61
سبق 4 :
رسالت كى جانب پہلا قدم
62
شام(1) كى طرف پہلا سفر
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے حضرت ابوطالب عليہ السلام كے گھر ميں منتقل ہونے كے بعدآپ(ص) كى زندگى كے ايك نئے باب كا آغاز ہوا يہ باب لوگوں سے ميل ملاپ اور مختلف قسم كے سفر اختيار كرنے سے شروع ہوا چنانچہ ان سفروں اور لوگوں سے ملاقاتوں كے ذريعے ہى حضرت محمد(ص) كا ذاتى جوہر اس تاريك و سياہ ماحول ميں كھلا اور يہيں سے آپ(ص) كو معاشرے نے ''امين قريش'' كہنا شروع كيا _
رسول خدا(ص) كى عمر بارہ سال تھى (1) كہ آپ(ص) اپنے چچا حضرت ابو طالب كے ہمراہ (اس كاروان قريش كے ساتھ جو تجارت كے لئے ملك شام كى جانب جا رہا تھا) سفر پر روانہ ہوئے جس وقت يہ كارواں '' بُصرى '' (2) پہنچا اور '' بَحيرا'' نامى عيسائي راہب دانشور(3) نے اس كارواں كے لوگوں سے ملاقات كى تو اس كى نظر رسول خدا(ص) پر پڑى اس نے انجيل مقدس ميں پيغمبر آخر الزماں (ص) سے متعلق جو علامات پڑھى تھيں وہ تمام علامات اور نشانياں اسے نبى اكرم(ص) ميں نظر آئيں تو وہ آپ(ص) كو فورا پہچان گيا چنانچہ اس نے حضرت ابوطالب (ع) كو مستقبل ميںآپ(ص) كے نبى ہونے كى خوشخبرى دى اور اس كے ساتھ ہى اس نے يہ درخواست بھى كى كہ اس بچے كا خاص خيال ركھيں اس ضمن ميں اس نے مزيد كہا :
''ان(ص) كے بارے ميں جو كچھ ميں جانتا ہوں اگر وہى باتيں يہودى بھى جان ليں تو وہ
63
گزند پہنچائے بغير نہ رہيں گے اس لئے بھلائي اسى ميں ہے كہ انھيں جتنى جلدى ہو سكے واپس مكہ لے جايئے ''_
حضرت ابوطالب(ع) نے اپنے كاروبار كے معاملات كو جلد از جلد نمٹايا اور مكہ واپس آگئے اور پورى طرح اپنے بھتيجے كى حفاظت و نگرانى كرنے لگے (4) _
مستشرقين كى دروغ گوئي
راہب كى اس روايت كو اگر صحيح تسليم كربھى ليا جائے (5)تو يہ تاريخ كا ايك معمولى ساواقعہ ہے _ ليكن بعض بدنيت مستشرقين نے اسے دستاويز بنا كر اس بات كو ثابت كرنے كى بھر پور كوشش كى ہے اور ان كا اس پر اصرار ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اپنى اس غير معمولى ذہانت كى بنا پر اس سفر كے دوران بحيرا عيسائي سے بہت سى باتيں سيكھيں اور چونكہ حافظہ بہت ہى طاقتور تھا انہيں اپنے ذہن ميں محفوظ ركھا اور اٹھائيس سال گزرنے كے بعد انہى تعليمات كو اپنے دين و آئين كى بنياد قرار ديا اور يہ كہہ كر لوگوں كے سامنے پيش كيا كہ يہ باتيں وحى كے ذريعے آپ(ص) پر نازل ہوئي ہےں ليكن پيغمبر اكرم(ص) كى سوانح حيات آپ(ص) كے دين و آئين كى الہامى خصوصيات نيز علمى و عقلى دلائل و براہين سے اس گمان كى نفى اور ترديد ہوتى ہے ذيل ميں ہم اس موضوع سے متعلق چند نكات بيان كريں گے :
1_ عقل كى رو سے يہ بات بعيد ہے كہ ايك بارہ سالہ نوجوان جس نے كبھى مكتب اور مدرسہ كى شكل تك نہ ديكھى ہو وہ چند گھنٹوں كى ملاقات مےں تورات اور انجيل جيسى كتابوں كى تعليمات سيكھ لے اور اٹھائيں سال بعد انہيں شريعت آسمانى (اسلام) كے نام سے پيش كرے
65
2_ اگر پيغمبر(ص) نے بحيرا سے كچھ باتيں سيكھ لى ہوتيں تو وہ يقينا قريش كے درميان پھيل گئي ہوتيں اور وہ لوگ جو كارواں كے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آكر انہيں بيان كرتے اس كے علاوہ اس واقعے كے بعد رسول اكرم(ص) اپنى قوم كے افراد سے يہ نہيں فرماسكتے تھے كہ ميں امى ہوں _
3_اگر تورات اور انجيل كا قرآن مجيدسے موازنہ كياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى كہ قرآن كے مطالب اور مفاہيم ان دونوں كتابوں كے مطالب سے بہت مختلف ہيں_
4_اگر عيسائي راہب كو اتنى زيادہ مذہبى و علمى معلومات حاصل تھيںتو وہ اپنے زمانے ميں مشہور كيوں نہ ہوا اور پيغمبر اكرم (ص) كے علاوہ كسى دوسرے كو اپنا علم كيوں نہ سكھايا ؟
شام كا دو سرا سفر
رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى صداقت، نجابت و شرافت ، امانت دارى اور اخلاق وكردار كى بلندى كا ہر شخص قائل تھا_
حضرت خويلد كى دختر حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا بہت نيك سيرت اور شريف خاتون تھيں_ انہيں اپنے والد سے بہت سامال ورثے ميں ملا تھا وہ بھى مكہ كے بہت سے مردوں اور عورتوں كى طرح اپنے مال كے ذريعے تجارت كرتى تھيں جس وقت انہوں نے امين قريش كے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا (ص) كے سامنے يہ تجويز ركھى كہ اگر آپ ميرے سرمائے كے ذريعہ تجارت كرنے كيلئے ملك شام تشريف لے جائيں تو ميں جتنا حصہ دوسروں كو ديتى ہوں اس سے زيادہ حصہ آپ (ص) كو دونگي_
66
رسول خدا (ص) نے اپنے چچا حضرت ابوطالب عليہ السلام سے مشورہ كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) كى تجويز كو قبول كرليا اور آپ(ص) ان كے ''ميسرہ'' نامى غلام كے ہمراہ پچيس سال كى عمر ميں مال تجارت لے كر ملك شام كى طرف روانہ ہوئے_(6)
كاروان تجارت ميں رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا با بركت وجود قريش كے تاجروں كےلئے نہايت ہى سودمند اور نفع بخش ثابت ہوا اور انہيں اميد سے زيادہ منافع ملا نيز رسول خدا (ص) كو سب سے زيادہ نفع حاصل ہوا ، سفر كے خاتمے پر ''ميسرہ'' نے سفر كى پورى روداد حضرت خديجہ (ع) كو بتائي اور آپ (ص) كے فضائل اور اخلاقى اوصاف و مكارم نيز كرامات كو تفصيل سے بيان كيا _(7)
حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا كے ساتھ شادي
حضرت خديجہ (ع) رشتے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى چچازاد بہن لگتى تھيں اور دونوں كا شجرہ نسب جناب قصى بن كلاب سے جاملتا تھا، حضرت خديجہ (ع) كى ولادت و پرورش اس خاندان ميں ہوئي تھى جو دانا نسب كے اعتبار سے اصيل، ايثار پسند اور خانہ كعبہ كا حامي(8) وپاسدار تھا اور خود حضرت خديجہ (ع) اپنى عفت وپاكدامنى ميں ايسى مشہور تھيں كہ دور جاہليت ميں بھى انہيں ''طاہرہ'' اور''سيدہ قريش'' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا ، ان كيلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادى كے خواہشمند مہر ادا كرنے كےلئے كثير رقم دينے كيلئے تيار تھے مگر وہ كسى سے بھى شادى كرنے كيلئے آمادہ نہ ہوئيں_
جب رسول خدا (ص) ملك شام كے تجارتى سفرسے واپس مكہ تشريف لائے تو حضرت خديجہ (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں قاصد بھيجا اور آپ (ص) سے شادى كى خواہش كا اظہار كيا _(9)
67
رسول خدا (ص) نے اس مسئلے كو حضرت ابوطالب عليہ السلام اور ديگر چچائوں كے درميان ركھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق كيا تو آ پ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كے قاصد كو مثبت جواب ديا ، رشتے كى منظورى كے بعد حضرت ابوطالب عليہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نيز حصرت خديجہ (ع) كے قرابت داروں كى موجودگى ميں حضرت خديجہ (ع) كے گھر پر نكاح كى شايان شان تقريب منعقد ہوئي اور نكاح كا خطبہ دولہا اور دلہن كے چچائوں ''حضرت ابوطالب(ع) '' اور ''عمروابن اسد'' نے پڑھا_
جس وقت يہ شادى ہوئي اس وقت مشہور قول كى بنا پر رسول خدا (ص) كا سن مبارك پچيس سال اور حضرت خديجہ (ع) كى عمر چاليس سال تھي_(10)
حضرت خديجہ (ع) سے شادى كے محركات
ہر چيز كو مادى نظر سے ديكھنے والے بعض لوگوں نے اس شادى كو بھى مادى پہلو سے ہى ديكھتے ہوئے يہ كہنا چاہا ہے :
''چونكہ حضرت خديجہ (ع) كو تجارتى امور كيلئے كسى مشہور و معروف اور معتبر شخص كى ضرورت تھى اسى لئے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا، دوسرى طرف پيغمبر اكرم (ص) يتيم ونادار تھے اور حضرت خديجہ (ع) كى شرافتمندانہ زندگى سے واقف تھے اسى لئے ان كى دولت حاصل كرنے كى غرض سے يہ رشتہ منظور كرليا گيا حالانكہ سن كے اعتبار سے دونوں كى عمروں ميں كافى فرق تھا''_
جبكہ اس كے برعكس اگر تاريخ كے اوراق كا مطالعہ كياجائے تو اس شادى كے محركات ميں بہت سے معنوى پہلو نظر آتے ہيںاس سلسلے ميں ہم يہاں پہلے پيغمبر خدا (ص) كى جانب
68
سے اور بعد ميں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے شادى كے اسباب اور محركات كے بيان ميں ذيل ميں چند نكات بيان كريں گے:
1_ ہميں پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى سارى زندگى زہد وتقوى ومعنوى اقدار سے پر نظر آتى ہے جو اس بات كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى نظر ميں دنياوى مال و دولت اور جاہ و حشم كى كوئي قدر وقيمت نہ تھى ، آپ (ص) نے حضرت خديجہ (ع) كى دولت كو كبھى بھى اپنے ذاتى آرام و آسائشے كى خاطر استعمال نہيں كيا _
2_ اس شادى كى پيشكش حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے كى گئي تھى نہ كہ رسول خدا (ص) كى طرف سے_
اب ہم يہاں حضرت خديجہ (ع) كى جانب سے اس شادى كے محركات بيان كرتے ہيں :
1_ چونكہ كہ وہ بذات خود عفيف و پاكدامن خاتون تھيں اس لئے انہيں ايسے شوہر كى تلاش تھى جو متقى اور پرہيزگار ہو_
2_ ملك شام سے واپس آنے كے بعد جب ''ميسرہ'' غلام نے سفر كے واقعات حضرت خديجہ (ع) كو بتائے تو ان كے دل ميں ''امين قريش'' كيلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گيا البتہ اس محبت كا سرچشمہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ذاتى كمالات اور اخلاقى فضائل تھے اور حضرت خديجہ (ع) كو ان ہى كمالات سے تعلق اور واسطہ تھا_
3_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شادى كرنے كے بعد حضرت خديجہ (ع) نے آپ (ص) كو كبھى سفر تجارت پر جانے كى ترغيب نہيں دلائي _ اگر انہوں نے يہ شادى اپنے مال و دولت ميں اضافہ كرنے كى غرض سے كى ہوتى تو وہ رسول اكرم (ص) كو ضرور كئي مرتبہ سفر پر روانہ كرتيں تاكہ بہت زيادہ مال و دولت جمع ہوسكے، بلكہ اس كے برعكس حضرت خديجہ (ع) نے اپنى دولت
69
آنحضرت (ص) كے حوالے كردى تھى تاكہ اسے آپ (ص) ضرورت مند لوگوں پر خرچ كريں_
حضرت خديجہ (ع) نے رسول خدا (ص) سے گفتگو كرتے ہوئے شادى كى درخواست كے اصل محرك كو اس طرح بيان كيا ہے:'' اے ميرے چچا زاد بھائي چونكہ ميں نے تمہيں ايك شريف ،ديانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پايا اسى وجہ سے ميں تمہارى جانب مائل ہوئي (اور شادى كے لئے پيغام بھيجا)''(11)
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے منہ بولے بيٹے
حضرت خديجہ (ع) سے رسول اكرم (ص) كى شادى كے بعد يك مرتبہ حضرت خديجہ (ع) كے بھتيجے حكيم بن حزام ملك شام سے اپنے ساتھ كچھ غلام لے كر آئے جن ميں ايك آٹھ سالہ لڑكا زيد ابن حارثہ بھى تھا، جس وقت حضرت خديجہ (ع) اس سے ملنے كےلئے آئيں تو حكيم نے ان سے كہا كہ پھوپى جان آپ (ع) ان غلاموں ميں سے جسے بھى چن ليں وہ آپ ہى كا ہوگا(12) حضرت خديجہ (ع) نے زيد كو چن ليا_
جب رسول خدا (ص) نے زيد كو حضرت خديجہ (ع) كے پاس ديكھا تو آپ (ص) نے يہ خواہش ظاہر كى كہ يہ غلام مجھے دے دياجائے، حضرت خديجہ (ع) نے اس غلام كو پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے كر دياپيغمبر اكرم (ص) نے اسے آزاد كركے اپنا منہ بولا فرزند (متبني) بناليا ليكن جب پيغمبر خدا (ص) پر وحى نازل ہونا شروع ہوئي تو قرآن نے حكم ديا كہ انہيں لے پالك فرزند نہيں صرف فرزند كہاجائے_
جب زيد كے والد ''حارثہ'' كو يہ معلوم ہوا كہ ان كا بيٹا شہر مكہ ميں رسول خدا (ص) كے گھر ميں
70
ہے تو وہ آنحضرت (ص) كے پاس آيا اور كہا كہ ان كا بيٹا ان كو واپس دے ديا جائے اس پر آنحضرت (ص) نے زيد سے فرمايا:
''اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد كے ساتھ واپس چلے جائو ''_
مگر حضرت زيد نے پيغمبر اكرم (ص) كے پاس ہى رہنا پسند كيا،بعثت كے موقع پر حضرت على عليہ السلام كے بعد وہ پہلے مرد تھے جو آنحضرت (ص) پر ايمان لائے_(13)
رسول خدا (ص) نے پاك دامن اور ايثار پسند خاتون'' ام ايمن ''سے ان كا نكاح كرديا جن سے ''اسامہ'' كى ولادت ہوئي ، اس كے بعد آپ (ص) نے اپنے چچا كى لڑكى ''زينب بنت حجش'' سے ان كى شادى كردي_(14)
حضرت على عليہ السلام كى ولادت
شہر مكہ كے اس تاريخ ساز عہد ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك حضرت على (ع) كى كعبہ ميں ولادت باسعادت تھى ، مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) كى پيدائشے واقعہ عام الفيل كے تيس سال بعد ہوئي _(15) خانہ كعبہ ميں اميرالمومنين حضرت على (ع) كى پيدائشے كا شمار آپ (ص) كے عظےم وممتاز فضائل ميں ہوتا ہے اس فضيلت كا نہ صرف شيعہ دانشوروں نے ذكر كيا ہے بلكہ اہل سنت كے محدثين و مورخين بھى اس كے معترف ہيں(16)_
پيغمبر اكرم (ص) كے دامن ميں تربيت
حضرت على (ع) نے بچپن اور شير خوارگى كا زمانہ اپنے مہربان اور پاكدامن والدين حضرت
71
ابوطالب عليہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) كى آغوش اور گھر ميں بسر كيا جہاں نور رسالت اور آفتاب نبوت تاباں تھا _ حضرت ابوطالب (ع) كے اس نونہال پر حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى شروع سے ہى خاص توجہ وعنايت رہى ، رسول اكرم (ص) چونكہ اكثر و بيشتر اپنے چچا كے گھر تشريف لے جايا كرتے تھے اسى لئے آپ (ص) نے حضرت على (ع) كے ساتھ محبت ومہربانى كے سلوك اور تربيت ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا_
رسول خدا (ص) نے اسى پر ہى اكتفا نہ كى بلكہ حضرت على (ع) نے اپنى عمر كى جب چھ بہاريں ديكھ ليں (17) تو آپ (ص) انہيں ان كے والدكے گھر سے اپنے گھر لے آئے اور بذات خود ان (ع) كى تربيت وسرپرستى فرمانے لگے_(18)
پيغمبر اكرم (ص) كو حضرت على (ع) سے وہ شغف تھا كہ آپ (ص) انہيں اپنے سے ہر گز جدا نہيں كرتے تھے چنانچہ جب كبھى آپ (ص) عبادت كےلئے مكہ سے باہر غار حرا ميں تشريف لے جاتے حضرت على (ع) آپ (ص) كے ساتھ ہوتے_(19)
رسول اكرم (ص) كے زير سايہ حضرت على (ع) كى جو تربيت ہوئي اس كى اہميت و قدر وقيمت كے بارے ميں خود حضرت على (ع) فرماتے ہيں :
(وَلَقَد عَلمتُم مَوضعي من رَسُوْل اللّہ بالقَرَابَة القَريبَة وَاَلمَنزلَة الخَصيصَة وَضَعَني في حجرہ وَاَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنيْ الى صَدرہ وَيَكنُفُني في فرَاشہ وَيَمُسُّنيْ جَسَدَہْ وَيَشُمُّنيْ عَرفَہْ وَ كَانَ يَمضُغُ النَّبيُّ ثُمَّ يُلَقّينيْ ... وَلَقَد كُنْتُ اَتَّبعََہُ اتّبَاعَ الفَصيل اَثَرَاُمّہ يَرفَعُ لي كُلَّ يَوم: منْ اَخلَاقَہُ عَلَماً وَيَامُرُنيَ بالاقتدَائ بہ)(20)
72
''يہ تو تم سب جانتے ہى ہو كہ رسول خدا (ص) كى مجھ سے كيسى قربت تھى اور آپ (ص) كى نظروں ميں ميرى كيا قدر ومنزلت تھى ، اس وقت جب ميں بچہ تھا آپ (ص) مجھے اپنى گود ميں جگہ ديتے اور سينے سے لگاتے ، مجھے اپنے بستر پر جگہ ديتے ، ميں آپ سے بغلگير ہوتا اور آپ(ص) كے جسم مبارك كى عطر آگيں بو ميرے مشام كو معطر كرديتى ، آپ (ص) نوالے چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے ... ميں پيغمبر اكرم (ص) كے نقش قدم پر اس طرح چلتا جيسے شير خوار بچہ اپنى ماں كى پيروى كرتاہے، آپ (ص) ہر روز اپنے اخلاق كا نياپرچم ميرے سامنے لہراتے اور حكم فرماتے كہ ميں بھى آپ (ص) كى پيروى كروں''_
معبود حقيقى سے انس ومحبت
امين قريش نے اپنى زندگى كے تقريبا چاليس سال ان سختيوں اور محروميوں كے باوجود جو ہميشہ ان كے دامن گير رہيں نہايت صداقت ، شرافت، نجابت ، كردار كى درستى اور پاكدامنى كے ساتھ گزارے آپ (ص) نے اس عرصے ميں خدائے واحد كے علاوہ كسى كى پرستش نہيں كى اور انس عبادت اور معرفت خداوندى كو ہر چيز پر ترجيح دى چنانچہ يہى وجہ تھى كہ آپ (ص) ہر سال كچھ عرصہ جبل نور كے ''غارحرا'' ميں تنہا رہ كر عبادت خدا وند ى ميں گزارتے_
جناب اميرالمومنين حضرت على (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں :
(وَلَقَد كَانَ يُجَاورُ فيَ كُلّ سَنَة: بحرَائَ فَاَرَاہُ وَلَا يَرَاہُ غَيري)(21)
''رسول خدا (ص) ہر سال كچھ عرصے كيلئے حرا ميں قيام فرماتے اس وقت ميں ہى انہيں ديكھتا ميرے علاوہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا''_
پيغمبر اكرم (ص) كے آباء و اجداد بھى سب ہى توحےد پرست تھے اور سب ان آلودگيوں سے
73
دور تھے جن ميں لوگوں كى اكثريت ڈوبى ہوئي تھي_
اس بارے ميں حضرت علامہ مجلسى فرماتے ہيں:
شيعہ اماميہ كا اس بات پر اتفاق ہے كہ رسول خدا (ص) كے والدين اور آباء و اجداد مسلمان ہى نہيں بلكہ سب صديقين ميں سے تھے وہ يا تو نبى مرسل تھے يا معصوم اوصيا، ان ميں سے بعض تقيہ كى وجہ سے يا مذہبى مصلحتوں كى بنا پر دين اسلام كو ظاہر نہيں كرتے تھے_(22)
رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشادہے:
(لَم اَزَل اُنقَلُ من اَصلَاب الطَّاہرينَ الى اَرحَام المُطَہَّرَات)(23)
''ميں مسلسل پاك شخصيات كے صلب سے پاكيزہ خواتين كے رحم ميں منتقل ہوتا رہا ''_
74
سوالات
1_رسول خدا (ص) نے ملك شام كا پہلا سفر كب كيا اور وہاں كيا واقعہ پيش آيا ؟
2_بحيرا نے حضرت ابوطالب (ع) كو رسول خد ا(ص) كے بارے ميں كيا ہدايت كى تھيں؟
3_ مستشرقين نے رسول خدا (ص) كى بحيرا سے ملاقات كو كس پيرائے ميں پيش كيا ان
كى بے دليل تاويلات كے بارے ميں مختصر طور پر اظہار خيال كيجئے؟
4_ رسول خدا (ص) نے ملك شام كا دوسرا سفر كس وجہ سے كيا اور اس سفر سے آپ (ص) كو كيا
نتيجہ حاصل ہوا؟
5_حضر ت خديجہ (ع) كى رسول خدا (ص) سے شادى كس سال ہوئي، حضرت خديجہ (ع) نے
اس شادى كى پيشكش كس وجہ سے كى خود ان كے اقوال كى روشنى ميں سوال كا
جواب ديجئے؟
6_ حضرت زيد اپنے والد كے ہمراہ كيوں نہ گئے اور رسول خدا (ص) كے ساتھ كس وجہ
سے رہنا پسند كيا ؟
7_ پيغمبر خدا (ص) نے كس طرح حضرت على (ع) كى تربيت فرمائي' حضرت على (ع) كے اقوال كي
روشنى ميں جواب ديجئے؟
8_ نزول وحى سے قبل پيغمبر اكرم (ص) كا كيا دين ومسلك تھا؟
75
حوالہ جات
1_پيغمبرا كرم(ص) كس سن ميں سفر پر روانہ ہوئے اس كے بارے ميںاختلاف ہے بعض نے سفر كے وقت آپ (ص) كى عمر نو سال كچھ مورخين نے بارہ اور تيرہ سال بھى لكھى ہے ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص 117 و مروج الذہب ج 2 ص 275_
2_يہ شہر دمشق كى سمت واقع ہے اور ''حوران ''كا مركز شمار كياجاتا ہے_ (معجم البلدان ج 1 ص 441 و ج 2 ص 317)_
3_بعض مورخين نے اسے''تَيمائ'' كا يہودى عالم لكھا ہے ، ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص 118_
4_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 119 والسيرة النبويہ ج 1 ص 193 و 194_
5_بعض مورخين اور صاحب نظر محققين نے ان شواہد و قرائن كى بنياد پر جو اس روايت ميں موجود ہيں اس كى صحت پر شك وترديد كا اظہار كيا ہے ان كى رائے ميں يہ دشمنان اسلام كے ذہن كى اختراع ہے ، ان نظريات كے بارے ميں مزيد اطلاع حاصل كرنے كيلئے ملاحظہ ہو الصحيح من السيرة النبي(ص) ' ج 1 'ص 91 و 94 و تاريخ تحليلى اسلام تاليف رسول محلاتى ج 1 ص 272_
6_يعقوبى نے اپنى تاريخ (ج 2 ص 21) ميں لكھا ہے كہ : ''رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى ميں كبھى اجرت پر كام نہيں كيا''، اس كے قول كو مد نظر ركھتے ہوئے يہاں يہ كہنا پڑے گا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى حضرت خديجہ (ع) كے ساتھ تجارت ، شراكت كى بنياد پر تھى اور انہوں نے اپنا مال بطور شريك تجارت آنحضرت (ص) كى تحويل ميں ديا تھا_
7_السيرة الحلبيہ ج 1 ص132 _ 135_
8_مثال كے طور پر جب يمن كے بادشاہ تبع نے حجر اسود كو مكہ سے يمن لے جانے كا عزم كيا تو حضرت خديجہ (ع) كے والد خويلد نے اپنى سعى و كوشش سے تبع كو اس ارادے سے باز ركھا ملاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص138_
9_ تاريخ كى بعض كتابوں ميں آيا ہے كہ حضرت خديجہ (ع) نے براہ راست پيغمبر اكرم (ص) كو شادى كا پيغام بھيجا ملاحظہ ہو سيرہ ابن اسحاق ص 60_
76
10_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 137 _ 139_
11_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 271_
12_حلبى نے لكھا ہے كہ حضرت خديجہ(ع) نے اپنے بھتيجے سے كہہ ركھا تھا كہ ايك اچھا سا عرب غلام خريد كر ان كےلئے ليتے آئيں (السيرة الحلبيہ ج 1 ص 271)_
13_السيرة النبويہ ج 1 ص 264_265_
14_يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت زينب نے كچھ عرصہ بعد زيد سے طلاق لے لى تو پيغمبر اكرم (ص) نے خدا كے حكم سے ان كے ساتھ نكاح كرليا_ چنانچہ سورہ احزاب كى آيات 36_37 _38 ميں اس امر كى جانب اشارہ كيا گيا ہے_
15_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 139 _
16_علمائے اہل سنت كے نظريات اور اقوال جاننے كيلئے ملاحظہ ہو: كتاب (الغدير) ج 2 ص 21 _23_
17_مناقب ابن شہر آشوب ج 2 ص 180 نيز بعض كتب ميں ايك ضعيف قول لكھا ہے كہ اس وقت حضرت على (ع) كى عمر آٹھ سال تھى _ ملاحظہ ہو سير ةالائمہ اثنا عشر ج 1 ص 155_
18_مورخين نے نقل مكانى كى يہ وجہ بتائي ہے كہ : ايك مرتبہ قريش سخت قحط سالى كا شكار ہوگئے ، حضرت ابوطالب (ع) چونكہ كثير العيال تھے اس لئے پيغمبر اكرم (ص) كى تجويز پر يہ طے ہوا كہ ان كے برادر ى كے لوگوں ميں سے ہر ايك كسى ايك بچے كى پرورش و نگہداشت كى ذمہ دارى قبول كرے اسى وجہ سے پيغمبرا كرم (ص) نے حضرت على (ع) كى پرورش اپنے ذمہ لى ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ج 1 ص 262 و كامل ابن اثير ج 2 ص 58 _ ليكن نقل مكانى كى يہ وجہ معقول نظر نہيں آتى بالخصوص اس حالت ميں جب حضرت على (ع) كے سن مبارك كو نظر ميں ركھاجائے_شايد اس قدر بڑھا كر بيان كرنے كا سبب يہ تھا كہ رسول خدا (ص) كے اس عظيم كارنامے كو كم كر كے پيش كياجائے البتہ يہ كہا جاسكتاہے كہ آپ (ص) نے قحط سالى كو بہانہ بنايا اور چونكہ اس بچے كے تابناك مستقبل سے آپ (ص) واقف تھے اسى لئے طے شدہ دستورالعمل كے تحت آپ (ص) حضرت على (ع) كو اپنے گھر لے آئے ، اس ميں شك نہيں كہ حضرت على (ع) اپنى والد كے سب سے چھوٹے فرزند تھے اور اس وقت آپ (ص) كى عمر چھ سال سے زيادہ نہ تھى ، چھ سال كے بچے كا خرچ اتنا نہيں ہوتا كہ باپ اسے برداشت نہ كرسكے اور
77
باپ بھى كيسا جس كى اپنى برادرى ميں اعلى مرتبہ كى وجہ سے عزت تھى اور انہيں (شيخ الابطح) كہاجاتا تھا_
19_تاريخ طبرى ج 2 ص 213 و شرح ابن حديد ج 3 ص 119_
20_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (192 )_اس خطبے ميں امام كے الفاظ اس بات كو بيان كررہے ہيں كہ آپ (ع) پر شير خوارگى كے زمانہ سے ہى پيغمبراكرم (ص) كى توجہ مركوز تھى اور ان كى زير تربيت تھے كيونكہ لقمہ چبانا اور منہ ميں ركھنا بچے ہى سے متعلق ہے_
21_نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (192)_
22_بحارالانوار ج 15 ص 117_
23_ايضا ص 118_
|