تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  231
بارھواں سبق
طائف كى جنگ
جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي
واپسي
ہوازن كے اسيروں كى رہائي
مال غنيمت كى تقسيم
وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي
منافقين كا اعتراض
دوستوں كے آنسو
مدينہ واپسي
غزوہ تبوك
ايك ہولناك خبر
منافقين كى حركتيں
بہانے تراشياں
منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف
جنگى اخراجات كى فراہمي
اشك حسرت
سوالات

233
طائف كى جنگ
شوال 8 ھ بمطابق جنورى ، فرورى 629 ئ
لشكر اسلام كى كاميابى كے ساتھ حنين كى جنگ ختم ہوگئي _ دشمن كے لشكر كا سردار مالك بن عوف اپنے ساتھيوں كے ساتھ بھا گ كر مكہ سے 75 كيلوميٹر دور طائف ميں پناہ گزيں ہوا_ رسول خدا (ص) كچھ مجاہدين اسلام كو ساتھ لے كر طائف كى طرف روانہ ہوئے تا كہ حجاز ميں مشركين كى آخرى پناہ گاہ كو بھى ختم كرديا جائے_
لشكر اسلام طائف پہنچا ، مشركين بلند ديواروں والے مضبوط قلعہ ميں بے پناہ كھانے پينے كے سامان اور قلعہ كے اندرہى پانى كے انتظام كے ساتھ نہايت اطمينان كے ساتھ مقابلہ كرنے لگے اور قلعہ كى ديواروں كے اوپرسے لشكر اسلام پر تيروں كى بارش شروع كردي_(1)

جديد جنگى ہتھياروں كى ٹيكنالوجي
طائف كے مستحكم قلعہ كو فتح كرنے كے لئے حضرت سلمان نے ايك تجويز رسول خدا (ص) كى خدمت ميں عرض كى كہ منجنيق اور پتّھر و گولہ بارى سے محفوظ كرنے والى گاڑيوں كو كام ميں لا كر قلعوں كو فتح كيا جا سكتاہے رسول خدا (ص) نے حضرت سلمان كو حكم ديا كہ اس قسم كا اسلحہ مہيّا

234
كرو _حضرت سلمان اس كام ميں مشغول ہوگئے اور قلعہ كى ديواروں كے پار بڑے بڑے پتھّر پھينكنے كے لئے منجنيق(جيسے آجكل كاٹينك) اور قلعہ كى تباہى كى خاطر ديواروں كے نزديك پہنچنے كے لئے مخصوص گاڑى كو ميدان جنگ ميں پہنچايا_
گاڑى كى چھت موٹے اور سخت چمڑے كى بنى ہوئي تھى جس پر دشمنوں كے تير اثر انداز نہيں ہو سكتے تھے_(2)(جيسے آجكل كى بكتر بندگاڑياں) اسى طرح پيغمبر اسلام (ص) كے حكم سے بہت زيادہ مقدار ميں خاردار شاخيں'' خار خسك'' قلعہ كے اطراف ميں بكھيردى گئيں (يہ كانٹے گويا بارودى سر نگوں كى مانند تھے جو دشمن كے سپاہيوں گھوڑوں اور اونٹوں كے پيروں ميں چبھ جاتے تھے)_(3)
مخصوص گاڑى كے ذريعہ مجاہدين اسلام قلعہ كى ديوار تك پہنچ گئے اور ديوار كے كچھ حصّہ كو گرانے اور قلعہ كو فتح كرنے ميں دير نہ تھى كہ دشمن نے آگ اور پگھلے ہوئے لوہے كے ذريعہ حملہ كركے گاڑى كى چمڑے كى چھت كو جلا كر تہس نہس كرڈالا جس كے نتيجہ ميں بعض مجاہدين اسلام شہيد يا زخمى ہوئے اور قلعہ فتح كر نے كى كوشش با ر آورنہ ہو سكى _

واپسي
طائف 20 دن سے زيادہ لشكر اسلام كے محاصرہ ميں رہا _ قبيلہ ثقيف كے افراد بڑى پامردى سے مقابلہ كررہے تھے ،قلعہ كے اندر غذائي اور ديگر ضروريات كے سامان كى وافر موجود گى كى بنا پر محاصرہ بے معنى تھا اور قلعہ فتح كرنے كے لئے ايك طولانى محاصرے كى ضرورت تھى _ايك طرف مدينہ سے دورى ،غذا اور جانوروں كے چارے كى كمى كا خطرہ ، اس كے علاوہ حرمت كا مہينہ اور حج كا زمانہ نزديك تھا_

235
رسول خدا (ص) نے اعلان كيا كہ غلاموں ميں سے جو كوئي بھى قلعہ سے باہر آجائيگا وہ آزاد ہے چنانچہ چند لوگوں نے خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا اور رسول خدا (ص) كے پاس آكر دشمن كے حالات كى اطلاع ديدى _ رسول اللہ(ص) نے ان لوگوں كو آزاد كرديا اور اس كے بعد اعلان كيا كہ طائف كا محاصرہ ختم كيا جائے اور سب واپس لوٹ جائيں_(4)

ہوازن كے اسيروں كى رہائي
رسول خدا (ص) درہ ''جعّرانہ'' يا جَعْرانہ (يہى زيادہ مشہور ہے ) لوٹ آئے تا كہ اسيروں اور مال غنيمت كے بارے ميں فيصلہ كيا جائے _ يہاں اسارى سائبان كے نيچے ٹھہرے ہوئے تھے_قبيلہ ہوازن كے بعض افراد جو جنگ ميں شريك نہيں تھے يا اسير نہيں ہوئے تھے _ رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اسيران ہوازن كى رہائي كى درخواست كى پيغمبر رحمت (ص) نے ان كى خواہش كو قبول فرمايا اور چھ ہزار اسيران ہوازن كو آزاد كرديا_(5) اس طرح جزيرة العرب كابہت بڑا اور خطرناك قبيلہ اسلام كى طرف مائل ہو گيا _
جنگ كى آگ بھڑ كانے والوں كے رہبر مالك بن عوف كو رسول خدا (ص) نے پيغام بھجوايا كہ ہتھيار ڈال دو تو مال اور خاندان كى واپسى كے علاوہ سو اونٹ بھى عطا كئے جائيں گے_قبيلہ ہوازن كے سلسلہ ميں پيغمبر اسلام (ص) كى رحمت اور جواں مردى نے مالك ابن عوف جيسے سركش كو رام كرديا اوروہ راتوں رات طائف سے بھاگ كر رسول(ص) خدا كى خدمت ميں پہنچ كر مسلمان ہوگيا_ اس طرح فتنہ كے اہم سبب ، قبيلہ ہوازن كا خطرہ ٹل گيا_(6)

236
مال غنيمت كى تقسيم
اسيروں كى آزادى كے بعد كچھ سپاہى رسول خدا (ص) كے گردجمع ہوئے اور نہايت اصرار كے ساتھ مال كى تقسيم كے خواستگار ہوئے _ آنحضرت(ص) نے فرمايا_
'' خدا كى قسم اگر تہامہ كے درختو ںكے برابر بھى گوسفند اور اونٹ تمہارے لئے ہوں تو ميں ان سب كو تمہارے ہى در ميان تقسيم كروں گا _ تم ميرے اندر خوف ، بخل اور جھوٹ نہيں پاؤگے _ مال غنيمت ميں ميرا حق پانچويں (خمس) حصّے سے زيادہ نہيں ، ميں اسے بھى تمہيں دے دوں گا لہذا اگر كسى نے ايك سوئي اور دھاگہ بھى اٹھايا ہو تو لوٹا دے اس لئے كہ غنيمت ميں خيانت كى سزا قيامت كے دن رسوائي ، بدنامى اور آتش كے سوا كچھ نہيں ہے _''
اس وقت انصار ميں سے ايك شخص ايك دھاگے كا گھچا لے آيا اور كہا '' ميں اس كو اپنے اونٹ كا سامان سينے كے لئے لے گيا تھا _''
آنحضرت(ص) نے فرمايا كہ اس دھاگہ ميں سے ميں نے اپنا حق تمہيں بخشا(اب باقى مسلمانوں كا مسئلہ ہے اگر وہ بھى اپنا حق تمہيں بخش ديں تو لے لو)مرد انصارى نے كہا كہ اگر اتنا سخت مسئلہ ہے تو مجھے دھاگے كى كوئي ضرورت نہيں ہے _ اور دھاگے كا گچھا مال غنيمت كے ڈھير ميں لے جا كرر كھ ديا_(7)

وہ افراد جن كى دلجوئي كى گئي
جب مال غنيمت كى تقسيم شروع ہوئي اور تمام افراد كا حصّہ ديديا گيا ، تو رسول خدا(ص) نے مال غنيمت كے خمس كو سرداران قريش كے درميان تقسيم كرديا اور ابوسفيان، اس كے بيٹے معاويہ، حكيم ابن حزام ، حارث بن حارث اور حارث بن ہشام اور ...''جوكل تك گروہ

237
شرك و كفر كے سردار تھے'' ان ميں سے ہر ايك كو سو اونٹ اورعظمت و مرتبت كے لحاظ سے معمولى افراد كو پچا س يا پچاس سے كم اونٹ عطا فرمائے_(8)
رسول خدا (ص) كى بخشش كے دو سبب تھے ايك تو يہ كہ يہ لوگ رسول خدا (ص) كى عطوفت و محبت سے متاثر ہو كر اسلام كى طرف مائل ہوںتا كہ كينہ ختم ہوجائے ، اصطلاح ميں اس عمل كو ''تاليف قلوب'' كہتے ہيں اور فقہ اسلام ميں زكات كے مصارف ميں سے ايك مصرف يہ بھى ہے_دوسرى بات يہ تھى كہ جزيرة العرب كے مشرك قبائل كے سربرآوردہ افراد اسلام قبول كرليںتا كہ كم سے كم لڑائي ہو اور جزيرة العرب كے باقى افراد حلقہ بگوش اسلام ہوجائيں_

منافقين كا اعتراض
رسول خدا (ص) كى بخششيں بہت سے سپاہيوں كے اعتراض كا سبب بنيں اسى درميان ان افراد نے سب سے زيادہ اعتراض كى آواز بلند كى جو بظاہر احكام دين پر توجہ ديتے تھے مگر باطن ميں ان كو دين سے كوئي سروكار نہ تھا كوردل ذوالخويصرہ نے عتاب آميز لہجہ ميں رسول خدا (ص) سے كہا '' اے محمد(ص) خدا سے ڈريں اور عدل و انصاف سے كام ليں''_ رسول خدا(ص) ، اس شخص كى باتوں سے برہم ہوئے اور فرمايا '' اگر انصاف و عدالت سے كام نہيں لوں گا تو پھر عدالت كس كے پاس ملے گى ''؟ اصحاب ميں سے ايك صحابى نے عرض كى كہ حضور (ص) اگر اجازت ہو تو جسارت كے جواب ميں اسكا سرتن سے جدا كردوں ؟ آنحضرت(ص) نے اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ :''ج ى اس شخص كو ايسے پيرو مليںگے جو دين ميں اتنى باريك بينى سے كام ليں گے كہ دين سے خارج ہوجائيں گے''_(9)

238
دوستوں كے آنسو
رسول خدا (ص) كى بخششوں نے قريش اور قبائل كے سر برآوردہ افراد يہاں تك كہ انصار كو بھى رنجيدہ كرديا اور وہ يہ سوچنے لگے كہ يہ بخششيں خاندان اور رشتہ داريوں كى بناپر ہيں_
رسول خدا (ص) كو انصار سے يہ اميد نہ تھى ، آپ رنجيدہ ہوئے اور ان سے فرمايا: '' كيا تم اس بات پر راضى نہيں ہو كہ دوسرے افراد گوسفندوں اور اونٹوں كے ساتھ اپنے گھر كوجائيں اور تم رسول خدا (ص) كے ہمراہ اپنے گھروں كو واپس جاؤ''(10)
انصار، رسول خدا (ص) كى بات سن كر شدّت سے روئے اور عرض كيا:'' ہمارے لئے يہى كافى ہے كہ رسول خدا(ص) ہمارے حصّہ ميں ہوں ، ہم اسى پر راضى ہيں''(11)

مدينہ واپسي
مال غنيمت كى تقسيم تما م ہوئي ، رسول خدا (ص) نے عمرہ كے قصد سے مقام جعرانہسے احرام باندھا اور زيارت خانہ خدا كے لئے مكّہ كى سمت روانہ ہوئے_
عمرہ كى ادائيگى كے بعد آپ(ص) نے عتّاب بن اميد اور معاذبن جبل '' جنہيں مكّہ كا امير اور معّلم دين بنا يا گيا تھا'' كى ماموريت كى مدّت بڑھادى _اس كے بعد ذى القعدہ كے مہينہ ميں مہاجرين اور انصار كے ساتھ مدينہ لوٹ آئے_(12)

غزوہ تبوك (13)
ايك ہولناك خبر
9 ھ ،رجب كا مہينہ بڑى گرمى كا مہينہ تھا ، شديد قحط اور گرانى كے زمانہ كے بعد كہ

239
جس سے لوگ حد درجہ پريشان ہو چكے تھے _ پھلوں اور كھجور كے چننے كا زمانہ آگيا _ لوگوں نے ذرا اطمينان كا سانس لينے كا سوچا ہى تھاكہ ہولناك قسم كى خبريں پيغمبر اسلام (ص) كے پاس آنے لگيں كہ مسلمانوں كو جزيرة العرب كى شمال مشرقى سرحدوں پر رومى بادشاہ كى طرف سے خطرہ ہے _
ميدہ اور زيتون كا تيل فروخت كرنے كے لئے مدينہ آنے والے نبطى تاجروں نے بتايا كہ '' بادشاہ روم ''ہرقل ''(14)نے بلقاء كے علاقہ ميں ايك عظيم لشكر جمع كرركھا ہے اور لشكر كے كھانے پينے كا انتظام اور ايك سال كى تنخواہ كى ادائيگى كے علاوہ سرحدى قبائل لخم اور جذام كو بھى اپنے ساتھ ملاليا ہے اور اسلامى سرزمين پر حملہ اور اسلامى تحريك كو مٹا دينے كا ارادہ ركھتا ہے _
رسول خدا (ص) ايك ايسا عظيم لشكر جمع كرنے كے لئے آمادہ ہو گئے جو روم ايسى بڑى طاقت كے لشكر سے مقابلہ كى طاقت ركھتا ہو _
پيغمبر اسلام (ص) جنگوں ميں منزل مقصود معين نہيں فرماتے تھے_اس كے بر خلاف اس بار لشكر جمع كرنے كے آغاز ہى ميں آپ(ص) نے منزل مقصودكا اعلان كرديا _ تا كہ لشكر ، دشت سوزاں ميں دور دراز كے راستہ كو طى كرنے ، دشوار كام كے انجام دينے اور نہايت طاقتور دشمن سے جنگ كرنے كے لئے تما م تياريوں كے ساتھ ضرورى سازوسامان اور غذا لے كر روانہ ہو_(15)

منافقين كى حركتيں
منافقين نے لشكر اسلام كى تيارى كے آغاز ميں ، حكومت اسلامى ميں دى گئي آزادى

240
سے سوء استفادہ كرتے ہوئے ، حساس ترين لمحات ميں مايوس كن پروپيگنڈہ اور نفسياتى جنگ كے ذريعہ مسلمانوں كو راہ خدا ميں جہاد سے باز ركھنے كى كوشش كى ،يہ لوگ در حقيقت استكبارى طاقتوں كے مفادات كے لئے قدم اٹھارہے تھے _
اسلام كے خلاف منافقين كى خيانت آميز تحريك تاريخ اسلام ميں '' مسجد ضرار'' كے واقعہ كے نام سے مشہور ہے _ اس كى تفصيل حسب ذيل ہے _
منافقين ميں سے ايك سر كردہ '' ابوعامر'' نامى فاسق ، رسول خدا (ص) كى مدينہ ہجرت كے بعد اپنى خيانتوں كى بدولت بھاگ كر مكہ اور طائف چلا گيا او ر ان كے فتح ہونے كے بعد وہاں سے بھاگ كر روم چلا گيا اور وہاں سے مدينہ كے منافقين سے رابطہ اور فكرى امداد كرتا رہتا تھا _ اس نے اپنے ہواخواہوں كو خط ميں لكھا كہ '' ميں قيصر روم كے پاس جارہاہوں اور اس سے فوجى مداخلت كى درخواست كروں گا تا كہ اس كى مدد سے مدينہ پر حملہ كريں اب تم ''قبا'' كے ديہات ميں مسلمانوں كى مسجد كے مقابلہ ميں ايك مسجد بناؤ اور نماز كے موقع پر وہاں جمع ہو ، فريضہ كى ادائيگى كے بہانے اسلام اور مسلمانوں كے بارے ميں اپنے منصوبوں كو كس طرح عملى جامہ پہنايا جائے كے موضوع پر گفتگو كيا كرو_
يہ مسجد ، لشكر اسلام كے تبوك روانہ ہونے سے پہلے بن كر تيار ہوگئي _ منافقين اس مسجد كى آڑميں اپنى كاركردگى كو منظم شكل دے سكتے تھے ، لوگوں كو دھوكہ دينے كے لئے ان لوگوں نے رسول خدا (ص) سے درخواست كى كہ آپ مسجد ميں نماز ادا كريں اور مسجد كا افتتا ح فرمائيں_
رسول '(ص) خدا نے جواب ميں فرمايا '' ابھى ميں سفركا ارادہ ركھتا ہوں اور سفر كى تيارى ميں مصرف ہوں اگر خدا نے چاہا تو واپسى پر آؤںگا ''_(16)

241
بہانے تراشياں
منافقين جنگ ميں شركت نہ كرنے كے لئے بڑے لچر بہانے تراشتے رہتے تھے_رسول(ص) خدا نے '' جدّ ابن قيس'' نامى ايك منافق سے كہا_
'' كيا تم روميوں كے ساتھ لڑنے كے لئے خود كو آمادہ كرنے كا ارادہ نہيں ركھتے؟''جدّا بن قيس نے جواب ديا '' اے اللہ كے رسول(ص) مجھے آپ(ص) اس بات كى اجازت ديں كہ ميں شہر ہى ميں رہوں مجھے فتنہ ميں نہ ڈاليں _ اس لئے كہ ميرے قبيلہ كے لوگ جانتے ہيں كہ كوئي مرد بھى ميرى طرح عورتوں كا ديوانہ نہيں ، مجھے ڈر ہے كہ اگر ميں روم كى عورتوں كو ديكھوںگا تو فتنہ (وگناہ) ميں پڑ جاؤں گا''_
رسول خدا(ص) نے منہ پھير ليا اور فرمايا'' جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ''(17)
قرآن اس منافق كى بہانہ بازى كے بارے ميں فرماتا ہے:
'' ان ميں سے كچھ لوگ كہتے ہيں كہ ہم كوجہاد ميں شركت كرنے سے معاف ركھيں اور فتنہ ميں نہ ڈاليں آگاہ ہو جاؤ كہ يہ لوگ خود فتنہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بے شك دوزخ كافروں كو گھيرے ہوئے ہے ''_(18)
منافقين كام ميں رخنہ ڈالنے اور جنگ كے بارے ميں لوگوں كے حوصلے پست كرنے كے لئے كہتے تھے اس گرمى كے موسم ميں جنگ كے لئے نہ جاؤ يہ موسم جنگ كے لئے مناسب نہيں ہے _خدا ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :
'' جن لوگوں نے رسول خدا (ص) كى ركاب ميں حكم جہاد سے روگردانى كى وہ خوش ہيں اور راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد كرنے كوناگوار جانتے ہيں (اور مومنين كو بھى جہاد سے منع كرتے ہيں)وہ لوگ كہتے ہيں كہ اس گرمى ميں كوچ نہ كرو _ ان سے كہہ ديجئے كہ دوزخ

242
كى آگ زيادہ جلانے والى ہے اگرلوگ سمجھ ليں _(19)
منافقين، آرام طلب ثروت مندافراد اور كچھ ناواقف اعراب نے مختلف بہانوںسے جنگ ميں شركت كرنے سے گريز كيا_
خداوند عالم اعراب كے بارے ميں فرماتا ہے :
'' باديہ نشينوں (اعراب) ميں سے كچھ لوگ آپ(ص) كے پاس عذر كرتے ہوئے آئے اور جہاد سے معافى چاہ رہے تھے اور كچھ لوگ جو خدا و رسول(ص) كى تكذيب كرتے تھے_ جہاد سے بيٹھ رہے كافر ج ہى دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے''_(20)

منافقين كے خفيہ مركز كا انكشاف
رسول خدا(ص) كو خبر ملى كہ منافقين كا ايك گرو ہ سُوَيْلَمْ يہودى كے گھر ايك انجمن بنا كر سازشوں اور لوگوں كو جہاد ميں شركت كرنے سے روكنے كى پلا ننگ ميں مصروف ہے _ رسول خدا (ص) جانتے تھے اگر ان كے ساتھ كوئي عبرتناك اور فيصلہ كن سلوك نہ كيا گيا تو يہ مكارانہ سازشوں سے اسلام كو نقصان پہنچائيں گے_آپ(ص) نے حكم ديا كہ اس گروہ كے مركز كو گھير كر آگ لگادى جائے _ آنحضرت(ص) كے حكم سے اسلام كے چند محافظين نے اس گھر كو آگ لگادى اور منافقين كے فرار كے نتيجہ ميں يہ گروہ ختم ہو گيا اور فرار كے دوران چھت سے گرنے كى وجہ سے ايك منافق كى ٹانگ ٹوٹ گئي_(21)

جنگى اخراجات كى فراہمي
مضبوط لشكر مرتب كرنے كے لئے مخيّر اور ثروت مند مسلمانوں نے جاں بازان اسلام

243
كى مالى امداد كى اور مسلمانوں نے اخراجات جنگ مہيا كرنے ميں بے مثال دلچسپى كے ساتھ حصہ ليا _ مسلمان عورتوں نے اپنے زيورات رسول خدا (ص) كے پاس بھيج ديئےا كہ جنگ كے اخراجات ميں كام آئيں _ ہر شخص اپنى طاقت كے مطابق مدد كرنے ميں كو شاں تھا_ مثال كے طور پر ايك غريب مزدور ايك صاع ( تين كيلو) خرما پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں لايا اور عرض كرنے لگا'' _ اے اللہ كے رسول(ص) ميں نے نخلستان ميں كام كيا تو دو صاع خرما مزدورى ملى ايك صاع ميں نے اپنے گھر كے لئے ركھ ليا اور ايك صاع جنگ كے اخراجات جمع كرنے كے لئے لايا ہوں''_
منافقين نے يہاں بھى غلط پرو پيگنڈہ جارى ركھا _ اگر كوئي دولت مند مالى امداد كرتا تو كہتے '' ريا كارى كررہا ہے ''_ اور اگر كوئي غريب خلوص كى بناپر تھوڑى سى مدد كرتا تو كہتے كہ '' ''خدا كو اس مددكى ضرورت نہيں ''(22)
منافقين كى ان باتوں كے بارے ميں قرآن مجيد ميں خدا فرماتا ہے:
'' جو لوگ مدد كرنے والے مومنين اور اپنى استطاعت كے مطابق عطا كرنے والوں كے صدقہ ميں عيب نكالتے اور مذاق اڑاتے ہيں خدا ان كا تمسخر كرتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذا ب ہے'' _(32)

اشك حسرت
منافقين كى سازشوں ،پروپيگنڈوں اور افواہوں كے بالمقابل پاكيزہ دل مومنين كا ايك گروہ جنگ ميں شركت كے شوق ميں رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا چونكہ يہ لوگ غريب تھے اور سوارى كا انتظام نہ تھا لہذا انہوں نے رسول خدا (ص) سے خواہش كى كہ ان كو

244
مركب عطا كيا جائے تا كہ آنحضرت(ص) كى ركاب ميں صحراؤں كا سفر كركے جہاد مقدس ميں شركت كريں_
رسول خدا(ص) نے فرمايا _ ميرے پاس كوئي ايسى سوارى نہيں ہے جس پر تم كو سوار كروں _ يہ لوگ اس وجہ سے افسوس اور گريہ كرتے ہوئے رسول خدا (ص) كے پاس سے نكلے كہ ان كو جہاد ميں شركت كى توفيق حاصل نہ ہو سكى _ يہ جماعت تاريخ ميں گروہ '' بكّاؤون''(24) كے نام سے مشہور ہوئي _ ( يعنى بہت رونے والے) خدا قرآن مجيد ميں ان كو اس طرح ياد كرتا ہے_
'' اى پيغمبر(ص) ،مومنين جہاد كے لئے تيار ہو كر آپ(ص) كے پاس آئيں تا كہ آپ(ص) ان كو كسى مركب پر سوار كرديں ( اور ميدان جہاد لے جائيں ) اور آپ نے جواب ميں فرمايا كہ ميرے پاس مركب نہيںہے جس پر ميں تم كو سوار كروں اور وہ لوگ اس حالت ميں واپس چلے گئے كہ غم كى شدت سے ان كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے كہ اخراجات سفر كيوں نہ فراہم كر سكے _ ايسے لوگوں پر جہاد ترك كردينے ميں كوئي گناہ نہيں ہے ''(25)

245
سوالات
1_ طائف كى جنگ ميں كس قسم كا اسلحہ استعمال ہوا؟
2_ ہوازن كے اسيروں كى رہائي نے ان كے اسلام كى طرف ميلان پر كيا اثر ڈالا_
3_رسول خدا (ص) كى بخششيںكن وجوہات كى بناء پر تھيں؟
4_ لشكر كے چند افراد كا اعتراض كس چيز پر اور كس تصوّر كے زير اثر تھا؟
5_ روم كى بڑى طاقت كے حملہ كے ارادہ اور ان كے فوجى نقل و حمل سے رسول خدا (ص) كس طرح آگاہ ہوئے؟
6_ جنگ سے فرار كيلئے منافقين كيا بہانے تراش رہے تھے؟
7_ رسول خدا (ص) نے منافقين كے گروہ كے گھر كے لئے كياحكم ديا؟

246
حوالہ جات
1_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 121_125
2_مغازى واقدى ج 3 ص 927
3_ پيامبرى و حكومت ص 376
4_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 158
5_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 130_131
6_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 133_
7_ سيرت ابن ہشام ج 4ص 134_ 135
8_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 135
9_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 139_ انجام كار وہ زمانہ امام على عليہ اسلام ميں خوارج كے رہبروں ميں سے ايك رہبر بنا اور نہروان كى جنگ ميں حضرت على (ص) كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل ہو گيا_
10_ يہ ياد دلانا ضرورى ہے كہ رسول خدا (ص) كى گفتگو كاصرف كچھ حصّہ يہاں پر نقل ہوا ہے _
11_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 141_142
12_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 143 _
13_ شام كى سر حد پر حجر سے جو راستہ شام كو جاتا ہے اس كے درميان تبوك ايك مضبوط قلعہ تھا اور آج كل سعودى عرب ميں مدينہ سے 778 كيلوميٹر دور ايك فوجى شہر ہے_
14_ ہر اكيلو س بھى لكھا گيا ہے_
15_امتاع الاسماع ج 1 ص 445_446 _طبقات ابن سعد ج 2 ص 165_ سيرت حلبى ج 3 ص 141_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 159
247
16_ سيرت حلبيہ ، مطبوعہ بيروت ج 3 ص 144 _ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 173 _امتاع الاسماع ج 1 ص 480
17_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 159_
18_ وَ منْہُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذنْ ليْ وَلاَ تَفْتنّى اَلاَ فى الْفتْنَة سَقَطوُا وَ اَنَّ جَہَنَّمَ مُحيطَةُ بالْكَافرين _(سورہ توبہ آيت 49)
19_ فرحَ الْمُخَلَّفُونَ بمَقْعَدہمْ خلاَفَ رَسُول اللّہ وَ كَرہوُا اَنْ يُجَاہدوُا باَمْوالہمْ وَ اَنْفُسہمْ فى سبيل اللّہ وَ قَالُوا لاَتَنْفَروُا فى الْحَر قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَراً لَوْ كَانوُا يَفْقَہُون_(توبہ/81)_
20_ وَ جَائَ الْمُعَذَّرُونَ منَ الْاَعْراب ليُؤْذَنَ لَہُمْ وَ قَعَدَ الَّذينَ كَذَّبُوا اللّہ وَ رَسُولَہُ سَيُصيبَ الَّذين كَفَرُوا منْہُمْ عَذَابٌ اَليم (توبہ/90)_
21_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 160_
22_ تفسير مجمع البيان ج 5ص 257_اسباب النزول واحدى ص 172_
23_اَلَّذيْنَ يَلْمزُونَ الْمُطَّوعين منَ الْمُوْمنيْن فى الصَّدَقَات وَالَّذينَ لاَ يَجدُوْنَ الاَّ جُہْدَہُمْ فَيَسْخَرُونَ منْہُمْ سَخرَ اللّہُ منْہُمْ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَليم(توبہ/79)_
24_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 161_
25_ وَ لاَ عَلَى الَّذين اذَا مَا اَتَوْكَ لتَحْملَہُمْ قُلْتَ لاَ اَجدُ مَا اَحْملُكُمْ عَلَيْہ تَوَلَّوْا وَ اَعيُنہمْ تَفيضُ منَ الدَّمْع حُزْناً الاّ يَجدوُا مَا يُنْفقُون(توبہ/92)