تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

تیسری فصل
حجة الوداع اور رحلت پیغمبرۖ

حجة الوداع
حج؛ اسلام کا ایک عبادی اور سیاسی رکن ہے جس کے بانی حضرت ابراہیم ـ تھے، اس کتاب کے پہلے حصہ کی دوسری فصل میںہم نے ظہور اسلام سے پہلے تک قدرت و طاقت اور قریش کے نفوذ اور ان کی دینی حالتوں کی بحث میں روشنی ڈالی ہے کہ قریش اور تمام مشرکین کس طرح حج اور عمرہ کیا کرتے تھے جو ایک واقعی حج نہیں تھا بلکہ انھوں نے حج ابراہیمی کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیاتھا اور اس میں طرح طرح کی رسم و رواج اور خرافات کی آمیزش کردی تھی۔
یہاں پر یہ بھی بیان کرنا مناسب ہوگا کہ قریش اپنے کو ''سکان حرم اللہ'' (حرم نشین) ،(١) سمجھتے تھے اور چونکہ سرزمین ''عرفہ'' حرم سے باہر ہے اس لئے قریش حج کے زمانے میں مشرکین کے برخلاف، میدان عرفات میں نہیں جاتے تھے بلکہ وہ لوگ مزدلفہ ''مشعر'' میں وقوف (ٹھہرا) کرتے تھے۔(٢) اور وہاں سے منیٰ چلے جاتے تھے۔ دوسری طرف یثرب کے لوگ ''منات'' نامی بت کے
______________________
(١) ازرقی، اخبار مکہ، تحقیق: رشدی (قم: منشوراتالرضی، ط١، ١٤١١ھ۔ق)، ج١، ١٧٦؛ ابن عبد ربہ، العقدالفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ۔ق)، ج٣، ص٣١٣۔
(٢)واقدی، المغازی، ج٣، ص١١٠٢؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص١٤٣۔
پاس جو یثرب اور مکہ کے راستے میں سمندر کے کنارے پر موجود تھا۔ وہاں سے احرام باندھتے تھے۔(١) اور جو لوگ وہاں مُحرِم ہوتے تھے وہ لوگ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔(٢)
اسی طرح مشرکین حج کرتے وقت سنت ابراہیمی کے برخلاف غروب سے پہلے ہی میدان عرفات سے مزدلفہ کی طرف کوچ کرجاتے تھے (٣)ان تمام باتوں کی وجہ سے حج ابراہیمی کا چہرہ بالکل تبدیل ہوگیا تھا اور یہ عظیم الٰہی اور توحیدی عبادت، شرک اورخرافات کا پلندہ بن گئی تھی وجوب حج کی آیت (٤) نازل ہونے کے بعد رسول خدا ۖ اپنے پہلے سے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق مدینہ او راطراف کے مسلمانوں کے ساتھ حج کی طرف روانہ ہوئے اور(٥) اس سفر میں آپ نے جناب ابراہیم کے حقیقی اورواقعی حج کی، عملی طور پر مسلمانوں کو تعلیم دی، حضرت، مناسک حج کے دوران مسلسل یہ تاکید فرماتے رہے کہ مسلمان مناسک حج کو آپ سے اچھی طرح سیکھ لیں کیونکہ شاید آئندہ سال آپ کو حج نصیب نہ ہو،(٦) آپ فرماتے تھے کہ مواقف اور مشاعر حج کو دھیان میں رکھو کیونکہ یہ جناب ابراہیم کی میراث ہے۔(٧)
______________________
(١)ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨ش، ص١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص٨٨؛ محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح محمد بھجة الاثری، (قاہرہ: دارالکتب الحدیث)، ج٢، ص٢٠٢۔
(٢) حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ٣١٧۔
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١١٠٤۔
(٤)سورۂ حج، آیت ٢٧۔
(٥)کلینی، الفروع من الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢١، ص٣٩٠۔
(٦)ابن سعد، الطبقات الکبری، ج٢، ١٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٣٢٧۔
(٧)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٤۔
آپ نے اس سفر میں، مشرکین، خاص طور سے قریش کی بدعتوں سے حج کو پاک اور صاف کردیا باوجودیکہ آپ خود قریش سے تعلق رکھتے تھے آپ نے عرفات میں وقوف کیا اور وہاں سے مزدلفہ تشریف لے گئے۔(١) کیونکہ حکم خدا یہی تھا کہ'' پھر جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں وہیں سے آ پ بھی روانہ ہوں'' (٢)اسی طرح آپ نے میدان عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کی طرف کوچ کیا۔(٣)یہ حج مختلف اسباب اورمناسبتوںکی وجہ سے'' حجة الوداع '''' حجة الاسلام '' اور ''حجة البلاغ'' کہا گیا۔(٤)

پیغمبر اسلاۖم کا تاریخی خطبہ
پیغمبر اسلاۖم نے مناسک حج کے دوران روز عرفہ، عرفات کے میدان میں حاجیوں کے جم غفیر میں ایک بہت ہی اہم اور تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کے دوران بہت سے اہم مسائل پر روشنی ڈالی اور ان کے بارے میں بار بار تاکید او روصیت فرمائی اس میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب آپ نے ذی الحجہ اور خاص طور سے اس روز عرفہ کی عظمت اور قداست کا تمام حاضرین سے اعتراف لے لیا توفرمایا:
اے لوگو! جب تک تم لوگ خدا سے ملاقات نہ کرلو تم سب لوگوں کے خون، اموال ناموس اور آبرو بالکل اس مہینے اور اس دن کی حرمت اور قداست کی طرح محترم ہیں اور ان میں سے کسی پر تجاوز کرنا حرام ہے آپ نے فرمایا: جاہلیت میں بہائے جانے والے خون کا بدلہ، اسلام کے زمانہ میں
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٢؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٤٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢١، ص٣٩٢۔
(٢)سورۂ بقرہ، آیت ١٩٩۔
(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٠٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص٣٧٩۔
(٤)زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٤٣۔

ناقابل اجراء ہے۔ اور ربا حرام ہے۔
اسی طرح آپ نے حرام مہینوں میں تبدیلی یا ان کے مؤخر کرنے کا سبب کفر میں افراط کو قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بات بھی آج کے بعد ممنوع ہے۔(١)
عورتوں کے حقوق کے بارے میں یہ تاکید اور وصیت فرمائی: ''عورتوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں خدا کی امانتیں ہیں اور قوانین الٰہی کے ذریعہ تمہارے اوپر حلال ہوئی ہیں'' اس کے بعد فرمایا: ''حاضرین، غائبین تک میرایہ پیغام پہونچا دیں کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے اور تم مسلمانوں کے بعد کوئی امت نہ ہوگی''۔ اس کے بعد آپ نے جاہلیت کی رسم و رواج اورعقائد کو بالکل باطل اور کالعدم قرار دیدیا۔(٢)

عظیم فضیلت
جیسا کہ بزرگ محدثین اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ آیۂ مباہلہ کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاۖم کے ساتھ چار لوگ مباہلہ کے لئے آئے تھے، یہ ان کے لئے بہت بڑی اور عظیم فضیلت ہے کیونکہ آیت اور واقعۂ مباہلہ نے یہ واضح کردیا کہ حسن و حسین رسول خدا کے فرزند اور حضرت علی آپ کا نفس ہیں اور آپ کی بیٹی جناب فاطمہ وہ تنہا خاتون ہیں جو مباہلہ میں تشریف لائیں آیت میں نساء کا مصداق آپ کے علاوہ او رکوئی نہیںہو سکتا ۔
جناب عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ روز مباہلہ، پیغمبر اسلامۖ نے ان چاروں افراد کو اپنی سیاہ (اور لکیر دار) عبا کے نیچے لیکر اس آیت کی تلاوت فرمائی:
(انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیراً)(٣)
اس بارے میں تمام علماء شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ مباہلہ کے دن یہی چاروں حضرات
______________________
(١) حرام مہینوں کی تبدیلی اوران کے ناموں میںالٹ پھیر اس کتاب کے پہلے حصہ میں ''اسلام سے پہلے عرب کی معاشرتی صورت حال، کی بحث میں''حرام مہینوں'' کے عنوان کے تحت کی ہے۔
(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص٢٥٢۔ ٢٥٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٣١٢؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص١٨٦؛ واقدی، المغازی، ج٣، ص١١١١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٨٠۔ اس بات کا خیال رہے کہ ابن سعداور واقدی کے کہنے کے مطابق پیغمبر اسلامۖ نے یہ خطبہ میدان منی میں ارشاد فرمایا ہے۔
(٣)( سورۂ احزاب، آیت ٣٢)؛ زمخشری، گزشتہ حوالہ، ؛ فخر رازی نے عائشہ کا نام لئے بغیر، اس روایت کو
نقل کیا ہے اور یہ جملہ بڑھایاہے ''جان لو کہ یہ روایت اہل تفسیر و حدیث کے درمیان صحیح حدیث کی طرح ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے'' (تفسیر کبیر، ج٨، ص٨٢)؛ شبلنجی کہتا ہے: ''یہ روایت متعدد صحیح سندوںکے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
پیغمبر اسلاۖم کے ساتھ آئے تھے اور کتب تاریخ و تفسیر و حدیث میں اس بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئیہیں(١) اور تمام محققین نے ان حضرات کی اس عظیم فضیلت پر تاکید کی ہے۔
______________________
(١) منجملہ مندرجہ ذیل منابع:تفسیر الکشاف، ج١، ص١٩٣؛ مفاتیح الغیب، (تفسیر الکبیر)، ج٨، ص٨٢ ؛ الدر المنثور، (دار الفکر)، ج٢، ص ٢٣١ تا ٢٣٣؛ (کتاب الدلائل میں حاکم ، ابن مردویہ، ابونعیم کے نقل کے مطابق؛ ترمذی، ابن المنذر، بیہقی، در کتاب السنن، و ابن جریر)، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧١؛ ابوسعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انتشارات بابک، ١٣٦١)، ص٢٦٢؛ قاضی بیضاوی، انوار التنزیل، (ط قدیم رحلی)، ص٧٤؛ نورالابصار، ص١١١؛ مناقب علی بن ابی طالب، ابن مردویہ، تدوین و ترتیب و مقدمہ: عبدالرزاق حرز الدین، ص٢٢٦۔ لیکن اس ضمن میں وسیع ترین اور تفصیلی بحث مرحوم سید بن طاووس کی کتاب ''الاقبال بالاعمال الحسنة فیما یعمل مرة فی السنہ'' ،ج٢، ص٣٤٨۔ ٣١٠؛ میں پائی جاتی ہے۔میدان مباہلہ میں اہلبیت کی موجودگی کے بارے میں ان تمام روایات کی حکایت کے باوجود بعض مورخین کی طرف سے تعصب کے تحت مباہلہ کی روایت میں خرد برد ہوئی ہے اور اپنے اپنے سلیقہ کے مطابق اس میں کمی اور زیادتی کی گئی ہے ان میں سے ، بلاذری، ابن کثیر اور شعبی نے حضرت علی کے نام کو حدیث مباہلہ سے حذف کردیا ہے (رجوع کریں: فتح البلدان، ص٧٥، البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٥٤؛ الدر المنثور، ج٢، ص ٢٣٢) اور حلبی و زینی دحلان نے عائشہ اور حفصہ کو میدان مباہلہ میں موجودگی کیلئے نامزد قرار دیتے ہوئے عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا: اگر عیسائیوں سے میں مباہلہ کرتا تو علی، فاطمہ، حسن، حسین، ٪ عائشہ اور حفصہ کو لیتا اور حاضر ہوتا ۔ (السیرةالحلبیہ، ج٣،ص٢٣٦.السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٥۔ ١٤٤؛ اور سیوطی نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلامۖ نے مباہلہ کے لئے، ابوبکر اور ان کے لڑکوں کو ، عمر اور ان کے لڑکوں کو، عثمان اور ان کے لڑکوں کو اور علی اور ان کے لڑکوں کو دعوت دی!! (الدر المنثور، ص٣٣٣.)ان روایات کا جعلی اور تحریف شدہ ہونا اس قدر واضح ہے کہ توضیح کی ضرورت نہیںہے۔صرف بطور اشارہ یادہانی کراتے ہیں کہ اگر کلمہ ''نسائنا'' پیغمبرۖ کی ازواج کو بھی شامل ہوتا تو کیوں اور کس طرح صرف ان میں سے دو بیویاں( دو خلیفہ کی لڑکیاں) مباہلہ میں حاضر ہونے کی لیاقت رکھتی تھیں؟!
اہل سنت و الجماعت کے عظیم محدث،'' مسلم''، سعد وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے کہ جس روز یہ آیت ''فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم'' نازل ہوئی ،رسول خداۖ نے علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: ''خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں''(١)
زمخشری نے واقعۂ مباہلہ اور روایت عائشہ کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کساء کی سب سے طاقتور دلیل ہے اور پیغمبر اسلاۖم کی حقانیت کا سب سے واضح اور روشن برہان ہے۔(٢)
قاضی بیضاوی نے بھی واقعۂ مباہلہ کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر کی نبوت کی حقانیت اور آپ کے ساتھ آنے والے آپ کے اہل بیت کی فضیلت کی بہترین دلیل ہے۔(٣)
سید بن طاوؤس نے کتاب سعد السعود میں تحریر کیا ہے کہ ''محمد بن عباس بن مروان نے اپنی کتاب ''مانزل من القرآن فی النبی و اہل بیتہ'' میں حدیث مباہلہ کو صحابہ اور غیر صحابہ کی ٥١ سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے''(٤)
اس بحث کے اختتام پر صرف یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ واقعۂ مباہلہ کی تاریخ، سن اور مہینہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے(٥) کیونکہ اس مقام پر اس کی تحقیق کی گنجائش نہیںہے لہٰذا ہم نے مورخین کے طریقۂ کار اور سنت کے مطابق اس کو ١٠ھ کے واقعات میں ذکر کردیا ہے۔
______________________
(١) صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١٥، ص١٧٦۔
(٢)تفسیر الکشاف، ج١، ص١٩٣۔
(٣)انوار التنزیل، طبع قدیم، رحلی، ص٧٤۔
(٤)مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٥٠۔
(٥)اس کے متعلق مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: مکاتیب الرسول، ج١، ص١٧٩ و فروغ ابدیت،ط٥، ج٢، ص٤٤٥۔ ٤٤١۔
٭یہ وہ جگہ تھی جہاں سے مختلف ممالک کے حاجیوںکے راستے الگ ہو جایا کرتے تھے۔ مصر عراق اور مدینے کا راستہ وہیں سے جدا ہوتا تھا۔