تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  99
سبق 6:
قريش كى سازشيںاورہجرت حبشہ


101
ھ : پيغمبر اكرم (ص) كے پاس پہنچنے سے لوگوں كو روكنا

گرد ونواح سے وہ لوگ جن كے دلوں ميں دين اسلام كى محبت پيدا ہوگئي تھى وہ پيغمبر اكرم (ص) سے ملاقات كرنے كى خاطر مكہ آتے مگر مشركين انہيں پيغمبر اكرم (ص) تك پہنچنے سے منع كرتے تاكہ دين اسلام كے اثر و نفوذ كو روك سكيں وہ ہر حيلے اور بہانے سے انہيں اسلام لانے اور رسول(ص) خدا سے ملاقات كرنے سے روكتے ، يہاں بطور مثال ايك واقعہ پيش كياجاتا ہے_
اعشى زمانہ جاہليت كا مشہور شاعرتھا اسے رسول خدا (ص) پر نزول وحى اور آپ (ص) كى اسلامى تعليمات كا كچھ نہ كچھ علم ہوگيا تھا ، چنانچہ اس نے آنحضرت (ص) كى شان ميں قصيدہ كہا اور اسے لے كر مكہ كى جانب روانہ ہوا تاكہ دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرسكے ، جس وقت وہ مكے ميں داخل ہوا مشركين اس سے ملنے آئے اور اس سے شہر ميں آنے كا سبب دريافت كيا جب انہيں اعشى كے قصد و ارادے كا علم ہو اتو انہوں نے اپنى فطرى شيطنت اور حيلہ گرى كے ذريعے اسے پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ ملاقات كرنے سے روكا چنانچہ اس نے فيصلہ كيا كہ اس وقت وہ واپس اپنے شہر چلا جائے اور آئندہ سال پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كرد ين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرے مگر موت نے اسے اس سعادت كى مہلت نہ دى اور سال ختم ہونے سے پہلے وہ انتقال كرگيا_(1)

102
و: قرآن سے مقابلہ
دشمنان اسلام كو جب يہ علم ہوا كہ آسمانى دين و آئين كى تبليغ ميں پيغمبر اكرم (ص) كى كاميابى كا اہم ترين عامل آيات الہى كى وہ معنوى كشش ہے جو لوگوں كے دلوں پر اثر كرتى ہے اور انہيں اپنا گرويدہ بناليتى ہے ، تو انہيں يہ بچگانہ تدبير سوجھى كہ كوئي ايسى سازش كريں جس كے ذريعے لوگوں كو قرآن كى جانب متوجہ ہونے سے روك سكيں اور اس مقدس كتاب كى مقبوليت اور دلچسپى كو ختم كرسكيں_
نضر بن حارث كا شمار ان دشمنان اسلام ميں ہوتا ہے جو رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ اذيت پہنچايا كرتے تھے _اس نے ''حيرہ'' كے سفر ميں رستم و اسفنديار كى داستانيں سن كر ياد كرلى تھيں چنانچہ اسے قريش كى طرف سے يہ كام سونپا گيا كہ جب مسجد الحرام ميں پيغمبر اكرم (ص) كا تبليغى دستورالعمل ختم ہوجايا كرے تو وہ آنحضرت (ص) كى جگہ پر جا كر بيٹھے اور لوگوں كو رستم اور اسفنديار كى داستانيں سنائے شايد اس طريقے سے پيغمبر اكرم (ص) كے مرتبے كو كم كياجاسكے اور آپ (ص) كى تبليغ نيز آيات الہى كو بے قدر وقيمت بناياجاسكے ، وہ بڑى ہى گستاخى اور ديدہ دليرى سے كہتا : لوگو تم ميرى طرف آئو ميں تمہيں محمد(ص) سے كہےں بہتر قصے اور كہانياں سنائوں گا_
اس نے اسى پرہى اكتفا نہيں كيا بلكہ گستاخى اور بے باكى ميں اس سے بھى كہيں آگے بڑھ گيا اور اپنے خدا ہونے كا دعوى كردياوہ لوگوں سے كہتا كہ ميں بھى جلد ہى وہ چيز اتاروں گا جو محمد (ص) كا خدا اس پر نازل كيا كرتا ہے_(2)
اس سلسلے ميں قرآن مجيد ميں چند آيات نازل ہوئيں كہ البتہ بطور نمونہ ہم ايك كا ذكر كر رہے ہيں :

103
(وَقَالُوا أَسَاطيرُ الأَوَّلينَ اكتَتَبَہَا فَہيَ تُملَى عَلَيہ بُكرَةً وَأَصيلًا _ قُل أَنزَلَہُ الَّذي يَعلَمُ السّرَّ فى السَّمَاوَات وَالأَرض إنَّہُ كَانَ غَفُورًا رَحيمًا)(3)
''كہتے ہيں يہ تو اگلے لوگوںكے افسانے ہيں جنہيں لكھواليا ہے اور صبح و شام ان كے سامنے پڑھے جاتے ہيں ، آپ (ص) كہہ ديجئے كہ اسے اس نے نازل كيا ہے جو زمين وآسمان كے راز جانتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے''_
قرآن مجيد كے خلاف مشركين نے دوسرا محاذ يہ تيار كيا كہ انہوں نے اپنے پيروكاروں كو يہ حكم ديا كہ جس وقت رسول خدا (ص) قرآن مجيد كى تلاوت فرماتے ہيں تو اسے نہ صرف سنا ہى نہ جائے بلكہ ايسا شور و غل بپا كياجائے كہ دوسرے لوگ بھى اسے سننے سے باز رہےں چنانچہ اس سلسلہ ميں قرآن مجيد كا ارشا د ہے :
(وَقَالَ الَّذينَ كَفَرُوا لاَتَسمَعُوا لہذَا القُرآن وَالغَوا فيہ لَعَلَّكُم تَغلبُونَ )(4)
''اوركافروں نے ايك دوسرے سے يہ كہا كہ : اس قرآن پر كان نہ دھرو اور جب پڑھاجائے تو شورو غل بپا كياكرو شايد تم كامياب ہوجائو''_

ہجرت حبشہ:
اگر چہ رسول خدا (ص) اور بنى ہاشم كے ديگر چند حضرات، حضرت ابوطالب (ع) كى زير حمايت كچھ حد تك دشمنوں كى گزند سے بالخصوص جسمانى آزار و ايذا سے محفوظ تھے مگر دوسرے بے پناہ اور بے يارو مددگار مسلمان ايذا اور اذيت كى انتہائي سخت تكاليف و مشكلات سے گزر

104
رہے تھے_
پيغمبر اكرم (ص) كےلئے يہ بات سخت شاق اور ناگوار تھى كہ آپ (ص) كے اصحاب وہمنوا ايسى سخت مشقت ميں مبتلا رہيں اور ہر طرح كے مصائب وآلام سے گزرتے ہيں _ دوسرى طرف اس بات كا بھى امكان تھا كہ اگر يہى كيفيت برقرار رہى تو ہوسكتا ہے كہ نو مسلم اپنے عقيدے ميں سست ہوجائيں_(5)
اس كے علاوہ يہى حالت دوسرے لوگوں كو اسلام كى جانب عمل ہونے سے روك بھى سكتى تھي، چنانچہ ان حالات كے پيش نظر يہ لازم سمجھا گيا كہ اس ديوار كو بھى گرادياجائے تاكہ قريش يہ جان ليں كہ حقيقت اسلام ان كے حد تصور اور تسلط واقتدار سے كہيںزيادہ بالاو برتر ہے_
اس گھٹن اور دبائو كے ماحول سے نجات حاصل كرنے كيلئے مسلمانوں كواس بات كى اجازت دى گئي كہ وہ ترك وطن كركے حبشہ چلے جائيں ، اس ملك كے انتخاب كئے جانے كى چند وجوہات تھےں:
1_يہ ملك شہنشاہ روم كے ساتھ اچھے تعلقات ركھنے كے باوجود، سياسى نقطہ نظر سے بہت حد تك مستقل اور اس زمانے كے دو بڑى طاقتوں (ايران اور روم) كے اثر و نفوذ سے دور تھا_
2_ حبشہ اور حجاز كے درميان بحيرہ احمر كے واقع ہونے كى وجہ سے قريش كى مسلمان مہاجروں تك رسائي كا امكان كم تھا_
3_عادل حكمران اور نسبتاً صحيح اور بہتر ثقافتى ماحول كى وجہ سے حبشہ كا ملك ديگر ممالك پر برترى ركھتا تھا_ مہاجروں كو الوادع كرتے وقت رسول اكرم (ص) كى يہ باتيں بھى اس

105
حقيقت كى تائيد كرتى ہيں كہ ''اس ملك كے حكمران كى وجہ سے كسى پر ستم نہيں كياجاتا اور وہ پاك اور سچائي كى سرزمين ہے''_(6)
مہاجرين كا وہ پہلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا عثمان ابن مظعون كى زير سر پرستى بعثت كے پانچويں سال رجب كے مہينے ميں اس عيسائي ملك حبشہ (ايتھوپيا)كى جانب روانہ ہوا اور دو ماہ بعد واپس مكہ آگيا_
دوسرے گروہ ميں تراسى مرد اور اٹھارہ عورتيں اور چند بچے شامل تھے يہ گروہ حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى زير سرپرستى ہجرت كركے حبشہ چلاگيا جس كا وہاں كے فرمان روا ''نجاشي'' نے بہت پرتپاك طريقے سے استقبال كيا_
قريش كو جب اس واقعے كا علم ہوا تو انہوں نے عمروبن عاص اور عبداللہ ابن ابى ربيعہ كو اپنا نمائندہ بنا كر حبشہ روانہ كيا ان كے ساتھ انہوں نے نجاشى اور اس كے درباريوں كے لئے بہت سے عمدہ تحفے تحائف بھى بھيجے اور اس سے يہ درخواست كى كہ پناہ گزيں مسلمانوں كو واپس كردياجائے_
قريش كے نمائندوں نے بادشاہ نجاشى اور اس كے درباريوں كو مسلمانوں سے بدظن كرانے كى ہر ممكن كوشش كى اور بہت اصرار كياكہ مہاجر مسلمانوں كو واپس كردياجائے مگر انہيں اپنے مقصد ميں كاميابى نہ ہوئي اور وہ نجاشى بادشاہ كو اپنا ہم خيال نہ بناسكے_
نجاشى نے جب مہاجرين كے نمائندے حضرت جعفر ابن ابى طالب (ع) كى دلچسپ اور منطقى باتيں سنيں اور حضرت جعفر (ع) نے جب اس كے سامنے قرآنى آيات كى قرا ت كى تو وہ انہيں سن كر مسلمانوں پر فريفتہ اور ان كے عقائد كا شيداہوگيا چنانچہ اس نے سركارى سطح پر مسلمانوں كى واضح اور قطعى حمايت كا اعلان كرديا اور قريش كے نمائندوں كو حكم ديا كہ اس

106
كے ملك سے نكل جائيں_
ملك حبشہ ميں مہاجرين انتہائي آرام اور سہولت كى زندگى بسر كرتے رہے اور جب رسول خدا (ص) ہجرت كركے مدينہ تشريف لے گئے تو ہ بھى آہستہ آہستہ وہاں سے واپس آكر آنحضرت (ص) سے مل گئے_(7)

اس ہجرت كے فوائد
ترك وطن كركے حبشہ كى جانب روانہ ہونے اور اس ملك ميں كافى عرصہ تك قيام كرنے كے باعث مسلمانوں كو بہت سے فائدے ہوئے اور وہاں انہيں بہت سى بركات حاصل ہوئيں جن ميں سے چند كا ہم ذيل ميں ذكر كريں گے_
1_جو مسلمان ترك وطن كركے حبشہ چلے گئے تھے انہيں قريش كے مظالم سے نجات مل گئي وہ مشركين مكہ كى شكنجہ وايذا رسانى سے محفوظ ہوگئے_
2_اسلام كا پيغام اور اعلان رسالت اہل حبشہ بالخصوص حبشہ كے بادشاہ اور ا س كے درباريوں تك پہنچ گيا _
3_قريش كى رسوائي ہوئي اور ان كے وہ نمائندے جو نجاشى بادشاہ كے پاس گئے تھے ذليل و خوار ہوكر وہاں سے نكلے_
4_حبشہ كے لوگوں كے درميان دين اسلام كى تبليغ و توسيع كا راستہ ہموار ہوگيا_
عيسائيوں كے ساتھ مسلم مہاجرين كا اسلامى اور انسانى سلوك، شرافتمندانہ طر ز زندگى اور اسلامى احكام كى سخت پابندى اس امر كا باعث ہوئي كہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ حبشہ كے لوگ دين اسلام كے شيدائي ہونے لگے چنانچہ آج ايتھوپيا (حبشہ) اريٹيريا اور

107
صوماليہ ميں جو كڑوروں مسلمان آباد ہيں وہ مسلمانوں كى اسى ہجرت كاہى فيض ہے_

ز:اقتصادى ناكہ بندي(8)
مختلفقبائل ميں اورحجاز كے اندر اور باہر اسلام كى مقبوليت نيز ملك حبشہ ميں مہاجرين كى كامياب پناہ گزينى نے قريش كے سرداروں كواس بات پر مجبوركرديا كہ وہ اسلامى تحريك كو روكنے كےلئے كوئي بنيادى اقدام كريں، چنانچہ انہوں نے فيصلہ كيا كہ ايسے معاہدے پر دستخط كرائے جائيں جس كى رو سے ''بنى ہاشم '' اور ''بنى مطلب'' كے ساتھ مكمل تعلقات قطع ہوجائيں ، كوئي رشتہ دارى نہ كى جائے، ان كے ساتھ كاروبار بند كردياجائے اور كوئي بھى شخص ان كے ساتھ كسى طرح كا سروكار نہ ركھے_(9)
قريش كے اس تحريرى معاہدہ كا مقصد يہ تھا كہ يا تو حضرت ابوطالب (ع) مجبور ہو كر پيغمبر (ص) كى حمايت و سرپرستى سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو قريش كے حوالے كر ديں، يا رسول خدا (ص) لوگوں كو دعوت حق دينا ترك كرديں اور قريش كى تمام شرائط كو مان ليں ، يا پھر آپ(ص) اور آپ (ص) كے حامى گوشہ نشينى اور كسمپرسى كى حالت ميں رہ كر بھوك و پياس سے تڑپ تڑپ كر مرجائيں_
قريش نے اس معاہدے كا نام (صحيفہ) ركھا جس پر چاليس سر برآوردہ اشخاص نے دستخط كئے اور اسے كعبے كى ديوار پرآويزاں كرديا گيا (10)_ اس معاہدے ميں شامل تمام افراد نے يہ عہد كيا كہ تمام لوگ اس كے مندرجات پر حرب بحرف عمل پيرا ہوںگے_
حضرت ابوطالب (ع) كو جب ''معاہدہ صحيفہ'' كا علم ہو ا تو انہوں نے رسول خدا(ص) كى شان رسالت كى تائيد ميں چند اشعار كہے ، جن ميں انہوں نے تاكيد كے ساتھ پيغمبر اكرم (ص) كى

108
حمايت كا از سر نو اعلان كيا ، اس كے ساتھ ہى انہوں نے ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب'' سے خواہش كى كہ مكہ كو خيرباد كہہ كر اس درے ميں جا بسيں جوشہر سے باہر واقع ہے اور يہى درہ بعد ميں ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور ہوا_(11)
''ابولہب'' كے علاوہ ''بنى ہاشم'' اور ''بنى مطلب '' كے سبھى افراد بعثت كے ساتويں سال يكم محرم كو رات كے وقت ''شعب ابوطالب'' ميںداخل ہوئے (12) جہاں انہوں نے چھوٹے چھوٹے گھر اور سائبان بنائے اور وہ حرمت كے مہينوں (رجب ، ذى القعدہ، ذى الحجہ اور محرم ) كے علاوہ تمام سال اسى درے ميں محصور رہتے_
''شعب ابوطالب'' ميں مسلمانوں پر ايسا سخت دور بھى آيا كہ كبھى كبھى تو انہيں پيٹ كى آگ بجھانے كےلئے درخت كے پتوں پر گزارہ كرنا پڑتا_
حرمت كے مہينوں ميں اگر چہ قريش ا ن سے كوئي بازپرس نہ كرتے البتہ دوسرے طريقوں سے انہيں پريشان كياجاتا، انہوں نے مسلمانوں كى قوت خريد كوختم كرنے كيلئے چور بازارى (بليك ماركيٹنگ) كا دھندا شروع كرديا ، كبھى كبھى تو وہ دوكانداروں اور چيزيں بيچنے والوں كو سختى كے ساتھ يہ تنبيہہ كرتے كہ وہ مسلمانوں كے ہاتھ كوئي چيز فروخت نہ كريں_(13)
اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام حرمت كے چار مہينوں كے علاوہ بھى كبھى كبھى چھپ كر مكہ جاتے اور وہاں سے كھانے كا سامان جمع كركے شعب ابوطالب ميں لے كر آتے_(14)
حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خدا (ص) كى فكر ہروقت دامنگيررہتى كيونكہ انہيں اپنے بھتيجے كى جان كا خطرہ تھا، چنانچہ وہ شعب ابوطالب كے بلند مقامات پر پہرہ دار مقرر كرنے كے

109
علاوہ پيغمبر (ص) كو اپنے بستر پر سلاتے اور جب سب سوجاتے تو وہ اپنے فرزند على (ع) كو رسول خدا كے بستر پر سونے كےلئے كہتے اوررسول خدا (ص) سے كہتے كہ آپ (ص) دوسرے بستر پر سوجائيں_(15)

محاصرے كا خاتمہ
تين سال تك سخت رنج و تكليف برداشت كرنے كے بعد بالآخر امداد غيبى مسلمانوں كے شامل حال ہوئي اور جبرئيل امين (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كو يہ خوشخبرى دى كہ خداوند متعال نے ديمك كو اس عہد نامے پر مسلط كرديا ہے جس نے پورى تحرير كو چاٹ ليا ہے اور صرف اس پر ''باسْمكَ اللّہُمَّ'' لكھا ہوا باقى ہے_
رسول خدا (ص) نے اس واقعے كى اطلاع اپنے چچا كو دى يہ سن كر حضرت ابوطالب (ع) قريش كے مجمع عام ميں تشريف لے گئے اور ان سے واقعہ كو بيان كر كے فرمايا كہ جو صحيفہ تم لوگوں نے لكھا تھا اسے پيش كياجائے ، اسى ضمن ميں مزيد فرمايا كہ:
''اگر بات وہى ہے جو ميرے بھتيجے نے مجھ سے كہى ہے تو تم اپنے جور و ستم سے بازآجائو اور اگر اس كا كہنا غلط اور بے بنياد ثابت ہوا تو ميں خود اسے تمہارے حوالے كردوں گا''_
قريش كو حضرت ابوطالب (ع) كى تجويز پسند آئي چنانچہ جب انہوں نے اس صحيفے كى مہر كو توڑا تو بات وہى صحيح ثابت ہوئي جو پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمائي تھي_
قريش ميں جب اُن لوگوں نے ، جو صاحب فہم و فراست اور عدل وانصاف تھے، يہ معجزہ ديكھا تو انہوں نے قريش كى اس پست وكمينہ حركت كى سخت مذمت كى جو انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب كے ساتھ اختيار كر ركھى تھى اورانہوں نے يہ مطالبہ كيا كہ عہد

110
نامہ ''صحيفہ'' كو باطل قراردے كر محاصرہ ختم كياجائے_(15)
چنانچہ اس طرح رسول خدا (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب تين سال تك استقامت و پائيدارى كے ساتھ سخت مصائب برداشت كرنے كےبعثت كے دسويں سال (17) ماہ رجب (18) كے وسط ميں، سروخرو اوركامياب ہوكر واپس مكہ آگئے_

رسول اكرم (ص) كے پاس عيسائيوں كے ايك وفد كى آمد
مسلمانوں كى ہجرت ''حبشہ''كا ايك فائدہ يہ بھى ہواكہ جب ''حبشہ'' يا ''نجران'' كے عيسائيوں كو رسول اكرم (ص) كى بعثت كى اطلاع ملى تو انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ اپنا وفد مكہ روانہ كريں تاكہ وہ رسول خدا (ص) سے براہ راست گفتگو كرسكيں چنانچہ يہ پہلا وفد تھا جو مكہ كے باہر سے آيا اور رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا_
نصارى كا يہ نمائندہ وفد بيس افراد پر مشتمل تھاجو رسول خدا (ص) سے ''مسجد الحرام'' ميں ملاقات سے مشرف ہوااور اسى جگہ باہمى گفتگو كا آغاز ہوا جب مذاكرات كا سلسلہ ختم ہوا تو رسول خدا (ص) نے قرآن مجيد كى چند آيات تلاوت كركے انہيں سنائيں اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دي_
عيسائيوں نے جب قرآنى آيات سنيں تو ان كى آنكھيں اشكوں سے لبريز ہوگئيں اور دين اسلام قبول كرنے كا انہوں نے شرف حاصل كرليا جس كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا حضرت محمد صلى اللہ على و آلہ و سلم كے جو اوصاف ان كى كتابوں ميں بيان كئے گئے تھے وہ آپ(ص) كى ذات مبارك ميں انہوں نے پائے_
يہ نمائندہ وفد جب رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہوكر واپس جانے لگا تو ابوجہل

111
اور قريش كے گروہ نے ان كا راستہ روك ليااور كہا كہ تم كيسے نادان ہو ، تمہارى قوم نے تمہيں اس مقصد كےلئے بھيجا تھا كہ وہاں جاكر اصل واقعے كى تحقيق كرو اور اس كاجائزہ لو ليكن تم فوراً نے بے خوف و خطر اپنے دين و آئين كو ترك كرديا اور محمد (ص) كى دعوت پر كاربند ہوگئے_
نصارى كے نمائندوں نے كہا : ''ہم تمہارے ساتھ بحث ومباحثہ كرنے كى غرض سے تو نہيں آئے _تم اپنا دين اپنے پاس ركھو اور ہميں ہمارے آئين و مسلك پر رہنے دو _(19)

حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ (س) كى رحلت
جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو شعب ابوطالب سے نجات ملى تو اس بات كى اميد تھى كہ مصائب وآلام كے بعد ان كے حالات سازگار ہوجائيں گے اور خوشى كے دن آئيں گے مگر ابھى دو سال بھى نہ گزرے تھے كہ دو ايسے تلخ اور جانكاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن كے باعث رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول (ص) پر گويا غم واندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا، رنج واندوہ كا سبب حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت اور اس كے تين دن يا ايك ماہ بعد آپ (ص) كى جان نثار شريكہ حيات (حضرت خديجہ (ع) ) كى بھى اس جہان فانى سے رحلت تھى _(20)
حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت خديجہ (ع) كو ''حجون'' نامى قريش كے قبرستان ميں سپرد خاك كيا گيا_
حضرت ابوطالب اور حضرت خديجہ (ع) كى رحلت نے رسول خدا (ص) كو بہت مغموم و محزون كيا چنانچہ آپ (ص) نے اس غم والم كا اظہار ان الفاظ ميں فرمايا كہ ان چند دنوں ميں اس امت پر دو ايسى مصيبتيں نازل ہوئي ہيں كہ ميں نہيں جانتا كہ ان ميں سے كس نے مجھے زيادہ متاثر

112
كيا ہے_(21)
رسول خد ا(ص) پر اپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شريكہ حيات كى رحلت كا اس قدر صدمہ ہوا كہ آپ (ص) بہت ہى كم ، گھر سے باہر تشريف لاتے چونكہ يہ دونوں عظيم حادثات بعثت كے دسويں سال ميں واقع ہوئے تھے اسى لئے ان كى اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے اس سال كو ''عام الحزن'' يعنى غم واندوہ كا سال كہاجانے لگا_(22)

حضرت ابوطالب (ع) كى مظلوميت
حضرت ابوطالب (ع) كو چونكہ اپنے بھتيجے كے اوصاف حميدہ كا علم تھا اور اس امر سے بھى واقف تھے كہ آپ (ص) كو رسالت تفويض كى گئي ہے اسى لئے وہ آپ(ص) كى تنہائي كے وقت نہايت خاموشى سے آپ (ص) پر ايمان لے آئے تھے وہ رسول خدا (ص) كى بياليس سال سے زيادہ عرصہ تك حفاظت ونگرانى كرتے رہے (يعنى اس وقت سے جب كہ رسول خدا(ص) كاسن مبارك آٹھ سال تھا اس وقت تك جبكہ آپ(ص) كا سن شريف پچاس سال كو پہنچ گيا ) وہ چونكہ حفاظت و حمايت كو اپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے اسى لئے وہ آپ (ص) كے پروانہ وار شيدائي تھے ، يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) كے آسمانى دين كى ترويج كى خاطر كبھى بھى جان ومال قربان كرنے سے دريغ نہيں كيا ، يہاں تك كہ انہوں نے اسى (80) سال سے زيادہ كى عمر ميں اس وقت انتقال كياجبكہ آپ (ع) كا دل خدا اور رسول (ص) پر ايمان سے منور تھا_
حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد دشمنوں كے آستينوں ميں پوشيدہ ہاتھ بھى باہر نكل آئے اور وہ اس بات كو ثابت كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ صدر اسلام كے اس مرد مجاہد كى موت بحالت كفر واقع ہوئي ہے تاكہ لوگوں پر يہ ظاہر كرسكيں كہ يہ ان كا قومى جذبہ تھا جس

113
نے انہيں اس ايثار و قربانى پرمجبور كيا _
حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان كے متعلق شك و شبہ پيدا كرنے ميںجو محرك كار فرماتھا اس كا مذہبى عقيدے سے زيادہ سياسى پہلو تھا، بنى اميہ كى سياسى حكمت عملى كى بنياد چونكہ خاندان رسالت(ص) كے ساتھ دشمنى اور كينہ توزى پر قائم تھى اسى لئے انہوںنے بعض جعلى روايات پيغمبر اكرم (ص) سے منسوب كركے حضرت ابوطالب (ع) كو كافر مشہور كرنے ميںكوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا وہ اس بات كو كہ وہ ايمان نہيں لائے تھے، فروغ ديكر لوگوں كو يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ ان كے فرزند عزيز حضرت على (ع) كو عظمت و فضيلت كے اعتبار سے دوسروں پر كوئي فوقيت و برترى حاصل نہيں ہے اور اس طرح آپ (ع) كى شخصيت داغدار ہوسكے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت على (ع) كے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات كا اتنا زيادہ چرچا نہ كرتے اور نہ ہى اس قدر نماياں طور پر اتنا جو ش وخروش دكھاتے_
كوئي بھى ايسا انصاف پسند شخص جسے تاريخ اسلام سے معمولى واقفيت ہوگى اور پيغمبر اكرم (ص) كے اس عظيم حامى اور مددگاركى جدو جہد سے لبريز زندگى كے بارے ميں علم ركھتا ہوگا وہ اپنے دل ميں حضرت ابوطالب (ع) كے بارے ميں ذرا بھى شك وشبہ نہ لائے گا جس كى دو وجوہات ہيں:
اول:_ ممكن ہے كوئي شخص قومى تعصب كى بناپر، كسى دوسرى شخص يا قبيلے كى حمايت و حفاظت كى خاطركچھ عرصے تك مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے ليكن يہ اس امر كا باعث نہيں ہوسكتا كہ وہ شخص چاليس سال تك نہ صرف حمايت وپشت پناہى كرے بلكہ اس شخص كا پروانہ وار شيفتہ بھى ہونيز اپنے جان سے بھى پيارے بيٹے كو اس پر قربان كردے_
دوم:_ يہ كہ حضرت ابوطالب (ع) كے اقوال و اشعار ، پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين عليہم السلام كى

114
احاديث اور روايات اس وہم وگمان كى ترديد كرتے ہيں اور اس بات پر متفق ہيں كہ رسول خدا (ص) كى حمايت كا اصل محرك ان كا وہ راسخ عقيدہ اور محكم ايمان تھا جو انہيں رسول (ص) كى ذات بابركت پر تھا_
چنانچہ امام زين العابدين عليہ السلام كى محفل ميں حضرت ابوطالب (ع) كا ذكر آگيا تو آپ (ع) نے فرمايا :
''مجھے حےرت ہے كہ لوگوں كو حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر كيوں شك و تردد ہے كيونكہ كوئي ايسى عورت جس نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا وہ اپنے كافر شوہر كے عقد ميں كيسے رہ سكتى ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا ان اولين خواتين ميں سے تھيں جودين اسلام كى سعادت سے مشرف ہوئيں چنانچہ جب تك حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے''_
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا :
''اگر حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كو ترازو كے ايك پلڑے ميں ركھاجائے اور دوسرے پلڑے ميں ديگر لوگوں كے ايمان كو ركھ كر تولاجائے تو يقينا حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى رہے گا_ كيا آپ لوگوں كو اس بات كا علم نہيں كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بعض لوگوں كو يہ حكم ديا تھا كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) كى جانب سے فريضہ حج ادا كريں''_(23)
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے رسول خدا (ص) كى حديث بيان كرتے ہوئے فرمايا :
''حضرت ابوطالب (ع) كا ايمان اصحاب كہف كے ايمان كى طرح تھا كہ وہ لوگ دل سے

115
توايمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس كا اظہار نہيں كرتے تھے ان كے اس عمل كا خداوند تعالى انہيں دو گنا اجر دے گا''_
دين اسلام كى ترويج و تبليغ كےلئے حضرت ابوطالب (ع) كى خدمات كے بارے ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ :
''كسى شخص نے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق كتاب لكھى اور مجھ سے كہا كہ اس كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے كچھ لكھوں، ميں نے كچھ اشعار اس كتاب كى پشت پرلكھ ديئے جن كا مضمون يہ تھا:

وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُہُ
لَمَا مُثّلَ الدّينُ شَخصَاً فَقَاما
فَذاك بمَكَّةَ آوَى وَحامى
وَہذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما

اگر ابوطالب (ع) اور ان كے فرزند حضرت على (ع) نہ ہوتے تو دين اسلام ہرگزقائم نہيں ہوسكتا تھا باپ نے مكے ميں پيغمبر (ص) كى حمايت كى اور بيٹا يثرب ميں دين كى حمايت ميں موت كى سر حد تك آگے بڑھ گيا_

116
سوالات
1_رسول خدا (ص) كى ملاقات سے مشرف ہونے كيلئے قريش لوگوں كوكس طرح منع كيا كرتے تھے اس كى كوئي مثال پيش كريں؟
2_ مشركيں نہيں چاہتے تھے كہ لوگ تلاوت قرآن سنيں ، اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے كيا طريقہ استعمال كيا؟
3_رسول خدا (ص) نے اصحاب كو ترك وطن كركے حبشہ جانے كى اجازت كس وجہ سے دى ؟
4_ كيا وجہ تھى كہ مسلمانوں نے اپنى پناہ كيلئے ملك حبشہ كا ہى انتخاب كيا؟
5_وطن ترك كرنے والوں كا پہلا گروہ كس تاريخ كو حبشہ كى جانب روانہ ہوا اس گروہ ميں كتنے لوگ شامل تھے اور ان كى سرپرستى كون سے صحابى كررہے تھے؟
6_ ہجرت حبشہ كے كيا فوائد اور بركات تھے؟
7_قريش كى طرف سے مسلمانوں كے اقتصادى محاصرہ كے كيا محركات تھے؟ اوريہ محاصرہ كتنے عرصے تك جارى رہا؟
8_ پيغمبر اكرم (ص) نے شعب ابوطالب سے كب اور كس طرح رہائي حاصل كى ، اس كى تاريخ بتايئے؟
9_ مكہ كے باہر سے جو پہلا وفد رسول خدا (ص) كے پاس مذاكرہ كےلئے آيا تھا اس كا تعلق كس ملك سے تھا؟ اور اس مذاكرے كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟
10_ بعثت كے دسويں سال كو كيوں (عام الحزن) كہاجاتا ہے؟
11_حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان سے متعلق دشمنوں نے جو شك وشبہات پيدا كئے اس كے كيا محركات تھے؟

117
حوالہ جات
1_السيرة النبويہ ج 2 'ص 25_28_
2_السيرة النبويہ ' ج 1 ' ص321_
3_سورہ فرقان آيہ 5 و 6_
4_سورہ فصلت آيہ 26_
5_آيتى مرحوم نے اپنى تاريخ ميں پانچ ايسے افراد كا نام ذكر كيا ہے جنہوں نے قريش كے كمر توڑ دبائو كى وجہ سے دين اسلام كو ترك كرديا اور دوبارہ بت پرستى شروع كردى _ ملاحظہ ہو تاريخ پيامبر (ص) ص 128 _129_
6_ السيرة النبويہ ' ج1 ' ص 344_
7_السيرة النبويہ ج' ص 344_362_
8_ البتہ اس معاہدہے كے مندرجات كى روسے اسے اقتصادى نا كہ بندى كى بجائے صرف '' بائيكاٹ ''كہنا زيادہ مناسب رہے گا_ مترجم_
9_السيرة النبويہ ابن ہشام ج 1 ص 375 ' والكامل فى التاريخ ج 2 ' ص 87_
10_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 2 ص 107_
11_السيرة النبويہ ج 1 ص 377 والسيرة الحلبيہ ج 1 ص 337_
12_الطبقات الكبرى ج 1 ص 209' والسيرة الحلبيہ ج 1 ص 337_
13_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 2 ص 108 والسيرة الحلبيہ ج 1 ' ص 337_
14_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 13 ص 254_
15_الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 2 ص 109_
16_السيرة النبويہ ج 2 ص 16 وتاريخ يعقوبى ج 2 ص 31_32_
17_الطبقات الكبرى ج 1 ص 210_
18_مصباح المتہجد اعمال نيمہ رجب ص 741_
19_السيرة النبويہ ج 2 ص 32 والسيرة الحلبيہ ج 1 ص 345_
118
20_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج 2 ص 128_
21_تاريخ يعقوبى ج 2 ص 35_
22_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 347_
23_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 68_70 والغدير ج 7 ص 380_
24_ شرح نہج البلاغہ ج 14 ص 83_