23
سبق 2:
اسلام سے قبل جزيرہ نما ئے
عرب كى حالت
25
حدود اربعہ اور محل وقوع
جزيرہ نما ئے عرب 'براعظم ايشيا كے جنوب مغرب ميں واقع ہے اس كے شمال ميں عراق اور اردن مشرق ميں خليج فارس جنوب ميں بحر عمان اور مغرب ميں بحر احمر اور خليج عقبہ واقع ہے_
اس جزيرہ نما كارقبہ تيس لاكھ مربع كلوميٹر سے زيادہ ہے_ اور جغرافيائي اعتبار سے تين حصوںميں تقسيم ہوتا ہے_
1_ مركزى حصہ صحرائے عرب كے نام سے مشہور ہے اور يہ اس جزيرہ نماكا وسيع ترين علاقہ ہے_
2_شمالى علاقہ كا نام حجاز ہے_ حجاز'' حَجَزَ''سے مشتق ہے جس كے معنى حائل اور مانع ہيں_ چونكہ يہ سرزمين نجد اور تہامہ كے درميان واقع اور دونوں علاقوں كے باہم ملاپ سے مانع ہے اسى لئے اس علاقے كو حجاز كہاجاتا ہے_(1)
3_ اس جزيرہ نما كا جنوبى حصہ بحر ہند او ربحر احمر كے ساحل پر واقع ہے جس ميں يمن اور حضر موت كے علاقے شامل ہيں_
جنوبى علاقے كے علاوہ جزيرہ نما كا پورا علاقہ مجموعى طور پر خشك اور بے آب و گياہ صحرا پر مشتمل ہے مگر بعض جگہوں پر اس ميں نخلستان بھى پائے جاتے ہيں _
26
سياست
زمانہ جاہليت كے عرب سياسى اعتبار سے كسى خاص طاقت كے مطيع اور فرمانبردار اور قانوں كے تابع نہ تھے_ وہ صرف اپنے ہى قبيلے كى طاقت كے بارے ميں سوچتے تھے دوسروں كے ساتھ ان كا وہى سلوك تھا جو افراطى قوم پرست ور نسل پرست روا ركھتے ہيں_
جغرافيائي اور سياسى اعتبار سے جزيرہ نمائے عرب ايسى جگہ واقع ہے كہ جنوبى علاقے كے علاوہ اس كا باقى حصہ اس قابل نہ تھا كہ ايران اور روم ( موجودہ اٹلى ) جيسے جنگجو اور كشور كشا ممالك اس كى جانب رخ كرتے _ چنانچہ اس زمانے ميں ان فاتحين نے اس كى طرف كم توجہ دى كيونكہ اس كے خشك بے آب و گياہ اور تپتے ہوئے ريگستان ان كے لئے قطعى بے مصرف تھے اس كے علاوہ عہد جاہليت كے عربوں كو قابو ميں لانا اور ان كے زندگى كو كسى نظام كے تحت منظم و مرتب كرنا انتہائي سخت اور دشوار كام تھا_
27
قبيلہ
عرب ، انفرادى زندگى كو اپنے استبدادى اور خود خواہ مزاج كے مطابق پاتے تھے چنانچہ انہوں نے جب بيابانوں ميں زندگى كى مشكلات كا مقابلہ كيا تو يہ اندازہ لگايا كہ وہ تنہا رہ كر زندگى بسر نہيں كرسكتے اس بنا پر انہوں نے فيصلہ كيا كہ جن افراد كے ساتھ ان كا خونى اورنسلى يا سسرالى رشتہ دارى تھي_ ان كے ساتھ مل كر اپنے گروہ كو تشكيل ديں جس كا نام انہوں نے ''قبيلہ'' ركھا _ قبيلہ ايسى مستقل اكائي تھى جس كے ذريعے عہد جاہليت ميں عرب قوميت كى اساس و بنياد شكل پذير ہوتى تھى اور وہ ہر اعتبار سے وہ خود كفيل ہوتى تھي_
دور جاہليت ميں عربوں كے اقدار كامعيار قبائلى اقدارميں منحصر تھا ہر فرد كى قدر ومنزلت كا اندازہ اس بات سے لگايا جاتا تھا كہ قبيلے ميں اس كا كيا مقام و مرتبہ اور اہل قبيلہ ميں اس كا كس حد تك اثر و رسوخ ہے يہى وجہ تھى كہ قدر و منزلت كے اعتبار سے سرداران قبائل كو بالاترين مقام و مرتبہ حاصل تھا جبكہ اس كے مقابلے ميں كنيزوں اور غلاموں كا شمار قبائل كے ادنى ترين و انتہائي پست ترين افراد ميں ہوتا تھا_
ديگر قبائل كے مقابلے ميں جس قبيلے كے افراد كى تعداد جتنى زيادہ ہوتى اس كى اتنى ہى زيادہ عزت اور احترام ہوتاتھا اور وہ قبيلہ اتنا ہى زيادہ فخر محسوس كرتا اس لئے ہر قبيلہ اپنى قدر و منزلت بڑھانے اور افراد كى تعداد كو زيادہ كھانے كى غرض سے اپنے قبيلے كے مردوں كى قبروں كو بھى شامل اور شمار كرنے سے بھى دريغ نہ كرتا چنانچہ اس امر كى جانب قرآن نے اشارہ كرتے ہوئے بيان كيا ہے:
(أَلہَاكُم التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرتُم المَقَابرَ )(2)
''ايك دوسرے پر (كثرت افراد كى بنياد پر )فخر جتانے كى فكر نے تمہيں قبروں ( كے ديدار )تك پہنچاديا ''(3)_
معاشرتى نظام
جزيزہ نما ئے عرب كے اكثر و بيشتر لوگ اپنے مشاغل كے تقاضوں كے باعث صحرانشينى كى زندگى اختيار كئے ہوئے تھے _ كل آبادى كاصرف چھٹا حصہ ايسا تھا جو شہروں ميں آباد تھا ، شہروں ميں ان كے جمع ہونے كى وجہ يا تو اُن شہروںكا تقدس تھا يا يہ كہ ان ميں تجارت ہوتى تھى چنانچہ مكہ كو دونوں ہى اعتبار سے اہميت حاصل تھى اس كے علاوہ شہروں
28
ميں آباد ہونے كى وجہ يہ بھى تھى كہ وہاں كى زمينين سرسبزو شاداب تھيں اور ان كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ان ميں پانى كے علاوہ عمدہ چراگاہيں بھى موجود تھيں _ يثرب ' طائف' يمن ' حيرہ ' حضرموت اور غسان كا شمار ايسے ہى شہروں ميں ہوتا تھا_
عرب كے باديہ نشين ( ديہاتى جنہيں بدو كہا جاتا ہے)اپنے خالص لب ولہجہ اور قومى عادت و خصلت كے اعتبار سے شہر نشين عربوں كے مقابل اچھے سمجھے جاتے تھے اسى لئے عرب كے شہرى اپنے بچوں كو چند سال كے لئے صحرائوں ميں بھيجتے تھے تاكہ وہاں ان كى پرورش اسى ماحول اور اسى تہذيب و تمدن كے گہوارے ميں ہوسكے_
ليكن اس كے مقابلے ميں شہروںميں آباد لوگوں كى سطح فكر زيادہ سيع اور بلند تھى اور ايسے مسائل كے بارے ميں ان كى واقفيت بھى زيادہ تھى جن كا تعلق قبيلے كے مسائل سے جدا اور ہٹ كر ہوتا تھا_
جبكہ صحرا نشين لوگوں كو شہرى لوگوں كے مقابل زيادہ آزادى حاصل تھي_ اپنے قبيلے كے مفادات كى خاطر ہر شخص كو يہ حق حاصل تھا كہ عملى طور پر وہ جو چاہے كرے اس معاملے ميں اہل قبيلہ بھى اس كى مدد كرتے تھے اسى لئے دوسروں سے جنگ و جدال اور ان كے مال ودولت كى لوٹ مار ان كے درميان ايك معمولى چيز بن گئي تھى _ چنانچہ عربوں ميں جنہوں نے شجاعت و بہادرى كے كارنامے سر انجام ديئے ہيں ان ميں سے اكثر وبيشتر صحرا نشين ہى تھے_
دين اور دينداري
زمانہ جاہليت ميںملك عرب ميں بت پرستى كا رواج عام تھا اور لوگ مختلف شكلوں ميں
29
اپنے بتوں كى پوجا كرتے تھے اس دور ميں كعبہ مكمل طور پر بت خانہ ميں بدل چكا تھا جس ميں انواع و اقسام اور مختلف شكل و صورت كے تين سو ساٹھ سے زيادہ بت ركھے ہوئے تھے اور كوئي قبيلہ ايسا نہ تھا جس كا بت وہاں موجود نہ ہو_ حج كے زمانے ميں ہر قبيلے كے لوگ اپنے بت كے سامنے كھڑے ہوتے اس كى پوجا كرتے اور اس كو اچھے ناموںسے پكارتے نيز تلبيہ بھى كہتے تھے_(4)
ظہور اسلام سے قبل يہود ى اور عيسائي مذہب كے لوگ بھى جو اقليت ميں تھے جزيرہ نمائے عرب ميں آباد تھے_ يہودى اكثر وبيشتر خطہ عرب كے شمالى علاقوں مثلاً يثرب' وادى القري' تيمائ' خيبراور فدك جيسے مقامات پر رہا كرتے تھے جبكہ عيسائي جنوبى علاقوں يعنى يمن اور نجران جيسى جگہوں پر بسے ہوئے تھے_
انہى ميں گنتى كے چند لوگ ايسے بھى تھے جو وحدانيت كے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كے دين كے پيروكار سمجھتے تھے_ مورخين نے ان لوگوں كو حُنَفاء كے عنوان سے ياد كيا ہے_(5)
بعثت رسول (ص) كے وقت عربوںكى مذہبى كيفيت كو حضرت على عليہ السلام نے اس طرح بيان كيا ہے :
( ... وَاَہلُ الاَرض يَومَئذ: ملَلٌ مُتَفَرّقَة ٌوَاَہوَائٌ مُنتَشرَة ٌوطَرَائقُ مُتَشَتّتَةٌ بَينَ مُشَبّہ للّہ بخَلقہ اَو مُلَحد: في اسمہ اَو مُشير: الى غَيرہ فَہَدَاہُم بہ منَ الضَّلَالَة وَاَنَقَذَہُم بمَكَانہ منَ الجَہَالَة)(6)
اس زمانے ميں لوگ مختلف مذاہب كے ماننے والے تھے ان كے افكارپريشان اور
30
ايك دوسرے كى ضد اور طريقے مختلف تھے بعض لوگ خدا كو مخلوق سے تشبيہ ديتے تھے (ان كا خيال تھاكہ خدا كے بھى ہاتھ پير ہيں اس كے رہنے كى بھى جگہ ہے اور اس كے بچے بھى ہيں) وہ خدا كے نام ميں تصرف بھى كرتے (اپنے بتوں كا نام خدا كے مختلف ناموں سے اخذ كركے ركھتے تھے مثلاً لات كو اللہ' عزّى كو عزيز اور منات كو منان كے ناموں سے اخذ كركے ركھا تھا)(7) بعض ملحد لوگ خدا كے علاوہ دوسرى اشيا يعنى ماديات پر يقين ركھتے تھے (جس طرح دہريے تھے جو صرف طبيعت ، زمانہ ،حركات فلكيہ اورمرورمان ہى كو امور ہستى پر مؤثر سمجھتے تھے) _(8)خداوند متعال نے پيغمبر (ص) كے ذريعے انہيں گمراہى سے نجات دلائي اور آپ (ص) كے وجود كى بركت سے انہيں جہالت كے اندھيرے سے باہر نكالا_
جب ہم بت پرستوں كے مختلف عقائد كا مطالعہ كرتے ہيں اور ان كا جائزہ ليتے ہيں تو اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ انہيں اپنے بتوں سے ايسى زبردست عقيدت تھى كہ وہ ان كى ذراسى بھى توہين برداشت نہيں كرسكتے تھے اسى لئے وہ حضرت ابوطالب (ع) كے پاس جاتے اور پيغمبر (ص) كى شكايت كرتے ہوئے كہتے كہ وہ ہمارے خدائوں كو برا كہہ رہے ہيں اور ہمارے دين ومذہب كى عيب جوئي كر رہے ہيں (9) _ وہ خدائے مطلق كے وجود كے معتقد اور قائل تو تھے اور اللہ كے نام سے اسے يادبھى كرتے تھے مگر اس كے ساتھ ہى وہ بتوں كو تقدس و پاكيزگى كا مظہر اور انہيں قابل پرستش سمجھتے تھے وہ يہ بات بھى اچھى طرح جانتے تھے كہ يہ بت ان كے معبود تو ہيں مگر ان كے خالق نہيں چنانچہ يہى وجہ تھى كہ جب رسول خدا (ص) ان سے گفتگو فرماتے تو يہ ثابت نہيں كرتے تھے كہ خداوند تعالى ان كا خالق ہے بلكہ ثبوت ودلائل كے ساتھ يہ فرماتے كہ خدائے مطلق ، واحد ہے اور ان لوگوںكے بنائے ہوئے معبودوں كى حيثيت و حقيقت كچھ بھى نہيں_
31
قرآن مجيد نے مختلف آيات ميں اس حقيقت كى جانب اشارہ كيا ہے _يہاں اس كے چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:
(وَلَئن سَأَلتَہُم مَن خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرضَ لَيَقُولُنَّ الله ُ )(10)
''ان لوگوں سے اگر تم پوچھو كہ زمين اور آسمان كو كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو يہ خود ہى كہيں گے كہ اللہ نے''_
اس كے علاوہ وہ بت پرستى كى يہ بھى توجيہ پيش كرتے تھے كہ :
(مَا نَعبُدُہُم إلاَّ ليُقَرّبُونَا إلَى الله زُلفَي)(10)
''ہم تو ان كى عبادت صرف اس لئے كرتے ہيں كہ وہ اللہ تك ہمارى رسائي كراديںگے_
دوسرے لفظوں ميں وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:
( ہَؤُلَائ شُفَعَاؤُنَا عندَ الله )(12)
''يہ اللہ كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں''
تہذيب و ثقافت
زمانہ جاہليت كے عرب ناخواندہ اور علم كى روشنى سے قطعى بے بہرہ تھے _ ان كے اس جہل و ناخواندگى كے باعث ان كے پورے معاشرے پرجہالت اور خرافات سے اٹى بے ثقافتى حاكم تھى ( وہ بے تہذيب لوگ تھے)_ ان كى كثير آبادى ميں گنتى كے چندلوگ ہى ايسے تھے جو لكھنا اور پڑھنا جانتے تھے (13)
دور جاہليت ميں عرب تہذيب و تمدن كے نماياں ترين مظہر حسب ونسب كى پہچان،
32
شعر گوئي اور تقارير ميں خوش بيانى جيسے اوصاف تھے_ چنانچہ عيش وعشرت كى محفل ہو ، ميدان كارزارہو يا قبائلى فخر فروشى كا ميدان غرض وہ ہرجگہ پرشعر گوئي يا جادو بيان تقارير كا سہارا ليتے تھے_
اس ميں شك نہيں كہ اسلام سے قبل عربوں ميں شجاعت، شيرين بياني، فصاحت و بلاغت مہمان نوازي، لوگوں كى مدد اور آزادى پسندى جيسى عمدہ خصوصيات و صفات بھى موجود تھيں مگر ان كے رگ و پے ميں سرايت كر جانے والى قابل مذمت عادات و اطوار كے مقابلے ميں ان كى يہ تمام خوبياں بے حقيقت بن كر رہ گئي تھيں_ اس كے علاوہ ان تمام خوبيوں اور ذاتى اوصاف كا اصل محرك، انسانى اقدار اور قابل تحسين باتيں نہ تھيں _
زمانہ جاہليت كے عرب طمع پرورى اور مادى چيزوں پر فريفتگى كا كامل نمونہ تھے_ وہ ہر چيز كو مادى مفاد كے زاويے سے ديكھتے تھے_ ان كى معاشرتى تہذيب بے راہروى ، بد كردارى اور قتل و غارتگرى جيسے برے افعال و اعمال پر مبنى تھى اور يہى پست حيوانى صفات ان كى سرشت اور عادت و جبلت كا جز بن گئي تھيں_
دور جاہليت ميں عربوں كى ثقافت ميں اخلاقيات كى توجيہ و تعبير دوسرے انداز ميں كى جاتى تھى _ مثال كے طور پر غيرت، مروت اور شجاعت كى تعريف تو كرتے تھے مگر شجاعت سے ان كى مراد سفاكى اور دوسروں كے قتل و خونريزى كى زيادہ سے زيادہ طاقت ہوتى تھي_ غيرت كا مفہوم ان كے تمدن ميں لڑكيوں كو زندہ دفن كردينا تھا_ اور اپنے اس طريقہ عمل سے اپنى غيرت كى نماياں ترين مثال پيش كرتے تھے _ ايفائے عہد كا مطلب وہ يہ سمجھتے تھے كہ حليف يا اپنے قبيلے كے افراد كى ہر صورت ميں حمايت كريں چاہے وہ حق پر ہويا باطل پر_
33
توہم پرستى اور خرافات كى پيروي
طلوع اسلام كے وقت دنيا كى تمام اقوام كے عقائد ميں كم وبيش خرافات ، توہمات اور افسانے و غيرہ شامل تھے _ اس زمانے ميں يونانى اور ساسانى اقوام كا شمار دنيا كى سب سے زيادہ ترقى يافتہ اقوام ميں ہوتا تھا _ چنانچہ ان لوگوں كے اذہان اور افكار پر انہى كے قصوں اور كہانيوں كا غلبہ تھا _يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ تہذيب وتمدن اور علم كے اعتبار سے جو بھى معاشرہ جس قدر پسماندہ ہوگا اس ميں توہمات و خرافات كا اتنا ہى زيادہ رواج ہوگا _ جزيرہ نما ئے عرب ميں توہمات اور خرافات كا رواج عام تھا ان كے بہت سے واقعات تاريخ نے اپنے سينے ميں محفوظ كرركھے ہيں _ يہاں بطور مثال چند نمونے پيش كئے جاتے ہيں:
1_ايسى آنتوں اور ڈوريوں و غيرہ كو جنہيں كمانوں كى تانت بنانے كے كام ميں لاياجاتا تھا لوگ اپنے اونٹوں اور گھوڑوں كى گردنوں نيز سروں پر لٹكادياكرتے تھے _ ان كا عقيدہ تھا كہ ايسے ٹوٹكوں سے ان كے جانور بھوت پريت كے آسيب سے بچے رہتے ہيں اور انہيں كسى كى برى نظر بھى نہيں لگتى _ نيز جنگ اور لوٹ ماركے موقع پر بلكہ ہر موقع پر انہيں دشمنوں كى گزند سے محفوظ ركھنے ميں بھى يہ ٹوٹكے مؤثر ہيں_(14)
2_خشك سالى كے زمانے ميں بارش لانے كى غرض سے جزيرہ نما ئے عرب كے بوڑھے اور كاہن لوگ ''سَلَع'' نامى درخت (جس كا پھل كڑوا ہوتا ہے) اور ''عُشَر'' نامى پيڑ( جس كى لكڑى جلدى جل جاتى ہے) كى لكڑيوں كوگائے كى دُموں اور پيروں ميں باندھ ديتے اور انہيں پہاڑوں كى چوٹيوں تك ہانك كر لے جاتے_ اس كے بعد وہ ان لكڑيوں كو آگ لگاديتے _ آگ كے شعلوں كى تاب نہ لاكر ان كى گائے
34
ادھر ادھر بھاگنے لگتى اور سرمار مار كر ڈكرانا شروع كرديتي_ ان كے خيال ميں ان گائيوں كے ڈكرانے اور بے قرارى كرسے پانى برسنے لگے گا _ شايد اس گمان سے كہ جب بارش بھيجنے والا مؤكل يا خدا (ورشا ديوى يا جل ديوتا) ان گائيوں كو تڑپتا ہوا ديكھيں گے تو ان كى پاكيزگى اورتقدس كى خاطر جلد ہى بادلوں كو برسنے كيلئے بھيج ديں گے_ (15)
3_وہ مردوں كى قبروں كے پاس اونٹ نحر كركے اسے گڑھے ميں ڈال ديتے _ ان كا يہ عقيدہ تھا كہ ان كے اس كا م سے صاحب قبر عزت واحترام كے ساتھ اونٹ پر سوارمحشر ميں واردہوگا_(16)
عہد جاہليت ميں عورتوں كا مقام
دورجاہليت كے عرب عورتوں كى قدر ومنزلت كے ذرہ برابر بھى قائل نہ تھے_ وہ ہر قسم كے انفرادى و اجتماعى حقوق سے محروم تھيں_ اس عہد جاہليت كے معاشرتى نظام ميں عورت صرف ورثے سے ہى محروم نہيں ركھى جاتى تھى بلكہ خود اس كا شمار بھى اپنے باپ' شوہر يا بيٹے كى جائداد ميں ہوتا تھا _ چنانچہ مال و جائداد كى طرح اسے بھى ورثے اور تركے ميں تقسيم كردياجاتا تھا _
عرب قحط سالى كے خوف يا اس خيال سے كہ لڑكيوں كا وجود ان كى ذات كےلئے باعث ننگ و عيب ہے انہيں پيدا ہوتے ہى زمين ميں زندہ گاڑديتے تھے_
اپنى معصوم لڑكيوں سے انہوں نے جو غير انسانى و ناروا سلوك اختيار كر ركھا تھا اس كى مذمت كرتے ہوئے قرآن مجيد فرماتا ہے:
35
( وَإذَا بُشّرَ أَحَدُہُم بالأُنثَى ظَلَّ وَجہُہُ مُسوَدًّا وَہُوَ كَظيمٌ _ يَتَوَارَى من القَوم من سُوئ مَا بُشّرَ بہ أَيُمسكُہُ عَلَى ہُون: أَم يَدُسُّہُ فى التُّرَاب أَلاَسَائَ مَا يَحكُمُونَ )(17)
''جب ان ميں سے كسى كو بيٹى كے پيدا ہونے كى خبر دى جاتى ہے تويہ سنتے ہى اس كا چہرہ سياہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون كا گھونٹ سا پى كر رہ جاتا ہے_ لوگوں سے منھ چھپاتا پھرتا ہے كہ برى خبر كے بعد كيا كسى كو منہ دكھائے _ سوچتا ہے كہ ذلت كے ساتھ بيٹى كو لئے رہے يا مٹى ميں دبا دے بے شك وہ لوگ بہت برا كرتے ہيں''_
دوسرى آيت ميں بھى قرآن مجيد انہيں اس برى اور انسانيت سوز حركت كے بد-لے خداوند تعالى كى بارگاہ ميں جوابدہ قرار ديتا ہے _ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:
( وَإذَا المَوئُودَةُ سُئلَت بأَيّ ذَنب: قُتلَت ()_(18)
''او رجب زندہ گاڑى ہوئي لڑكى سے پوچھا جائے گا كہ وہ كس قصور ميں مارى گئي''_
سب سے زيادہ افسوس ناك بات يہ تھى كہ ان كے درميان شادى بياہ كى ايسى رسومات رائج تھيں كہ ان كى كوئي خاص بنياد نہ تھى وہ اپنى شادى كے لئے كسى معين حد كے قائل نہ تھے(جتنى بھى دل كرتا بيوياں اپنے پاس ركھتے تھے)_ مہر كى رقم ادا كرنے كى ذمہ دارى سے سبكدوش ہونے كيلئے وہ انہيں تكليف اور اذيت ديتے تھے _ كبھى وہ اپنى زوجہ پر بے عصمت ہونے كا نارواالزام لگاتے تاكہ اس بہانے سے وہ مہر كى رقم ادا كرنے سے بچ جائيں _ ان كا باپ اگر كسى بيوى كو طلاق دے ديتا ' يا خود مرجاتا تو اس كى بيويوں سے شادى كرلينا ان كيلئے كوئي مشكل نہ تھانہ ہى قابل اعتراض تھا_
36
حرمت كے مہينے
دور جاہليت كے تہذيب و تمدن ميں ذى القعدہ ' ذى الحجة ' محرم اور رجب چار مہينے ايسے تھے جنہيں ماہ حرام سے تعبير كياجاتا تھا _ ان چار ماہ كے دوران ہر قسم كى جنگ و خونريزى ممنوع تھي_ البتہ اس كے بدلے تجارت ' ميل ملاقات' مقامات مقدسہ كى زيارت اوردينى رسومات كى ادائيگى اپنے عرو ج پر ہوتى تھيں_
اور چونكہ قمرى مہينے سال كے موسموں كے لحاظ سے آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اوربسا اوقات يہ موسم ان كى تجارت و غيرہ كےلئے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسى لئے وہ قابل احترام مہينوں ميں تبديلى كرليا كرتے تھے_ قرآن مجيد نے انہيں ''النسيئ'' كے عنوان سے ياد كيا ہے_(19) چنانچہ فرماتاہے:
(إنَّمَا النَّسيئُ زيَادَةٌ فى الكُفر )
''حرام ہينوں ميں تبديلى اور تاخير تو ان كے كفر ميں ايك اضافہ ہے''_ (20)
37
سوالات
1_ جزيرہ نمائے عرب كا محل وقوع بتايئے؟
2_ فاتحين كس وجہ سے جزيرہ نمائے عرب كى طرف توجہ نہيں ديتے تھے؟
3_ جزيرہ نمائے عرب كى اسلام سے قبل معاشرتى حالت كيا تھي؟ صراحت سے
بيان كيجئے؟
4_ دور جاہليت كے عربوںميں كس قسم كا مسلك زيادہ رائج تھا؟
5_ كيا عربوں كا خدا پراعتقاد تھا؟ قرآن مجيد سے كوئي ايك دليل پيش كيجئے؟
6_ عربوں ميں كس قسم كے توہمات و خرافات كا رواج تھا اس كى ايك مثال پيش كيجئے؟
7_ عہد جاہليت ميں عورت كا كيا مقام تھا؟
38
حوالہ جات
1_ معجم البلدان ج 2 ' 63 و 219
2_ سورہ التكاثر آيت 1و 2
3_ اصل كتاب ميں اسى طرح ترجمہ ہوا ہے _ مترجم
4_تاريخ يعقوبى ، ج 1، ص 255 ، تلبيہ '' لَبَّيْكَ اللّہُمَ لَبَّيْكَ'' كہنے كا نام ہے _ مترجم _ہر قبيلے كا لبيك كہنے كا ايك مخصوص طريقہ تھا مزيد معلومات كے لئے مذكور ماخ كا مطالعہ فرمائيں_
5_ تاريخ پيا مبر اسلام (ص) ، ص 13 ، علامہ آيتى مرحوم نے اس عنوان كے تحت چودہ ايسے افراد كے نام بھى بيان كئے ہيں جن كا شمار حنفا ميں ہوتا تھا_
6_نہج البلاغہ خطبہ 1 ص 44 ، مرتبہ صبحى صالح
7_ملاحظہ ہو : تفسير مجمع البيان ج 4، ص 503 سورہ اعراف آيت 180 كے ذيل ميں
8_زمانہ جاہليت كے عربوں كے عقائد سے مزيد واقفيت كے لئے ملاحظہ ہو: شرح ابن ابى الحديد ج 1 صفحہ 117
9_السيرہ النبويہ ، ج1 ، ص 283_ 284
10_سورہ زمر آيت 38
11_سورہ زمر آيت 3
12_ سورہ يونس آيت 17
12_بلاذرى لكھتا ہے كہ ظہور اسلام كے وقت قريش ميں سے صرف سترہ افراد ايسے تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے (ملاحظہ ہو فتوح البلدان صفحہ 457)
14_اسلام و عقائد وآراء بشرى ص 491
15_لسان العرب، ج 9 ، ص 161، ملاحظہ ہو : لفظ ''سَلَعَ'' نيز اسلام و عقائد و آراء بشرى ، صفحہ 501
39
16_اسلام و عقائد و آراء بشرى صفحہ 509
17_ سورہ نحل آيت 58_ 59
18_سورہ تكوير آيت 8، 9
19_''نسيء ''لفظ ''نساء '' سے مشتق ہے ' جس كے معنى ' تاخير ميں ڈالنا ہے_ عہد جاہليت كے عرب كبھى كبھى قابل احترام مہينوں ميں تاخير كرديا كرتے تھے _ مثال كے طور پر وہ ماہ محرم كى جگہ ماہ صفر كو قابل احترام مہينہ بناليتے تھے_
20_سورہ توبہ آيت 37_
|