تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  139
سبق 8:
مدينہ ہجرت كرنے كے بعدرسول خدا(ص) كے اقدام


141
قبا ميں رسول خدا (ص) كى تشريف آوري
رسول خدا (ص) نو دن تك سفر كرنے كے بعد بتاريخ 12 ربيع الاول بروز پير ''قبا'' (1) ميں تشريف فرما ہوئے، جہاں لوگوں نے آپ (ص) كا نہايت ہى گرم جوشى سے استقبال كيا كيونكہ انہوںنے كافى عرصے قبل يہ خبر سنى تھى كہ آنحضرت(ص) مكہ سے يثرب تشريف لانے والے ہيں اسى لئے وہ لوگ بے صبرى سے آپ (ص) كى تشريف آورى كا انتظار كر رہے تھے_
پيغمبر اكرم (ص) ''كلثوم بن ہدم'' كے گھر پر قيام فرما ہوئے اور ''سعد ابن خثيمہ'' كى قيام گاہ كو اس بنا پر كہ وہ مجرد آدمى تھے عام لوگوں سے ملاقات كےلئے پسند كيا _(2)
رسول خدا (ص) مكہ سے ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے گئے تو حضرت على (ع) تين روز تك مكہ ميں قيام پذير رہے اور پيغمبر (ص) نے جو ہدايت فرمائي تھى انہيںانجام ديتے رہے اس كے بعد اپنى والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد عليہا السلام ،فاطمہ بنت زبير ،حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام اور ديگر اصحاب كے ہمراہ مكہ سے مدينے كى جانب روانہ ہوئے اور آج كے حساب سے گويا تقريبا چار سو كيلوميٹر طويل راستہ پيدل طے كيا چنانچہ بروز جمعرات ربيع الاول كے نصف ميں، قبا ميں پيغمبر (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوئے (3) ، رسول خدا (ص) نے قبا ميں قيام كے دوران بنى عمر ابن عوف قبيلے كى عبادت كيلئے ايك مسجد كى بنياد ركھى (4)، يہ مسجد آج بھى مسجد قبا كے نام سے مشہور ہے اور يہى وہ پہلى مسجد ہے جسے مسلمانوں نے تعمير كى _

142
مدينے ميں تشريف آوري
رسول اكرم صلى اللہ وآلہ و سلم، حضرت على عليہ السلام اپنى دختر عزيز حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا اورديگر اصحاب كے ہمراہ بروز جمعہ قبا سے مدينہ كےلئے روانہ ہوئے ، آنحضرت (ص) نے پہلى بار نماز جمعہ راستے ميں قبيلہ ''بنى سالم بن عوف'' كے درميان ادا كى آپ (ص) نے خطبات ميں مسئلہ توحيد، لوگوں كى ہدايت كےلئے پيغمبروں كى آمد ، قرآن مجيد كى اہميت نيز افراد كى تعمير ميں اس كتاب مقدس كے كردار اور مسئلہ موت اور معاد كو بيان فرمايا آپ (ص) نے لوگوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ تقوى اور پاكيزگى پر كاربند رہيں ، جو زبان سے كہيں اس پر عمل كريں اور راہ حق كے اپنے ساتھيوں كے ساتھ محبت اور خندہ روئي كے ساتھ پيش آئيں _(5)
نماز ادا كرنے كے بعد آنحضرت (ص) ناقے پر سوار ہوئے اگرچہ راستے ميں كتنے ہى قبيلے ايسے آئے جنہوں نے بہت اصرار كيا كہ آپ (ص) ان كے درميان قيام فرما ہوں مگر آنحضرت (ص) نے مدينے كى جانب اپنا سفر جارى ركھا_
اس روز يثرب كى رونق ہى كچھ اور تھى انصار نوجوانوں نے فضا كو بتوں كى كثافت آلود ماحول سے پاك و صاف كرنے كيلئے جان ودل كى بازى لگادى راہ ميں ہر طرف نعرہ تكبر كى گونج تھى مرد عورتيں اور بچے آپ (ص) كا ديدار كرنے كيلئے مشتاق و بے قرار تھے ہر شخص كى كوشش تھى كہ آنحضرت (ص) كا ديدار كرنے ميں دوسروں پر سبقت لے جائے ، خوشيوں كے ترانے ان كى زبان پر جارى تھے اور سب مل كر پڑھ رہے تھے:

طَلَعَ البَدْرُ عَلَينَا
من ثَنيَّات الودَاع
وَجَبَ الشُّكرُ عَلَينَا
مَادَعَاللّہ دَاع:
ايُّھَا المَبعُوثُ فينَا
جئتَ بالاَمر المُطَاع(6)

143
(ماہ كامل ثنيات، الوداع (7) سے ہم پر طلوع ہوا ہے ، ہم پر شكر خدا اس وقت تك واجب ہے جب تك خدا كو پكارنے والا پكارتا رہے گا آپ (ص) وہ شخص ہيں جو ہمارے لئے ايسا فرمان لے كے آئے ہيں جس كى اطاعت كرنا ہمارے اوپر واجب ہے)_
بالآخر ناقہ رسول (ص) اس زمين پرركى جو دو يتيموں كى ملكيت تھي، رسول خدا (ص) نے اس سے اتر كر زمين پر قدم رنجہ فرمايا اس كے بعد آپ (ص) ''ابوايوب انصاري'' كے گھر تشريف لے گئے اور وہيںقيام فرمايا _(8)
جب رسول خدا (ص) ہجرت فرما كر يثرب تشريف لے آئے تو اس شہر كا نام بدل كر مدينة الرسول(ص) ركھ ديا گيا _

الف: _مسجد كى تعمير
مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) جب ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو آپ (ص) نے سب سے پہلے جو اقدام يہاں فرمايا وہ مسجد كى تعمير تھى اسى ضمن ميں انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا ہے :كہ يہ مسجد اس جگہ تعمير كى گئي جہاں آپ (ص) كى ناقہ زمين پر بيٹھى تھى اور اس كى زمين مبلغ دس دينا ر كے عوض دو يتيم بچوں سے خريدى گئي (9)_
تمام مسلمانوں نے پورے ذوق و شوق اور خاص اہتمام سے اس مسجد كے بنانے كى كوشش كى ، اس كے ساتھ ہى پيغمبر اكرم (ص) كى جدو جہد نے اس جوش و خروش ميں كئي گنا اضافہ كرديا يہ ذوق وشوق حضرت عمار جيسے بعض لوگوں ميں زيادہ نماياں اور جلوہ گر تھا(10)_

144
مسلمانوں كى انتھك كوشش اور لگن سے يہ مسجد بن كر تيار ہوگئي ، اس كى ديواريں مٹى اور پتھروں سے بنائي گئي تھيں ستونوں كےلئے كھجور كے تنے استعمال كئے گئے تھے چھت بھى كھجو ر كے تختوں اوراس كى شاخوںسے پاٹى گئي تھى (11)، مسجد كے ايك كونے ميں كمرہ نما ايك جگہ مخصوص كى گئي تھى تاكہ وہ نادار اصحاب رسول (ص) جن كے پاس سر چھپانے كيلئے كوئي جگہ نہ تھى يہاں قيام پذير ہوں (12) يہى وہ لوگ تھے جنہيںبعد ميں ''اصحاب صُفّہ'' كہا گيا _(13)
اس مسجد كے بن جانے كے بعد مسلمانوں كو مركزيت حاصل ہوگئي چنانچہ عام مسلمان جن ميں صاحب خانہ اور بے گھر سب ہى شامل تھے بلا روك ٹوك يہاں جمع ہوتے اور عبادت ونماز باجماعت ادا كرنے كے علاوہ مسلمانوں كے اہم مسائل سے متعلق تبادلہ خےالات ميں حصہ ليتے اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) سے يا ان اصحاب ميں سے جنہيں آنحضرت (ص) مقرر فرماتے احكام دين اور ديگر مسائل كى تعليم حاصل كرتے_
جب مسجد كى تعمير مكمل ہوگئي تو اس كے اطراف ميں رسول خد ا(ص) اور اصحاب كيلئے اس طرح مكانات بنائے گئے كہ ہر گھر كا ايك دروازہ مسجد كى جانب كھلتا تھا_
كچھ عرصے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے حكم ہوا كہ رسول خدا (ص) اور حضرت على (ع) كے گھروں كے علاوہ جن لوگوں كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں بند كرديئے جائيں ، رسول خدا (ص) نے جب يہ حكم خداوندى لوگوں تك پہنچايا تو بعض اصحاب كو يہ بات بہت گراں گزرى اور ا نہيں يہ گمان ہونے لگا كہ يہ فرق و امتياز خود رسول خدا (ص) كا اپنا پيدا كردہ ہے اوريہ كام جذباتى پہلو ركھتا ہے ليكن رسول خدا (ص) نے انہيںجواب ديتے ہوئے فرمايا : ''يہ فرمان ميں نے اپنى طرف سے نہيں ديا ہے بلكہ يہ حكم خداوندى ہے''_(14)
رسول خدا (ص) نے يہ قطعى موقف اس وقت اختيار كيا جبكہ مسلمان بالخصوص مہاجرين خاص

145
حساسيت اور نازك صورت حال سے دوچار تھے اور انہيں پيغمبر (ص) سے يہ توقع تھى كہ ان كى دلجوئي كريں گے اور ان پر مزيد لطف وعنايت فرمائيں گے ان كيلئے يہ بھى بہت بڑى سعادت تھى كہ ان كے گھروں كے دروازے مسجد كى جانب كھلتے ہيں اس ميں شك نہيں كہ رسول خدا (ص) كو صحابہ كرام سے تعلق خاطر تھا مگر يہ واقعہ اس حقيقت كا آئينہ دار تھا كہ رسول خدا (ص) كا تعلق خاطر اور جذبہ لطف وعنايت، حكم الہى كو ان تك پہنچانے ميں مانع نہيں ہوا تھا اور كوئي چيز آنحضرت (ص) كو فرمان حق صادر كرنے سے نہيں روك سكتى تھى _

ب:_ رشتہ اخوت و برادري
اس ميں شك نہيںكہ پيغمبر خدا (ص) نے مكہ ميں مسلمانو ں كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار فرماياتھا_(15) ليكن ہجرت كركے ان مسلمانوں كا مكہ سے مدينہ چلے آنا اور نئے اقتصادى و اجتماعى مسائل وحالات كا پيدا ہونا يہ سب اس امر كا باعث ہوئے كہ مہاجر وانصار مسلمانوں كے درميان نئے سرے سے رشتہ اخوت و برادرى برقرار ہو چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) نے مسلمانوں كو جمع كيا اور ان سے فرمايا :
(تَاَخَّوا فى اللّہ اَخَوَين اَخَوَين )
''راہ خدا ميں تم دو دو مل كر بھائي بن جائو''_(16)
رسول خد ا(ص) نے اپنے اس دانشمندانہ اقدام سے ان مہاجرين كے مسائل زندگى كو حل كرديا جو اپنے مقدس اہداف اور ايمان كى حفاظت كے لئے اپنى ہر چيز مكہ ميں چھوڑ كر مدينہ چلے آئے تھے اگرچہ مہاجرين اور انصار دو مختلف ماحول كے پروردہ تھے اور ان كے طرز فكر و معاشرت ميں بھى نماياں فرق تھا ليكن آپ (ص) نے انہيں اپنى دانشمندى سے نہ صرف يك جان و دو قالب كرديا بلكہ دونوں كے حقوق اور مراعات كو بھى مقرر اور مرتب فرمايا_

146
رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت اور برادرى برقرار كرنے كے بعد حضرت على (ع) كے دست مبارك كو اپنے دست مبارك ميں لے كر فرمايا : ''ہذَا اَخي'' _ ''يہ ميرا بھائي ہے ''_ (17)

ج :_ يہوديوں كے ساتھ عہدو پيمان
رسول اكرم (ص) كے ہجرت كرنے سے قبل مقامى مشركين كے علاوہ يہوديوں كے '' بنى قينقاع'' ، ''بنى نضير'' اور ''بنى قريظہ'' نامى تين قبيلے مدينے ميں آباد تھے اور انہى كے ہاتھوں ميں اس شہر كى صنعت و تجارت تھي_
اگر چہ رسول خدا (ص) نے مہاجرين اور انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى برقرار كركے اپنى طاقت كو متحد كرنے كيلئے بہت ہى اہم اقدام كيا مگر آپ (ص) كے سامنے ايك اور دشوارداخلى مرحلہ تھا اور وہ تھا ان يہوديوں كا وجود جو اس سرزمين پر آباد تھے_
حالات كے پيش نظر آنحضرت (ص) نے يہوديوں كے ساتھ ايك معاہدے پر دستخط كئے جس كى بعض شقيں ذيل ميں درج ہيں :
1_جن لوگوں نے اس معاہدے پر دستخط كئے ہيں وہ ايك قوم بن كر يہاں زندگى بسر كريںگے_
2_اس معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں ان ميں سے ہر فريق كو اپنى دينى رسومات انجام دينے كى آزادى ہوگي_
3_مدينے كى حدود ميںہر قسم كى خونريزى حرام ہوگى اور اگر باہر سے كسى دشمن نے حملہ كيا تو سب مل كر شہر كا دفاع كريں گے ، معاہدے ميں جو فريقين شامل ہيں اگر ان ميں

147
سے كسى ايك فريق پركسى بيرونى طاقت نے حملہ كيا تو فريق ثانى اس كى مدد كرے گا بشرطيكہ وہ خود تجاوز كا ر نہ ہو_
4_اختلافى مسائل ميں اختلاف كو دور كرنے كيلئے خدا اورحضرت محمد (ص) سے رجوع كيا جائےگا_(18)
اس معاہدے كى برقرارى كے بعد پيغمبر اكرم (ص) كى حكومت معمولى حكومت نہيں رہ گئي بلكہ اس نے مستقل حيثيت اختيار كرلى اور رسول اكرم (ص) كو سركارى سطح پر حاكم مدينہ تسليم كر ليا گيا اور حلقہ اسلام كے اندر سياسى وحدت تشكيل پائي نيزبيرونى دشمنوں كے مقابل اسلام كى دفاعى بنياد كو تقويت حاصل ہوئي نيز رہبر اسلام كيلئے دين كى تبليغ كےلئے وسيع ترين ميدان ہموار ہوگيا اور بالآخر اس طرح معاشرتى حدود نيز انفرادى گروہى اور مذہبى اقليتوں كے حقوق اور ان كے باہمى روابط و تعلقات نيز دشمن كے ساتھ ان كے تعلقات كى كيفيت كى تعيين ہوئي_

عہد شكني
مسلمانوں اوريہوديوں كے درميان با ہمى مسالمت آميز عہد مدينے كے يہوديوں كيلئے بہت زيادہ سازگار ثابت ہوسكتا تھا وہ اس عہد و پيمان كى بدولت اسلامى حكومت كے زير سايہ آزادى كے ساتھ زندگى بسر كرسكتے تھے ليكن انہوں نے اس نعمت كى قدر نہ كى چنانچہ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد جب انہوںنے جديد حكومت سے اپنى سياسى و اجتماعى زندگى اور برترى كو خطرہ ميں محسوس كيا تو انہوں نے اس عہد كو جو رسول خد ا(ص) كے ساتھ كيا تھا نظر انداز كرنا شروع كرديا اور آنحضرت (ص) كے خلاف سازشيں كرنے لگے وہ مسلمانوں كے

148
دينى عقائد (19) ميں شكوك و شبہات پيد اكركے اور دور جاہليت كے كينہ و اختلاف كو ياد دلاكر(20) ان كے عقائد ميں ضعف و سستى اوران كى صفوں ميں انتشار پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگے_
منافقين (بالخصوص ان كا سرغنہ عبداللہ ابن ابي) جو خفيہ طور پر يہوديوں كے ساتھ مل گئے تھے اس سازش ميں ان كے ساتھ شريك ہوگئے چنانچہ وہ لوگ مسلمانوں كے عقائد كا مذاق اڑاتے اور نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك مرتبہ رسول خدا (ص) نے مجبور ہو كر حكم ديا كہ انہيں مسجد سے باہر نكال دياجائے_(21)

جنگى اور جاسوسى اقدامات كا آغاز
رسول خدا (ص) نے مملكت اسلامى كى طاقت كو وسعت دينے اور اسلامى حكومت كے مقدس اغراض و مقاصد كے تحقق كيلئے جو اقدامات فرمائے ان ميں جنگى اور جاسوسى ٹيموں كى تشكيل بھى تھي_ دستوں كو مدينہ سے باہر روانہ كيااور يہيں سے يہوديوں سے رسول خدا (ص) كے سرايا اور غزوات شروع ہوئے اس كے علاوہ دشمن كے خلاف جنگ و دفاع كا جو فرسودہ نظام اب تك چلا آرہا تھا اس ميں آپ (ص) نے تبديلى پيدا كركے اس كيلئے جديد اصول وقواعد مرتب كئے_
مورخين نے جنگ بدر سے قبل كے سرايا اور غزوات كى تعداد آٹھ عدد لكھى ہے (22) ان مہمات ميںشريك سپاہيوںكى تعداد محدودتھى اور وہ سب كے سب مہاجر ہى تھے (23) ہم يہاں دو نكات كا بطور اختصار ذكر كريں گے:
1_انصار كے ان مہموں مےں شريك نہ ہونے كا سبب
2_ ان مہمات اور غزوات كا مقصد

149
انصار كا ان مہمات ميں شريك نہ ہونے كا سبب
1_عقبہ كے معاہدے كى رو سے انصار اس شرط كے پابند تھے كہ وہ رسول خدا (ص) كا دفاع شہر كى حدود كے اندر كريں گے اس كے باہر نہيں_
2_انصار چونكہ كچھ عرصہ قبل ہى مشرف بااسلام ہوئے تھے اورآئندہ جو مشكلات نيز جو دوشوارياں در پيش تھيں ان كا مقابلہ كرنے كيلئے وہ خود كو تيار كر رہے تھے اسى لئے ان حقائق كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) نے مصلحت اس امر ميں ديكھى كہ ان كى طاقت كو اس موقع پر بروئے كار نہ لاياجائے_
3_ مہاجرين كا انتخاب بھى شايد اس مقصد كے تحت كيا گيا تھا كہ ان ميں ايسى جنگى مہمات ميں شركت كا جذبہ انصار سے كہيں زيادہ تھا جس كى وجہ يہ تھى كہ انہوںنے قريش كے ہاتھوں جو تكاليف و سختياں برداشت كى تھيں ان كے باعث وہ ان سے سخت رنجيدہ خاطر تھا اس كے علاوہ ان كيلئے مدينہ ميں كوئي مادى وابستگى بھى نہ تھي_ دوسرى طرف وہ يہ بھى چاہتے تھے كہ مدينہ اور اطراف مدينہ كے جغرافيہ كے بارے ميں بيشتر اطلاعات كسب كريں_
4_رسول اكرم (ص) اس تحريك كے ذريعے انصار پر يہ بات واضح كردينا چاہتے تھے كہ آپ اپنے مقاصد كو ہرحال حاصل كرنے كا قطعى فيصلہ اور مصمم ارادہ كرچكے ہيں وہ مہاجرين جنہوں نے راہ خدا ميں ہر چيز كو ترك كرديا تھا وہ مكہ كى طرح اس وقت بھى فرمان رسول (ص) كى خاطر شرك سے جنگ كرنے ميں اپنى جان قربان كرنے كيلئے تيار تھے يہ درحقيقت ان لوگوں كيلئے عملى درس تھا جو حال ہى ميں مشرف بااسلام ہوئے تھے_

150
ان جنگوں اور غزوات كا مقصد :
1_ہادى و رہبر كى حيثيت كو مستحكم كرنا اور اسلام كى مركزى حكومت كو تقويت پہنچانا_
2_مسلمانوں كى جنگى استعداد و طاقت كو بلند و مضبوط كرنا نيز لشكر اسلام كو آئندہ كى مشكلات كيلئے آمادہ كرنا_
3_اطراف ومضافات ميں بسنے والے قبائل كے ساتھ دفاعى معاہدے خصوصاً ان لوگوں سے معاہدہ كرنا جو قريش كے تجارتى قافلوں كے راستے ميں آباد تھے_
4_جغرافيائي ماحول اور شہروں كو متصل كرنے والے راستوں سے واقفيت اس كے ساتھ ہى اطراف مدينہ ميں آباد قبائل كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا_
5_قريش كو جنگ كى تنبيہہ كرنا اور ان كے رابطوں اور تجارتى راستوں كو غير محفوظ بنانا اور دشمن كو مسلمانوں كى طاقت اور مقام سے آگاہ كرنا _

قبلہ كى تبديلي
پيغمبر اكرم (ص) مكہ ميں اور ہجرت كے بعد مدينہ ميں سترہ ماہ تك بيت المقدس كى جانب رخ كركے نماز ادا كرتے رہے يہاں تك كہ پير كے دن پندرہ ماہ رجب سنہ 2 ھ ميں يہ واقعہ پيش آيا كہ جب آپ (ص) مسجد بنى سالم بن عوف ميں (24)جہاں سب سے پہلى نماز جمعہ ادا كى گئي تھي، نماز ظہر ادا فرمارہے تھے آپ (ص) كو يہ حكم ديا گيا كہ اپنا قبلہ تبديل كرديں_
قبلہ جن وجوہات كى بناپر تبديل كيا گيا ان ميں سے چند يہ تھيں:
1_ايك طرف تو رسول خدا (ص) پر يہودى يہ اعتراض كرتے تھے كہ جب تم ہمارى مخالفت كرتے ہو تو ہمارے قبلہ كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ہو اس كے ساتھ ہى

151
وہ مسلمانوں سے يہ كہتے كہ :
اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے كى جانب رخ كركے نماز كيوں پڑھتے ؟ (25)
دوسرى طرف مشركين يہ طعنہ ديتے كہ : تم جبكہ قبلہ ابراہيم (ع) كو ترك كركے قبلہ يہود كى طرف نماز پڑھتے ہو تو يہ كيسے دعوى كرتے ہو كہ ہم ملت ابراہيم (ع) پر قائم ہيں (26)_
اس قسم كے اعتراضات اور طعنے رسول خد ا(ص) كو سخت رنجيدہ اور آزردہ خاطر كرتے تھے چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) راتوں كو بارگاہ خداوندى ميں دعا فرماتے اور مقام رب ذوالجلال كى جانب رخ كركے اپنى آنكھيں آسمان كى جانب لگاديتے تاكہ خداوندتعالى كى جانب سے اس بارے ميں كوئي حكم صادر ہو _(27)
قرآن مجيد نے رسول خدا (ص) كى اس ذہنى كيفيت كو ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:
(قَد نَرى تَقَلُّبَ وَجہكَ فى السَّمَائ فَلَنُوَلّيَنَّكَ قبلَةً ترضى ہَا)_
''اے رسول(ص) ہم آپ (ص) كى توجہ آسمان كى جانب ديكھ رہے ہيں لو ہم اس قبلے كى طرف تمہيں پھيرے دےتے ہيں جسے تم پسند كرتے ہو''_(28)
2_خداوند تعالى قبلہ كا رخ تبديل كركے مسلمانوں كو آزماناچاہتا تھا كہ يہ معلوم ہو جائے كہ كون لوگ حكم خدا كے مطيع اور رسول خدا (ص) كے فرمانبردار ہيں_
(وَمَا جَعَلنَا القبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيہَا إلاَّ لنَعلَمَ مَن يَتَّبعُ الرَّسُولَ ممَّن يَنقَلبُ عَلَى عَقبَيہ وَإن كَانَت لَكَبيرَةً إلاَّ عَلَى الَّذينَ ہَدَى الله ُ )(29)
''پہلے جس طرف تم رخ كرتے تھے اس كو تو ہم نے صرف يہ ديكھنے كيلئے قبلہ مقرر كيا تھا كہ

152
كون رسول (ص) كى پيروى كرتا ہے اور كون الٹا پھر جاتا ہے يہ معاملہ تھا تو بڑا سخت مگر ان لوگوں كيلئے كچھ بھى سخت نہ تھا جو اللہ كى جانب سے ہدايت سے فيضياب تھے''_
3_بعض روايات (30) اور تاريخى كى كتابوں (31)ميں اس كا ايك سبب يہ بھى بتايا گيا ہے كہ رسول خدا (ص) مكہ ميں اس وقت جبكہ آپ (ص) كا رخ مبارك بيت المقدس كى جانب ہوتا ہرگز كعبہ كى جانب پشت نہےں فرماتے تھے ليكن ہجرت كے بعد مدينے ميں جس وقت آپ (ص) نماز ادا كرتے تو اس وقت مجبوراً آپ(ص) كى پشت كعبہ كى جانب ہوتى ، رسول خدا (ص) كے قلب مبارك ميں بيت ابراہيمى كيلئے جو جو احترام تھا اور اس كى جانب پشت كرنے سے آپ (ص) كو تكليف ہوتى تھى اسے ملحوظ ركھتے ہوئے خداوند تعالى نے تحويل قبلہ كے ذريعے آپ (ص) كى رضامندى كا اہتمام كيا_
سمت قبلہ تبديل كئے جانے كے بعد يہوديوں نے دوبارہ اعتراضات كرنا شروع كرديئے كہ آخر وہ كيا عوامل تھے جن كے باعث مسلمان قبلہ اول سے روگرداں ہوگئے ؟ اس كے ساتھ ہى انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ شرط ركھى كہ اگر آپ (ص) قبلہ يہود كى طرف رخ فرماليں تو ہم آپ (ص) كى پيروى و اطاعت كرنے لگےں گے(32)_
بعض سادہ لوح مسلمان يہوديوں كے پروپيگنڈے كا شكار ہوكر دريافت كرنے لگے كہ وہ نماز جو انہوں نے بيت المقدس كى جانب رخ كركے ادا كى ہيں ان كا كيا ہوگا_
قرآن مجيد نے ان كے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے فرمايا :
(مَاكَانَ ليُضيعَ ايمَانَكُم)_(33)
''اللہ تعالى تمہارے ايمان (يعنى بيت المقدس كى جانب ادا كى جانے والى نماز)كو ہرگز ضائع نہ كرے گا''_(34)

153
سوالات
1_رسول خدا (ص) كس تاريخ كو قبا پہنچے؟ آپ (ص) نے كتنے عرصے اور كس مقصد كيلئے توقف فرمايا اور دوران قيام كيا اقدامات كئے؟_
2_ جب رسول خدا (ص) مدينہ ميں تشريف لائے تو لوگوں نے آپ (ص) كا كس طرح استقبال كيا اور آپ (ص) نے كس صحابى كے گھر پر قيام فرمايا ؟
3_ ہجرت كے بعد مدينے ميں رسول خدا (ص) نے كن لوگوںكے درميان رشتہ اخوت وبرادرى قائم كيا؟ اپ كے اس اقدام كے كيا نتائج برامد ہوئے؟
4_ہجرت كے بعد مدينہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے كيا اقدام كيا اور اس كا كيا فائدہ ہوا؟
5_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے داخلى امن و امان فراہم كرنے كے لئے كيا اقدامات كئے ؟ ان اقدامات ميں كيا خوبياں اور بركات تھيں ؟
6_جنگ بدر سے قبل سرايا اور غزوات ميں صرف مہاجرين ہى كيوں شريك رہا كرتے تھے ؟
7_ جنگ بدر سے قبل رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سرايا اور غزوات كے ذريعے كن مقاصدكى تكميل چاہتے تھے؟
8_سمت قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى جانب كس تاريخ ميںتبديل ہوئي اور تبديلى كى كيا وجوہات تھيں ؟

154
حوالہ جات
1_ قبا كسى زمانے ميں مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر ايك گائوں تھا اور اس كا شمار قبيلہ ''بنى عمر وابن عوف'' كے مركز ميں ہوتا تھا_ اب چونكہ مدينہ كافى وسيع ہوچكا ہے اسى لئے يہ اسى شہر ميں شمار ہوتا ہے_
2_ السيرة النبويہ ج 2 ص137_138_
3_ ايضا صفحہ 138_
4_ ايضا صفحہ 139_
5_ اس خطبے كے متن كيلئے ''بحارالانوار'' كى جلد 19 صفحہ 126 اور تاريخ طبرى كى جلد 2 صفحہ 394 ملاحظہ فرمائيں_
6_ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 54_57 ، بعض محققين كى رائے ميں يہ اشعار اس وقت پڑھے گئے تھے جب آنحضرت (ص) غزوہ تبوك سے واپس تشريف لارہے تھے (ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبي(ص) ج 2 ص 313)_
7_ ''ثنيہ'' كے اصل معنى سنگلاخ كوہستانى راستے كے ہيں ثنية الوداع وہ جگہ تھى جہاں تك لوگ اپنے مسافروں كو وداع كرنے آتے تھے_ اور يہ رسم زمانہ جاہليت سے چلى آرہى تھى (ملاحظہ ہو معجم البلدان ج 2 ص 86)
8_ السيرة النبويہ ج 2 ص139_ 141 ، بحارالانوار ص 104_ 109_
9_ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 66_71_
10_ السيرة الحلبيہ ج 2ص 66_71_
11_ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 66_71_
12_ بعض روايات ميں آيا ہے كہ ان كى تعداد چارسو افراد پر مشتمل تھى (ملاحظہ ہو بحارالانوار ج 67 ، ص 128)
13_ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 81_
14_ بحارالانوار ج 19 ص 112_
15_ ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 2 ص 90_
16_ السيرة النبويہ ج 2 ص 150_
17_السيرة الحلبيہ ج 2 ص 90 السيرة النبويہ ج 2 ص150_
18_ السيرة النبويہ ج 2 ص 147_ 149_
155
19_ ان كے اعتراضات اور شكوك وشبہات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص 338 كے حاشيے پر السيرة النبويہ دحلان_
20_ مثال كے طور پر ايك مرتبہ ان ميں سے ايك شخص نے ''اوس'' اور ''خزرج'' قبائل كے اجتماع ميں اس جنگ كا ذكر چھڑ ديا جو مذكورہ بالا دونوں قبائل كے درميان لڑى گئي تھى اور جنگ ''بعاث'' كے نام سے مشہور تھي_ اور اس طرح ايك دوسرے كے خلاف ان كے جذبات مشتعل كرنے كى كوشش كى _ اگر اس وقت رسول خد ا(ص) درميان ميں نہ آگئے ہوتے تو عين ممكن تھا كہ يہ دونوں بھائي تلواروں سے ايك دوسرے پرٹوٹ پڑتے_ ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج 2 ص 204 _ 205_
21_ السيرة النبويہ ج 2 ص 175_
22_ ان غزوات اورسرايا سے متعلق بيشتر اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج 2 ص 241_ 256
23_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 3 ص 145_
24_ اعلام الورى ص 82_
25_26 _ السيرة الحلبيہ ج 2 ص 128_
27_ بحارالانوار ج 19 ص 201_
28_ سورہ بقرہ آيہ 144_
29_ سورہ بقرہ آيہ 143_
30_ بحارالانوار ج 19 ص 200_
31_ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج 2 ص 128_ 130_
32_ ملاحظہ ہو: السيرة النبويہ ج 2 ص 198،199و بحار الانوار ج 19 ص 195_
33_بقرہ آيت 143_
34_بحارالانوار ج 19 ص 197_