249
سبق 13:
جنگ موتہ
251
دنيا كے بڑے بڑے حكمرانوں كو دعوت اسلام
صلح ''حديبيہ '' كے بعد رسول خد ا(ص) كو قريش كى جانب سے اطمينان خاطر ہوگيا _ اب وقت آگيا تھا كہ آنحضرت (ص) تبليغ دينكے محدودے كو سرزمين حجاز سے باہر تك پھيلائيں چنانچہ آپ (ص) نے دنيا كے ارباب اقتدار كو دين اسلام كى دعوت دينے كا عزم كرليا اور ماہ محرم سنہ 7 ہجرى ميں چھ سفير رسول خدا (ص) كے چھ خط لے كر ايران، روم ، حبشہ ، مصر ، اسكندريہ اوريمامہ كى جانب روانہ ہوئے_(1)
رسول خد ا(ص) كے خطوط جب مذكورہ بالا ممالك كے بادشاہوں تك پہنچے تو ہر ايك سے مختلف رد عمل ظاہر ہوا ، حبشہ كے بادشاہ نجاشى اور روم كے فرمانروا ''ہرقل'' نے آنحضرت (ص) كے رسول خدا (ص) ہونے كى گواہى دى اور كہا كہ انجيل ميں ہميں آپ (ص) كى آمد كے بارے ميں خوشخبرى دى جا چكى ہے اوريہ آرزو كى كہ آپ (ص) كى ركاب ميں رہنے كا شرف حاصل كريں_(2)
مصر اور اسكندريہ كا فرمانروا ''مقوقس''اگرچہ دين اسلام سے تو مشرف نہ ہوسكا ليكن رسول خد ا(ص) كے خط كا جواب اس نے بہت نرم لہجے ميں ديا اور ساتھ ہى چند تحائف بھى روانہ كئے انہى ميں حضرت ''ماريہ قبطيہ'' بھى شامل تھيں جن كے بطن سے رسول خدا (ص) كے فرزند حضرت ابراہيم (ع) كى ولادت ہوئي_ (3)
''تخوم شام'' كے حاكم ''حارث بن ابى شَمر'' ،يمامہ كے فرمانروا ''سليط بن عمرو'' اور
252
بادشاہ ايران ''خسرو پرويز'' نے اس بنا پر كہ ان كے دلوں ميں حكومت كى چاہ تھى رسول خدا (ص) كے خط كا جواب نفى ميں ديا_
بادشاہ ايران نے رسول خد ا(ص) كے نامہ مبارك كو چاك كرنے كے علاوہ يمن كے فرمانروا كو جو اس كے تابع تھا ،اس كام پرمامور كيا كہ وہ افراد كو حجاز بھيجے تاكہ رسول خدا (ص) كے بارے ميں تحقيقات كريں _(4)
حجاز سے يہوديوں كے نفوذ كا خاتمہ
رسول خد ا(ص) جب صلح ''حديبيہ'' كے فيض و بركت سے جنوبى علاقے (مكہ) كى طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ (ص) نے فيصلہ كيا كہ وہ يہودى جو مدينہ كے شمال ميں آباد ہيں ان كا معاملہ بھى بنٹا ديں كيونكہ ان كا وجود اسلامى حكومت كيلئے خطرہ ہونے كے علاوہ شمالى حدود ميں اسلام كى توسيع و تبليغ ميں بھى مانع تھا اس لئے كہ جب رسول خدا (ص) كے قطعى لہجے اور عزم راسخ كى بنياد پر بڑى طاقتوں نے يا تو دين اسلام قبول كيا تھا ياپھر انہيں حكومت كى چاہ نے شديد رد عمل كيلئے مجبوركيا تھا صورت ضرورى تھا كہ اسلامى حكومت كا اندرونى حلقہ ان خيانت كار عوامل اور ان غدار اقليتوں سے پاك و صاف رہے جو دشمن كے ساتھ سازباز كرنے والى تھيںاور ان كے لئے پانچويں ستوں كا كام دے رہى تھيں تاكہ جنگ ''احد'' اور ''احزاب'' جيسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ايسا ميدان ہموار ہوجائے كہ بالفرض باہر سے كسى عسكرى و اقتصادى خطرے كا احتمال ہو تو اس كا اطمينان سے سد باب كياجاسكے_
253
غزوہ خيبر
خيبر (5)يہوديوں كا مضبوط ترين عسكرى مركز تھا كہ جس ميں دس ہزار سے زيادہ جنگجو(6) سپاہى مقيم تھے ، رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ سب سے پہلے اس جگہ كو ان كے وجود سے پاك كياجائے(7) چنانچہ ماہ محرم سنہ 7 ہجرى ميں سولہ سو (1600)جنگ آزما سپاہيوں كو ساتھ لے كر آپ (ص) مدينہ سے خيبر كى جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان كے قلعوں كا محاصرہ كرليا ، اس لشكر كے علمدار حضرت على (ع) تھے_
قلعہ والوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عورتوں اور بچوں كو ايك اور ساز وسامان و خوراك كو دوسرے مطمئن قلعے ميں محفوظ كرديں ،اس اقدام كے بعد انہوں نے ہر قلعے كے تير اندازوں كو حكم ديا كہ مسلم سپاہ كو اندر داخل ہونے سے روكيں اور ضرورت پڑنے پر قلعے كے باہر موجود دشمن سے بھى جنگ كريں _
سپاہ اسلام نے دشمن كے سات ميں سے پانچ قلعے فتح كرلئے اس جنگ ميں تقريباً پچاس (50) مجاہدين اسلام زخمى ہوئے اور ايك كو شہادت نصيب ہوئي_
باقى دو قلعوں كو فتح كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے پہلے پرچم جناب ابوبكر كو ديا مگر انہيں اس مقصد ميں كاميابى نصيب نہ ہوئي اگلے دن حضرت عمر كو سپاہ كى قيادت دى گئي ليكن وہ بھى كامياب نہ ہوسكے_
تيسرے روز حضرت على (ع) كو يہ قلعہ فتح كرنے پر ماموركيا گيا، آپ (ع) نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ كرنے كيلئے روانہ ہوئے _
ادھر سے يہوديوں كے معروف دلير شہ زور '' مرحب '' بھى زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نكل كر باہر آيا اور پھردونوں شہ زوروں كے درميان نبرد آزمائي شروع ہوئي دونوں ايك دوسرے پر وار كرتے رہے كہاچانك حضرت (ع) كى شمشير براں مرحب كے فرق پر پڑى جس
254
كے باعث اس كے خود اور سر كى ہڈى كے دو ٹكڑے ہوگئے ، مرحب كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ان كے حوصلے پست ہو گئے اور وہ فرار كركے قلعوں ميں پناہ گزيں ہوئے جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس كا دروازہ بھى بند كرليا ليكن حضرت على (ع) نے اپنى روحانى طاقت اور قدرت خدا كى مدد سے قلعے كے اس دروازے كو جسے كھولنے اور بند كرنے پر بيس (8) آدمى مقرر تھے اكھاڑليا اور قلعہ كے باہر بنى ہوئي خندق پر ركھ ديا تاكہ سپاہى اس پر سے گزر كر قلعے ميںداخل ہوسكيں _(9)
اميرالمومنين حضرت على (ع) نے دشمن كے سب سے زيادہ محكم ومضبوط قلعہ كو فتح كركے فتنہ خيبر كا خاتمہ كرديا اور يہوديوں نے اپنى شكست تسليم كرلي، اس جنگ ميں پندرہ مسلمان شہيد اور ترانوے (93) يہودى تہ تيغ ہوئے _(10)
يہوديوں پر فتح پانے كے بعد اگر رسول خد ا(ص) چاہتے تو تمام خيانت كاروں كو سزائے موت دے سكتے تھے ، انہيں شہر بدر اور ان كے تمام مال كو ضبط كيا جاسكتا تھا مگر آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں نہايت درگذراور فراخ دلى سے كام ليا چنانچہ انہى كى تجويز پر انہيں يہ اجازت دے دى گئي كہ اگر چاہيں تو اپنے ہى وطن ميں رہيں اور اپنے دينى احكام كو پورى آزادى كے ساتھ انجام ديں بشرطيكہ ہر سال اپنى آمدنى كا نصف حصہ بطور جزيہ اسلامى حكومت كو ادا كريں اور رسول خدا(ص) جب بھى مصلحت سمجھيں گے انہيں خيبر سے نكال ديں گے_(11)
غزوہ خيبر ميں ''حُيَّى بن اخطب'' كى بيٹى ''صفيہ'' دوران جنگ مسلمانوں كى قيد ميں آئي تھيں رسول خدا(ص) نے''غزوہ خيبر'' سے فراغت پانے كے بعد پہلے تو انہيں آزاد كيا اورپھر اس سے نكاح كرليا _(12) اسى عرصے ميں يہ اطلاع بھى ملى كہ حضرت''جعفر بن ابى
255
طالب'' حبشہ سے واپس آگئے ہيں جسے سن كر آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ :''ان دو خبروں ميں سے كس پر اپنى مسرت كا اظہار كروں ، جعفر كى آمد پر يا خيبر كے فتح ہونے پر _(13)
فدك
خيبر كے يہوديوں پر فتح پانے كے بعد مسلمانوں كا سياسى ، اقتصادى اور عسكرى مقام ومرتبہ بہت بلند ہوگيا اس علاقے ميں آباد يہوديوں پر كارى ضرب لگى اور ان پر مسلمانوں كا رعب بيٹھ گيا _
رسول خد ا(ص) كو جب خيبر كے يہوديوں كى طرف سے يكسوئي ہوئي تو آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كو وفد كے ہمراہ ''فَدَك'' (14) كے يہوديوں كے پاس روانہ كيا اور فرمايا كہ يا تو وہ دين اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا پھر جنگ كےلئے تيار ہوجائيں_
فدك كے يہودى اپنى آنكھوں سے خيبر كے يہوديوں كى شكست ديكھ چكے تھے اور انہيں يہ بھى معلوم تھا كہ انہوں نے رسول خد ا(ص) كے ساتھ مصالحت كرلى ہے اسى لئے انہوں نے صلح كو قتل اور قيد و بند پر ترجيح دى اور اس بات كيلئے آمادہ ہوگئے كہ ان كے ساتھ بھى وہى سلوك كيا جائے جو خيبر كے يہوديوں كے ساتھ روا ركھا گيا ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا (15) چونكہ فدك كسى جنگ و خون ريزى كے بغير فتح ہوگيا تھا اسى لئے اسے خالص رسول خدا(ص) كى ذاتى ملكيت ميںشامل كرليا گيا اس جگہ كے متعلق ايسى بہت سى روايات موجود ہيںجن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ خداوند تعالى كے حكم سے رسول خدا(ص) نے فدك اپنى دختر نيك اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كو عطا كرديا_(16)
256
غزوہ وادى القري
رسول خدا (ص) نے يہود كى ''خيبر'' اور ''فدك'' جيسى پناہ گاہوں كو نيست ونابود كرنے كے بعد ''وادى القري'' كى تسخير كا ارادہ كيا اور يہوديوں كے قلعے كا محاصرہ كرليا ، انہوںنے جب يہ ديكھا كہ قلعہ بند رہنے سے كوئي فائدہ نہيں تو انہوں نے بھى اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے ان كے ساتھ بھى وہى معاہدہ كيا جو اس سے قبل خيبر كے يہوديوں كے ساتھ كيا جاچكاتھا (17)_
''تيماء يہود'' كے نام سے مشہور (18) علاقہ '' تيمائ'' (19) كے يہودى باشندوں نے جو رسول خدا (ص) كے سخت دشمن تھے ، جب دوسرے بھائيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان سے درس عبرت حاصل كيا اور اس سے قبل كہ رسول خدا(ص) انكى گوشمالى كے لئے ان كى جانب رخ كريں وہ خود ہى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور يہ وعدہ كركے كہ ''جزيہ'' ادا كريںگے رسول خدا (ص) سے معاہدہ صلح كرليا (20)اور اس طرح حجاز ميں جتنے بھى يہودى آباد تھے انہوں نے اپنى شكست قبول كرلى اور يہ تسليم كرليا كہ اس علاقے كى اصل طاقت اسلام ہى ہے_
مكہ كى جانب روانگي
جب حجاز ميں اندرونى طور پر امن بحال ہوگيا اور دشمنوں كو غير مسلح كركے شورشوں اور سازشوں كا قلع قمع كرديا گيا نيز صلح ''حديبيہ'' كو ايك سال گزر گياتو رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ اصحاب كے ہمراہ مكہ تشريف لے جائيں اور زيارت كعبہ سے مشرف ہوں چنانچہ يكم ذى القعدہ سنہ 7 ہجرى كو آنحضرت (ص) دو ہزار (2000) مسلم افراد كے ہمراہ عمرہ كرنے كى نيت
257
سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_
وہ قافلہ جو عمرہ كرنے كى نيت سے روانہ ہوا تھا اس كے آگے آگے (100) مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاكہ دشمن كى طرف سے كوئي خطرہ ہو تو وہ ان مسافرين كا دفاع كرسكيں جن كے پاس اتنا ہى اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں ركھا كرتے تھے _
جس وقت سپاہ اسلام كا مسلح ہر اول دستہ ''مرالظہران'' (21) نامى مقام پر پہنچا تو قريش كے سرداروں كو مسافرين كى آمد كا علم ہو اچنانچہ انہوں نے يہ اعتراض كيا كہ اسلحہ كے ساتھ مكہ ميں داخل ہونا ''صلح حديبيہ'' كے معاہدے كى خلاف ورزى ہے_
اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ ہم اسلحہ ساتھ لے كر حرم ميں نہيںجائيں گے، مشركين نے مكہ خالى كرديا اور اطراف كے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاكہ رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول(ص) كى تبليغ سے محفوظ رہتے ہوئے اوران كى حركات نيز افعال كا مشاہدہ كرسكيں_
رسول اكرم (ص) اپنے دو ہزار صحابيوں سميت خاص جاہ وجلال كے ساتھ مكہ ميںتشريف فرماہوئے ، جس وقت آپ (ص) خانہ كعبہ كى جانب تشريف لے جارہے تھے تو فضا ''لبَبَّيكَ اللَّہُمَّ لَبَّيكَ''كے نعروں سے ايسى گونج رہى تھى كہ مشركين كے دلوں پرغير معمولى رعب وخوف طارى تھا _
ناقہ رسول اكرم(ص) كى مہار حضرت'' عبداللہ ابن رواحہ'' پكڑكرچل رہے تھے وہ نہايت ہى فخريہ انداز ميں رجزيہ بيت پڑھ رہے تھے_
خَلُّوا بَني الكُفَّارَ عَن سَبيلہ
خَلُّوا فَكُلُّ الخَير في رَسُولہ (22)
''اے كفار كى اولاد رسول خد ا(ص) كےلئے راستہ صاف كردو انہيں آگے آنے كيلئے راستہ دو كيونكہ آنحضرت (ص) ہر خير كا منبع اور ہر نيكى كا سرچشمہ ہيں ''_
258
رسول خدا (ص) پر اصحاب رسول (ص) پروانہ وار نثار تھے چنانچہ آپ(ص) ان كے حلقے ميں خاص رعب ودبدبے كے ساتھ داخل مكہ ہوئے اور طواف كرنے كيلئے ''مسجدالحرام'' ميں تشريف لے گئے_
اس سياسى عبادى سفر سے ممكن فائدہ اٹھانے كى خاطر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ زائرين زيادہ سے زيادہ اپنى دينى قوت كا مظاہرہ كريں (23) نيز جس وقت طواف كريں تو حركت تيزى كے ساتھ كى جائے ، احرام كے كپڑے كو اپنے جسم كے ساتھ اس طرح لپيٹيں كہ قوى و تند مند بازو لوگوں كو نظر آئيں تاكہ ديكھنے والوں پر ان كى ہيبت طارى ہو _(24)
ظہر كے وقت حضرت ''بلال'' كو حكم ديا گيا كہ وہ خانہ كعبہ كى چھت پر جائيں اور وہاں سے اذان ديں تاكہ خداوند تعالى كى وحدانيت اور رسول خد ا(ص) كى عظمت مجسم كا اہل مكہ عينى مشاہدہ كرسكيں اور جو لوگ فرار كركے پہاڑوں پر چلے گئے ہيں وہ يہ بات اچھى طرح جان ليں كہ اب وقت فرار گزر چكا ہے واپس آجائو ، نماز اور فلاح كى جانب آنے ميں جلدى كرو_
''حَيَّ عَلَى الصَّلوة ، حَيَّ عَلَى الفَلَاَح''
حضرت بلال كى آواز نے قريش كے سرداروں پر ہر كچل دينے والى ضرب اور ہر شمشير براں سے زيادہ اثر كيا اور انتہائي طيش وغضب ميں آكر ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ''خدا كا شكر ہے كہ ہمارے باپ دادا اس غلام كى آواز سننے سے پہلے ہى اس دنيا سے كو چ كرگئے اور انہيں يہ دن ديكھنا نصيب نہ ہوا''_
اس طرح ''عمرہ القضا'' كاميابى اور كامرانى كے ساتھ ادا ہوا ، جس كے ذريعے خانہ كعبہ كى زيارت بھى ہوگئي اور عبادت بھى اس كے ساتھ ہى كفر كو اسلام كى طاقت كا اندازہ
259
ہوا اور آئندہ سال فتح مكہ كا ميدان بھى ہموار ہوگيا چنانچہ اس كے بہت سے سياسى ، عسكرى اورثقافتى اثرات نہ صرف اہل مكہ و قبائل اطراف بلكہ خود مسلمانوں كے قلوب پر نقش ہوئے_
يہ سياسى عبادى تحريك قريش كے سرداروں كے دلوں پر ايسى شقاق و گراں گزرى كہ انہوں نے تين دن بعد ہى رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں اپنا نمائندہ روانہ كيا اور كہا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے مكہ سے چلے جائيں_
اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكہ كى ''ميمونہ'' نامى خاتون سے رشتہ ازدواج قائم كيا تاكہ قرش كا تعلق آپ (ص) كے ساتھ مستحكم اور دشمنى وعداوت كا جذبہ كم ہوجائے كيونكہ اس كى قريش كے سرداروں سے قرابت دارى تھى (25) يہى نہيں بلكہ رسول خدا (ص) نے يہ بھى چاہاكہ شادى كى رسومات مكہ ميں ادا كردى جائيں اور آپ (ص) قريش كو دعوت وليمہ ميں مدعو فرمائيں اگريہ كام انجام پذير ہوجاتا تو اہل مكہ كو اپنى طرف مائل كرنے ميںمؤثر ہوتا مگر افسوس اہل مكہ نے اس تجويز كوقبول نہ كيا چنانچہ رسول خدا (ص) نے يہ رسم مكہ سے واپس آتے وقت ''سرف'' (26) نامى مقام پر پورى كي_(27)
جنگ ''موتہ''
مدينہ كے شمال ميںاور مدينہ سے شام كى طرف پرنے والے تجارتى رستے ميں آبادخيبر' فدك ' وادى القرى اور تيماء جيسے يہود يوں كے مراكز اور اہم مقامات كا قلع قمع ہونے كے ساتھ ہى اسلام كے سياسى اورمعنوى نفوذكا ميدان شمالى سرحدوں كى جانب مزيد ہموار ہوگيا_
260
اس علاقے كى اولاً اہميت اس وجہ سے تھى كہ وہ عظےم ترين تمدن جو اس زمانے ميں سياسى 'عسكرى ' اجتماعى اور ثقافتى اعتبار سے انسانى معاشرے كا اعلى و نماياں ترين تمدن شمار كيا جاتا تھا يہيں پرورش پارہا تھا دوسرى وجہ اس كا سرچشمہ آسمانى آئين و قانون تھا يعنى وہ آئين و قانون جس كى دين اسلام سے بيشتر واقفيت و ہم آہنگى ہونے كے علاوہ اس كے اور اسلام كے درميان بہت سى مشترك اقدار تھيں او ريہ مقام ديگر مقامات كى نسبت بہتر طور پر اور زيادہ جلدى حالات كو درك كرسكتا تھا اس كے علاوہ جغرافيائي اعتبار سے بھى يہ جگہ مدينہ سے نزديك تر تھى اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ سے قبل روم كى جانب توجہ فرمائي_
رسول خدا (ص) نے حضرت ''حارث بن عمير'' كے ہاتھ اپنا خط ''بصرہ'' كے بادشاہ كے نام جو ''قيصر'' كا دست پروردہ تھا روانہ كيا جس وقت رسول خدا (ص) كا يہ ايلچى ''موتہ'' (28) نامى گائوں پہنچا تو شرحبيل غسانى نے اسے قتل كرديا يہ واقعہ رسول خدا (ص) پر انتہائي شاق گزرا اور آنحضرت (ص) نے فوراً يہ فيصلہ كرليا كہ اس كا سد باب كياجائے چنانچہ آپ (ص) نے ماہ جمادى الاول سنہ 8 ہجرى ميں تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل لشكر ''موتہ'' كى جانب روانہ كرديا_
اس وقت تك مدينہ سے باہر جتنے بھى لشكر روانہ كئے گئے ان ميں سے سب سے بڑا لشكر تھا ،رسول خدا (ص) اسے رخصت كرنے كيلئے مسلمانوں اور سپاہيوں كے قرابت داروں كے ہمراہ مدينہ كے باہر تك تشريف لائے حضرت'' زيد بن حارثہ'' كوسپہ سالار نيز حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' و حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' كو حضرت زيد كا پہلا اور دوسرا نائب مقرر كرنے (29)كے بعد آپ (ص) نے اس كى وضاحت فرمائي كہ جس معركہ كو سر كرنے كيلئے جارہے ہيں اس كى كيا اہميت ہے اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں دعائے
261
خير فرمائي_
لشكر اسلام شام كى جانب روانہ ہوا ،''معان'' (30) نامى جگہ پر اطلاع ملى كہ قيصر كے دو لاكھ عرب اور رومى سپاہى ''مآب'' نامى مقام پر جمع ہوگئے ہيں_
يہ خبر سننے كے بعد مسلمانوں ميںتردد پيدا ہوگيا اور يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ واپس چلے جائيں يا وہيں مقيم رہيں اور پورے واقعے كى اطلاع رسول خدا (ص) كو پہنچائيں يا پھر اسى مختصر سپاہ كے ساتھ اس فرض كو انجام ديں جس پر انہيں مامور كيا گيا ہے اور سپاہ روم كے ساتھ جنگ كريں_
اس اثناء ميں حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' اپنى جگہ سے اٹھے اور لشكر كے سامنے تقرير كرتے ہوئے انہيں يہ ترغيب دلائي كہ اپنے فرض كو ادا كريں اور سپاہ روم كے ساتھ نبردآزماہوں ان كى تقرير نے سپاہ كے اندر ايسا جوش و ولولہ پيدا كيا كہ سب نے متفقہ طور پر فيصلہ كيا كہ سپاہ روم كے ساتھ جنگ كى جائے چنانچہ اس كے بعد وہ لشكر موتہ ميں ايك دوسرے كے مقابل تھے_
حضرت زيد نے پرچم سنبھالا اور جان پر كھيل كر وہ دوسرے مجاہدين كے ساتھ شہادت كے شوق ميں بجلى كى طرح كوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے دشمن تجربہ كا راور جنگ آموزدہ تھا اس كا لشكر نيزوں 'تلواروں اور تيز دھار تيروں سے آراستہ تھا اور اس طرف كلمہ توحيد ' جسے بلند وبالا كرنے كيلئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنى جان پر مول ليا تھا اورسپاہ روم پر يہ ثابت كرديا كہ وہ اپنے دين و آئين اور مقدس مقصد كو فروغ دينے كى خاطر جان تك دينے كيلئے دريغ نہيں كرتے_
دشمن كى توجہ سپاہ اسلام كے عملدار كى جانب مبذول ہوئي اس نے اسے اپنے نيزوں
262
كے حلقے ميں لے كر اسے زمين پر گراديا، حضرت ''جعفر(ع) ابن ابى طالب(ع) '' نے فوراً ہى پرچم كو اپنے ہاتھ ميں لے كرلہر ايا اور دشمن پر حملہ كرديا ، جس وقت انہوں نے خود كو دشمن كے نرغے ميں پايا اور يہ يقين ہوگيا كہ شہادت قطعى ہے تو اس خيال سے كہ ان كا گھوڑا دشمن كے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پيدل جنگ كرنے لگے يہاں تك كہ ان كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے آخر كار تقريباً اسى (80) كارى زخم كھا كر شہادت سے سرفراز ہوئے_
حضرت جعفر (ع) كى شہادت كے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اسلام سنبھالا اور سپاہ روم كے قلب پر حملہ كرديا وہ بھى دليرانہ جنگ كرتے كرتے شہادت سے ہمكنار ہوئے_
''خالد بن وليد حال ہى مےں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے وہ بڑے ہى چالاك اور جنگجو انسان تھے ، مجاہدوں كى تجويز اور رائے پر اسے سپہ سالار مقرر كرديا گيا جب انہيں جنگ كرنے ميں كوئي فائدہ نظر نہ آيا تو انہوں نے اب جنگى حربہ تبديل كيا (31) جس كى وجہ سے روميوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور اس نے اپنى فوج كو يہ سوچ كر پيچھے ہٹا ديا كہ آيا جنگ كى جائے يا نہيں ؟ _ اپنى اس حكمت عملى سے انہوں نے دشمن كے دولاكھ سپاہيوں سے سپاہ اسلام كو نجات دلائي اور واپس مدينہ آگئے_(32)
ابن ہشام نے جنگ ميں شہداء كى تعدادبارہ (33) اور واقدى نے آٹھ آدمى بيان كى ہے (34)_
جنگ موتہ كے نتائج
جنگ موتہ گرچہ بظاہر مسلمانوں كى شكست اور سپہ سالاروں كى شہادت پر تمام ہوئي اور
263
قريش نے اسے اپنى دانست ميں مسلمانوں كى ناتوانى سے تعبير كى _اس لئے اس جنگ كے بعد وہ ايسے دلير ہوگئے كہ انہوں نے قبيلہ ''بنى بكر'' كو اس وجہ سے مدد دينى شروع كردى كہ اس كى ان لوگوں كے ساتھ سازو باز ہوچكى تھى جس كے پس پردہ يہ سازش تھيكہ وہ ان كے اور قبيلہ ''خزاعہ'' كے درميان اس بناپر كشت وكشتار كا بازار گرم كردايں كہ اس قبيلے كا رسول خد ا(ص) كے ساتھ دوستى كا عہد وپيمان ہے چنانچہ انہوں نے قبيلہ ''خزاعہ'' كے چند افراد كو قتل كرديا اور صلحنامہ حديبيہ سے بھى روگردان ہوگئے نيز رسول خدا(ص) كے خلاف اعلان جنگ كرديا (35) ليكن جب ہم اس جنگ كى اہميت كے بارے ميں غورو فكر كريں گے تو اس نتيجے پر پہنچيں گے يہ جنگ سياسى طور پر اور دين اسلام كى اشاعت كيلئے نہايت سودمند ثابت ہوئي كيونكہ اس وقت ايران وروم جيسى دو بڑى طاقتوں كا اس عہد كى دنيا پر غلبہ تھا ان كے علاوہ جو بھى دوسرى حكومتيں تھيں وہ سب كسى نہ كسى طرح سے انہى كى دست پروردہ تھيں اور ان ميں اتنى تاب ومجال تك نہ تھى كہ يہ سوچ سكيں كہ ايسا دن بھى آسكتا ہے كہ وہ ان كے مقابلے پرآ سكيں گے ان دونوں حكومتوں ميں بھى روميوں كو ايرانيوں پر اس وجہ سے برترى حاصل تھى كہ انہوں نے ايران سے جنگ ميں مسلسل كئي فتوحات حاصل كى تھيں_
جزيرہ نمائے عرب كو ايران نے مشرقى جانب سے اورروم نے مغربى طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے ميں لے ركھا تھا جيسے انگوٹھى كے درميان نگينہ اور ان دونوں ہى بڑى طاقتوں كے اس خطہ ارض سے مفادات وابستہ تھے اورانہوںنے يہاں اپنى نو آباديات بھى قائم كر ركھى تھيں(36)_
جنگ موتہ نے ان دونوں بڑى طاقتوں بالخصوص روم كو يہ بات سمجھادى كہ اس كے اقتدار كا زمانہ اب ختم ہوا چاہتاہے اور دنيا ميں تيسرى طاقت ''اسلام'' كے نام سے پورے
264
كروفر كے ساتھ منظر عام پر آچكى ہے اور اس كے پيروكار ايمان كے زير سايہ اور خلوص وعقيدت كى بناپر جو انہيں اس دين اور اس كے قائد سے ملا ہے اپنے ، اعلى مقاصد كو حاصل كرليتے ہيں اور اس كے حصول كى خاطر وہ دشمن كى كثير تعداد اور سامان جنگ كى فراوانى سے ذرا بھى خوف زدہ نہيں ہوتے چنانچہ يہى وہ كيفيت تھى جس نے ان بڑى طاقتوں كے دلوںميں اسلام كا رعب و دبدبہ قائم كرديا_
دوسرى طرف جزيرہ نما ئے عرب ميں ان طاقتوں كے دست پروردہ افراد كو عملى طور پر يہ معلوم ہوگيا كہ وہ قليل افرادجو اپنے مقصد و ارادے ميں مضبوط و محكم ہيں روم جيسى بڑى طاقت سے جس كى سپاہ كى تعداد كل مسلمانوں كى تعداد سے ساٹھ گنا زيادہ ہے ٹكر لے سكتے ہيں اور ان كے گھروں ميں گھس كر انہيں ذليل و خوار تك كرسكتے ہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ اب دشمنان، اسلام كى عسكرى طاقت كا اعتراف كرنے لگے اور اس كى عظمت كارعب ان كے دلوں ميں بيٹھ گيا اور اب انہيں يہ بخوبى اندازہ ہوگيا كہ آئندہ مسلمان ان كے سامنے زيادہ قوت اور حوصلہ مندى كے ساتھ اب سے زيادہ وسيع ميدانوں ميں نبرد آزما ہونے كيلئے ظاہر ہوں گے_
265
سوالات
1_رسول خدا(ص) نے كب اور دنيا كے كن ممالك كو دين اسلام كى دعوت كا پيغام بھيجا ؟
2_ اس دعوت كا مختلف ممالك كے سربراہوں پر كيا رد عمل ہوا ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_
3_ غزوہ خيبر كب پيش آيا اور اس ميں كيا محركات كار فرما تھے؟
4_ غزوہ خيبر كس طرح اختتام پذير ہوا ؟ اس جنگ ميں حضرت على (ع) نے كيا كردار ادا كيا؟
5_ كيا رسول خدا (ص) كا خيبر كے يہوديوں كے علاوہ ان ديگر يہود كے ساتھ بھى جو مدينہ كے شمال ميں تھے كوئي مقابلہ ہوا؟ وہ مقابلہ كس طرح اور كہاں ہوا؟
6_ ''عمرة القضائ'' كا واقعہ كب پيش آيا ؟ اس كى ادائيگى ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟
7_ سريہ ''موتہ'' كا واقعہ كب ہوا؟ اس ميں كتنے مسلمانوں نے شركت كى ؟ ان كے فرمانروا كے نام كيا تھے اس سريہ كى سياسى و ثقافتى اہميت كے بارے ميں بتايئے_
8_ سريہ موتہ كا كيسے خاتمہ ہوا؟ اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟
266
حوالہ جات
1_الطبقات الكبرى ج 1 ص 258_262_
2_ايضا ص 259_
3_ايضا ص 260_
4_اےضا ص 259_ 262_
5_يہ جگہ مدينہ سے 8 بريد يعنى تقريباً96 كيلومٹر كے فاصلے پر واقع ہے (ہر بريد دو فرسخ كا ہوتا ہے اور ہر فرسخ تين ميل كا ہوتا ہے _ بنابرايںلفظ بريد كيلئے ملاحظہ ہو : لسان العرب ج 3 ص 86)خيبر ميں بہت سے قلعے ، كشت زار اور نخلستان واقع تھے (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج 2 ص 409 وفاء الوفا ج 3_4 ص 1209)_
6_المغازى ج 2 ص 634 _ 637 _642 ، ليكن يعقوبى نے جنگجو سپاہ كى تعداد بيس ہزار لكھى ہے تاريخ يعقوبى ج 2 ص 56_
7_منقول ہے كہ : خيبر ميں ايسے مضبوط قلعے تھے اور ان ميں اسلحہ سے ليس سپاہ اس كثرت سے موجود تھى كہ يہودى يہ تصور بھى نہيں كرسكتے تھے كہ رسول خد ا(ص) ان كے ساتھ جنگ كا ارادہ كريں گے_ ہر روز دس ہزار نبرد آزما سپاہى صف آرائي كرتے اور كہتے كہ كيا محمد (ص) كو اتنى جرات ہوسكتى ہے كہ وہ ہم سے جنگ كريں ايسا ہرگز نہيں ہوسكتا ( المغازى ج 2 ص 637)_
8_دروازہ قلعہ خيبر كے بڑے اور وزنى ہونے كے بارے ميں ديگر روايات بھى ملتى ہيں جن كى رو سے اس قلعے كے كھولنے اور بند كرنے پر چاليس افراد اور بقولےستر افراد مقرر تھے_( ملاحظہ ہو بحارالانوار ج 21 ص4)_
9_ملاحظہ ہو : الارشاد ص 65_ 67 بعض ماخذ ميں يہ بھى درج ہے كہ جب حضرت على (ع) كى سپر اس يہودى كے حملہ كرنے كى وجہ سے گر گئي تو آپ (ع) نے اس قلعے كے دروازے كو اكھاڑليا اور اسے بطور ڈھال استعمال كيا ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج 3 ص 349_ 350_
10_المغازى ج 2 ص 700_
11_السيرة النبويہ ، ابن كثير ج 3 ص 375_
12_بحارالانوار ج 21 ص 22_
13_بحارالانوار ج 21 ص 25_
267
14_يہ جگہ حجاز ميں خيبر كے نزديك واقع ہے اور مدينہ سے يہاں تك دو يا تين دن كا راستہ ہے _ معجم البلدان ج 2 ص 238_
15_ بحارالانوار ج 21 ص 22_ 23_
16_تفسير برہان ج 2 ص 414 _416 ذيل آيہ شريفہ ''وَآت ذَالقُربى حَقَّہ'' _
17_الكامل فى تاريخ ج 2 ص 222_
18_معجم البلدان ج 2 ص 67_
19_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان اورعہد نبوى ميں مدينہ سے آٹھ منزل تك فاصلے پر واقع تھى ملاحظہ ہو معجم البلدان ج 2 ص 67 و وفاء الوفاء ج 3 _4 ص 1164_
20_التنبيہ والاشراف ص 224_
21_يہ جگہ حرم كے نزديك مكہ سے پانچ ميل(تقريباً دس كلوميٹر) كے فاصلے پر واقع تھى _ معجم البلدان ج 5 ص 104_
22_السيرة النبويہ ج4 ص 13_
23_ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج 3 ص 24_
24_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ، ابن كثير ج 3 ص 432_
25_پروفيسر گيورگيوجن كى كتاب كا فارسى ترجمہ ''محمد (ص) پيغمبرى كہ از نو بايد شناخت'' كے زير عنوان طبع ہوچكا ہے ، اس شادى كے بارے ميں لكھتے ہيں كہ : يہ ازدواجى رشتہ پيغمبر خدا (ص) كى طرف سے نماياں سياسى اقدام تھا اس ضمن ميں موصوف نے مزيد لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى چونكہ آٹھ بہنيں اور تھيں اور ان ميں سے ہر ايك كى شادى مكہ كے كسى سربرآوردہ شخص سے ہوچكى تھى اسى لئے اس كے ذريعے پيغمبر خدا (ص) كاتعلق مكہ كے آٹھ برجستہ افراد سے قائم ہوگيا اس كے علاوہ حضرت ميمونہ (ع) كى والدہ اپنى شان و شوكت كے اعتبار سے عرب خواتين ميں بے مثال سمجھى جاتى تھيں ،اس كے بعد پروفيسر مذكور نے ابن ہشام اور ديگر سيرت نگاروں كے قول كو نقل كرتے ہوئے لكھا ہے كہ حضرت ميمونہ (ع) كى شادى كے ذريعے درحقيقت تمام اہل مكہ كے ساتھ رشتہ و قرابت قائم كرنا مقصود تھا اس شادى كا قابل ذكر پہلو يہ تھا كہ حضرت ميمونہ كے بھتيجے خالد
268
بن وليد مشرف بہ اسلام ہوئے _ ملاحظہ ہو مذكورہ كتاب ص 347_
26_يہ جكہ ''تنعيم' ' كے نزديك واقع ہے_ السيرة النبويہ ج 4 ص 14_
27_المغازى ج 2 ص 731 و 741 والطبقات الكبرى ج 2 ص 120_ 123_
28_ اس كا شمار حدود شام ميں بلقاء كے ديہات ميں ہوتا تھا _ معجم البلدان ج 5 ص 220_
29_اوپر متن ميں جو كچھ تحرير كيا گيا ہے وہ مورخين كى تحريروں پر مبنى ہے ليكن حضرت امام صادق (ع) سے حضرت ابان بن عثمان نے جو روايت نقل كى ہے (بحارالانوار ج 12 _ ص 55) اور جو اشعار حضرت كعب بن مالك نے موتہ كے شہداء كے مرثيے ميں كہے ہيں : اذ يَہدُونَ بجَعفَر: وَلوَائہ قُدَّامَ اَوَّلہم فَنعمَ الاوَّل'' ( سيرہ ابن ہشام ج 4 ص 28) وہ اس امر پر دلالت كرتے ہيں كہ سپہ سالار حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' تھے نہ كہ ''زيد بن حارثہ'' چنانچہ علامہ مجلسى نے بھى بحارالانوار كى ج 21 ص 56 پر يہ عبادت درج كى ہے كہ شيعوں كا عقيدہ ہے كہ جعفر اميرا ول مقرر كئے گئے تھے_
30_ملك شام ميں بلقاء كے ساتھحجاز كے راستے پر واقع ہے معجم البلدان ج 5 ص 153_
31_جنگى حربہ يہ تھا كہ رات ہوگئي تو خالد نے سپاہ كے دائيں بائيں آگے اور پيچھے كے حصے بدل ديئے اورمجاہدوںكو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرديا اور ساتھ ہى نئے پرچم لہراديئے چنانچہ جب رومى سپاہيوں كى نظر سپاہ و پرچم اسلام پر گئي تو انہوں نے سمجھا كہ مسلمانوں كى مدد كے لئے تازہ دم لشكر آن پہنچا ہے چنانچہ اسى وجہ سے ان كے دلوں پر خوف طارى ہوگيا_ اور وہ يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ آيا جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں _ المغازى ج 2 ص 764_
32_ملاحظہ ہو المغازى ج 2 ص 755 764 السيرة النبويہ ج 4 ص 15_ 21_
33_السيرة النبويہ ج 4 ص 30_
34_المغازى ج 2 ص 769_
35_ السيرة النبويہ ج 4 ص 31 _ 33_
36_ البتہ مؤلف كى يہ بات پہلے سبق ميں ان كى اس بات سے بالكل متضاد ہے كہ ايران اور روم جيسے كشور كشا ممالك يہاں كا رخ ہى نہيں كرتے تھے_ اس پر مزيد توجہ كى ضرورت ہے _ مترجم
|