تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  213
گيارھواں سبق
شہر مكہ ميں داخلہ
صدائے اتحاد
اذان بلال
بت شكن، بت پرست
آزاد شدہ شہر ''مكہ'' كيلئے والى اور معلم دين كا تقرر
اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم
جنگ حنين
دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلام(ص) كى آگاہي
حنين كى طرف روانگي
دشمن كى اطلاعات اور تياري
درہ حنين ميں
فرار
واپسى مقابلہ، كاميابي
عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو
آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كاتجزيہ
سوالات
حوالہ جات

215
شہر مكہ ميں داخلہ
رسول خدا (ص) لشكر اسلام كے ساتھ فاتحانہ انداز ميں شہر مكّہ ميں داخل ہوئے آپ كے چہرہ اقدس پر ايسار عب و دبدبہ اور ہيبت و جلال تجلى ريز تھا جو تعريف كى حد سے باہر ہے _
اسلام كو بہت بڑى فتح نصيب ہوئي تھى آپ اہل مكہ كے گھروں ميں نہيں گئے آپ(ص) نے اپنے جان نثار اور مہربان چچا ابوطالب(ع) كے مزار كے پاس مقام حَجونٌ ميں خيمہ لگا ياگيا_
رسول خدا (ص) كچھ دير تك خيمہ ميں آرام فرماتے رہے پھر غسل كے بعد جنگى لباس پہن كر مركب پر سوار ہوئے مجاہدين بھى تيار ہوگئے اور پھر سب مسجد الحرام كى طرف روانہ ہوئے _ جب آپ(ص) كى نگاہ كعبہ پر پڑى تو آگے بڑھے اور حجر اسود كواستلام كيا (1)حالانكہ آپ(ص) مركب پر سوار تھے_اسى حالت ميں تكبير كہتے جاتے تھے اور لشكر اسلام آپ(ص) كے جواب ميں صدائے تكبير بلند كرتا جاتا تھا_(2) '' حق آيا اور باطل ختم ہو گيا اور باطل تو ختم ہونے والا ہى تھا_(3)

صدائے اتحاد
آنحضرت(ص) نے كعبہ كى كنجى عثمان ابن طلحہ سے لى اور دروازہ كھول ديا _ تمام مسلمانوں نے مل كر دعائے وحدت پڑھى _
''لا الہ الا اللّہ وَحدَہ لا شَريكَ لَہ ، صدق وَعْدَہ ،

216
ونصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ''(4)
آنحضرت(ص) كعبہ كے اندر تشريف لے گئے اور جناب ابراہيم (ع) اور دوسرے افراد كى جو تصويريں مشركين نے بنا ركھى تھيں ان كو ديوار كعبہ سے مٹا ديا اور اسى حالت ميں فرمايا ''خدا ان لوگوں كو قتل كرے جو ان چيزوں كى تصويريں بناتے ہيں جن كو انہوں نے پيدا نہيں كيا''(5)_
رسول خدا (ص) اور بتوں كو توڑ نے كے لئے ان كے كاندھے پر سوار حضرت على نے تمام بتوں كو توڑ ڈالا اور خانہ توحيد كو تمام كفر و شرك كى علامتوں سے پاك كرديا _ (6) اس كے بعد آپ(ص) نے لوگوں كے سامنے جن كى آنكھيں فرمان پيغمبر اسلام (ص) كى منتظر تھيں '' مندرجہ ذيل خطبہ ارشاد فرمايا _
'' اس خدا كى تعريف جس نے اپنا وعدہ سچ كردكھايا اور اپنے بندہ كى مدد كى ، جس نے تنہا ،احزاب (گروہوں ) كو شكست دى ، تم كيا كہتے ہو اور كيا تصوّر كرتے ہو؟ '' مكہ والوں نے كہا كہ '' خير و نيكى اور نيكى كے سوا ہميںاور كوئي گمان نہيں ہے كہ آپ(ص) بزرگورا بھائي اور صاحب اكرام بھتيجے ہيں ''_ رسول خدا (ص) نے فرمايا '' ميں وہى بات كہتا ہوں جو ہمارے بھائي يوسف نے كہى تھى : قال لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللہ لكم و ہو ارحم الراحمين(7) آج تمہارے اوپر كوئي ملامت نہيں ہے خدا تم كو بخش دے وہ رحم كرنے والوں ميں سب سے زيادہ مہربان ہے _
اس كے بعد آپ(ص) نے فرمايا كہ ہر وہ ربا(سود) جو جاہليت ميں معمول بن گيا تھا اور ہر وہ خون اور مال جوتمہارى گردن پر تھا اور فضول فخر و مباہات ، پا مال اور ختم كرديئےئے ہيں_ ليكن كعبہ كى نگہبانى ، پردہ داري، كليد بردارى اور حاجيوں كو سيراب كرنے كا افتخار باقى

217
ہے _ جو لوگ تازيانہ يا غلطى و خطا سے قتل كرديئےائيںان كے لئے سوا يسى اونٹنياں ديت كے طور پر دى جائيں جن ميں چاليس اونٹنياں حاملہ ہوں _ خدا نے جاہليت كے كبر و غرور اور آباؤ اجداد پر افتخار كو ختم كرديا تم آدم(ع) كى اولاد ہو اور آدم (ع) مٹى سے پيدا كئے گئے ہيں اور تم ميں سب سے زيادہ خدا كے نزديك قابل عزت وہ ہے جو تم ميں سب سے زيادہ پر ہيزگار ہے _ بے شك خدا نے مكّہ كوز مين و آسمان كى پيدائشے كے وقت حرم امن قرار ديا ہے اور اللہ كى عطا كى ہوئي حرمت كى بنا پر يہ ہميشہ حرم الہى رہے گا_
ہم سے پہلے اور ہمارے بعد كسى كے لئے بھى اس كى حرمت پامال كرنا نہ جائز تھا اور نہ جائز ہے_ اور ميرے لئے بھى اس كى حرمت صرف ايك دن تھوڑى دير كے لئے اٹھائي گئي (اور آپ (ص) نے اپنے ہاتھ سے تھوڑى مدّت كى طرف اشارہ فرمايا) مكہ كے جانوروں كا نہ شكار اور نہ ان كو مكہ سے ہنكانا چاہيئےہاں كے درختوں كو كاٹنا نہيں چاہيئےور اس سرزمين پر پڑى ہوئي گم شدہ چيز كو اٹھانا جائز نہيں ہے _ مگر اس كے لئے جو اعلان كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ اور مكّہ كے سبزے كو اكھاڑنا بھى جائز نہيں ہے _'' عباس نے كہا اے اللہ كے رسول(ص) سوائے ''اذخر''(8)كے پودوں كے كہ قبروں اور گھروں كو صاف كرنے كے لئے جس كو اكھاڑ پھينكنے كے علاوہ كوئي چارہ ہى نہيں ہے _'' رسول خدا (ص) تھوڑى دير تك چپ رہے پھر فرمايا سوائے اذخر كے كہ اس كا اكھاڑنا حلال ہے _ وار ث كے بارے ميں وصيت صحيح نہيں ہے ... اور كسى عورت كے لئے حلال نہيں ہے كہ وہ اپنے شوہر كى دولت سے اجازت كے بغير بخشش وعطا كرے _مسلمان ، مسلمان كا بھائي ہے اور تمام مسلمان آپس ميں بھائي ہيں ، مسلمانوں كو چاہيئےہ دشمن كے مقابل متحد اور ہم آہنگ رہيں ، ان كا خون محفوظ رہے، ان ميں دور و نزديك سب برابر ہيں_جنگ ميں ناتوان اور توانا برابر مال غنيمت سے بہرہ مند

218
ہوں _ لشكر كے ميمنہ اور ميسرہ ميں شركت كوئي معيار نہيں ، مسلمان كافر كے خون كے بدلے قتل نہيں كيا جائے گا اور كوئي صاحب پيمان ، معاہدہ ميں قتل نہيں كياجائے گا _ دو مختلف دين ركھنے والے ايك دوسرے كى ميراث نہيں پائيں گے _ مسلمان اپنے علاقہ والوں كو ہى صدقات و زكوة ديں گے دوسرى جگہ والوں كو نہيں ، عورت اپنى پھو پھى اور خالہ كى سوتن نہ بنے ، مدعى كو دليل اور شاہد پيش كرنا چاہيئےور منكر كے ذمّہ قسم ہے _
كوئي عورت بغير محرم كے ايسے سفر پر نہ جائے جس كى مدّت تين روز سے زيادہ ہو_عيد الفطراور عيد قربان كے روزں سے منع كرتا ہوں _ اور ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں كہ جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہنتے سے منع كرتا ہوں كہ جب تمہارے لباس كا كنارہ ہٹ جائے توتمہارى شرمگاہ نظر آنے لگے _ مجھے اميد ہے كہ تم نے يہ سارے مطالب سمجھ لئے ہوں گے_(9)

اذان بلال
ظہر كا وقت آن پہنچا ، رسول خدا (ص) نے بلال كو حكم ديا كہ كعبہ كى چھت پر جا كر اذان ديں جس وقت بلال بلند آواز ميں اشہد انَّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچے تو گھروں ميںخوفزوہ دبكے ہوئے مشركين كے سر كردہ افراد نے باتيں بنائيں اور توہين آميز جملے كہے _ابو سفيان نے كہا '' ليكن ميں كچھ نہيں كہتا اس لئے كہ اگر ميں كوئي بات كہوں گا تويہى ريت كے ذرّے محمد(ص) كو خبر پہنچا ديں گے اور ہر ايك كى بات آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم تك پہنچ جائے گى _

219
بت شكن ، بت پرست
رسول خدا (ص) نے ان بت پرستوں سے بيعت لى جواب مسلمان ہوگئے تھے اورعورتوں كے لئے بھى پانى كا ايك برتن لا يا گيا اور اس ميں تھوڑا سا عطر ملا ياگيا _ عورتوں نے اپنے ہاتھ بيعت كى غرض سے پانى كے اندر ڈالے آنحضرت (ص) نے ان سے يہ عہد و پيمان ليا كہ وہ شرك، زنا اور چورى نہ كريں ...
پھر رسول خدا (ص) نے سب كو حكم ديا كہ جو بت ان كے پاس ہيں ان كو توڑڈاليں يہاں تك كہ آپ(ص) نے بڑے بڑے مشركين كو بتوں كے توڑنے كے لئے قرب و جوار ميں بھيجا _يہ لوگ بتوں پر اعتقاد ركھتے تھے اور اپنے مفادات كے لئے بتوں كى حمايت كرتے تھے اب خود ہى بت شكنى ميں مصروف ہوگئے_

آزاد شدہ شہر ''مكہ ''كے لئے والى اور معلم دين كا تقرر
مشرك قبيلے '' ہوازن اور ثقيف'' كى سازشوں كى خفيہ خبريں پيغمبر اسلام (ص) تك پہنچ چكى تھيں_ اب ان كے علاقوں ميں پہنچ كر سازشوں كو كچل دينا پيغمبر اسلام (ص) كے لئے ضرورى تھا _ آپ(ص) نے بيس سالہ لائق اور مدبّر جوان ''عتّاب بن اسيد'' كو شہر مكہ كا والى بنايا (11) اور معاذ ابن جبل كو جو معارف اسلام سے واقف فقيہ تھے ، تبليغ اسلام اور مكہ والوں كو احكام دين سے آشنا كرنے كے لئے معلّم كے عنوان سے معيّن فرمايا_(12) فتح مكہ كے سلسلہ ميں سورہ نصر نازل ہوا _ ( 13 )

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم
فتح مكہ كے بعد ر سول خدا (ص) نے خالدبن وليد كو بت شكنى اور تبليغ اسلام كے لئے 350 ، مہاجرين و انصار كے ساتھ قبيلہ بنى جذيمہ كى طرف بھيجا _خالد نے وہاں پہنچنے كے بعد بنى

220
جذيمہ كو كسى قسم كا حملہ نہ كرنے كا يقين دلا كر غير مسلح كرديا اور پھر زمانہ جاہليت ميں بنى جذيمہ كے ہاتھوں قتل ہوجانے والے چچا كا بدلہ لينے كے لئے فرمان رسول خدا كى مخالفت كرتے ہوئے ان كو اسير بناليا اور پھر قتل كا حكم ديديا_ مہاجرين و انصار نے خالد بن وليد كے حكم پر عمل كئے بغير اسيروں كو آزاد كرديا جبكہ خالد كے قبيلہ ، بنى سليم نے بعض اسيروں كو قتل كرڈالا اور اس طرح كچھ بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتاردياگيا_
جب يہ خبر رسول خدا (ص) تك پہنچى تو آپ(ص) نے فرمايا '' خدايا خالدنے جو كيا ہے اس كے لئے ميں تيرى بارگاہ ميں بيزارى كا اظہار كرتا ہوں''_پھر آپ(ص) نے حضرت علي(ع) كو معين فرمايا كہ مقتولين كا خون بہا اور ستم رسيدہ افراد كو ہر جانہ ادا كريں _
جو مال رسول (ص) خدا نے ديا تھا حضرت علي(ص) اسے اپنے ساتھ لے كر بنى جذيمہ كے پاس پہنچے ،مقتولين كا خوں بہا اور نقصانات كا ہر جانہ ادا كيا _ يہاں تك كہ لكڑى كے اس برتن كا بھى حساب ہوا جس ميں كتّا پانى پيتا تھا جب آپ اس بات سے مطمئن ہوگئے كہ اب كوئي خون بہا اور ہر جانہ باقى نہيں رہا تو جو مال باقى بچا تھا اس كو بھى آپ(ع) نے ان كے درميان تقسيم كرديا تاكہ مصيبت زدہ افراد رسول خدا (ص) سے راضى ہوجائيں _(14)
حضرت على (ع) واپس پلٹے تو اپنے كام كى رپورٹ آنحضرت(ص) كى خدمت ميں پيش كى آپ(ص) نے فرمايا'' ميرے ماں باپ فداہوں'' تم نے بڑا عمدہ كام كيا _ تم نے جو كيا وہ ميرى نظر ميں سرخ بالوں والے اونٹ ركھنے سے بہتر ہے _(15)

جنگ حنين
5 /شوال 8 ھ بمطابق 29 جنورى 629 ء بروز جمعة المبارك

221
مشركين كے اہم مركز مكہ كى فتح نے اطراف مكہ كے مشرك قبيلوں كے دلوں ميں شديد رعب ووحشت پيدا كرديا _ ان قبيلوں نے تحريك اسلام كى موج كو روكنے كے لئے ارادہ كيا كہ تمام قبائل كے اتحاد اور وحدت سے ايك وسيع منصوبہ كے تحت غفلت كے عالم ميں مسلمانوں كے حملہ سے پہلے ہى حملہ كرديا جائے_
ہوازن ، ثقيف ، نضر ، سعد اور چند دوسرے قبيلوں نے مل كر اسلام كے خلاف ايك مشتركہ محاذ بنا يا اور قبيلہ ہوازن كے دلير اور شجاع سردار مالك بن عوف كو لشكر كا سپہ سالار چناگيا _(16)

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلام (ص) كى آگاہي
جنگى محاذكى تشكيل اور دشمن كى سازشوں كى خبر رسول خدا (ص) كے كانوں تك پہنچى آنحضرت(ص) نے سرا غرساں دستہ كے ايك آدمى كو دشمن كے جنگى راز حاصل كرنے كے لئے متحدہ قبائل كے درميان بھيجا _ پيغمبر اسلام (ص) كا فرستادہ دشمن كے لشكر ميں گھس كر ان كے منصوبوں اورخفيہ جنگى ارادوں سے باخبر ہوگيا اور لشكر كا تجزيہ كرنے كے بعد مكّہ واپس آيا اور جو كچھ ديكھا اور سنا تھا آنحضرت (ص) كى خدمت ميں بيان كرديا_(17)

حنين كى طرف روانگي
دشمن كے حالات سے مكمل آگاہى كے بعد رسول خدا (ص) ''12 ہزار ''سپاہيوں كے ہمراہ ''دس ہزار فتح مكہ ميں شركت كرنے والے مہاجرين و انصار اور دوہزار ان دليران مكہ كے ساتھ جو اسلامى تحريك سے آملے تھے '' مكّہ سے دشمن كى طرف روانہ ہوئے _(18) يہ لشكر

222
جزيرة العرب كى تاريخ ميں بے نظير تھا ساتھيوں ميں سے ايك شخص نے سفر كى ابتدا ميں جب جاں بازوں كى كثرت اور لشكر اسلام كے جنگى سازو سامان كو ديكھا تو كہا كہ '' اب مسلمان ، سپاہ كى كمى كى بنا پر مغلوب نہيں ہوںگے '' (19) وہ اس بات سے غافل تھا كہ صرف افراد اور ساز و سامان ہى كاميابى كا سبب نہيں ہوتے _

دشمن كى اطلاعات اور تياري
دشمن كے لشكر كے سپہ سالار مالك بن عوف نے تين آدميوں كو جاسوسى اور لشكر اسلام كا تجزيہ كرنے كے لئے بھيجا وہ لوگ لشكر اسلام كو ديكھنے اور اس كى عظمت و ہيبت كا مشاہدہ كرنے كے بعد وحشت زدہ ہو كر واپس گئے اور لشكر اسلام كى عظيم طاقت كى خبر سپہ سالار كو پہنچائي _ اس خبر سے مالك كو احساس ہو گيا كہ آمنے سامنے كى جنگ ميں اس كا لشكر ، لشكر اسلام كا مقابلہ نہيں كرسكے گا _ لہذا اس نے اپنے آدميوں كو حكم ديا كہ حنين كى بلنديوں پر جنگى اعتبار سے مناسب جگہوں ، پتّھروں كے پيچھے اور پہاڑ كى بلنديوں پر مورچہ سنبھال ليں اور اس تنگ جگہ پر لشكر اسلام كے آتے ہى يكبار گى حملہ كرديں _ جنگجو افراد كو جنگ ميں زيادہ استقامت كرنے پر مجبور كرنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ عورتوں ، بچّوں ، چوپايوں اور ديگر اموال كو بھى اپنے ساتھ لے ليں تا كہ ان (مال و غيرہ )كے دفاع كى زيادہ كوشش كريں_(20)

درہ حنين ميں
مكہ سے 28 كيلوميٹر شرق ميں واقع درّہ حنين كے نزديك لشكر اسلام منگل كى رات 10/شوال 8 ھ كو پہنچ گيا _ رسول اسلام (ص) كے حكم كے مطابق لشكر اسلام رات كو سوگيا اور صبح
223
سويرے خالد ابن وليد كى كمان ميں لشكر كا ہر اول دستہ تياركركے آگے بھيج ديا گيا_
خالد مكہ كے شمال مشرق ميں 12 كيلوميٹر دور مقام جعّرانہ تك بڑھے_ 10شوال كى صبح ،دونوں لشكرآپس ميں ملے اور درّہ حنين ميں داخل ہوگئے _(21)

فرار
دشمن ،لشكر اسلام كے لئے آمادہ اور منتظر تھا لہذايكبار گى مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، صبح كى تاريكى ان كى مددگار اور سنگلاخ چٹانيں پناہ گاہ تھيں _ ان پناہ گاہوں سے لشكر اسلام پر تير بارانى ہور ہى تھى اور گھوڑے بدك رہے تھے_
مسلمان فوج بھاگنے لگى ، سب سے پہلے بنى سليم كے سواروں نے جو خالد كى كمان ميں تھے فراركو قرار پر ترجيح دى اس كے بعد دوہزار مكّى بھاگنے والوں كے ساتھ ہوگئے پھر تو باقى افراد بھى بھاگنے لگے _ رسول خدا (ص) كے پاس صرف دس آدمى رہ گئے آنحضرت(ص) دشمن كے نرغے ميں گھرے نہايت دليرى سے مقابلہ كررہے تھے اور اردگرد جو لوگ تھے وہ مردانہ وار جنگ ميں مصروف تھے _ اس مقابلہ ميں ''ايمن'' نامى لشكر اسلام كا سپاہى ،اپنے رہبر اور مقصد كا دفاع كرتے ہوئے خاك و خون ميں غلطاں ہو كر شہادت پر فائز ہو گيا_(22)

واپسى ،مقابلہ ،كاميابي
پيغمبر اسلام (ص) نے اس حساس موقع پر مخصوص انداز سے متفرق اور بھا گے ہوئے لشكر كو جمع كيا جب آپ(ص) نے لشكر كو فرار كرتے ہوئے ديكھا تو فرمايا '' لوگو كہاں بھاگے جارہے ہو؟ اس كے بعد پيغمبراسلام (ص) نے اپنے چچا عباس سے '' جن كى آواز بلند تھي'' كہا آواز ديں كہ '' اے

224
گروہ انصار اے اصحاب بيعت رضوان ، پيغمبر اسلام (ص) كى طرف پلٹ آؤ'' پيغمبر اسلام (ص) كى استقامت و پائيدارى اور عباس كى آواز سے مسلمان ہوش ميں آگئے اور ايك كے بعد ايك پلٹ آئے _ مقابلہ كرنے والے لشكر كى تعداد سو تك پہنچ گئي اور بہادروں كى زبردست جنگ شروع ہوئي جنگ كى تپش ميں پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا كہ ''اب جنگ كا تنور دہك اٹھا ہے''_
ميدان رزم و پيكار كے شجاع ترين بہادر حضرت على عليہ السلام شروع ہى سے شمع نبوت كے اردگر د پروانہ وار چكر لگاتے ہوئے ، جان كى بازى لگا كر پيغمبر اسلام (ص) كا دفاع كررہے تھے_ اس عرصہ ميں آپ نے بنى ہوازن كے 40 جيالوں كو جہنّم رسيد كيا_
رسول خدا(ص) نے دشمن كے ناگہانى حملہ كے خلاف اپنى حكيمانہ اور دقيق رہبرى كے ذريعہ ايك نئے طريقہ كار كا انتخاب فرماياآپ(ص) بہ نفس نفيس رجز پڑھتے اور ايسى شجاعت كے ساتھ دشمن سے مقابلہ كرتے جو تعريف سے باہر ہے _ دشمن اپنى فتح كو بچانے كى كوشش كررہے تھے ليكن لحظہ بہ لحظہ كمزور ہوتے جارہے تھے اور سامنے لشكر اسلام كى تعداد ہر لحظہ بڑھتى جارہى تھى _
آخر كار دشمن كا دفاعى حصار ٹوٹ گيا ، مال وزن اور اولاد كى محبت ،دشمن كى پائيدارى كے لئے مضبوط سہارا نہ بن سكى _لشكر اسلام كے واپس پلٹ آنے اور شجاعانہ جنگ كى بدولت نيز دن كى روشنى پھيلتے ہى دشمن كى شكست كے آثار نماياں ہوئے اور اسلام كو كاميابى ملى (23)_ دشمن چھ ہزار اسير اور بہت زيادہ مال غنيمت جو چوبيس ہزار اونٹوں چاليس ہزار گوسفند اور تقريباً آٹھ سو پچاس كلو گرام چاندى پر مشتمل تھا چھوڑ كر ميدان جنگ سے بھاگ گئے_(24)

225
عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو
جنگ كى آگ بھڑك رہى تھى تواس وقت رسول(ص) خدا ايك عورت كى لاش كے پاس سے گزر ے لوگوں نے آنحضرت(ص) كو بتايا كہ يہ وہ عورت ہے جس كو خالد بن وليد نے قتل كيا ہے_ پيغمبراسلام (ص) نے مجاہدين ميں سے ايك شخص كے ذريعہ حكم بھيجا كہ خالد كے پاس پہنچ كر كہو كہ رسول خدا (ص) تمہيں عورتوں اور بوڑھوں كو قتل كرنے سے منع فر ما رہے ہيں _ (25)
چند قدم آگے بڑھ كر آپ نے ايك دوسرى عورت كى لاش ديكھ كر فرمايا _'' اس كو كس نے قتل كيا ہے ؟'' ايك شخص نے آگے بڑھ كر كہا'' اے اللہ كے رسول(ص) ميں نے اسے قتل كيا ہے ميں نے اس كو اپنى سوارى كى پشت پر بٹھايا تھا اس نے مجھے مار ڈالنا چا ہاتو ميں نے اس كو قتل كرديا '' آنحضرت(ص) نے فرمايا _'' اس كو سپرد خاك كردو''_(26)
دشمن كے فرار كے بعد آنحضرت(ص) نے حكم ديا كہ تمام مال غنيمت '' بدَيل بن وَرْقائ'' كى نگرانى ميں مقام ''جعّرانہ'' ميں جمع كيا جائے اور لشكر كے چند دستے مشركين كے تعاقب ميں جائيں جو مقام ْنخْلہ اور اوطاس كى طرف بھاگ گئے تھے_تعاقب كرنے والے دستے دشمن كو مكمل شكست ديكر اپنے مركز پر پلٹ آئے_

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كا تجزيہ
1_ غرور، كثرت اور جنگى سازو سامان پر اعتماد اور نتيجہ ميں خود فريبى اور غيبى امداد سے غفلت آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست و فرار كے اہم اسباب تھے_
جيسا كہ خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے_
'' خدا نے بہت سے جگہوں پر تمہارى مدد كى من جملہ جنگ حنين ميںتمہارى مدد كى ، اس وقت جب تمہيں تمہارى كثرت نے تعجب ميں ڈال ديا _ ليكن اس نے ذرا سا بھى فائدہ نہيں

226
پہنچايا اور زمين اپنى تمام وسعتوں كے با وجود تم پر تنگ ہوگئي پھر تم روگرداں ہو كر بھاگ گئے پھر خدا نے پيغمبر اسلام (ص) اور مومنين پر سكينہ (اطمينان) نازل كيا اور ايسا لشكر نازل كيا جس كو تم ديكھتے نہ تھے اور كافروں كو ذلت و عذاب ميں ڈال ديا _(27)
2_ دوسرا سبب ،لشكر اسلام ميں ابوسفيان و غيرہ ايسے منافقين كا وجود تھا جو دشمن كے پہلے ہى حملہ سے بھاگ كھڑے ہوئے اور نتيجہ ميں دوسرے سپاہيوں كے حوصلوں كى كمزورى كا سبب بنے اور وہ لوگ بھى بھاگ گئے_
3_ شب كى تاريكى اور جغرافيائي حالات بھى دشمن كے لئے معاون ثابت ہوئے_

227
سوالات
1_ فتح مكہ كے موقع پر رسول خدا(ص) كى تاريخى تقرير كا كچھ حصّہ بيان كيجئے _
2_ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ كے بعد اہل مكہ كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟
3_ خالد بن وليد '' بنى جذيمہ'' كے ساتھ مجرمانہ سلوك كا مرتكب كيوں ہوا؟
4_ مسلمانوں كے ساتھ ،قبيلہ ہوازن اور ثقيف كے لڑنے كا محرك كيا تھا؟
5_ دشمن كے ارادوں سے لشكر اسلام كيوں كر آگاہ ہوا؟
6_حملہ كے آغاز ميں مسلمانوں كے فرار و شكست كے اسباب كيا تھے؟

227
حوالہ جات
1_ استلام يعنى حجر اسود پر ہاتھ پھيرنا_
2_ امتاع الاسماع ج 1 ص 378 مطبوعہ قاہرہ _
3_ جاء الحق و ذہق الباطل ان الباطل كان زہوقاً(اسرائ/81)_
4_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 54_
5_مغازى واقدى ج 2 ص 834_
6_اعيان الشيعہ ج 1 ص 358_
7_ (سورہ يوسف /92)_
8_ اذخر ايك خوشبو دار گھاس ہے جو اطراف مكہ ميں اگتى ہے_
9_مغازى واقدى ج 2 ص 836_
10_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 56_ طبقات ابن سعد ج 2 ص 137_
11_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 83_
12_ مغازى واقدى ج 3 ص 889_
13_ مغازى واقدى ج 3 ص 889_
14_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 61_سيرت ابن ہشام ج 4 ص70،73_ مغازى واقدى ج 3 ص 875سے 882_طبقات ابن سعد ج 2 ص 147_
15_تاريخ يعقوبى ج 2 ص 61 _
16_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 82_
17_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 82_
18_ سيرت ابن ہشام ج4 ص 83_
19_ مغازى واقدى ج 3 ص 889_
229
20_مغازى واقدى ج 3 ص 888_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 81_
21_مغازى واقدى ج 3ص 89_
22_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 85 _ 86_
23_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 87 _88 _ارشاد شيخ مفيد ص 74_
24_ تاريخ پيغمبر(ص) ڈاكٹر آيتى مرحوم ص 552_
25_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 100_ مغازى واقدى ج 3 ص 912_
26_مغازى واقدى ج 3 ص 912_
24_لَقَدْنَصَرَكُم اللّہُ فى مَواطنَ كَثيرة وَ يَوْمَ حُنَيْن اذَا اَعْجَبَتْكُم كَثْرَتُكُم فَلَمْ تُغْن عَنْكُم شَيْئاً وَضَاقَت عَلَيْكُم اْلارْضُ بمَا رَحُبَتْ ثُمَ وَلَّيْتُمْ مُدْبرينَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّہُ سَكينَتَہُ عَلَى رَسُولہ وَ عَلَى الْمُؤمنين وَ اَنْزَلَ جُنُوداً لَمْ تَرَوْہَا وَ عَذَّبَ الذَينَ كَفَرُوا وَ ذلكَ جَزَائُ الْكافرين (سورہ توبہ/25/24)_