79
سبق 5:
مكہ ميں اسلام كى تبليغ اورقريش كا رد عمل
81
بعثت (نزول وحي)
خداوند تعالى كى عبادت و پرستش ميںرسول اكرم (ص) كو چاليس سال گزرچكے تھے _ايك مرتبہ جب آپ (ص) غار حرا ميں اپنے معبود حقيقى سے راز و نياز اور عبادت ميں مصروف تھے اس وقت آپ (ص) رسالت پر مبعوث ہوئے ، حضرت جبرئيل امين (ع) آپ (ص) كے پاس آئے اوراولين آيات الہى كى تلاوت كى :
بسم اللّہ الرَّحمن الرَّحيم
(اقرَائ باسم رَبّكَ الَّذي خَلَقَ خَلَقَ الانسَانَ من عَلَق: اقرَائ وَ رَبُّكَ الَاكرَمُ الَّذى عَلَّمَ بالَقَلَم عَلَّمَ الانسَانَ مَالَم يَعلَم)_(1)
''اپنے پروردگار كا نام لے كر پڑھو كہ جس نے انسان كو جمے ہوئے خون سے پيدا كيا _ پڑھو كہ تمہارا پروردگار بڑا كريم ہے ، جس نے قلم كے ذريعہ تعليم دى ہے اور انسان كو وہ سب كچھ سكھاديا جو وہ نہيں جانتا تھا''_
رسول اعظم(ص) نے جب يہ آيت مباركہ سنى اور خداوند تعالى كى جانب سے پيغمبرى كى خوشخبرى ملى نيز آپ (ص) نے مقام كبريائي كى عظمت و شان كا مشاہدہ كيا تو اس نعمت عظمى كو حاصل كرنے كے بعد آپ (ص) نے اپنے وجود مبارك ميں مسرت و شادمانى محسوس كى چنانچہ
82
آپ (ص) غار سے باہر تشريف لائے اور حضرت خديجہ(ع) كے گھر كى جانب روانہ ہوگئے_(2)
راستے ميں جتنى پہاڑياں اور چٹانيں تھيں وہ سب كى سب قدرت حق سے گويا ہوگئي تھيں اور پيغمبر خدا (ص) كا ادب و احترام بجالاتے ہوئے ''اَلسَلَامُ عَلَيكَ يَا نَبيَّ اللّہ'' كہہ كر آپ (ص) سے مخاطب ہوہى تھيں_(3)
شيعہ محدثين اور مورخين كے مشہور نظريے كى رو سے واقعہ ''عام الفيل'' كے چاليس سال گزر جانے كے بعد 27 رجب پير كے دن رسول (ص) خدا مبعوث بہ رسالت ہوئے(4)_
سب سے پہلے اسلام لانے والے
رسو ل خدا (ص) غار حرا سے گھر تشريف لے گئے اور آپ (ص) نے نبوت كا اعلان كرديا، سب سے پہلے آپ (ص) كے چچازاد بھائي حضرت على عليہ السلام نے آپ (ص) كى تصديق كى اور عورتوں ميں سب سے پہلے آپ (ص) كى زوجہ مطہرہ حضرت خديجہ(ع) تھيں جنہوں نے آپ (ص) كے پيغمبر (ص) ہونے كى تصديق كى ، اہل سنت كے اكثر و بيشتر مورخين بھى اس بات سے متفق ہيں_(5)
اس سلسلے ميں چند روايات ملاحظہ ہوں:
1_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم
(ہذَا اَوَّلُ مَن آمَنَ بي وَصَدَّقَّني وَصَلَّى مَعي) (6)
يہ (على (ع) ) وہ پہلا شخص تھا جو مجھ پر ايمان لايا ، ميرى تصديق كى اور ميرے ساتھ نماز ادا كي_
83
2_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم
اَوَّلُكُم وَارداً عَلَيَّ الحَوضَ و اَوَّلُكُم اسلَاماً ، عَليُّ ابنُ اَبى طَالب: (7)
تم ميں سب سے پہلے حوض كوثر كے كنارے مجھ سے ملاقات كرنے والا تم ميں سابق الاسلام على ابن ابى طالب عليہ السلام ہے_
3_ حضرت على عليہ السلام
اَللّہُمَّ انّي اَوَّلُ مَن اَنَابَ وَ سَمعَ وَاَجَابَ ، لَم يَسبَقني الّا رَسُوْلُ اللّہ صَلَّى اللّہُ عَلَيْہ و آلہ (8)
بارالہا ميں وہ پہلا شخص ہوں جو دين كى طرف آيا ، اسے سنا اور قبول كيا ، پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى شخص نے نماز ميں مجھ سے سبقت حاصل نہيں كي_
دعوت كا آغاز
رسول اكرم (ص) غار حرا سے نكل كر جب گھر ميں داخل ہوئے تو آپ (ص) نے بستر پر آرام فرمايا، ابھى آپ (ص) اسلام كے مستقبل اورتبليغ دين كى كيفيت كے بارے ميں سوچ ہى رہے تھے كہ سورہ مدثر نازل ہوا (9) اور اللہ نے اپنے رسول (ص) كو اٹھ كھڑے ہونے اور ڈرانے (تبليغ دين كرنے) پر مامور كيا چنانچہ اس طرح پيغمبر اكرم (ص) نے دعوت حق كا آغاز كيا، اس دعوت كے تين مرحلے تھے ، خفيہ دعوت' رشتہ داروں كو دعوت اور عام لوگوں كو دعوت_
84
الف _ خفيہ دعوت
دعوت حق كے اس مرحلے كى مدت مورخين نے تين سے پانچ سال لكھى ہے _(10) مشركين كى سازش سے محفوظ رہنے كيلئے رسول اكرم (ص) كو حكم ملا كہ عوام پر توجہ دينے كى بجائے لوگوں كو فرداً فرداً دعوت حق كيلئے تيار كريں اور پوشيدہ طور پر باصلاحيت لوگوں سے ملاقات كركے ان كے سامنے اللہ كا دين پيش كريں چنانچہ آپ (ص) كى جدو جہد سے چند لوگ اسلام لے آئے مگر ان كى ہميشہ يہى كوشش رہى كہ اپنے دين كو مشركين سے پوشيدہ ركھيں اور فرائض عبادت لوگوں كى نظروں سے دور رہ كر انجام ديں_
جب مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ ہوا اور تعداد تيس تك پہنچ گئي تو رسول خدا (ص) نے''ارقم'' نامى مسلمان صحابى كے گھر كو ، جو صفا كے دامن ميں واقع تھا ، تبليغ اسلام اور عبادت خداوند تعالى كا مركز قرار ديا ، آپ (ص) اس گھر ميں ايك ماہ تك تشريف فرما رہے يہاں تك كہ مسلمانوں كى تعداد چاليس افراد تك پہنچ گئي(11)_
قريش كا رد عمل
اگر چہ قريش كو كم وبيش علم تھا كہ رسول خدا (ص) كى پوشيدہ طور پر دعوت دين حق جارى ہے ليكن انہيں اس تحريك كى گہرائي سے واقفيت نہ تھى اور اس طرف سے كوئي خطرہ محسوس نہيں كرتے تھے اس لئے انہوں نے اس جانب كوئي توجہ نہ كى اور اس پر كسى بھى رد عمل كا اظہار نہيں كرتے تھےمگر اس كے ساتھ ہى وہ اپنے گردو پيش كے ماحول سے بھى بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات كى كيفيت ايك دوسرے سے بيان كرتے رہتے تھے ، رسول خدا (ص) نے اس سنہرى موقعہ سے نہايت فائدہ اٹھايا اور اس عرصے ميں آپ (ص) نے جماعت حق ''حزب اللہ'' كى داغ بيل ڈال دى _
85
ب_ اعزاء و اقرباء كو دعوت
دعوت كا يہ مرح-لہ اس آيت مباركہ كے نزول كے ساتھ شروع ہوا :
وَاَنذر عَشيرَتَكَ الاَقرَبينَ(12)
اپنے رشتہ داروں كو عذاب الہى سے ڈرائو_
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على عليہ السلام كو كھانے كا انتظام كرنے پر مامور كيا اور آنحضرت(ص) نے اپنے عزيز و اقارب كو كھانے پر بلايا تاكہ خداوند تعالى كا پيغام ان تك پہنچاديں_
تقريباً چاليس يا پينتاليس آدمى آپ (ص) كے دسترخوان پر جمع ہوئے_(13) رسول (ص) خدا ابھى لوگوں سے گفتگو كرنا ہى چاہتے تھے كہ ابولہب نے غير متعلقہ باتيں شروع كرديں اور آپ (ص) پر سحر و جادو گرى كا الزام لگا كر محفل كو ايسا درہم برہم كيا كہ اس ميں اصل مسئلے كو پيش نہ كياجاسكا_
اگلے روز آپ (ص) نے دوبارہ لوگوں كو كھانے پر مدعو كيا جب لوگ كھانے سے فارغ ہوگئے تو رسول خدا (ص) اپنى جگہ سے اٹھے اور تقرير كے دوران فرمايا كہ :
''اے عبدالمطلب كے بيٹو خدا كى قسم مجھے قوم عرب ميں ايك بھى ايسا جوان نظر نہيں آتا جو اپنى قوم كے لئے اس سے بہتر چيز لے كر آيا ہو جسے ميں اپنى قوم كےلئے لے كر آيا ہوں، ميں تمہارے لئے دنيااور آخرت كى خير (بھلائي) لے كر آيا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے اس كام پر مامور كيا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں ، تم ميں سے كون ايسا
86
شخص ہے جو ميرى اس كام ميں مدد كرے تاكہ وہ تمہارے درميان ميرا بھائي ، وصى اور جانشين بن سكے؟آخرى الفاظ كچھ اس طرح ہيں:
(فَاَيُّكُم يُوَازرُني عَلى ہذَا الَامر عَلى اَن يَكُوُنَ اَخي وَوَصيّي وَ خَليفَتي؟)
رسول خدا (ص) نے تين مرتبہ اپنى بات دہرائي اور ہر مرتبہ حضرت على عليہ السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھ كر كھڑے ہوئے اور اعلان كيا كہ ميں آپ (ص) كى مدد اور حمايت كروں گا، اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :
(انَّ ہذ َا اَخي وَ َوصيّي وَ خَليفَتي فيكُمَ فَاسمَعُوا لَہُ وَاَطيَعُوہ )(14)
يہ على (ع) تمہارے درميان ميرے بھائي، وصى اور خليفہ ہيں ان كى بات سنو اور اطاعت كرو_
اس نشست ميں رسول خدا (ص) نے جو تقرير كى اس سے مسئلہ ''امامت '' كى اہميت واضح ہوجاتى ہے اور يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ اصل ''نبوت'' كو ''امامت'' سے جدا نہيں كيا جاسكتا _
پہلے عزيز و اقارب ہى كيوں ؟
مندرجہ بالا سوال كے جواب ميں يہ كہاجاسكتا ہے كہ عمومى دعوت سے قبل عقل و دانش كى رو سے عزيز و اقارب كو ہى دعوت دى جانى چاہئے كيونكہ حقيقت يہ ہے كہ رسول خدا (ص) كا يہ اقدام انتہائي حساس مرحلے اور خطرناك حالات ميں، دعوت حق كى بنيادوں كو استوار كرنے كا بہترين ذريعہ تھا كيونكہ :
87
1_عزيز و اقارب كو اپنى جانب مائل كركے ہى پيغمبر اكرم (ص) دشمنان اسلام كے خلاف طاقتور دفاعى محاذ قائم كرسكتے تھے ، اس كے علاوہ كچھ اور نہيں تو كم از كم اتنا فائدہ تو تھا ہى كہ اگر ان كے دل آپ (ص) كے دين كى طرف مائل نہ بھى تو بھى رشتہ دارى اور قرابت كے تقاضوں كے مطابق وہ لوگ آنحضرت (ص) كے تحفظ و دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوں_
2_اس كا م سے رسول اللہ (ص) نے اپنى داخلى تشكيلات ميں موجود خوبيوں ، خاميوں اور كمزوريوںكا خوب اندازہ لگاليا ، آپ (ص) مخالف اور ہٹ دھرم قوتوں سے خوب واقف ہوگئے_
ج_عام دعوت حق
رسول خدا (ص) نے دعوت كے تيسرے مرحلے ميں اپنى تبليغ كو وسعت دى اور پہلى محدوديت كو ختم كردياارشاد خداوندى ہوا:
(فَاصدَع بمَا تُؤمَرُ وَأَعرض عَن المُشركينَ_ إنَّا كَفَينَاكَ المُستَہزئينَ )(15)
''پس اے پيغمبر (ص) جس چيز كا حكم دياجارہا ہے اسے آشكارا بيان كرو اور شرك كرنے والوں كى ذرا برابر پروا نہ كرو ،( تمہارى طرف سے ) ہم ان مذاق اڑانے والوں كى خبر لينے كيلئے كافى ہيں_''
ان آيات كے نزول كے بعد آپ (ص) سب لوگوں كو دين اسلام قبول كرنے كى دعوت دينے پر ما مور ہوئے، چنانچہ اس مقصد كى خاطر آپ(ص) كوہ صفا پر تشريف لے گئے اور اس جم غفير كے سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ (ص) نے اس تمہيد كے ساتھ تقرير شروع كى :
88
''اگر ميں يہ كہوں كہ اس پہاڑ كے پيچھے تمہارى گھات ميں دشمن بيٹھا ہوا ہے اور تمہارے لئے اس كا وجود سخت خطرے كا باعث ہے تو كيا تم ميرى بات كا يقين كرو گے؟'' سب نے يك زبان ہو كر كہا كہ ہاں ہم آپ (ص) كى بات كا يقين كريں گے كيونكہ ہم نے آپ (ص) كى زبان سے اب تك كوئي جھوٹى بات نہيں سنى ہے ، يہ سننے كے بعد آپ (ص) نے فرمايا :
(فَانّى نَذيرٌ لَكُم بَينَ يَدَي عَذَاب: شَديد:)_
اب( جب كہ تم نے ميرى راست گوئي كى تصديق كردى ہے تو) ميں تمہيں بہت ہى سخت عذاب سے آگاہ و خبردار كر رہا ہوں_
رسول خدا(ص) كى يہ بات سن كر ابولہب بول اٹھا اور كہنے لگا:
'' تمہارا براہو كيا تم نے يہى بات كہنے كيلئے ہميں يہاں جمع كيا تھا ''_
خداوند تعالى نے اس گستاخ كى تنبيہہ كرنے اور اس كا معاندانہ چہرہ برملا كرنے كى خاطر يہ سورت (16) نازل فرمائي (17)
بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم
(تَبَّت يَدَا أَبى لَہَب: وَتَبَّ (1) مَا أَغنَى عَنہُ مَالُہُ وَمَا كَسَبَ (2) سَيَصلى نَارًا ذَاتَ لَہَب: (3) وَامرَأَتُہُ حَمَّالَةَ الحَطَب (4) فى جيدہَا حَبلٌ من مَسَد:)(5)
''ابولہب كے ہاتھ ٹوٹ جائيں نہ اس كا مال اس كے كام آيا اور نہ كمايا ہوا ، عنقريب اُسے آگ ميں ڈالاجائے گا اور اس كى بيوى لكڑى ڈھونے والى كو ، جس كے گلے ميں بٹى ہوئي رسى ہے''
89
قريش كا رد عمل
پيغمبر اكرم (ص) كى نبوت كى خبر جيسے ہى مكہ ميں پھيلى اُسى وقت سے ہى قريش كے اعتراضات شروع ہوگئے، جب انہوں نے محسوس كيا كہ يہ مسئلہ سنگين صورت اختيار كر گيا ہے اور حضور(ص) كى تحريك ان كے خس وخاشاك جيسے دينى عقائد اور مادى مفادات كيلئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ (ص) كے آسمانى دين (اسلام) كے خلاف محاذ بناليااور آپ(ص) كى مخالفت پر كمربستہ ہوگئے يہاں ہم ان كى بعض ناكام كوششوں كا ذكر كرتے ہيں:
الف _مذاكرہ
مشركين قريش كى شروع ميں تو يہى كوشش رہى كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) اور بنى ہاشم كے مقابلے پر نہ آئيں بلكہ انہيں مجبور كريں كہ وہ پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت وپشت پناہى كے اپنے موقف سے دست بردار ہوجائيں تاكہ وہ آسانى سے رسول اكرم (ص) كى سركوبى كرسكيں_
اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے پہلے تو يہ كوشش كى كہ حضرت ابوطالب (ع) كو يہ كہنے پر مجبور كرديں كہ ان كے بھتيجے كى تحريك نہ صرف ان (مشركين قريش) كيلئے مضر ہے بلكہ قوم و برادرى ميںحضرت ابوطالب (ع) كوجو عزت وحيثيت حاصل ہے اس كيلئے بھى خطرہ پيدا ہوگيا_
مشركين قريش نے خوبرو ، تنو مند اور وجيہہ جوان شاعر عمارة بن وليد بن مغيرہ كو حضرت ابوطالب (ع) كى فرزندى ميں دينے كى كوشش كى تاوہ كہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں اور آپ (ص) كو ان كے حوالے كرديں _(18)
حضرت ابوطالب عليہ السلام نے ان كى ہر بات كامنفى جواب ديا اور رسول خدا (ص) كى حمايت سے دست بردار ہونے سے كسى بھى قيمت پر آمادہ نہ ہوئے_
90
ب_ لالچ
سرداران قريش جب پہلے مرحلے ميں شكست و ناكامى سے دوچار ہوئے تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ چراغ نبوت كو خاموش كرنے كيلئے رسول(ص) خدا كو مال ودولت كا لالچ ديا جائے چنانچہ اس مقصد كے تحت پہلے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس پہنچے اور يہ شكوہ و شكايت كرتے ہوئے كہ ان كے بھتيجے (حضرت محمد (ص) ) نے ان كے بتوں كے خلاف جو رويہ اختيار كيا ہے وہ سخت نازيبا ہے،يہ پيشكش كى كہ اگر حضرت محمد (ص) ہمارے بتوں كى مخالفت سے دستبردار ہوجائيں تو ہم انہيں دولت سے مالا مال كرديں گے ،ان كى اس پيشكش كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے جواب ديا :
خداوند تعالى نے مجھے دنيا پرستى اور زراندوزى كيلئے انتخاب نہيں كيا ہے بلكہ مجھے منتخب كياگيا ہے كہ لوگوں كو اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوں اور اس مقصد كيلئے ان كى رہنمائي كروں_(19)
يہ بات آپ (ص) نے دوسرى جگہ ان الفاظ ميں بيان فرمائي:
''چچا جان خدا كى قسم اگر سورج كو ميرے دائيں ہاتھ ميں اور چاند كو بائيں ہاتھ ميں ركھ ديں تو بھى ميں رسالت الہى سے دست بردار ہونے والا نہيں ، اس تحريك خداوندى كو فروغ دينے كيلئے ميں جان كى بازى تو لگا سكتا ہوں مگر اس سے دستبردار ہونے كيلئے تيار نہيں ''_(20)
سرداران قريش نے اگلے مرحلے پر يہ فيصلہ كيا كہ وہ براہ راست پيغمبر اكرم (ص) سے گفتگو كريں چنانچہ اس مقصد كے تحت انہوں نے اپنا نمائندہ آپ (ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ (ص) كواپنى محفل ميں آنے كى دعوت دى جب رسول خدا (ص) ان لوگوں ميں پہنچ گئے تو كفار
91
قريش نے آپ (ص) كے رويے كے خلاف شكايت كرتے ہوئے كہا كہ اگر آپ (ص) كو مال و دولت كى تمنا ہے تو ہم اتنا وافر مال و متاع دينے كےلئے تيار ہيں كہ آپ (ص) سب سے زيادہ مالدار ہوجائيںگے، اگر آپ (ص) كوسردارى كى خواہش ہے تو ہم آپ (ص) كو اپنا امير و سردار بنانے كيلئے تيار ہيں اور ايسے مطيع فرمانبردار بن كر رہے ہيں كہ آپ (ص) كى اجازت كے بغير كوئي كام بھى نہ كريں گے اور اگر آپ (ص) كے دل ميں حكومت اور سلطنت كى آرزو ہے تو ہم آپ (ص) اپنا حكمران و فرمانروا تسليم كرنے كيلئے آمادہ ہيں _
يہ سن كر رسول خدا (ص) نے فرمايا:
ميں مال و دولت جمع كرنے ، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے كيلئے مبعوث نہيںہوا ہوں ، خداوند تعالى نے مجھے تمہارى جانب ايك پيغمبر كى حيثيت سے بھيجا ہے اور مجھ پر اپنى كتاب نازل فرمائي ہے مجھے تمہارے پاس جنت كى خوشخبرى دينے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے كيلئے بھيجا گيا ہے جس پيغام كو پہنچانے كى ذمہ دارى مجھے سونپى گئي ہے اسے ميں نے تم تك پہنچاديا ہے ، اگر تم ميرى بات مانو گے تو تمہيں دنيا و آخرت كى خوشياں نصيب ہوں گى اور اگر تم ميرى بات قبول كرنے سے انكار كرو گے تو ميں اس راہ ميں اس وقت تك استقامت و پائيدارى سے كام لوں گا كہ خداوند تعالى ميرے اور تمہارے درميان فيصلہ كردے_(21)
ج _ تہمت و افترا پردازي
پيغمبر اكرم (ص) كى عالى شان شخصيت كو داغدار كرنے كيلئے قريش نے جو پست طريقے اختيار كئے ان ميں سے ايك احمقانہ حربہ يہ بھى تھا كہ انہوں نے آپ (ص) پر تہمتيں لگائيں اور آپ(ص)
92
كے خلاف غلط پروپيگنڈا كيا _چنانچہ آپ (ص) كو(نعوذ باللہ) جھوٹا ، كاہن، اور ساحر و جادوگر قرار ديا گيا _ وہ لوگوں ميں كہتے پھرتے تھے كہ اس شخص كے پاس كوئي ايسا جادو ہے كہ جس كے ذريعے يہ شخص باپ ،بيٹے ، مياں بيوي، دوستوں اور رشتہ داروں كے درميان جدائي ڈال ديتا ہے_ (22)
قرآن مجيد نے ان تہمتوں كے بارے ميں كئي جگہ پر اشارہ كيا ہے او رپيغمبر اكرم (ص) كى بابركت و مقدس ذات گرامى كو اس قسم كے الزامات سے منزہ و مبرہ قرار ديا ہے _(23) چنانچہ ايك آيت ميں پيغمبراكرم (ص) كى يہ كہہ كر دلجوئي كى ہے كہ يہ پست شيوہ صر ف ان كفار كى خصوصيت نہيں بلكہ ان سے پہلے بھى دشمنان انبياء اسى قسم كے حربے استعمال كرچكے ہيں_
(كَذَلكَ مَا أَتَى الَّذينَ من قَبلہم من رَسُول: إلاَّ قاَلُوْا سَاحرٌ أَو مَجنُونٌ_ أَتَوَاصَوا بہ بَل ہُم قَومٌ طَاغُونَ )_(24)
''اے رسول ((ص) جس طرح انہوں نے تجھے اذيت دى اسى طرح )ان سے پہلے كى قوموں كے پاس بھى كوئي رسول ايسا نہيں آيا جسے انہوں نے ساحر يا مجنون، نہ كہا ہو كيا ان سب نے آپس ميں اس پر كوئي سمجھوتہ كرليا ہے؟ نہيں بلكہ يہ سركش لوگ ہيں''_
د_ شكنجہ وايذار ساني
آپ پر الزامات كى بوچھاڑكے ساتھ ساتھ، انہوں نے آپ (ص) كو اذيت و آزار دينا بھى شروع كرديا اور جس حد تك ممكن تھا انہوں نے اذيت دينے ميں كوئي كسر نہ چھوڑي، قريش نے يہ غير انسانى طرز عمل نہ صرف پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ روا ركھا ہوا تھا بلكہ وہ مسلمانوں كے
93
ساتھ بھى اسى طرح كا سلوك كرتے تھے_
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ابولہب' اس كى بيوى ام جميل' حكم ابن ابى العاص' عقبہ ابن ابى معيط اور ان كے ساتھيوں نے دوسروں كے مقابلے ميں بہت زيادہ ايذا و تكليف پہنچائي _(25)
رسول خدا (ص) تبليغ اسلام كےلئے بازار ''عكاظ'' كى جانب تشريف لے جاتے تھے كہ ابولہب بھى آپ (ص) كے پيچھے پيچھے ہوليتا اور چلا چلا كر كہنے لگتا : لوگو ميرا يہ بھتيجا جھوٹا ہے اس سے بچ كر رہنا _(26)
قريش آوارہ لڑكوں اور اپنے اوباش اور بے ادب غلاموں كو پيغمبر اكرم (ص) كے راستے پر بٹھاديتے چنانچہ جب آنحضرت (ص) اس راستے سے گزرتے تو سب آپ (ص) كے پيچھے لگ جاتے اور آپ (ص) كا مذاق اڑاتے_ جس وقت آپ(ص) نماز كيلئے كھڑے ہوتے تو آپ (ص) پر اونٹ كى اوجھڑى اور فضلہ انڈيل ديتے_(27)
رسول اكرم (ص) نے دشمن كے ہاتھوں ايسى سختياں برداشت كيں كہ آپ(ص) كو يہ فرمانا پڑا:
(مَا اُوذيَ اَحَدٌ مثلُ مَا اُوذيتُ فى اللّہ )(28)
''راہ خدا ميں كسى بھى پيغمبر پر اتنى سختياں نہيں ہوئيں جتنى مجھ پر ''_
اصحاب رسول (ص) كے بارے ميں بھى انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ ہرقبيلہ كو چاہئے كہ اپنے تازہ مسلمان ہونے والے افراد كو ہر طرح كى ايذا وتكليف پہنچائيں تاكہ وہ مجبور ہو كر اپنے نئے دين سے دستبردار ہوجائيں_
''حضرت ياسر' ' اور ان كى اہليہ ''سميہ'' اور فرزند ''عمار'' ،''خباب ابن ارت ''،''عامر بن فہيرہ ''اور ''بلال حبشي'' نے دوسرے مسلمانوں كے مقابلے ميں زيادہ مصائب و تكاليف
94
برداشت كيں_(29)
حضرت''سميہ'' وہ پہلى مسلم خاتون تھيں جو فرعون قريش ابوجہل كى طاقت فرسا ايذارسانى و شكنجہ كے باعث اس كے نيزے كے وار سے زخمى ہوكر شہيد ہوگئيں، ان كے شوہر ياسر دوسرے شخص تھے جو راہ اسلام ميں شہيد ہوئے عمار نے بھى اگر تقيہ نہ كيا ہوتا تو وہ بھى قتل كرديئے جاتے_(30)
اميہ بن خلف اپنے غلام حضرت بلال كو بھوكا پياسا مكہ كى تپتى دوپہر ميں جلتى ريت پر لٹاديتا اور سينے پر بھارى پتھر ركھ كر كہتا كہ لات و عزى كى پوجا كرو ورنہ اسى حالت ميں مرجاؤگے، مگر بلال سخت تكاليف ميں بھى يہى جواب ديتے :'' اَحَد اَحَد''_(31)
اس كے علاوہ ديگر مسلمانوں كو بھى ہر قسم كى ايذا و تكليف پہنچاتے ، انہيں قيد و بند ميں ركھتے ، سخت زدو كوب كرتے ، بھوكا پياسا ركھتے اور گلے ميں رسى باندھ كر گليوں ميں گھسيٹتے تھے(32)_
95
سوالات
1_ رسول خدا (ص) كس سال مبعوث بہ رسالت ہوئے اور پہلے پہل كون سى آيات آپ (ص) پر نازل ہوئيں؟
2_ سب سے پہلے كون اسلام لايا ؟ اوراس كى دليل كيا ہے؟
3_پيغمبر اكرم (ص) كے مراحل دعوت كا حال آيات كى روشنى ميں بيان كريں؟
4_رسول خدا (ص) نے جب تبليغ دين اسلام شروع كى تو پہلے مرحلے پر قريش كا كيا رد عمل رہا؟
5_ قريش كے سرداروں اور حضرت ابوطالب (ع) كے درميان پيغمبر اكرم (ص) كے بارے ميں جو گفتگو ہوئي تھى اس ميں كياباتيں ہوئيں؟
6_ قريش كى تجاويزاور ان كے وعدوں كا آنحضرت (ص) نے كيا جواب ديا؟
7_ رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو مشركين قريش نے كيا تكاليف پہنچائيں بيان كيجئے؟
8_ دين اسلام قبول كرنے كے بعد كس كو سب سے پہلے شہادت نصيب ہوئي اور كس شخص نے شہيد كيا ؟
96
حوالہ جات
1_سورہ علق آيت 1 سے 5 تك _
2_ الصحےح من السيرة النبى (ص) ج 1 ص 233_اس كتاب كا اردو ترجمہ بھى مترجم كے قلم سے منظر عام پر آرہا ہے_
3_مناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 46 ، بحار الانوار ج 18 صفحہ 196 وتفسير برہان ج 4 صفحہ 479_
4_ملاحظہ ہو: بحارالانوار 18،ص 189، ص 190، ص 240_
5_اہلسنت كے مورخےن كى مزيد رائے جاننے كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج 3 ص 224_236بعض مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) وہ پہلى خاتون تھيں جو دين اسلام سے مشرف ہوئيں (ملاحظہ ہو السيرة النبويہ وسيرہ ابن ہشام ج 1 ص 257 والسيرة الحلبيہ ج 1 ص 267) البتہ دونوں نظريات كو اكٹھا كرتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) اسلام قبول كرنے والى پہلى خاتون ہيں نہ يہ كہ وہ سب افراد سے پيشقدم ہوں_
6_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 13 ص 220_
7_المستدرك حاكم نيشاپورى ' ج 3' ص 136_
8_ نہج البلاغہ، فيض الاسلام خطبہ 131_
9_اس سورہ كے شروع ميں آيا ہے '' يَا اَيُّہاَ اَلمُدَّثّرُ _ قُم فَاَنذر (اے اوڑھ لپيٹنے والے اٹھو اور لوگوں كو ڈرائو)_
10_ملاحظہ ہو الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 1 ص 259 والسيرة الحلبيہ ج 1 ص 283_
11_ ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج 1 ص 283 و الاصابہ ج 1 ص 28_
12_ سورہ شعرا آيت 214_
13_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 285_
14_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج 2 ص 320 _321 مجمع البيان ج 2 ' ص 187 والغدير ج 2 ص 279_
15_سورہ حجر آيہ 94_ 95_
16_اللہب جسے سورہ تبت كے نام سے بھى ياد كيا جاتا ہے_
97
17_ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج 2 ' ص 319_
18_السيرة النبويہ ج 1 ص 285_
19_تاريخ يعقوبى ج 2 ص 24_
20_السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج 1 ص 285 و تاريخ طبرى ج 2 ' ص 326_
21_تاريخ طبرى ج 2 ص 315_ 316_
22_السيرة النبويہ ج 1 ص 289_
23_بطور مثال ملاحظہ ہو سورہ ص آيت4 و سورہ شعرا آيت 153 و سورہ قلم آيت 2 _51 وسورہ تكوير آيت 22_
24_سورہ الذاريات آيت 52_ 53_
25_26_27_ايضاء ص 24_
28_كنزالعمال ج 3 'ص 130 حديث 5818_
29_ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص 297 _ 301 و تاريخ يعقوبى ج 2 ' ص 28_
30_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج 2 ' ص 38 _39_
31 _السيرة الحلبيہ ج 1 ص 29_
32_ السيرة النبويہ ج 1 ص 339و السيرة الحلبيہ ج 1 ص 297
|