تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  269
سبق 14:
فتح مكہ اور غزوات حونين اور طائف


271
فتح مكّہ
رسول اكرم (ص) كيلئے صلح ''حديبيہ'' كے بعد يہوديوں كے خطرات دور كرنے اورعراق اور شام كى حدود تك مدينہ كے شمال ميں آباد عرب قبائل كے درميان اشاعت اسلام كے امكانات زيادہ ہوگئے، قلمرو اسلام ميں اب تنہا جو طاقت باقى رہ گئي تھى اور جس كا وجود جزيرة العرب كے باہر ترويج اسلام كيلئے خطرہ بنا ہوا تھا وہ قريش مكہ تھے، دشمن كے اس مركز كى دو اہم ترين خصوصيات يہ تھيں پہلى تو يہ كہ يہ شہر بہت سے مسلمانوں بلكہ خود رسول خدا(ص) كا وطن تھا اوردوسرى وجہ يہ تھى كہ كعبہ ابراہيم (ع) يعنى مركز توحيد اور مسلمانوںكا قبلہ اسى شہر ميں واقع تھا ان دو وجوہات كے علاوہ مسلمانوں نے اپنى اسلامى ز ندگى كے دوران جو صدمات برداشت كئے ان ميں سے اكثر وبيشتر اسى شہر كے لوگوں نے انہيں پہنچائے تھے مذكورہ بالا وجوہات كى بناپر مكہ كا شمار ان اہم ترين مراكز ميں ہوتا تھا جنہيں رسول خدا (ص) جزيرہ نما ئے عرب ميں دشمن كے وجود سے پاك و صاف كردينا چاہتے تھے اور يہى منصوبہ عرصے سے آنحضرت (ص) كے پيش نظر تھا_
غزوہ ''حديبيہ'' اور ''عمرة القضائ'' دو ايسے بڑے كامياب معركے تھے كہ جن كے باعث قريش كى عسكرى بالادستى اور مكہ پر اجارہ دارى ختم ہوگئي اور مسلمانوں كيلئے مكہ واپس آنے 'مناسك حج ادا كرنے اور اشاعت دين كى راہيں ہموار ہوگئيں مگر اس كے باوجود

272
قريش كى سياسى و ثقافتى برترى اور لعنت شرك و بت پرستى اب بھى مثل سابق وہاں موجود تھي_
قريش كے خلاف تيسرا اور آخرى قدم اٹھانے كيلئے اب مسلمانوں كے سياسى حالات و عسكرى انتظامات قطعى طور پر موافق و سازگار تھے اور جو چيز اس راہ ميں مانع بنى ہوئي تھى وہ يہ تھى كہ رسول(ص) خدا صلح حديبيہ كى كسى قسم كى عہد شكنى نہيں كرنا چاہتے تھے مگر قريش نے اپنى طرف سے اس معاہدے كى خلاف ورزى ميں پہل كرتے ہوئے قبيلہ ''بنى بكر'' كى حمايت ميں قبيلہ ''بنى خزاعہ'' كے بيس افراد كو محض اس بناپر بے دردى سے قتل كرڈالا كہ ان كا رسول خدا(ص) كے ساتھ باہمى معاہدہ تھا اسى لئے يہ دشوارى بھى دور ہوگئي چنانچہ اب وہ وقت آن پہنچا تھاكہ رسول خدا (ص) اس موقع كا فائدہ اٹھاتے ہوئے مكہ پر تسلط حاصل كر يں اور كعبہ كو بتوں سے نجات دلا كر اپنى ديرينہ آرزو كو عملى جامہ پہنائيں تاكہ شرك كے سب سے بڑے مركز كے وجود كونيست و نابود كرديں بالخصوص ان حالات ميں جبكہ قبيلہ خزاعہ كا سردار اپنے ہم قبيلہ افراد كو ساتھ لے كر رسول خدا (ص) كى خدمت میں حاضر ہوچكا تھا اور اس نے ان رقت انگيز واقعات كو بيان كركے ، جو اس كے قبيلے كے لوگوں پر گذرے تھے ، قريش كى عہد شكنى كا ذكر كيا اور ان كے خلاف اس نے آنحضرت (ص) سے مدد كى درخواست كى _
رسول خد ا(ص) نے عام تيارى كا حكم ديا اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے مدينہ كى جانب اپنے ايلچى رانہ كئے تاكہ انہيں بھى اس ميں شريك ہونے كى دعوت دى جائے ، تيارى كا حكم ملتے ہى دس ہزار سپا ہى جمع ہوگئے اور يہ ايسى كثير تعداد تھى جو اہل مدينہ نے كبھى اپنى آنكھوں سے نہيں ديكھى تھي_
رسول خدا (ص) نے قريش كو غفلت ميں ڈالنے كيلئے تمام ممكنہ حفاظتى اقدامات كئے ابتداء ميں

273
آپ (ص) نے اپنے قصد و ارادے كو كسى پر ظاہر نہيں كيا وہ تمام راستے جو مكہ كى طرف جاتے تھے ان كى سخت ناكہ بندى كردى گئي لوگوں كو دوسرى جانب متوجہ كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے سپاہ كا ايك دستہ '' ابوقتادہ'' كى قيادت ميں ''اضم'' نامى مقام كى جانب روانہ كيا تاكہ لوگ يہ سمجھيں كہ آنحضرت (ص) كا رخ اسى جانب ہے اس كے بعد آپ (ص) نے بارگاہ ايزدى ميں التجا كى كہ قريش كى آنكھوں اور كانوں پر غفلت كا پردہ پڑجائے اور ہوش انہيں اس وقت آئے جب وہ اچانك سپاہ اسلام كو اپنے سروں پر مسلط پائيں_(1)
یہ اقدام اس وجہ سے كیا گیا كہ دشمن اس سے قبل كہ اپنے دفاع كى خا طر اپنى عسكرى طاقت كا استعمال كرے خود ہى بغےر كسى تصادم كے حق كے سا منے سر تسلیم خم كر دے اور حرم مكہ 'یعنى مقدس و معنوى پناہ گاہ ایزدى حتى الامكان خونریزى كے بغیر فتح ہو جائے_
ليكن تمام ممكنہ حفا ظتى اقدامات كے باوجود ''حاطب بن ابى بلتعہ''نامى شخص نے قرےش كوخط لكھ ہى دیا اور ''سارہ''نامى عورت كو قرےش مكہ تك پہنچانے كے لئے روانہ كر دیا تا كہ انہیں معلوم ہو جائے كہ رسول خدا(ص) كا ممكنہ اقدام كیا ہو سكتا ہے_
رسول خدا(ص) كو وحى كے ذریعے اس شخص كى خیا نت كا علم ہو گیا چنا نچہ اپ(ص) نے فوراً ہى حضرت على (ع) اور زبیر كو اس كام پر مامور فر ما یا كہ اس عورت سے خط حا صل كریں اور اسے واپس مدینہ لے ائیں(2)_
رسول خدا(ص) دس ماہ رمضان سنہ 8ہجرى كودس ہزارمسلما نوں كے ساتھ مدینہ سے مكہ كى جا نب روانہ ہو ئے چنانچہ جب اپ (ص) ''مرالظہران''نامى مقام پر تشریف فرما ہو ئے تو دشمن كو اپ(ص) كے انے كا ذرا بھى علم نہ ہو سكا_
یہاں رسول خدا(ص) نے حكم دیا كہ سپا ہى و سیع میدان میں منتشر و پراكندہ ہوجائیں اور ان

274
میں سے ہر شخص اگ روشن كرے_رسول خدا(ص) كے اس حر بے نے اہل مكہ كو سخت وحشت میں مبتلا كر دیا(3)_
ابو سفیان كے ہمراہ كچھ قریش سردارحالات كا جائزہ لےنے كے لئے مكّہ سے باہر نكل آئے،راستے میں ان كى ملا قات سب سے پہلے رسو ل خد ا(ص) كے چچا حضرت عباس سے ہو ئي جو سپاہ اسلام كے پہنچنے سے قبل ہى وہاں پہنچ گئے تھے_اور ان سے حالات كے بارے میں پوچھا_حضرت عباسنے كہا كہ رسول خدا(ص) نے تم پر دس ہزار سپاہ كے ساتھ شب خون مارا ہے _اب تمہارے لئے راہ نجات یہى ہے كہ دین اسلام قبول كرلو _ابو سفیان كے ساتھ''حكیم بن حزام''اور''بُدَيُل بن وقار''بھى تھے یہى بات انہوں نے ان لو گوں سے بھى كہي_
یہ بات سن كر قریش كے سر داروں كے ا وسان خطا ہو گئے اور حضرت عباس سے اتنا ہى كہا كہ اب ہم اپ كے رحم وكرم پر ہیں _حضرت عباس انہیں رسول خدا(ص) كى خدمت میں لے گئے (4)_رسول خدا(ص) نے ان سے قریش كى حالت اور كیفیت كے بارے میں كچھ سوالات كئے اور ضرورى معلومات حا صل كرنے بعدانہیں دین اسلام قبول كر نے كى دعوت دى _ انہیں رسول خدا(ص) كى با ت تسلیم كر نے كے علاوہ كو ئي چا رہ نظر نہ ایا _اور اس رات وہ حضرت عباس كے ساتھ ہى رہے_صبح كے وقت تمام سپاہ نے با واز بلند اذان دى جسے سن كر ابو سفیان پر خوف طارى ہو گیا(5) اس كے بعد رسول خدا(ص) كے حكم سے اسے ایك ٹیلے پر لے جا یا گیا اورسپاہيوںنے منظم دستوں كى شكل میں اس كے سامنے مسلح پريڈ كى اور اس نے اسلام كى شان و عظمت اور عسكرى و معنوى طا قت اپنى انكھوں سے دےكھ لي(6)_
رسول خدا(ص) نے اسلام كى طاقت كے جاہ و جلال كا مظاہرہ كر كے شرك كى استقامت و

275
پائدارى كے ہر ارادے كو پاش پاش كر دیا _اور اب اپ(ص) نے یہ سعى و كوشش كى كہ ابو سفیان كے ذریعے قریش كى استقامت و پائدارى كو بھى چكنا چور كر دیں لہذا اپ(ص) نے ابو سفیان سے كہا كہ وہ قریش كے درمیان جاكر ان سے كہے كہ جو كوئي اسلحہ زمین پر ركھ كر اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا یا مسجد الحرام میں پناہ لے گا یا ابو سفیان كے گھر میں پناہ گزیں ہو گا اسے كوئي نقصان نہيں ہوگا اور وہ امان ميں ہوگا(7)_
رسول خدا (ص) كا یہ اقدام اس امر كا با عث ہوا كہ قریش كے ان سرداروں نے جوڈٹ كر سپاہ اسلام كا مقا بلہ كر نا چاہتے تھے ابو سفیان كى یہ كيفیت ديكھ كر اپنا ارادہ بدل دیا(8)_
قریش كو زیر كر نے كے جتنے بھى مرا حل ہو سكتے تھے وہ اب طے ہو چكے تھے _اور وہ وقت آن پہنچا تھا كہ رسول خدا (ص) مكہ میں تشریف فر ما ہو ں _رسول خدا (ص) كى یہ سعى و كو شش تھى كہ سپاہ اسلام شہر میں اس طرح دا خل ہو كہ جس حد تك ممكن ہو سكے كو ئي تصادم نہ ہو چنا نچہ اس مقصد كے تحت آنحضرت (ص) نے كل سپاہ كو چا ر دستوں میں تقسیم كر كے ہر ایك كا ایك جرنيل مقرر فر میا ،اور ہر دستے كو یہ حكم دیا كہ اندرون شہر اس را ستے سے جا ئیں جو ان كے داخل ہو نے كےلئے مقرر كردیا گیا ہے تا كہ فوج چاروں طرف سے شہر يكبارگى داخل ہو اور لڑائي كا كوئي امكان نہ رہے_اور سب كو یہ ہدا ےت دى كہ صرف اسى سے جنگ كر نا جو تمہارے مقابلے پر اتر آئے مگر ا س كے ساتھ ہى دس ایسے افراد كے نام بھى اپ(ص) نے دئے جن كا خون بہا نا جا ئز و مبا ح قرار دیا گیا تھا(9)_
اہل لشكر مقررہ را ستوں سے مكہ میں دا خل ہو ئے _اندروں شہر دشمن كى ایك مختصر سى جماعت نے ہى استقا مت و پائدارى كى كو شش كى مگر جب اس كے چند افراد قتل ہو گئے تو ان كى استقامت كا بھى خاتمہ ہو گيا اور پھر سپاہ اسلام نے كسى خونرےزى كے بغےر مكہ كو فتح

276
كرلیا(10)_
حضرت خدےجہ(ع) اور حضرت ابو طا لب(ع) كى قبر كى زیا رت اور طواف كعبہ كے بعد رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) كے ہمراہ خا نہ خدا كو تصوےروں اور بتوں سے پاك كر نے میں مشغول ہوگئے(11)_
اہل مكہ خاص كر مشركين كے سردار نہا ےت ہى اضطراب و بے چےنى سے اپنا انجام ديكھنے كا انتظار كررہے تھے _مسلما نوں پروہ اب تك جو مظالم كر چكے تھے انہیں ديكھ كے انہیں اپنى مو ت سا منے نظر آرہى تھى _
رسول خدا (ص) نے پہلے تو بتوں كو سر نگوں كیا اور اس كام سے فارغ ہو نے كے بعد وہاں موجود لو گوں كے سا منے تقرےر فر ما ئي _اس فتح و كا میا بى پرخدا وند تعا لى كى حمد كرنے كے بعد آپ (ص) نے قرےش سے خطا ب كر تے ہو ئے فر ما یا ''اب بتاؤ كیا كہتے ہواور تمہا رے دلو ں میں كیا وسو سے ہیں؟''_سب نے بلند آواز سے انحضرت (ص) كى خدمت میں عر ض كیا :''ہمیں اپ(ص) سے یہى تو قع ہے كہ اپ(ص) ہما رے سا تھ خےر و نےكى كا سلوك فر ما ئیں گے _ہمیں یہى عرض كر نا ہے اور اس كے علا وہ ہما رے دلوں میں كو ئي خیا ل و فكر نہیں _آپ(ص) ہما رے قابل احترام بھائي ہیں اور ہم آپ(ص) كو اپنے بھائي كا فر زند ہى سمجھتے ہیں_با قى آپ(ص) كو اختیا ر ہے اور طاقت بھى اب آپ(ص) كے پاس ہے_(2)''
رسول خدا (ص) نے انہیں جواب دےتے ہو ئے فر ما یا :''میں تم سے اپنے بھا ئي حضرت ےو سف (ع) كى طرح چشم پو شى كر تے ہوئے كہتا ہوں:
( لَا تَثرےبَ عَلَےكُم الےَومَ ےَغفرُاللّہُ لَكُم وَ ھُوَ اَرحَمُ الرّاحمےنَ)(13)

277
''اج تم پر كو ئي گر فت نہیں _اللہ تمہیں معاف كرے وہ سب سے بڑھ كر رحم كر نے وا لا ہے''(14)_
چنا نچہ جب انہوں نے معا فى كى درخواست كى تو رسولخدا(ص) نے فر ما یا :
''اذھَبُو فَاَ نتُمُ الطُّلَقَائُ''(15)
جا ئو تم سب ازاد ہو_
جب رسول خدا (ص) نے عام معا فى كا اعلان كر دیا اورمشركين كے سرداروں كے اعمال سے چشم پوشى كى تو مكہ كے لوگ جو ق در جوق اپ(ص) كى خدمت میں حا ضر ہو كر دےن اسلام قبول كرنے كا شرف حا صل كر نے لگے یہى نہیں بلكہ عرب خواتےن نے بھى ان خا ص آداب كے مطا بق جو مقرر كئے گئے تھے رسول خدا (ص) سے بےعت كى (16)قران مجےد نے اس بے نظےر تبدےلى اور رجحان كى جا نب اشا رہ كر تے ہو ئے فر ما یاہے_
(وَرَاَ ےتَ النّا سَ ےَد خُلُونَ في دےن اللّہَ اَفوَاجَاً)(17)_
اے نبي(ص) تم نے ديكھا كہ لوگ فوج در فوج اللہ كے دےن میںداخل ہو رہے ہیں(18)
رسول خدا (ص) نے بت بر ستى كوہر جگہ سے كلى طور پر نےست و نا بود كرنے كے لئے لو گو ں كو ہداےت كى كہ جس كسى كے پا س كو ئي بت ہو وہ اسے پا ش پا ش كر دے_اس كے علا وہ آپ(ص) نے مكہ كے با ہر بھى چند افراد كو بھےجا تا كہ جہا ں كہیں بھى كو ئي بت خا نہ ہو اسے وےران كر دیں ،اور لو گو ں كو دےن اسلام كى دعوت دیں(19)

278
پےغمبر ہداےت و اصلاح
مسلما نوں كے ہا تھوں شہر مكہ كى تسخےر'مشركےن كے سرداروں كى شكست اور تسليم اور ان لوگوں كے سا تھ جو بےس سال سے زيادہ عرصہ تك اسلام دشمنى میں رسولخدا (ص) سے بر سر پےكار رہے رسولخدا (ص) كے غےر متوقع و بے مثال در گزر و چشم پو شى نے ثابت كر دیا كہ انحضرت(ص) كا مقصد گمراہ و نا دان لو گو ں كى ہدا ےت و اصلا ح كے علاوہ اوركچھ نہیں ہے_اور جنگ و تصادم كے جو واقعات پےش ائے ان میں اپ (ص) كا مقصدانكى ہدا ےت واصلاح ہى تھا ناكہ انتقام جوئي اور جاہ و فضےلت طلبى چنانچہ ايسى عظےم الشان فتح كے با و جود صرف وہ دس افراد (چھ مر د اور چا ر عورتیں)جو سخت و سنگےن جرائم كے مر تكب ہو ئے تھے قا بل سزا قرار ديئے گئے اور ''مَہدُورُالدَّم''كے عنوان سے انہیں یا د كیا گیا(20)_
ان میں بھى چار افراد كو قتل كر دیا گیا اور با قى كسى نہ كسى بہانے سے امان پا نے میں كامیاب ہو گئے(21)اگر چہ ایسے موقعوں پر دنیا وى انقلابى ليڈر سےنكڑوں نہیں بلكہ ہزاروں افراد كوبا لخصوص انہیں جو دشمن كے محاذ پر پےش پےش ہو تے ہیں،تہ تےغ كر دےتے ہیں_لےكن جب سا رى دنیا كے پےغمبر(ص) رحمت ےعني''رحمةاللعالمےن''سے بعض مسلمان سپاہیوں نے یہ كہا كہ ''اَليَومَ يَومُ المَلحَمَة'' اج كا دن انتقام لےنے اورجنگ كرنے كا دن ہے تو انحضرت (ص) نے یہ موقف اپنا ياكہ ''اَليَومَ يَومُ المَرحَمَة''آج كا دن رحمت كا دن ہے(22)چنا نچہ اس كےفےت كو پروفےسر حمےد اللہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان كیا ہے_
جب رسول خدا (ص) كسى شہر كا فاتح ہو تو اُن سے اس عظمت و بزرگوارى كے علاوہ اور كو ئي توقع ركھنى ہى نہيں چاہئے(23)

279
غزوہ حنےن وطائف:
جب شرك كاسب سے عظےم مر كزتسخير ہو گیا اور ''سواع''''منا ة ''اور ''عزي''جےسے بت كدے مسلمانوں كے ہاتھوں ویراں ہو گئے (24)تواسلام كا عسكرى و سیاسى اثر و نفوذ تمام'' جزےرہ نمائے عرب '' پر چھا گیا _چنا نچہ یہى وجہ تھى كہ مشركےن كے اكثر و بےشترقبا ئل نے اسلام كى اطا عت قبول كر لى اور اس كے سا منے سر تسليم خم كر ليا لكين''ہو ازن'' اور ''ثقےف'' ایسے دو قبیلہ تھے جو اسلام سے نفرت میں پےش پےش اور جنگجوئي میں سب پر فو قےت ركھتے تھے_اس كے علاوہ ان كے پاس اسلحہ بھى سب سے زیا دہ رہا كرتا تھا انہیں یہ علم ہو اكہ مسلما نوں كو مشركےن پر فتح و نصرت حا صل ہے ہوئے تو وہ سخت سرا سےمہ اور پریشان خاطر ہو ئے اور اب انہیں یہ خو ف لا حق رہنے لگا كہ قرےش كومغلوب كر نے كے بعد لشكر اسلام انہیں اپنے حملے كا نشا نہ بنا ئے گا چنانچہ انہوں نے خود ہى پيش قدمى كرتے ہوئے مسلمانوں كے ساتھ بر سر پےكا ر ہو نے كا ارادہ كر لیااور انہوںنے چند دےگر قبائل سے بھى عہد و پےمان كر لیا تھا_
چنانچہ سب نے مجمو عى طور پر طا قتور سپاہ كى شكل اختيار كر كے'' مالك بن عوف''كى سپہ سالارى ميںرسول خدا(ص) كے سا تھ جنگ ونبرد كرنے كےلئے خود كو آما دہ كر لیا_
دشمن نے اس خیال كے پےش نظر كہ محاذ جنگ كى پشت سے اس كا كو ئي تعلق نہ رہے اور مسلما نوں كے سا تھ جان توڑكرجنگ كر ے اس نے اپنى عورتوں 'بچوں ، مويشيوںاور مال غنےمت كو اپنے ساتھ لے ليا_
رسول خدا(ص) كو جب دشمن كے ارادے كى اطلاع ملى تو اپ(ص) بتا رےخ6شوال سنہ8ہجرى كو بارہ(12000)ہزار سپاہیوں كا لشكر(جس میں دس ہزار افراد مدےنہ كے اور دو ہزار نو مسلم شا مل تھے) لے كر دشمن كى جا نب روانہ ہو ئے_

280
دو نو ں لشكروں كا مقابلہ ''حُنَين(25)نا مى جگہ پر ہوامشركےن كا لشكر پہلے ہى وادى حنےن میں اتر چكا تھا اور اس نے سارے نا كو ں پر قبضہ كر لیا تھا وہ سپاہ اسلام كے اس ہر اول دستے پر جس كا سپہ سالار''خالد بن ولید ''تھا اچانك حملہ اور ہوا اور اس دستے كو منتشر و پراكندہ كر ديا ، يہ صورتحال ديكھ كر باقى سپاہيوں نے بھى فرار كو قرار پر ترجيح دى اور سرپاؤں ركھ كر بھاگے_صرف دس افراد ہى ایسے تھے جو رسول خدا (ص) كے دوش بدوش رہے(26)
ابو سفیان اور وہ قرےش جو چند روز قبل ہى مسلمان ہو ئے تھے مسلمانوں كى اس شكست پر بہت مسرور ہوئے اور اس پر تمسخر كر نے لے(27)_
اگرچہ پےغبر اكرم(ص) اس وقت تنہا رہ گئے تھے لےكن ان چند اصحاب كے ساتھ جو اس وقت اپ(ص) كے ساتھ تھے مےدان جنگ میں پورى استقامت اور پائدارى كے ساتھ اپنى جگہ پر رہے اور جو لوگ فرار كر نے لگے تھے انہیں واپس انے كى دعوت دي_ اس مو قع پر اپ (ص) نے فر میا كہ:''اے لو گوكہاں بھاگے چلے جا رہے ہو؟واپس اجا ئومیں محمد (ص) بن عبد اللہ رسول خدا (ص) تمہیں بلارہا ہوں''_(28)
رسول خدا(ص) كے اےماء پر حضرت ''عباس بن عب المطلب''نے انحضرت (ص) كا پےغام با واز بلند لو گوں تك پہنچیا جسے سن كر مسلمان ایك ایك كر كے واپس انے لگے_رسول خدا(ص) نے انہیں از سر نو مر تب كیا اور جنگ كى آگ دو بارہ شعلہ ور ہو گئي_
امےر المومنےن حضرت علي(ع) سب سے زیا دہ جو ش و خروش میں تھے اور دشمنوںكو خاك و خون میں ملا رہے تھے يہاں تك كہ قبيلہ ہوا زن كے چاليس افراد آپ (ع) كى شمشير سے ہلاك ہوئے (29) دوسرے مسلمانوں نے بھى شكست كى تلافياں كيں اور چند لمحہ فرار رہنے كى وجہ سے جو خفت ہوئي تھى اسے دور كرنے كيلئے جان كى بازى لگا دى بالخوص اس

281
وقت جب كہ انہوں نے يہ ديكھا كہ '' ام عمارہ ، ''ام سليم ، '' ام سليط ،، اور '' ام حارث '' جيسى دلير خواتين بھى ميدان كار رزار ميں اترآئيں ہيں اور رسول خدا(ص) كا مردانہ وار دفاع و كر رہى ہيں ( 30 ) _
رسول خدا(ص) نے سپاہ میں مزيد جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر اعلان فرمايا كہ' ' جو كوئي كسى كافر كو قتل كرے گا وہ مقتول كے لباس اوراسلحہ كا مالك ہو گا '' ( 31)
اس وقت ہوازن كا پر چمدار ''ابو جرول '' سرخ اونٹ كے اوپر سوار بلند نيزہ ہاتھ ميں لئے اس پر سياہ جھنڈا لہرا رہا تھا وہ اپنے لشكر كے آگے آگے چل رہا تھا حضرت على (ع) كے ہاتھوں اس كے قتل (32)كى وجہ سے دشمن كيلئے فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ فتح اسلام كے حصے ميں آئي
اس جنگ ميں چھ ہزار سپاہى قيد ہوئے ان كے علاوہ چوبيس ہزار (24000) اونٹ، چاليس ہزار بھيٹريں اور وزن میں چار ہزار اوقيہ ( تقريبا 850 كلو گرام ) چاندى بطور مال غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ آئي (33 )_ باقى جو سپاہ بچى تھى وہ بھاگ كر '' طائف ، '' نخلہ ،، اور '' اوطاس ،، كى طرف نكل گئي ( 34 ) _ رسول خدا(ص) نے '' بُدَيل بن ورقائ'' كو اس كام پر مامور فرمايا كہ وہ مال غنيمت كو''جعرانہ''(35 ) نامى مقام پر لے جائيں اور وہيں اس كى حفاظت كريں تاكہ جنگ ختم ہونے كے بعد اسے تقسيم كيا جا سكے اور آپ(ص) بذات خود سپاہ اسلام كو ساتھ لے كر ''طائف ''كى جانب روانہ ہوئے كيونكہ '' مالك بن عوف '' ثقيف كے ديگر لشكرں كے ہمراہ بھاگ كر اس طرف نكل گيا تھا وہاں پہنچ كر آپ(ص) نے قلعے كا محاصرہ كر ليا _قلعہ طائف كا محاصرہ تقريبا بيس روز تك جارى رہا ( 36 )_ دشمن كى استقامت و پايدارى كو ختم كرنے كيلئے مسلمانوں نے منجنيقيں اور جنگى گاڑياں بھى استعمال كيں ليكن اس

282
كا كوئي نتيجہ بر آمد نہ ہوا _ قلعے كے استحكام ، اسلحہ جنگ اور سامان خوراك كے ذخيرے كى وجہ سے دشمن كى استقامت و پائدارى پہلے سے كہيں زيادہ بڑھ گئي_
رسول خدا(ص) نے صحابہ كے مشورے سے محاصرہ جارى ركھنے كا خيال ملتوى كرديا اور جعرانہ كى طرف روانہ ہو گئے ( 37) _
اس فيصلے كى شايد يہ وجہ يہ تھى كہ رسول خدا(ص) نے دشمن كے وسائل و اسلحہ كا جائزہ لينے كے بعديہى نتيجہ اخذ كيا كہ طائف كو فتح كرنے كيلئے زيادہ وقت دركار ہے اور مدينہ سے آنحضرت(ص) كوسوں دور تھے _ اس كے علاوہ مختلف افكار و خيالات كے حامل بارہ ہزار سپاہيوں كو كافى عرصے تك قلعہ طائف كے محاصرہ كے لئے يكجا ركھا بھى نہيں جا سكتا تھا _ كيونكہ ايك طرف تو لشكر كيلئے سامان خوراك كم ہوتا چلا جارہا تھا _ اور دوسرى طرف ماہ حرام اور حج كا زمانہ قريب چلا آ رہا تھا _ ( 38 ) اس كے علاوہ چھ ہزار جنگى قيديوں كے مسئلے كے بارے میں بھى غور كرنا تھا تاكہ جس قدرجلد ہو سكے يہ مسئلہ حل ہو جائے _

مال غنيمت كى تقسيم
رسول خدا(ص) جب '' جعرانہ '' واپس تشريف لائے تو ہوازن كا وفد آنحضرت(ص) كى خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے دين اسلام قبول كرنے كے بعد رسول خدا(ص) سے درخواست كى كہ قيديوں كو آزاد كر ديا جائے رسول اكرم(ص) نے مسلمانوں كے ساتھ گفتگو كرنے كے بعد اور ان كا دل جيتنے كى خاطر ہوازن كے چھ ہزار قيديوں كو فديہ لئے بغير آزاد كر ديا ( 39 ) _ اور باقى مال غنيمت كو آپ(ص) نے قريش كے درميان تقسيم كر ديا اور وہ لوگ جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آپ(ص) نے بيشتر حصہ ( 40 ) عطا كيا تاكہ اس طريقے

283
سے ان كے دل اسلام كى جانب بيشتر مائل ہو سكيں
جو لوگ چند روز قبل ہى مسلمان ہوئے تھے ان كے سرداروں كو آنحضرت(ص) كى زيادہ عطا بعض افراد بالخصوص انصار كو ناگوار گزرى حالانكہ يہ بخشش رسول(ص) خدا كے اپنے حصے ''خمس'' سے ہى تھي(41) جس كى وجہ يہ تھى كہ مال غنيمت سے ان كا حصہ نظر انداز كر ديا گيا تھا ليكن جب انہوں نے رسول خدا(ص) كى نصيحتيںسنيں اور اس كى حكمت كے بارے ميں انہيں علم ہوا تو وہ آنحضرت(ص) كے اس اقدام سے مطمئن ہو گئے ( 42) _
رسول خدا(ص) نے عمرہ كرنے كے ارادے سے '' جعرانہ '' میں احرام باندھا عمرہ كرنے كے بعد آپ(ص) نے '' عتاب بن اسيد'' كو مكہ كا گورنر مقرر فرمايا اور حضرت '' معاذ بن جبل '' كو احكام دين كى تعليم دينے كيلئے متعين فرمايا اور خود آنحضرت(ص) واپس مدينہ تشريف لے آئے (43) _

غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كى شكست اور آخر میں كاميابى كے اسباب
الف _ ابتدائي مرحلے میں شكست
1_ كثرت سپاہ كى وجہ سے احساس تكبر اور غيبى مدد كى جانب سے غفلت و چشم پوشي_ جس وقت بارہ ہزار افراد پر مشتمل سپاہ اسلام كى شان و شوكت اور طاقت ،جناب ابوبكر نے ديكھى تو اسكى كى زبان پر يہ جملہ آہى گيا كہ اب طاقت كى كمى كے باعث اب ہم مغلوب نہ ہوں گے ( 44 ) _

284
اور اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے كہ
( لَقَد نَصَرَكُم الله ُ فى مَوَاطنَ كَثيرَة: وَيَومَ حُنَين: إذ أَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغن عَنكُم شَيئًا وَضَاقَت عَلَيكُم الأَرضُ بمَا رَحُبَت ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبرينَ)
''اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہارى مدد كر چكا ہے ابھى غزوہ حنين كے روز بھى اس نے تمہارى دستگيرى كى جس كى شان تم ديكھ چكے ہو اس روز تمہيں اپنى كثرت تعداد كا غرور تھا مگر وہ تمہارے كچھ كام نہ آئي اور زمين اپنى وسعت كے باوجود تم پر تنگ ہو گئي اور تم پيٹھ دكھا كر بھاگ نكلے''_ ( 45 )
2_ سپاہ اسلام ميں اہل مكہ كے دو ہزار ايسے افراد كى موجودگى جو حال ہى میں مسلمان ہوئے تھے ان میں سے بعض منافق تھے اور بعض محض مال غنيمت جمع كرنے كى خاطر سپاہ اسلام كے ساتھ ہو گئے تھے نيز كچھ لوگ بغير مقصدو ارادہ ہى مكہ سے باہر نكل آئے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ ابتدائي مرحلے پر جب دشمن كا اچانك حملہ ہوا تو سب سے پہلے جو سر پر پير ركھ كر بھاگے وہ يہى لوگ تھے (46) _ اور يہى وہ لوگ تھے جنہوں نے سپاہ اسلام پر لعن و طعن شروع كر دى تھى حتى كہ بعض نے تو رسول خدا(ص) كو قتل كرنے كا ارادہ تك كرليا تھا(47) _ چنانچہ ايسے عناصر كى ان حركات كا باقى سپاہ پر اثر انداز ہونا اور ان كى قوت ارادى و حوصلہ مندى میں ضعف آنا طبيعى اور و قدرتى امر تھا _
3_ دشمن كے سپاہى جس جگہ جمع تھے نيز جہاں دونوں لشكروں كے درميان معركہ ہوا اس جگہ كا محل وقوع ،دشمن كا كمين گاہوں ،دروں اور پہاڑى شگافوں پر قبضہ اور اذان فجر

285
كے وقت جبكہ مطلع صاف و روشن نہيں تھا دشمن كا اچانك حملہ وغيرہ ايسے عوامل تھے جن كے باعث مسلمانوں میں يہ قوت فيصلہ سلب ہو گئي كہ وہ كيا اقدام كريں_

ب:آخرى فتح
1_ غيبى مدد اور خداوند تعالى كى طرف سے نصرت و كاميابى _اس كے بارے میں قرآن مجيد كا ارشاد ہے
( ثُمَّ أَنزَلَ الله ُ سَكينَتَہُ عَلى رَسُولہ وَعَلَى المُؤمنينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَم تَرَوہَا وَعَذَّبَ الَّذينَ كَفَرُوا وَذَلكَ جَزَائُ الكَافرينَ) (48)
'' پھر اللہ نے اپنا سكون اپنے رسول(ص) پر اور مومنين پر نازل فرمايا اور وہ لشكر اتارے جو تم كو نظر نہ آتے تھے اور منكرين حق كو سزا دى كہ يہى بدلہ ہے ان لوگوں كے لئے جو حق كا انكار كرتے ہيں '' _
2_ رسول خدا(ص) ،حضرت على (ع) اور ديگر ايثار پسند اور جان نثار مردوں نيز عورتوں كى ميدان كا رزار ميں پائدارى ، اس كے ساتھ ہى ميدان جنگ ميں رسول خدا(ص) كا سپاہ كو واپسبلانا اور انھيں از سر نو منظم كرنا _
3_ حضرت على (ع) كے ہاتھوں دشمن كے پر چمدار اور ديگر مسلمانوں كے ہاتھوں دشمن كے سردار '' دُرَيدبن صَمَّہ،، كا قتل كيا جانا _

286
سوالات
1_'' صلحنامہ حديبيہ ،، كى شرائط كے مطابق رسول خدا(ص) كو قريش كے ساتھ دس سال تك جنگ نہيں كرنى چاہئے تھى _ آنحضرت(ص) نے كس وجہ سے دو سال بعد ہى مكہ پر لشكر كشى كر دى ؟
2_ رسول خدا(ص) نے جب مكہ پر لشكر كشى كى تو اس مہم كو قريش سے پوشيدہ ركھنے كيلئے آنحضرت(ص) نے كيا اقدامات كئے ؟
3_ رسول خدا(ص) نے مكہ كے نزديك پہنچنے كے بعد خونريزى اور قريش كے ساتھ تصادم كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے ؟
4_ رسول خدا(ص) نے مكہ كو فتح كرنے كے بعد جب مشركين كو قيد كر ليا تو آنحضرت(ص) نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟ اور آپ(ص) كے روےے كا ان پر كيا اثر ہوا ؟
5_ غزوہ حنين كا كب اور كس طرح آغاز ہوا ؟
6_ غزوہ حنين كى ابتدا میں مسلمانوں كے شكست كا كيا سبب تھا ؟
7_ فتح حاصل كرنے كيلئے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كا كيا كردار رہا ؟ اس كى وضاحت كيجئے_
8_ غزوہ حنين میں مسلمانوں كو ابتدا ء میں شكست ہوئي اور بعد میں فتح و نصرت سے ہمكنار ہوئے قرآن مجيد نے ان واقعات كا كس طرح تجزيہ كيا ہے ؟_

287
حوالہ جات
1_ المغازى ج2صفحہ796 _
2_ السيرة النبويہ ج 4 صفحات 40_41 _
3_ المغازى ج2 صفحات 801 _814_
4_ بعض كتب تاريخ میں يہ آيا ہے كہ ابو سفيان كے ساتھى اسى جگہ سے واپس چلے گئے اور صرف ابوسفيان كو رسول خدا(ص) كى خدمت میںحاضر كيا گيا ( السيرة النبويہ ابن ہشام ج4 صفحہ 45) _
5_ المغازى ج2 صفحات 814 _815 _
6_ايضا صفحات 818_821 _
7_ 8_السيرة النبويہ ابن ہشام ج4 صفحات 46_47 _
9و 10_ المغازى ج2 صفحہ 825 _
11_ ملاحظہ ہو : اعيان الشيعہ ج1صفحہ 409 _
12_ المغازى ج2 صفحہ 835 _
13_ سورہ يوسف آيت92 _
14_ المغازى ج2 صفحہ 835_
15و 16_تاريخ طبرى ج3 صفحہ 61 _
17_سورہ نصر آيت2 _
18_ ملاحظہ ہو : تفسير الميزان ج20 صفحہ 376 _
19_ ملاحظہ ہو :المغازى ج3 صفحہ 873 والسيرة النبويہ ج4 صفحہ 70 _
20_ ملاحظہ ہو : المغازى ج2 صفحہ 825_
21_ ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج3 صفحہ 60 _
22_ المغازى ج2 صفحات 821' 822 _
23_ ملاحظہ ہو '' كتاب رسول اكرم(ص) ميدان جنگ میں،، ترجمہ سيد غلام رضا سعيدى ص 148
288
24_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج21صفحہ 145 _
25 _ دور جاہليت ميں '' ذوالمجاز'' عربوں كا مشہور بازار تھا يہ جگہ اس بازار كے قريب مكہ و طائف كے درميان واقع تھى البتہ يہ جگہ مكے كى نسبت طائف سے نزديك تر ہے اور يہاں سے مكے كا فاصلہ تين راتوں میں طے ہوتا تھا ملاحظہ ہو : التنبيہ و الاشراف ص234 و معجم البدان ج2صفحہ 313 _
26_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 62 والارشاد مفيد ص 74_
27_تاريخ طبرى ج 3 ص 74_
28_السيرة النبويہ، ابن ہشام ج 4 ص 85_
29_الارشاد مفيد 76_
30_المغازى ج 3 ص 902_
31_السيرة النبويہ' ابن كثير ج 3 ص 620_
32_ملاحظہ ہو : الارشاد ص 75 و تاريخ يعقوبى ج 2 ص 63_
33_ملاحظہ ہو : الطبقات الكبرى ج 2 ص 152 و تفسير المنارج 10 ص 258_
34_الطبقات الكبرى ج 2 ص 151_
35_يہ كنويں كا نام تھا جو مكہ اور طائف كے درميان واقعہ تھا البتہ مكے سے زيادہ نزديك تھا معجم البلدان ج 2 ص 142 ' اس كنويں كا نام جعرَّانہ بھى لكھا گيا ہے_
36_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 927 تاريخ طبرى ج 3 ص 83_
37_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 936_ 937و تاريخ طبرى ج 3 ص 84_
38_بعض كتب تاريخ ميں درج ہے كہ رسول خدا(ص) نے يہ محاصرہ اول ماہ ذى القعدہ تك جارى ركھا ملاحظہ ہو بحارالانوار ج 21 ص 181 ، اور يہ قول اس بنا پركہ جنگ حنين بتاريخ دہم شوال واقعہ ہوئي ( المغازى ج 3 ص 892)حقيقت كے زيادہ نزديك ہے_
39_بحارالانوار ج 21 ص 182_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ چند قيديوں نے فديہ ادا كركے بھى آزادى حاصل كى تھي_
289
40_ملاحظہ ہو: الارشاد ص 76_
41_الطبقات الكبرى ج 2 ص 153_
42_ملاحظہ ہو : الارشاد ص 76_ 77 رسول خدا(ص) كے اس اقدام ميں شايد يہ نقطہ پنہاں تھا كہ مكہ كے تازہ مسلمان بالخصوص ان كے سرداروں ميں عقل وبصيرت نہ تھى بلكہ وہ خوف و مجبورى كى وجہ سے مسلمان ہوئے تھے اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) پر ان كى دلجوئي كرنا ضرورى تھى تاكہ ان كے دل اسلام كى جانب زيادہ مائل ہو جائيں فقہ اسلامى ميں اس عمل كو'' تاليف قلوب ''كہا جاتا ہے اور اس كا شمار مصارف زكات ميں ہوتا ہے_
43_المختصر فى اخبار البشر تاريخ ابوالفداء ج 1 ص 148_
44_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 890 والطبقات الكبرى ج 2 ص 150_
45_سورہ توبہ آيت 25_
46_ملاحظہ ہو : المغازى ج 3 ص 897_
47_ملاحظہ ہو : تاريخ يعقوبى ج 2 ص 62_
48_سورہ توبہ آيت 26_