تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  175
نواں سبق
طرفين كے خسارئے كا تخمينہ
اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ
فتح كے وقت در گزر
مال غنيمت
مال غنيمت ميں خيانت كى سزا
مال غنيمت كى تقسيم
خيبر پر حملے كے نتائج
خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب
فدك
غزوہ وادى القري
تيما
فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا
مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)
جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ
گريہ كيوں؟
غير مساوى طاقتوں كى جنگ
لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت
عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت
مجاہدين كى واپسي
رسول خدا(ص) جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں
جنگ ذات السلاسل
سوالات

177
طرفين كے خسارے كا تخمينہ
آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے 93 سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد20 افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ
قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرت(ص) كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلام (ص) اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلام (ص) كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(1)

178
فتح كے وقت در گزر
تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمت(ص) كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپ(ص) نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرت(ص) نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپ(ص) نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(2)

مال غنيمت
فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _
رسول خدا (ص) نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(3)

179
پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرت(ص) نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _
'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خدا (ص) كو يہ خبر ملى تو آپ(ص) نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(4)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا
سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسول (ص) خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خدا (ص) سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپ(ص) نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_
اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلام (ص) سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرت(ص) نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(5)

مال غنيمت كى تقسيم
خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسول (ص) خدا نے

180
ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(6)
ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلام (ص) نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(7)
لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خدا (ص) كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرت(ص) جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(8)

خيبر پر حملے كے نتائج
خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب
1_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال
2_ پيغمبر اسلام (ص) اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

181
3_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ
4_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _
5_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _
6_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك
خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے 140 كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خدا (ص) كے پاس بھيجا اور آنحضرت(ص) سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرت(ص) كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(9)
رسول خدا(ص) نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، 24000درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(10)

غزوہ وادى القري( 7 ھ ق)
خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خدا (ص) مدينہ سے 350 كيلوميٹر دور وادى القرى كى

182
طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپ(ص) نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرت(ص) نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(11)

تَيمائ( 7 ھ ق)
مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ'' (12) كے لوگ يہودى اور رسول خدا (ص) كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خدا (ص) سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے (13)اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا
خيبر كى فتح كے بعد رسول خدا (ص) اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپ(ص) نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(14)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)
يكم ذيقعدہ 7 ھ(بروز جمعرات بمطابق 3 فرورى سنہ 628ئ)

183
صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خدا (ص) لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرم (ص) كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك1چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_
معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خدا(ص) نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے 22 كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _
مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خدا (ص) ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_
دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_
قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

184
مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خدا(ص) كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_
اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكّہ كے شمال ميں 12 كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(15)
عمرة القضاء كے بعد 7 ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ
يكم جمادى الاوّل 8 ھ بمطابق اگست،ستمبر 629ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ
رسول اكرم (ص) نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خدا (ص) جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(17) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(18) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلام (ص) كى طرف سے 16 مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(19)
يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خدا (ص) موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_
جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خدا (ص) نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

185
جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب (20) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(21)

گريہ كيوں؟
لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خدا (ص) كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _
'' و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُہَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيہَا جثيّاً''(22)
''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

186
باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_
مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(23)
پيغمبر اسلام (ص) نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(24)
خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلام (ص) سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خدا (ص) نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(25)_رسول خدا(ص) نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

187
تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(26)_

غير مساوى طاقتوں كى جنگ
لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں 212 كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _
يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلام(ص) كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_ (27)
عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

188
امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت
جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے (28) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(29)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت
جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_
اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

189
جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _
اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_
يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(30)

مجاہدين كى واپسي
عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد (31) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_
اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

190
آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلام(ص) نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(32)_

رسول خدا (ص) جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں
مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خدا(ص) بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نے(ص) شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خدا(ص) كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرت(ص) نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپ(ص) كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسول (ص) ميرے ماں باپ آپ(ص) پر فدا ہوں ، آپ(ص) ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسول (ص) خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(33)

191
جنگ ذات السّلاسل
جمادى الثانى 8 ھ ق ستمبر ،اكتوبر 629 ئ
رسول خدا (ص) كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _
پيغمبر اسلام (ص) كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خدا(ص) نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خدا(ص) نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _
صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(34)(35)

192
سوالات
1_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟
2_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_
3_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟
4_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟
5_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خدا(ص) كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟
6_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟
7_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

193
حوالہ جات
1_ مغازى واقدى ج 2 ص 673
2_ مغازى واقدى ج 2 ص 671 و سيرت ابن ہشام ج 3 ص 351 _352
3_ مغازى واقدى ج 2 ص 680
4_ مغازى واقدى ج 2 ص 681
5_ مغازى واقدى ج 2 ص 681
6_ سيرت ابن ہشام ج 3 ص 356 _357
7_مغازى واقدى ج 2 ص 682
8_ مغازى واقدى ج 2 ص 683_زاد المعاد ج 3 ص 333 _سنن ابى داود (2745 ) صحيح بخارى ج 7 ص 371
9_مغازى واقدى ج 2 ص 706_
10_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص 261 _266
11_تاريخ طبرى ج 3 ص 17 _16 سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص284_فتوح البلدان ص 47
12_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _
13_التنبيہ والاشراف ص 224
14_تاريخ پيغمبر اسلام (ص) مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص 486 _483_
15_مغازى واقدى ج 2 ص 740 _ 731 يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_
16_سيرت ابن ہشام ج 4 ص 15_
17_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_
18_ مغازى واقدى ج 2 ص 755 _ بحارالانوار ج 21_58
19_ طبقات كبرى ج 2 ص 128_مغازى ج 2 ص 782
20_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خدا(ص) نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو
194
معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج 4 ص 28_
21_ مغازى واقدى ج 2 ص 758 _ بحار الانوار ج 21 ص 55 _
22_ سورہ مريم آيت 71_72_
23_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 15 _ اور تاريخ طبرى ج 3 ص 37
24_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج 4 ص 15_
25_ مغازى واقدى ج 2 ص 758_
26_ مغازى واقدى ج 2 ص 757بحارالانوار ج 21 ص 21_
27_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 17 _ تاريخ طبرى ج 3 ص 38_
28_ بحارالانوار ج 21 ص 54_
29_ بحارالانوار ج 21 ص 62 _ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 20_
30_ سيرت ابن ہشام ج 4 ص 21 _
31_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج 2 ص 741 _750ملاحظہ ہو)_
32_ مغازى واقدى ج 2 ص 765_
195
33_ مغازى واقدى ج 2 ص 767 _بحارلاانوارج 21 _ ص 56_57
34_ مغاز ى واقدى ج 2 ص 769 سے 772 _ تاريخ طبرى ج 3 ص 33_32 سے خلاصہ بيان كيا گيا ہے_
35_ شيعہ منابع ميں يہ واقعہ يوں درج ہے كہ رسول خدا (ص) نے صحابہ ميں سے تين افراد ابو بكر ، عمر اور عمر و بن عاص ، كو اس سريہ كا امير مقرر فرمايا _ ليكن وہ لوگ جنگى كاميابى حاصل نہ كر سكے اس لئے آنحضرت(ص) نے چوتھى بار حضرت على (ع) كو امير بنا كر لشكر كے ساتھ روانہ فرمايا اور آنحضرت(ص) نے علي(ع) اور سپاہيوں كو مسجد احزاب تك رخصت كيا _حضرت علي(ع) صبح سويرے دشمن پر حملہ آور ہوئے ، دشمن ايك گروہ كثير كے ساتھ حملہ روكنے كے لئے آگئے ليكن حضرت على (ع) كى بے امان جنگ و پيكار نے دشمن كے دفاعى حملہ كو ناكام بنا ديا اور دشمن كو شكست دينے كے بعد على (ع) كامياب و سرفراز ہو كر مال غنيمت اور اسيران جنگ كے ساتھ رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں پلٹے پروردگارقہار سورہ والعاديات ميں اس واقعہ كى طرف اشارہ كرتا ہے_
بسم اللہ الرحمن الرحيم_والعاديات ضَبْحاً_ فالموريات قدحا_ً فالمغيرات صبحاً_ فاثرن بہ نقعا_ً فوسطن بہ جمعا_ً
قسم ہے ان گھوڑوں كى جو نتھنوں كو پُھلاتے پتّھر پرٹاپ مار كر چنگارياں نكالتے ہيں پھر صبح دم حملے كرتے ہيں _ (كفار كے ديار ميں وہ) گردو غبار بلند كرتے اور دشمن كے دل ميں گھس جاتے ہيں _
تفضيلات كےلئے ارشاد شيخ مفيد ص 86 _90 مجمع البيان ج 10 ص 528_ بحارالانوار ج 21 ص 76 _ 77 مناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص140_142كى طرف رجوع كريں