تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

واقعۂ غدیر اور مستقبل کے رہنما کا تعارف
حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر ١٨ ذی الحجہ کے دن حجفہ سے تین میل کے فاصلہ پر سرزمین ''غدیر خم'' ٭میں آیۂ (یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ...)(١) کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاۖم نے بے آب و گیاہ میدان میں شدید گرمی کے باوجود ایک لاکھ حاجیوں کے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور نماز ظہر ادا کرنے کے بعد ایک بلند مقام پر تشریف لے گئے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا: اس میں پہلے تو آپ نے اپنی عمر کے تمام ہونے کی اطلاع دی اور اس کے بعد اپنی تبلیغ او ررسالت سے متعلق مسلمانوں کے خیالات معلوم کئے تو سب نے ایک زبان ہو کر آپ کی تبلیغ، ہدایت اور ارشاد و راہنمائی کی تعریف کی۔ اس کے بعد آپ نے کتاب و عترت یعنی ثقلین کے بارے میں نصیحت فرمائی اور یہ تاکید کی کہ مسلمان دونوں سے متمسک رہیں تاکہ گمراہ نہ ہوں اور آپ نے مزید فرمایا کہ خداوند عالم نے ان کو یہ اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے لہٰذا لوگ ان سے آگے نہ بڑھیں اور نہ ہی ان سے پیچھے رہ جائیں۔
اس موقع پر آپنے حضرت علی کا ہاتھ بلند کیا اور ان کو مسلمانوں کے آئندہ رہبر اور خلیفہ کے عنوان سے پہچنواتے ہوئے یہ فرمایا: خداوند عالم میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کامولاہوں(اور ان کے اوپر ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں) اور جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں۔ پروردگارا! تو اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اس کو دشمن رکھنا جو علی سے دشمنی رکھے۔ خدایا! علی کے مددگاروں کی مدد فرما ان کے دشمنوں کو خوار اورذلیل فرما، پروردگارا! علی کو حق کا محور قرار دے۔
______________________
(١) اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیاہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کونہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ، اللہ کافروں کی ہدایت نہیںکرتا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ٦٧)
اسی وقت یہ آیۂ قرآن نازل ہوئی: (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً...)(١) جس میں دین کی تکمیل اور ہدایت کی نعمت کے اتمام کا اعلان پیغمبرۖ کے ہاتھوں حضرت علی کے خلیفہ منسوب ہو جانے کے بعد کردیا گیااس کے بعد پیغمبر ۖ کے اصحاب نے حضرت علی کو اس منصب کی مبارکبادی۔(٢)
یہ واقعۂ غدیر کا ایک مختصر سا خاکہ ہے اور چونکہ یہ اہم واقعہ اتنا مشہور اور متواتر ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ،کیونکہ دوسرے اسلامی محققین اور دانشوروں نے اس واقعہ کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں کو بیان کیاہے خاص طور سے علامہ امینی نے اپنی بیش قیمت اور اہم کتاب الغدیر میں اس واقعہ کی سند اور متن او ردلالت پر ہر اعتبار سے بحث کی ہے اور اس واقعہ کے تمام اہم پہلوؤں کے بارے میں تحقیق اور جستجو فرمائی ہے لہٰذا اسی بنا پر ہم اس مقام پر صرف چند نکتوں کو بطور یاد دہانی ذکر کر کے چند اہم سوالات کے جوابات دینا چاہتے ہیں۔
١۔ واقعۂ غدیر، حضرت علی کی ولایت اور امامت کی اہم دلیل اور سند ہے او رزمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے یہ آخری سند ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی امامت کی صرف یہی ایک تنہا دلیل ہے کیونکہ جیسا کہ آپ نے اس کتاب میں بھی ملاحظہ فرمایا کہ امت کی رہبری اور امامت کی اہمیت کے پیش نظر، پیغمبر اسلاۖم نے بعثت کے ابتدائی ایام میںہی اپنے اعزاء اور اقرباء کو اپنی رسالت اور اسلام کی طرف دعوت دیتے وقت واقعۂ ذوالعشیرہ میںآپ کی امامت کا بھی تذکرہ کیاتھااور اس کے بعد بھی آپ مختلف مواقع پر (جیسا کہ تبوک میں) ا س بات کی مسلسل یاد دہانی کراتے رہے۔
پیغمبر ۖ کی جانشینی، ایک خدائی مسئلہ ہے اس کے بارے میں بھی آپ پہلے یہ پڑھ چکے ہیں کہ پیغمبرۖ نے علنی دعوت کے ابتدائی سالوں میں جب مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت دی تو قبیلۂ بنی عامر بن
______________________
(١) آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میںنے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیاہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ٣)
(٢)علامہ امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ و الادب (بیروت: دار الکتاب العربیہ)، ج١، ص١١۔ ١٠۔
صعصہ کے سردار کے جواب میں آپ نے فرمایا: '' میری جانشینی خدا سے مربوط ہے اور وہ اس کو جہاں چاہے گا قرار دیدے گا''(١)
اپنی جانشینی سے متعلق پیغمبر اکرم ۖ نے اپنی تبلیغ کے دوران جو طریقۂ کار اپنایاتھااورایک ہی شخصیت پر آپ کی نگاہ مسلسل ٹکی ہوئی تھی اگر ہم اس کو انصاف کے ساتھ دیکھیں نیز اگر ہم علمی برتری، ایثار و فداکاری، لیاقت وشایستگی اور تجربہ کے لحاظ سے اصحاب پیغمبر ۖ کے درمیان غور سے دیکھیںاور ان تمام باتوں اور فضیلتوں کو پیغمبر ۖ کی جانشینی کا معیار قرار دیں توہم اس نتیجہ تک پہونچیں گے کہ حضرت علی ہر لحاظ سے بے مثال اور لاجواب نظر آتے ہیں کیونکہ پیغمبر کھلم کھلا اور علی الاعلان آپ کو اپنی جانشینی کے لئے پیش کرنے پر تاکید فرماتے تھے اور ہر موقع اور مناسبت پر کسی نہ کسی طرح آپ کی برتری، فضیلت اورافضلیت کو لوگوں کے گوش گزار کرتے تھے اوران تمام فضائل اور کمالات میں پیغمبر کا کوئی صحابی بھی حضرت علی کے ہم پلہ نہیں تھا۔
٢۔ جیسا کہ اس بارے میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حدیث غدیر کی شہرت اور تواتر کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا اور علماء اہل سنت کے ایک گروہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔٭
______________________
(١) الامر للّٰہ یضعہ حیث یشائ۔
٭وہ لوگ حضرت علی کی امامت سے متعلق اس کی دلالت کی بارے میں شک و شبہ پیدا کرتے ہیں کہ جس کی وضاحت ہم پیش کریں گے۔ مثلاً ١٣٧١.ش، میں ترکی کے شہر استانبول میں شیعہ شناسی سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرس منعقد ہوئی تھی جس میںاسلامی ممالک کے علماء اوردانشوروں نے شرکت کی تھی اور اس میںایک وفد ایران کے برجستہ علماء اور محققین پر مشتمل تھا اسی کانفرنس میں کسی مقرر نے جب حدیث غدیر کا انکار کیا تو سوریہ یونیورسٹی کے مشہور اور معروف دانشمند ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوتی نے یہ کہا تھا کہ حدیث غدیر پیغمبر اسلامۖ کا ارشاد ہے یہ آپ سے نقل ہوئی ہے اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیںہے۔ البتہ یہ شیعوںکے مدعا پر دلالت نہیں کرتی... البتہ اگرچہ اس کے بعد اس جملہ کا جواب بھی، ایران کے محقق نے اس طرح سے پیش کردیا کہ ''یہ شیعہ عقیدہ پر دلالت کرتی ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ''منطق شیعہ ھا در کنکرھا و مجامع علمی'' آیة اللہ سبحانی، انتشارات مکتب اسلام ط١، ١٣٧٦۔ش، ص ٢١، ٢٧۔
جیسا کہ علامہ امینی نے الغدیر میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس اہم تاریخی واقعہ کو ایک سو دس (١١٠) صحابیوں اور ٨٤ تابعیوںنے نقل کیاہے اور ٣٦٠ علماء و محققین اہل سنت نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں ذکر کیا اور ان میں سے کچھ لوگوںنے اس کی سند کی صحت کا بھی اعتراف کیا ہے(١)اسلامی تاریخ کے اہم واقعات میں سے شاید ہی کوئی واقعہ ہو جس کی شہرت اور سند اتنی محکم اور مستحکم ہو۔
البتہ واقعۂ غدیر کو اکثر محدثین نے نقل کیاہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ (مختلف اسباب کی بنا پر جو اہل علم اور تحقیق سے پوشیدہ نہیں ہے) مورخین نے اس واقعہ کو ہضم کرلیا ہے صرف مورخین کے درمیان یعقوبی نے اس کو حجة الوداع کے بعدمختصر طور پر ذکر کیا ہے۔(٢)
______________________
(١) الغدیر، ج١، ص١٥١۔ ١٤۔
(٢) ... و خرج صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم لیلاً منصرفاً الی المدینة فصار الی موضع بالقرب من الجحفة یقال لہ ''غدیرخم'' لثمانیة عشر لیلة من ذی الحجة و قام خطیبا'ٔو أخذ بید علی بن ابی طالب علیہ السلام فقال:ألست اولی بالمؤمنین من أنفسہم؟ قالوا: بلی یا رسول اللّٰہ،
قال: فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللّٰہم و ال من والاہ و عاد من عاداہ۔ (ج٢، ص١٠٢)
مسعودی نے (مشہور کے خلاف) اس کو حدیبیہ کے سفر سے پلٹتے وقت ذکر کیا ہے، وہ یوں رقمطراز ہے:
''... و فی منصرفہ عن الحدیبیة قال لامیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ بغدیر خم: من کنت مولاہ فعلی مولاہ و ذلک فی الیوم الثامن عشر من ذی الحجہ...'' (التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر و التألیف)، ص٢٢١)
وہ مروج الذہب میں حضرت علی کے برجستہ فضائل کو شمار کرتے ہوئے حدیث ولایت کواختصار کے ساتھ یوں نقل کرتے ہیں:
''الاشیاء التی استحق بہا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم الفضل ہی: السبق الی الایمان، والہجرة، والنصرة لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، والقربی منہ، والقناعةو بذل النفس لہ، والعلم بالکتاب و التنزیل، والجہاد فی سبیل اللّٰہ، والورع، والزہد، والقضائ، والحکم، والفقہ، والعلم، و کل ذلک لعلی علیہ السلام، منہ النصیب الاوفر، و الحظ الأکبر، الی ما ینفرد بہ من قول رسول اللّٰہۖ حین آخی بین اصحابہ،: ''انت أخی''E
F وہو صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم لاضد لہ و لاند. و قولہ صلوات اللّٰہ علیہ : ''انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی'' و قولہ علیہ الصلاة والسلام : ''من کنت مولاہ فعلی مولا، اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ...'' (مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥)، تحقیق: یوسف اسعد داغر، ج٢، ص٤٢٥.)
اگر چہ تاریخ طبری میں جن کا طریقۂ کار ہی یہ ہے کہ وہ ہر واقعہ کی تفصیل اور گہرائی تک جاتے ہیں لیکن توقع کے برخلاف اس واقعہ کوذکر ہی نہیںکیا ،اگر چہ انھوں نے غدیر کے اثبات کے لئے ایک مستقل کتاب ''کتاب الولایة''(١) کے نام سے تالیف کی کہ جوآٹھویں صدی ہجری تک موجودتھی اور نجاشی(٢) ]متوفی ٥٤٠ھ[ اور شیخ طوسی(٣)] متوفی ٤٦٠۔ ٣٨٥ ہجری قمری[ نے اس کتاب کا تذکرہ کیاہے اور اس کتاب تک اپنی سند کو بھی ذکر کیا ہے۔
______________________
(١)ابن شہر آشوب، معالم العلماء (نجف: المطبعة الحیدریہ، ١٣٨٠ھ.ق)، ص١٠٦؛ ابن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام، ١٤٠٠ھ.ق)، یہ بطریق، عمدة عیون صحاح الاخبار، تحقیق: مالک المحمودی و ابراہیم البھادری (قم: ١٤١٢ھ.ق)، ج١، ص١٥٧۔
اس کتاب کے دوسرے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ جیسے: کتاب الفضائل، حدیث الولایہ اور کتاب غدیر خم، گویا انمیں سے کچھ عنوان ایسے ہیں جو کتاب کے مطالب کے لحاظ سے کتاب شناس لوگوں کے ذریعہ سے رکھے گئے ہیں۔ اور کچھ دوسرے نام شاید کتاب کے ایک خاص حصہ کا ہے جو مستقل طور پر شائع ہوا ہے جیسا کہ بعد کے حاشیہ میں آیا ہے نجاشی نے اس کو ''الرد علی الحرقوصیہ'' کے نام ذکر کیاہے۔ ''حرقوص بن زہیر'' خوارج کاایک سردار تھا۔ گویااس نام گزاری کا مقصد یہ تھا کہ مخالفین ولایت علی کو ناصبی اور خارجی بتائیں۔
(٢)محمد بن جریر ابوجعفر الطبری عامی لہ کتاب الرد علی الحرقوصیة ذکر طرق خبر یوم الغدیراخبرنا القاضی ابواسحاق ابراہیم بن مخلد قال حدثنا ابی قال حدثنا محمد بن جریر بکتابہ ''الرد علی الحرقوصیة'' (نجاشی، فہرست مصنفی الشیعہ، قم: مکتبة الداوری، ص٢٢٥؛ ) ''سید ابن طاووس'' نے بھی کتاب الاقبال ، ج٢، ص٢٣٩ ، میں اسی نام سے ذکر کیا ہے۔
(٣) محمد بن جریر طبری، ابوجعفر صاحب التاریخ، عامی المذہب لہ کتاب غدیر خم و شرح امرہ بصفتہ اخبرنا بہ احمد بن عبدون عن الدوری عن ابن کامل عنہ (طبرسی، الفہرست، مشہد: مشہد یونیورسٹی ١٣٥١ش، ص٢٨١.)
ابن کثیر متوفی ١٧٤ھ نے بھی واقعہ غدیر کو حجة الوداع کے بعد ذکر کر کے یہ کہا ہے: ابو جعفر محمد بن جریر طبرسی مولف تفسیر اور تاریخ نے اس حدیث پر توجہ کی ہے اور اس کی سند اور الفاظ کو دو جلدوں میں جمع کیا۔(١) اس کے بعد انھوں نے طبری کی کچھ روایات کو حدیث غدیر سے متعلق نقل کیا وہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : میںنے طبری کی ایک کتاب دیکھی ہے جو دو بڑی جلدوں پر مشتمل تھی اور اس میں انھوںنے حدیث غدیر کو جمع کیا ہے۔(٢)
ابن شہر آشوب متوفی ٥٨٨ ھ لکھتے ہیں اس (طبری) نے کتاب غدیر خم کو تالیف کی اور اس میں اس واقعہ کی شرح کی اور اس کتاب کا نام ''الولایة'' رکھا۔(٣)
ابن طاوؤس بھی راوة حدیث غدیر کو شمار کرتے وقت کہتے ہیں :حدیث غدیر کو محمد بن جریر مولف تاریخ نے ٧٥ سندوں کے ساتھ روایت کیا اور اس بارے میں ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے جس کا نام حدیث الولایہ ہے۔(٤)
یحییٰ بن حسن معروف جو ''ابن بطریق'' کے نام سے معروف ہیں (٦٠٠ھ۔ ٥٢٣ھ) تحریر کرتے
______________________
(١) وقد اعتنی بأمر ہذا الحدیث ابوجعفر محمد بن جریر طبری صاحب التفسیر و التاریخ فجمع فیہ مجلد ین اورد فیہما طرقہ والفاظہ... (البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٨.) یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن کثیر نے عین حادثۂ غدیر کو نقل کرتے وقت اس میں خدشہ ظاہر کیا ہے انشاء اللہ ہم بعد میں اس کے متعلق بحث کریں گے۔
(٢) و قدرأیت لہ کتاباً فجمع فیہااحادیث غدیر خم فی مجلدین ضخمین۔ (گزشتہ حوالہ، ج١١، ص١٤٧، حوادث سال ٣١٠ کے ضمن میںجو کہ طبری کے مرنے کا سال ہے، )
(٣)لہ (طبری) کتاب غدیر خم و شرح امرہ و سماہ کتا ب الولایة۔ (معالم العلمائ، ص١٠٦)
(٤) و قد روی الحدیث فی ذالک محمد بن جریر الطبری صاحب التاریخ من خمس و سبعین طریقاً و افرد لہ کتاباًسماہ حدیث الولایة. (الطرائف، ج١، ص١٤٢.)
ہیں: محمد ابن جریر طبری مولف کتاب تاریخ نے روایت غدیر کو ٧٥ سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس بارے میںایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام کتاب ''الولایہ'' ہے۔(١)
جن محققین اور مورخین کے نام ہم نے ذکر کئے ہیں ان لوگوں نے کتاب الولایہ کا ایک مختصر اور اجمالی خاکہ ہی بیان کیا ہے اور بعض حضرات جیسے ابن کثیر نے اس کی صرف بعض روایات نقل کرنے پر اکتفا کی ہے، قاضی نعمان مغربی مصری (ابو حنیفہ نعمان بن محمد تمیمی متوفی ٣٦٣ھ) وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے طبری کی روایات میں سے ٧٥ روایتیں حضرت علی ـ کے فضائل میں اپنی کتاب ''شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطہار'' میں نقل کی ہیں اوراسی طرح انھوں نے طبری کی باتوں کو آئندہ نسلوں کے لئے منتقل کردیا۔(٢)
وہ کہتے ہیں کہ: ''یہ کتاب بہت ہی دلچسپ کتاب ہے جس میں طبری نے حضرت علی کے فضائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔(٣)
طبری نے اس کتاب کو کس بنا پر تالیف کیا ہے۔(٤) قاضی نعمان اس سبب اور وجہ کو بیان کرنے
______________________
(١)و قدذکر محمد بن جریر الطبری، صاحب التاریخ خبر یوم الغدیر و طرقہ من خمسة و سبعین طریقاً و افردالہ کتاباً سماہ کتاب الولایة۔ (عمدة عیون صحاح الاخبار، ج١، ص١٥٧.)
(٢)یہ کتاب ١٤١٤ھ.ق، میں مؤسسہ نشر اسلامی در قم، کے توسط سے تین جلدوں میں طبع ہوچکی ہے اور پہلی جلد میں صفحہ ١٣٠ کے بعد طبری کی روایات نقل ہوئی ہیں۔
(٣)و ہو کتاب لطیف بسط فیہ ذکر فضائل علی علیہ السلام (گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٣٠.)
(٤) گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٠؛ ان کے کتاب تالیف کرنے کا سبب یہ تھاکہ انھیں اطلاع ملی کہ علمائے بغداد میں سے ایک نے حدیث غدیر کا انکار کیا ہے او ریہ دعوی کیا ہے کہ حضرت علی حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر رسول خداۖ کے ساتھ نہیں تھے بلکہ یمن میں تھے، طبری کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اورانھوں نے اس کی رد میں کتاب الولایہ تحریر کی اور اس میں حدیث غدیر کو مختلف سندوں کے ساتھ ذکر کر کے اس کی صحت کو ثابت کیا۔ حافظ ابن عساکر اور شمش الدین محمد ذہبی کے بقول مذکورہ شخص ابوبکر ابوداؤد ]سلیمان بن اشعث[ سجستانی مؤلف ]سنن[ تھا۔ اور یہ حضرت علی کے بغض و دشمنی میں مشہور تھا۔ (تاریخ مدینہ دمشق، ج٢٩، ص٨٧؛ میزان الاعتدال، ج٢، ص٤٣٤؛ تاریخ بغداد، ج٩، ص٤٦٨ ٤٦٧.)
کے بعد مزید یہ کہتے ہیں کہ طبری نے اس کتاب میں ولایت علی سے متعلق ایک باب مختص کیا ہے اور اس میں پیغمبر اسلاۖم سے مروی صحیح روایات کو ذکر کیا ہے کہ آنحضرت ۖ نے خواہ حجة الوداع سے پہلے یا حجة الوداع کے بعد فرمایا:
''من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ و اخذل من خذلہ'' اور یہ بھی فرمایا : علی امیر المومنین ، علی اخی، علی وزیری، علی وصیی، علی خلیفتی علی امتی من بعدی، علی اولی الناس بالناس من بعدی''
اور اس کیعلاوہ دوسری روایتیں بھی ہیں جو حضرت علی کی جانشینی کو ثابت کرتی ہیں اور جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امت کی رہبری اور اس کی قیادت کی باگ ڈور آپ کو ہی ملنا چاہئے تھی اور کسی کو آپ سے آگے بڑھنے کا یا آپ کے اوپر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے''۔(١)
٣۔ اس بارے میں جو لائق ذکرشبہ ایجاد کیاگیا ہے وہ بعض علمائے اہل سنت جیسے فخر رازی اور قاضی عضد ایجی کی طرف سے اس کے مفاد میں شک و شبہ پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے اصل واقعہ کو تو قبول کیا ہے لیکن رسول خدا ۖ نے خطبۂ غدیر میں حضرت علی کے بارے میں جو کلمۂ مولیٰ استعمال کیا ہے اور اس سے ولایت الٰہیہ اور امامت کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ کلمۂ مولا، دوست اور ناصر وغیرہ کے معنی میں ہے او ران کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ واقعہ حضرت علی کی ولایت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ پیغمبر اکرم ۖ نے اس خطبہ میں حضرت علی کی دوستی اور محبت کا حکم دیا تھا یہ لوگ کہتے ہیں کہ مَفعَل (مولیٰ) لغت میں اَفعل (اولیٰ) کے معنی میں نہیں آیا ہے اس بنا پر پیغمبر اکرم ۖ کے اس خطبہ میں لفظ مولیٰ کے معنی دوست کے ہیں۔(٢)
______________________
(١) شرح الاخبار، ج١، ص١٣٥۔ ١٣٤۔ اسی طرح کتاب الولایہ کے متعلق مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: پارہ ھای بر جای ماندۂ کتاب فضائل علی بن ابی طالب، رسول جعفریان، فصلنامۂ میقات حج، شمارۂ ٣٤۔
(٢) الغدیر، ج١، ص٣٥٠، ٣٥٤ و ٣٥٦۔
علامہ امینی نے اپنی بہت ہی علمی، تحقیق اور جستجو کے بعد قرآنی، حدیثی، لغوی اور دوسرے شواہد ذکر کرنے کے بعد ادیبوں اور بڑے بڑے لغت شناس کے کلام سے استشہاد کرنے کے بعد اس دعویٰ کی بے مائیگی اور کمزوری کو ثابت کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان تینوں مقامات پر لفظ مولا، اولیٰ کے معنی میں شائع اور رائج تھا۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل آیتوں میں سیاق و سباق کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ مولا کے معنی ولی یا متولی امر یا صاحب اختیار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتے۔
آیہ: (فالیوم لایؤخذ منکم فدیة و لا من الذین کفروا مأوٰیکم النار ہی مولیٰکم و بئس المصیر۔(١) واعتصموا باللّٰہ ہو مولیٰکم فنعم المولیٰ و نعم النصیر۔(٢) ذٰلک بأن اللّٰہ مولی الذین آمنوا و ان الکافرین لا مولیٰ لہم۔(٣) بل اللّٰہ مولیٰکم و ہو خیر الناصرین۔(٤) قل لن یصیبنا الا ماکتب اللّٰہ لنا ہو مولیٰنا۔(٥) یدعوا لمن ضرہ أقرب من نفعہ لبئس المولی و لبئس العشیر۔)(٦)
مفسرین نے ان آیات میں ''مولیٰ'' کے معنی کی تفسیر اوراس کے معنی ''اولیٰ'' ہی ذکر کئے ہیں۔
حدیث میں یہ بھی آیا ہے ''ایما امرأة نکحت بغیر اذن مولاہ فنکاحہا باطل''(٧)،
______________________
(١) سورۂ حدید، آیت ١٥۔
(٢) سورۂ حج، آیت ٧٨۔
(٣) سورۂ محمد، آیت ١١۔
(٤) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٠۔
(٥) سورۂ توبہ، آیت ٥١۔
(٦) سورۂ حج، آیت ١٣۔
(٧)ابو جعفر محمد بن الحسن طوسی، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد (تہران: مکتبہ جامع چہل ستون، ١٤٠٠ھ۔ق)، ص٢١٧۔ مسند احمد کے نقل کے مطابق، ج٦، ص٤٤؛ یہ بطریق، عمدة عیون صحاح الاخبار، ج١، ص١٥٩؛ ابن حزم، ابومحمد علی بن احمد، المحلی، تحقیق: احمد محمد شاکر، (بیروت: دارالآفاق الحدیثہ)، ج٩، ص٤٧٤، مسألة ١٨٣٨۔
(جو عورت اپنے مولا کی اجازت کے بغیر، نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے)، محدثین اور فقہاء نے اس حدیث میں مولیٰ کے معنی بھی عورت کا ولی اور سرپرست بیان کئے ہیں۔
علامہ امینی نے ''لفظ مولا'' کے ستائیس احتمالی معنی گنوائے ہیں اوریہ ثابت کیا ہے کہ بروز غدیر خطبۂ پیغمبر ۖ میں ان معانی میں سے بعض معنی کا مراد لینا مستلزم کذب ہے اور بعض کاارادہ کرنا مستلزم کفر ہے ، بعض دوسرے معنی کامراد لینا ناممکن اور بعض کا مراد لینا لغو اور بے فائدہ ،یا بالکل ہلکا اور سبک ،لہٰذا صرف اور صرف ''اولیٰ بالشیئ'' ہی مراد لیا جا سکتا ہے۔(١)
اس کے بعد علامہ امینی نے ان چودہ جید علماء اور محدثین اہل سنت کی گفتگو کو بھی ذکر کیاہے جنھوں نے ''خطبہ غدیر'' میں لفظ مولیٰ سے اولیٰ بالشیء کے معنی مراد لیئے ہیں جن میں شمس الدین ابو المظفرسبط ابن جوزی حنفی (٦٥٤۔ ٥١١ ہجری قمری) بھی ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں:
''اہل سیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ واقعۂ غدیر حجة الوداع سے پیغمبر ۖ کی واپسی کے موقع پر ١٨ ذی الحجہ کو اصحاب کی کثیر تعداد اور ایک کثیر مجمع کے درمیان جنکی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی پیش آیا اور رسول خدا ۖ نے فرمایا: ''جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں''
اس کے بعد انھوں نے لفظ مولا کے دس احتمالی معنی ذکر کئے اور پھر اس کے نو معنی میں رد وقدح کرنے کے بعد صرف دسویں معنی یعنی وہی اولیٰ بالتصرف کے معنی کی تصدیق کی ہے اور اس کے لئے سورۂ حدید کی ١٥ ویں آیت کو شاہد اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور تعبیر مولیٰ کو، حضرت علی کی امامت اور آپ کی اطاعت کو قبول کرنے کے بارے میں صریح اور واضح نص قرار دیا ہے۔(٢)
______________________
(١) الغدیر، ج١، ص٣٧٠۔ ٣٦٧۔
(٢) ۔۔۔ فتعین الوجہ العاشر و ہو ''الاولی'' و معناہ من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ۔۔۔ فعلم ان جمیع المعانی راجعة الی الوجہ العاشر ودل علیہ ایضاً قولہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، الست اولی بالمؤمنین من أنفسہم۔ و ہذا نص صریح فی اثبات امامتہ و قبول طاعتہ۔۔۔ (تذکرة الخواص، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ۔ق)، ص٣٣۔ ٣٠۔
اس کے بعد اس زمانے کے کچھ شعراء کے اشعار منجملہ حسان بن ثابت ( جو خود واقعۂ غدیر میں موجود تھے)کے اشعار نقل کئے ہیں کہ انھوں نے کلمۂ مولیٰ سے لفظ ''امام'' سمجھاہے اور اس کواپنے اشعار میں نظم بھی کیا ہے۔