تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  179
سبق 10:
حضرت علي(ع) كى شادى خانہ آبادي'' جنگ اُحد''


181
غزوہ بنى قنيقاع
مدينہ ميں آباد يہوديوں كى خيانت و نيرنگى كم وبيش جنگ بدر سے قبل مسلمانوں پر عياں ہوچكى تھي_ جب مسلمانوں كو جنگ بدر ميں غير متوقع طور پر مشركين پر فتح وكامرانى نصيب ہوئي تو وہ سخت مضطرب و پريشان ہوئے اور ان كے خلاف ريشہ دوانيوں ميں لگ گئے ، قبيلہ بنى قنيقاع اندرون مدينہ آباد تھا اور اس شہر كى معيشت اسى كے ہاتھوں ميں تھى اور يہى وہ قبيلہ تھا جس كى سازش و شرارت مسلمانوں پر سب سے پہلے عياں ہوئي تھي_
پيغمبر اكرم (ص) نے ابتداء ميں انہيں نصيحت كى اور اس بات پر زور ديا كہ آنحضرت (ص) كے ساتھ انہوں نے جو عہد وپيما ن كياہے اس پر قائم رہيں اس كے ساتھ ہى مشركين قريش پر جو گزر گئي تھى اس سے بھى آپ (ص) نے انہيں آگاہ كيا ليكن جب آپ (ص) نے ديكھا كہ وہ لوگ خود سرى و بے حيائي پر اتر آئے ہيں اور قانون كى پاسدارى نيز مذہبى جذبات كى پاكيزگى كا احترام كرنے كى بجائے الٹا اس كا مذاق اڑا رہے ہيں اور مسلمانوں كى عزت وناموس پر مسلسل اہانت آميز وار كر رہے ہيں تو آپ (ص) نے نصف ماہ شوال سن 2 ہجرى ميں ان كے قلعے كا محاصرہ كرليا تا كہ اس مسئلہ كا فيصلہ ہوجائے_
يہودى تعداد ميں تقريبا سات سو سپاہى تھے جن ميں سے تين سو زرہ پوش تھے پندرہ دن تك مقابلہ كرنے كے بعد انہوں نے اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے انہى كى تجويز پر

182
ان كا مال و اسلحہ ضبط كرليا اور انہيں مدينہ سے باہر نكال ديا_(1)
''بنى قنيقاع'' كے شرپسندوں كو جب اسلحہ سے محروم اور شہر بدر كرديا گيا تو مدينہ ميں دوبارہ امن و اتحاد اور سياسى استحكام كا ماحول بحال ہوگيا_ اس كے ساتھ ہى اسلامى حكومت كے مركز يعنى مدينہ ميں رسول خد ا(ص) كى سياسى حيثيت و رہبرانہ طاقت پہلے سے كہيں زيادہ مستحكم ہوگئي اس كے علاوہ قريش كے ان حملوں كے مقابل جو وہ انتقام جوئي كى غرض سے كيا كرتے تھے مسلمانوں كا دفاعى ميدان كافى محكم و مضبوط ہوگيا اور يہى بات قريش كے اس خط سے جو انہوں نے جنگ بدر كے بعد مدينہ كے يہوديوں كو لكھا تھا عياں ہوتى ہے كہ جب مسلمانوں سے انتقام جوئي كى غرض سے آئندہ كبھى جنگ كى جائے تو ان اسلام دشمن عناصر سے جو خود مسلمانوں ميں موجود ہيں جاسوسى اور تباہ كارى كا كام لياجائے_

سازشوں كو ناكام كرنا
رسول خدا (ص) نے صرف مدينہ ميں موجود خيانت كار اور عہد شكن افراد كا قلع قمع نہيں كيا بلكہ آپ(ص) ان قبائل پر بھى كڑى نظر ركھے ہوئے تھے جو مدينے كے اطراف ميں آباد اور اسلام دشمن تحريكوں نيز سازشوں ميں شريك تھے چنانچہ جب بھى حملے كى ضرورت پيش آتى تو آپ (ص) كى تلوار بجلى كى مانند كوندتى ہوئي ان جتھوں پر گرتى اور ان كى سازشوں كو ناكام بناديتى ''بنى غطفان'' اور ''بنى سليم'' دو ايسے طاقتور قبيلے تھے جو قريش كے تجارتى راستے پر آباد تھے اور ان كا قريش كے ساتھ مصالحتى عہدو پيمان بھى تھا ان كے ساتھ جو جنگ ہوئي وہ ''غزوہ بنى سليم'' كے نام سے مشہور ہے ، قبائل ''ثعلبہ'' اور ''محارب'' كے ساتھ جو جنگ لڑى گئي وہ غزوہ ''ذى امر'' كہلائي ، قريش نے جنگ بدر كے بعد چونكہ اپنا تجارتى راستہ بدل ديا تھا اور

183
بحر احمر كے ساحل كى بجائے وہ عراق كے راستے سے تجارت كيلئے جانے لگے تھے ان پر جو لشكر كشى كى گئي وہ سريہ ''قروہ'' كے عنوان سے مشہور ہوئي _
لشكر اسلام كى ہوشمندى اور ہر وقت پيش قدمى كے باعث نو عمر اسلامى حكومت اپنى جاسوسي' ہوشيارى اور لشكر كشى كى استعداد و اہليت كى وجہ سے مدينہ كے گردو نواح ميں غالب آگئي اور اب وہ سياسى عسكرى طاقت كے عنوان سے منظر عام پر نمودار ہونے لگي_
تجارتى راستوں پر مسلمانوں كى مستقل موجودگى كے باعث قريش كى اقتصادى و سياسى طاقت سلب ہوگئي اور ان كے جتنے بھى تجارتى راستے تھے وہ مسلمانوں كے تحت تصرف آگئے_
اس عسكرى كيفيت كى حفاظت و توسيع، اس كے ساتھ ہى لشكر اسلام كا فطرى جذبہ شجاعت اور رسول خدا (ص) كا دانشورانہ دستور عمل ايسے عناصر تھے جن پر اس وقت بھى عمل كياجاتا تھا جبكہ دين اسلام طاقت كے اعتبار سے اپنے عروج كو پہنچ چكا تھا ، تحفظ و توسيع كا اس قدر پاس ركھا جاتا كہ ان مہينوں ميں بھى جنہيں ماہ حرام قرار ديا گيا تھا اس مقصد سے غفلت نہيں برتى جاتى تھي_

حضرت فاطمہ زہرا(س)كى شادى خانہ آبادي
جنگ بدر كے بعد جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں دين مبين اسلام كى نامور خاتون حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كا حضرت على عليہ السلام كے ساتھ رشتہ ازدواج قابل ذكر واقعہ ہے_(2)
دور جاہليت كى ايك ناپسنديدہ رسم يہ بھى تھى كہ عرب بالخصوص اشراف اپنى بيٹيوں كے

184
رشتے صرف ايسے آدميوں سے كرتے تھے جنہيں دولتمندى ' اقتداراور جاہ و مرتبہ كے باعث شہرت و نام آورى حاصل ہو_
اس رسم كى بنياد پر بعض اشرافى اور مقتدر صحابہ رسول (ص) نے آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حضرت فاطمہ (ع) كے ساتھ اپنى شادى كا پيغام بھيجا اس مقصد كيلئے انہوں نے بہت زيادہ حق مہر ادا كرنے كى بھى پيشكش كى (3)ليكن وہ لوگ اس بات سے بے خبر تھے كہ اسلام كى نظر ميں ان كى دولت ، اشراف زادگى اور قبائلى نامورى كى كوئي قدر ومنزلت نہيں ہے _
اس كے علاوہ حضرت فاطمہ (ع) آپ (ص) كى وہ دختر نيك اختر ہےں جن كى عظمت و منزلت آيہ ''مباہلہ'' (4) كى رو سے بہت بلند ہے_
(فَمَن حَاجَّكَ فيہ من بَعد مَا جَائَكَ من العلم فَقُل تَعَالَوا نَدعُ أَبنَائَنَا وَأَبنَائَكُم وَنسَائَنَا وَنسَائَكُم وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُم ثُمَّ نَبتَہل فَنَجعَل لَعنَةَ الله عَلَى الكَاذبينَ )
''علم آجانے كے بعد اب جو كوئي اس معاملے ميں تم سے حجت كرے تو اے نبى اس سے كہو كہ آو ہم اور تم خود بھى آجائيں اور اپنے اپنے بال بچوں كو بھى لے آئيں اور خدا سے دعا كريں كہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا كى لعنت ہو''_
آيہ ''تطہير'' (5) كے مطابق آپ (ع) كو معصوم اور گناہ سے مبرا قرار ديا گيا ہے_
(إنَّمَا يُريدُ الله ُ ليُذہبَ عَنكُم الرّجسَ أَہلَ البَيت وَيُطَہّرَكُم تَطہيرًا )
''اللہ تو يہ چاہتا ہے كہ تم اہل بيت نبى عليہم السلام سے رجس كو دور ركھے اور تمہيں پورى

185
طرح پاك ركھے''_
ايسى صورت ميں آپ(ص) كا شريك حيات ايسے شخص كو ہى بنايا جاسكتا ہے جو فضيلت' تقوا' ايمان ' اخلاص' زہد اور عبادت ميں آپ(ع) كا ہم پلہ ہو_
چنانچہ جب بھى آپ (ع) كا رشتہ آتا تو رسول اكرم (ص) فرماتے :
''انَّ اَمرَہَا الى رَبّہَا''
يعنى حضرت فاطمہ (ع) كى شادى كا مسئلہ خداوند تعالى سے متعلق ہے ''_(6)
چنانچہ جب حضرت على (ع) آنحضرت (ص) كى خدمت ميں تشريف لائے اور حضرت زہرا (ع) كيلئے پيغام ديا تو آپ (ص) نے اپنى جانب سے اظہار رضامندى كردى مگر اس شرط كے ساتھ كہ حضرت فاطمہ (ع) بھى اس رشتے كو قبول فرماليں، جب آنحضرت (ص) نے اس بات كا ذكر اپنى دختر نيك اختر سے فرمايا تو آپ (ع) نے سكوت كيا ، اس بناپر رسول خدا (ص) نے اس سكوت كو رضامندى كى علامت سمجھا اور فرمايا:
''اَللّہُ اَكبَرُ سُكُوتُہَا اقرَارُہَا''_(7)
''اللہ سب سے بڑا ہے يہ سكوت ہى اس كا اقرار ہے''_
اس كے بعد آپ(ص) نے حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور فرمايا كہ : تمہارے پاس كيا اثاثہ ہے جس كى بناپر ميں اپنى لڑكى كو تمہارى زوجيت ميں دے سكوں يہ سن كر حضرت على (ع) نے فرمايا :
يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں ' باپ آپ (ص) پر قربان ميرے پاس ايسى كوئي چيز نہيں جو آپ (ص) سے پنہان اور پوشيدہ ہو، ميرا كل اثاثہ ايك تلوار ' ايك زرہ اور ايك اونٹ ہے_
حضرت على (ع) كو حكم ديا گيا كہ آپ (ع) اپنى زرہ بكتر فروخت كرديں اور ا س سے جو رقم حاصل

186
ہو اسے رسول خدا (ص) كے حوالے كرديں_
زرہ بكتر فروخت كرنے سے جو رقم حاصل ہوئي اس ميں سے كچھ رسول خدا (ص) نے بعض صحابہ كو دى اور كہا كہ اس سے وہ ضروريات زندگى كا سامان خريد لائيں باقى رقم كو آپ (ص) نے بطور امانت ''حضرت ام سلمہ'' كے پاس ركھ ديا _(8)

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا مہر
مورخےن نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) نے شادى كيلئے جو رقم رسول خدا (ص) كو ادا كى وہ كسى طرح سے بھى پانچ سو درہم سے زيادہ نہ تھى اور يہى حضرت زہرا (ع) كا مہر بھى تھااور اسى ہى رقم سے جہيز، دلہن كا لباس اور سامان آرائشے بھى خريدا گيا نيز اسى رقم سے (بقولے)دعوت وليمہ كا اہتمام بھى كيا گيا _(9)
رقم كى يہ مقدار درحقيقت ''مہر سنت'' ہے اور تمام مسلمانوں كيلئے عمدہ مثال بالخصوص ان والدين كيلئے جو مہر كى كثير رقم كا مطالبہ كركے نوجوانوں كى شادى ميں ركاوٹ پيدا كرتے ہيں ، اس كے ساتھ ہى يہ ان كيلئے اچھا سبق بھى ہے جو يہ سمجھتے ہيں كہ عورت كى حيثيت كا انحصار مہر كى كثير رقم اور بھارى جہيز سے وابستہ ہے _
رسول خدا (ص) نے اس اقدام كے ذريعے عام لوگوں كو انسانيت كى اعلى اقدار اور عورت كے معنوى وروحانى مرتبے كى جانب متوجہ كيا ہے چنانچہ جب قريش نے اعتراض كيا كہ فاطمہ (ع) كو بہت معمولى مہر كى رقم پر على (ع) كى زوجيت ميں دے ديا تو آپ(ص) نے فرمايا كہ : ''يہ اقدام حكم خداكى بناپر كيا گيا ہے يہ كام ميں نے انجام نہيں ديا بلكہ خداوند تعالى كے حكم سے انجام پايا ہے''_(10)

187
احمد ابن يوسفى دمشقى نے لكھا ہے كہ جب حضرت زہرا (ع) كو معلوم ہوا كہ مہر كى رقم كتنى معين كى گئي ہے تو آپ (ع) نے اپنے والد محترم يعنى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں عرض كيا '' عام لڑكيوں كى شادى اس وقت طے ہوتى ہے جب مہر كى رقم كے درہم مقرر كرلئے جاتے ہيں اگر ميں بھى ايسا كروں تو ميرے اور ان كے درميان كيا فرق باقى رہ جائے گا اسى لئے ميرى آپ (ص) سے يہ درخواست ہے كہ مہر كى رقم على (ع) كو ہى واپس كرديجئے اور اس كے عوض خداوند تعالى كى بارگاہ ميں يہ درخواست كيجئے كہ ميرے مہر كى رقم بروز قيامت آپ (ص) كى امت كے گناہگار بندوں كى شفاعت قرار دے(11)_

شادى كى رسومات
جب ايك ماہ سے زيادہ عرصہ گزر گيا تو حضرت على (ع) نے فيصلہ كيا كہ اپنى زوجہ مطہرہ (ع) كو (رخصتى كے ساتھ ) اپنے گھر لے آئيں اس مقصد كے تحت آپ (ع) نے دعوت وليمہ كا اہتمام كيا اور اس ميں شركت كى دعوت عام دى (12)، جب شادى كى رسومات ختم ہوگئيں تو آنحضر ت(ص) نے اپنى دختر نيك اختر كى سوارى كيلئے خچر كا بندوبست كى اور مسلمانوں سے كہا كہ وہ دلہن كے آگے آگے چليں اور خود (ص) سوارى كے پيچھے چلنے لگے اور اس طرح بنى ہاشم كے مردو زن اور ازواج مطہرات حضرت زہرا (ع) كى سوارى كى ہمراہى كر رہى تھيں_
حضرت على (ع) كے گھر پہنچ كر پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى پيارى لڑكى كا ہاتھ پكڑ كر حضرت على (ع) كے ہاتھ ميں دے ديا اس كے ساتھ ہى آپ (ص) نے حضرت علي(ع) كے اوصاف حميدہ حضرت فاطمہ (ع) سے اور حضرت فاطمہ (ع) كى شخصيت نيز اوصاف حضرت على (ع) سے بيان فرمائے اور اس كے بعد آپ (ص) نے دونوں كيلئے دعائے خير فرمائي_ (13)

188
غزوہ احد
ہجرت كے تيسرے سال كے دوران جو واقعات رونما ہوئے _ ان ميں ''غزوہ احد(14)'' قابل ذكر ہے يہ جنگ ماہ شوال ميں وقوع پذير ہوئي جو خاص اہميت و عظمت كى حامل ہے _
ہم يہاں اس جنگ كا اجمالى طور پر جائزہ ليں گے اور اس سے پيدا ہونے والے مسائل كا تجزيہ كريں گے_

غزوہ احد كى اجمالى تاريخ
جنگ بدر ميںشرمناك شكست كے بعد قريش نے اندازہ لگايا كہ رسول خد ا(ص) كے ساتھ ان كى جنگ نے نيا رخ اختيار كيا اور يہ ايك نئے مرحلے ميں داخل ہوگئي ہے چنانچہ دوسرے مرحلے پر جب انہوں نے نو عمر اسلامى حكومت كے خلاف جنگ كا ارادہ كيا تو اس كيلئے انہو ں نے وسيع پيمانے پر تيارى كى تاكہ اس طريقے سے ايك توان مقتولين كا مسلمانوں سے بدلہ لے سكيں جو جنگ بدر ميں مارے گئے تھے اور دوسرے يہ كہ مكہ اور شام كے درميان واقع جس تجارتى شاہراہ كى ناكہ بندى مسلمانوں نے كردى تھى اسے ان كے چنگل سے آزاد كراكے اپنى اقتصادى مشكلات كا حل نكاليں اور اس كے ساتھ ہى اپنى حاكميت و بالادستى كو بحال كرليں جو زمانے كے انقلاب كے تحت ان كے ہاتھوں سے نكل چكى تھى اوراپنى ساكھ كو اپنے لوگوں نيز اطراف و جوانب كے قبائل پر قائم كرسكيں_
جن محركات كا اوپر ذكر كيا گيا ہے ان كے علاوہ''ابو رافع'' اور ''كعب الاشراف'' جيسے يہوديوں كى ايماء بھى اس جنگ كے شعلوں كو ہوا دينے ميں مؤثر ثابت ہوئي _

189
سرداران مشركين ''دارالندوہ'' ميں جمع ہوئے جہاں انہوں نے لشكربھيجنے كى كيفيت اور جنگ كے اخراجات اور اسلحہ كى فراہمى كے بجٹ كے حصول كى كيفيت كے متعلق كئي فيصلے كئے ، بالآخر بہت زيادہ كوشش كے بعد تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل ايسا لشكر تيار ہوگيا جس ميں (700) زرہ پوش ،دو سو (200) گھڑسواراو رباقى پيدل سپاہى شامل تھے اس مقصد كے لئے انہوں نے تين ہزار اونٹ بھى جمع كرلئے اور سپاہ ميں جوش وولولہ پيدا كرنے اور سپاہيوں كو جنگ پر اكسانے كيلئے 15 عورتيں بھى ساتھ ہوگئيں چنانچہ اس ساز و سامان كے ساتھ يہ لشكر مدينے كى جانب روانہ ہوا _(15)
رسول خدا (ص) كے چچا حضرت عباس نے جو مكہ ميں قيام پذير تھے آنحضرت (ص) كو قريش كى سازش سے مطلع كرديا، دشمن كى طاقت وحيثيت كا اندازہ لگانے اور اس سے متعلق مزيد اطلاعات حاصل كرنے كے بعد آنحضرت (ص) نے اہل نظر مہاجرين اور انصار كو جمع كيا اور انہيں پورى كيفيت سمجھا كر اس مسئلے پر غور كيا كہ دشمن كا مقابلہ كس طرح كياجائے اس سے متعلق دو نظريے زير بحث آئے:
الف :_شہر ميں محصور رہ كر عورتوں اور بچوں سے مدد حاصل كى جائے اور فصيل شہر كو دفاعى مقصد كيلئے استعمال كياجائے_
ب:_شہر سے باہر نكل كر كھلے ميدان ميں دشمن كا مقابلہ كياجائے_
معمر اور منافق لوگ پہلے نظريئےے متفق تھے ليكن جوانوں كى تعداد چونكہ بہت زيادہ تھى اسى لئے وہ دوسرے نظريئےے حامى تھے اور اس پر ان كاسخت اصرار تھا_
رسول خدا (ص) نے طرفين كے نظريات اوراستدلال سننے كے بعد دوسرے نظريئےو پسند فرمايا اور يہ فيصلہ كيا كہ دشمن كا مقابلہ شہر سے باہر نكل كر كياجائے ، 6 شوال كو آپ (ص) نے نماز

190
جمعہ كى امامت فرمائي، فريضہ نماز ادا كرنے كے بعد آپ (ص) نے اصحاب كو صبر،حوصلے ،سنجيدگى اور عزم راسخ كے ساتھ جہاد كى تلقين فرمائي ، لشكر (1000) ہزار افراد پر مشتمل تھا جس ميں صرف (100) سو سپاہى زرہ پوش تھے (16)، آپ (ص) نے فوج كا علم حضرت على (ع) كو ديا (17)اور جہاد كى خاطر مدينے سے باہر تشريف لے گئے_
جب لشكر اسلام ''شوط'' (18) كى حدود ميں پہنچا تو منافقين كا سردار ''عبداللہ بن ابي'' اپنے (300) تين سو ساتھيوں كے ساتھ يہ بہانہ بنا كرعليحدہ ہوگيا كہ رسول خدا (ص) نے جوانوں كے نظريئےو اس كے مشورے پر ترجيح دى ہے _او روہ اپنے ساتھيوں كے ہمراہ واپس مدينہ آگيا _(19) در اصل اس منافق كى روگردانى كے پس پردہ يہ محرك كار فرما تھا كہ جنگ جيسے حساس ونازك موقعے پر پيغمبر خدا (ص) كى ہمراہى كو ترك كركے آپ (ص) كى قيادت كو كمزور كردے تاكہ سپاہ اسلام كى صفوں ميں تزلزل ، اضطراب اور اختلاف پيدا ہوجائے_
اسى تفرقہ انگيز حركت كے بعد قبيلہ ''خزرج'' كے گروہ''بنى سلمہ'' اور قبيلہ ''اوس'' كے گروہ ''بنى حارث ''كے لوگ بھى اپنى ثابت قدمى ميں متزلزل ہونے لگے اور واپس جانا ہى چاہتے تھے(20) كہ خدا كى مدد اور دوسرے مسلمانوں كى ثابت قدمى نے ان كے ارادے كو مضبوط كيا ور اس طرح منافقين كى بزدلانہ سازش ناكام ہوگئي چنانچہ قرآن مجيد نے بھى سورہ آل عمران ميں اس مسئلے كى جانب اشارہ كيا ہے (21)_
(إذ ہَمَّت طَائفَتَان منكُم أَن تَفشَلاَوَالله ُ وَليُّہُمَا وَعَلَى الله فَليَتَوَكَّل المُؤمنُونَ )
''ياد كرو جب تمہارے دو گروہ بزدلى پر آمادہ ہوگئے تھے ، حالانكہ اللہ ان كى مدد پر موجود تھا اور مومنوں كو اللہ ہى پر بھروسہ كرناچاہئے''_

191
ہفتہ كے دن 7 شوال كو احد كے دامن ميں دونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے _
اگر چہ لشكر اسلام كى پشت پر كوہ احد تھا مگر اس كے باوجود رسول خدا (ص) نے ''عبداللہ بن جبير'' كے زير فرمان پچاس كمانڈروں كو درہ ''عينين'' كے دہانے پر اس مقصد كے تحت مقرر كرديا تھا كہ دشمن كو درے كے راستے سے ميدان كارزار ميں نہ گھسنے ديں _
جنگ كا آغاز دشمن كے سپاہى ''ابوعامر'' كى تير اندازى سے ہوا اس كے بعد تن بہ تن جنگ كى نوبت آئي اس مرحلے ميں مشركين كے نوشہسوار چند ديگر افراد كے ساتھ ميدان كارزار ميں اترے اور سب كے سب حضرت على (ع) كے ہاتھوں ہلاك ہوئے_
دوسرے عمومى مرحلے ميں دشمن كا پورا ريلا سپاہ اسلام پر حملہ آور ہوا جس پر قريش نے اپنى پورى طاقت صرف كردى گلو كارائيں بھى اشعار نيز نغمہ و سرود كے ذريعے مردوں كو مسلمانوں سے بدلہ لينے كى ترغيب دلا رہى تھيں تاكہ اس گہرے سياہ داغ كو جو جنگ بدر ميں ان كے دامن پر لگا تھا مٹا سكيں ليكن مجاہدين اسلام كى بہادرانہ استقامت اور دشمنوں كى صفوں پر ہر جانب سے حملہ آورى بالخصوص اميرالمومنين حضرت على (ع) ، حضرت حمزہ (ع) اور حضرت ابودجانہ كى گردن توڑ پے درپے ضربوں كے باعث مشركين كى فوج ميں مقابلے كى تاب نہ رہى اور اس نے اپنى عافيت فرار ميں ہى سمجھي_
جب مشركين فرار ہونے لگے تو بہت سے مسلمانوں نے يہ سمجھا كہ جنگ ختم ہوگئي ہے چنانچہ وہ مال غنيمت جمع كرنے ميں مشغول ہوگئے اگر چہ رسول اكرم (ص) كى سخت تاكيد تھى كہ جن سپاہيوں كو درہ عينين كى پہرہ دارى پر مقرر كيا ہے وہ اپنى ذمہ دارى سے ہرگز غافل نہ ہوں مگر آنحضرت (ص) كى تاكيد اور جرنيلوں كى سخت كوشش كے باوجود (10) دس افراد كے علاوہ باقى تمام سپاہى جو اس درہ كى نگرانى پر مامور تھے اپنى پہرہ دارى كو چھوڑ كر مال غنيمت جمع

192
كرنے ميںلگ گئے_
خالد بن وليد دشمن كى سوار فوج كا كمانڈر تھا ، درہ عينين كى عسكرى اہميت سے بھى وہ بخوبى واقف تھا اس نے كتنى ہى مرتبہ يہ كوشش كى تھى كہ سپاہ اسلام كے گرد چكر لگائے ليكن مسلمان تير اندازوں نے اسے ہر مرتبہ پسپا كرديا تھا اس نے جب مسلمانوں كو مال غنيمت جمع كرتے ديكھا تو جلدى سے كوہ احد كا چكر لگايا اور ان باقى سپاہيوں كو قتل كرديا جو وہاں موجود تھے جب درے كى پاسبانى كيلئے كوئي سپاہى نہ رہا تو وہ وہاں سے اتر كر نيچے آيا اور ان سپاہيوں پر جو مال غنيمت سميٹنے ميں لگے ہوئے تھے اچانك حملہ كرديا_
عورتوں نے جب خالد بن وليد كے سپاہيوں كو حملہ كرتے ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے بال كھول كر بكھير ديئے اور گريبان چاك كر ڈالے وہ چيخ چيخ كر مشركين كو اشتعال دلا كر فرار كرنے والے لوگوں كو واپس پلٹانے كى كوشش كرنے لگيں_
دشمن كے ان دو اقدام كے باعث مشركين مكّہ كى طاقت دوبارہ منظم ہوگئي چنانچہ اس نے مسلمانوں پر سامنے اور پشت دونوں اطراف سے حملہ كرديا اگرچہ مسلمانوں نے اپنا دفاع كرنا بھى چاہا مگر چونكہ وہ بكھرے ہوئے تھے اسى لئے ان كى كوشش كارگر نہ ہوئي_
اسى اثنا ميں ميدان جنگ سے صدا بلند ہوئي كہ :''انَّ مُحَمَّداً قَد قُتلَ'' محمد قتل كرديئے گئے ہيں (22)، جب يہ افواہ ہر طرف پھيل گئي تو لشكر اسلام ان تين دستوں ميں تقسيم ہوگيا:
1_ايك دستہ ميدان جنگ سے ايسا گيا كہ واپس نہ آيا اور جب تين دن بعد اس كے افراد رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پہنچے تو آنحضرت (ص) نے ان كى سرزنش كرتے ہوئے فرمايا تم نے گويا تنگى سے نكل كر كشادہ راہ اختيار كى تھي(23) _

193
2_دوسرے دستے ميں وہ لو گ شامل تھے جو فرار كركے گردو نواح كے پہاڑوں ميں چھپ گئے اور يہ انتظار كر رہے تھے كہ ديكھئے كيا پيش آتا ہے ان ميں سے بعض حواس باختہ ہو كر يہ كہنے لگے كہ اے كاش ہم ميں سے كوئي عبداللہ ابن ابى كے پاس جاكر اس سے كہتا كہ وہ ابوسفيان سے ہمارى امان كيلئے سفارش كرتا _(24)
''انس ابن نضر'' كو را ستے ميں كچھ ايسے لوگ مل گئے جو فرار كرچكے تھے اس نے پريشان ہو كر ان سے دريافت كيا كہ تم لوگ يہاں بيٹھے كيا كر رہے ہو ؟ انہوں نے جواب ديا كہ : رسول خدا (ص) كو قتل كرديا گيا ہے ، اس پر انس نے جواب ديا كہ جب رسول خدا (ص) اس دنيا ميں نہيں رہے تو يہ زندگى كس كام كى ، اٹھو اور جہاں رسول خدا (ص) كاخون گرا ہے تم بھى اپنا لہو وہاں بہادو_(25)
اس گروہ نے جو اكثريت پر مشتمل تھا نہ صرف انس كى بات كا مثبت جواب نہ ديا بلكہ انہوں نے رسول اكرم (ص) كى اس دعوت كو بھى نظر انداز كرديا كہ اے لوگو: فرار كركے كہاں جارہے ہو خدا كا وعدہ ہے كہ فتح و نصرت ہميں حاصل ہوگي_ ليكن انہوں نے رسول خدا (ص) كى ايك نہ سنى اور فرار كرتے ہى چلے گئے_ (26)
سورہ آل عمران كى آيت 153 ميں بھى اس امر كى جانب اشارہ ہے :
( إذ تُصعدُونَ وَلاَتَلوُونَ عَلَى أَحَد: وَالرَّسُولُ يَدعُوكُم فى أُخرَاكُم )
''ياد كرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے كسى كى طرف پلٹ كر ديكھنے تك كاہوش تمہيں نہ تھا اور تمہارے پيچھے رسول (ص) تم كو پكار رہا تھا''_
3_تيسرے گروہ ميں وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے ايسے حساس و نازك موقع پر

194
بے نظير ايثار وقربانى كى مثال پيش كى ، اگر چہ دشمن نے رسول خدا (ص) كو ہر طرف سے نرغے ميں لے ركھا تھا مگر وہ رسول خدا(ص) كے گرد پروانہ وار چكر لگارہے تھے اور آپ (ص) كى ذات گرامى كا ہر طرح سے تحفظ اور دفاع كررہے تھے _
اميرالمومنين حضرت على (ع) نماياں طور پر آنحضرت (ص) كا دفاع كررہے تھے اور سب سے پيش پيش تھے بلكہ بعض قطعى دلائل ، شواہد اور قرائن كى روسے حضرت على (ع) كے سوا باقى سب اپنى جان بچانے كى فكر ميں لگے ہوئے تھے(27)_ اميرالمومنين حضرت على (ع) بے حد زخمى ہوجانے كے باوجود رسول خدا (ص) كا تحفظ كررہے تھے ،انہوں نے اس راہ ميں ايسى استقامت و پائدارى دكھائي كہ ان كى تلوار تك ميدان جنگ ميں ٹوٹ گئي ، اس موقع پر رسول خدا (ص) نے اپنى وہ تلوار جس كا نام ''ذوالفقار'' تھا حضرت على (ع) كو عنايت فرمائي اور آپ (ع) نے اسى تلوار سے نبرد آزمائي جارى ركھي_(28)
يہ جذبہ ايثار و قربانى اس قدر قابل قدر تھا كہ خداوند تعالى نے اس كى مبارك باد رسول خدا (ص) كو دى چنانچہ رسول خدا (ص) نے اس فرمان كے ذريعے كہ ''على (ع) مجھ سے ہے اور ميں على (ع) سے ہوں'' اس جذبہ ايثار وقربانى كو قدر كى نگاہ سے ديكھا اور اس كو سراہا_
چنانچہ جب ہاتف غيبى سے يہ صدا آئي كہ :''لَاسَيفَ الاَّذُوالفَقَار وَ لَا فَتى الَّا عَليٌّ '' تو سب لوگ بالخصوص فرار كرنے والے اور اپنى ہى فكر ميں غرق لوگ اس بے نظير جرا ت مندانہ اقدام كى جانب متوجہ ہوئے _(29)
جان نثاران اسلام كے سردار حضرت ''حمزہ بن عبدالمطلب'' دوسرے شخص تھے جو رسول خدا (ص) كا تحفظ كررہے تھے اور اسى حالت ميں وہ ''جبير بن مطعم'' كے غلام ''وحشي''كے ہاتھوں شہيد ہوئے_(30)
''ابودجانہ'' اور ''ام عمارہ'' عرف ''نُسَيبَہ'' بھى ان حساس اورنازك لمحات ميں رسول

195
خدا (ص) كے دوش بدوش رہے _(31)

سپاہ كى دوبارہ جمع آوري
رسول خد ا(ص) كے بدن مبارك پر اگر چہ كارى زخم لگ چكے تھے اور آنحضرت (ص) دشمن كے نرغے ميں گھرے ہوئے تھے مگر اس كے باوجود آپ (ص) نے نہ صرف ميدان كار زار سے فرار نہيں كيا بلكہ مسلسل باآواز بلند ''الَيَّ عبَادَ اللّہ الَيَّ عبَادَ اللّہ''كہہ كر لوگوں كو ميدان جنگ ميں آنے كى دعوت ديتے رہے بالآخر آپ (ص) اپنے مقصد ميں كامياب ہوئے اور اپنى عسكرى طاقت كو دوبارہ منظم كركے مركز اور محاذ كى صف اول ميں لے آئے_(32) ان سپاہيوں نے بھى تعداد كى كمى كے باوجود جنگ ميں ايسے نماياں كارنامے انجام ديئے كہ كفار كے دلوں ميں اس كارعب و دبدبہ پيدا ہوگيااور انہيں يہ خوف لاحق ہونے لگا كہ كہيں جنگ كا پانسہ نہ پلٹ جائے اور جو فتح انہيں حاصل ہوئي ہے وہ شكست ميں نہ بدل جائے چنانچہ اس خيال كے پيش نظر ابوسفيان نے اپنے لشكر كو پسپا ہونے كا حكم ديا اور جنگ بند كرنے كا اعلان كرديا_(33)
اس طرح جنگ احد كا خاتمہ ہوا جس ميں لشكر اسلام كے (70) ستر سپاہى شہيد ہوئے اور مشركين كے (22) بائيس يا (23) تئيس افراد (34)مارے گئے _(35)

196
سوالات
1_ ''بنى قنيقاع'' والے كون لوگ تھے ، انہوں نے رسول خد ا(ص) سے كيوں عہد شكنى كى ؟ اور رسول خدا (ص) ان كے ساتھ كس طرح پيش آئے؟
2_ حضرت على (ع) كى حضرت زہرا (ع) كے ساتھ شادى كب اور كس طرح ہوئي؟
3_ حضرت على (ع) اور حضرت زہرا (ع) كى شادى سے ہميں كيا سبق ملتا ہے؟
4_ جنگ احد كے موقع پر قريش نے مدينہ جوپر لشكر كشى كى اس كے كيا عوامل و محركات تھے؟
5_ جنگ احد كے موقع پر دونوں لشكروں كى تياريوںكا جائزہ ليجئے؟
6_جنگ احد ميں پہلى مرتبہ ميدان جنگ كس لشكر كے ہاتھ ميں رہا اس جنگ ميں بہترين كردار كس كا رہا ؟
7_ جنگ احد ميں دشمن شكست كھا كر كس طرح بھاگااور واپس آكر اس نے سپاہ اسلام پر كس طرح حملہ كيا ؟
8_ جب مسلمان شكست سے دوچار ہوئے تووہ منتشر ہونے كے بعد كتنے گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے؟
9_ جو لوگ جنگ احد ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ رہ گئے تھے اور آنحضرت (ص) كا تحفظ كر رہے تھے ان كا نام بتايئے؟
10_ جب مسلمان فوج شكست سے دوچار ہوئي اور فرار كركے پہاڑوں ميں چلى گئي تو وہ دوبارہ كس طرح منظم ہوئي؟

197
حوالہ جات
1_ملاحظہ ہو :المغازى ج 1 ص 176 _ 178_
2_مرحوم شيخ طوسي نے بعض روايات كى بنا پر لكھا ہے كہ يہ شادى ماہ شوال ميں ہوئي_ ملاحظہ ہو بحار الانوار ج 43 ص 97_
3_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج 43 ص 108_
4_سورہ آل عمران آية 61 : رسول خدا (ص) احقاق حق كيلئے علمائے نجران سے مباہلہ كرنے كيلئے تيار ہوگئے تاكہ ايك دوسرے پر اللہ كى پھٹكار ڈاليں اس وقت حضرت على (ع) ،حضرت فاطمہ (ع) اور آپ (ص) كے دونوں فرزند حضرات حسن (ع) اور حسين (ع) آپ (ص) كے ہمراہ تھے _
5_سورہ احزاب آيت 33_
6_بحارالانوار ج 43 ص 125_
7_ بحارالانوار ج 11 1_112_
8_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج 27 ص 130_
9_ايضاء ص 132_
10_ايضاً 104_
11_ اخبارالدُوَل و آثار الاُوَل، نقل از فاطمة(ع) الزہراء قزوينى ص 184_
12_بعض روايات ميں ہے كہ اس دعوت وليمہ مےں سات سو عورتوں اور مردوں نے شركت كى اور بعض ميں ہے كہ چار ہزار سے زيادہ افراد حضرت على (ع) كے اس وليمہ ميں مدعو تھے ، ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج 43 ص 132 ، 96 _
13_ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج 43 ص 115 _ 116_ و المغازى ج 1 ص 199_ 203 _
14_احد ايك پہاڑ ہے جومدينہ سے تقريباً 6 كلوميٹر كے فاصلے پر واقع ہے _
15_السيرة الحلبيہ ج 2 ص 217 (معجم البلدان ج 3 ص 372)_
16_المغازى ج 1 ص 199_ 3_2 المغازى ج 1 ص 203 _214_
17_ الصحيح من سيرة النبى ج 4 ص 193_
198
18_مدينہ اور احد كے درميان باغ تھا جو ''شواط'' كے نام سے مشہور تھا _
19، 20_السيرة الحلبيہ ج 2 ص 221_
21_سورہ آل عمران آيت124_
22_يہ صدا كس شخص نے بلند كى تھى اس كے بارے ميں اختلاف ہے بعض نے لكھا ہے كہ وہ شيطان تھا جو جُعال بن سُراقہ كى شكل ميں ظاہر ہوا_ بعض كے بقول وہ عبداللہ بن قمئہ تھا اس نے جب حضرت ''مصعب بن عمير'' كو شہيد كرديا تو وہ يہ سمجھا كہ اس نے پيغمبر اكرم (ص) كو شہادت سے ہمكنار كيا ہے ( ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 2 ص 226 ، السيرة النبويہ ج 3 ص 77)_
23_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج 2 ص 227 و تاريخ طبرى ج 2 ص 520_
24_تاريخ طبرى ج 2 ص 517 والسيرة النبويہ ج 3 صفحہ 88_
25_بحارالانوار ج 20 _ 93_
26_ان شواہد و قرائن سے مزيد واقفيت كيلئے ملاحظہ ہو كتاب الصحيح من سيرة النبى ، ج 4 ص 236 _ 241 _
27_بحارالانور ج 20 ص 54 _ 71_
28_ تاريخ طبرى ج 2 ص 514 و شرح ابن ابى الحديد ج 14 ص 250 _
29_السيرة النبويہ ج 3 ص 129_
30_ايضا صفحات 86 _ 87_
31_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج 2 ص 519 _ 520_
32_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 4 ص 276_
33 _ابن ابى الحديد نے لكھا ہے كہ ان ميں سے بارہ افراد حضرت على (ع) كے ہاتھوں قتل ہوئے (شرح نہج البلاغہ ج 15 ص 54)_
35_ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 255_