تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  41
سبق 3:
پيغمبر اكرم (ص) كا نسب اور آپ(ص) كى ولادت با سعادت


43
رسول خدا (ص) كا تعلق خاندان بنى ہاشم اور قبيلہ قريش سے ہے _ جزيرہ نما ئے عرب ميں تين سو ساٹھ(360) قبيلے آباد تھے ان ميں قريش شريف ترين اور معروف ترين قبيلہ تھا نسب شناس ماہرين كى اصطلاح ميں قريش انہيں كہا جاتا ہے جو آنحضرت (ص) كے بار ہويں جدا مجد حضرت نضر بن كنانہ كى نسل سے ہوں _(1)
آپ كے چوتھے جد اعلى حضرت قصى بن كلاب كا شمار قبيلہ قريش كے معروف اور سركردہ افراد ميں ہوتا تھا _ انہوں نے ہى كعبہ كى توليت اور كنجى ، قبيلہ ''خزاعہ'' كے چنگل سے نكالى تھي_ اور حرم كے مختلف حصوں ميں اپنے قبيلے كے افراد كو آبادكركے كعبہ كى توليت سنبھالى تھى _(2)
معروف مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ''قصى بن كلاب'' وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبيلہ قريش كو عزت و آبرو بخشى اور اس كى عظمت كو اجاگر كيا (3)
قبيلہ قريش ميں بھى خاندان بنى ہاشم سب سے زيادہ نجيب و شريف شمار ہوتا تھا _

رسول خدا (ص) كے آباء و اجداد
مورخين نے آنحضرت (ص) كے آباء و اجداد ميں حضرت عدنان تك اكيس پشتوںكے نام بيان كئے ہيں درج ذيل ترتيب وار اسماء پر سب متفق الرائے ہيں:

44
حضرت عبداللہ (ع) ، حضرت عبدالمطلب(ع) ، حضرت ہاشم(ع) ، حضرت عبدمناف (ع) ، حضرت قصي(ع) ، حضرت كلاب(ع) ، حضرت مرہ(ع) ، حضرت كعب(ع) ، حضرت لوي(ع) ، حضرت غالب(ع) ، حضرت فہر(ع) ، حضرت مالك(ع) ، حضرت نضر(ع) ، حضرت كنانہ(ع) ، حضرت خزيمہ(ع) ، حضرت مدركہ(ع) ، حضرت الياس(ع) ، حضرت مضر (ع) ، حضرت نزار(ع) ، حضرت معد (ع) اور حضرت عدنان(ع) _(4)
حضرت عدنان سے اوپر حضرت ابراہيم (ع) تك اور حضرت ابراہيم خليل (ع) سے حضرت آدم صفى اللہ (ع) تك كى ترتيب كے بارے ميں اختلاف ہے _ اس سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى ايك روايت بھى بيان كى گئي ہے_
(اذَا بَلَغَ نَسَبَيُ الى عَدُنَانَ فَامسُكُوا)(5)
''جب ميرے نسب كے بارے ميں حضرت عدنان تك پہنچو تو توقف كرو (اور آگے مت بڑھو) ''_
ہم يہاں مختصر طور پر آپ (ص) كے چند قريبى آباء و اجداد كا حال بيان كريں گے_

حضرت عبدمناف (ع)
حضرت قصى كے عبدالدار، عبدمناف ، عبدالعزى اور عبد قصى نامى چار فرزند تھے_ جن ميں حضرت عبدمناف سب سے زيادہ شريف، محترم اور بزرگ سمجھے جاتے تھے (6) حضرت عبدمناف كا اصل نام ''مغيرہ'' تھا _ انہيں اپنے والد محترم كے ہاں نيز لوگوں كے درميان خاص مرتبہ ا ور مقام حاصل تھا_ وہ بہت زيادہ سخى اور وجيہہ انسان تھے اسى وجہ سے انہيں ''فياض (7)'' اور'' قمرالبطحاء (8)'' كے القاب سے نوازا گيا ہے پرہيزگارى ،خوش اخلاقي' نيك چلن اور صلہ رحمى جيسے اوصاف كى طرف دعوت ان كى زندگى كا شعار تھا_(9)

45
ان كى نظر ميں دنيوى مقامات و مراتب ہيچ تھے_ وہ اہل منصب لوگوں سے حسد بھى نہيں كرتے تھے_ اگر چہ كعبہ كے تمام عہدے اور مناصب ان كے بڑے بھائي عبدالدار كے پاس تھے مگر ان كى اپنے بھائي سے كوئي شكر رنجى نہيں تھي_

حضرت ہاشم (ع)
حضرت قصى (ع) كے فرزند، مكہ سے متعلق معاملات اور كعبہ كى توليت اور انتظام جيسے امور كو كسى اختلاف و قضيے كے بغير انجام ديتے رہے_ مگر ان كى وفات كے بعد عبدالدار اور عبدمناف كى اولاد كے درميان كعبہ كے عہدوں كے بارے ميں اختلاف ہوگيا _ بالآخر اتفاق اس بات پر ہوا كہ كعبہ كى توليت اور دارالندوہ (10) كى صدارت عبدالدار كے فرزندوں كے پاس ہى رہے اور حاجيوں كو پانى پلانے نيز ان كى پذيرائي كا معاملہ حضرت عبدالمناف كے لڑكوں كى تحويل ميں دے ديا جائے _(11) حضرت عبدمناف كے فرزندوں ميں يہ عہدہ حضرت ہاشم كے سپرد كيا گيا _(12)
حضرت ہاشم اور ان كے بھائي عبدالشمس جڑواں پيدا ہوئے تھے پيدائشے كے وقت دونوں كے بدن ايك دوسرے سے جڑے ہوئے تھے _ جس وقت انہيں ايك دوسرے سے جدا كيا گيا تو بہت سا خون زمين پر بہہ گيا اور عربوں نے اس واقعہ كو سخت بدشگونى سے تعبير كيا_
اتفاق سے يہ بدشگونى اپنا كام كر گئي اور حضرت ہاشم اور عبدالشمس كے لڑكوں ميں ہميشہ كشمكش اور لڑائي رہي_
عبدالشمس كا لڑكا اميہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت ہاشم كى مخالفت شروع كى _ اس نے جب فرزندان عبدمناف ميں سے حضرت ہاشم ميں عزت و شرف اور بزرگوارى جيسے

46
اوصاف پائے تو ان سے حسد كرنے لگا اور اپنے چچا كے ساتھ مخاصمت اور مخالفت پر اتر آيا چنانچہ يہيں سے بنى ہاشم اور بنى اميہ كے درميان اختلاف اوردشمنى شروع ہوئي جو ظہور اسلام كے بعد بھى جارى رہي_(13)
حضرت ہاشم اپنى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہيں كرتے تھے چنانچہ جيسے ہى حج كا زمانہ شروع ہوتا تھا وہ قبيلہ قريش كى پورى طاقت و قوت اور تمام وسائل اور امكانات حجاج بيت اللہ كى خدمت كيلئے بروئے كار لاتے اور زمانہ حج كے دوران جس قدر پانى اور خوراك كى انہيں ضرورت ہوتى وہ اسے فراہم كرتے_
لوگوں كى خاطر دارى 'مہمان نوازى اور حاجتمندوں كى مدد كرنے ميں وہ بے مثال و يكتائے روزگار تھے_ اسى وجہ سے انہيں ''سيدالبطحائ(14)'' كے لقب سے ياد كياجاتا تھا_
حضرت ہاشم (ع) كے پاس اونٹ كافى تعداد ميں تھے _ چنانچہ جس سال اہل مكہ قحط اورخشك سالى كا شكار ہوئے تو انہوں نے اپنے بہت سے اونٹ قربان كرديئے اور اس طرح لوگوں كےلئے كھانے كا سامان فراہم كيا _(15)
حضرت ہاشم (ع) كے انحصارى اور نماياں كارناموں ميں سے ايك ان كايہ كارنامہ بھى تھا كہ انہوں نے قريش كى محدود كاروبارى منڈيوں كو جاڑوں اور گرميوں كے موسم ميں لمبے تجارتى سفروں كے ذريعے وسيع كيا (دوسرے لفظوں ميں لوكل بزنس كو امپورٹ ايكسپورٹ بزنس ميں ترقى دى _ مترجم)اور اس علاقے كى اقتصادى زندگى ميں حركت پيدا كى (16)
حضرت ہاشم (ع) كا انتقام بيس يا پچيس سال كى عمر ميں ايك تجارتى سفر كے دوران ''غزہ'' (17) ميں ہوا_

47
حضرت عبدالمطلب(ع)
حضرت ہاشم (ع) كى وفات كے بعد ان كے بھائي ''مطلب'' كو قبيلہ قريش كا سردار مقرر كيا گيا اور جب ان كى وفات ہوگئي تو حضرت ہاشم (ع) كے فرزند حضرت ''شيبہ(ع) '' كو ، جنہيں لوگ عبدالمطلب(ع) كہتے تھے قريش كى سردارى سپرد كى گئي_
حضرت عبدالمطلب(ع) كو اپنى قوم ميں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا اور لوگوں ميں وہ بہت مقبول اور ہر د ل عزيز تھے جس كا سبب وہ مختلف اچھے اوصاف اور فضائل تھے جو ان كى ذات ميں جمع ہوگئے تھے _ وہ عاجز و مجبور لوگوں كے حامى اور ان كے پشت پناہ تھے ، ان كى جود وبخشش كا يہ عالم تھا كہ ان كے دسترخوان سے صرف انسان ہى نہيں بلكہ پرندے اور حيوانات تك بھى فيضياب ہوتے اسى وجہ سے انہيں''فياض'' كا لقب ديا گيا تھا_ (18)
رسول خدا (ص) كے دادا بہت ہى دانشمند و بردبار شخص تھے _ وہ اپنى قوم كو اخلاق حسنہ ، جورو ستم سے كنارہ كشى ' برائيوں سے بچنے اور پست باتوںسے دور رہنے كى تعليم ديتے _ ان كا موقف يہ تھا كہ ''ظالم آدمى اپنے كئے كى سزا اسى دنيا ميں ہى پاتا ہے او ر اگر اسے اپنے كئے كا بدلہ اس دنيا ميں نہيںملتاتو آخرت ميں يہ سزا اسے ضرور ملے گي''_(19)
اپنے اس عقيدے كى بناپر انہوں نے اپنى زندگى ميں نہ توكبھى شراب كو ہاتھ لگايا' نہ كسى بے گناہ كو قتل كيا اور نہ ہى كسى برے كام كى طرف رغبت كى بلكہ اس كے برعكس انہوں نے بعض ايسے نيك كاموں كى بنياد ركھى جن كى دين اسلام نے بھى تائيد كى ، ان كى قائم كردہ بعض روايات درج ذيل ہيں :
1_باپ كى كسى زوجہ كو بيٹے كيلئے حرام كرنا
2_مال و دولت كا پانچواں حصہ (خمس) راہ خدا ميں خرچ كرنا_

48
3_چاہ زمزم كا ''سقاية الحاج'' نام ركھنا_
4_قتل كے بدلے سو اونٹ بطور خوں بہا ادا كرنا_
5_كعبہ كے گرد سات مرتبہ طواف كرنا _(20)
البتہ تاريخ كى ديگركتابوں ميں ان كى قائم كردہ ديگر روايات كا بھى ذكر ملتا ہے جن ميں سے چند يہ ہيں: منت مان لينے كے بعد اسے پورا كرنا' چور كا ہاتھ كاٹنا ' لڑكيوں كے قتل كى ممانعت اور مذمت' شراب و زنا كو حرام قرار دينے كا حكم جارى كرنا اور برہنہ ہو كر كعبہ كا طواف كرنے كى ممانعت وغيرہ_(21)

واقعہ فيل
حضرت عبدالمطلب كى زندگى ميں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان ميں سے ايك واقعہ ''عام الفيل'' تھا _ اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ : يمن كے حكمران ابرہہ نے اس ملك پر اپنا تسلط برقرار كرنے كے بعد يہ محسوس كيا كہ اس كى حكومت كے گرد و نواح ميں آباد عربوں كى خاص توجہ كعبہ پر مركوز ہے اور ہر سال كثير تعداد ميں لوگ اس كى زيارت كے لئے جاتے ہيں _ اس نے سوچا كہ عربوں كا يہ عمل اس كے نيز ان حبشى لوگوں كےلئے جو يمن اور جزيرہ نمائے عرب كے ديگر مقامات پر آباد ہيں كوئي مصيبت پيدا نہ كردے چنانچہ اس نے يمن ميں''قليس'' نام كا بہت ہى بڑا گرجا تيار كيا اور تمام لوگوں كو وہاں آنے كى دعوت دى تاكہ كعبہ جانے كى بجائے لوگ اس كے بنائے ہوئے كليسا ميں زيارت كى غرض سے آئيں ليكن لوگوں نے نہ صرف اس كى دعوت كى طرف كوئي توجہ نہيں دى تھى بلكہ الٹا اس كے كليسا كى بھى توہين كى گئي تھي_

49
لوگوں كے اس رويہ سے ابرہہ كو سخت طيش آگيا اور اس نے فيصلہ كيا كہ لوگوں كے اس جرم كے پاداش ميں كعبہ كا وجود ہى ختم كردے گا، اس مقصد كے تحت اس نے عظيم لشكر تيار كيا جس ميں جنگجو ہاتھى پيش پيش تھے _ چنانچہ پورے جنگى ساز و سامان سے ليس ہوكر وہ مكہ كے جانب روانہ ہوا _ سردار قريش حضرت عبدالمطلب اور ديگر اہل مكہ كو جب ابرہہ كے ارادے كا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالى كرديا اور نتيجے كا انتظار كرنے لگے_
جنگى ساز وسامان سے ليس اور طاقت كے نشے ميں چور ابرہہ كا لشكر جب كعبہ كى طرف بڑھا تو ابابيل جيسے پرندوں كے جھنڈاپنى چونچوں اور پنجوں ميں كنكرياں لے كر اس كے لشكر پر چھاگئے اور انہيں ان پر برسانا شروع كرديا جس كى وجہ سے ان كے جسم ايسے چر مراگئے جيسے چبائے ہوئے پتے_
يہ واقعہ بعثت سے چاليس سال قبل پيش آيا چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہى اپنى تاريخ شروع كردى جو رسول خدا (ص) كے مكہ سے مدينہ كى جانب ہجرت تك جارى رہى اور واقعات اسى سے منسوب كئے جانے لگے_

چندقابل ذكر نكات
1_ابرہہ كا حملہ اگر چہ مذہبى محرك كاہى نتيجہ تھا مگر اس كا سياسى پہلو يہ تھا كہ سرزمين عرب پر سلطنت روم كا غلبہ ہوجائے _ چنانچہ اس كى اہميت مذہبى پہلو سے كسى طرح بھى كم نہ تھى ابرہہ كا مكہ اور حجاز كے ديگر شہروں پر قابض ہوجانا سياسى اور اقتصادى اعتبار سے روم جيسى عظيم طاقت كى اہم فتح و كامرانى تھى _ كيونكہ يہى ايك ايسا واحد طريقہ تھا جسے بروئے كار لاكر شمالى عرب كو جنوبى عرب سے متصل كيا جاسكتا تھا _ اس طرح

50
پورے جزيرہ نما ئے عرب پر حكومت روم كا غلبہ و تسلط ہوسكتا تھا نيز اسے ايران پر حملہ كرنے كيلئے فوجى چھائونى كے طور پر استعمال كياجاسكتا تھا_
2_خداوند تعالى كے حكم سے معجزہ كى شكل ميں ابرہہ كے لشكر كى جس طرح تباہى و بربادى ہوئي اس كى تائيد قرآن مجيد اور اہلبيت عليہم السلام كى ان روايات سے ہوتى ہے جو ہم تك پہنچى ہے چنانچہ قرآن مجيد كے سورہ فيل ميں ارشاد ہے كہ :
(بسم الله الرَّحمن الرَّحيْم أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بأَصحَاب الفيل (1) أَلَم يَجعَل كَيدَہُم فى تَضليل: (2) وَأَرسَلَ عَلَيہم طَيرًا أَبَابيلَ (3) تَرميہم بحجَارَة: من سجّيل: (4) فَجَعَلَہُم كَعَصف: مَأكُول:)(5)
''تم نے ديكھا كہ تمہارے رب نے ہاتھى والوں كے ساتھ كيا سلوك كيا اس نے ان كى تدبيرا كارت نہيں كردى اور ان پر پرندوں كے جھنڈ كے جھنڈ بھيج ديئے جو ان پركنكر پتھر پھينك رہے تھے پھر ان كا يہ حال كرديا جيسے (جانوروں كا) كھايا ہوا بھوسا''_
جو لوگ اس واقعہ كى توجيہہ كرتے ہيں كہ اس سال مكہ ميں چيچك كى بيمارى ابرہہ كے سپاہيوں ميں مكھيوں اور مچھروں كى ذريعے پھيلى اور ان كى ہلاكت كا باعث ہوئي _ اس كا سبب يہ ہے كہ ان كا مافوق فطرت چيزوں اور معجزات پر اعتقاد اور ايمان نہيں چنانچہ بعض وہ مسلمان جو خود كو روشن فكر خيال كرتے ہيں وہ بھى مغرب كے مادہ پرستوں كے ہم خيال ہوگئے ہيں اور سب سے زيادہ قابل افسوس بات تو يہ ہے كہ بعض مسلم مؤرخين اور مفسرين بھى اس مغرب پرستى كا شكار ہوگئے ہيں _
3_ابرہہ كے لشكر كى شكست اور خانہ كعبہ كو گزندنہ پہنچنے كے باعث قريش پہلے سے بھى

51
زيادہ مغرور و متكبر ہوگئے چنانچہ حرام كاموں كے ارتكاب ، اخلاقى پستيوں كى جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم وستم روا ركھنے ميں جو حرم كے باہر آباد تھے ان كى گستاخياں اور دست درازياںپہلے سے كہيں زيادہ ہوگئيں _ وہ برملا كہنے لگے كہ ہم ہى آل ابراہيم (ع) ہيں ، ہم ہى پاسبان حرم ہيں ، ہم ہى كعبہ كے اصل وارث ہيں ، ان كا يہ بھى دعوى تھا كہ جاہ و مرتبت ميں عربوں كے درميان كوئي ہمارا ہم پلہ نہيں_
ان نظريات كى بنا پر انہوں نے حج كے بعض احكام جو حرم كے باہر انجام ديئے جاتے ہيں جيسے عرفہ ميں قيام قطعى ترك كرديئے تھے_ ان كا حكم تھا كہ حج يا عمرہ كى غرض سے آنے والے زائرين بيت اللہ كو يہ حق نہيں كہ اس كھانے كو كھائيں جسے وہ اپنى ساتھ لاتے ہيں يا اپنے كپڑے پہن كر خانہ كعبہ كا طواف كريں _

حضرت عبداللہ (ع)
حضرت عبدالمطلب (ع) كے سب سے چھوٹے بيٹے حضرت عبداللہ تھے (22)كہ جنہيں رسول خدا (ص) كے والد ہونے كا فخر حاصل ہوا وہ ،حضرت ابوطالب (ع) ( اميرالمومنين على عليہ اسلام عليہ السلام كے والد) اور زبير ايك ہى ماں يعنى حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے بطن سے تھے(23)_ حضرت عبداللہ (ع) اپنے والد كى نظروں ميں دوسرے بھائيوں سے زيادہ قدر ومنزلت كے حامل تھے _ جس كى وجہ ان كے ذاتى اوصاف اور معنوى كمالات تھے اس كے علاوہ دانشوروں اور كاہنوں نے بھى يہ پيشين گوئي كى تھى كہ انكى نسل سے ايسا فرزند پيدا ہوگا جسے پيغمبرى كے لئے منتخب كياجائے گا، اس خوشخبرى كى تائيد و تصديق اس خاص چمك دمك سے بھى ہوتى تھى جو حضرت عبداللہ (ع) كے چہرے سے عياں تھي(24)

52
حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبداللہ (ع) كے لئے خاندان بنى زہرہ كے سردار حضرت وہب بن عبدمناف كى دختر نيك اختر حضرت آمنہ سلام اللہ عليہا كا رشتہ مانگا اور انہيں اپنے فرزند دلبند كے حبالہ نكاح ميں لے آئے اس شادى خانہ آبادى كا حاصل و ثمرہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا وجود مسعود تھا اور يہى وہ ذات گرامى ہے جسے بعد ميں خاتم الانبياء (ص) كہاگيا_
حضرت آمنہ (ع) سے شادى كرنے كے بعد حضرت عبداللہ (ع) تجارتى قافلے كے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے_ سفر سے واپس آئے تو شہر يثرب ميں بيمار ہوگئے اور اس بيمارى كى وجہ سے وہيں ان كا انتقال ہوگيا اور اسى شہر ميں انہيں دفن كيا گيا _ (25)

رسول اللہ(ص) كى ولادت باسعادت
اكثر محدثين اور مورخين اس بات پر متفق ہيں كہ حضرت محمد (ص) كى ولادت باسعادت عام الفيل ميں يعنى نزول وحى سے چاليس سال قبل ماہ ربيع الاول ميں ہوئي ليكن يوم پيدائشے كے بارے ميں اختلاف ہے _ شيعہ محدثين و دانشوروں كى رائے ميں آپ (ص) كى ولاد ت 17 ربيع الاول كو ہوئي اور اہل سنت كے مورخين نے آپ (ص) كا روز ولادت 12 ربيع الاول قرار ديا ہے_
حضرت محمد (ص) كى ولادت كے وقت چند حادثات اور غير معمولى واقعات بھى رونما ہوئے جن ميں سے بعض يہ ہےں:
1_ ايوان كسرى ميں شگاف پڑ گيا اور اس كے چودہ كنگرے زمين پر گرگئے _
2_فارس كا وہ آتشكدہ جو گزشتہ ايك ہزار سال سے مسلسل روشن تھا يكايك خاموش

53
ہوگيا _
3_ساوہ كى جھيل خشك ہو كر نيچے بيٹھ گئي _
4_تمام بت منہ كے بل زمين پر گر پڑے _
5_زرتشتى عالموں اورايران كے بادشاہ كسرى نے پريشان كن خواب ديكھے _
6_دنيا كے بادشاہوں كے تخت سلطنت سرنگوں ہوگئے _
7_پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا نورآسمان كى طرف بلند ہوا اور بہت وسيع حصے ميں پھيل گيا _(26)
پيغمبر (ص) كى ولادت كے وقت ايسے حيرتناك واقعات كا رونما ہوناكہ جنہيں اصطلاح ميں ''ارہاصات''كہتے ہيں، درحقيقت لوگوں كو خطرے سے آگاہ اور خواب غفلت سے بيدار كرنے كےلئے تھا بالخصوص ہم عصرحكمرانوں كى تنبيہہ كرنا مقصود تھى تاكہ وہ اس بات پر غور كريں كہ ان حادثات كے رونما ہونے كا كيا سبب ہے _ نيز خود سے سوال كريں كہ بت اور بت پرستى كے مظاہر اورنشانات كيونكرمنہ كے بل زمين پر آرہے ہيں اور وہ لوگ جو خود كو خدا اور زمين كا آقا و مالك سمجھتے تھے كيوں مضطرب و پريشان ہوگئے ؟_ كيا اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان سے بھى برتر و بہتر طاقت كا ظہور ہوچكا ہے اور بت پرستى اور شيطانى طاقتوں كے عروج كا زمانہ ختم ہوچكا ہے؟_

پيغمبر اكرم (ص) كا بچپن
رسول خدا (ص) نے اس دنيا ميں اس وقت آنكھ كھولى جب ان كے والد كا سايہ سر سے اٹھ چكا تھا (27)اسى لئے ايك قول كے مطابق رسول خدا (ص) كى تربيت بچپن سے ہى آپ (ص) كے دادا

54
حضرت عبدالمطلب (ع) كے زير سرپرستى ہوئي_
حضرت عبدالمطلب (ع) نے آپ(ص) كى ولادت كے ساتويں دن بھيڑ ذبح كركے اپنے پوتے كا عقيقہ كيا اور نام محمد(ص) (28) ركھا_ اس نومولو بچے كےلئے دايہ كى تلاش شروع ہوئي اور چند روز كے لئے انہوں نے بچے كو ابولہب كى كنيز ثويبہ كے حوالہ كرديا(29) اس كے بعد قبيلہ بنى سعد كے معز زفرد ابوذو يب كى مہربان و پاكدامن دختر حضرت حليمہ نے آنحضرت (ص) كو اپنى تحويل ميں لے ليا اور صحرا كى جانب لے گئيں تاكہ فطرت كى آغوش اور صحت افزا آزاد فضا ميں لے جاكر، ان وبائي بيماريوں سے دور جو كبھى كبھى شہر مكہ كے لئے خطرہ پيدا كرديتى تھيں ، ان كى پرورش كرسكيں _ قبيلہ بنى سعد كے درميان رسول خدا (ص) كى موجودگى حضرت حليمہ (ع) نيز بنى سعد كے ديگر تمام افراد كےلئے نعمت كى فراوانى اور بركت كا باعث ہوئي چنانچہ جب دودھ پلانے كى مدت ختم ہوگئي اور حضرت حليمہ (ع) اس نونہال كو ان كى والدہ كى خدمت ميں لے گئيں تو انہوں نے آنحضرت (ص) كو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے كى درخواست كى چنانچہ حضرت آمنہ (ع) نے بھى ان سے اتفاق كيا_(30)
پيغمبر اكرم (ص) پانچ سال تك (31) صحرا كے دامن ميں قبيلہ بنى سعد كے درميان زندگى بسر كرتے رہے_ اس كے بعد آپ(ص) كو واپس آپ (ص) كى والدہ اور دادا كے پاس بھيج ديا گيا _ جب آپ (ص) كى عمر مبارك چھ سال ہوئي تو آپ كى والدہ ماجدہ حضرت عبداللہ كے مزار كى زيارت سے مشرف ہونے اور ماموں سے ملاقات كرنے كى غرض سے يثرب گئيں ، جہاں ان كا ايك ماہ تك قيام رہا وہ جب واپس مكہ تشريف لا رہى تھيں تو راستہ ميں ''ابوا'' (32) كے مقام پر شديد بيمار ہوگئيں اور وہيں ان كا انتقال ہوا (33)، اس حادثے نے آنحضرت (ص) كو سخت پريشان اور رنجيدہ خاطركيا اور آپ (ص) كے مصائب ميں دوگنا اضافہ

55
ہوگيا ليكن اس واقعہ نے آپ (ص) كو دادا سے بہت نزديك كرديا_
قرآن مجيد نے ان مصائب و رنج و تكاليف كے زمانے كى ياد دلاتے ہوئے فرمايا ہے :
( أَلَم يَجدكَ يَتيمًا فَآوَى )(34)
''كيا اس نے تمہيں يتيم نہيں پايا اور پھر ٹھكانہ فراہم كيا''_
ابھى آپ (ص) نے زندگى كى آٹھ بہاريں بھى نہ ديكھى تھيں كہ دادا كا سايہ بھى سر سے اٹھ گيا اور آپ(ص) حضرت عبدالمطلب (ع) كى وصيت كے مطابق اپنے چچا ابوطالب كى سرپرستى ميں آگئے_
حضرت ابوطالب (ع) اور ان كى زوجہ محترمہ فاطمہ(ع) بنت اسد كو پيغمبر اكرم (ص) بہت زيادہ عزيز تھے وہ لوگ آپ (ص) كا اپنے بچوں سے زيادہ خيال ركھتے تھے چنانچہ جس وقت كھانے كا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب (ع) اپنے بچوں سے فرماتے كہ : ''ٹھہرو فرزند عزيز (حضرت محمد (ص) ) كے آنے كا انتظار كرو ''_(35)
چنانچہ رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ (ع) بنت اسد كے بارے ميں فرماتے ہيں :''وہ بالكل ميرى ماں كى طرح تھيں كيونكہ وہ اكثر اپنے بچوں كو تو بھوكا ركھتيں مگر مجھے اتنا كھانا ديتيں كہ شكم سير ہو جاتا اور اپنے بچوں سے پہلے مجھے نہلاتى ، دھلاتى اور سنوارتى تھيں''_ (36)

خدائي تربيت
اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بچپن كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ :
(لَقَد قرَنَ اللّہُ بہ من لَدُنْ اَن كَانَ فَطيماً

56
اَعظَمَ مَلَك: من مَلَائكَتہ يَسلُكُ بہ طَريقَ المَكَارم وَمَحَاسنَ اَخلَاق العَاَلَم لَيلَةُ وَنَہَارَةُ )(37)
''رسول خدا (ص) كى دودھ بڑھائي كے دن سے خداوند تعالى نے سب سے بڑے فرشتے كو آپ (ص) كے ہمراہ كرديا تاكہ دن رات عظمت و بزرگوار ى كى راہوں اور كائنات كے قابل قدر اوصاف كى جانب آپ(ص) كى راہنمائي كرتا رہے''_

57

سوالات
1_ پيغمبر اكرم (ص) كے تيسرے جدامجد تك آپ(ص) كا شجرہ نسب بيان كيجئے_
2_حضرت ہاشم (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے اجداد ميں كون سى پشت تھے اور انہوں نے كيا خدمات
انجام ديں ؟
3_ حضرت عبدالمطلب (ع) كى بنيادركھى ہوئي روايات بيان كيجئے_
4_ عام الفيل ميں كونسا واقعہ رونما ہوا اور پيغمبر خدا (ص) كے اجداد ميں كون سے جد كى زندگي
كے د وران پيش آيا ؟
5_ پيغمبر اكرم (ص) كے والد كون تھے؟ ان كا كہاں اور كب انتقال ہوا؟
6_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ولادت كب ہوئي اور اس وقت كيا واقعات رونما
ہوئے؟
7_ پيغمبر (ص) كا زمانہ شير خوارگى كيسے گزرا؟

58
حوالہ جات
1_ السيرہ الحلبيہ ج 1'ص 16 اور لسان العرب ، لفظ ''قريش''_
2_ السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج 1' ص 130_
3_تاريخ يعقوبى ' ج 1 ' ص 240_
4_ السيرة النبويہ ج 1 ص1' 2_
5_ بحارالانوار ج 15' ص 105 ' 280_
6_ السيرة النبويہ ج1 'ص 123 'السيرة الحلبيہ ج 1 ص 13 و الكامل ج 2 ص 19_
7_8_9 السيرة الحلبيہ ج 1 ص 13' 7_
10_ دارالندوہ دراصل قريش كى مجلس مشاورت تھى جسے حضرت قصى بن كلاب نے قائم كيا تھا_
11_ السيرة الحلبيہ ، ج 1 ص 13_
12_ الكامل فى التاريخ ج 2 ص 16_
13_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 4 البتہ مترجم كے نزديك يہ بات ناقابل قبول ہے اس كى علت ديگر كتب ميں ملاحظہ ہو_
14_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 5_
15_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 5_
16_ ان كى خدمات كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كسى شاعر نے كيا خوب كہا ہے :
ہُوَالَّذي سَنَّ الرَّحيلَ لقَومہرحلَ الشّتَائ وَرحلَةَ الاَصْيَاف
وہ ہاشم ہى تھے جنہوں نے اپنى قوم ميں جاڑے اور گرمى كے دنوں ميں تجارتى سفر كرنے كى روايت پيدا كى _ (م-لاحظہ ہو انساب الاشراف ج1 ' ص 59)_
17_يہ فلسطين كا شہر ہے جو عسقلان كے مغرب ميں واقع ہے _اس كے اور عسقلان كے درميان تقريباً دو فرسخ كا فاصلہ ہے_ ملاحظہ ہو معجم البلدان ج 4 ص 202_
59
18_ السيرة الحلبيہ ج 1 ' ص 6 معجم البلدان ج 4 ' ص 202_
19_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 4_
20_ بحارالانوار ج 15' ص 127_129_
21_ السيرة الحلبيہ ج1 ' ص 4 و تاريخ يعقوبى ج 2 ص 10_
22_ بعض مورخين نے لكھا ہے كہ ... حمزہ اور حضرت عباس حضرت عبداللہ (ع) سے چھوٹے تھے _ ملاحظہ ہو:السيرة النبويہ ج 1 ص 161 حاشيہ منقول از روض الانف_
23_ السيرة النبويہ ج 1 ص 161_
24_كمال الدين و تمام النعمة ج 1 ص 175_
25_ السيرة الحلبيہ ج 1 ' ص 49 '50 _ حضرت عبداللہ (ع) كى قبر كچھ عرصہ قبل تك شہر مدينہ ميں مسجد النبى (ص) كے مغربى كنارے پر محفوظ تھى جسے آل سعود وہابى حكمرانوں نے شہيد كراديا اور اسے صحن مسجد ميں شامل كرليا_ اب يہ جگہ نمازيوں كى جائے نماز ہے_
26_ بحارالانوار ج 15' ص 257_258_
27_ اس سلسلہ ميں اختلاف ہے _ اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت حضرت عبداللہ كى رحلت كے دو ماہ بعد ہوئي ليكن بعض نے يہ بھى لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) كى ولادت كے دو ماہ بعد حضرت عبداللہ نے وفات پائي اس كے علاوہ بھى مختلف اقوال ملتے ہيں _ملاحظہ ہو : السيرة حلبيہ ج 1 ' ص 49_ 50 و كافى ج 1 ص 439_
28_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 78_
29_ پيغمبر اكرم (ص) كى ولادت سے پہ-لے ''ثويبہ'' آپ (ص) كے چچا حضرت حمزہ كو دودھ پلاچكى تھيں چنانچہ اس اعتبار سے حضرت حمزہ (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے رضاعى بھائي بھى تھے_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 85 _ البتہ مترجم كے نزديك ثويبہ كے دودھ پلانے والى بات بھى ناقابل قبول ہے_
30_ السيرة الحلبيہ ج 1 ص 173_
31_ چار سال يا چھے سال بھى لكھى گئي ہے_ م-لاحظہ ہو السيرة الحلبيہ ج 1 ص93_
60
32_ يہ مكہ اور مدينہ كے درميان ايك قصبہ ہے جس كا حجفہ سے فاصلہ تقريبا ً 23 ميل (46 كلوميٹر) ہے ملاحظہ ہو :معجم البلدان ج 1 ص 79_
33_ سورہ ضحى آيت6_
34_ السيرة النبويہ ج 1 ص 177_
35_ مناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 36_37_
36_ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 14_
37_ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 192 قاصعہ (صبحى صالح صفحہ 300)_