تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  197
دسواں سبق
فتح مكہ(1)
قريش كى عہد شكني
تجديد معاہدہ كى كوشش
لشكر اسلام كى تياري
راستوں كوكنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ
ايك جاسوس كى گرفتاري
مكہ كى جانب
دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق
مشركين كا پيشوا مومنين كے حصار ميں
مكہ ميں نفسياتى جنگ
شہر كا محاصرہ
ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ
سوالات

199
فتح مكہ
قريش كى عہد شكني
روانگى كى تاريخ: 10 رمضان المبارك 8 ھ(1) بمطابق 6جنورى 629 ئ
فتح كى تاريخ : 19 رمضان المبارك 8 ھ بمطابق 13 جنورى 629
رسول خدا (ص) اس فكر ميں تھے كہ مكّہ ، يہ خانہ توحيد جو مشركين كے گھيرے ميں ہے اس كو آزاد كراديں ،ليكن اس راستے ميں صلح حديبيہ ركاوٹ تھي_آنحضرت(ص) نہيں چاہتے تھے كہ اس معاہدے كو توڑكرمكہ فتح كريں كہ جس كى رعايت كا انہوں نے خود كو پابند بنايا تھا_ ليكن جب كسى امّت كا وقت قريب آتا ہے اورمہلت كى مدّت ختم ہوجاتى ہے تو الہى قانون كے مطابق ايسے حالات پيدا ہوجاتے ہيں كہ ايك قوم يا گروہ كا خاتمہ ہوجائے اور ان كے مد مقابل كے لئے كاميابى كا راستہ كھل جائے_
موتہ كى جنگ اس بات كا سبب بنى كہ قريش مسلمانوں كو كمزور سمجھنے لگے اور صلح حديبيہ كا معاہدہ توڑنے كى سوچنے لگے لہذا جب روميوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كى شكست كى خبر مكہ پہنچى تو قريش نے اس كو لشكر اسلام كى كمزورى پرحمل كيا اور مسلمانوں كے ہم پيمان اور ہمدرد قبيلوں كو آنكھيں دكھانے لگے_

200
صلح حديبيہ كے معاہدہ كے مطابق كوئي بھى قبلہ دونوں گروہوں يعنى قريش يا مسلمانوں كے ساتھ معاہدہ كر سكتا تھا _ خزاعہ نے حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے اور بنى بكر نے قريش سے معاہدہ كيا 8 ھ ميں خزاعہ اور بنى بكر كے در ميان جھگڑا ہوا قريش نے اس حملہ ميں خزاعہ كے خلاف بنى بكر كى خفيہ طريقہ سے مدد كى ، چہرہ پر نقاب ڈال كر ان كے ساتھ مل كر حملہ كيا _
اس حادثہ ميں قبيلہ خزاعہ كے كچھ لوگ مظلومانہ طريقہ سے قتل كرديئے گئے اور اس طرح صلح حديبيہ كا عہد و پيمان ٹوٹ گيا _ كيونكہ قريش رسول خدا(ص) كے حليف قبيلہ كے خلاف جنگ ميں كود پڑے تھے_(2)

تجديد معاہدہ كى كوشش
ابو سفيا ن بھانپ گيا كہ يہ گستاخى جواب كے بغير نہيں رہے گى درحقيقت قريش نے لشكر اسلام كے لئے خود ہى حملہ كا موقعہ فراہم كرديا تھا لہذا وہ لوگ فوراً ہى مدينہ پہنچے كہ شايد معاہدہ كى تجديد ہو جائے_
ابوسفيان مدينہ ميں اپنى بيٹى ، رسو ل خدا(ص) ا كى زوجہ '' اُمّ حبيبہ'' كے گھر پہنچا چونكہ باپ اور بيٹى نے كئي سال سے ايك دوسرے كو نہيں ديكھا تھا _ اس لئے باپ كا خيا ل تھا كہ بيٹى بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذيرائي كرے گى اور اس طرح وہ اپنے مقصد كو عملى جامہ پہننانے ميں كامياب ہو جائے گا _ ليكن جب رسول (ص) خدا كے گھر ميں وارد ہوا اور چاہا كہ بستر پر بيٹھ جائے تو بيٹى نے بے اعتنائي كے ساتھ بستر كو لپيٹ ديا _ ابو سفيان نے تعجب سے پوچھا كہ '' تم نے اس كو لپيٹ كيوں ديا _؟ '' بيٹى نے جواب ديا كہ '' آپ مشرك اور نجس ہيں ،

201
ميں نے يہ مناسب نہيں سمجھا كہ آپ ،رسول خدا(ص) كى جگہ بيٹھيں_
ابو سفيا ن نے صلح نامہ كى مدّت بڑھانے كےلئے رسول (ص) خدا سے رجوع كيا آپ(ص) نے كوئي جواب نہيں ديااور صرف خاموش رہے_ ابوسفيان نے بزرگوں ميں سے ہر ايك سے وساطت كےلئے رابطہ قائم كيا مگر نفى ميں جواب ملا _حضرت على (ع) كى راہنمائي ميں ابوسفيان مسجد كى طرف آيا اور يك طرفہ صلح نامہ كى مدّت ميں اضافہ كا اعلان كيا پھر غصّے اور مايوسى كے عالم ميں بغير كسى نتيجہ كے مكّہ واپس پلٹ گيا _(3)
ستم رسيدہ قبيلہ '' خزاعہ'' كے افراد نے اپنى صدائے مظلوميت پيغمبراسلام (ص) كے كانوں تك پہنچانے كے لئے عمروابن سالم كو رسول خدا (ص) كى خدمت ميں بھيجا وہ مدينہ ميں وارد ہوا اور سيدھا مسجد كى طرف گيا اور لوگوں كے در ميان كھڑے ہو كر مخصوص انداز سے ايسے دردناك اشعار پڑھے جو قبيلہ خزاعہ كے استغاثہ اور مظلوميت كى حكايت كررہے تھے اس نے پيغمبر اسلام(ص) كو ''خزاعہ'' كيساتھ كئے جانے والے معاہدے كى قسم دلائي اور فريادرسى كا طلب گار ہوا اس نے كچھ اشعار پڑھے جن كا مطلب يہ تھا _
اے رسول خدا (ص) آدھى رات كو ہم جب وَتيْرَہ(4) كے كنارے تھے اور ہم ميں سے كچھ لوگ ركوع و سجود كى حالت ميں تھے تو مشركين نے ہم پر حملہ كيا ،جبكہ ہم مسلمان تھے ، انہوں نے ہمارا قتل عام كيا (5)_
عمرو كے جاں گداز اشعار سے رسول (ص) خدا كا مہر و محبت سے لبريز دل درد سے تڑپ اٹھا_ لہذا آپ(ص) نے فرمايا'' اے عمرو ہم تمہارى مدد كريں گے'' (6)

202
لشكر اسلام كى تياري
رسول خدا (ص) نے روانگى كا مقصد بتائے بغير لشكر اسلام كو تيار ہونے كا حكم ديا اور قريبى قبائل اور مدينہ والوں نے لشكر ميںشركت كى _مجموعى طورپر دس ہزار جانبازوں نے خود كو روانگى كے لئے تيار كر ليا ،كسى كو خبر نہيں تھى كہ اس تيارى كا مقصد كيا ہے ؟ اور لشكر كا آخرى ہدف كہاں جا كر تمام ہوگا ؟ اس لئے كہ كچھ لوگوں كا يہ خيا ل تھا كہ حديبيہ كا معاہدہ ابھى تك باقى ہے_

راستوںكو كنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ
رسول خدا (ص) دشمن كو غافل ركھنے كے لئے نہايت خفيہ طريقہ سے قدم اُٹھار ہے تھے اور بہت باريك بينى سے كام لے رہے تھے اس كام كے لئے ان كے حكم سے مدينہ كے تمام راستوں پر پہرے بيٹھاديئےئے تھے اور مشكوك افراد كى رفت و آمد پر كٹرى نگاہ ركھى جارہى تھى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ قريش كے جاسوس لشكر اسلام كى روانگى سے آگاہ ہوجائيں_آنحضرت(ص) نے دعا كى ،خدايا آنكھوں اور خبروں كو قريش سے پوشيدہ كردے تا كہ ہم اچانك ان كے سروں پر پہنچ جائيں_(7)

ايك جاسوس كى گرفتاري
سخت حفاظتى تدابير كے با وجود ، حاطب ابن ابى بلتعہ نامى ايك مسلمان نے اس لالچ ميں آكر كہ اگر اس نے قريش كى كچھ خدمت كردى تو اس كے وابستگان ،مكہ ميں گزند سے محفوظ رہيں گے اور يہ سمجھ كر كہ رسول خدا(ص) شايد مكہ كاہى قصد ركھتے ہوں ، ايك خط قريش كو لكھا تا كہ ان كو خبر كردے اور يہ خط سارہ نامى ايك عورت كے حوالے كيا جو پہلے گا نے

203
بجانے والى عورت تھى اوراسے كچھ پيسے بھى ديئےا كہ وہ غير معروف راستہ سے مدينہ سے مكہ جائے اور يہ خط قريش كے سر كردہ افردا تك پہنچا دے _
جبرئيل امين (ع) نے آكر پيغمبراسلام (ص) كو يہ خبر پہنچا دى اور رسول خدا(ص) نے بلا تاخير على ابن ابى طالب(ع) كو زبير كے ساتھ اس عورت كو گرفتار كرنے كے لئے روانہ كيا_ يہ لوگ نہايت تيزى كے ساتھ مكہ كى طرف چلے اور راستہ ميں مقام خُلَيْقَہ ميں اس عورت كو گرفتار كركے اس كے سامان كى تلاشى لى ليكن كوئي خط نہيں ملا ، سارہ نے بھى كسى خط يا كسى خبر كے اپنے ساتھ ركھنے كا شدّت سے انكار كيا _ ليكن على (ع) نے بہ آواز بلند كہا كہ '' خدا كى قسم پيغمبر(ص) كبھى بھى غلط بات نہيں كہتے لہذا جتنى جلد ى ہو سكے خط نكال دے ورنہ ميں تجھ سے خط نكلوالوں گا '' عورت نے جب دھمكى كو يقينى سمجھا توكہنے لگى '' آپ لوگ ذرا دور ہٹ جائيں ميں خط دے رہى ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے (سر كے بندھے ہوے بالوں ) ميں سے ايك خط نكالا اور على (ع) كے حوالہ كرديا_
رسول خدا (ص) نے خط لكھنے والے كو طلب كيا اور بازپرس كى اس نے خدا كى قسم كھائي اور كہا كہ اس كے ايمان ميں كسى طرح كى تبديلى نہيں ہوئي ہے ليكن چونكہ ميرے بيوى بچّے مشركين قريش كے ہاتھوں ميں اسير ہيں اس لئے ميں نے چاہا كہ اس خبر كے ذريعہ ميرے گھر والوں كى تكليف ميں كچھ كمى ہو جائے (8)_
اس غرض سے كہ ايسا واقعہ پھر نہ دہرا يا جائےچند آيتيں نازل ہوئيں ايك آيت ميں ارشاد ہوتا ہے _'' اے ايمان والو ميرے دشمن اور اپنے دشمن كو دوست نہ بناؤ اور ان كے ساتھ محبت اور دوستى كى پينگيں نہ بڑھاؤ''(9)
پيغمبراسلام (ص) نے اس كى جاہلانہ خطا كو معاف كرديا اور اس كى توبہ قبول كرلي_

204
مكّہ كى جانب
كہاں جانا ہے اور كس مقصد سے جاناہے يہ تو معلوم نہ تھا اس كے علاوہ حكم صادر ہونے كے وقت تك يہ بھى معلوم نہ تھا كہ كس وقت جانا ہے _ رمضان المبارك كى دسويں تاريخ 8 ھ ق كو روانگى كا حكم صادر ہوا_
رسول خدا (ص) نے مدينہ كے باہر لشكر اسلام كا معائنہ كيا پھر روانگى كا حكم ديا اور مدينہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر(حد ترخّص سے نكلنے كے بعد) پانى مانگ كر روزہ افطار كيا اور سب كو حكم ديا كہ روزہ افطار كرليں _ بہت سے لوگوں نے افطار كر ليا ليكن ايك گروہ نے يہ سوچا كہ اگر روزہ كى حالت ميں جہاد كريں تو اس كا زيادہ اجر ملے گا _ رسول اللہ(ص) اس گروہ كى حكم عدولى سے ناراض ہوئے اور فرمايا كہ يہ لوگ گنہگار اور سركش ہيں _(10)
لشكر اسلام بغير كسى توقف كے تيزى سے بڑھتا رہا _ دس ہزار جانبازوں نے مدينہ سے مكہ كا راستہ ايك ہفتہ ميں طے كيا اور رات كے وقت مكہ سے 22 كيلوميٹر شمال كى جانب '' مرّ الظہران'' پہنچ كر خيمہ زن ہو گيا_(11)

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق
پيغمبر اسلام (ص) نے مرّ الظہران ميں حكم ديا كہ دس ہزار كا لشكر پورے ميدان ميں بكھر جائے او ر ہر آدمى آگ جلائے تا كہ لشكر اسلام كى عظمت نماياں ہو اور مشركين قريش كے دل ميں زيادہ سے زيادہ خوف پيدا ہو اور وہ سمجھ ليں كہ اب اس عظيم لشكر سے مقابلہ كى طاقت ان ميں نہيںہے اور ہر طرح كے مقابلہ سے نا اميد ہو جائيں ، تا كہ مكہ بغير كسى خونريزى كے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ خدا محفوظ رہ جائے_

205
رات كے اندھيرے ميں آگ كے شعلے لپك رہے تھے_ صحرا آگ كا ايك وسيع و عريض خرمن نظرآرہا تھا _ لشكر اسلام كے ہمہمہ كى آواز دشت ميں گونج رہى تھي_
ابوسفيان ، حكيم بن حزام اور بديل بن ورقائ، ديكھنے اور پتہ لگانے كے لئے مكّہ سے باہر نكلے (12)_دوسرى جانب عباس ابن عبدالمطلب نے جو مقام حجفہ سے پيغمبر اسلام (ص) كے ہمركاب تھے_ دل ميں سوچا كہ كيا ہى بہتر ہو اگر طرفين كے فائدہ كے لئے كام كيا جائے تا كہ خونريزى نہ ہو _ لہذا سفيد خچّر پر سوار ہو كر مكّہ كى طرف چلے كہ شايد كسى كے ذريعہ لشكر اسلام كے حملہ اور محاصرہ كى خبر قريش كے سر بر آوردہ افراد كے كانوں تك پہنچا سكيں اور ان كو دلاور ان اسلام كى عظيم طاقت اور بے پناہ جرا ت و ہمت سے آگاہ كركے ہر طرح كے مقابلہ كى بات سوچنے سے باز ركھيں_
جناب عباس نے رات كى تاريكى ميں ابوسفيان كى آواز سنى وہ كہہ رہا تھا '' ميں نے ابھى تك اتنى زيادہ آگ اور اتنا باعظمت لشكر نہيں ديكھے''_
ابوسفيان كا ساتھى كہہ رہا تھا ''يہ قبيلہ خزاعہ والے ہيں جو جنگ كے لئے جمع ہوئے ہيں ''
ابوسفيان نے كہا كہ '' ايسى آگ روشن كرنا اور اس طرح لشكر تشكيل دينا خزاعہ كے بس كى بات نہيں''_
عباس نے ان كى بات كاٹى اور كہا كہ ابوسفيان
ابوسفيان نے عباس كى آواز پہچان لى اور فوراً كہا '' عباس تم ہو'' كيا كہہ رہے ہو _ عباس نے جواب ديا '' خدا كى قسم يہ آتش رسول خدا(ص) كے لشكر نے روشن كى ہے وہ ايك طاقتور اور نہ ہارنے والا لشكر لے كر قريش كى طرف آئے ہيں اور قريش ميں ان سے مقابلہ كرنے كى ہرگز طاقت نہيں ہے _

206
عباس كى باتوں سے ابوسفيان كے دل ميں اور زيادہ خوف پيدا ہوا، خوف كى شدّت سے كا نپتے ہوئے اس نے كہا '' عباس ميرے ماں باپ تم پر فدا ہوں بتاؤ ميں كيا كروں؟ عباس نے جب ديكھا كہ ان كى بات مؤثر ثابت ہوئي تو فرمايا '' اب صرف چارہ يہ ہے كہ تم ميرے ساتھ رسول خدا(ص) كى ملاقات كےلئے آؤ اور ان سے امان طلب كرو ورنہ سارے قريش كى جان خطرہ ميں ہے '' _
اس كے بعد آپ نے اس كو اپنى سوارى پر سوار كيا اور لشكرگاہ اسلام كى طرف لے چلے''(13)

مشركين كا پيشوا ، مومنين كے حصار ميں
عباس نے ابوسفيان كو سپاہ اسلام كى عظيم لشكر گاہ سے گزارا، سپاہيوں نے عباس اور پيغمبر اسلام (ص) كى مخصوص سوارى كو ، جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان كے گزر نے سے مانع نہيںہوئے بلكہ ان كے لئے راستہ چھوڑ ديا راستے ميں عمر كى نظر ابوسفيان پر پڑى تو انہوں نے چاہا كہ اسى جگہ اس كو قتل كرديں ليكن چونكہ عباس نے اسے امان دى تھى اس لئے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے يہاں تك كہ عباس اور ابوسفيان رسول خدا(ص) كے خيمہ كے پاس پہنچ كر سوارى سے اترے_ عباس اجازت لينے كے بعد پيغمبر اسلام (ص) كے خيمہ ميں آئے _ پيغمبر (ص) كے سامنے عباس اور عمر ميں كچھ لفظى جھڑپ ہوئي ، عمر يہ اصرار كررہے تھے كہ ابوسفيان دشمن خدا ہے اور اس كو اسى وقت قتل ہو نا چاہئے ليكن عباس كہہ رہے تھے كہ ميں نے اسے امان دى ہے _ پيغمبر اسلام (ص) نے حكم ديا كہ ابوسفيان كو ايك خيمہ ميں ركھا جائے اور صبح كو آپ (ص) كے پاس لايا جائے _ صبح سويرے عباس ، ابوسفيان كو پيغمبراسلام (ص) كے حضور ميں لائے _ جب

207
آنحضرت(ص) كى نظر ابوسفيان پرپڑى تو آپ(ص) نے فرمايا'' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تو يہ سمجھے كہ خدا ئے يكتا كے سوا اور كوئي خدا نہيں ہے ؟ ''ابوسفيان نے جواب ديا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ(ص) كتنے بردبار ، كريم اور وابستگان كے اوپر مہربان ہيں،_ ميں نے اب سمجھ ليا كہ اگر خدائے واحد كے علاوہ كوئي اورخدا ہوتا تو ہمارى مدد كرتا _
جب اس نے خدا كے يگانہ ہونے كا اعتراف كر ليا تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ '' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تم جانو كہ ميں خدا كا پيغمبر ہوں''_
ابوسفيان نے كہا مجھے آپ كى رسالت ميں تردد ہے '' عباس تردد سے ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' اگر تم اسلام قبول نہيں كروگے توتمہارى جان خطرہ ميں ہے'' _ابوسفيان نے خدا كى يگانگى اور پيغمبر اسلام (ص) كى رسالت كى گواہى دى _(14) اور بظاہر مسلمانوں كى صف ميں داخل ہوگيا _اگر چہ كبھى بھى حقيقى مومن نہيں ہوا _
رسول خدا(ص) جانتے تھے كہ ابوسفيان كو ابھى رہا كرنے كا وقت نہيں ہے _ ہوسكتا ہے كہ وہ مكّہ جا كر كوئي سازش كرے اس لئے مناسب ہے كہ وہ اسلام كى طاقت كا بخوبى مشاہدہ كرلے اور فتح مكّہ كے سلسلے ميں سپاہ اسلام كے ارادہ كو مكمل طور پر محسوس كرلے اور اس خبر كو تمام مشركين قريش تك پہنچادے تا كہ تمام سر كردہ افراد مقابلہ كا خيال اپنے دل سے نكال ديں اس وجہ سے ابوسفيان كو ايك درّہ ميں كھڑا كيا گيا ، سپاہ اسلام اسلحہ ميں غرق منظم دستوں كى صورت ميں اس كے سامنے سے گزرنے لگى ، جنگى مشق كے دوران مجاہدين اسلام كى تكبير كى آواز كوہ و دشت مكہ ميں گونج اٹھتى اور مجاہدين كے دل وفور شوق سے لبريز ہو جاتے تھے_
لشكر اسلام كے مسلح دستوں كى عظمت نے ابوسفيان كو اتنا ہر اساں كرديا كہ اس نے بے

208
اختيار عباس كى طرف مخاطب ہو كر كہا '' كوئي بھى طاقت ان لشكروں كا مقابلہ نہيں كر سكتى سچ مچ تمہارے بھتيجے نے بڑى زبردست سلطنت حاصل كرلى ہے ''_
عباس نے غصّہ ميں كہا '' يہ سلطنت نہيں بلكہ خداوند عالم كى طرف سے نبوت و رسالت ہے _(15)
عباس نے پيغمبر اسلام (ص) سے كہا '' اے اللہ كے رسول(ص) ، ابوسفيان جاہ پرست آدمى ہے اس كو كوئي مقام عطا فرمائيں''_
رسول خد ا(ص) نے فرمايا كہ '' ابوسفيان لوگوں كو اطمينان دلا سكتا ہے كہ جو كوئي اس كى پناہ ميں آجائے گا امان پائے گا _ جو شخص اپنا ہتھيار زمين پر ركھ كر اس كے گھر ميں چلا جائے اور دروازہ بند كرلے يامسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا_(16)

مكہ ميں نفسياتى جنگ
ابوسفيان مكمل طور پر حواس باختہ اور لشكر اسلام كى جنگى طاقت سے ہراساں تھا رسول خدا(ص) نے مصلحت اسى ميںسمجھى كہ اس كو رہا كرديں _ تا كہ وہ اپنى قوم ميں جا كران كے حوصلوں كو متزلزل كرے يہ وہى مقصد تھا جو پيغمبر اسلام (ص) چاہتے تھے _
ابوسفيان نے اس كام كو بخوبى انجام ديا _ اس نے مكہ ميں نفسياتى دباؤ بڑھا كر قريشيوں كو ہراساں كرنے اور بغير خونريزى كے ہتھيا ر ڈال دينے ميں بڑا اہم كردار ادا كيا _ (17)

شہر كا محاصرہ
رسول خدا (ص) نے سپاہيوں كو چار دستوں ميں تقسيم فرمايا اور ہر دستہ كو ايك سمت سے شہر كے اندر روانہ كيا _ اور فوج كے كمانڈروں كو حكم ديا كہ جو تم سے لڑے (صرف اسى سے لڑنا)اس

209
كے علاوہ كسى سے جنگ نہ كرنا _ چنانچہ آپ(ص) نے صرف چند مفسدين كو جن كى خيانت كى سزا موت سے كم نہ تھى مستثنى ركھا(اور ان سے جنگ كا حكم ديا)_(18)
رسول خدا (ص) نے چاروں طرف سے شہر كے محاصرہ كى تركيب اپنا كر مشركين كے فرار كو ناممكن بناديا اور ان كے لئے صرف ايك ہى راستہ باقى چھوڑاكہ ہتھيار ڈال ديں _

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ
لشكر اسلام كے شہر ميں داخل ہوتے وقت مشركين متعرض نہيں ہوئے _ صرف قريش كا ايك افراطى گروہ'' صفوان ابن اميّہ ابن خلف ''اور عكرمةبن اَبيْ جہل كى رہبرى ميں خالد ابن وليد والے دستہ سے ٹكرا گيا _ اس جھڑپ ميں دشمن كے 28_ افراد نہايت ذلت سے مارے گئے اورباقى لوگ مكہ سے بھاگ گئے_(19)

210
سوالات
1_ قريش نے صلح حديبيہ كے معاہدہ كى خلاف ورزى كس طرح كي؟
2_ اپنى عہد شكنى پر قريش كا رد عمل كيا رہا؟
3_ جاسوس جال ميں كيسے پھنسا؟
4_ فتح مكہ ميں كون سے تركيبيں استعمال كى گئيں؟

211
حوالہ جات
1_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 31
2_ اتبا ع الاسماع ج1 ص 357 _ سيرت ابن ہشام ج 3 ص 32_
3_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 38 _39
4_ وتيرہ ، مكہ سے جنوب مغرب كى طرف 16 كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع تھا
5_ قبيلہ خزاعہ كے افراد اسلام سے پہلے بنى ہاشم كے ہم پيمان تھے اس لئے كہ عبد المطلب نے ان سے معاہدہ كيا تھا _ عمروابن سالم جو مدد طلب كرنے كے لئے آيا تو اس نے اسى قديم معاہدہ كو بنياد قرارد يكر كہا _
يا ربّ انّى ناشدٌ محمداً حلْفَ ابينا وابيہ الْاَتْلدا (اى القديم)
انّ قريشاً اخلفو ك المَوْعدَا وقتلونا رُكَّعاً وَ سُجَّدَاً (سيرت ابن ہشام ج 4 ص 36)
6_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 37_
7_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 39_
8_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 40 _41
9_ يا ا َيُھا الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَخذُوا عَدُوى وَ عَدُوّ كُم ا َولياء تَلْقون الَيہم بالْمَوَدَة ... (ممتحنہ/1) ''سيرة ابن ہشام '' ج 4 ص 41_
10_مغازى واقدى ج 2 ص 802 _
11_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 42_
12_مغازى واقدى ج 2 ص 814_
13_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 44_45
14_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 45 _46
15_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 46_47
16_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 46
117_ پيامبر و آئين نبرد جنرل طلاس ص 462_
18_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 48_ 51 مغازى واقدى ج 2 ص 825_
19_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 49 _ مغازى واقدى ج 2 ص 825 _