227
سبق 12:
غزوات بنى قريظہ ، بنى مصطلق اور صلح حديبيہ
229
لشكر احزاب كى شكست كے اسباب
جنگ احزاب ميں اسلام كے خلاف شرك كى سب سے بڑى طاقت كے شكست پذير ہونے كے مختلف اسباب و عوامل تھے جن ميں سے چند ذيل ميں درج ہيں:
1_خداوند تعالى كى مخفى اور علانيہ مدد:
( يَاأَيُّہَا الَّذينَ آمَنُوا اذكُرُوا نعمَةَ الله عَلَيكُم إذ جَائَتكُم جُنُودٌ فَأَرسَلنَا عَلَيہم ريحًا وَجُنُودًا لَم تَرَوہَا وَكَانَ الله ُ بمَا تَعمَلُونَ بَصيرًا )_(1)
''اے ايمان والو ياد كرو اللہ كے احسان كو جو (ابھى ابھي) اس نے تم پر پر كيا ہے ، جب تم پر (احزاب كے)لشكر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر شديد آندھى بھيجى اور ايسى فوجيں روانہ كيں جو تم كو نظر نہ آتى تھى اللہ وہ سب كچھ ديكھ رہا تھا جو تم اس وقت كر رہے ''_
2_لشكر احزاب كے پہنچنے سے قبل خندق كا تيار ہوجانا جس كى وجہ سے نہ صرف دشمن شہر ميں داخل نہ ہوسكا بلكہ اس كے حوصلے بھى پست ہوگئے اور نفسياتى لحاظ سے اس پر كارى ضرب تھي_
3_اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كى دليرى اور شجاعت كے باعث مشركين كا سب سے بڑا بہادر ''عمرو بن عبدود'' ہلاك ہوا ، حضرت على (ع) كى ( تقدير ساز كارى )ضرب
230
مسلمانوں كے حوصلے بلند كرنے ميں نہايت مفيد اور كفار كے حوصلے پست كرنے ميں انتہائي كارآمد ثابت ہوئي _(2)
4_''نعيم بن مسعود'' كى وجہ سے دشمن كى صفوں ميں اختلاف و خليج كا پيدا ہونا _ وہ قريش ويہود كے درميان ممتاز اور قابل اعتماد شخص تھے ، جنگ سے كچھ عرصہ قبل تك وہ محاذ كفر ميں شامل رہے مگر ايك دن خفيہ طور پر رسول خدا (ص) كى خدمت ميںحاضر ہوئے اور دين اسلام سے مشرف ہونے كے بعد رسول خدا(ص) كى اجازت سے انہوں نے جنگى چال كا حربہ استعمال كيا اور لشكر كفار كے ذہنوں ميں شك و وسواس پيدا كركے احزاب كى فوج اور ان كى يكسوئي كو درہم برہم كرديا_
انہوں نے سب سے پہلے ''بنى قريظہ'' كے يہوديوں سے ملاقات كى اور گفتگو كے درميان ان كے دلوں ميں قريش كى طرف سے بدگمانى پيدا كردى اس كے ساتھ باتوں ہى باتوں ميں انہوں نے اُن كو اس بات كيلئے آمادہ كرليا كہ وہ سپاہ احزاب كے سامنے يہ شرط ركھيں كہ ہم اس صورت ميں تمہارے ساتھ تعاون كرسكتے ہيں كہ اپنے سرداروں ميں سے چند افراد كو ہمارے پاس بطور يرغمال بھيجو_
اس كے بعد وہ ''ابوسفيان '' كے پاس گئے اور كہنے لگے كہ ''بنى قريظہ'' نے محمد (ص) كے ساتھ جو عہد شكنى كى ہے اس پر وہ پشيمان ہيں اپنے اس اقدام كى تلافى كيلئے انہوں نے فيصلہ كيا ہے كہ تم ميں سے چند لوگوں كو بطور يرغمال پكڑليں اور انہيں محمد(ص) كے حوالے كرديں_''نعيم'' كى كوشش كا ہى يہ نتيجہ تھا كہ وہ دو گروہ جو باہمى طور پر متحد ہوگئے تھے اب ايسے بدظن ہوگئے كہ ايك نے دوسرے سے جو بھى پيشكش كى اسے رد كرديا گيا (3)_
231
5 _ دشمن كے مقابل رسول خدا (ص) كى استقامت و پائدارى اگر چہ اس وقت مسلمان دشوار ترين مراحل سے گزر رہے تھے اور پورى فضا ان كے خلاف ہوچكى تھى مگر ان صبر آزما حالات كے باوجود لشكر اسلام اس بات كيلئے تيار نہ تھا كہ دشمن كو ذرہ برابر بھى رعايت دى جائے _
6_رسول خد ا(ص) كى دانشمندانہ قيادت ، ميدان كارزار ميں مسلسل موجودگى ، عين وقت پر صحيح تدبير' سياسى اور جنگى چالوں كے باعث بيرونى اوراندرونى دشمن كے دلوں پر مايوسى كا چھاجانا_
7_فوجى نظم و ضبط' خندق كے نگہبانوں نيز گشتى پہرہ داروں كى زود فہمى اور محاذ جنگ كے متعلق تمام قواعد و آداب جنگ سے مكمل واقفيت _
8_سردى ' دشمن كے جانوروں كيلئے چارے كى كمى ، ميدان كارزار كى مكہ سے دوري' حملہ آور سپاہ كى جسمانى كوفت بالخصوص اس وقت جبكہ وہ بار بار سعى و كوشش كے بعد بھى خندق كو عبور كرنے ميں ناكام رہے_
جنگ ''احزاب'' كا خاتمہ اور مسلمانوں كى يورش كا آغاز
جنگ احزاب، دشمن كى قوت نمائي كا آخرى مظہر تھى ، ايسى عظےم طاقت كا اسلام كے ہاتھوں شكست سے دوچار ہونا فطرى طور پر اس حقيقت كا آئينہ وار ہے كہ اب دشمن كے حوصلے قطعى پست پڑگئے اور اس كى ہر اميد ياس ميں بدل گئي اور يہ بات جنگ احزاب كے بہترين نتائج ميں سے تھي_
چنانچہ اسى وجہ سے رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو خوشخبرى دى تھى كہ اس مرحلے پر پہنچ كر
232
اسلامى تحريك كے نئے دور كا آغاز ہوگا اور اس ضمن ميں فرمايا تھا كہ :''اَليَومَ نَغزُوہُم وَلَا يَغْزُونَا''_(4) يعنى اس كے بعد ہم ان سے جنگ كريں گے وہ ہم سے آكر جنگ نہيں كرسكيں گے_
اور اس كے بعد كے واقعات بھى اسى طرح رونما ہوئے جس طرح رسول اكرم (ص) نے پيشين گوئي كى تھى _ مسلمانوں كى فتح ونصرت نے سياسى ، عسكرى اور اقتصادى اعتبار سے مشركين پر ايسى كارى ضرب لگائي كہ رسول خد ا(ص) كى حيات ميں تو ان ميں اتنى بھى سكت باقى نہ رہى كہ اپنى كمر سيدھى كرسكيں اور اپنى اس شكست كى تلافى كرسكيں_
اس كے برعكس مسلمانوں نے ان مختلف پہلوئوں سے جن كا اوپر ذكر نے ميں كامياب ہو كيا جا چكا ہے وہ مقام ومرتبہ حاصل كرليا كہ اپنى توانائي اور برترى كے بل پر ہر سازش كو اس سے پہلے كہ وہ وجود ميں آئے نسيت ونابود كرديں_
عہد شكن لوگوں كى سزا
لشكر احزاب اگر چہ وقتى طور پر مسلمانوں كے چنگل سے نكل كر فرار كرنے ميں كامياب ہو گيا ليكن وہ داخلى خيانت كار (يہود بنى قريظہ) جو دشمن كے سپاہ كى تعداد ، اور سامان جنگ كى كثرت نيز اس كے پر فريب وعدوں كا شكار ہوگئے تھے اور اس كى فتح ونصرت كا انہيں پورا يقين تھا وہ اب بھى مسلمانوں كے ساتھ زندگى بسر كر رہے تھے ، اس خيال كے پيش نظر كہ وہ عدل وانصاف كے چنگل سے بچ كر نہ نكل جائيں انہيں ان كى خيانت كاريوں كى سزا دينى ضرورى تھي_
چنانچہ رسول خدا (ص) جيسے ہى غزوہ خندق سے واپس تشريف لائے فوراً ہى فرشتہ وحى نازل
233
ہوااور پيغمبر اكرم (ص) كو ہدايت دى كہ آنحضرت(ص) ''بنى قريظہ'' كے قلعہ كى جانب تشريف لے جائيں_
رسول خد ا(ص) 23 ذى القعدہ (5) كو تين ہزار جنگجو افراد كو ساتھ لے كر دشمن كے قلعہ كى جانب روانہ ہوئے اس لشكر كے علم بردار حضرت على (ع) تھے اوروہ لشكر كے ہر اول دستے كے ساتھ ان كى طرف بڑھ رہے تھے_(6)
نماز عصر ادا كرنے كے بعد دشمن كے قلعے كا محاصرہ ہواجو پندرہ (7) يا پچيس روز (8)تك جارى رہا اس عرصے ميں دونوں طرف سے صرف تيراندازى ہوتى رہى اور اس كے علاوہ كوئي واقعہ رونما نہيں ہوا_
يہوديوں نے جب ديكھا كہ مقابلے كا كوئي فائدہ نہيں تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے چنانچہ انہوں نے اس طرح كى تجاوز پيش كيں كہ انہيں مدينہ سے چلے جانے كى اجازت دے دى جائے پہلے تو وہ اپنا مال واسباب بھى ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر بعد ميں اس بات پربھى راضى ہوگئے كہ وہ اپنے سارے ساز وسامان كو يہيں چھوڑ كر كوچ كرجائيں ليكن رسول خدا (ص) كو ابھى تك يہ ياد تھا كہ ''بنى قينقاع'' اور ''بنى نضير'' نے مدينہ سے باہر نكل جانے كے بعد كيا كيا خيانت كارياں كى تھيں اور آنحضرت (ص) يہ بات اچھى طرح جانتے تھے كہ اگر يہ لوگ بھى عدل وانصاف كے چنگل سے نكل گئے تو ممكن ہے كہ اسلام كے خلاف نئي سازشےں تيار كرنے ميں لگ جائيں اسى لئے آپ (ص) نے ان كى تجاويز كو رد كرديا اور يہ مطالبہ كيا كہ وہ بلا قيد و شرط ہتھيار ڈال ديں _
محاصرہ كو جارى ديكھ كر بنى قريظہ كے لئے خود كو تسليم كرنے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہ رہا چنانچہ انہوں نے قلعے كے دروازے كھول ديئے اور رسول خد ا(ص) كے حكم سے اسلحہ ان سے
234
ضبط كركے انہيں ايك گوشہ ميں حراست ميں لے ليا گيارسول خدا(ص) كى تجويز اور مقيد يہوديوں كے مشورے سے قبيلہ اوس كے سردار حضرت ''سعد بن معاذ '' اور جنگ احزاب كے ايك زخمى كو ان كے بارے ميں قائم كى گئي عدالت كا حاكم مقرر كياگيا _(9)
سعد نے مردوں كے قتل ، عورتوں اور بچوں كى اسيرى اور ان كے تمام مال و اسباب پر بطور مال غنيمت قابض ہوجانے كا حكم صادر كيا ، جب سعد نے اپنا حكم صادر كر ديا تو رسول خدا (ص) نے ان سے فرمايا كہ :''سچ تو يہ ہے كہ ان كے بارے ميں تم نے وہى حكم صادر كيا ہے جو خداوند تعالى نے سات آسمانوں پر سے جارى كيا تھا''_
حضرت سعد ايك مومن ' متقى 'دانشمند اور سياسى شخض تھے اسى لئے انہوں نے جو فيصلہ صادر كيا وہ اس دور كے اسلامى معاشرے سے واقفيت پر مبنى تھا اور چونكہ وہ خيانت كار و سازشى عناصر كى كيفيت سے بخوبى واقف تھے اسى لئے انہوں نے اس پہلو كو بھى مدنظر ركھا نيز ديگر مسلمانوں پر بھى بارہا ثابت ہوچكا تھا كہ يہودى شرپسند اور ضدى ہونے كے باعث ہميشہ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف سازشيں كرنے ميں منہمك رہتے ہيں اگر چہ رسول خدا (ص) نے ہميشہ نرمى اور در گزرسے كام ليا ليكن اس كے باوجود انہى لوگوں نے جنگ احد اور جنگ احزاب كے فتنے كو ہوا دى اور قتل و غارت گرى نيز تمام نقصانات كا سبب بنے_
كيا يہ تجربات اس مقصد كيلئے كافى نہ تھے كہ سعد ان خيانت كاروں كے بارے ميں وہى اقدام كريں جو رسول خد ا(ص) ''ابو عزہ'' خيانت كار كے بارے ميں فرماچكے تھے_(10) اور وہى بات نہ دہراتے جو رسول خدا (ص) كى مبارك زبان سے نكل چكى تھى يعنى مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا اور وہ بھى '' حُيّى ابن اخطب'' جيسے خيانت كار كے بارے ميں جس نے تختہ دار پر بھى نہايت گستاخى كے ساتھ رسول خدا (ص) سے كہا تھا كہ ''اس دشمنى كے
235
باعث جو ميرے اور تيرے درميان ہے ميں خود كو قابل ملامت نہيں سمجھتا''_ (11)
اس كے علاوہ ''بنى قريظہ'' نے رسول خد ا(ص) سے جو عہد وپيمان كيا تھا اس ميں وہ اس شرط كے پابند تھے كہ وہ ہرگز رسول (ص) اور صحابہ رسول (ص) كے خلاف كوئي اقدام نہ كريں گے نيز ہاتھ اور زبان سے آنحضرت (ص) كو كوئي اےذا و تكليف نہيں پہنچائيں گے اور اگر وہ ان شرائط كى خلاف ورزى كريں گے تو رسول خدا (ص) كيلئے ان كا خون بہانا ' ان كے مال كو ضبط كرنااور ان كى عورتوں نيز بچوں كو اسير كرنا مباح ہوگا (12)اس بنا پر سعد نے جو حكم جارى كيا وہ اس عہد و پيمان كى بنياد پر تھا جو بنى قريظہ كرچكے تھے_
''بنى قريظہ'' كى خيانت كاريوں پر اگر غور كياجائے تو ہم پر يہ حقيقت عياں ہو جائے گى كہ رسول خد ا(ص) نے ان كے ساتھ جو سلوك كيا وہ اسلام ويہوديت كا مسئلہ نہ تھا بلكہ اس كا سبب وہ عہد شكنى تھى جو اسلام كے ساتھ وہ ہميشہ سے كرتے آئے تھے ،قبيلہ ''بنى قنيقاع '' و''بنى نضير'' كے علاوہ ''خيبر'' اور ''وادى القري'' كے يہوديوں كے ساتھ رسول خدا (ص) كا جو بزرگوارانہ رويہ رہا اور جس تحمل و بردبارى كا آنحضرت (ص) سلوك فرماتے رہے نيز ''بنى قريظہ'' كے ساتھ جو مسالمت آميز معاہدہ آپ (ص) نے كيا وہ ان حقائق كو سمجھنے ميں ہميں مدد ديتے ہيں_
اس بناپر كہاجاسكتا ہے كہ دشمنان اسلام جب اسلام و يہوديت كى دشمنى كا ذكر كرتے ہوئے ان واقعات كو بطور سند بيان كرتے ہيں تو وہ يا تو اسلام اور سيرت رسول خد ا(ص) سے واقف نہيں ہوتے اور يا اس ميں ان كى كوئي خاص غرض شامل ہوتى ہے_
اس كے باوجود بعض مسلم مورخےن (13) نے اس واقعہ قتل كى صحت كے بارے ميں شك وترديد كا اظہار كركے مسلمانوں كى اس تقدير ساز جنگ ميں ان كى عظےم خيانت كارى كو
236
نہايت ہى معمولى واقعہ سمجھا ہے بقول رسول خدا (ص) كل ايمان كا سراپا كفر كے ساتھ مقابلہ تھا اور يہودى كفر كے ساتھ تھے(14)_اس كے ساتھ ہى اس ترديد كا مطلب'' غزوہ احد'' اور '' غزوہ احزاب '' ميں ان كے مجرمانہ افعال سے بھى چشم پوشى اور حق كے سامنے ان كے غير لچك دار اور ہٹ دھرم رو يہ پر عدم توجہ ہے_ چنانچہ يہى كينہ توزى اور اسلام دشمنى ہم يہودى ''بنى قريظہ'' كى موجودہ نسل 'اسرائيل اور صہيونيت كے ان تمام پيروكاروں ميں ديكھتے ہيں جو سارى دنيا ميں پھيلے ہوئے ہيں_
''بنى قريظہ'' كى خيانت كارى اور انہيں اس كى سزا ديئے جانے كے واقعے كو تمام مورخين كے علاوہ شيخ مفيد مرحوم' (15) ابن شہرآشوب ' (16 ) قمى (17) طبرسى (18) علامہ مجلسى (19)اورمعاصرين ميں علامہ طباطبائي (20) جيسے محدثين اور مفسرين نے اپنى تصانيف ميں بيان كيا ہے اس بناپر خيانت كاروں كو ان كے كئے كى سزاديئے جانے كے اصل واقعہ كے بارے ميں كسى توجيہ يا خدشے كى گنجائشے باقى نہيں_
غزوہ بنى قريظہ كا سودمند پہلو
''بنى قريظہ'' كے يہود يوں كا قلع قمع كئے جانے كے بعد مسلمانوں كو يہ اطمينان حاصل ہو گيا كہ ان جاسوسوں كا خاتمہ ہوگيا ہے جو اندرون محاذ ميں سرگرم عمل تھے اور اس كى وجہ سے اسلامى حكومت كے مركز ميں قائم مشركين كى فوجى اور انٹيلى جنس ايجنسى كى سرگرميوں كا خطرہ بھى باقى نہ رہااور چونكہ مال غنيمت ميں مسلمانوں كے ہاتھ اسلحہ بھى لگا تھا اس لئے مسلمانوں كى اقتصادى اور عسكرى طاقت كو ايسى تقويت پہنچى كہ اس كى وجہ سے آئندہ فتوحات بالخصوص يہوديوں پر غلبہ پانے كى راہيں ہموار ہوگئيں اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص)
237
كا مقام ومرتبہ بحيثيت قائد اور اسلامى طاقت كا رعب و دبدبہ ہر دوست و دشمن كے دل ميںجم گيا_
صلح ومحبت كا سال
سنہ 6 ہجرى كو ''سنة الاستئناس''(21) يعنى انس ومحبت كا سال كہاجاتا ہے (22) چنانچہ يہ سال مسلمانوں كيلئے نہايت ہى پر خےرو بركت اور سازگا رہا_
اس سال مسلمانوں نے تقريباً تيس جنگى معركے كئے اور بيشتر مواقع پر وہ فتح و كاميابى سے ہمكنار ہوئے اور دشمن كا بہت سا مال غنيمت ہاتھ لگا (23) ذيل ميں ہم مختصر طور پر دو غزوات كا جائزہ ليں گے_
1_غزوہ ''بنى مصطلق''
قبيلہ ''بنى مصطلق'' كى چونكہ جنگ احد ميں قريش كے ساتھ ساز باز تھى اسى لئے انہوں نے مسلمانوں كے ساتھ نبرد آزما ہونے كےلئے جنگى سامان كى فراہمى شروع كردى _
رسول خدا(ص) كو جب ان كى سازش كا علم ہو اتو آنحضرت (ص) نے اپنے لشكر كو آمادہ جنگ ہونے كا حكم ديا چنانچہ ماہ شعبا ن 6 ہجرى ميں مسلمانوں كو ايك گروہ كو ساتھ لے كر آپ (ص) دشمن كى جانب روانہ ہوئے '' مريسيع '' (25) نامى مقام پر غنيم سے مقابلہ ہوا اس معركہ ميں سازشى گروہ كے دس (10) افراد مارے گئے او رباقى چونكہ مقابلے كى تاب نہ لاسكے اس لئے انہوں نے راہ فرار اختيار كرنے ميں ہى عافيت سمجھى اور چونكہ وہ عورتوں اور بچوں كے ساتھ گرفتار ہوكر آئے تھے نيز ان كا مال جو تقريباً دو ہزار اونٹوں اور پانچ ہزار بھيڑوں پر
238
مشتمل تھا، بطور غنيمت مسلمانوں كے ہاتھ لگا_
قيديوں كو مدينہ منتقل كرنے كے بعد رسول خدا (ص) نے قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے سردار ''حارث ابن ابى ضرار'' كى لڑكى ''جويريہ'' سے فديہ ادا كرنے كے بعد نكاح كرليا _
مسلمانوں نے جب يہ ديكھا كہ اس شادى كے ذريعہ قبيلہ بنى مصطلق اور رسول خدا (ص) كے درميان قرابت دارى ہوگئي ہے تو انہوں نے فديہ لئے بغير ہى تمام قيديوں كو يہ كہہ كر آزاد كرديا كہ يہ بھى رسول خدا (ص) كے رشتہ دار ہيں_
اس پر بركت رشتہ ازدواج اور رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے حسن سلوك كے باعث قيديوں كے دل دين اسلام كى جانب مائل ہوگئے چنانچہ ان سب نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كيا اور ہنسى خوشى اپنے اپنے وطن واپس چلے گئے _(26)
2_ صلح حديبيہ
سنہ 5' 6 ہجرى كے دوران محاذ حق پر مسلمانوں كو جو پے در پے فتوحات نصيب ہوئيں ان كے باعث سياسي' اقتصادى نيز عسكرى اعتبار سے اسلام كى حيثيت ''جزيرہ نمائے عرب'' ميں پہلے سے كہيں زيادہ مستحكم و پائدار ہوگئي اس كے ساتھ ہى رسول خد ا(ص) كے لئے يہ امكان پيدا ہوگيا كہ قريش كى سازشوں سے بلاخوف و خطر اور اسلحہ و ساز وسامان جنگ كے بغير مكہ كا سفر اختيار كركے زيارت كعبہ سے مشرف ہو سكيں چنانچہ آپ (ص) نے اندرون وبيرون مدينہ اعلان كرايا كہ لوگ اپنے اس عبادى ، سياسى سفر كى تيارى كريں_
تقريباً چودہ (1400) پندرہ (1500 )يا سولہ (1600) سو سے زيادہ افراد نے اس سفر پر روانہ ہونے كےلئے آمادگى ظاہر كردى ، رسول خدا(ص) نے ان سے فرمايا كہ :
239
اس سفر پر جانے كا ہمارا مقصد جنگ نہيں بلكہ عمرہ كرنا ہے چنانچہ ہر شخص اپنے ساتھ ايك تلوار اس وجہ سے لے سكتا ہے كہ يہ مسافروں كےلئے ضرورى ہے _
اس كے بعد رسول خد ا(ص) نے قربانى كيلئے ستر (70) اونٹ اپنے ساتھ لئے_آنحضرت (ص) كے علاوہ اصحاب نے بھى قربانى كے مقصد كيلئے اونٹ اپنے ساتھ لئے _ رسول خدا (ص) نے ''ذوالحليفہ'' نامى مقام پر احرام باندھا اور پہلى ذى القعدہ سنہ 6 ہجرى كو خانہ خدا كى زيارت كى خاطر مدينہ سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_(27)
مسلمانوں كى اس مختصر تعداد كے ساتھ رسول خد ا(ص) كا سفر مكہ اختيار كرنا اور وہ بھى عسكرى ساز وسامان كے بغير خطرات سے خالى نہ تھا كيونكہ يہ واضح تھا كہ قريش اسلام پر كارى ضرب لگانے نيز رسول خدا(ص) كو اپنے راستے سے ہٹانے كے علاوہ كچھ سوچتے ہى نہيں تھے اور گزشتہ چند سال كے دوران ان كا سابقہ رسول خدا (ص) كے ساتھ ميدان جنگ ميں اس طرح پڑا تھا كہ ہر بار منہ كى كھائي تھى تو جب رسول خدا (ص) كو صحابہ كى اس مختصر جماعت كے ساتھ ديكھيں گے اور انہيں معلوم ہوگا كہ آنحضرت (ص) بغير اسلحہ كے تشريف لا رہے ہيں تو وہ لامحالہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے كى كوشش گے اور اسلام و پيغمبر اكرم (ص) كا كام ہى تمام كر ديںگے_
چنانچہ اسى وجہ سے منافقين اور صحرا نشين عربوں نے رسول خدا (ص) كے ساتھ مكہ جانے سے اجتناب كيا اور يہ نتيجہ اخذ كيا كہ اگر وہ مسلمانوں كى اس مختصر جماعت كے ساتھ بغير اسلحہ كے جائيں گے تو ہرگز مدينہ واپس نہ آسكيں گے اور جب قريش اس جماعت كو معمولى ساز وسامان كے ساتھ ديكھيں گے تو انہيں نيست ونابود كرديں گے_(28)
چنانچہ قرآن مجيد نے ان كے گمان كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ :
240
( بَل ظَنَنتُم أَن لَن يَنقَلبَ الرَّسُولُ وَالمُؤمنُونَ إلَى أَہليہم أَبَدًا )_(29)
''بلكہ تم لوگوں نے تو يہ سمجھا كہ رسول (ص) اور مومنين اپنے گھروں كو ہرگز پلٹ كر نہ آسكيںگے''_
قريش كى مخالفت
مشركين مكہ كو معلوم ہوگيا كہ رسول خدا (ص) ان كے شہر كى طرف تشريف لارہے ہيں چنانچہ انہوں نے سپاہ اسلام كو مكہ ميں داخل ہونے سے روكنے كيلئے ''خالد بن وليد'' كو دوسو(200) سواروں كے ہمراہ رسول خد ا(ص) كى جانب روانہ كيا_
رسول خدا (ص) نے اس خيال كے پيش نظر كہ دشمن سے مقابلہ نہ ہو راستہ كو بدل كر اپنا سفر جارى ركھا اور ''حديبيہ ''(30) نامى جگہ پر قيام فرمايا _(30) لشكر''خالد بن وليد'' بھى رسول خد ا(ص) كا تعاقب كرتا ہواسپاہ اسلام كے نزديك پہنچ گيا اور وہيں اس نے پڑائو ڈالا_
رسول خدا (ص) حرمت كے مہينے كے احترام اور اپنے پيش نظر اہداف و مقاصد كے تحت ہرقسم كے تصادم سے بچنے كے لئے كوشاں تھے_
مذاكرات كا آغاز
پہلے قريش نے اپنے نمائندے رسول خدا(ص) كى خدمت ميں بھيجے تا كہ يہ جاننے كے ساتھ كہ آنحضرت (ص) نے يہ سفر كس مقصد سے اختيا ركيا ہے ضرورى اطلاعات بھى حاصل كرليں، رسول خدا (ص) نے نمائندگان قريش كو جواب ديتے ہوئے تاكيد سے فرمايا كہ ہم جنگ
241
كرنے كيلئے نہيں آئے ہيں بلكہ ہمارا مقصد تو عمرہ اور زيارت كعبہ سے مشرف ہونا ہے ليكن ہٹ دھرم قريش نے ايسى سختى پاليسى اختيار كى كہ وہ كسى طرح بھى پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ مسالمت آميز برتاؤ نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ انہوںنے رسول خدا(ص) كے اس نرم رويے كا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لشكر كے پچاس (50) سپاہيوں كو اس كام كےلئے مقرر كرديا كہ وہ سپاہ اسلام كے نزديك جاكر چند لوگوں كو گرفتار كر كے لے آئيں _ ليكن سپاہ اسلام كے مستعد پاسبانوں نے ان سب كو گرفتار كرليا اور رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پيش كرديا ، رسول خدا (ص) نے انہيں يہ بتانے كيلئے كہ آپ (ص) كا رويہ صلح آميز ہے ان سب كو آزاد كرديا_
جب قريش كے نمائندوں كى آمد و رفت كا كوئي فائدہ نہ ہوا تو رسول خدا(ص) نے اپنے نمائندے قريش كى جانب روانہ كئے ، ليكن انہوںنے نمائندوں كے ساتھ بدسلوكى كى بلكہ ان ميں سے ايك كے پيچھے اونٹ دوڑا كر ان كى جان لينے كا قصد كيا اور دوسرے كو اپنے پاس روك ليا _(31)
بيعت رضوان
جب رسول خدا (ص) كے آخرى نمائندے (عثمان )صحيح وقت پر واپس نہ آئے تو اس افواہ كو تقويت ملى كہ انہيں قتل كرديا گيا ہے اور يہ بات رسول خدا (ص) اور مسلمانوں پر بہت شاق گزري_
اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ جب تك قريش كا خاتمہ نہيں كرليتے ہم يہاں سے نہيں جائيں گے اور آنحضرت (ص) نے مسلمانوں سے كہا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں آپ(ص) كے دست مبارك پر بيعت كرليں ، مسلمين نے اس درخت كے نيچے جس كانام ''سمرہ'' تھا يہ
242
بيعت كى كہ مرتے دم تك ہم آپ (ص) كے ساتھ ہيں چنانچہ يہى وہ بيعت ہے جسے ''بيعت رضوان'' سے تعبير كيا گيا ہے اور قرآن مجيد ميں بھى اس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے_
(لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المُؤمنينَ إذ يُبَايعُونَكَ تَحتَ الشَّجَرَة فَعَلمَ مَا فى قُلُوبہم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيہم وَأَثَابَہُم فَتحًا قَريبًا )(32)
''اللہ مومنين سے اس وقت خوش ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تم سے بيعت كر رہے تھے ان كے دلوں كا حال اس كو معلوم تھا اسى لئے اس نے ان اطمينان و پر سكون نازل فرمايا اور ان كو انعام ميںعنقريب ہونے والى فتح بخشي''_
جب لوگ رسول خدا (ص) كے دست مبارك پر بيعت كرچكے تو معلوم ہوا كہ آپ (ص) كا نمائندہ قتل نہيں ہوا ہے_ اس واقعہ كے بعد قريش نے ''سہيل بن عمرو'' كو مصالحت كى غرض سے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا طويل بحث وگفتگو كے بعد صلح كا معاہدہ كيا گيا جس كى بنياد پر طرفين ميں يہ طے ہوا كہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہ كريں گے ، اس سال تو مسلمان يہيں سے واپس مدينہ چلے جائيں ليكن آئندہ سال بيت اللہ كى زيارت كو آسكتے ہيں ، مسلمين ومشركين كو اپنى دينى رسومات ادا كرنے كى اجازت ہوگي، طرفين كو اس بات كى بھى اجازت ہوگى كہ وہ جس قبيلے كو بھى چاہيں اپناحليف بناليں اگر قريش كے كسى فرد نے مسلمانوں كى پناہ لى تو ان كيلئے يہ لازم ہوگا كہ وہ اسے واپس كريں ليكن قريش كے لئے يہ ضرورى نہيں ہوگا كہ وہ بھى كسى مسلمان پناہ گزين كو واپس كريں_
جب صلح كا عہد وپيمان ہوگيا تو رسول خدا (ص) اور مسلمانوں نے اپنى قربانى كے اونٹوں كونحركيا ، سروںكے بال ترشوا كر احرام سے باہر نكلے اورمدينہ واپس آگئے _(33)
243
صلح حديبيہ كے سياسي، مذہبى اور معاشرتى نتائج
بعض مسلمانوں كى رائے كے برعكس (34) صلح حديبيہ اسلام كى عظيم الشان فتح وكامرانى تھى چنانچہ قرآن نے اسے ''فتح مبين'' كے عنوان (35) سے ياد كرتے ہوئے فرمايا ہے :
(إنَّا فَتَحنَا لَكَ فَتحًا مُبينًا )
''اے نبى (ص) ہم نے تم كو كھلى فتح عطا كردي''_
اور رسول خدا (ص) نے اسے ''اعظم الفتوح'' يعنى عظےم ترين فتح سے تعبير فرمايا ہے(36)
اس دوركے اسلامى معاشرے كيلئے اس فتح ونصرت كے بہت سے عمدہ اورسود مند نتائج برآمد ہوئے جن ميں سے ہم بعض كا ذكر ذيل ميں كريں گے_
1_رسول خد ا(ص) كى پيش قدمى كے باعث ايك طرف تو صلح وامن كے امكانات روشن ہوگئے اور دوسرى طرف مكہ كے فريب خوردہ لوگوں پر يہ حقيقت عياں ہوگئي كہ رسول خدا (ص) كے دل ميں حرمت كے مہينوں ' شہر مكہ اور خانہ خدا كے لئے بہت زيادہ عقيدت و احترام پايا جاتا ہے_
2_ صلح حديبيہ كى وجہ سے اسلام كوباقاعدہ طور پر تسليم كرليا گيا اور قريش كے دلوں پر اس كى طاقت و عظمت بيٹھ گئي، اس صلح كے باعث ہى جزيرہ نما ئے عرب ميں اسلام كے وقار كو بلندى حاصل ہوئي اور مسلمانوں كے اثر و رسوخ كے امكانات وسيع ہوگئے _
3_مسلمانوں پر اس وقت تك جو پابندياں عائد تھيں وہ ختم ہوگئيں اور وہ ہر جگہ رفت و آمد كرسكتے تھے چنانچہ اس باہمى ربط و ضبط كا ہى نتيجہ تھا كہ لوگوں نے اسلام كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ واقفيت حاصل كى _
244
4_جزيرہ نمائے عرب ميں دين اسلام كى اشاعت كيلئے مناسب ميدان فراہم ہوگيا اب تك مختلف قبائل كے دلوں ميں اسلام كے بارے ميں غلط فہمى اور بدگمانى تھى ان افراد كو جب رسول خدا (ص) نے صلح پسندى كى دعوت عام دى تو وہ لوگ اسلام كے بارے ميں از سر نو غور وفكر كرنے مجبور ہوگئے اور اس كى وجہ سے وہ رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے زيادہ نزديك آگئے_ صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے درميان تقريباً دو سال كا ہى فاصلہ ہے اور يہ فتح اس حقيقت پردلالت كرتى ہے كہ اس كے باعث مسلمانوں كے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوا_
5_ اس فتح كے باعث ہى مسلمانوں پر ''فتح خيبر'' كى راہيں كھليں''خيبر'' درحقيقت يہود يوں كى وہ سرطانى غدود تھى جو اسلامى حكومت كيلئے بہت بڑا خطرہ بنى ہوئي تھى اسى طرح مركز شرك ، مكہ كى فتح كا باعث بنى اور سب سے اہم بات يہ تھى كہ عرب معاشرے ميں جو انقلاب رونما ہوا تھا اب وہ حجاز كى باہر پہنچنے لگا چنانچہ يہ صلح حديبيہ كا ہى فيض تھا كہ رسول خدا (ص) كو يہ موقع مل گيا كہ آنحضرت (ص) ايران ، روم اور حبشہ جيسے ممالك كے حكمرانوں كو متعدد خط روانہ كريں اور انہيں دعوت اسلام ديں_
245
سوالات
1_ سپاہ احزاب كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_
2_ رسول خدا (ص) نے كونسى جنگ كے بعد :'' اَلْيَوْمَ نَغْزُوْہُمْ وَ لَا يَغْزُونَا'' كا جملہ ارشاد فرمايا؟_ مختصر الفاظ ميں اس كا جواب ديجئے_
3_ رسول خدا (ص) نے ''بنى قريظہ'' كے عہد شكن لوگوں كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟
4_ '' بنى قريظہ'' پر جو مسلمانوں كو فتح ونصرت حاصل ہوئي اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟
5_ غزوہ ''بنى مصطلق'' كا واقعہ كب اور كس وجہ سے پيش آيا اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟
6_ قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے لوگ كس وجہ سے دين اسلام كى جانب مائل ہوئے ؟
7_ رسول خدا (ص) كب اور كتنے مسلمانوں كے ہمراہ عمرہ كرنے كى خاطر مكہ كى جانب روانہ ہوئے ؟
8_ وہ كون لوگ تھے جنہوں نے غزوہ حديبيہ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ شركت كرنے سے روگردانى كى ؟ اس سفر كے بارے ميں ان كى كيا رائے تھي؟
9_ ''بيعت رضوان'' كس طرح اور كس مقصد كے تحت كى گئي تھى ؟
10_ صلح حديبيہ كے كيا سودمند اور مفيد نتائج برآمد ہوئے؟
246
حوالہ جات
1_سورہ احزاب آيت 9_
2_اس كے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا : لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منْ بُيُوْت الْمُشْركيْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَہُ وَہْنٌ بقَتْل عَمْرو: _ وَ لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منَ الْمُسْلميْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَہُ عزُّ بقَتْل عَمْرو:_بحارالانوار ج 20 _ ص 205(مشركين كے گھروں ميں كوئي گھرايسا نہ بچا جس نے عمرو ابن عبدود كے قتل پر سوگ اور ذلت محسوس نہ كى ہو اور مسلمانوں كے گھروں ميں كوئي گھر ايسا نہ تھا جس نے عمركے قتل پر اظہار خوشى اور اس ميں اپنى عزت محسوس نہ كى ہو''_
3_اس واقعہ كى تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج 2 ص 324_ 326_
4_الارشاد ص 56 و بحارالانوار ج 20 ص 209_
5_المغازى ج 2 ص 496_
6_السيرة الحلبيہ ج 2 ص 333_
7_المغازى ج 2 ص 496_
8_السيرة الحلبيہ ج 2 ص 333_
9_''سعد '' كے حاكم مقرر كئے جانے كى ممكن ہے يہ وجہ ہو كہ چونكہ قبيلہ اوس اور يہود بنى قريظہ ايك دوسرے كے حليف تھے اور جب مسلمانوں كے ہاتھوں يہودى گرفتار ہو كر آرہے تھے تو اوس قبيلہ كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تھى اور آنحضرت (ص) سے اصرار كے ساتھ درخواست كى تھى كہ ان كى خاطر ''بنى قريظہ'' كو بالكل اسى طرح آزاد كرديا جائے جيسے كہ ''بنى قينقاع'' كو عبداللہ ابن ابى خزرجى كى درخواست پر رہا كيا گيا تھا _ رسول خدا (ص) نے اس خےال كے پيش نظر كہ وہ يہ محسوس نہ كريں كہ ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھاجارہا ہے ان كے سردار كو حاكم مقرر فرمايا _
10_''ابوعزہ'' وہ مشرك تھا جو اشعار ميں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كى ہجو كيا كرتا تھا جنگ بدر ميں وہ اسير ہوا _ اور اس قدر گريہ وزارى كى كہ رسول خدا (ص) نے اسے فديہ لئے بغير ہى اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ اسلام كے خلاف آئندہ كوئي اقدام نہ كرے گا ليكن اس نے اپنے عہد كا پاس نہ كيا اور جنگ احد ميں بھى شريك ہوا
247
اور اشعار ميں رسول خدا(ص) (ص) كى ہجو بھى كى چنانچہ غزوہ ''حمراء الاسد '' ميں جب دوبارہ گرفتار ہو كر آيا اور رسول خدا (ص) سے معافى كى درخواست كى تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ : ''لَايُلْدَغُ الْمُوْمنُ منْ حُجْر: وَاحد: مَرَّتَيْن '' (مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا ) اور اس كے قتل كئے جانے كا حكم صادر فرمايا_
11_السيرة النبويہ ج 3 ص 252 السيرة الحلبيہ ج 2 ص 340_
12_اعلام الورى ص 79_
13_تاريخ اسلام تاليف ڈاكٹر سيد جعفر شہيدى ص 73 _ 75_
14_قرآن مجيد نے جنگ احزاب ميں ''بنى قريظہ '' كے كردار كو اس طرح بيان فرمايا ہے : (وَأَنزَلَ الَّذينَ ظَاہَرُوہُم من أَہل الكتَاب من صَيَاصيہم وَقَذَفَ فى قُلُوبہم الرُّعبَ فَريقًا تَقتُلُونَ وَتَأسرُونَ فَريقًا _وَأَورَثَكُم أَرضَہُم وَديَارَہُم وَأَموَالَہُم وَأَرضًا لَم تَطَئُوہَا وَكَانَ الله ُ عَلى كُلّ شَيئ: قَديرًا )_ ''(احزاب 26_ 27 ) _''پھر اہل كتاب ميں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں كا ساتھ ديا تھا اللہ ان كے قلعوں سے انہيں اتار لايا اور ان كے دلوں ميں ايسارعب ڈال ديا كہ آج ان ميں سے ايك گروہ كو تم قتل كر رہے ہو اور دوسرے گروہ كو قيد كررہے ہو اور ان كے اموال كا وارث بنا ديا اور وہ علاقہ تمہيں ديا جس پر تم نے كبھى قدم بھى نہيں ركھا تھا اوراللہ ہر چيز پر قادر ہے''_
15_الارشاد ص 58_
16_مناقب آل ابى طالب ج 1 ص 19 _20_
17_تفسير القمى ج 2 ص 189_ 192_
18_اعلام الورى ص 102 ومجمع البيان ج 7 ص 352 _ 353_
19_بحارالانوار ج 20 ص 210_ 212_
20_الميزان ج 16 ص 302_
21_التنبيہ و الاشراف مسعودى ص 218_
22_اس كى وجہ تسميہ شايد يہ تھى كہ اس سال صلح حديبيہ كے فيض سے مسلمين اور غير مسلمين كے درميان ديگر برسوں كى نسبت تعلقات زيادہ خوشگوار رہے اور مختلف افراد ايك دوسرے كے ساتھ بالخصوص اسلام اور رسول
248
خدا (ص) سے زيادہ مانوس ہوئے_مترجم_
23_ان غزوات اور سرايا سے متعلق مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو : تاريخ پيامبر(ص) تاليف آيتى مرحوم ص 390 _425_
24_واقدى اور ابن سعد نے لكھا ہے كہ يہ غزوہ ماہ شعبان سنہ 5 ہجرى ميں پيش آيا ملاحظہ ہو المغازى ج 1 ص 404 واطبقات الكبرى ج 2 ص 63_
25_فريد'' نامى مقام كے نواح ميں ساحل كى جانب ايك علاقہ ہے معجم البلدان ج 5 ص 118_
26_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج 3 ص 307_ 308_
27_المغازى ج 2 ص 572 _ 574 ، الطبقات الكبرى ج 2 ص 95_
28_المغازى ج 2 ص 574_ 575_
29_سورہ فتح آيت 12_
30_يہ جگہ مكہ سے تقريباً 20 كيلومٹر دور واقع ہے اور چونكہ يہاں اس نام كا پانى كا كنواں تھايا اس نام كے درخت كثرت سے تھے اس لئے يہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئي (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج 2 ص 229) آج يہ مقام مكہ كے بالكل كنارے پر واقع ہے_
31_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج 3 ص 325 _329_
32_ سورہ فتح آيت 18_
33_السيرة النبويہ ج 3 ص 330 _ 334_
34_ان لوگوں كا كہنا تھا كہ يہ كيسى فتح ہے ہميں نہ تو زيارت خانہ كعبہ ميسر آئي اور نہ ہى ہم منا ميں قربانى كرسكے : نور الثقلين ج 5 ص 48 بلكہ بعض تو آپ(ص) كى نبوت كے متعلق بھى شكوك و شبہات كا شكار ہوگئے_
35_سورہ فتح آيت 1_
36_تفسير نور الثقلين ج 5 ص 48_
|