|
شواہد اور قرائن
خطبہ کے اندر اور اس سے الگ ایسے متعدد شواہد و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معنی ٔ مذکور کی تائید ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ حضرت علی کی دوستی اور محبت کے اعلان سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
الف: ایک لاکھ حاجیوں کواس چلچلاتی دھوپ میں، صرف حضرت علی کی دوستی اور محبت کے اعلان کے لئے رکنے کا حکم دینا کوئی معقول بات نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی برادری اور بھائی چارگی اور آپسی محبت کوئی ایسے ڈھکی چھپی بات نہیں تھی جو مسلمانوں سے پوشیدہ ہو اور اس کے لئے پیغمبر ۖ کواعلان کی ضرورت پیش آئے خاص طور سے حضرت علی کی شخصیت سے دوستی اور محبت، کس سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔
ب: خطبے کا مقدمہ جو پیغمبر کی رحلت کے قریب ہونے کے بارے میں ایک طرح کی پیشین گوئی ہے آنحضرۖت کی جانشینی سے ارتباط اور مناسبت رکھتا ہے نہ کہ حضرت علی کی دوستی سے۔
ج: پیغمبر اسلاۖم نے پہلے اپنے بارے میں ''اولیٰ بالنفس'' کی تعبیر استعمال کی اس کے بعد حضرت علی کو دوسروں سے اولیٰ ہونے کے طور پر پہچنوایا یہ مقارنت واضح اور روشن دلیل ہے کہ آنحضرتۖ، حضرت علی کے لئے اسی مقام ولایت امر مسلمین کو ثابت کر رہے تھے جس منصب پر آپ خود فائز تھے٭۔
______________________
٭ احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد١، ص١١٩، پر اور ابن اثیر نے اسد الغابہ ، ج٤، ص٢٨۔ پر ایک روایت نقل کی
ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا: ''الست اولی من المومنین من انفسہم و ازواجی وأمّہاتہم'' کیامیں مومنین پر ان کی جانوں کی بہ نسبت اولی بالتصرف اورمقدم نہیںہوںاور کیا میری بیویاںان کی مائیںنہیںہیں۔ یہ بالکل واضح اور طے شدہ بات ہے کہ آنحضرتۖ کی بیویوں کا مسلمانوں کی ماں ہونا ، سورہ احزاب کی چھٹی آیت کے مطابق صرف حضرت سیمخصوص ہے جو آپ کے منصب سے مناسبت رکھتا اور اس مقام پر اس کو مسلمانوں کی جان و مال پر اولویت کے ساتھ ذکر کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پیغمبرۖ اپنے عہدہ نبوت کو پہچنوانا چاہتے تھے اور پھر اسی کے مثل یعنی حضرت علی کی ولایت اور خلافت کا اعلان کرنا مقصود تھا۔ واضح رہے کہ ابن کثیر کہ جس کا ایک خاص نظریہ اور عقیدہ ہے اور اس نے مذکورہ حدیث کونقل کرنے کے بعد کسی وضاحت اوردلیل کے بغیر اس روایت کو ضعیف اورغریب کہا ہے۔ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢١١۔ جبکہ اس کے پہلے راوی یعنی عبد الرحمان بن ابی لیلی علماء اہل سنت کے مطابق موثق ہیںاور یہ روایت دوسری سندوں سے بھی نقل ہوئی ہے۔ رجوع فرمائیں: الغدیر، ج١، ص ١٧٨۔ ١٧٧۔
د: خطبۂ پیغمبر ۖ کے بعد مسلمانوں کا حضرت علی کو ''مولائے مومنین'' کے عنوان سے مبارکباد پیش کرنا یہ صرف امامت سے مناسبت رکھتاہے۔ خداوند عالم کی طرف سے دین کے اکمال اور نعمت کے اتمام کا اعلان دوستی کے موضوع اور عنوان سے کسی طرح میل نہیں کھاتا ہے۔
و: حسان بن ثابت شاعر رسول خدا ۖ اور اس زمانہ میںعرب کا مشہور شاعر اور ادیب جو خود واقعۂ غدیر میں موجود تھا اس نے پیغمبر اسلام ۖ کی اجازت سے پیغمبر ۖ کے خطبہ کو نظم میں پیش کیا اور اس میں کلمۂ مولیٰ کو ''امام'' اور ''ہادی'' کے معنی میںاستعمال کیا ہے۔ ایک شعر:
و قال لہ قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماماً و ہادیاً
امیر المومنین نے معاویہ کو جو اشعار لکھ کر بھیجے تھے، اس میں اس طرح لکھا ہے:
واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللّٰہ یوم غدیر خم۔(١)
______________________
(١) مکمل طور سے ان قرائن اور شواہد کے بارے میں آگاہی کے لئے رجوع کریں: الغدیر، ج١، ص٣٨٥۔ ٣٧٠؛ پیشوائی از نظر اسلام، جعفر سبحانی، ص٢٣٨۔ ٢٣٤۔
٤۔ ابن کثیر نے واقعۂ غدیر کو حضرت علی کے سفر یمن سے مربوط قرار دیا ہے جو حجة الوداع سے پہلے پیش آیا تھا اور اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ اس سفر میں حضرت علی نے اپنے ہم سفر ساتھیوں کے مال غنیمت میںبے جا اور غیر شرعی استعمال کی (قبل اس کے کہ اس کو رسول اسلامۖ کی خدمت میں پیش کرتے) مخالفت کی تھی اور آپ کے ساتھی آپ کی ا س عدالت پر رنجیدہ ہوئے تھے۔(١) اسی بنا پر پیغمبر اسلامۖ نے غدیر خم میں حضرت علی کی فضیلت اور امانتداری اور عدالت کو بیان کیا اور آپ کے نزدیک جو قرب و منزلت ان کو حاصل تھی اس کو بیان کیا ۔ اور بہت سارے لوگوں کے دلوں میں جو آپ کے تئیں کینہ و کدورت اور حسد تھا اسے ختم کیا۔(٢)
یہ تاویل اور توجیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یمن کے سفر سے متعلق، پیغمبر اسلامۖ نے پہلی ملاقات میں حضرت علی کے ہم سفر ساتھیوں کا جواب مکے میں (حج سے پہلے) دیدیا تھا۔ اور فرمایا تھا: لوگ علی کی شکایت نہ کریں۔ خدا کی قسم وہ حکم الٰہی کے نافذ کرنے میں بہت سخت اور بے خوف ہیں۔(٣)
رسول خداۖ کے اس صریحی بیان سے مسئلہ ان لوگوں کے لئے تمام ہوگیا جوآنحضرتۖ سے کچھ سننا چاہتے تھے اور پھر کوئی بات نہیں رہ جاتی کہ تین سو (٣٠٠) افراد(٤) کے لئے جو رنجش حضرت علی سے پیدا ہوگئی تھی اور اس کوآپ نے بھی دور کردیا تھا۔ دوبارہ اس کو پیغمبر اسلامۖ ایک لاکھ کے مجمع میں بیان فرماتے۔
______________________
(١) اس واقعہ کی مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج٣، ص١٠٨١؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٩۔ ٢٠٨۔
(٢) ۔۔۔ فبین فیہا فضل علی بن ابی طالب و براء ة عرضہ مماکان تکلم فیہ بعض من کان معہ بأرض الیمن، بسبب ماکان صدر منہ الیہم من المعدلة التی ظنہا بعضہم جوراً و تضییقاً و بخلاً، و الصواب کان معہ۔۔۔ و ذکر من فضل علی و امانتہ و عدلہ و قربہ الیہ ما ازاح بہ ماکان فی نفوس کثیر من الناس منہ۔۔۔ (البدایہ والنہایہ،ج٥، ص٢٠٨۔)
(٣) یا ایہا الناس لاتشکوا علیاً فو اللّٰہ انہ لاخشن فی ذات اللّٰہ او فی سبیل اللّٰہ ]من ان یشکی[۔ (تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٦٨؛ (نہایة الارب فی فنون الأدب، ترجمۂ :محمودمہدوی دامغانی، ج٢، ص٣٢٩؛ الدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٩؛ رجوع کریں: ترجمة الامام علی من تاریخ مدینة دمشق، تالیف: حافظ ابن عساکر، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی (بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٣٩٥ھ۔ق)، ج١، ص٣٨٦۔
(٤) مورخین اور سیرت نگاروں نے یمن کی ماموریت میں حضرت علی کی سپہ سالاری کے ماتحت سپاہیوں کی تعداد تین سو (٣٠٠) افراد لکھی ہے۔ رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج٣، ص١٠١٩؛ طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٩۔
٥۔ اگر حضرت محمد ۖ نے حضرت علی کو غدیر میں امام بنایا ہوتا تو اصحاب آپ کے بعد آپ کے اس حکم کی مخالفت نہ کرتے اور آپ کی صریحی تاکید اور وصیت سے منہ نہ موڑتے کیونکہ آپ کے اصحاب صالح اور با ایمان لوگ تھے۔ جنھوں نے راہ اسلام میںاپنی جان اور مال کے ذریعے کامیاب امتحان دیاتھا لہٰذا یہ بہت ہی بعید بات ہے کہ اتنا عظیم واقعہ پیش آئے اور وہ لوگ اس کی مخالفت کر بیٹھیں خاص طور سے جبکہ آنحضرتۖ کی رحلت اور غدیر کے درمیان میں تقریباً ستر (٧٠) دنوں کا مختصر سا فاصلہ پایا جاتا ہے لہٰذا یہ بہت بعید ہے کہ اتنی جلدی لوگ ایسے واقعہ کو فراموش کر دیں۔
اس سوال کے جواب کے لئے اگر ہم رسول خدا ۖ کے دور کے حادثات اور واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو اگرچہ اصحاب کے روحانی مراتب اور درجات مجموعی طور سے اپنی جگہ پر مسلم ہیں مگر پھر بھی پیغمبر اکرم ۖ کے فرمان سے سرپیچی کرنا ان لوگوں کے درمیان کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس دور میں بھی کچھ مسلمانوں کا ایمان ایسا ناپختہ تھا کہ وہ لوگ خدا و پیغمبر ۖ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم نہیں کرتے تھے خاص طور پر جب پیغمبر ۖکا حکم ان کے ذاتی مفادات، قبیلہ کے رسم و رواج اور ان کے سیاسی افکار سے میل نہیں کھاتا تھا تو پھر وہ لوگ ایک طرح سے اپنی رائے اور اجتہاد کے ذریعہ یہ کوشش کرتے تھے کہ پیغمبر ۖ کی رائے کو تبدیل کردیں ورنہ خود ہی اس پر عمل پیرا ہونے میں کوتاہی کرتے تھے اور بسا اوقات آپ کے اوپر اعتراض بھی کرتے تھے۔ اس طرح کے حادثات اور مخالفتوں کے نمونے، جیسے صلح حدیبیہ میں صلح نامہ لکھتے وقت، حجة الوداع میںاحرام سے خارج ہونے کا مسئلہ، لشکر اسامہ کی روانگی اور حیات پیغمبر ۖ کے آخری ایام میں قلم و دوات جیسے مشہور واقعات بھی تاریخ میں ثبت ہیںایسے تمام واقعات کو علامہ سید شرف الدین نے اپنی گراں قدر کتاب ''النص و الاجتہاد'' میں ذکر فرمایا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات، پیغمبر اکرم ۖ کے حکم کی پیروی کے واجب و لازم ہونے کے اوپر تاکید کرتی ہیںاور اس کو ایمان کا جز قرار دیتی ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس خطرہ کی طرف متوجہ بھی کیاہے کہ حکم پیغمبر ۖ سے سرپیچی یا آپ کے اوپر سبقت نہ کریںاور یہ امیدنہ رکھیں کہ پیغمبر ۖ ، ان کی اطاعت کریں گے۔ مندرجہ ذیل آیات سے یہ صاف واضح ہو جاتاہے کہ اس زمانہ میں بھی پیغمبر ۖ کی مخالفت ہوتی رہتی تھی جیسا کہ ارشاد ہے:
(فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ أن تصیبہم فتنة او یصیبہم عذاب الیم)(١)
''جو لوگ حکم خدا کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس امر سے ڈریں کہ ان تک کوئی فتنہ پہنچ جائے یا کوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے''
(یاایہا آمنوا لاتقدموا بین یدی اللّٰہ و رسولہ و اتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ سمیع علیم)(٢)
''ایمان والو! خبردار خدا و رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے''
(واعلموا ان فیکم رسول اللّٰہ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم)(٣)
''اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے''
(و ما کان لمومن و لا مومنة اذا قضی اللّٰہ و رسولہ امراً ان یکون لہم الخیرة من امرہم و من یعص اللّٰہ و رسولہ فقد ضل ضلالاً بعیداً)(٤)
''اور کسی مومن مرد یا عورت کواختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی چیز کا فیصلہ کردیں (یا کوئی حکم دیں) تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی
______________________
(١) سورۂ نور، آیت ٦٣۔
(٢) سورۂ حجرات، آیت ١۔
(٣) سورۂ حجرات، آیت ٧۔
(٤)سورۂ احزاب، آیت ٣٦۔
کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے''
(و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللّٰہ فلا و ربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت و یسلموا تسلیماً)(١)
''اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکَم نہ بنائیں۔ اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تواپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں''
(یأ ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللّٰہ و رسولہ و لاتولوا عنہ و انتم تسمعون)(٢)
''ایمان والو! اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو''
ان تمام باتوں کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر چہ پیغمبر اسلاۖم نے بے پناہ محنت و مشقت اور زحمتیں اٹھا کر قبیلہ یا قوم پرستی کے نظام اور اس کے خطرناک اثرات جیسے قبیلہ جاتی تعصب، ایک دوسرے سے رقابت، یا قبیلوں کے درمیان میں رقابتیں جو خود دور جاہلیت کے لوگوں کے لئے ایک درد سر تھا، ان سب کو ختم کردیاتھا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام رسم و رواج بعض مسلمانوں کے اندر اسی طرح چھپے ہوئے تھے جس طرح سے راکھ کے نیچے آگ دبی ہوتی ہے اور اسی لئے مختلف اوقات میں وہ ابھر کے سامنے آجاتے تھے۔
جیسا کہ پیغمبر ۖ کی رحلت کے فوراً بعد اوس اور خزرج دونوں قبیلے والوںنے اپنے پرانے قبیلہ جاتی
______________________
(١)سورۂ نسائ، آیت٦٥۔ ٦٤۔
(٢) سورۂ انفال، آیت ٢٠۔
نظام کو زندہ کردیا اور دونوں طرف سے یہ آوازیں بلندہوگئیں ''نحن الامراء و انتم الوزراء و منا امیر و منکم امیر''ہم لوگ حاکم اور امیر ہیں اور تم لوگ وزیر ہو یا ایک امیر اور حاکم ہمارے درمیان سے ہوجائے اور ایک امیر و حاکم تمہارے درمیان سے ہوجائے۔(١) جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ''میں اور ہم'' کی حدوں کو قبیلوں کی سرحدوں سے اٹھا دیا گیا تھا اور سب کے سب ایک ''ہم'' کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ایمانی بھائی تھے جیسا کہ ارشاد ہے ''انما المومنون اخوة''
اس بنا پر یہ بالکل طے شدہ بات ہے کہ چاہے کتنی ہی خوش فہمی اور حسن ظن کیا جائے پھر بھی قریش کے بعض سیاسی لوگ مکہ کے زمانہ کی طرح بنی ہاشم سے رقابت کا احساس رکھتے تھے اور اس طرح کے معیاروں کی بنا پر انھیں ایک ہاشمی کی خلافت قبول نہیں تھی۔
٦۔ سورۂ مائدہ کی تیسری اور ٦٧ ویں آیت کی شان نزول کے بارے میں کتب تفسیر و حدیث میں دوسرے اور بھی احتمالات ذکر کئے گئے ہیں لیکن ان کی اسناد اور دوسرے فراوان شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دو آیتیں غدیر خم میں نازل ہوئیں ہیں۔(٢)
ان دونوں آیتوں کا مضمون بھی گواہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کا تعلق پیغمبر ۖ کے بعد امت کی رہبری اور امامت جیسے اہم کام سے ہے اور وہ دوسرے واقعات جنھیں بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے ان سے ان کا کوئی رابطہ نہیںہے مثلاً تیسری آیت میں مندرجہ ذیل جن چار باتوں کی تاکید کی گئی ہے اور اس میں ان پر تکیہ کیا گیا ہے یہ صرف امامت ہی سے مناسبت رکھتی ہیں۔
الف: کفار کی مایوسی کیونکہ وہ لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ اسلام صرف اور صرف پیغمبر ۖ کی ذات اور آپ ۖ کی زندگی تک باقی ہے اور آپ کی وفات کے بعد اسلام کی بساط خود بخودالٹ جائے گی لیکن حضرت علی جیسی ایک مضبوط، مستحکم،عادل اور برجستہ شخصیت کی جانشینی کے اعلان کے بعد یہ طے ہوگیاکہ
______________________
(١) ابن قتیبہ دینوری، الامامة و السیاسة (قم: منشورات الشریف الرضی)، ص٢٥۔ ٢٤۔
(٢) اس مضمون سے مزید آگاہی کے لئے، رجوع کریں: الغدیر، ج١، ص٢٤٧۔ ٢١٤۔
اسلام باقی رہے گا لہٰذا وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے۔
ب: تکمیل اسلام، کیونکہ پیغمبر ۖ کا جانشین معین ہوئے بغیر اور امت کی رہبری کا سلسلہ جاری رہے بغیر یہ دین و مذہب منزل تکمیل تک نہیں پہونچ سکتا تھا۔
ج:تکمیل رہبری کے تسلسل کے ساتھ، ہدایت کی نعمت کا اتمام۔
د: خداوندعالم کی طرف سے اسلام کی تکمیل کے اعلان کے علاوہ اس کو آخری مذہب اوردین قرار دیا جانا۔(١)
______________________
(١) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے اور سورۂ مائدہ کی ان دو آیتوں کے درمیان ایک آیت کے فاصلہ کے بارے میںاور یہ کہ، یہ تیسری آیت حرام گوشت کے احکام سے متعلق ہے اور یہ ولایت کے مسئلہ سے مناسبت نہیں رکھتی ان تمام چیزوں کے بارے میں رجوع کریں تفسیر نمونہ، ج٤، ص ٢٧١۔ ٢٦٣۔
|
|