تاريخ اسلام (1)پيغمبر اكرم (ص) كى زندگي
  7
سبق 1:
تاريخ كى اہميت

تاريخ اسلام كى دوسرى تواريخ پر فوقيت


9
تاريخ كى تعريف
لغت كى كتابوں ميں تاريخ كے معنى ''زمانے كى تعيين '' كے ہيں_'' اَرَخَ الْكتَابَ وَ اَرَّخَہُ'' اس نے كتاب يا خط پرتاريخ تحرير ثبت كى (1) _
تاريخ كے اصطلاحى معانى بيان كرتے ہوئے لوگوں نے اس كى مختلف تعريفيں كى ہيں جن ميں سے چند ذيل ميںدرج ہيں :
1_ايك قديم اور مشہور واقعہ كى ابتدا سے ليكر اس كے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ كے ظہور تك كى مدت كا تعين _
2_سر گذشت يا ايسے قابل ذكر حوادث اورواقعات كہ جنہيں بلحاظ ترتيب زمان منظم و مرتب كيا گيا ہو(2) _

اقسام تاريخ
علم تاريخ ،اس كى اقسام اور خصوصيات اسى طرح ان ميں سے ہر ايك كے فوائد كے بارے ميں بہت زيادہ بحث و گفتگو كى جا چكى ہے_
استاد شہيد مرتضى مطہرى نے علم تاريخ كى تين قسميں بيان كى ہےں :

10
1:_ منقول تاريخ
موجودہ زمانہ كى كيفيت اور حالت كے برعكس ، گزشتہ زمانہ كے واقعات و حادثات اور انسانوں كى حالات اور كيفيات كا علم_
اس ميں سوانح عمرى ' فتح نامے اور سيرت كى وہ تمام كتابيں شامل ہےں جو اقوام عالم ميں لكھى گئي ہيں اور اب بھى لكھى جارہى ہيں _

منقول تاريخ كى خصوصيات
الف: يہ تاريخ جزئي ہوتى ہے مجموعى اور كلى نہيں_
ب: يہ محض منقول ہے اور اس ميں عقل و منطق كو دخل نہيں ہوتا_
ج:محض گذشتہ واقعات كا علم ہے تبديليوں اور تحولات كا نہيں_
(ماضى سے متعلق ہے، حال سے نہيں)

2: علمى تاريخ
ان آداب و رسوم كا علم جن كا رواج عہد ماضى كے انسانوں ميں تھا اور يہ علم ، ماضى ميں رونما ہونے والے واقعات و حادثات كے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے _(4)

3:فلسفہ تاريخ
معاشروں كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميں تغيراور تبديليوں نيز ان تبديليوں پر حاكم قوانين كا علم _ (5)

11
اس كتاب ميں ہمارا مطمح نظر
اس كتاب كے اسباق ميں اس بات كو مد نظر ركھا گيا ہے كہ سب سے پہلے ان واقعات كو تفصيل سے بيان كياجائے جو پيغمبر اكرم حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى رسالت كے دوران رونما ہوئے اور اس كے ساتھ ہى ان كا تجزيہ اور تحليل بھى كياجائے اس كے بعد دوسرے مرحلہ ميں ان واقعات سے پندو نصيحت حاصل كى جائے ، ان سے كلى قواعد اور نتائج اخذ كركے پھر انفرادى اور اجتماعى زندگى ميں ان سے استفادہ كيا جائے_ بالخصوص اس بات كے پيش نظر كہ ايران كے اسلامى انقلاب كى تاريخ بھى درحقيقت دوران رسالت و امامت كے تاريخ اسلام كا منطقى تسلسل ہے _ چنانچہ اس عہد كے اكثر حالات و واقعات ہوبہو صدر اسلام كے حالات و اقعات كى طرح تھے_

منقول تاريخ كا درجہ اعتبار
علمى نيز منقول تاريخ كى تشكيل چونكہ ان واقعات كى بنياد پر ہوتى ہے جو عہد ماضى ميں گزر چكے ہيں اس لئے محققين نے اس بات پر بھى بحث كى ہے كہ يہ واقعات كس حد تك معتبر يا غير معتبر ہوسكتے ہيں_
بعض محققين كى رائے يہ ہے كہ متقدمين كى كتابوں ميں منقول تاريخ سے متعلق جو كچھ درج كيا گيا ہے اسے بيان اور قلمبند كرنے والے وہ لوگ ہيں جنہوں نے واقعات كو ذاتى اغراض ، شخصى محركات ، قومى تعصبات يا اجتماعى و فكرى وابستگى كى بنياد پر نقل كيا ہے اور اس ميں تصرف اور تحريف كركے واقعات كو ايسى شكل دى ہے جيسى وہ خود چاہتے تھے يا صرف ان واقعات كوقلمبند كيا ہے جس سے ان كے اغراض و مقاصد پورے ہوتے تھے اور ان

12
كے عقائد كے ساتھ ميل كھاتے تھے_
منقول تاريخ كے بارے ميں يہ بدگمانى اگر چہ بے سبب و بلاوجہ نہيں اور اس كا سرچشمہ تاريخ كى كتابوں اور مورخين كے ذاتى مزاج اور اسلوب كو قرارديا جاسكتا ہے ليكن اس كے باوجود تاريخ بھى ديگر علوم كى طرح سلسلہ وار مسلمہ حقائق و واقعات پر مبنى ايك علم ہے جن كا تجزيہ و تحليل كيا جاسكتا ہے_
اس كے علاوہ ايك محقق، شواہد و قرائن كى بنياد پر اسى طرح اپنى اجتہادى قوت كے ذريعے بعض حادثات و واقعات كى صحت و سقم معلوم كركے انہى معلومات كى بنياد پر بعض نتائج اخذ كرسكتا ہے _ (6)

تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام كى اہميت اور قدر وقيمت
مسلم وغير مسلم محققين اور دانشوروں نے تاريخ بالخصوص تاريخ اسلام وسيرت النبى (ص) كے بارے ميں بہت زيادہ تحقيقات كى ہيں_ انہوں نے مختلف پہلوئوں كا جائزہ لے كر اس كى قدر وقيمت اور اہميت كو بيان كيا ہے_

الف: قرآن كى نظر ميں تاريخ كى اہميت
قرآن كى رو سے ' تاريخ بھى حصول علم و دانش اور انسانوں كے لئے غور وفكر كے ديگر ذرائع كى طرح ايك ذريعہ ہے قرآن نے جہاں انسانوں كو غور وفكر كرنے كى دعوت دى ہے وہاں اس نے غورو فكر كے منابع (يعنى ايسے موضوعات جن كے بارے ميں انسانوں كو غورو فكركركے ان سے ذريعہ شناخت و معرفت كے عنوان سے فائدہ اٹھائے) بھى ان كے

13
سامنے پيش كئے ہيں_
قرآن نے اكثر آيات ميں انسانوں كو يہ دعوت دى ہے كہ وہ گزشتہ اقوام كى زندگى كا مطالعہ كريں_ان كى زندگى كے سودمند نكات پيش كرنے كے بعد انہيں يہ دعوت دى ہے كہ وہ لائق اور باصلاحيت افراد كو اپنا ہادى و رہنما بنائيں اور ان كى زندگى كو اپنے لئے نمونہ سمجھيں _
حضرت ابراہيم عليہ السلام كے بارے ميں فرماتا ہے:
(قَد كَانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إبرَاہيمَ وَالَّذينَ مَعَہُ)(7)
''تم لوگوں كےلئے ابراہيم (ع) اور ان كے ساتھيوں ميں ايك اچھا نمونہ موجود ہے''_
اسى طرح رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں قرآن فرماتا ہے:
(لَقَد كَانَ لَكُم فى رَسُول الله أُسوَةٌ حَسَنَةٌ)(8)
''درحقيقت تم لوگوں كے لئے رسول اللہ (ص) كى ذات ايك بہترين نمونہ ہے''_
قرآن كى رو سے تاريخ بشر اور اس كا ارتقاء سلسلہ وار اصول وضوابط اور رسوم و رواج كى بنياد پر مبنى ہے _ عزت و ذلت فتح و شكست اور بدبختى و خوش بختى سب كے سب دقيق و منظم حساب و كتاب كے تحت حاصل ہوتى ہيں ان اصول و ضوابط اورروسوم و رواج كو سمجھنے كے بعد تاريخ پر تسلط حاصل كركے اس كے ذريعے اپنى ذات اور معاشرے كو فائدہ پہنچايا جاسكتا ہے_ مثال كے طور پر درج ذيل آيت ميں خداوند تعالى فرماتا ہے:
(قَد خَلَت من قَبلكُم سُنَنٌ فَسيرُوا فى الأَرض فَانظُروا كَيفَ كَانَ عَاقبَةُ المُكَذّبينَ)(10)

14
''تم سے پہلے بھى رسوم و رواج اورطور طريقے موجود تھے پس زمين ميں چلو پھرو اور ديكھو كہ (خدا اور انبياء (ع) كو) جھٹلانے والوں كا كيا انجام ہوا ؟''

ب: نہج البلاغہ كى روسے تاريخ كى اہميت
قرآن كے علاوہ آئمہ طاہرين عليہم السلام نے بھى اپنے اقوال ميں شناخت و معرفت كے اس عظيم اور وسيع سرچشمے كى قدر و قيمت كى جانب اشارہ فرمايا ہے چنانچہ اس بارے ميں حضرت على عليہ السلام نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں :
(يَابُنَيَّ انّي وَان لَم اَكُن عَمَرتُ عُمرَ مَن كَانَ قَبلي فَقَد نَظَرتُ في اَعمَالہم وَ فَكَّرتُ فى اَخبَارہم وَ سرتُ في آثَارہم حَتّى عُدتُ كَاَحَدہم بَل كَاَنّي بمَا انتَہى الَيَّ مَن اُمُورہم قَد عَمَرتُ مَعَ اَوَّلہم الى آخَرہم فَعَرَفتُ صَفْوَ ذَالكَ من كَدرہ وَ نَفعَہُ من ضَرَرہ)_(1)
''يعنى اے ميرے بيٹے ميرى عمر اگر چہ اتنى لمبى نہيں جتنى گزشتہ دور كے لوگوں كى رہى ہے (يعنى آپ(ع) يہ فرمانا چاہتے ہيں كہ گرچہ ميں نے گذشتہ لوگوں كے ساتھ زندگى نہيں گزاري)ليكن ميں نے ان كے كاموں كو ديكھا ،ان كے واقعات پر غور كيا اور ان كے آثار اور باقيات ميں سير و جستجو كى يہاں تك كہ ميں بھى ان ميں سے ايك ہوگيا بلكہ ان كے جو اعمال و افعال مجھ تك پہنچے ان سے مجھے يوں لگتا ہے كہ گويا ميں نے ان كے ساتھ اول تا آخر زندگى بسر كى ہے پس ان كے كردار كى پاكيزگى و خوبى كو برائي اور تيرگى سے اور نفع كو نقصان سے عليحدہ كر كے پہچانا ''_

15
اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام كا يہ بيان اس امر كى وضاحت كرتا ہے كہ آئمہ عليہم السلام كس حد تك عہد گزشتہ كى تاريخ كو اہميت ديتے تھے _

ج: غير مسلم دانشوروں كى نظر ميں تاريخ اسلام كى اہميت
عيسائي دانشور اور اديب جرجى زيدان رقم طراز ہے كہ :
اس ميں شك نہيں كہ تاريخ اسلام كا شمار دنيا كى اہم ترين تاريخوںميں ہوتا ہے_كيونكہ مذكورہ تاريخ قرون وسطى (2)ميںپورى دنيا كى تاريخ تمدن پر محيط ہے _(12)
يايوں كہنا بہتر ہوگا كہ تاريخ اسلام زنجيركى وہ كڑى ہے جس نے دنيائے قديم كى تاريخ كو جديد تاريخ سے متصل كيا ہے يہ تاريخ اسلام ہى ہے جس سے جديد تمدن كا آغاز اور قديم تمدن كا اختتام ہوتا ہے_

ديگر تواريخ پر تاريخ اسلام كى برتري
تاريخ اسلام كو دوسرى تمام اقوام كى تاريخوں پر بہت زيادہ فوقيت اور برترى حاصل ہے _ ہم اس كے بعض پہلوئوں كى طرف يہاں اشارہ كرتے ہيں _
1_ سيرت: پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم و ائمہ معصومين عليہم السلام كى سيرت ،كرداراور طرز زندگى سنت كى حيثيت ركھتى ہے اور ان كے اقوال كى طرح اسے بھى امت مسلمہ كے لئے حجت اور سند كا درجہ حاصل ہے_
سيرت نبوي(ص) ہميں يہ درس ديتى ہے كہ ہمارے اخلاق و كردار كونبى (ص) كى سيرت اور راہ وروش كے مطابق ہونا چاہئے جبكہ ديگر تاريخ ميں ايسا بالكل نہيں ہے_ مثال كے طور جرمنى

16
كے فرمانروا ہٹلر اور دوسرى عالمى جنگ كے دوران اس كا كردار ہمارے لئے حجت و سند نہيںبن سكتے ان كافائدہ صرف علمى سطح پر ہى ہوسكتا ہے يا زيادہ سے زيادہ يہ ہوسكتا ہے كہ ہم اس كى زندگى سے عبرت حاصل كرےں_
2_دقت: تاريخ كے جتنے بھى منابع وماخذ موجود ہيں ان ميں معلومات كے لحاظ سے تاريخ اسلام سب سے زيادہ مالامال ہے چنانچہ جب كوئي محقق تاريخ اسلام لكھنا چا ہے تو اسے دقيق تاريخى واقعات وافر مقدار ميں مل جائيں گے_ اس كے علاوہ تاريخ اسلام ميں جس قدر مستند ، باريك اور روشن نكات موجود ہيں وہ ديگرتاريخوںميں نظر نہيں آتے_
اسكى وجہ يہ ہے كہ مسلمان رسول خدا (ص) كى سنت اور سيرت كو حجت تسليم كرتے ہيں اور وہ اسے محفوظ كرنے كى كوشش ميں لگے رہتے تھے_

تاريخ اسلام كے بارے ميں استاد مطہرى رقم طراز ہيں:
پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو ديگر اديان و مذاہب پر جو دوسرى فضيلت و فوقيت حاصل ہے وہ يہ ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى تاريخ بہت زيادہ واضح اور مستند ہے _ اس اعتبار سے دنيا كے ديگر راہنما ہمارى برابرى نہيں كرسكتے_ چنانچہ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زندگى كى ايسى يقينى اور مسلم دقيق باتيں اور ان كى جزئيات ہمارے پاس آج بھى اسى طرح موجود و محفوظ ہيں جو كسى اور كے بارے ميں نہيں ملتيں _ آپ (ص) كا سال ولادت ، ماہ ولادت ، ہفتہ ولادت يہاں تك كہ روز ولادت تك تاريخ كے سينے ميں درج ہے دوران شير خوارگي، وہ زمانہ جو آپ (ص) نے صحراميں بسر كيا ' آپ (ص) كے بچپن اور نوجوانى كا زمانہ، ملك عرب سے

17
باہر آپ(ص) كے سفر، وہ مشاغل جو آپ (ص) نے نبوت سے پہلے انجام ديئے آپ (ص) نے كس سال شادى كى اور اس وقت آپ (ص) كا سن مبارك كيا تھا آپ (ص) كى ازواج كے بطن سے كتنے بچوں كى ولادت ہوئي اور جو بچے آپ (ص) كى رحلت سے قبل اس دنيا سے كوچ كرگئے تھے اور وفات كے وقت ان كى كيا عمريں تھى ،نيز عہد رسالت تك پہنچنے تك كے اكثر واقعات ہميں بخوبى معلوم ہيں اور كتب تاريخ ميںمحفوظ ہيں _اوراس كے بعد تويہى واقعات دقيق تر ہوجاتے ہيں كيونكہ اعلان رسالت جيسا عظيم واقعہ رونما ہوتا ہے _ يہاں وہ پہلا شخص كون تھا جو مسلمان ہوا اس كے بعد دوسرا كون مشرف بااسلام ہوا ، تيسرا شخص جو ايمان لايا كون تھا؟ فلاں شخص كس عمر ميں اور كب ايمان لايا_ دوسرے لوگوں سے آپ(ص) كى كيا گفتگو ہوئي ، كس نے كيا كارنامے انجام ديئےحالات كيا تھے اور كيا راہ و روش اختيار كى سب كے سب دقيق طور پر روشن و عياں ہيں (9)
3_ سب سے زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى تاريخ زمانہ ''وحي'' كے دوران متحقق ہوئي _ تيئيس سالہ عہد نبوت كا ہر واقعہ وحى الہى كے نور سے منور ہوا اور اسى كے ذريعہ اس كا تجزيہ اور تحليل كيا گيا_ قرآن مجيد ميں عہد نبوت كے دوران پيش آنے والے بہت سارے مسائل وواقعات كا تذكرہ ہوا ہے جس واقعہ كو قرآن نے بيان كيا ہے اور خداوند عالم الغيب والشہادة نے اسكا تجزيہ و تحليل كيا ہے ،وہ تجزيہ تاريخى واقعات كے بارے ميں بلا شبہ مستند ترين و دقيق ترين نظريہ اور تجزيہ ہے_ اگر ہم واقعات كے بارے ميں غورو فكر كريں تو اس نظريئے اور تجزيئے كى روشنى ميں ہم ديگر تمام واقعات كى حقيقت تك پہنچ سكتے ہيں اور ان سے نتائج اخذ كركے دوسرے واقعات كا بھى اسلامى و قرآنى طرز تحليل معلوم كرسكتے ہيں_

18
عہد رسالت كى تاريخ خود ذات گرامى پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى طرح انسانيت كےلئے بہترين مثال اور نمونہ عمل ہے _ چنانچہ تاريخ انسانيت كےلئے بھى يہى تاريخ بہترين نمونہ و مثال ثابت ہوسكتى ہے اور تاريخى رسوم و رواج كے لئے ہم اسے سودمندترين اور مالامامل ترين ماخذ كے طور پر بروئے كار لاسكتے ہيں_

19

سوالات
1_ ''تاريخ'' كى لغوى اور اصطلاحى تعريف كيجئے؟
2_تاريخ كى مختلف اقسام بيان كيجئے؟
3_منقول تاريخ كى تعريف كيجئے اور خصوصيات بتائے؟
4_بعض لوگ منقول تاريخ سے بد ظن ہيں اس كا كيا سبب ہے، بيان كيجئے؟
5_قرآن مجيد كى رو سے تاريخ كى اہميت بيان كيجئے؟
6_تاريخ اسلام كو ديگر تواريخ پر كيا فوقيت حاصل ہے؟ اس كى كوئي ايك مثال مختصر طور
پر بيان كيجئے؟

20
حوالہ جات
1_ ملاحظہ ہو :القاموس المحيط لفط'' ارخ''_
2_ تاريخ سياسى معاصر ايران ، ج 1 ، ص 7_
4_علمى اورمنقول تاريخ ميں فرق يہ ہے كہ علمى تاريخ صرف كلى اور عقلى ہى نہيں ہوتى ہے بلكہ يہ تاريخ مرتب ہى منقول تاريخ كى بنياد پر ہوتى ہے ( يعنى علمى تاريخ ميں منقول تاريخ بھى شامل ہوتى ہے _ مترجم) جب مورخ اس نوعيت كى تاريخ لكھتا ہے تو وہ يہ بھى دريافت كرنا چاہتا ہے كہ تاريخى واقعات كى ماہيت اور طبيعت نيز ايك دوسرے كے ساتھ ان كا ربط اور تاريخ سازى ميں ان كا كيا كردار رہا ہے تاكہ اصول علت و معلول كے تحت وہ ايسے عام قواعد و ضوابط مرتب كرسكے جن كا اطلاق عہد ماضى و حال دونوں پر ہوسكے اس بناپر اس علم كا موضوع ہر چند عہد گزشتہ كے واقعات ہيں مگر اس سے مورخ ايسے مسائل اور قواعد و ضوابط استخراج كرتا ہے جن كا تعلق فقط عہد ماضى سے نہيں ہوتابلكہ ان كا اطلاق زمانہ حال و مستقبل پر بھى ہوسكتا ہے جامعہ وتاريخ نامى كتاب كے صفحہ 352 كا خلاصہ_
5_ملاحظہ ہو جامعہ وتاريخ ص 351_ 352 مطبوعہ دفتر انتشارات اسلامى _ اس مفہوم ميں علم تاريخ درحقيقت كسى معاشرے كے ايك مرحلہ سے دوسرے مرحلہ ميںارتقاء كا علم ہے كسى خاص مرحلے ميں ان كى بود و باش اور ان كے حالات كا علم نہيں_ دوسرے لفظوں ميں يہ صرف گذشتہ واقعات كا ہى نہيں بلكہ معاشروں ميں تبديليوں كا علم ہے_ اس بناپر فلسفہ تاريخ كے موضوعات كے '' تاريخي'' ہونے كا معيار صرف يہ نہيںكہ ان كا تعلق گذشتہ زمانے سے ہے بلكہ يہ ان سلسلہ وار واقعات كا علم ہے جن كا آغاز ماضى ميں ہوا اور ان كا سلسلہ ابھى تك بھى جارى و سارى ہے_
6_شہيد مطہرى كى كتاب جامعہ و تاريخ سے اقتباس_
7_سورہ ممتحنہ آيت 4

21
8_احزاب 21
9_سيرہ نبوى (ص) ص 5 و 6 طبع انتشارات اسلامى تہران (ايران)
10_ آل عمران آيت 137
11_ نہج البلاغہ مكتوب نمبر31 _ يہ خط حضرت على (ع) نے اپنے عزيزفرزند حضرت امام حسن عليہ السلام كےلئے مرقوم فرمايا تھا
12_قرون وسطى كا آغاز سنہ 476 ميں ہوااور اس كا اختتام 1453 ( 833 ہجري) عيسوى ميں سلطان محمد فاتح كے قسطنطنيہ كو فتح كرنے كے سال ہوا(ملاحظہ ہو تاريخ سياسى معاصر ايران ج 1/8)