تاريخ اسلام (2)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  11
پہلا سبق
غزوہ بنى قينقاع
حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا حضرت على (ع) كے ساتھ عقد
غزوہ سويق
غزوہ بنى سليم
''قَرَدَة''ميں سرّيہ زيد بن حارثہ
غزوہ غَطَفَان
جنگ احد كے مقدمات
جنگ رونما ہونے كے اسباب
پہلا قدم: جنگى بجٹ كى فراہمي
لشكر كى جمع آوري
سياسى پناہ گزين
لشكر قريش كى مدينہ روانگي
عباس كى خبر رساني
سپاہ قريش راستہ ميں
معلومات كى فراہمى
لشكر ٹھڑنے كى خبر
مدينہ ميں ہنگامى حالت
فوجى شوراى كى تشكيل
آخرى فيصلہ
سوالات
حوالہ جات

13
غزوہ بنى قَينُقاع
بدر كى زبردست لڑائي نے علاقہ كے جنگى توازن كو مسلمانوں كے حق ميں كرديا _ جنگ كے بعد منافقين اور يہودى ، مسلمانوں كى فتح مبين سے حسد كرنے لگے اس لئے كہ وہ مسلمانوں كى ترقى سے سخت خائف تھے_ انھوں نے رسول خدا --(ص) سے كئے گئے معاہدوں كے برخلاف مسلمانوں اور اسلام كو بدگوئي اور دشنام طرازى كا نشانہ بنايا اور مگر مچھ كے آنسوبہاتے ہوئے قريش كو مسلمانوں سے انتقام لينے كے لئے بھڑكانے لگے_ ان كے شعراء ہجويہ نظموںميں كفار كے ليے مسلمان خواتين كے اوصاف بيان كركے مسلمانوں كى ناموس كى اہانت كرتے تھے_
رسول خدا نے مذكورہ '' مفسدين فى الارض'' ( زمين پر فساد پھيلانے والوں) كے قتل كا حكم صادر فرمايا اور وہ لوگ قتل كرديئے گئے_(1)
پيغمبر اكرم(ص) بخوبى جانتے تھے كہ يہودى آئندہ انتقامى جنگ ميں مدينہ سے باہر كے دشمنوں كے لئے راستہ ہموار اور اسلام كى پيٹھ پر خنجر كا وار كريں گے_ اس لئے آپ(ص) اس مشكل سے بچنے كے لئے راستہ ڈھونڈ تے رہے اور سياسى و دفاعى طاقت كو زيادہ سے زيادہ

14
مضبوط كرنے كى كوشش فرماتے رہے_
مدينہ كے يہوديوں ميں بنى قينقاع كے يہوديوں نے سب سے بڑھ چڑھ كر پيغمبراكرم(ص) كے خلاف سرد جنگ چھيڑ ركھى تھى ، انہوں نے نازيبا اور توہين آميز نعرے بلند كركے عملى طور پر عہد و پيمان كو لغو كرديا تھا_
رسول خدا(ص) نے حجت تمام كرنے كى غرض سے بنى قينقاع كے بازار ميں مجمع سے خطاب كے دوران انہيں نصيحت كى اور اُس اجتماعى معاہدئے پر كاربند رہنے كى تاكيد فرمائي جو دونوں طرف سے كيا گيا تھا_ اور فرمايا كہ '' قريش كى سرگذشت سے عبرت حاصل كرو اس لئے كہ مجھے ڈرہے كہ جن مصيبتوں نے قريش كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا تھا وہ تمھيں بھى نہ جكڑ ليں'' _
پيغمبراكرم (ص) كى نصيحتيں يہوديوں كے لئے بے اثر ثابت ہوئيں انہوںنے گستاخانہ جواب ديا: ''اے محمد(ص) كياآپ(ص) نے ہميں قريش سمجھ ركھا ہے؟ ناتجربہ كاروں سے جنگ ميں كاميابى كے بعد آپ(ص) مغرور ہوگئے ہيں ( معاذ اللہ) خدا كى قسم اگر ہم تمہارے خلاف جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو ئے تو آپ - - ---(ص) كو معلوم ہوجائے گا كہ مرد ميدان ہم ہيں يا كوئي اور؟
رسول خدا (ص) نے ان كى تمام گستاخيوں اور جسارتوں كے باوجود اپنے غصّہ كو پى ليا اور انھيں ان كے حال پر چھوڑديا ، مسلمانوں نے بھى بردبارى سے كام ليا تا كہ ديكھيں آئندہ كيا ہوتا ہے؟
ابھى چند دن بھى نہ گذرے تھے كہ فتنہ كى آگ بھڑك اُٹھى _ ايك مسلمان عورت بنى قينقاع كے بازار ميں زيورات خريدنے كى غرض سے ايك سُنار كى دُكان كے سامنے بيٹھ گئي، يہوديوں نے اس عورت كے چہرے سے نقاب اتروانا چاہاليكن اس نے انكار كرديا

15
اس يہودى سنارنے چپكے سے اس عورت كى لاعلمى ميں اس كے كپڑے كے كنارہ كو اس كى پشت پر باندھ ديا جب وہ عورت كھڑى ہوئي تو اس كا جسم عريان ہوگيا تمام يہودى ہنسنے لگے، عورت نے فرياد شروع كى اور مسلمانوں كو مدد كے لئے پكارا ايك مسلمان نے اس يہودى سناركو قتل كرڈالا ، يہوديوں نے بھى حملہ كركے اس مسلمان كو قتل كرديا_
بات بڑھ گئي اور مسلمان انتقام لينے كے لئے اُٹھ كھڑے ہوئے ،بنى قينقاع كے يہودى دكانيں بندكركے اپنے قلعوں ميں چھپ گئے_
رسول(ص) خدا نے مدينہ ميں '' ابولبابہ''(2)كواپنا جانشين معيّن فرمايا اور لشكر اسلام كے ہمراہ 15 شوال بروز ہفتہ 2 ھ (ہجرت كے 20 ماہ بعد اور جنگ بدر كے 38 دن بعد) بنى قينقاع كے قلعہ كا محاصرہ كرليا، يہ محاصرہ پندرہ روز تك جارى رہا يہاں تك كہ يہوديوں نے تنگ آكر خود كو مسلمانوں كے حوالہ كرديا_
رسول خدا(ص) نے منافقين كے سربراہ ''عبداللہ بن اُبَّي '' كى منّت و سماجت كى وجہ سے ان كے قتل سے درگزر فرمايا اور انھيں شام كے مقام ''اذراعات'' كى جانب ملك بدر كرديا، ان كے اموال كو مسلمانوں كے لئے مال غنيمت قرار ديا اور خمس نكالنے كے بعد مسلمانوں كے درميان تقسيم كرديا_(3)

حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا حضرت علي (ع) كے ساتھ عقد
اسلام كى عظيم ترين خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا عقد ہجرت كے دوسرے سال بدر كى لڑائي كے دو ماہ بعد حضرت على عليہ السلام سے ہوا_
شادى كى تقريب نہايت سادہ مگر معنوى شان و شوكت كے ساتھ منعقد ہوئي

16
، حضرت فاطمہ زہرا (ع) كا مہر 500 درہم (4)تھاجو حضرت على (ع) نے اپنى زرہ فروخت كركے پيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں پيش كيا_
آنحضرت(ص) نے اس ميں سے كچھ درہم اپنے اصحاب كو ديئے تا كہ بازار سے حضرت فاطمہ زہرا (ع) كے ليے جہيز كا سامان خريد لائيں_
مندرجہ ذيل چيزيں جہيز كے عنوان سے خريدى گئيں:
1_ سات درہم كا ايك پيراہن
2_ ايك درہم كى سر پراوڑھنے والى چھوٹى چادر
3_ايك كالى چادر (قطيفہ)
4_ايك عربى چارپائي جو لكڑى اوركھجور كے پتوں كى بنى ہوئي تھي
5_دو توشك جن كا اوپر والا حصّہ مصرى كتان كا بنا ہوا تھا اور ايك ميں اون اور دوسرے ميں كھجور كے پتّے بھرے ہوئے تھے_
6_چار تكيے جن ميں سے دواون اور دو كھجور كى چھال سے بھرے ہوئے تھے_
7_ پردہ
8_ چٹائي
9_ چكى ( ہاتھ سے چلانے والي)
10_ ايك بڑا طشت
11_ كھال كى ايك مشك
12_ ايك لكڑى كا پيالہ ( دودھ كے لئے)
13_ايك كھال كا برتن ( پانى كے لئے)

17
14_ لوٹا
15_ تابنے كے چند بڑے برتن
16_مٹى كے چند كوزے
17_ چاندى كا دست بند
پيغمبراسلام(ص) كے اصحاب جب بازار سے لوٹے تو انھوں نے سامان آنحضرت(ص) كے سامنے ركھا آپ(ص) نے جب اپنى بيٹى كا جہيز ديكھا تو فرمايا:'' خدايا ان لوگوں كى زندگى كو مبارك قرار دے جن كے زيادہ تر ظروف مٹى كے ہيں''(5)
اس با بركت شادى كا پہلا ثمرہ حضرت امام حسن مجتبى عليہ السلام ہيں آپ 15 رمضان المبارك تين ہجرى كو جنگ احد سے پہلے متولد ہوئے_(6)

غزوہ سويق
پانچ ذى الّحجہ 3 ھ، ق بمطابق 5جون 624ئجنگ بدر ميںذلّت آميز شكست كے بعد ابو سفيان نے يہ نذر كى كہ جب تك محمد(ص) سے جنگ اور بدر كا انتقام نہيںلوں گا اس وقت تك عورتوں كے پاس نہيں جاو ںگا_ لہذا اس نے قبيلہ قريش كے دو سو،سواروں كو جمع كر كے مدينہ كى جانب كو چ كيا_
چونكہ دو سو ،سواروں كے ذريعہ مدينہ پر حملہ كرنے كى جرا ت اسميں نہيں تھى اس لئے شہر سے دور اس نے لشكر كو ٹھہرايا اور رات كى تاريكى سے فائدہ اُٹھا كر ''سلّام بن مشُكم ''كے پاس پہنچا جو كہ نبى نُضَيركے يہوديوںكا ايك بڑا آدمى تھا _ اس نے ابو سفيان كو مسلمانوں كى دفاعى كمزوريوں سے آگاہ كيا_

18
ابو سفيان لشكر گاہ كى طرف پلٹ آيا اور كچھ سپاہيوں كے ہمراہ حملے كى نيت سے مدينہ كى طرف بڑھااور ''عُرَيض' ' نامى جگہ پر لوٹ مار كي، دو گھروں ، كھجور كے چند درختوں يا كھيتوں ميں آگ لگائي اورنخلستان ميں كام كرنے والے دو مسلمانوں كو قتل كر ديا _
جب دشمنوںكے حملے كى خبر پيغمبر اسلام (ص) كو پہنچى تو آپ(ص) نے بغير كسى تاخير كے ''ابو لبابہ '' كومدينہ ميں اپنا جانشين بنايااور مہاجرين و انصار ميں سے دو سو آدميوں كا لشكر لے كر دشمن كے تعاقب ميں نكل پڑے ، رسول خدا (ص) نے ''قَرقَرَةُ الكُدر' ' تك دشمن كا پيچھا كيا ليكن دشمن فرار ہو چكا تھا اور بھاگتے ہوئے ''سويق (7) كے تھيلے ''كو گراںبارى سے بچنے كے لئے راستہ ہى ميںپھينك گيا تھا _ اس وجہ سے يہ غزوہ' غزوہ سويق كے نام سے مشہور ہوا_(8)

غزوہ بنى سُلَيم
15محرم 3 ھق بمطابق 15 جولائي 624ئ رسول خدا (ص) كويہ خبر ملى كہ غطفان و بنى سليم كے قبائل مكہ اور شام كے درميان بخارى كے راستے ميں (اطراف قَرقَرالكُدر ميں ) مدينہ پر حملہ كرنے كى تيارياں كر رہے ہيں_
رسول خدا(ص) دو سو افراد كے ساتھ ان كى طرف بڑھے دشمن نے جب لشكر اسلام كو نزديك ہوتے ہوئے محسوس كيا تو رات كى تاريكى كا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ كھڑے ہوئے_
لشكر اسلام نے دشمنوں كے پانچ سو اونٹ غنيمت ميں حاصل كئے اور مدينہ كى طرف لوٹ آئے_ (9)

19
''قَرَدَة''ميں سرّيہ زيد بن حارثہ
يكم جما دى الثانى 3 ھ ق بمطابق 22 نومبر 624ئ جنگ بدر اور يثرب ميں اسلامى تحريك كے نفوذ كے بعد ' قريش كا مغربى تجارتى راستہ جو مكہ سے شام كى طرف جاتاتھا مسلمانوں كے زير نگين آجانے كى وجہ سے غير محفوظ ہو گياتھا _ قريش نے يہ ارادہ كيا كہ اپنے اورقافلہ كے تحفظ كے لئے اس راستہ كو چھوڑ كر طويل مشرقى راستہ اپنائيں_ يہ راستہ نجد كى آباديوں سے ہوكر، عراق اور عراق سے شام جاتا تھا_ انھوں نے اس راستہ سے گزرنے كے لئے ''راہنما'' كا انتظام كيا_
اس راستے سے پہلا قافلہ ''صفوان بن اُميّہ ''اور قريش كے ديگر سرداروں كى سربراہى ميں شام گيا_
رسول خدا (ص) نے قافلے كى روانگى سے باخبر ہوتے ہى بلاتاخير ايك سو سواروں پر مشتمل ايك مضبوط لشكر تشكيل ديا اور ''زيد بن حارثہ ''كو اس كا كمانڈر بناكر حكم ديا كہ اس نئے راستے پر پہلے سے پہنچ كر قريش كے قافلے كا راستہ بند كرديں_ جناب زيد نجد كى طرف روانہ ہوئے اور اونٹوں كے نشان قدم كے ذريعہ قافلے كا تعاقب كيا، يہاں تك كہ مقام ''قَرَدہ ''پر كارواں كو جاليا_
قافلے كے نگران اور سر براہ افراد بھاگ كھڑے ہوئے اور پورا قافلہ بغير كسى خونريزى كے مسلمانوں كے ہاتھ آگيا اور قافلے كے دو نگہبان اسير ہوگئے_
خمس نكالنے كے بعد بقيہ مال '' جو كہ اسى ''80 ''ہزار درہم تھے'' جنگى دستے كے سپاہيوں
كے درميان تقسيم ديا گيا_ (10)

20
غزوہ غَطَفَان
نجد ميں ''ذى امرّ ''كے مقام پر رياض سے 11كيلوميٹر شمال مغرب ميں 12 ربيع الاول 3 ھ_ ق بمطابق 5 ستمبر 624ء كو يہ غزوہ ہوا_
رسول خدا(ص) كو خبر ملى كہ '' بنى ثَعلَبَہ'' اور '' بنى مُحارب'' كى ايك بڑى جمعيت نے ''ذى ا مَرّ'' كے مقام پر ڈيرہ ڈال ركھا ہے اور دُعثور بن حارث نامى شخص كى كمان ميں مدينہ پر حملے كا ارادہ ركھتے ہيں رسول خدا(ص) چارسوپچاس جنگجو افراد كو جمع كركے دشمن كى طرف بڑھے_ يہ اطلاع ملتے ہى دشمن پہاڑيوں كى جانب بھاگ گيا _ غرض كہ كوئي ٹكراؤ نہيں ہوا_(11)

جنگ احد كے مقدمات
بروز ہفتہ7 شوال 3 ھ ق بمطابق 26 مارچ 625ئ

جنگ رونما ہونے كے اسباب
اسلامى مركز ''مدينہ'' پر قريش كے فوجى حملے كے مختلف اسباب ہيں جنكى جانب مختصر طور پر اشارہ كيا جا رہا ہے_
1_ جنگ بدر ميںمسلمانوں كى شاندار فتح ، قريش، يہود اور منافقين كے لئے باعث ننگ اور ناگوار تھي_ قريش نہ صرف اپنے سرداربلكہ اپنى سردارى ، ہيبت اور عربوں كے درميان موجود اثر و رسوخ كوبھى كھو بيٹھے اور يہ زمانہ جاہليت كے عربوں كے لئے نہايت رنج كا باعث تھا جو سردارى كو اپنا قومى فخر سمجھتے تھے_

21
2 _ كينہ و انتقام كى آگ ; قريش اور ان كے مقتولين كے وارثوں كے دلوں ميں كينہ اور انتقام كى آگ شعلہ ور تھى اور قريش كے سرداروں نے كشتگان بدر پر رونے كو حرام قرار ديا تھا تا كہ مناسب موقع پر ان كے جذبات بھڑكا كر منظم طريقے سے اسلام اور مسلمانوں سے انتقام ليا جاسكے_
3 _يہوديوں كا بھڑكانا ; يہوديوں كے لئے اسلام كا پھيلنا خوش آئند نہ تھا _ لہذا انھوں نے مشركين قريش كو بھڑكانے ميں بڑا زبردست كردار ادا كيا_ بطور نمونہ ملاحظہ ہو _ ''كعب بن اشرف ''جنگ بدر كے بعد مدينہ سے مكہ كى طرف دوڑا اور وہاں قريش كے مقتولين كے لئے مرثيہ كہا اور مگر مچھ كے آنسو بہا كر ان كے زخم تازہ كرديئے _ يہاں تك كہ انہيں جنگ پر آمادہ كرنے كے لئے پاك باز مسلمان عورتوں كى خوبصورتى كا نقشہ اشعار كے قالب ميں ڈھال كر پيش كيا تا كہ مشركين كو مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے، اور ان كى عورتوں اور لڑكيوں كو اسير بنانے پر اُكسائے_
4_ اقتصادى محاصرے كا توڑ; قريش كى اقتصادى و معاشى زندگى كا دار و مدار تجارت پر تھا ، تجارتى راستے غير محفوظ ہونے اور مسلمانوں كے حملے كے ڈرسے ان كى تجارت خطرے ميں پڑ گئي تھى اور اقتصادى و معاشى زندگى جارى ركھنا مشكل ہوگيا تھا اس لئے اس محاصرے كو توڑنا اور ان مشكلات سے جان چھڑوانا بہت ضرورى ہوگيا تھا_
5 _ آئندہ كے لئے پيش بندي: قريش اس بات سے بخوبى واقف تھے كہ اگر مسلمانوں كو قدرت حاصل ہوگئي تو وہ انہيں ہرگز نہيں چھوڑيں گے اور گذشتہ چند سالہ آزار و اذيت كا جواب ضرور ديں گے_ اس كے علاوہ بُت پرستوں كے ہاتھوں سے مسجد الحرام كو آزاد كروانے كے لئے كسى بھى كوشش سے دريغ نہيں كريں گے_

22
يہ سارى باتيں سبب بنيں كہ قريش حملہ كرنے ميں پيش قدمى كريں اور بزعم خود اسلام اور پيغمبراكرم (ص) كا كا م تمام كرديں_

پہلا قدم ، جنگى بجٹ كى فراہمي
اس وسيع فوج كشى كے سلسلے ميں سب سے پہلا عملى اقدام جنگى مشقوں اور ديگر امور كے لئے زيادہ سے زيادہ بجٹ كى فراہمى تھا ، قريش ، دارالندوہ ( قريش كے مشورہ كرنے كى جگہ ) ميں جمع ہوئے اور بحث و مباحثہ كے بعد آخر ميں يہ طے پايا كہ پچاس ہزار طلائي دينار( تقريباً ساڑھے سات كروڑ تومان) ہونا چاہيئےوريہ رقم اس تجارتى كارواں كے منافع سے مہيّا كى گئي جس كوجنگ بدر سے پہلے ابوسفيان مكّہ ميں صحيح و سالم لے آيا تھا_(12)
قرآن اس سلسلے ميں كہتا ہے كہ ''بيشك كافر اپنے اموال كو خرچ كرتے ہيں تا كہ (لوگوں كو) خدا كے راستہ سے باز ركھيں وہ لوگ ان اموال كو خرچ كر رہے ہيں ليكن يہ ان كى حسرت كا باعث ہوگا_ اس كے بعد ان كو شكست ہوگى اور آخرت ميں كافر جہنّم ميں جائيں گے _(13)

لشكر كى جمع آوري
كفار قريش ، جنہوں نے نزديك سے اسلامى سپاہيوں كى شجاعت اور جذبہ شہادت كو
ديكھا تھا ، انھوں نے تہيّہ كيا كہ پورى توانائي كے ساتھ جنگ كے لئے اُٹھ كھڑے ہوں اور قريش كے علاوہ مكّہ كے اطراف و جوانب ميں موجود قبائل كے بہادروں كو بھى

23
جنگ ميں شركت كى دعوت ديں_
چار آدميوں كو عرب كے باديہ نشين قبائل كے درميان بھيجا گيا تا كہ انھيں لڑنے اور مدد كرنے كى دعوت ديں، يہ چار آدمى ، عَمرو بن عَاص ، ہُبَيرہ بن ابو وَہَب ، ابن الزَّبَعرى اور ابو عَزَّہ تھے_
ابو عزہ شروع ميں اس ذمّہ دارى كو قبول نہيں كر رہا تھا ، وہ كہتا تھا كہ '' جنگ بدر كے بعد محمد (ص) نے تنہا مجھ پر احسان كيا اور مجھ كو بغير تاوان كے آزاد كرديا ميں نے اُن سے وعدہ كيا تھا كہ ان كے مقابل آنے والے كسى بھى دشمن كى مدد نہيں كروں گا _ ميں اپنے پيمان كاوفادار ہوں''_
ليكن لوگوں نے اس كو قانع كيا تو وہ باديہ نشين قبائل كے درميان جاكر اشعار كے ذريعہ لوگوں كو رسول خدا (ص) كے خلاف جنگ كرنے پر اكساتا اور لشكر اكٹھا كرتا رہا _دوسرے تين آدميوں نے بھى قبائل كو لڑائي پر اكساكر جمع كيا اور انجام كار قبائل كنَانہ اور تھَامہ كے كچھ لوگ قريش كے ساتھ مل كر آنحضرت(ص) كے خلاف جنگ كرنے پر تيار ہوگئے_(14)

سياسى پناہ گزين
رسول(ص) خدا كے مدينہ ہجرت كے بعد ابوعامر فاسق ،قبيلہ اَوس كے 50 افراد كے ساتھ مشركين كے سربرآوردہ افراد كى پناہ ميں آگيا تھا وہ مشركين مكّہ كو رسول خدا(ص) كے خلاف جنگ كرنے پر اكساتا رہتا تھا اور اپنے قبيلے كے افراد كے ساتھ مشركين كى تياريوں ميں شريك تھا اس نے كہا كہ يہ 50 افراد ميرے قبيلے كے ہيںاور جس وقت ہم سرزمين مدينہ پر

24
پہنچيں گے اس وقت قبيلہ اوس كے تمام افراد ہمارى طرفدارى كے لئے اُٹھ كھڑے ہوںگے_

لشكر قريش كى مدينہ روانگي
مكمل تيارى كے بعد قريش نے لشكر كو كوچ كا حكم ديا ، يہ لشكر تين ہزار افراد پر مشتمل تھا جس ميں سات سو زرہ پوش ، دو سو گھڑ سوار ، تين ہزار اونٹ اور بے پناہ اسلحہ كے علاوہ دوران جنگ گا بجا كر سپاہيوں كو تازہ دم كرنے كے ليے 15 عورتيں بھى شريك تھيں_
مشركين كے لشكر كا سپہ سالار ابوسفيان تھا ، سواروں كى كمان خالد بن وليد كے ہاتھ ميں تھى اور ''عكرمہ بن ابى جہل ''خالد كے نائب كى حيثيت سے شريك تھا اس بار لشكر مشركين ہر ايسے اختلاف سے اجتناب كر رہا تھا جو ان كو دو گروہوں ميں بانٹ ديتا_

عبّاس كى خبر رساني
جب لشكر نے كوچ كا ارادہ كيا تو پيغمبر اكرم(ص) كے چچا عبّاس بن عبدالمطلب نے '' جو مخفى طور پر مسلمان ہوچكے تھے اور بہت قريب سے قريش كى تياريوں اور كوچ پر نظر ركھے ہوئے تھے'' پيغمبراسلام (ص) كو مشركين كے لشكر كى جنگى صورتحال كى اطلاع دينے كے ليے ايك خط تحرير كيا_
اور قبيلہ بنى غفار كے ايك قابل اعتماد شخص كے ذريعہ آنحضرت(ص) كى خدمت ميں بھيجا_ يہ فرستادہ اتنى تيزى سے روانہ ہوا كہ مكّہ اور مدينہ كا درميانى فاصلہ صرف تين دن ميں طے كر ليا_

25
جب يہ سوار مدينہ پہنچا تو اس وقت پيغمبر اكرم(ص) ' ' قُبا'' ميں تھے _ وہ آنحضرت (ص) كے پاس پہنچا اور خط ديا_ رسول خدا (ص) نے خط ايك شخص كو دياتا كہ آنحضرت (ص) كو سُنائے پھر آپ(ص) نے اس سے فرمايا كہ اس كا مضمون كسى كو نہ بتانا_
مدينہ كے يہودى اور منافقين نامہ بَر كے آنے سے آگاہ ہوچكے تھے _ اور انھوں نے مشہور كرديا كہ محمد(ص) كے پاس بُرى خبر پہنچى ہے_ تھوڑى ہى دير ميں لوگ قريش كى لشكركشى سے باخبر ہوگئے_ (15)

سپاہ قريش راستہ ميں
راستہ ميں جہاں كہيں پڑاؤ ہوتا لشكر كے ہمراہ موجود عورتيں گانا بجانا شروع كرديتيں اور مقتولين قريش كى ياد دلاكر سپاہيوں كو بھڑكاتى قريش كے سپاہى جہاں كہيں پانى كے كنارے رُكتے اونٹوں كو ذبح كركے اُن كا گوشت كھاتے_(16)
عمروبن سالم خزاعى نے مكّہ اور مدينہ كے درميان مقام ''ذى طوى '' ميں قريش كو خيمہ زن ديكھا تو مدينہ آئے اور جو كچھ ديكھا تھا اس كى خبر پيغمبراكرم(ص) كو دي(17)_

معلومات كى فراہمي
پيغمبر اكرم (ص) نے جمعرات كى رات 5 شوال 3 ھ ق، بمطابق 24 مارچ 625كو فضالہ كے سراغ رساں بيٹوں ''انس اور مونس ''كو دشمن كى نقل و حركت كے بارے ميں معلومات اكھٹى كرنے كے لئے بھيجا_ انھوں نے قريش كو ''عقيق '' كے مقام پر ديكھا اور ان كے پيچھے ہولئے جب لشكر نے ''وطاء '' كے مقام پر پڑاؤ ڈالا تو وہاں سے پيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں

26
رپورٹ پيش كرنے كے لئے واپس آگئے_(18)

لشكر ٹھہرنے كى خبر
جيسے ہى سپاہ مشركين نے احد كے نزديك وطاء كے مقام پر پڑاؤ ڈالا تو پيغمبراكرم (ص) نے ''حُباب بن مُنذر ''كو پوشيدہ طور پر مامور فرمايا كہ دشمن كى قوّت كا اندازہ كريں اور ضرورى معلومات جمع كركے اس كى رپورٹ ديں_ رسول خدا(ص) نے اس بات كى تاكيد كى كہ اپنى رپورٹ دوسروں كى موجودگى ميں پيش نہ كريں مگر يہ كہ دشمن كى تعداد كم ہو ( تو اس وقت كوئي حرج نہيں ہے)_
''حُباب ''دشمن كے لشكر كے قريب پہنچے اور نہايت دقت نظر سے جائزہ لے كر واپس آئے اور پيغمبراكرم (ص) سے تنہائي ميں ملاقات كى اور كہا كہ ''اے رسول خدا(ص) ميں نے ايك بڑا لشكر ديكھاہے ميرا اندازہ ہے كہ كم و بيش تين ہزار افراد ، دو سو گھوڑے اور زرہ پوش سپاہيوں كى تعداد تقريباً سات سو كے قريب ہوگى ، رسول خدا (ص) نے پوچھا كہ تم نے عورتوں كو بھى ديكھا؟ حباب نے كہا كہ ايسى عورتيں ديكھى ہيں جن كے پاس گانے بجانے كا سامان ہے_ پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا كہ '' يہ عورتيں مردوں كو لڑائي پر اُكسانا اور مقتولين بدر كى ياد دلانا چاہتى ہيں، اس سلسلہ ميںتم كسى سے كوئي بات نہ كرنا خدا ہمارى مدد كے لئے كافى اور بہترين حفاظت كرنے والا ہے اے خدا ہمارى روانگى اور حملہ تيرى مدد سے ہوگا_ (19)

27
مدينہ ميں ہنگامى حالت
شب جمعہ 6 شوال 3 ھ ق، بمطابق 25 مارچ 625ئ _ اوس و خزرج كے برجستہ افراد سعد بن معاذ ، اُسَيد بن حُضَير اور سعد بن عُبَادة چند مسلح افراد كے ہمراہ مسجد اور پيغمبر(ص) خدا كے گھر كے دروازہ پر حفاظت كے لئے كھڑے ہوگئے_
مشركين كے شب خون مارنے كے خوف سے صبح تك شہر مدينہ كى نگرانى كى جاتى رہي_(20)

فوجى شورى كى تشكيل
رسول خدا (ص) اس فكر ميں تھے كہ اگر مسلمان مدينہ ميں رہ كر شہر كا دفاع كريں گے تو مسلمانوں كى فوجى شان و شوكت كمزور پڑ جائے گى اور دشمن جرى ہوجائے گا اور ممكن ہے دشمن كے شہر كے قريب ہوتے ہى منافقين و يہود اندرونى سازش ( يا بغاوت) كے ذريعہ دشمن كى كاميابى كى راہ ہموار كريں دوسرى طرف شہر ميں رہنے كا فائدہ يہ ہے كہ قريش مجبور ہوں گے كہ شہر پر حملہ كريں اور اس صورت ميں دست بدست لڑائي كے حربوں كو بروئے كار لاكر دشمن پر ميدان تنگ اور شكست سے دوچار كيا جاسكتا ہے اور شہر ميں رہنا سپاہيوں ميں دفاع كے لئے زيادہ سے زيادہ جوش پيدا كرے گا_
قريش بھى اسى فكر ميں تھے كہ اگر مسلمان مدينہ ميں رہے تو درختوں كو كاٹ كر اور نخلستان ميں آگ لگا كر ناقابل تلافى اقتصادى نقصان پہنچايا جائے گا_
رسول خدا (ص) نے دفاعى حكمت عملى كى تعيين كے لئے اجلاس بلايا اور اصحاب سے مشورہ طلب كيا اجلاس ميں حضوراكرم(ص) نے اعلان كيا كہ اگر آپ لوگ مصلحت سمجھيں تو ہم مدينہ

28
ميں رہيں اور دشمنوں كو اسى جگہ چھوڑديا جائے جہاں وہ اُترے ہيں تا كہ اگر وہ وہيں رہيں تو زحمت ميں مبتلا رہيں اور اگر مدينہ پر حملہ كريں تو ہم ان كے ساتھ جنگ كريں_
عبداللہ بن اُبى نے اُٹھ كر كہا كہ '' يا رسول اللہ(ص) ابھى تك كوئي دشمن اس شہر پر فتحياب نہيں ہوسكا ماضى ميں ہم نے دشمن كے ساتھ جب بھى ميدان ميں لڑائي كى شكست سے دوچار ہوئے اور جب بھى دشمن نے چاہا ہمارے شہر ميں آئے تو ہم نے شكست دى لہذا آپ انھيں ان كے حال پر چھوڑ ديجئے _ اس لئے كہ اگر وہ وہيں رہے تو بدترين قيد ميں ہيں اور اگر حملہ آور ہوئے تو ہمارے بہادر ان سے لڑيں گے ، ہمارى عورتيں اور بچّے چھتوں سے ان پر پتھراؤ كريں گے اور اگر پلٹ گئے توشرمندہ رسوا ، نااُميد اور بغير كسى كاميابى كے واپس جائيں گے '' مہاجر ين و انصار كے بزرگ افراد حسن نيّت كے ساتھ اسى خيال كے حامى تھے ليكن شہادت كے شوقين نوجوانوں كى بڑى تعداد خصوصاً وہ لوگ جو جنگ بدر ميں شريك نہيں ہوسكے تھے دشمن سے روبرو لڑنے كے لئے بے قرار تھے اور رسول خدا (ص) سے يہ خواہش ظاہر كر رہے تھے كہ دشمن كے مقابل ميدان كار زار ميں لے چليں_
اس اكثريت ميں لشكر اسلام كے دلير سردار حضرت حمزہ (ع) بھى تھے انھوں نے فرمايا: اس خدا كى قسم جس نے قرآن كو نازل فرمايا ہم اس وقت تك كھانا نہيں كھائيں گے جب تك شہر سے باہر دشمنوں سے نبرد آزمائي نہ كرليں_
جواں سال افراد كچھ اس طرح كا استدلال پيش كر رہے تھے كہ : اے خدا كے پيغمبر(ص) ہم اس بات سے ڈر رہے ہيں كہ كہيں دشمن يہ خيال نہ كر بيٹھيں كہ ہم ان كے سامنے آنے سے ڈرتے ہيںاور شہر سے باہر نكلنا نہيں چاہتے _ ہميں اچھا نہيں لگتا قريش اپنے رشتہ داروں كى طرف واپس جاكر كہيں كہ ہم نے محمد(ص) كو يثرب ميں محصور كرديا ; اور ( اس طرح) اعراب

29
كو ہمارے مقابلے ميں دلير بناديں_ (21)

آخرى فيصلہ
جوانوں كے اصرار پر رسول خدا (ص) نے اكثريت كى رائے كو قبول فرمايا اور مسلمانوں كے ساتھ نماز جمعہ ادا كى ،خطبہ ميں انہيں جانفشانى اور جہاد كى دعوت دى اور حكم ديا كہ دشمن سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوجائيں ، پھر آپ (ص) نے نماز عصر جماعت كے ساتھ پڑھائي ، اس كے بعد فوراً گھر كے اندر تشريف لے گئے ، جنگى لباس زيب تن فرمايا ''خود ''سرپر ركھى تلوار حمائل كى اور جب اس حليہ ميں گھر سے باہر تشريف لائے تو وہ لوگ جو باہر نكلنے كے سلسلہ ميں اصرار كر رہے تھے، شرمندہ ہوئے اور اپنے دل ميں كہنے لگے كہ '' جس بات كى طرف پيغمبر(ص) كا ميلان نہيں تھا ہميں اس كے خلاف اصرار كرنے كا حق نہيں تھا''_ اس وجہ سے وہ رسول خدا(ص) كے قريب آئے اور كہا كہ'' اگر آپ چاہيں تو مدينہ ميں رہيں '' رسول(ص) خدا نے فرمايا '' يہ مناسب نہيں ہے كہ پيغمبر(ص) لباس جنگ پہن لے اور قبل اس كے كہ خدا دشمنوں كے ساتھ جنگ كى سرنوشت كو روشن كردے وہ لباس جنگ كو اُتار پھينكے _
اب ہم جو كہہ رہے ہيں وہ كرتے جائيں خدا كا نام لے كر راستہ پرگامزن ہوجاؤ اگر صبر كروگے تو كامياب رہوگے''_(22)

30
سوالات:
1 _ غزوہ بنى قينقاع كب واقع ہوا اور اس كا نتيجہ كيا رہا؟
2_ ''ذى قرد'' كے مقام پر سّريہ ''زيد بن حارثہ ''كس مقصد كے تحت انجام پايا؟
3_ حضرت على (ع) و حضرت فاطمہ (ع) كا عقد مبارك كس سال ہوا؟
4_ جنگ احدشروع ہونے كے اسباب كيا تھے؟
5_ جنگ احد كا بجٹ كفّار نے كس طرح پورا كيا؟
6_ راہ خدا سے روكنے كى خاطر مال خرچ كرنے كے سلسلہ ميں قرآن كيا كہتا ہے؟
7_ رسول خدا (ص) قريش كى روانگى سے كيسے واقف ہوئے؟
8_ دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے مسلمانوں نے آخرى فيصلہ كيا كيا ؟

31
حوالہ جات
1_ان شعراء كے نام حسب ذيل ہيں:
كعب بن اشرف يہودى ، ابى عفك يہودى اور مشركين ميں سے ايك عورت عصماء بنت مروان ، طبقات ابن سعد جلد 2 ص 27/28_
2_ ابن ہشام كى تحرير كے مطابق بشير بن عبدالمنذر ( ابولبابہ) اور ابن اسحاق كى تحرير كے مطابق عبادہ بن وليد بن عبادہ بن صامت_
3_ مغازى واقعدى جلد 1 ص 176، سيرة ابن ہشام جلد 3 ص 47، تاريخ طبرى جلد 2 ص 497، طبقات ابن سعد جلد 2 ص 27_
4_ ہر درہم 12 نخود كے يعنى آدھا مثقال چاندى كے برابر ہے اس حساب سے آپ كا مہر 250 مثقال چاندى ہے_
5_ اللہم بارك لقوم: جُلّ انيتہم الخزف _ كشف الغمہ جلد 1 ص 359_
6_مزيد معلومات كے لئے كشف الغمہ كى طرف رجوع كريں ج1 ص 374/348، بحار الانوار ج 43 ص 145/92 مطبوعہ بيروت ،سيرة المصطفى ص 329_326_
7_ انشاء اللہ حضرت علي(ع) و فاطمہ (ع) كے عقد كا تفصيلى حال امامت كى تاريخ ميں بيان كيا جائے گا_
8_ سويق ايك غذا ہے جو چاول اور جوكے آٹے، شہد اور دودھ سے يا پھر خرمے آٹے اور روغن سے بنتى ہے_ جيسے ستّو_
9_ مغازى واقدى جلد 1 ص 181_ طبقات ابن سعد جلد 2 ص 130_ سيرة ابن ہشام جلد 2 ص 44، دلائل النبوة بيہقى جلد 2 ص 322_
10_ مغازى واقدى جلد 1 ص 183_ طبقات ابن سعد جلد 2 ص 35_ سيرة ابن ہشام جلد 4/3 ص 43_
32
11_ مغازى واقدى جلد 1 ص 197_طبقات جلد 2 ص 36 _ متاع الاسماع ص 112_
12_ مغازى واقعدى جلد 1 ص 190_193_ طبقات ابن سعد جلد 2 ص 34_
13_ مغازى واقدى جلد 1 ص 200_
14_ سورہ انفال آيت 36_
15_ مغازى واقدى جلد 1 ص 20_
16_ مغازى واقدى جلد 1 ص 204_
17_ مغازى واقدى جلد 1 ص 205،206_
18_ مغازى واقدى جلد 1 ص 205_
19_ مغازى واقدى جلد 1 ، ص 206،207_
20_ مغازى واقدى جلد 1 ص 270،208_
21_ مغازى واقدى جلد 1، ص 208_
22_ مغازى واقدى جلد 1 ، ص 219،209_
23_ مغازى واقدى جلد 3، ص 241،213_