تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

لشکر اسامہ
پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ ٨ھ میں جنگ موتہ میں اسلامی فوج کے ایک سپہ سالار جناب زید بن حارثہ بھی تھے اور اس میں مسلمانوں کورومیوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اوراس لشکر کے تینوں سردار سمیت بعض دوسرے اسلامی سپاہیوں نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا۔
٩ ھ میں بھی رسول خدا نے سر زمین تبوک تک اسلامی فوج کے ساتھ پیش قدمی کی تھی لیکن وہاں کوئی جنگ نہیںہوئی اور آپ کا یہ اقدام ایک قدرتمند فوجی مشق کی حد تک ہی رہ گیااسی لئے گزشتہ واقعات کی بنا پر شہنشاہ روم کی دشمنی اور اس کی فوجی قدرت و طاقت آپ کے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی اور آپ مسلسل رومیوں سے ٹکراؤ اور جنگ کے بارے میں متفکر رہتے تھے اسی بنا پر جب آپ حجة الوداع سے لوٹ کر مدینہ واپس آئے تو آپ نے زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ کی سپہ سالاری میں ایک لشکر منظم کیااور ایک فوج بنائی اوران کو یہ حکم دیا کہ سرزمین
''اُبنیٰ'' ٭جوان کے والدکی شہادت کی جگہ ہے وہاں تک پیش قدمی کریں اور رومیوں سے جنگ کریں۔
رسول خدا ۖ نے فوج کی سربراہی کا پرچم اسامہ(١) کے حوالے کیااوران کو فوجی اور نظامی احکامات کے متعلق نصیحتیںبھی کیں،انھوں نے مقام جُرف٭ کو اپنی فوج کے قیام کے لئے منتخب کیا تاکہ باقی فوج بھی وہاں آکر جمع ہو جائے۔(٢)
اس فوج میں انصار و مہاجرین کے کچھ شناختہ اور مشہور و معروف افراد جیسے ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ جراح، سعد بن ابی وقاص(٣)، عبد الرحمان بن عوف، طلحہ، زبیر، اسید بن حضیر، بشیر بن سعد(٤)(ابوالاعور) سعید بن زید(٥)،قتادہ بن نعمان اور سلمہ بن اسلم(٦)، بھی موجود تھے۔
______________________
٭ ابنیٰ، دنیا کے وزن پر ہے۔ سرزمین شام کا ایک علاقہ ہے جو عسقلان اور رملہ کے درمیان، موتہ سے نزدیک ہے۔ (حلبی، السیرة الحلبیہ(بیروت: دارالمعرفہ)، ج٣، ص٢٢٧)۔
(١) اسامہ کا سن اس وقت ١٧ ، ١٨ یا ١٩ سال لکھا ہے اور کسی تاریخ میں بھی ان کا سن ٢٠ سال سے زیادہ نہیں لکھا گیاہے۔
٭شام کی جانب مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے۔
(٢)ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٩٠؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف حافظ ابن عساکر (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص١٢١؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ والآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٣٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٧۔
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٢٢٧؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٣٨۔
(٤) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، دار الکتب العربیہ، ج٦، ص٥٢؛ سقیفۂ ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری کے نقل کے مطابق۔
(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف حافظ ابن عساکر، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص١٢١۔
(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ تقی الدین احمد بن علی مقریزی، امتاع الاسماع، تحقیق: محمد عبد الحمید النمیسی (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٢٠ھ۔ق)، ج٢، ص١٢٤؛ تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص١٢١۔
پیغمبر اکرم ۖ نے جب اسامہ کی فوج کو حرکت کرنے کا حکم دیا تھااس وقت تک آپ بالکل صحت مند اور تندرست تھے لیکن اگلے ہی دن آپ کو بخار عارض ہوا اور بالآخر یہی آپ کے مرض الموت میں تبدیل ہوگیا۔ بستر بیماری پر رسول خداۖ کو یہ اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اسامہ کی کم عمری کی بنا پر ان کی سپہ سالاری پر معترض ہیں اسی لئے ابھی اسامہ کی فوج مدینہ سے حرکت نہیں کرپائی ہے. رسول خدا ۖ اسی بیماری کی حالت میں اور رنج والم کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئے اور ایک خطبہ میں لوگوں کواسامہ کی فوج کے ساتھ تعاون اور ان کے ساتھ روانہ ہونے کی ترغیب دلائی اور فرمایا:
ایہا الناس! اے لوگو! یہ کیا باتیں ہیں جو میںنے اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں بعض لوگوں سے سنی ہیں؟ آج تم اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں گلہ مند ہو اور اس سے پہلے ان کے والد کی
سپہ سالاری کے بار ے میں بھی تمہیں گلہ تھا جب کہ خدا کی قسم زید، سپہ سالاری کے لائق تھے اور ان کا بیٹا بھی ان کے بعد ا س منصب کے لائق اور اس کا سزاوار ہے ۔الخ۔(٣)
رسول خدا ۖ کی زندگی کے آخری ایام میں آپ کی صحت بہت ہی زیادہ ڈھل گئی اور آپ پر مسلسل غش طاری ہو رہا تھا جب ایک بار آپ کو بے ہوشی سے افاقہ ہوا توآپ نے لشکر اسامہ کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے کہا کہ روانگی کے لئے تیار ہو رہاہے۔ حضرت ۖ نے فرمایا کہ: ''اسامہ کی فوج کو
______________________
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، مقریزی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٢٤؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ؛ شیخ عبدالقادر بدران، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٨۔ بخاری اور مسلم میں رسول خداۖ کا فرمان اس طرح سے نقل ہوا ہے:
''ان تطعنوا فی امارتہ فقد کنتم تطعنون فی امارة ابیہ من قبل و ایم اللّٰہ ان کان لخلیقا للامارة وان کان لمن احب الناس الی و ان ہذا لمن احب الناس الی بعد''۔ (صحیح بخاری، تحقیق: شیخ قاسم الشماعی الرفاعی، (بیروت: دار القلم، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج٦، ص٣٢٦؛ المغازی، باب ٢٠٣، حدیث٩؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، (قم: دار الفکر، ١٤٠١ھ۔ق)، ج١٥، فضائل الصحابة، ص١٩٥۔)
روانہ کرو خدا ان لوگوں پر لعنت کرے''(١) جو اسامہ کے لشکر کے ساتھ نہ جائیں، پیغمبر ۖ کی ان تمام تاکیدوں کے بعدچودہ روز تک جن میں آپ مریض رہے(٢) مختلف لوگوں کے متعددبہانوں کی وجہ سے اسامہ کی فوج کی روانگی اسی طرح تعطل کا شکار رہی اور اس فوج نے حرکت نہیں کی یہاں تک کہ پیغمبر ۖ کی رحلت ہوگئی، جیسا کہ ہم نے غدیر خم کے واقعہ کے ذیل میں وضاحت کی تھی کہ یہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض مسلمان پیغمبر ۖ کے صریحی احکام اور فرامین سے سرپیچی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

پیغمبر ۖ کا اعلیٰ مقصد
اسامہ کی فوج کو روانہ کرنے کے لئے پیغمبر ۖ کی مسلسل کوششوں اور محنتوں کے اندر بعض اہم نکات اور موضوعات پائے جاتے ہیں جن کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
١۔ اتنی عظیم اسلامی فوج کو روانہ کرتے وقت اس کی سپہ سالاری ایک ایسے سردار کے حوالے کرناجس کی عمر بیس سال سے کم تھی جبکہ یہ فوج اس وقت کے قوی ترین دشمن اور اسلامی دارالحکومت سے بہت دور اور حساس علاقہ میں جنگ کے لئے بھیجی جارہی تھی۔
٢۔ اس فوج میںاسامہ کی سپہ سالاری کے تحت ایسے تجربہ کار اور ماہرین جنگ سپہ سالار اور کمانڈر بھی رکھے گئے تھے نیز اس میں ایسے قبیلوں کے سردار اور پیغمبر ۖ کے مشہور اصحاب بھی موجود تھے جواپنے
______________________
(١) ''جہزوا جیش اسامة، لعن اللّٰہ من تخلف عنہ۔ (محمد بن عبد الکریم شہرستانی (قم: منشورات الشریف الرضی)، ص٢٩؛ اگرچہ شہرستانی نے اس گروہ کے بارے میں رسول خدا کی لعنت کو حدیث مرسل کہا، لیکن ابی الحدید، ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری نے ''سقیفہ'' کتاب میںا س لعنت کو حدیث مسند کے طور پر عبداللہ بن عبد الرحمان سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے کئی مرتبہ فرمایا: انفذ وابعث اسامہ، لعن اللّٰہ من تخلف عنہ (شرح نہج البلاغہ، ج٦، ص ٥٢)۔
(٢) ابو واضح، تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبة الحیدریہ، ٢٣٨٤ھ۔ق)، ج٢، ص١٧٨۔
کو مقام و منزلت اور ایک خاص عظمت کا حامل سمجھتے تھے اور وہ لوگ اس نوجوان سپہ سالار کا یہ منصب خود حاصل کرنے کے لئے تیار ی کر رہے تھے۔
٣۔ پیغمبر اسلاۖم اگر چہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ اب یہ آپ کی عمر مبارک کے آخری ایام ہیں (اور خطبۂ غدیر میں آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی فرما دیا تھا) اور اسی کے ساتھ تاریک فتنہ اور خطرناک حوادث کے بادل امت اسلامیہ کے سر پر منڈلارہے ہیں آپ نے اسلامی فوج کوایک دور ترین خطے کی طرف روانہ فرمایا اور انصار و مہاجرین کے سرکردہ افراد کوان کے ساتھ کردیا آپ کی اس تدبیر اور دور اندیشی اور الٰہی سیاست کو نظر میں رکھنے کے بعد اس میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی کہ آپ نے اتنے عظیم اقدام کو یقینا کسی اہم مقصد کے لئے انجام دیا تھا کہ ان تمام مشکلات اور خطرات کو سہہ لینااس کے مقابلہ میں بہت آسان تھا۔
ان تما م نکات کی تحقیق اور ان پر توجہ کرنے کے بعد بہ آسانی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ رومیوں سے فوجی ٹکراؤ کے علاوہ آپ کی نظر میں دو اہم مقصد اور بھی تھے۔
(الف) پیغمبر ۖ نے اسامہ کو اسلامی لشکر کا سپہ سالار اس لئے بنایا تھا تاکہ مسلمانوں کو عملاً اس حقیقت کی طرف متوجہ کردیں کہ کسی عہدے اور مقام تک پہنچنے کے لئے صلاحیت اور لیاقت معیار ہوتی ہے اور کسی کی کم عمری اور جوانی سے اس کی لیاقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جس طرح کسی انسان کے سن کی زیادتی سے اس کے اندر لیاقت پیدا نہیں ہوجاتی اسی لئے پیغمبر اسلاۖم نے اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب دیا تھا کہ : ''زید بھی سپہ سالاری کے لائق تھے اور اب ان کا بیٹا ان کے بعد اس منصب کے لائق ہے''
پیغمبر اسلاۖم نے اپنے اس واضح اور دو ٹوک بیان سے اسامہ کی لیاقت اور شائستگی کو واضح کردیا اور جو لوگ عمرکی زیادتی یا قبیلہ وغیرہ کوایسے عہدے اور مقام میں دخیل سمجھتے ہیںان کے باطل افکار کی وضاحت فرمادی ۔ کیا اس کے علاوہ اس کی اور کوئی وجہ ہوسکتی ہے کہ آ پ نے اسامہ کی سپہ سالاری کے
بارے میں جو اتنی تاکید کی تھی اس کے ذریعہ آپ عملاً حضرت علی کی خلافت کے لئے راہ ہموار کر رہے تھے اور جو لوگ حضرت علی کی جوانی کو بہانہ بنا کر خلافت سے متعلق آپ کی لیاقت اور صلاحیت کے بارے میں انگلی اٹھانا چاہتے تھے آپ ان کا جواب دے رہے تھے۔
(ب) پیغمبر ۖ کا ارادہ یہ تھاکہ آپ کی وفات کے وقت حضرت علی کے وہ سیاسی رقباء جن کے دل میں خلافت کی لالچ تھی مدینہ سے دور رہیں (اسی لئے مہاجرین و انصار کے چنندہ افراد کو آپ نے اسامہ کی فوج میں شامل کیا تھا تاکہ ان لوگوں کے جانے کے بعد ان کے عدم موجودگی میں حضرت علی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں او رمخالفین کے لئے کوئی صورت باقی نہ رہے اور جب وہ لوگ میدان جنگ سے واپس پلٹیں تو حضرت علی کی حکومت مستحکم ہوچکی ہو۔(١)
اسی سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پیغمبر کی اتنی تاکید اور اصرار کے باوجود بھی کچھ لوگ اسامہ کے ساتھ جانے سے کیوں جان چرا رہے تھے؟ اور آج یاکل پر ٹال مٹول کے ذریعہ، انھوں نے لشکر اسامہ کو روانہ ہونے سے کیوں روک دیا؟ یہاں تک کہ رسول اللّٰہ ۖ کی وفات ہوگئی۔
______________________
(١) ابن ابی الحدید، (٦٥٦ھ) نے اس تحلیل پر جو ناقابل قبول تنقید کی ہے (شرح نہج البلاغہ، ج١، ص١٦) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیعوں کی یہ تحلیل قدیم زمانہ سے مورخین کے درمیان پائی جاتی تھی۔

وہ وصیت نامہ جو لکھا نہ جاسکا!
پنجشنبہ کے دن (رحلت سے چار دن پہلے) جب پیغمبر ۖ بستر علالت پر تھے آپ نے فرمایا: ''قلم اورکاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے کچھ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد گمراہ نہ ہو'' حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا آپ کے اوپر درد اور مرض کا غلبہ ہے اور آپ ہذیان بک رہے ہیں قرآن ہمارے پاس ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اسی دوران حاضرین کے درمیان اختلاف ہوگیا بعض لوگوں نے اُس کی بات کی تائید کی اور کچھ لوگ پیغمبر ۖ کے فرمان کی تائید کر رہے تھے اسی میں شور و ہنگامہ بڑھتا گیا
اسی دوران پیغمبر ۖ سے کہا : آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے آپ نے فرمایا: ''یہ سب کچھ ہونے کے بعد؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو (جو مجھے درد و غم اور تکلیف ہے) مجھے اسی حالت پر رہنے دو اور تم لوگ میرے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہو (میری طرف ہذیان کی جو نسبت دے رہے ہو) میری یہ حالت اس سے کہیں بہتر ہے، یہاں سے باہر نکل جاؤ''۔
جو کچھ آپ نے پڑھا یہ اس قصے کا خلاصہ ہے جو اہل سیرت او رمحدثین نے پیغمبر ۖ کی عمر کے آخری ایام کے واقعات کے ذیل میں نقل کیا ہے۔(١)
اگر چہ یہ واقعہ بعض کتابوں میںتحریف کر کے یاتوڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کچھ لوگوں نے پیغمبر اسلامۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا نام ہی غائب کردیا، یا صرف اس کی بات کے مضمون کو نقل کیا ہے اور بعض اوقات اس کی طرف سے عذر تراشی کی کوشش کی گئی ہے لیکن تما م شواہد و قرائن اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کا یہ اقدام در اصل اپنی جانشینی کے لئے حضرت علی کی شناخت کرانا اور مسلمانوں کو رہبری اور قائد کے بغیر نہ چھوڑ دینے کے سلسلے کی ایک کڑی تھی اور اگر بعض حاضرین نے کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو وصیت نامہ لکھنے نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ آپ کیا تحریر کرنا چاہتے ہیں۔
جیساکہ عبد اللہ بن عباس اس نکتہ پر توجہ او رمذکورہ واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد افسوس بھرے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ (پنجشنبہ کا دن کتنا دردناک تھا کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا: ''میرے لئے کاغذ اور دوات لے آؤ تاکہ تمہارے لئے کچھ لکھ دوں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو لیکن انھوں نے
______________________
(١) نمونہ کے طور پرملاحظہ کریں: صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم السماعی الرفاعی؛ (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧)، ج١، کتاب العلم، باب کتابة العلم (باب ٨٢،)، ج١٢، ص١٢٠ و ج٦؛ المغازی، باب ١٩٩، ص ٣١٨۔ ٣١٧؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١١، باب ترک الوصیة لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ، ص٨٩؛طبقات الکبری، (بیروت: دار الصادر)، ج٢، ص٢٤٢، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ابوبکر جوہری کے نقل کے مطابق۔
نہیں سنا.....''(١) کیونکہ یہ واقعہ بہت مشہور بلکہ تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے اور گزشتہ اورموجودہ تمام لوگوںنے ا س کو نقل کیا ہے اور کافی حد تک اس کے بارے میں بحث کی ہے لہٰذا اسی مقدار پر ہم اکتفا کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں مزید تحقیق و جستجو اور اس سے متعلق عذر تراشیوں پر تنقید یا بعض ابہامات کا جواب دینے یا اس بارے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کو ذکر کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے لئے اس کی متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔(٢)

پیغمبر اسلاۖم کی رحلت
پیغمبر اسلاۖم ٢٣ سال تک الٰہی پیغام کو پہنچا کر اور اس راہ میں مسلسل دعوت و جہاد اور اپنی رسالت کی انجام دہی کے راستے میں مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آخرکار روز دوشنبہ ٢٨ صفر ١١ھ (٣) کے دن ١٤
______________________
(١)''لما اشتد النبیۖ وجعہ قال ائتونی بکتاب اکتب لکم کتاباً لاتضلوا بعدہ قال عمر ان النبیۖ غلبہ الوجع و عندنا کتاب اللّٰہ حسبنافاختلفوا و کبر اللغط قال قوموا عنی ولاینبغی عندی التنازع فخرج ابن عباس یقول ان الرزیة کال الرزیة ماحال بین رسول اللّٰہۖ و بین کتابہ۔ (صحیح بخاری، ج١، ص١٢٠؛ رجوع کریں:الطبقات الکبری، ج٢، ص٢٤٤۔)
(٢) مثال کے طور پر ذکر شدہ کتب کی طرف رجوع کریں: الطرائف، ابن طاووس، علی بن موسی، (قم: مطبعة الخیام)، ج٢، ص٤٣٥۔ ٤٣١؛ النص والاجتہاد، شرف الدین، سید عبد الحسین موسوی (بیروت: دار النعمان، ط٣، ١٣٨٤ھ۔ق)، ص١٧٧۔ ١٦٢؛ جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ط٥، ١٣٦٨)، ج٢، ص٥٠٠۔ ٤٩٣؛ مصطفوی، حسن الحقائق فی تاریخ الاسلام والفتن والاحداث، ص ١٣٥۔ ١٢٩؛ یوسف غلامی، پس از غروب (قم: دفتر نشر معارف، ج١، ١٣٨٠)، ص٥٣۔ ٣٨۔ محمد حسین ھیکل، حیات محمد (قاہرہ: مکتبة النہضہ المصریہ، ط٨، ١٩٦٣)، ص٥٠١؛ شرح امام نووی بر صحیح مسلم (طبع شدہ با اصل صحیح مسلم) ج١١، ص٩٣۔ ٨٩۔
(٣) محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٥ھ۔ق)، ج٢٢، ص٥١٤، تاریخ وفات رسول اکرمۖ کے بارے میں دوسرے اقوال بھی نقل ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: گزشتہ حوالہ، ص ٥٢١۔ ٥١٤؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج٣، ص٢٧٤۔ ٢٧٢؛ السیرة الحلیة، ج٣، ص٤٧٣۔
روز بیمار(١) رہنے کے بعد عالم بقا کی طرف رحلت فرما گئے اور مسجد کے برابر میں آپ کا جو حجرہ تھا اسی میں آپ کودفن کیا گیا بعد میں جب بعض خلفاء کے دور میں اس مسجد کی توسیع کی گئی تو آپ کا مرقد مطہرمسجد ( مشرقی سمت )میں شامل ہوگیا۔
اگر چہ ہجرت کے کچھ دنوں بعد مسلمانوں کی مالی حالت اور خود پیغمبر ۖ کی مالی حالت بھی بہتر ہوگئی تھی اور آپ کے مخصوص اموال (اموال خالصہ) اور دوسری آمدنی کے ذرائع بھی آپ کے پاس موجود تھے اور آپ کی ظاہری قدرت و طاقت اور روحانی نفوذ میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا لیکن آپ کی ذاتی زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی تھی اور آپ مسجد کے برابر میں اپنے حجرے میں اسی طرح سادگی کے ساتھ رہتے تھے نہ آپ نے کوئی مال جمع کیاتھا ،نہ لوگوں کی طرح آپ کے پاس کوئی بڑا گھر تھا آپ کا وہ بستر جس پر آپ آرام فرماتے تھے وہ بھی ایک چمڑے کا بستر تھا جس کے اندر کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں،(٢) چٹائی کے اوپر نماز پڑھتے تھے اور اکثر اوقات اسی چٹائی اور بوریئے کے اوپر آرام کرتے تھے جس کے نشان آپ کے چہرے یا بدن پر نمایاں ہو جاتے تھے۔(٣)آپ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یہ حکم فرمایا کہ بیت المال کے وہ چند دینار جو آپ کی ایک زوجہ کے پاس بچے ہوئے تھے ان کو غرباء میں تقسیم کردیا جائے۔(٤) آپ نے اسی طرح سادگی سے زندگی گزاری اور بالآخر اپنے سادے حجرے میں دنیا سے تشریف لے گئے لیکن اس کے باوجود آپ نے ایک عظیم دین ایک آسمانی کتاب اور ایک موحد اور خدا پرست امت کو اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا او ردنیا کی تاریخ میں ایک نئے تمدن اور ثقافت کی بنیاد رکھی۔
______________________
(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ۔ق)، ج٢، ص١٧٨۔
(٢)حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٤٥٤۔
(٣)گزشتہ حوالہ۔
(٤)ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص٢٣٩۔ ٢٣٧۔

رحلت پیغمبر ۖکے وقت اسلامی سماج، ایک نظر میں
پیغمبر اسلاۖم نے مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں قیام کر کے وہاں کے آزاد اور معاون ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی سنگ بنیاد رکھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے راستوں سے رکاوٹوں کو ہٹاتے چلے گئے اسلامی امت کو ایک دینی اور سیاسی شناخت عطا کی اور الٰہی پیغام کو مکمل طور سے لوگوں تک پہنچا دیااور جس وقت آپ نے رحلت فرمائی آپ اپنی رسالت کو پایۂ تکمیل تک پہنچا چکے تھے اور درخشندہ اور روشن کامیابیاں آپ کے قدم چوم رہی تھیں لیکن اس کے باوجود اس وقت کے معاشرے میں کچھ مخصوص حالات اور افکار پھیلے ہوئے تھے جن میں سے اہم چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
١۔ جیساکہ اشارہ کیا جاچکا ہے کہ پیغمبر اسلاۖم نے اسلامی تعلیم کے سایہ میں عرب کے مختلف اور پراگندہ قبیلوں کو (جن کا کام ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا تھا) ایمان اور عقیدے کے مشترک رشتے کی بنا پر ایک دوسرے سے جوڑ دیا اور ان کے درمیان میں دینی بھائی چارا (عقد مواخات) قائم کردیا۔ ماضی کی پراکندہ قوم اور افراد کو امت واحدہ میں تبدیل کردیا اور آپ نے انھیں لوگوں کی مدد سے الٰہی حکومت تشکیل دی جس کی رہبری کے فرائض آپ خود انجام دے رہے تھے۔ آپ کا دار الحکومت اور مرکز شہر مدینہ تھا، اس حکومت میں وہ مسائل اور سماجی باتیں جن کے بارے میں خدا کی طرف سے نص موجود نہیں تھی مسلمانوں کی رائے اور مشوروں سے حل ہوتے تھے، ان کے پاس مکمل طور سے آزادیٔ رائے پائی جاتی تھی عربوںنے اسلام کے سایہ میں پہلی بار اس قسم کی وحدت، قدرت اور معنویت کو قریب سے دیکھا تھا لیکن اس کامیابی کو اسی طرح باقی رکھنے کے لئے ایسے ہی مقتدر، شائستہ اور لائق رہبراور قائد کی ضرورت تھی جو پیغمبر اسلاۖم کے بعد نظام امت و امامت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود پیغمبر ۖ کی طرح اسلامی معاشرے کو معنوی اور سیاسی دونوں لحاظ سے آگے بڑھا سکے۔
٢۔ پیغمبر ۖ کی رحلت کے وقت پورے جزیرہ نمائے عرب سے تقریباً بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا تھا اگرچہ جزیرة العرب کے باہر کوئی فتح نہیں ہوئی تھی لیکن پیغمبر ۖ کی عالمی دعوت اور تبلیغ کی بنا پر اسلام کا پیغام دنیا کے شہنشاہان مملکت کے کانوںتک پہونچ چکا تھا لیکن خود جزیرہ نمائے عرب میں وہ بہت سے لوگ جو پیغمبر ۖ کی زندگی کے آخری ایام میں مسلمان ہوئے تھے (خاص طور سے فتح مکہ اور جنگ تبوک کے بعد) وہ صرف اور صرف ظاہری طور اسلام لائے تھے کیونکہ انھوں نے اسلامی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے اسلام قبول کیا تھا ان میں سے اکثر لوگوں کے دلوں تک اسلام اور ایمان نہیں اترا تھا اور پیغمبر اسلاۖم کو اتنی فرصت نہیں مل پائی کہ آپ دینی مبلغین کو بھیج کر ان کی ثقافتی اور مذہبی بنیادوں کودرست کرسکیں اس میں سے بہت سے لوگوں نے پیغمبر اکرم ۖ کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے سردار اور نمائندے ہی پیغمبرۖ سے ملاقات کرتے تھے اسی لئے دوبارہ اسلام کی قدرت کے ضعیف ہونے اور کفر و بت پرستی اور ارتداد کی واپسی کا بہت احتمال تھا اس وجہ سے بھی اسلامی رہبری کا جاری رہنا ضرور ی تھا تاکہ پیغمبر ۖ کا یہ ثقافتی مشن جاری رہے اور اسلام کی تعلیمات کی وضاحت اور تبیین اور تبلیغی اور ثقافتی نیز روحانی رشد و ہدایت کا سلسلہ منزل تکمیل تک پہونچ جائے۔
٣۔ ٩ھ میں منافقین کے سرکردہ لیڈر عبد اللہ بن ابی کی موت کے بعد اگر چہ اس خائن گروپ کی قدیم شکل و صورت ختم ہوگئی تھی اور وہ استحکام باقی نہیں رہ گیا تھا لیکن پھر بھی اس ٹولہ کے افراد مدینہ اور اس کے اطراف میں موجود تھے یہ لوگ ہر لمحہ ایسی فرصت کی تلاش میں رہتے تھے جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر کوئی کاری ضرب لگا سکیں۔ منافقین (جو اسلام کے اندرونی دشمن تھے) کے علاوہ دو بیرونی خطرے بھی اسلام کے سامنے تھے ایک شہنشاہ روم دوسرے شہنشائے ایران جیسا کہ اس وقت کے قرائن و شواہد سے ان کی اسلام دشمنی اور اسلام کے بارے میں ان کے منفی نظریات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ خطرناک مثلث یقینا پیغمبر ۖ کو متفکر کرنے کے لئے کافی تھا اورآنحضرتۖ کے لئے اس کو ناکارہ بنانے کے واسطے چارہ جوئی کرنا ضروری تھی۔ یہ مسئلہ بھی ایسے حساس لمحات اور حالات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جس کے لئے مسلمانوں کی وحدت اور ایک پرچم تلے کسی طاقت ور رہبر اور قائد کی رہبری کی ضرورت ہے۔
٤۔ جیسا کہ گزر چکا ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں رہنے والے لوگوں کی زندگی قبیلہ جاتی نظام پر استوار تھی اور قبیلہ جاتی نظام، رشتہ داری اور نسل پرستی کی بنیادوں پر استوار تھا ایسے نظام کے سماجی اسباب، جیسے قبیلہ جاتی تعصب فخر و مباہات ایک دوسرے سے انتقام لینا، قبیلہ جاتی جنگ ، یہ سب ان کے لئے درد سر بنے ہوئے تھے۔ پیغمبر ۖ نے بے پناہ زحمت و مشقت برداشت کر کے اسلام کی وحدت بخش تعلیم اور کلمۂ توحید کے سہارے اس نظام کو درہم برہم کردیا اور مشترک ایمان کو مشترک خون اور مشترک نسل کا جائے گزین بنادیا اور قبیلہ جاتی نظام کے جو خطرناک اور برے اثرات تھے ان کو کافی حد تک ختم کردیا یہ سب اسلام، قرآن اور رسالت پیغمبر ۖ کے بہترین نتائج ہیں۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام جاہلیت کی جڑیں (اس کی پرانی جڑوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوںمیںابھی تک باقی تھیں اور جب کبھی کسی حادثہ کی ہوائیں اس دبی ہوئی آگ کے اوپر سے راکھ کو اڑا لیجاتی تھیں تو ان کی قبیلہ پرستی کی فکریں سامنے آجاتی تھیں اور پیغمبر اسلاۖم نہایت زیرکی اور ہوشیاری سے اس کا سد باب کردیتے تھے اور اس کو کسی بحران اور حادثہ میں تبدیل نہیں ہونے دیتے تھے یہ بات اس زمانہ کے حساس حالات کی عکاس ہے کہ مسلمانوں کی وحدت جو بہت قیمتی سرمایہ لگا کر حاصل ہوئی تھی اس کو کس قدر خطرہ تھا انھیں قبیلہ جاتی رسم و رواج اور ذہنیتوں کی بہترین دلیل خود سقیفہ کا واقعہ بھی ہے جو پیغمبر ۖ کی رحلت کے فوراً بعد سامنے آیا تھا یہ قلبی دھڑکن اور فکر اس زمانہ کے مسلمانوں کے سرکردہ افراد کے وظیفہ کواور بھی سنگین کردے رہی تھی۔ اور ان کے سامنے ایک سخت امتحان تھا اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ کون لوگ وحدت اور اتحاد کی حفاظت کے لئے ایثار و قربانی کے لئے حاضر ہیں اور کون لوگ پر انے نظام جاہلیت پر اب بھی مصر ہیں۔
٥۔ پیغمبر اسلاۖم مدینہ ہجرت کر نے کے بعد مسلمانوں کے دینی اور سیاسی قائد و رہبر تھے اور آپ یہ دونوں وظیفے ایک ساتھ انجام دیتے تھے۔ جس طرح مسلمان آپ کی خدمت میں بیٹھ کر آپ کی تقریریں، خطبات اور آپ کے ہونٹوں سے نکلنے والے کلمات وحی کو سنتے رہتے تھے اسی طرح آپ کی امامت میں نماز جماعت پڑھتے تھے اور روحانی اعتبار سے آپ کی ذات اور شخصیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ آپ کے وضو کے پانی کے قطروں کو تبرک سمجھتے تھے اور یہی لوگ آپ کے حکم سے میدان جنگ میںایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے، دشمنوں کو قتل کرتے تھے، اور خود بھی شہید ہو جاتے تھے، آپ کی طرف سے شہروں کی حکمرانی اور گورنری کے لئے منصوب ہوتے تھے، آپ کی نمائندگی اور سفارت کے طور پر مخالفین سے مذاکرات کرتے تھے۔
لہٰذا آپ کی رحلت کے بعد صرف یہ کافی نہیں تھا کہ آپ کا جانشین صرف اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری کرے بلکہ اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ آپ کی جگہ پر کوئی ایسا شخص بیٹھے جو سیاسی رہبری کے علاوہ لوگوں کی دینی ضروریات او ر ان کے دینی مسائل سے بھی بخوبی عہدہ برآ ہوسکے یعنی دینی اور ا سلامی علوم اور معارف کے بارے میں اتنا وسیع علم اور آگہی رکھتا ہو کہ اس جگہ پر بھی وہ پیغمبر ۖ کی خالی جگہ کو پُر کرسکے۔