291
سبق 15:
غزوہ تبوك
293
غزوہ تبوك(1)
جزيرہ نما ئے عرب ميں مشرك كے عظيم ترين مركز كى شكست اور تسخير كے ساتھ ہى حجاز كے سرداروں نے بھى رسول خد ا(ص) كے سامنے سر تسليم خم كرديا اور اس طرح جب ملك كى شمالى حدود ميں دين اسلام كى اشاعت كے امكانات زيادہ ہوگئے تو رومى حكومت كے ايوانوں ميں وحشت و اضطراب كے باعث لرزہ پيدا ہونے لگا اس كى عظےم ترين عسكرى طاقت چونكہ انتہائي مرتب ومنظم تھى اور جنگوں ميں اپنے طاقتور حريف يعنى ملك ايران پر وہ پے در پے فتوحات حاصل كرچكا تھا اسى لئے اسے اپنى طاقت پر ناز و غرور تھا چنانچہ اس طاقت كے زعم ميں اس نے فيصلہ كرليا كہ اپنے اس مسلح و منظم لشكر كے ساتھ مسلمانوں پر حملہ كردے_
رسول خدا (ص) كو علم ہوگيا كہ شہنشاہ روم ''ہرقل'' نے عظےم لشكر جمع كرليا ہے اور فوجيوں كو انكى ايك سال كى تنخواہ پيشگى ادا كردى ہے ، اس كے ساتھ ہى اس نے سرحدوں پر واقع ''لخم'' ، ''جذام''، ''غسان'' اور ''عاملہ'' نامى علاقے كے لوگوں كو بھى اپنے ساتھ ملا ليا ہے نيز اس كا ہر اول دستہ ''بلقائ(2)'' تك آن پہنچا ہے (3)_
رسول خد ا(ص) كو جب يہ اطلاع ملى تو اس وقت موسم انتہائي گرم تھا اور كھجور پك كر اتارنے كے قابل ہوچكى تھى ايك طرف راستے كى دورى اور دوسرى طرف سپاہ روم كى كثرت ايسے عوامل تھے جن كے باعث سپاہ كو روانہ كرنا سخت دشوار كام تھا بالخصوص ان واقعات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو معركہ موتہ كے موقع پر پيش آچكے تھے ليكن ان لوگوں كيلئے جو واقعى مسلمان
294
تھے اسلام كى قدر وقيمت ذاتى آسائشے و آرام اور مادى منفعت سے كہيں زيادہ تھى ا ور وہ اسلام كى فلاح كى خاطر ان كو نظر انداز كرسكتے تھے چنانچہ اس خےال كے پيش نظر رسول خدا (ص) نے صحابہ كو جمع كيا اور مختصر طور پر دشمن كے استعداد اور اس كى عسكرى بالادستى كے بارے ميں مطلع كيا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے لشكر كى تيارى اورر وانگى كے لئے سعى وكوشش شروع كردى (4) چنانچہ قبائل كے درميان اور مكہ كى جانب رسول خدا (ص) كے نمائندے روانہ كئے گئے تاكہ وہ لوگوں كو مقدس جہاد ميں شركت كى دعوت ديں_(5)
ناسازگار حالات كے باوجود تيس ہزار جنگجو سپاہيوں نے جن ميں دس ہزار سوار بھى تھے رسول خدا (ص) كى پكار پر لبيك كہا_(6)
رسول خدا (ص) نے جنگ كے اخراجات كيلئے مالدار لوگوں سے كہا كہ سپاہ كى مال و اسلحہ كے ذريعے مدد كريں (7) اس كے علاوہ جب پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے يہ اعلان كرديا گيا كہ اس سفر كا مقصد كيا ہے تو مسلمان اس اسلحہ اور ساز و سامان كے ساتھ جو ان كے پاس تھا اسے لے كر بير كوںميں جمع ہوگئے _
رسول خد ا(ص) كے فرمان پر لوگوں كے مختلف موقف
جب ہم تاريخ كى كتابوں كے صفحات اور ان آيات پر نظر ڈالتے ہيں جو اس سلسلے ميں نازل (8) ہوئي ہيں تو ہم ديكھتے ہيں كہ اس غزوہ كے بارے ميں مسلمانوں كے افكار و نظريات مختلف و گوناگوں تھے جس كى كيفيت ذيل ميں درج ہے_
1_خاص مو من افرادكو (اور اكثريت ان ہى پر مشتمل تھى ) جيسے ہى رسول خدا (ص) كى دعوت كا علم ہوا تو اس ساز وسامان كے ساتھ جوان كے پاس موجود تھا رسول خدا (ص) كى سپاہ ميں
295
شامل ہوگئے_
2_ايك گروہ ايسا بھى تھا جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس كے پاس سوارى كے جانور نہ تھے چنانچہ انہوں نے رسول خدا (ص) سے كہا كہ اگر سوارى كا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے كو تيار ہيں ليكن جب رسول خد ا(ص) نے كہا كہ سوارى كے جانور كا فراہم كرنا تو ممكن نہيں تو ان كى آنكھوںميں آنسو آگئے اور وہ اشك بار اپنے اپنے گھروں كى طرف واپس چلے گئے _ (9)
3_كچھ لوگ ايسے بھى تھے جنہوں نے نہ فقط يہ كہ فرمان رسول (ص) كے سامنے سر نہيں جھكايا بلكہ سپاہ كى روانگى ميں جس حد تك ممكن ہوسكتا تھا خلل اندازى سے بھى باز نہ آئے چنانچہ وہ مجاہدين جو جنگ ميں شركت كرنا چاہتے تھے ان سے يہ لوگ كہتے تھے كہ : اس سخت گرمى ميں جنگ پر مت جائو (10) اس كے علاوہ جو لوگ ان مجاہدين كو مالى مدد دينا چاہتے تھے تو ان كا بھى يہ لوگ مذق اڑاتے (11) كسى پر ريا كا رہونے كا الزام لگا تے اور كسى كى يہ كہہ كر حوصلہ شكنى كرتے كہ تمہارے پاس سامان سفر بہت كم ہے جنگ پر جاكر كيا كرو گے (12)
4_ كچھ لوگ ايسے بھى آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار كرنے كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوتے اور كوئي بے بنياد بہانہ تراش كر آنحضرت (ص) سے يہ درخواست كرتے كہ انہيں مدينہ ميں ہى رہنے ديا جائے(13)_
5_ بعض نے سپاہ اسلام كے ساتھ جنگ ميں شريك ہونے سے ہچكچا ہٹ كامظاہرہ كيا ليكن تردّدميں ان كى بدنيتى شامل نہيں تھى بلكہ اس كا سرچشمہ جنگ كے معاملے ميں ان كى سستى اورغفلت تھى دشمن كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ انہيںاپنے درختوں اور
296
محصولات كے ساتھ دلچسپى تھى اور يہ كہتے تھے كہ ہم كھجوريں جمع كرنے كے بعد ہى جنگ ميں شركت كريں گے _ (14)
تبوك كى جانب روانگي
منافقين كى ہر قسم كى رخنہ اندازى ،افترا پردازى اور منفى پروپيگنڈے كے باوجود رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر كرديا اورماہ رجب سنہ 9 ہجرى قمرى كو اس عظيم لشكر كے ہمراہ جسے اس دن تك مدينہ ميں كسى كى آنكھ نے نہ ديكھا تھا شمال كا طويل اور پر مشقت راستہ اختيار كيا _
تاريخ كى بعض كتابوں ميں درج ہے (15)كہ رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين اسى وجہ سے مقرر كيا كہ آنحضرت (ص) كو عربوں كى بدنيتى كے بارے ميں بخوبى علم تھا جن كے ساتھ آپ (ص) نے جنگ كى تھى اور ان كے بہت سے رشتہ داروں كو تہ تيغ كيا تھا اس كے علاوہ آپ(ص) مدينہ كے ان منافقين كى كارستانيوں سے بھى بے خبر نہ تھے جنہوں نے كوئي نہ كوئي بہانہ بناكر اس جنگ ميں شركت كرنے سے اجتناب كيا تھا اور يہ احتمال تھا كہ جب رسول خد ا(ص) كافى عرصے تك مدينہ سے باہر تشريف فرمارہيں گے تو آپ (ص) كى غير موجودگى نيز مسلمانوں كى تنہائي كا وہ غلط فائدہ اٹھانا چاہيں گے اور مدينہ پر حملہ كرديں گے ، حضرت على (ع) كى مدينہ ميں موجودگى رسول (ص) خدا كى موجود گى كى طرح دشمنوں كو خوف زدہ ركھنے ، ان كى سازشوں كو نام كام بنانے اور مركزى حكومت كى حفاظت و پاسدارى كيلئے اشد ضرورى تھي_
چنانچہ يہى وجہ تھى جب رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين مقرر كيا تو اس سلسلے ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :
297
''انَّ الْمَديْنَةَ لَا تَصْلَحُ اَلَّا بيْ اَوْبكَ''_
''مدينہ ميرے يا تمہارے بغير اصلاح پذير نہ ہوگا''_(16)
سپاہ اسلام كے سامنے چونكہ اقتصادى مشكلات، راستے كى دورى ، سوارى كے جانوروں كى كافى كمي، سخت گرمي، جھلسادنے والى ہوا كى تپش جيسى مشكلات تھيں اسى لئے اس لشكر كو ''جَيشُ العُسرَة'' كے عنوان سے ياد كيا گيا ہے (17) چنانچہ يہ سپاہ ان تمام سختيوں كو برداشت كرتى ہوئي ''تبوك'' نامى مقام پر پہنچ گئي مگر يہاں پہنچ كر معلوم ہوا كہ دشمن كا دور دور تك اتا پتہ نہيں گويا ہر قل كو جب اسلام كى عظےم سپاہ كى روانگى كا علم ہوا تو اس نے عافيت اسى ميں سمجھى كہ وہ پسپا ہو كر اپنے ملك كى حدود ميں چلاجائے(18) ليكن سپاہ اسلام نے وسيع پيمانے پر انتہائي تيزى كے ساتھ شمالى حدود كے كنارے پہنچ كر اور بيس روز تك وہاں قيام پذير رہ كر دشمنان اسلام كو بہت سے پند آموز سبق سكھاديئے جن ميں سے چند كا ہم يہاں ذكر كريں گے_
1_روم كى شہنشاہيت اور اسكے دست پروردہ سرحدى نگہبانوں پر اسلام كى طاقت و عظمت قطعى طور آشكار و عياں ہوگئي اور يہ حقيقت پايہ ثبوت كو پہنچ گئي كہ مسلمانوں كى عظيم عسكرى طاقت اس حد تك ہے كہ اگر دنيا كے طاقتور ترين لشكر سے بھى ٹكرلينے كى نوبت آجائے تو اس كا مقابلہ كرنے ميں انہيں ذرا بھى باك نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ لشكر اسلام كے سرزمين تبوك تك پہنچنے كى اطلاع ملتے ہى بعض سرحدى صوبوں كے فرمانروا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اس معاہدے كے ساتھ كہ وہ كسى طرح كا تعرض نہ كريں گے يہ بھى وعدہ كيا كہ ہر سال معقول رقم اسلامى حكومت كو بطور خراج بھى ادا كريں گے _(19)
298
2_مدينہ و تبوك كے راستے پر ''دَوْمُة الجندلَ'' نامى محكم قلعہ (20) بنا ہوا تھا جس پر ''اُكَيدَر'' نامى عيسائي بادشاہ كى حكمرانى تھى چونكہ اس كے تعلقات ہر قل كے ساتھ خوشگوار تھے اسى لئے اس كا شمار ان مراكز ميں ہوتا تھا جو مسلمانوں كيلئے خطرات پيدا كرسكتے تھے چنانچہ رسول خدا(ص) نے خالد بن وليد كو تبوك سے چار سو بيس سواروں كے ہمراہ دومة الجندل كى جانب روانہ تا كہ وہاں پہنچ كر انہيں غير مسلح كردے ، خالد نے دشمن كونہتا كرنے كے بعد اس علاقے كے فرمانروا كو گرفتار كرليا اور اسے مال غنيمت كے ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا رسول خدا (ص) نے اسے اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ ''جزيہ'' ادا كرے گا_(21)
3_اس غزوہ كے باعث دين اسلام اور رسول خد ا(ص) كا نام نامى روم كے عيسائيوں كى زبان پر جارى رہنے لگا اور اس كا چرچا تازہ ترين خبر كى طرح ہر جگہ رہتا چنانچہ ميدان ايساہموار ہوگيا كہ رومى دين اسلام كو عالمى طاقت كى نظر سے ديكھنے لگے_
4_جزيرہ نمائے عرب ميں وہ عرب و مشركين جو دين اسلام قبول كرنے كى سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہيںبھى دين اسلام كى قوت كا پورى طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور يہ بات اچھى طرح ان كى سمجھ ميں آگئي كہ جب روميوں كا طاقت ور لشكر اپنے پورے جنگى ساز وسامان كے باوجودلشكر اسلام كا مقابلہ نہ كرسكا تو ايسى زبردست طاقت كے سامنے ان كا سينہ سپر رہنا لا حاصل ہے ، ان خيالات كے پيش نظر ان قبائل نے يہ فيصلہ كرليا كہ اس سے قبل كہ رسول خدا (ص) ان كى خبر لينے كيلئے آئيں وہ خود ہى اپنے نمائندے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كرديں اور يا تو دين اسلام قبول كرليں اور يا پھر ايسا معاہدہ كريں جس كى رو سے وہ اسلامى حكومت كے معاملات
299
ميں متعرض نہ ہوں گے او راسلامى حكومت كے سائے ميں ہى رہيں گے(22) چونكہ بيشتر وفد غزوہ تبوك كے بعد سنہ 9 ہجرى ميں رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے (23) اسى وجہ سے سنہ 9 ہجرى كو ''سَنَةُ الُوفُود'' كہاجانے لگا _(24)
اس كے علاوہ رومى لشكر مسلمانوں كا مقابلہ كرنے سے پہلے ہى چونكہ فرار كر گيا تھا اس لئے سپاہ كے حوصلے اس واقعے سے بہت زيادہ بلند ہوگئے چنانچہ مسلمانوں كے روم پر بعد والے حملوں پر اس كے بہت عمدہ اثرات رونما ہوئے_
پہلا تو يہى كہ : ان كے حوصلے اتنے قوى ہوگئے كہ وہ كسى بھى طاقت كو خاطر ميں نہيں لاتے تھے اور شايد اسى حوصلہ كى وجہ سے انہوں نے اپنا اسلحہ فروخت كردينا چاہا تھا كيونكہ وہ اكثر كہا كرتے تھے كہ ''اب جہاد كى ضرورت ہى باقى نہيں رہى ہے '' مگر رسول خدا (ص) نے انہيں اس اقدام سے منع فرمايا _ (25)
مدينہ كے رہنے والوں كو جب يہ اطلاع ملى كہ روميوں پر فتح حاصل ہوئي ہے تو وہ ايسے مسرور ہوئے كہ بقول ''بيہقي'' عورتوں ' بچوں اور نوجوانوں نے يہ ترانے گا كر لشكر اسلام كا استقبال كيا _
طَلَعَ البَدرُ عَلَينَا
من ثََنيَّات الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا
مَا دَعَا للّہ دَاع
اَيُّہَا المَبعُوثُ فينَا
جئتَ بالَامَر المُطَاع
''ہم پر ثنيات الوداع سے چودھويں كے چاندنے طلوع كيا جب تك كوئي دعا كرنے والا ہے' ہم پر شكر واجب ہے ، اے ہم ميں مبعوث ہونے والے نبى (ص) آپ(ص) ايسا حكم لے كر آئے ہيں جس كى اطاعت ضرورى ہے''_(26)
300
دوسرا يہ كہ : مسلمان اتنا طويل پر مشقت سفر كرنے كے باعث چونكہ اس كى مشكلات و خصوصيات سے واقف ہوگئے تھے اسى لئے مستقبل ميں شام كو فتح كرنے كا راستہ ان كے لئے ہموار ہوگيا اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول اكرم (ص) كى رحلت كے بعد ديگر ممالك كو فتح كرنے سے قبل مسلمان شام كو فتح كرنے كى جانب متوجہ ہوئے_
منافقوں كى رسوائي
'غزوہ تبوك '' صدر اسلام كى ديگر سبجنگوںسے زيادہ منافقين كى جولان گاہ اور ان كے خيانت كارانہ ومجرمانہ افعال كى آماجگاہ رہا چنانچہ انہوں نے جتنى بھى بداعمالياں اور بدعنوانياں كيں خداوند تعالى نے دوسرى جنگوں كے مقابل ان كے اتنے ہى برے ارادوں اور ان كے منافقانہ چہروں كو بے نقاب كيا اور شايد اسى وجہ سے اس غزوہ كو ''فَاضحَہ '' (رسوا كن )كہا گيا ہے _(27)
اس سے قبل كہ سپاہ اسلام ''تبوك'' كى جانب روانہ ہو منافقين نے جو بھى خيانت كارياں كيں ان كے بعض نمونے اوپر پيش كئے جاچكے ہيں انہوں نے انہى خيانت كاريوں اور اپنى بداعماليوں پر اكتفانہ كى بلكہ جتنے عرصے تك لشكر اسلام غزوہ تبوك پر رہا ان كے سازشيں بھى جارى رہيں چنانچہ ذيل ميں ہم اس كے چند نمونے پيش كريں گے_
1_منافقين كے ايك گروہ نے ''سُويلم'' نامى يہودى كے گھر پر ميٹنگ كى جس ميں انہوں نے اس مسئلے پر غور وفكر كيا كہ جنگى امور اور لشكر كى روانگى ميں كس طرح خلل اندازى كى جائے چنانچہ جب رسول خدا (ص) كو ان كے ارادے كا علم ہوا تو آنحضرت (ص) نے چند لوگوں كو اس كے گھر كى طرف روانہ كيا جنہوں نے اسے نذر آتش كرديا(28)_
301
2_جس وقت سپاہ اسلام نے ''ثينة الوداع'' نامى جگہ پر پڑاؤ كيا تو منافقين كے سردار عبداللہ ابن ابى نے اپنے ساتھيوں اور يہودى حليفوں كے ہمراہ كوہ ''ذباب'' كے كنارے اپنا خيمہ لگايا اور رسول خد ا(ص) كے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع كيا_
''محمد(ص) كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى سوجھى ہے اور وہ بھى اس جھلس دينے والى گرمى ميں اور اتنى دور جاكر_ ادھر سپاہ اسلام كا يہ حال ہے كہ اس ميں جنگ كرنے كى ذرا بھى تاب نہيں ، روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كواس نے كھيل تماشا سمجھ ركھا ہے مجھے تو ابھى يہ نظر آرہا ہے كہ محمد (ص) كے جتنے بھى ساتھى ہيں سب ہى كل قيدى ہوں گے اور سب كى مشكيں كسى ہوئي نظر آئيں گي''_
وہ اپنى اس خيانت كارانہ گفتار اور بدكردارى سے چاہتا تھا كہ مسلمانوں كے حوصلے پست كردے اور انہيں اس جہاد مقدس پر جانے سے باز ركھے ، مگر اس كہ يہ نيرنگى وحيلہ گرى كارگر ثابت نہ ہوئي اور بہت ہى ياس و نااميدى كى حالت ميں مدينہ پہنچا_(29)
3_سپاہ اسلام كى تبوك كى جانب روانگى اور حضرت على (ع) كے مدينہ ميں قيام سے منافقوں كو اپنى تمام كوششيں ناكام ہوتى نظر آئيں چنانچہ اب وہ اس فكر ميں رہنے لگے كہ كس طرح ايسا ماحول پيدا كريں اور اس قسم كى افواہيں پھيلاديں كہ حضرت على (ع) مركزى حكومت سے دور چلے جائيں تاكہ رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كى غير موجودگى ميں پورے اطمينان كے ساتھ اپنى سازشوں كو عملى جامہ پہناسكيں_
حضرت على (ع) نے جب يہ افواہيں سنيں كہ رسول خدا (ص) آپ(ع) كو اپنى سرد مہرى اور بے توجہى كى وجہ سے محاذ جنگ پر لے كر نہيں جارہے ہيں تو آپ (ع) نے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں
302
حاضر ہوكر تمام واقعات آنحضرت (ص) كے سامنے بيان كئے جنہيں سن كر رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ :
''يہ لوگ جھوٹ بول رہے ہيں ميں تو تمہيں اس وجہ سے چھوڑ كر آيا ہو كہ وہاں جو كچھ ہے تم اس كى حفاظت و نگہبانى كرو كيا تمہيں يہ بات پسند نہيں ہے كہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے موسى (ع) كے لئے ہارون (ع) تھے ، فرق صرف يہ ہے كہ ميرے بعد نبوت كا سلسلہ ختم ہو جائے گا''_
اس كے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) سے ارشاد فرمايا كہ : ''آپ (ع) واپس مدينہ چلے جائيں اوراپنے خاندان اور '' دار الہجرة '' ميں آنحضرت (ص) كے جانشين كى حيثيت سے ساتھ مقيم رہيں _(30)
4_سپاہ اسلام كے خوف سے لشكر روم كے فرار نيز ان فتوحات كے باعث جو آنحضرت (ص) كو ''تبوك'' ميں مقيم رہنے كى دوران حاصل ہوئيں ، منافقين كا حسد و كينہ پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گيا اسى لئے جس وقت سپاہ اسلام تبوك سے واپس آرہى تھى تو ان منافقين نے نہايت ہى خطرناك چال چلنے كا فيصلہ كيا ، ان كى سازش يہ تھى كہ جب رسول خدا(ص) رات كى تاريكى ميں بلند درے سے گذريں گے تو منافقين ميں سے دس بارہ آدمى (30) آنحضرت (ص) كى گھات ميں بيٹھ رہےں تاكہ جيسے ہى آپ (ص) كى سوارى كا اونٹ اس راستے سے گذرے تواسے بھڑكاديں اور آنحضرت (ص) اس گہرے درے ميں گر كر مارے جائيں_
ليكن خداوندتعالى نے آنحضرت (ص) كو ان كى سازش سے آگاہ كرديا چنانچہ جب منافقين نے يہ ديكھا كہ رسول خدا(ص) كو ان كى سازش كا علم ہوگيا ہے تو وہ وہاں سے فرار ہوگئے
303
اور اپنے ساتھيوں سے جاملے اگر چہ رسول خدا(ص) نے ان سب كو پہچان ليا تھا اور صحابہ نے بھى انہيں قتل كر نے پر اصرار كيا تھامگر رسول خدا(ص) نے انہيں معاف كرديا _ (32)
5_منافقين اپنے جرائم كى پردہ پوشى كرنے كيلئے ہميشہ اس بات كى كوشش كرتے كہ انہيں دين كا لبادہ پہنائے رہيں ، مذہب كے پردے ميں اپنے ان مجرمانہ افعال كو جارى ركھنے كيلئے انہوں نے محلہ''قبا'' ميں مسجد كے نام سے ايك سازشى مركز قائم كيا تاكہ وہاں سے اپنى سياسى سرگرميوں كو جارى ركھ سكيں ، رسول خدا (ص) كى تبوك كى طرف روانگى سے پہلے انہوں نے مسجد كى تعمير شروع كى اور رسول خد ا(ص) اس كے بارے ميں مطلع بھى ہوئے اور جس وقت آنحضرت (ص) واپس تشريف لارہے تھے تو مدينہ كے نزديك قاصد غيب وحى لے كر نازل ہوا اور آيات قرآنى كے ذريعہ مسجد بنانے والوں كے گمراہ كن ارادوں سے مطلع كرديا (32) رسول خد ا(ص) نے حكم صادر فرمايا كہ اس مسجد كو آگ لگا كر خاكستر كرديں اور جو كچھ وہاں ہے اسے تباہ و برباد كرديں اور اس جگہ كو گندگى كے ڈھير كے طور پر استعمال كريں_(34)
غزوہ تبوك ميں مسلمانوں كى فتح اس جنگ كے بارے ميں منافقين كے تمام تجزيوں اور اندازوں كا بطلان، جنگ كے دوران ان كى سازشوں كى ناكامى ، مسجد ضرار كى ويرانى ، اسلام دشمن عناصر كے چہروں پر سے ريا او رنفاق كى نقاب كشائي اور آيات قرآنى (35) ميں ان كى خصوصيات كى نشاندہى كے باعث كفر كے پيكر پر پے در پے ايسى سخت ضربات لگيں كہ اس كا سر كچل كر رہ گيا اور وہ خيانت كار خطرناك گروہ جو اسلامى معاشرے ميں پل رہا تھا منہ كے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق كى جانب رسول خدا (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كر رہے تھے سخت مايوسى و نا اميدى كے شكار ہوئے
304
چنانچہ مسلسل ناكاميوں اور نامراديوں كا ہى نتيجہ تھا كہ منافقين كا سرغنہ ''عبداللہ بن ابى '' غزوہ تبوك كے ايك ماہ بعد ہى بيمار پڑگيا اور غموں ميں گھل گھل كر مرگيا_(36)
مشركين سے بيزاري
سنہ 9 ہجرى كے اواخر ميں زمانہ حج كے شروع ہونے سے قبل قاصد پيغام وحى نے سورہ توبہ كى چند ابتدائي آيات رسول خد ا(ص) كو پڑھ كر سنائيں ان آيات ميں خدا اور رسول خدا (ص) كى مشركين سے بيزارى ، مسلمانوں كے ساتھ ان سے قطع تعلق اور ان معاہدوں كو منسوخ كرنے كى ہدايت كى گئي جو مسلمانوں نے ان كے ساتھ كئے تھے _
حضرت رسول خدا (ص) نے پہلے تو حضرت ابوبكر كو امير حج مقرر كركے انہيں يہ ہدايت فرمائي كہ مشركين تك سورہ توبہ كى آيات پہنچاديں ليكن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحى نازل ہوا اور يہ پيغام سنايا كہ اس كام كو پيغمبر خدا (ص) يا خاندان رسالت كے كسى فرد كے علاوہ كوئي دوسرا فردانجام نہيں دے سكتا (37) چنانچہ رسول خدا (ص) نے حضرت على (ع) كو بلايا اورانہيں مشركين تك ان آيات كو پہنچانے كى ذمہ دارى سونپي_
حضرت على (ع) راستے ميں ہى حضرت ابوبكر سے جاملے اور ان سے فرمايا كہ يہ آيات مجھے ديں ، حضرت على (ع) مذكورہ آيات كو لے كر خود مكہ كى جانب روانہ ہوئے جب مناسك حج كا زمانہ آگيا تو آپ (ع) نے مسلمانوں اور كفار كے مجمع كثير ميں آيات تلاوت فرمائيں اور اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كا پيغام بھى پہنچاديااس پيغام ميں جو باتيں كہى گئي تھيں وہ يہ ہيں كہ :
1_كافر جنت ميں داخل نہ ہوں گے_
305
2_آئندہ مشركين كو مكہ ميں داخل ہونے اور مناسك حج ادا كرنے كى اجازت نہيں دى جائے گي_
3_آئندہ كسى شخص كو يہ اجازت نہيں ہوگى كہ وہ برہنہ خانہ كعبہ كا طواف كرے_
4_جن لوگوں نے رسول خد ا(ص) سے كوئي معاہدہ كيا ہوا ہے وہ تو مدت معينہ تك معتبر و قابل عمل ہے ليكن جن كے ساتھ كوئي معاہدہ نہيں كيا گيا ہے انہيں چار ماہ كى مہلت دى جاتى ہے كہ وہ اس عرصے ميں اپنے معاہدے كے بارے ميں غور كريں اور جب يہ عرصہ گزر جائے تو كسى بھى مشرك كے ساتھ عہدو پيمان نہ كياجائے گا_(38)
رسول (ص) خدا نے جو يہ صريح و قطعى اقدام كيا اس كى شايد وجہ يہ تھى كہ اس وقت سے جب كہ يہ پيغام مشركين كو پہنچايا گيا نزول رسالت تك تقريباً بائيس (22) سال كا عرصہ گزر چكا تھا اور اس طوي-ل عرصے ميں رسول خد ا(ص) كى تمام تر سعى و كوشش يہ رہى كہ مشركين راہ راست پر آجائيں چنانچہ اس كے بعد كسى شك كى گنجائشے نہيں رہتى كہ بت پرستوں كے شرك اور پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ و جدال كى اصل وجہ ان كى ضد اور ذاتى دشمنى تھى اور اب اس چيز كى سخت ضرورت تھى كہ اسلامى معاشرہ جس قدر جلد ہوسكے ايسے عناصر سے پاك ہوجائے اگر كسى زمانے ميں پيغمبر اكرم (ص) نے سياسى حالات كے تحت مجبور ہوكر مشركين كے ساتھ معاہدہ صلح كياتھا تو اب جبكہ تمام علاقہ دين اسلام كے تحت اثر آچكا تھا اور اس نے صرف اندرونى ہى نہيں بلكہ بيرونى محاذوں پر بھى عظيم ترين فتح حاصل كرلى تھى آنحضرت(ص) كے لئے ايسے عناصر كو اسلامى معاشرے كے اندر برداشت كرنا ضرورى نہيںتھا جو توہمات و خرافات اور خلل اندازى كے پردے ميں زمين پر فساد بپا كئے رہيں ، انہيں چار ماہ كى مہلت اس لئے دى گئي تھى كہ انہيں اپنے بارے ميں سوچنے كيلئے كافى وقت مل سكے اور اپنے توہمات
306
وخرافات سے دست بردار ہونے كے بارے ميں غور وفكر كرسكيں_
رسول خد ا(ص) كا قطعى فيصلہ' سورہ توبہ كى آيات كا نزول اور مشركين كے مقابل رسول خد ا(ص) كے جرا تمندانہ مگر انسان دوستى پر مبنى اقدام بالخصوص چار ماہ كى مہلت، اس امر كے باعث ہوئے كہ وہ اپنے بارے ميں سوچيں اور موقع سے فائدہ اٹھائيں ، اس كے ساتھ ہى دين اسلام كى آسمانى تعليمات اور اپنے خرافات مبنى طور پر طريقے كے بارے ميں غورو فكر كرنے كے بعد دين اسلام كى آغوش ميں چلے جائيں _
307
سوالات
1_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟
2_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟
3_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟
4_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟
5_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟
6_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_
7_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_
8_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟
9_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_
10_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_
308
حوالہ جات
1_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج 2 ص 14_ 15 ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص 235 پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے ( تقريباً 540 كلوميٹر)_
2_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج 1 ص 489_
3_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 990_
4_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص 82 پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_
5_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 990_
6_ايضا ص 1002_
7_بحارالانوار ج 21 ص 210_
8_سورہ توبہ كى 42 سے 110 تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_
9_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت 92_
10_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت 81_
11_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت 79_
12_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج 2 ص 148_
13_سورہ توبہ آيت 49و 90_
309
14_ايضا آيت 118_
15_الارشاد ، مفيد ص 82_
16_ايضا ص 83_
17_التنبيہ والاشراف ص 235_
18_المغازى ج 3 ص 1015_
19_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 1031 وسيرة النبويہ ج 4 ص 169_
20_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا 190 كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً 570 كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج 2 ص 62 و وفاء الوفاء ج 2 ص 1213_
21_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 1025 والسيرة النبويہ ج 4 ص 169
22_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات 35 _291ميں لكھا ہے كہ تہتر(73) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_
23_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج 3 ص 286_
24_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج 4 ص 205_
25_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج 2 ص 167 والمغازى ج 3 ص 1057_
26_ السيرة النبويہ ابن كثير ج 4 ص 41_42_
27_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج 3 ص 129_
28_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج 4 ص 160_
29_ملاحظہ ہو :المغازى ج 3 ص 995_
30_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج 3 ص 103_ 104 و السيرة الحلبيہ ج 3 ص 132_
21_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج 3 ص 142_
32_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج 3 ص 142 والمغازى ج 3 ص 1042_ 1045_
310
33_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات 107 سے 110 تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_
34_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج 4 ص 173 وبحارالانوار ج 21 ص 252 _ 255_
35_سورہ توبہ كى آيات 42 سے 110 تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_
36_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج 3 ص 1056_ 1057_
37_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ_
38_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج 4 ص 190 _ 91 1' بحارالانوار ج 21 ص 265 _275_
|