155
آٹھواں سبق
پيغمبر (ص) اسلام كے عالمى پيغام كا اعلان
سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت
خسروپرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي
حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نام آنحضرت(ص) كا خط
دوسرے حكمرانوں كا موقف
خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب
لشكر توحيد كى روانگي
معلومات كى فراہمي
جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين
لشكر كيلئے طبّى امداد رسانى كا انتظام
جديد معلومات
آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح
سردار كے حكم سے روگرداني
جنگى حكمت عملي
على (ع) فاتح خيبر
سوالات
157
پيغمبر اسلام (ص) كے عالمى پيغام كا اعلان
محرم 7 (1) بمطابق اپريل 628
صلح حديبيہ كے معاہدے نے رسول خدا(ص) كو جنوب (مكّہ) كى طرف سے مطمئن كر ديا اور پر امن فضا كے سبب عرب كے سر برآوردہ افراد كا ايك گروہ، اسلام كا گرويدہ ہو گيا _ اس موقع پر اسلام كے عظيم رہنما نے فرصت كو غنيمت جا نا اور اس وقت كے حكمرانوں ، قبائلى سرداروں اور عيسائي راہنماؤں سے مذاكرہ اور مكاتبہ كا باب كھول ديا اور خدا كے حكم سے اپنے آئين كو ،جو ايك عالمى آئين دنيا كى قوموں كے سامنے پيش كيا _
رسول خدا (ص) نے جو خطوط ، دعوت اسلام كے عنوان سے سلاطين ، قبائل كے روساء اور اس زمانے كى سياسى و مذہبى نماياں شخصيتوں كو تحرير فرمائے تھے وہ آپ(ص) كى دعوت كے طريقہ كار كى حكايت كرتے ہيں _
اس وقت 185 خطوط كے متن ہمارى دسترس ميںہيں جن كو پيغمبراسلام (ص) نے تبليغ، دعوت اسلام يا ميثاق و پيمان كے طور پر تحرير فرمايا تھا_(2)
يہ خطوط دعوت و تبليغ كے سلسلے ميں اسلام كى روش اور طريقہ كار كہ جس كى بنياد ، منطق و برہان پر تھى نہ كہ جنگ و شمشير پر ، روشنى ڈالتے ہيں ، جو حقائق ان خطوط ميں پوشيدہ ہيں اور جو دلائل ، اشارات ، نصيحتيں اور راہنمائي رسو ل خدا (ص) نے دوسرى قوموں كے سامنے پيش كى ہيں ، وہ اسلام كے عالمى پيغام اور آپ(ص) كى دعوت كے طريقہ كار كا منہ بولتا ثبوت ہيں _
158
سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت
مختلف علاقوںاور سلاطين كے پاس رسول خدا (ص) كے بھيجے ہوئے افراد اور سفراء معارف اسلامى سے آگاہ اور اس پر تسلّط ركھنے كے ساتھ ساتھ، ادب و سخن ميں كم نظير تھے اور اس زمانے كے لوگوں كے معاشر تى اور دينى آداب و رسوم سے وافقيت ركھتے تھے _ اس زمانے كى طاقتوں كا سامنا كرنے ميں عين يقين او ر صاف گوئي كے ساتھ ان كى ظاہرى وضع و قطع بھى سياسى حكمت عملى كے نكات كى رعايت كى حكايت كرتى تھى _(3)
رسول خدا (ص) نے عالمى پيغام رسالت پر مشتمل خطوط، ايك ہى دن چھ منتخب افراد كے ذريعے ايران ، روم ، حبشہ ، مصر ، يمامہ ، بحرين ، اُردن اور حيرہ كى طرف روانہ فرمائے_(4)
رسول خدا (ص) خطوط پر (محمد رسول اللہ) '' جو كہ آپ كى انگوٹھى پر كھدا ہوا تھا''كى مہر لگاتے اور خطوط كو بند كركے مخصوص موم سے چپكا ديا كرتے تھے _(5)
جس زمانے ميں آپ(ص) يہ خطوط تحرير فرمارہے تھے، اس وقت دنيا كى دو بڑى طاقتيں، ايران اور ر وم اپنے اپنے ملك كا رقبہ بڑھانے كے سلسلے ميں ايك دوسرے كے ساتھ دست و گريبان تھيں اور دنيا كى سياست انہى كے گرد گھوم رہى تھى _ قيصر روم كے نام رسول خدا (ص) كے خط كا مضمون يہ تھا_
بسم اللہ الرحمن الرحيم
محمد رسول خدا (ص) كى طرف سے روم كے بزرگ ''قيصر ''كے نام
سچّائي اور ہدايت كى اتباع كرنے والوں پر سلام ،تمہيںاسلام كى طرف دعوت ديتا ہوں ، اسلام كو قبول كر لو تا كہ صحيح و سالم رہو اور خدا بھى تم كو ( خود تمہارے ايمان كا اور تمہارے زير
159
نگيں افراد كے ايمان كا ) دوہرا اجر دے گا _ اے اہل كتاب ميں تم كو اس بات كى طرف دعوت ديتا ہوں جو تمہارے اور ہمارے در ميان يكساں ہے اور وہ يہ ہے كہ سوائے خدائے واحد كے ہم كسى كى عبادت نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں اور ہم ميں سے بعض ، بعض كو رب نہ بنائيں اور جب وہ لوگ روگردانى كريں تو كہو كہ تم گواہ رہو ہم مسلمان ہيں_(6)
محمد رسول اللہ (7)
جب دحيہ كلبى نے خط، قيصر روم تك پہنچا يا تو اس نے اسلام اور دين موعود انجيل كے بارے ميں مفصل تحقيقات كے بعد مندرجہ ذيل عبارت پر مشتمل خط رسول خدا (ص) كو لكھا_
'' يہ خط اس رسول خدا (ص) كے لئے ہے جس كى بشارت عيسي(ع) نے دى ہے (يہ خط) قيصر بادشاہ روم كى طرف سے ہے _آپ كا خط اور قاصد ہمارے پاس پہنچا ميں اس بات كى سچّى گواہى ديتا ہوں كہ خدا نے آپ(ص) كو رسالت پر مبعوث كيا ہے _ آپ كا نام اور آپ كا تذكرہ اس انجيل ميں ديكھ رہا ہوں جو ہمارے ہاتھ ميں ہے_ عيسي(ع) بن مريم نے آپ(ص) كے آنے كى بشارت دى ہے _ ميں نے بھى روميوں كو دعوت دى ہے كہ آپ(ص) پر ايمان لائيں اور مسلمان ہو جائيں ليكن انہوں نے اطاعت نہيں كى اور اسلام نہيں لائے _ حالانكہ اگر وہ ہمارى بات مانتے تو ان كے لئے بہتر تھا _ ميں تمنّا كرتا ہوں كہ اے كاش آپ(ص) كا خدمت گزار ہوتا اورآپ(ص) كے پير دھوتا ''_
پھر قيصر نے خط كوتحائف كے ساتھ دحيہ كلبى كے ذريعہ رسول خدا (ص) كے پاس بھيج ديا_(8)
160
شاہ ايران خسرو پرويز كے نام رسول اللہ كے خط كا متن_
بسم اللہ الرحمن الرحيم
محمد رسول خدا (ص) كى طرف سے ايران كے عظيم كسرى كے نام_
سلام ہو اس شخص پر جو سچائي اور ہدايت كا پيرو ہو ، خدا اور رسول(ص) پر ايمان لا يا ہو اور گواہى ديتا ہو كہ اس كے علاوہ كوئي پروردگار نہيں ہے _اس كا كوئي شريك نہيں ہے اور محمد اس كے بندے اور رسول(ص) ہيں_ميںتمہيں خدا كى طرف بلاتا ہوں اس لئے كہ ميں خلق خدا كے درميان خدا كا رسول(ص) ہوں تا كہ ميں زندہ افراد كو خوف و اميد دلاؤں_
تم اسلام قبول كر لو تا كہ محفوظ رہو اور اگر تم نے انكار كيا تو تمہارے پيرو كاروں كا بوجھ بھى تمہارے سررہے گا_
محمد رسول (ص) اللہ (9)
عبد اللہ بن حذافہ نے پيغمبر اسلام (ص) كا خط ايران كے دربار ميں پہنچا يا _ جب مترجمين نے بادشاہ كے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑك اُٹھا كہ محمد(ص) كون ہے؟ جو اپنے نام كو ميرے نام سے پہلے لكھتا ہے؟ اور خط پڑھے جانے سے پہلے ہى اس نے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_
رسول خدا (ص) كا قاصد مدينہ واپس آيا اور اس نے سارا ماجرا بيان كيا _آپ(ص) نے ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كيا اور فرمايا :
'' خدايا اس شخص نے ميرا خط پھاڑڈالا تو اس كى حكومت كو ٹكڑے ٹكڑے كردے_(10)
خسرو پرويز كے نام خط اور اسكى گستاخي
ساسانى بادشاہ نے طاقت كے نشے ميں چور ہوكر يمن كے كٹھ پتلى حاكم''بَاذان'' كو لكھا
161
كہ مجھے خبر ملى ہے كہ مكّہ ميں كسى قريشى نے نبوّت كا دعوى كيا ہے تم دو دلير آدميوں كو وہاں بھيجو تا كہ وہ اس كو گرفتار كركے ميرے پاس لائيں ''_
حاكم يمن '' بَاذَان'' نے مركز كے حكم كے مطابق دو دلير آدميوں كو حجاز روانہ كيا جب يہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں كے ايك شخص نے مدينہ كيطرف راہنمائي كى اور دونوں افراد مدينہ جا پہنچے اور باذان كا خط پيغمبر اسلام (ص) كو ديا _ آپ(ص) كى عظمت و ہيبت اور اطمينان نے پيغام لانے والوں كو وحشت ميں ڈال ديا_
جب پيغمبر اسلام (ص) نے ان كے سامنے اسلام پيش كيا تو وہ لرزنے لگے ، آپ(ص) نے فرمايا ''اب تم جاؤ ، كل ميں اپنا فيصلہ سناؤں گا' ' _دوسرے دن جب والى يمن كے كارندے جواب لينے كے لئے پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں پہنچے تو آپ(ص) نے فرمايا كہ '' پروردگار عالم نے مجھے خبر دى ہے كہ كل رات جب رات كے سات گھنٹے گزر چكے تھے( 10 جمادى الاوّل سنہ 7ھ كو) '' خسرو پرويز '' اپنے بيٹے '' شيرويہ'' كے ہاتھوں قتل ہو گيا ہے اور اس كا بيٹا تخت سلطنت پر قابض ہو گياہے پھر رسول اللہ(ص) نے ان كو بيش قيمت تحائف دے كر يمن روانہ كيا_ انہوں نے يمن كى راہ لى اور باذان كو اس خبر سے مطلع كيا _ باذان نے كہا كہ '' اگر يہ خبر سچ ہے تو پھر يقينا وہ آسمانى پيغمبر ہے اور اس كى پيروى كرنا چاہيئے ابھى تھوڑى دير نہ گزرى تھى كہ شيرويہ كا خط حاكم يمن كے نام آن پہنچا جس ميں لكھا تھا كہ '' آگاہ ہو جاؤ كہ ميں نے خسرو پرويز كو قتل كرديا اور ملت كا غم و غصّہ اس بات كا باعث بنا كہ ميں اس كو قتل كردوں اس لئے كہ اس نے فارس كے اشراف كو قتل اور بزرگوں كو متفرق كرديا تھا_جب ميرا خط تمہارے ہاتھ ميں پہنچے تو لوگوں سے ميرے لئے بيعت لو اور اس شخص سے جو نبوت كا دعوى كرتا ہے اور جس كے خلاف ميرے باپ نے حكم ديا تھا ، ہرگز سختى كا بر تاؤ نہ كرنا
162
يہاں تك كہ ميرا كوئي نيا حكم تم تك پہنچے_
شيرويہ كے خط نے اس خبر كى تائيد كردى جو رسول خد ا(ص) نے عالم غيب اور وحى كے ذريعہ دى تھى _ ايرانى ناد حاكم باذان اور ملك يمن كے تمام كارندے جو ايرانى تھى ، مسلمان ہوگئے اور يمن كے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے _ باذان نے رسول خدا(ص) كے نام ايك خط ميں اپنے اور حكومت كے كارندوں كے اسلام لانے كى خبر پہنچائي_(11)
حبشہ كے بادشاہ نجاشى كے نا م آنحضرت(ص) (ص) كا خط
بسم اللہ الرحمن الرحيم
محمد رسول اللہ كى طرف سے زمامدار حبشہ نجاشى كے نام _ تم پر سلام ہو ، ہم اس خدا كى تعريف كرتے ہيں جس كے سوا كوئي خدا نہيں ، وہ خدا كہ جو بے عيب اور بے نقص ہے_ فرمان بردار بندے اس كے غضب سے امان ميں ہيں وہ خدا اپنے بندوں كے حال كو ديكھنے والا اور گواہ ہے_
ميں گواہى ديتا ہوں كہ جناب مريم كے فرزند عيسي(ع) روح اللہ اور كلمة اللہ ہيں جو پاكيزہ اور زاہدہ مريم كے بطن ميں تھے ،خدا نے اسى قدرت سے جس سے آدم (ص) كو بغير ماں باپ كے پيدا كيا ان كو بغير باپ كے ماں كے رحم ميں پيدا كيا _
ميں تمہيں لا شريك خدا كى طرف دعوت ديتا ہوں اور تم سے يہى چاہتا ہوں كہ تم ہميشہ خدا كے مطيع اور فرمان بردار اور ميرے پاكيزہ آئين كى پيروى كرتے رہو_ اس خدا پر ايمان لاؤ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث فرمايا_
ميں پيغمبر خدا ہوں، تمہيں اور تمہارے تمام لشكر والوں كو اسلام كى دعوت ديتا ہوں اور
163
اس خط اورسفير كو بھيج كر ميں اپنے اس عظيم فريضے كو پورا كررہا ہوں جوميرے اوپر ضرورى ہے اور تمہيں وعظ و نصيحت كررہا ہوں_ سچائي اور ہدايت كے پيروكاروں پر سلام_
محمد رسول اللہ
نجاشى نے رسول خدا(ص) كے خط كو ليا، آنكھوں سے لگايا، تخت سے نيچے اُترا اور تواضع كے عنوان سے زمين پر بيٹھ گيا اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا اور پھر آنحضرت(ص) كے خط كے جواب ميں لكھا_
بسم اللہ الرحمن الرحيم
يہ خط محمد رسول خدا(ص) كى طرف ، نجاشى كى جانب سے ہے ، اس خدا كا درود و سلام آپ(ص) پر ہو جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں اور جس نے ميرى ہدايت كي_ حضرت عيسى (ع) كے بشر اور پيغمبر ہونے كے مضمون كا حامل خط ملا _ زمين و آسمان كے خدا كى قسم جو آپ(ص) نے بيان فر ما يا وہ حقيقت ہے_ ميں نے آپ(ص) كے دين كى حقيقت سے آگاہى حاصل كى اور مہاجر مسلمانوں كى ضرورتوں كے پيش نظر ضرورى اقدامات انجام ديئے گئے ہيں_ اب ميں اس خط كے ذريعے گواہى ديتا ہوں كے آپ(ص) خدا كے رسول وہ صادق شخص ہيں جن كى تصديق آسمانى كتابيں كرتى ہيں _ ميں نے آپ(ص) كے چچا زاد بھائي ( جعفر بن ابى طالب) كے سامنے اسلام و ايمان و بيعت كے مراسم انجام ديئےيں اوراب اپنا پيغام اور قبول اسلام كى خبر پہنچانے كے لئے اپنے بيٹے ''رارہا'' كو آپ(ص) كى خدمت ميں بھيج رہا ہوں اور اعلان كرتاہوں كہ ميں اپنے علاوہ كسى كا ضامن نہيں ہوں _ آپ(ص) اگر حكم ديں تو ميں خود آپ(ص) كى خدمت با فيض ميں حاضر ہو جاؤں _ آپ(ص) پر درود و سلام ہو_
نجاشي(12)
164
دوسرے حكمرانوں كا موقف
مصر و يمامہ كے سر براہان مملكت نے تحائف كے ساتھ رسول خدا (ص) كے خط كا جواب ديا ليكن كوئي مسلمان نہيں ہوا_مصر كے حاكم مُقوقس نے بھى تحائف كے ساتھ رسول خدا (ص) كے خط كا جواب انتہائي احترام كے ساتھ ديا (13)
يمامہ كے حاكم نے جواب ميں لكھا كہ ميں اس شرط پر مسلمان ہونے كو تيار ہوں كہ رسول خدا(ص) كے بعد حكومت ميرے ہاتھ ميں ہو _ اس پيش كش كو رسول خدا (ص) نے قبول نہيں كيا اور فرمايا يہ بات خداى امور ميں سے ہے (14)_
بحرين كا حاكم مسلمان ہو گيا اور رسول خدا(ص) نے اس كو اسى طرح بطور حاكم باقى ركھا _ اُردن كے حاكم نے رسول خدا (ص) كے سفير كے سامنے اپنى جنگى طاقت كا مظاہرہ كيا اور مدينہ پر لشكر كشى كى فكر ميں تھا اس سلسلہ ميں مركزى حكومت (روم) سے رائے طلب كى ليكن جب قيصر روم كى بدلى ہوئي نگاہوں كو ديكھا تو سب كچھ سمجھ گيا اور تمام سياسى لوگوں كى طرح اپنا موقف بدل ديا _ پيغمبر اسلام(ص) كے سفير كى دلجوئي كى اور تحفے تحائف اس كے حوالے كئے_(15)
خيبر كے يہوديوں سے جنگ كے اسباب
اسلام شروع ہى سے يہوديوں كى بد عہدى اور سازشوں كا شكار تھا يہوديوں كا ايك گرو ہ مدينہ سے 165 كيلوميٹر دور شمال ميں خيبر نامى ايك ہموار اور وسيع جگہ پر سكونت پذير تھا كہ جہاں انہوں نے اپنى حفاظت كے لئے نہايت مضبوط اور مستحكم سات قلعے بنا ركھے تھے يہوديوں كى تعداد بيس ہزار سے زيادہ تھى جن ميںسے اكثر جوان اور جنگجو افراد تھے_
165
صلح حديبيہ نے رسول خدا(ص) كو اس بات كا موقعہ ديا كہ عالمى پيغام كا اعلان كرنے كے علاوہ جزيرة العرب سے يہوديوں كے آخرى خطرناك مركز كى بساط لپيٹ ديں كيونكہ ايك توسياسى اور جنگى نكتہ نظر سے خيبر ايك مشكوك مركز شمار ہوتا تھا اور خيبر كے يہوديوں ہى نے جنگ احزاب كى آگ بھڑ كائي تھى اس لئے ممكن تھا كہ وہ دوبارہ مشركين كو بھڑ كائيں _
دوسرے يہ كہ ايران وروم ايسى بڑى طاقتوں سے يہوديوں كے بہت قريبى تعلقات تھے_ اور ہر لمحہ يہ انديشہ تھا كہ بڑى طاقتوں كوور غلا كر يا ان كى مدد سے يہ لوگ اسلام كو جڑ سے اكھاڑديں_
تيسرے يہ كہ، صلح حديبيہ كہ وجہ سے يہودى يہ سوچنے لگے تھے كہ لشكرى اور جنگى اعتبار سے كمزور ہونے كى بنا پر مسلمانوں نے صلحنامہ قبول كيا ہے ، لہذا يہودى اس فكر ميں تھے كہ موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے تحريك اسلام پر ناگہانى ضر ب لگائي جائے _ ہر چند كہ صلح حديبيہ كے معاہدے نے قريش و يہود كے جنگى اتحاد كے امكان كو ختم كر ديا تھا ليكن ديگر ايسے قبائل موجودتھے جو يہوديوں كے امكانى حملے كى صورت ميں ان كا ساتھ دے سكتے تھے_ يہ وجوہات تھيں جو اس بات كا سبب بنيں كہ رسول خدا(ص) يہوديوں كى سر كوبى كے لئے پيش قدمى كريں اور آتش فتنہ كو خاموش كرديں _
لشكر توحيد كى روانگي
يكم ربيع الاوّل 7 ہجرى (16) بروز ہفتہ بمطابق 12 جولائي 628 عيسوي
رسول اكرم(ص) سولہ سو جاں بازوں كے ساتھ مدينہ سے روانہ ہوئے اور ہميشہ كى طرح ناگہانى طور پر دشمن كے سر پر پہنچنے كے لئے تيزى سے مقام رجيع كى جانب روانہ ہوئے
166
_ (يہ ايك چشمہ ہے جو خيبر و غطفان كى سرزمين كے درميان واقع ہے اور غطفان كى ملكيت ہے _) چنانچہ اس طرح آپ(ص) نے دشمن كو بھى غافل بنا يا اور دو جنگى حليفوں يعنى خيبر كے يہوديوں اور غطفان كے بدووںكے در ميان جدائي بھى ڈال دى _
معلومات كى فراہمي
رسول خدا (ص) نے روانگى سے قبل لشكر اسلام كے آگے ''عباد بن بشر'' كو چند سواروں كے ساتھ دشمن كے لشكر كى خبر لانے كے لئے بھيجا _ ان لوگوں نے ايك يہودى جاسوس كو گرفتار كرليا اور اس كو دھمكا كے ،خيبر كے يہوديوں كے اہم جنگى راز اور يہوديوں كے پست حوصلوں كے بارے ميں معلومات حاصل كرليں_(17)
خيبر كا مضبوط قلعہ راتوں رات مسلمانوں كے محاصرے ميں آگيا _ صبح سوير ے خيبر كے يہودى مسلمانوں كے حملہ اور محاصرے سے غافل قلعوں سے باہر نكلے اور بيلچے، تھيلے و غيرہ لے كر كھيتوں اور نخلستانوں كى طرف چل پڑے كہ اچانك مسلمانوں پر نظر پڑى جو خيبر كو ہر طرف سے گھيرے ہوئے تھے_ وہ لوگ ڈر كے مارے خيبركے قلعوں كى طرف بھا گے اور آواز دى '' محمد(ص) ہم سے لڑنے آئے ہيں''_(18)
جنگى اعتبار سے مناسب جگہ پر لشكر گاہ كى تعيين
ابتدا ميں لشكر اسلام نے خيموں كو نصب كرنے كے لئے ايك جگہ كا انتخاب كيا ليكن يہ جگہ بہت زيادہ مرطوب ہونے كے علاوہ صحت و صفائي كے اعتبار سے بھى نا مناسب اور يہوديوں كے تيروں كى زد پر واقع تھى جب يہ جگہ جنگى اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئي تو
167
رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ كركے نخلستان كى پشت پر مناسب ترين رجيع نامى جگہ كو لشكر گاہ كے لئے معين فرمايا اور كچھ سپاہيوں كو اس جگہ كى حفاظت اور نگہبانى كے لئے مقرر كرديا _ جو بارى بارى لشكر گاہ كى نگہبانى اور حفاظت كا فريضہ انجام ديتے _(19)
لشكر كے لئے طبى امداد رسانى كا انتظام
زخميوں كى ديكھ بھال كرنے والى ''نُسَيْبَہ'' نامى خاتون چند ايسى عورتوں كے ساتھ جو اس فن سے آشنا تھيں مدينہ سے لشكر اسلام كے ہمراہ آئيں اور لشكر گاہ كى پشت پرجنگى مجروحين كى مرہم پٹى كے لئے ايك خيمہ نصب كيا اور جانبازوں كى مدد كے لئے تيار ہو گئيں_(20)
جديد معلومات
مقام رجيع ميں ايك يہودى نے جو بہت زيادہ خوف زدہ ہو گيا تھا خودكو لشكر اسلام كے حوالہ كر ديا اور كہنے لگا كہ اگر كچھ خبريں لشكر اسلام كو دے تو كيا اس كو امان ملے گى ؟ جب اس كو امان دى گئي تو اس نے بہت سے جنگى راز فاش كرديئےور بتايا كہ يہوديوں كے درميان ختلاف ہو گيا ہے _ پھر مسلمانوں كى قلعوں اور حصاروں تك راہنمائي كي_ (21)
آغاز جنگ اور پہلے قلعہ كى فتح
خيبر ميں سات قلعے تھے جن كے نام ، ناعم ، قموص ، كتيبہ ، نطاة ، شقّ، وطيح ، سلالم ہيں ان قلعوں كے در ميان فاصلہ تھا _ رجيع كو لشكر گاہ كے عنوان سے منتخب كرنے اور ترتيب دينے ميں تقريباً سات دن لگ گئے ، اس كے بعد لشكر اسلام دن ميں قلعوں پر حملہ كرتا اور راتوں كو اپنى قيام گاہ پر واپس آجاتا تھا_جنگ كے پہلے دن پچاس جانبازان اسلام تيروں
168
سے مجروح ہوئے ، علاج كے لئے انكو اس خيمہ ميں پہنچايا گياجو اس كام كے لئے نصب كيا گيا تھا_
بالآخر سات دنوں كے بعد ناعم نامى پہلا قلع فتح ہوا، اس كے بعد رفتہ رفتہ سارے قلعے لشكر اسلام كے قبضہ ميں آگئے_
ان قلعوں ميں سے ايك قلعہ كى فتح كے دوران اس يہودى كى زوجہ اسير ہوئي جس نے لشكر اسلام كے لئے معلومات فراہم كرنے ميں مدددى تھى _ رسول اكرم(ص) نے اسے اُس كے شوہر كے حوالے كرديا_(22)
سردار كے حكم سے روگرداني
رسول خدا (ص) جب ''ناعم'' نامى قلعہ كى حصاركے قريب پہنچے تو آپ (ص) نے لشكر كو صف آرا كيا اور فرمايا كہ جب تك حكم نہ پہنچے اس وقت تك جنگ نہ كرنا _ اس موقع پر ايك سپاہى نے خود سرانہ طور پر ايك يہودى پر حملہ كرديا ليكن يہوديوں كے ہاتھوں مارا گيا_ جاں بازوں نے آنحضرت(ص) سے سوال كيا كہ كيا يہ شہيد شمار ہوگا؟آپ(ص) نے فرمايا كہ '' منادى بہ آواز بلند اعلان كردے كہ جو اپنے سپہ سالار كے حكم سے سرتابى كرے جنت اس كے لئے نہيں ہے_(23)
جنگى حكمت عملي
لشكر اسلام كى كمان رسول خدا(ص) كے ہاتھ ميں تھى اور آنحضرت(ص) كے فرمان كے مطابق عمدہ جنگى حكمت عملى كے ساتھ لشكر اسلام ايك ايك قلعہ كا محاصرہ كر تا جارہا تھا اور كوشش كررہا تھا
169
كہ جس قلعہ كا محاصرہ ہو چكا ہو اس كا رابطہ دوسرے قلعوں سے منقطع كردے اور اس طرح قلعہ كو فتح كرلينے كے بعد دوسرے قلعہ كا محاصرہ كرتا تھا_
وہ قلعے جن كا ايك دوسرے سے ارتباط تھا يا جن كے اندر جنگجو زيادہ استقامت كا مظاہرہ كرتے تھے ذرا دير ميں فتح ہوتے تھے_ليكن وہ قلعے جن كا آپس ميں رابطہ بالكل منقطع ہو جاتا تھا وہ كمانڈروں كے رعب و دبدبہ كے سامنے ج ہى ہتھيار ڈال ديتے تھے اور ان كو فتح كرنے ميں قتل و خونريزى بھى كم ہوتى تھى _(24)
على عليہ السلام فاتح خيبر
قلعے يكے بعد ديگرے فتح ہوگئے صرف دو قلعے باقى رہ گئے اور يہودى ان قلعوں كے اوپر سے مسلمانوں پر بڑى تيزى سے تير بر سارہے تھے_ رسول خدا (ص) نے اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى ( ابوبكر) كو لشكر كى سردارى ديكر قلعہ فتح كرنے كے لئے روانہ كيا اور ان كے ہاتھو ں ميں پرچم ديا _ ليكن وہ بغير پيش قدمى كيئے شكست كھاكر پلٹ آئے_
دوسرے دن پيغمبر اسلام (ص) نے لشكر كا علَم،دوسرے صحابى (عمر) كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى پيش قدمى نہ كرسكے اور شكست كھا كر واپس آگئے_
تيسرے دن رسول خدا (ص) نے پرچم، سعد بن عبادة كے حوالہ كيا ليكن وہ بھى شكست سے دوچارہوئے، خود وہ اور ان كا لشكر زخمى ہو گيا اور وہ بھى بيٹھ رہے_
رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ '' كل ميں علم اس كے حوالے كروںگا جس كو خدا اور اس كا رسول (ص) دوست ركھتے ہيںاور وہ بھى خدا اور اس كے رسول(ص) كو دوست ركھتا ہے _ وہ شكست كھانے والا اور بھاگنے والا نہيں ، خدا اس كے ہاتھوں فتح عطا كرے گا_(25)
170
رات ختم ہوئي صبح نمودار ہوئي _ رسول خدا(ص) نے علي(ع) كو بلانے كے لئے بھيجا آپ(ع) آنحضرت(ص) كى خدمت ميں تشريف لائے جبكہ آپكى آنكھوں ميں درد تھا چنانچہ فرمايا '' حضور (ص) نہ ميں دشت ديكھ پا رہا ہوں اور نہ پہاڑ '' پھر آپ(ع) پيغمبر اسلام (ص) كے قريب پہنچے آنحضرت(ص) نے فرمايا '' آنكھيں كھولو'' رسول (ص) خدا نے اپنا لعاب دہن على (ع) كى آنكھوںميں لگايا تو آپكى آنكھيں شفا ياب ہوگئيں _(26) پھر آپ(ص) نے پرچم، حضرت على (ع) كو ديا اور كاميابى كے لئے دعا كي، امير المومنين على (ع) قلعہ كى طرف چل پڑے_
حضرت على (ع) كى سركردگى ميں جب لشكر، قلعہ كے نزديك پہنچا تو مرحب كے بھائي حارث نے اپنے مشّاق اور تيز رفتار شہ سواروں كے ساتھ لشكر اسلام پر حملہ كيا ، مسلمان بھاگے على (ع) تنہا اپنى جگہ جمے رہے، علي(ع) كى تلوار كى ضرب نے اپنا كام كيا اور حارث قتل ہو گيا_ يہوديوں پر خوف و وحشت طارى ہو گيا وہ قلعہ كے اندر بھاگ گئے اور قلعہ كے دروازہ كو مضبوطى سے بند كر ليا _ مسلمانوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ميدان ميں پلٹ آئے ، اس موقعہ پر خيبر كا مشہور پہلوان اور حارث كا بھائي''مرحب'' اپنے بھائي كى موت پر بے تاب ،اسلحہ ميں غرق ، غصّہ ميں بھر ا، رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر كو دپڑا_
وہ كہہ رہا تھا : '' خيبر مجھے جانتا ہے ميں مرحب ہوں اسلحہ ميں غرق ، آزمودہ كار پہلوان ہوں _ كبھى ميں نيزے سے وار كرتاہوں كبھى شمشير سے ، جب شير غصّہ كے عالم ميں ہو تو كوئي كھچار كے قريب نہيں پھٹكتا (27)
حضرت على (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا:
ميں وہ ہوں كہ ميرى ماں نے ميرا نام حيد ر(شير) ركھا ہے ميں بہادر اور جنگلوں كا شير ہوں_(28)
171
اس كے بعد زبردست جنگ شروع ہوئي ، شمشير علي، (ع) مرحب كے سر ميں درآئي اور اس كى سپر ،پتّھر كے خود اور سر كو دانتوں تك دوٹكڑے كرديا _ يہ ضرب ايسى خطرناك او دل ہلا دينے والى تھى كہ جسے ديكھ كر بعض يہودى بہادربھاگ كھڑے ہوئے اور قلعہ كے اندر جا چھپے اور بقيہ افراد على (ع) كے ساتھ دست بدست جنگ ميں مارے گئے_علي(ع) نے شير كى طرح يہوديوںكا پيچھا قلعہ كے دروازے تك كيا پھر قلعہ كے دروازے كيطرف متوجہ ہوئے اور اسے اكھاڑ ليا اور جنگ كے اختتام تك سپر كى طرح استعمال كرتے رہے پھر اس كو اس خندق كے اوپر ركھ ديا_ جو قلعہ كے چاروں طرف كھدى ہوئي تھي_(29)
يہ دروازہ اتنا وزنى تھا كہ لشكر اسلام كے آٹھ سپاہى اس كو نہ اٹھا سكے_ حضرت علي(ع) اس اعجازى قوّت كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ '' ميں نے ہرگز بشرى قوّت سے اسے نہيں اكھاڑا بلكہ خدا داد قوّت كے زير اثر اور روز جزا پر ايمان كى بنا پر يہ كام كيا ہے _(30) على (ع) كى شجاعت ، بہادى اور ان كے ہاتھوں كى طاقت سے خيبر كى فتح اور دوسروں كى ناتوانى كے بارے ميں بہت سى حديثيں اہل سنّت كى كتابوں ميں موجود ہيںمزيد معلومات كيلئے ان ماخذوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_(31)
172
سوالات
1_ رسول خدانے كس ، كس بادشاہ كو خط لكھے؟
2_ يمن كا حاكم اور وہاں كے لوگ كيوں كر مسلمان ہوئے؟
3_ قيصرنے رسول خدا(ص) كے لئے كيا جواب لكھا؟
4_ دوسرے حكمرانوں كا موقف كيا تھا؟
5_ رسول خدا نے خيبر كے يہوديوں سے كيوں جنگ كي؟
6_ خيبر ميں حضرت على (ع) كى شجاعت كے بارے ميں كچھ بيان كيجئے_
173
حوالہ جات
1_ طبقات ابن سعد ج 1 ص 258_
2_ '' الوثائق السياسيہ '' مصنفہ پروفيسر حميد اللہ پاكستانى ليكچر رپيرس يونيورسٹي_مكاتيب رسول(ص) '' مؤلفہ حجة الاسلام و المسلمين على احمدى ميانجى اور '' محمد(ص) و زمامداران'' مصنفہ صابر ى ہمدانى ملاحظہ ہوں_
3_ دحيہ كلبى اور عَمروبن اميّہ اور دوسرے سفراء كى زندگى كا مطالعہ كرنے سے يہ بات واضح ہو جاتى ہے_
4_ طبقات ابن سعد ج 1 ص 258 _ سيرت حلبى ج 3 ص 240_
5_ طبقات ابن سعد ج 3 ص 241 و ج 1ص 258_
6_ قل يا اہل الكتاب تعالوا الى كلمة سوائ: بيننا و بينكم الا نعبد الّا اللہ و لا نشرك بہ شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوّا فقولوا اشہدوا بانّا مسلمون(آل عمران 64)_
7_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 77_
8_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 77_
9_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 77_
10_ طبقات ابن سعد ج 1 ص 259_
11_ سيرہ حلبى ج 3 ص 247 _ طبقات ابن سعد ج 1 ص 260 _ كامل ج 2 ص 246 _ تاريخ طبرى ج 2 ص 655_
12_ تاريخ طبرى ج 2 ص 653 _652 سيرت حلبى ج 3 ص 248_
13_ كامل ج 2 ص 210 طبقات ج 1 ص 260_ سيرت حلبى ج 3 ص 250_
14_ طبقات ابن سعد ج 1 ص 263 _ سيرة حلبى ج 3 ص 250_
15_ سيرة حلبى ج 3 ص 255_
16_ مغازى واقدى ج 2 ص 634_
17_ مغازى واقدى ج 2 ص0 64_
18_ مغازى واقدى ج 2 ص 642_
174
19_ مغازى واقدى ج 2 ص643 _
20_ مغازى واقدى ج 2 ص 685 _687_
21_ مغازى واقدى ج 2 ص 646_
22_مغازى واقدى ج 2 ص 646_
23_ مغازى واقدى ج 2 ص 649 _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_
24_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج 1 ص 61_
25_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج 21_28 _
26_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_
27_ مغازى واقدى ج 2 ص 654 _653_
28_ ارشاد مفيد ص 67_
29_ مغازى واقدى ج 2 ص 654_ 655_
30_ بحار الانوار ج 21 ص 26_
31_صحيح بخارى ج 5 ص 71 1 و ج 5 ص 23 _ تاريخ بخارى ج 1 ص 115 و ج 4 ص 115 _ صحيح مسلم ج 7 ص 121 و ج 5 ص 195 و ج 7 ص 120 _ مسند الحافظ ابى داؤد ص 320_مسند امام احمد بن حنبل ج 1 ص 99 و ج 2 ص 384 سنن ترمذى ج 5 ص 638 _ سنن ابن ماجہ ج 1 ص 65 _ خصايص ص 4 _ تاريخ طبرى ج 2 ص 310 _ طبقات ج 3 ص 156 _عقد الفريد ج 3 ص 94 _ مستدرك حاكم ج 3 ص 405_ معجم الصغيرطبرانى ص 163_ حلية الاوليا ج 1 ص 430_ سنن الكبرى ج 9 ص 107 _ مناقب ابن مغازلى ص 176 _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج 3 ص 366 _ مصابيح السنة ج 2 ص 201_معالم التنزيل ج 4 ص 156 _الشفا قاضى عياض ج 1 ص 272 _ اسد الغابہ ج 3 ص 25 _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص 15_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 4 ص 221_ كفاية الطالب باب 62ص 116 _ البداية و النہاية ابن كثير ج 4 ص 184_ مجمع الزوائد ج 9 ص 123 _ الاصابة ج 2 ص 502 _ينابيع المودة ص 41_
|