كرنے لگے تو رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ نہ كنويں كا پانى پينا اور نہ آٹا گوندھنا اور اگرآٹا گوندھ ليا ہے تو اس كو نہ
254
كھانا بلكہ چوپايوں كو ديدينا ''_
اسى طرح آپ(ص) نے فرمايا كہ '' آج رات كوئي لشكر گاہ سے باہر نہ نكلے'' اس رات لشكر گاہ سے كوئي باہر نہيں گيا سوائے دو افراد كے اور ان كے ساتھ ناگوار حادثات پيش آئے_
صبح سويرے لشكر اسلام رسول خدا (ص) كے پاس طلب آب كے لئے پہنچا آنحضرت(ص) نے دعا فرمائي ، بارش ہوئي اور پانى گڑھوں ميں بھر گيا _ جان بازوں نے بارش كے پانى سے مشكيں بھر ليں _ ايك منافق نے كہا '' ايك گذر تا ہوا بادل تھا جو اتفاقاً برس گيا_(6)ايك جگہ رسول خدا (ص) كا اونٹ گم ہو گيا كچھ لوگ ڈھونڈھنے كے لئے نكلے منافقين ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يہ كيسے پيغمبر اسلام (ص) ہيں جو آسمانوں كى خبر ديتے ہيں ليكن يہ نہيں معلوم كہ ان كا اونٹ كہاں ہے _ يہ باتيں پيغمبر اسلام (ص) تك پہنچائي گئيں تو آپ(ص) نے فرمايا'' خدا جو بتاديتا ہے ميں غيب كى وہى باتيں جانتا ہوں '' اسى وقت جبرئيل نازل ہوئے اور آنحضرت(ص) كو اونٹ كى جگہ سے با خبر كيا آنحضرت(ص) نے فرمايا ميرااونٹ فلان وادى ميں ہے اور اس كى مہار فلاں درخت ميں الجھ گئي ہے جاؤ اس كو پكڑ لاؤ''_(7)
حضرت ابوذر كا واقعہ
چلتے چلتے راستہ ميںحضرت ابوذر كا اونٹ بيٹھ گيا انہوں نے بڑى كوشش كى كہ كسى طرح قافلہ تك پہنچ جائيں _ ليكن كامياب نہ ہو سكے _ چنانچہ اونٹ سے اتر پڑے _ سامان پيٹھ پر لادا اور پيدل ہى چل پڑے _ آفتاب شدت كى گرمى بر سارہا تھا _ابوذر پياس سے نڈھال چلے جارہے تھے _ اپنے آپ كو بھلا چكے تھے اور صرف لشكر رسول خدا (ص) تك پہنچنے كے علاوہ كوئي مقصد نہ تھا_ پياس سے تپتے ہوئے جگر كے ساتھ پيدل ، پستيوں اور بلنديوں كو پيچھے
255
چھوڑتے ہوئے چلے جارہے تھے_ كہ دور سے آپ كى نگاہيں لشكراسلام پر پڑيں ، آپ نے اپنى رفتار بڑھادى اس طرف ايك سپاہى كى نظر ايك سياہى پر پڑى اس نے رسول خدا(ص) سے عرض كى كہ '' كوئي شخص ہمارى طرف آرہا ہے ''_ آنحضرت (ص) نے فرمايا '' اچھى بات ہے وہ ابوذر ہونگے '' آنے والى سياہى اور قريب ہو گئي ايك شخص نے چلّا كر كہا '' وہ ابوذر ہيں'' خدا كى قسم وہى ہيں '' آنحضرت نے فرمايا:
خدا ابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے راستہ طے كرتے ہيں ، تنہا مريں گے اور تنہا اٹھائے جائيں گے _(8)
لشكر اسلام تبوك ميں
لشكر اسلام نے اپنا سفر جارى ركھا اور تبوك پہنچ گيا _ ليكن روميوں كو اپنے سامنے نہيں پايا اس لئے كہ رومى ، لشكر اسلام كى كثرت سے واقف ہو چكے تھے اور لشكر اسلام كى شجا عت اور بلند حوصلوں كى اطلاع ان كو پہلے سے تھى _(9) اس بنا پر انہوں نے جان بچانے ہى ميں عافيت سمجھى اور شمال كى طرف عقب نشينى اختيار كرلى _(10)
تبوك ميں لشكر اسلام نے اپنا پڑاؤ ڈال ديا _ رسول خدا (ص) نے لشكر كے سامنے تقرير كى _ (11) مسلمان بيس دن تك تبوك ميں رہے_(12) رسول اللہ(ص) نے وہاں چند گروہوں كو اپنے زير اثر قبيلوں سے عہد و پيمان باندھنے كے لئے مختلف سرحدى علاقوں ميں روانہ فرمايا، سرحدى علاقوں ميں بسنے والے قبيلوں سے عہد و پيمان كے بعد جزيرة العرب كى سرحديں محفوظ ہوگئيں _
256
دومة الجندل كے بادشاہ كى گرفتاري
رسول خدا(ص) نے سواروں كے ايك دستہ كو خالدبن وليد كى سربراہى ميں دومة الجندل روانہ كيا _ خالد اور اس كے سپاہيوں نے وہاں كے بادشاہ اُكيدر اور اس كے بھائي حسان پر جب وہ ايك وحشى گائے كا پيچھا كررہے تھے غفلت كے عالم ميں حملہ كرديا _ حسان ماراگيا اور اُكيدر گرفتار ہو گيا _ خالد نے اُكيدر كو گرفتار كرنے كے بعد دُومةُ الجندل كو فتح كيا اور مال غنيمت كے ساتھ واپس پلٹا _ اُكيد ر كو پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں پيش كيا گيا _ رسولخدا (ص) نے اس سے صلح كا معاہدہ كيا اور جزيہ ادا كرنا ضرورى قرار دے كر آزاد فرما ديا_(13)
تبوك ميں شہر اَيْلَہ ، جہاں عيسائي آباد تھے ، كے رئيس يوحَنّا ابن رُوْبہَ نے دومة الجندل كے واقعات سننے كے بعد پيش قدمى كى اور پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آكر اپنے آپ كو اور اپنے قبيلہ كو اسلام كى حمايت كے سايہ ميں پہنچا ديا _ وہاں يہ طے پايا كہ اہل اَيلہ سالانہ تين سو طلائي دينا ربعنوان جزيہ ادا كريںگے_(14)
پيغمبر اسلام (ص) پر حملہ كى سازش
مقام تبوك ميں بيس دن قيام كے بعد ، لشكر اسلام نے رسول خدا(ص) كے حكم كے بموجب واپسى كا ارادہ كيا _ منافقين نے ديكھا جنگ يا لشكر اسلام كے قتل اور زخمى ہونے كى نوبت ہى نہيں آئي تو انہوں نے رسول خدا (ص) كے قتل كا منصوبہ بنايا كہ واپسى كے دوران گھاٹى ميں چھپ جائيں اور آنحضرت(ص) كے اونٹ كو بھڑ كا ديں تا كہ آپ(ص) اونٹ سے گر كر درّوں ميں لڑھك كر ختم ہو جائيں_
جب آنحضرت (ص) اس گھاٹى پر پہنچے تو خدا نے آپ(ص) كو منافقين كے ارادوں سے آگاہ
257
كرديا_ آنحضرت(ص) نے اصحاب سے فرمايا كہ وہ لوگ درّہ كے نيچے سے گزريں اورآنحضرت(ص) خود گھاٹى كے اوپر روانہ ہوئے _ عمار ياسر سے فرمايا كہ اونٹ كى مہار كھينچتے ہوئے لے چليں اور حذيفہ بن يمان سے فرمايا كہ اونٹ كو پيچھے سے ہانكتے رہيں _ جب آنحضرت(ص) گھاٹى كے اوپر پہنچے تو منافقين نے چاہا كہ حملہ شروع كريں رسول خدا (ص) نے غصّہ كے عالم ميں حذيفہ كو حكم ديا كہ ان كو بھگادو جب حذيفہ نے ان پر حملہ كيا تو منافقين رسوائي كے ڈرسے فوراً ہى بھاگ كھڑے ہوئے اور شب كى تاريكى ميں لشكر سے جاملے _ دوسرے دن صبح اُسيد ابن حضير نے پيغمبر اسلام (ص) سے ان لوگوں كو قتل كر ڈالنے كى اجازت مانگى ليكن رسول خدا(ص) نے اجازت نہيں دى _(15)
مسجد ضرار كو ويران كردو
رسول خدا (ص) تبوك سے واپسى پر جب منزل ذى آوان پر پہنچے تو آپ(ص) وحى اور مندرجہ ذيل آيات كے نزول كے ذريعہ مسجد ضرار كے بانيوں كے منصوبہ سے باخبر ہوگئے قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے_
'' جن لوگوں نے ضرر پہنچانے ،كفر اختيا ركرنے ، مسلمانوں كے درميان تفرقہ ڈالنے اور ان لوگوں كے لئے مركز بنانے كے لئے جو اس سے پہلے خدا اورسول(ص) سے جنگ كرتے تھے _ مسجد بنائي ہے _ البتہ يہ لوگ قسم كھاتے ہيں كہ سوائے نيكى كے اور كچھ نہيں چاہتے اور خدا گواہى ديتا ہے كہ يہ لوگ جھوٹے ہيں آپ(ص) ہرگز اس مسجد ميں نماز كے لئے نہ كھڑے ہوں _ وہ مسجد جو پہلے ہى دن سے اساس تقوى پر بنى ہے زيادہ بہتر ہے كہ آپ اس ميں كھڑے ہوں اس مسجد ميں وہ لوگ ہيں جو خود كو پاك و پاكيزہ ركھنے كو دوست ركھتے ہيں
258
اور خدا بھى مطہرين كو دوست ركھتا ہے ''_(16)
ان آيات كے نزول كے بعد آنحضرت (ص) نے چند مسلمانوں كو حكم ديا كہ '' جاؤ اور اس مسجد كو كہ جس كو ستم گروں نے بناياہے ، ويران كردو اور جلاڈالو ''رسول خدا (ص) كے حكم پر فوراً عمل ہوا اور مسجد كى چھت كو جو كھجور كى لكڑى سے بنائي گئي تھى آگ لگادى گئي ، منافقين بھاگ كھڑے ہوئے اور آگ بجھنے كے بعد مسجد كى ديواروں كو مليا ميٹ كرديا گيا _(17)
اسلحہ فروخت نہ كرو
تبوك كے واقعہ كے بعد بہت سے جانبازوں نے يہ سمجھ كر كہ جہاد كا كام اب تما م ہوگيا اپنے اسلحہ كو بيچنا شروع كرديا _ دولت مند اسلحہ خريد نے لگے تا كہ اپنى قوت ميں اضافہ كريں جب يہ خبر پيغمبر اسلام (ص) كو ملى تو آپ(ص) نے اس كام سے منع كيا اور فرمايا: '' ہمارى امت سے كچھ لوگ اسى طرح اپنے دين كا دفاع كرتے رہيں گے_ يہاں تك كہ دجال ظہور كرے''_ (18)
جنگ ميں دعا كى تاثير
تبوك كے واقعہ كے بعد رسول خدا (ص) نے خدواند عالم كى بارگاہ ميں شكر ادا كيا اور فرمايا
'' خدايا اس سفر ميں جو اجر ملا اور جو كچھ پيش آيا ہم اس پر تيرى بارگاہ ميں شكريہ ادا كرتے ہيں اس اجر و پاداش ميں وہ لوگ بھى ہمارے شريك ہيں جو عذر شرعى كى وجہ سے يہاں رك گئے تھے'' حضرت عائشےہ نے كہا '' اے اللہ كے رسول(ص) آپ لوگوں كو سفركى تكليفيں
259
اور سختياں جھيلنا پڑيں ايسے ميں جو لوگ گھروں ميں رہ گئے كيا وہ بھى آپ كے ساتھ شريك ہيں ؟ '' رسول خد ا(ص) نے فرمايا '' ہم نے جہاں كہيں بھى سفر كيا ، جہاں كہيںبھى خيمہ زن ہوئے، جو لوگ مدينہ ميں رہ گئے تھے وہ ہمارے ساتھ تھے _ ليكن چونكہ يہ لوگ بيمارتھے اس لئے عملى طور پر ہمارے ساتھ نہ آسكے ، قسم اس ذات كى جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے _ ان كى دعا ہمارے ہتھياروں سے زيادہ دشمن پر انداز ہوئي _(19)
غزوہ تبوك سے ماخوذ نتائج
1_غزوہ تبوك موجب بنا كہ تاريخ اسلام ميں پہلى بار مسلمانو7ں ميں سے ہر وہ شخص جو اسلحہ اٹھانے پر قادر تھا ، ميدان ميں آجائے (20) اس طرح كہ مومنين ميں سے كسى نے بھى اس حكم كو ماننے سے انكار نہيں كيا مگر تين آدميوں نے كہ جنكى توبہ خدا نے بعد ميں قبول كرلى در حقيقت اس لشكر كشى نے مسلمانوں كى جنگى صلاحيتوں كو آشكار كيا _
2_ تبوك كى جنگى مشق ، لشكر اسلام كے مضبوط ارادے اور جسمانى و روحانى طاقت كا مظاہرہ تھى اس لئے كہ نہايت نظم و نسق كے ساتھ ، اس دور كے ابتدائي وسائل كے ذريعہ انتہائي دشوار گزار اور طولانى راستہ طے كرنا ، لشكر اسلام كے حوصلوں كى بلندى اور تجربہ كارى كا ثبوت ہے _
3_ غزوہ تبوك ، اعراب كى نظر ميں مسلمانوں كى عسكرى و معنوى عظمت بڑھانے كا موجب بنا _وہ اعراب جوابھى شرك پر باقى تھے اس حقيقت كو سمجھ گئے كہ جو لشكر نہايت سختى برداشت كركے روميوں سے لڑنے كے لئے سينكڑوں ميل كى مسافت طے كرسكتا ہے تو وہ بڑى آسانى سے مشركين عرب كا بھى مقابلہ كر سكتا ہے اور اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ تبوك
260
كے واقعہ كے بعد جزيرة العرب كے مختلف قبائل كى طرف سے مدينہ ميں وفود آنا شروع ہوگئے تا كہ اپنے قبيلہ كے مسلمان ہو جانے كا اعلان كريں اسى وجہ سے ہجرت كے نويں سال كو''و فود كا سال'' كہا جاتا ہے_
4_ جزيرة العرب كى سرحدوں كا سرحدى قبائل سے معاہدہ كے بعد محفوظ ہو جانا _
5_ منافقين كے مكروہ كردار كاپردہ فاش ہو جانا _ جو اس واقعہ ميں بے حد رسوا ہوئے_
6_ غزوہ تبوك اس بات كا سبب بنا كہ مسلمان ،رسول خدا (ص) كى رحلت كے بعد بڑى آسانى سے شام اور روم كے مختلف علاقوں كو آزاد كراليں _
261
سوالات
1_ روم كى بڑى طاقت كے استكبارى لشكر سے لڑنے كے لئے كتنے مسلمان تيار ہوئے ؟
2_رسول خدا (ص) نے راستہ ميں حضرت ابوذر كے بارے ميں كيا فرمايا؟
3_ مدينہ سے تبوك كا فاصلہ كتنے كلو ميٹر ہے اور رسول خد ا(ص) كى عمرمبارك اس سال كتنى تھى ؟
4_ منافقين نے يہ كيوں چاہا كہ على (ع) مدينہ ميں نہ رہيں؟
5_ منافقين نے كن مقاصد كيلئے مسجد ضرار كو تعمير كيا تھا؟
6_كونسى آيات مسجد ضرار كے بارے ميں نازل ہوئيں پيغمبر اسلام(ص) نے اس مسجد كے بارے ميں كيا فرمان جارى كيا؟
7_ غزوہ تبوك كے كيا نتائج رہے؟
8_ پيغمبر اسلام (ص) كو ختم كردينے كى سازش والا واقعہ كيا تھا؟
262
حوالہ جات
1_ مغازى واقدى ج 3 ص 996_1002_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 162_
2_مغازى واقدى ج 3 ص 995_
3_امتاع الاستماع ج 1 ص 450_
4_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 163 _ارشاد شيخ مفيد ص 83_امتاع الاسماع مقر يرى ج 1 ص 450_ انساب الاشراف ج 1 ص 94_96 _صحيح بخارى ج 5 (كتاب المغازى باب تبوك) ص 129 _ صحيح مسلم ج 2ص360 _مسند احمد ابن حنبل ج 3 ص 50 _مستدرك حاكم ج 3 ص 109 _ سنن ابن ماجہ ج 1 ص 42 _ الاستيعاب ج 3 ص 34 ، 35 بر حاشيہ الاصابہ_
5_''اصحاب حجر'' قوم ثمود كے معذب افراد تھے جنہوں نے ناقہ صالح كوپئے كرديا تھا اور خدا نے ان كو ان كے گناہ كے جرم ميں سخت عذاب ميں مبتلا كيا _ ان كا ويران شہر مدينہ اور دمشق كے درميان واقع ہے _ چونكہ ان لوگوں نے پہاڑ كے دامن ميں اپنے گھر بنائے تھے اس لئے اصحاب حجر كے نام سے پكارے گئے _ يہ علاقہ مدينہ منورہ سے 344 كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع ہے_
6_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 164_166_ امتاع الاسماع ج 1 ص 456_
7_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 166 _ امتاع الاسماع ج 1 ص 456_
8_ رَحمَ اللّہُ اَبَاذَر يَمْشى وَحْدَہ وَ يَموُت وَحَدہ وَ يَبْعَث وَحْدَہ _'' رسول خدا (ص) كى يہ غيبى پيش گوئي پورى ہو كررہى كئي برس بعد جب عثمان نے ابوذر كو جلا وطن كيا تو وہاں آپ نے فقر ور نج كى بناء پر تنہائي اور غربت كے عالم ميں دم توڑا _ عبداللہ ابن مسعود نے رسول خدا (ص) سے يہ بات خودسنى تھى آپ ان كے جنازہ پر پہنچے دوستوں كے ساتھ انكے دفن ميں شركت كى پھر وہيں آپ نے رسول خدا (ص) كى اس بات كو ياد كيا اور روئے _ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 167 _
263
9_ روميوں نے جنگ موتہ ميں لشكر اسلام كے بلند حوصلوں كو ديكھا تھا اور سپاہ اسلام كى فتوحات پر مشتمل خبريں سننے كے بعد انہوں نے يہ سمجھ ليا تھا كہ مسلمانوں سے روبرو ہوكر مقابلہ كى ان ميں طاقت نہيں ہے _
10_ پيامبرو آئين نبرد جنرل مصطفى طلاس ص 483 _
11_پيغمبر اسلام (ص) كى تقرير كامتن مغازى واقدى ج 3 ص1015و 1016 پر موجود ہے _
12_ ابن اسحاق كے قول كے مطابق 10 سے 15 دن تك _سيرت ابن ہشام ج 4 ص 170_
13_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 169_مغازى واقدى ج 3 ص 1025_
14_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 169_ مغازى واقدى ج 3 ص 1042_
15_سيرت حلبى ج 3ص 143 _ مغازى واقدى ج 3 ص 1043_
16_وَالَّذينَ اتَّخَذوُا مَسْجداً ضرَارَاً وَ كُفْرَاً وَ تَفْريقَاً بَيْنَ الْمُؤْمنيْنَ وَ ارْصَاداً لمَنْ حَارَبَ اللّہَ وَ رَسوُلَہُ منْ قَبْلُ و لَيَحْلفنَّ انْ اَرَدْنَا الاَ الْحُسْنى وَاللّہ يَشْہَدُ اَنَّہُمْ لَكَاذبُونَ لاَ تَقُمْ فيہ اَبَداً لَمَسْجدٌ اُسّسَ عَلَى الَّتَقْوى منْ اَوَّل يَوْم: اَحَقُّ اَنْ تَقُومَ فيہ ، فيہ رجَالٌ يُحبُّونَ اَنْ يَتَطَہرُوا وَ اللّہُ يُحبُّ الْمُطّہّريْنَ _(توبہ /106و107)_
17_ سيرت حلبى ج 3 ص 144_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 174_ مغاز واقدى ج 3 ص 1046_ امتاع الاسماع ج1 ص 480_ تفسير التاويل و حقائق التنزيل نسخہ خطي، واقعہ مسجد ضرار از ص 473 تا 475_
18_ مغازى واقدى ج 3 ص 1057،1056_
19_ مغازى واقدى ج 3 ص 1056 _ 1057_
20_ عبداللہ بن ابّى اور ديگر 83 منافقين كے علاوہ _
|