تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

غزوۂ تبوک کے آثار اور نتائج
اگر چہ اس رنج و مشکلات بھرے سفر میں کوئی جنگ نہ ہوئی لیکن اس کے بہت ہی مفید نتائج سامنے آئے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ پیغمبر اکرم ۖ نے اس سفر میں حجاز اور شام کے سرحدی علاقوں کے قبائل اور سرداران قوم سے صلح کا معاہدہ کر کے ان علاقوں کی امنیت کو یقینی کردیا اور آپ کو یہ اطمینان ہوگیا کہ اب یہ لوگ قیصر روم سے ساز باز نہیں کریں گے۔
٢۔ آپ کی اس فوجی نقل و حرکت سے اسلامی فوج کے سپہ سالار اس علاقے کی مشکلات راہ و روش اورپانی کے ذخائر سے اچھی طرح واقف ہوگئے اور انھوںنے اس زمانے کی بڑی طاقتوں کے مقابلہ میں لشکر کشی کا طریقہ بھی سیکھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کی وفات کے بعد مسلمانوں نے سب سے پہلے سرزمین شام کو ہی فتح کیا ۔
٣۔ اس عمومی رضا کارانہ مشن میں مومن اور منافق کی باقاعدہ پہچان ہوگئی اور مسلمانوں کی صفوں میں ایک طرح کا تصفیہ ہوگیا اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوگئی ۔(١)
٤۔اسلامی فوج کے اندر اعتماد نفس پیدا ہوا اور ان کا اعتبار بڑھ گیا اور دوسرے عرب قبائل بھی اسلام کی طرف مائل ہوگئے اور ان کے نمائندے بھی پیغمبر اسلاۖم کی اطاعت اور پیروی کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ بھی اس فوجی نقل و حرکت کا ایک بہترین اور اہم نتیجہ ہے جس کی وضاحت ہم مندرجہ ذیل سطروں میں پیش کر رہے ہیں۔

جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا نفوذ اوراس کا پھیلاؤ
جس طرح کہ فتح مکہ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے نفوذ اور اس کی وسعت کا اہم ترین موڑ تھا اسی طرح جنگ تبوک بھی اس راستے میں دوسرا اہم قدم تھا۔ کیونکہ یہ نقل و حرکت جو در حقیقت ایک بڑی
______________________
(١) جعفر سبحانی، فروغ ابدیت،( قم: انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ط٥، ١٣٦٨)، ج٢، ص٤٠٤۔ ٤٠٣۔
فوجی مشق کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس سے مسلمانوں کی فوجی قوت اور طاقت کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور سب نے یہ سمجھ لیا کہ اسلام کی فوجی طاقت اس منزل تک پہونچ چکی ہے کہ جو دور دراز علاقوں میں پہونچ کر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرلے سکتی ہے۔ اس فوجی نقل و حرکت کا سیاسی، فوجی اور نظامی اثر اتنا زیادہ تھا کہ پیغمبر اسلاۖم کے واپس مدینہ پہونچ جانے کے بعد بہت سے قبیلوں کے وہ سردار جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انھوں نے بھی سمجھ لیا کہ اب شرک اور بت پرستی کے خاتمہ کا دور آ پہونچا ہے۔ چنانچہ وہ بھی مدینہ آئے اور پیغمبر اسلاۖم کی اطاعت کا اعلان کردیا۔ اس سال جن قبیلوں کے نمائندے اور ان کے وفود پیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ٩ ھ کو ''سنة الوفود'' یعنی قبیلوں کے وفد اور ان کے سفیروں کے آنے کا سال قرار دیا گیا ہے۔(١)

مشرکین سے برائت کا اعلان
فتح مکہ کے بعد توحید کے پھلنے پھولنے اور شرک اور بت پرستی کے جڑ سے خاتمے اور دوسرے خرافات اور باطل افکار و خیالات جن کی بنیاد بھی بت پرستی ہی تھی سب کے خاتمے کا بہترین ماحول پیدا ہوچکا تھا اور اکثر شہروں او ردیہاتوں میں لوگ بت پرستی سے دور ہو کر اسلام کے پرچم تلے آگئے تھے لیکن کچھ متعصب، نادان اور ہٹ دھرم اب بھی اپنے جاہلانہ رسم و رواج سے دست بردار نہیں تھے اور پیغمبر ۖ کے اس نئے دین کو قبول کرنا ان کے لئے بہت ہی دشوار تھا۔
دوسری طرف اگر چہ رسول خداۖ نے اس زمانہ تک چند بار عمرہ کیا تھا۔ لیکن آپ کو ابھی تک حج کرنے کا کوئی موقع نہیں مل سکا تھا اور مشرکین مکہ، حج کو اپنے اسی پرانے طور طریقے اور خرافات کے
______________________
(١) ابن ہشام، سیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٠٥۔ سیرت لکھنے والوں نے ان فہرستوں کو ثبت کیا ہے او ران کی تعداد کو ٦٠ سے زیادہ لکھا ہے۔ رجوع کریں: طبقات الکبری، ج١، ص٢٩١؛ تاریخ پیامبر اسلام، محمد ابراہیم آیتی، ص٦٤٢۔ ٦٠٩۔
ساتھ بجالاتے تھے اور تیسرے یہ کہ فتح مکہ کے بعد رسول خدا اور مشرکین کے درمیان دو طرح کے معاہدے ہوئے تھے:
١۔ ایک عام معاہدہ یہ تھا کہ حج میں ہر ایک کی شرکت آزاد ہے اور کسی کو حج سے نہیں روکا جائے گا اور محترم مہینوں میں ہر ایک کے لئے امنیت قائم رہے گی اور کسی سے کوئی برا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
٢۔ دوسرا معاہدہ بعض عرب قبیلوں سے ایک معین مدت تک کیا گیا تھا۔(١)
غزوہ تبوک کے بعد سورۂ برائت نازل ہوا اور پیغمبر ۖ کو خدا کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ آپ مشرکین مکہ سے بیزاری کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ان معاہدوں کی ایک آخری مدت معین کردیں اور اس کے علاوہ ان آیتوں میں جو دوسرے دستور العمل آئے ہیں ان کو بھی نافذ اور لاگو کریں۔
سورہ برائت کی ابتدائی آیات کا ترجمہ یہ ہے:
مسلمانوں جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے ۔ لہٰذا کافرو! چار مہینے تک آزادی سے زمین میں سیر کرو اور یہ یاد رکھو کہ خدا سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے۔ اور اللہ و رسول ۖ کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ہیں لہٰذا اگر تم توبہ کرلو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر انحراف کیا تو یاد رکھنا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور پیغمبر آپ کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے، علاوہ ان افراد کے جن سے تم مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اور انھوںنے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور تمہارے خلاف ایک دوسرے کی مدد نہیں کی ہے تو چار مہینے کے بجائے جو مدت طے کی ہے اس وقت تک عہد کو پورا کرو کہ خدا تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفار کو جہاں پاؤ قتل کردو اور گرفت میں لے لو اور قید کردو اور ہر راستہ اور گزرگاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو۔ پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔(٢)
______________________
(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ١٩٠۔
(٢) سورۂ برائت، آیت ٥۔ ١.

پیغمبر اکرم ۖ کا مخصوص نمائندہ اور سفیر
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام نے اس سورہ ٔ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تعلیم حضرت ابوبکر کو دی اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ان آیتوں کو عید قربان کے دن حاجیوں کے درمیان پڑھ کر سنائیں حضرت ابوبکر مکہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ اسی دوران وحی الٰہی نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ یہ پیغام یا آپ خود پہنچائیں یا وہ شخص پہنچائے جو آپ سے ہو۔(١)
یہ حکم الٰہی نازل ہونے کے بعد آپ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جائیںاور راستے میں ابوبکر سے آیتوں کو لے لیں اور پھر حاجیوں کے مجمع میں ان کو مشرکین سامنے پڑھ کر سنادیں۔ حضرت علی رسول اکرم ۖ کے مخصوص اونٹ پر سوار ہوکر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور پیغمبر اکرم ۖ کا پیغام ابوبکر تک پہنچایا ،انھوں نے آیتیں حضرت علی کے حوالے کردیں اور مایوس و دل ملول اور ناراض و غمگین ہوکر مدینہ واپس پلٹ آئے اور پیغمبر اکرم ۖ کی خدمت میں پہنچ کر یہ عرض کیا کہ ''آپ نے مجھے اس کام کے لئے لائق اورشائستہ سمجھا لیکن کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپ نے مجھے اس عہدے سے معزول کردیا ۔ کیا اس بارے میں خدا کا کوئی پیغام آیا ہے؟''
پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: ''ہاں! خدا کا نمائندہ آیا ہے جس نے یہ کہا ہے کہ میرے علاوہ یا جو شخص مجھ سے ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص میں اس کام کی صلاحیت نہیںہے''۔

اعلان برائت کا متن اورپیغمبر اکرم ۖ کا اَلٹی میٹم
حضرت علی مکہ میں داخل ہوئے او ردس ذی الحجہ کو سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کو حاجیوں کے عام مجمع کے درمیان پڑھ کر سنایا ،(٢) اور پیغمبر ۖ کا درج ذیل شرح کے ساتھ الٹی میٹم تمام حاجیوں کے گوش گزار کردیا۔
______________________
(١) ''لایؤدیہا عنک الا انت او رجل منک''۔
(٢) یہ واقعہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٥٤؛ سیرۂ ابن ہشام، ج٤، ص ١٩٠؛ الکامل فی التاریخ ، ج٢، ص٢٩١؛ تفسیر مجمع البیان، ج٥، ص ٣؛ تذکرة الخواص، ص٥٧؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٣٧ اور ٣٨ اور ج٧، ص٣٥٨؛ تفسیر روح المعانی، ج١، تفسیر سورۂ توبہ؛ تفسیر المنار، ج١٠، ص١٥٧۔
١۔ خدا اور پیغمبر اسلاۖم مشرکین سے بیزار اور دور ہیں۔
٢۔ آئندہ سال کسی مشرک کو حج کرنے کا حق نہیں ہے۔
٣۔ کسی شخص کو برہنہ ہوکر طواف کعبے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔(١)
٤۔ مشرکین کو آج سے لے کر چار مہینے تک یہ مہلت ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ اور اپنی سر زمین کی طرف لوٹ جائیں اور چار مہینے کے بعد کسی مشرک کیلئے کوئی عہد و پیمان نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو رسول اللہ سے عہد و پیمان رکھتے ہیں، ان لوگوں کا معاہدہ اس کی معینہ مدت تک اپنی پرانی شکل و صورت پر باقی رہے گا۔
٥۔ کوئی کافر جنت میں نہیں جاسکتا۔(٢)
آپ کے اس الٹی میٹم اور اعلان برائت کے بعد جب تمام مشرکین اپنے وطن واپس گئے تو انھوں نے ایک دوسرے کی ملامت کرنا شروع کردی اور یہ کہا کہ جب قریش ہی مسلمان ہوگئے تو اب ہم کیا کریں چنانچہ وہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔(٣)اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہیں آیا کسی شخص نے برہنہ ہوکر خانہء کعبہ کا طواف نہیں کیا۔(٤)
______________________
(١) برہنہ ہوکر طواف کرنا مشرکوں کی دینی پستی کا ایک نمونہ تھا اور یہ قریش کی انحصار طلبی کی بنا پر تھا ۔ اس سلسلے میں اس کتاب کے پہلے حصہ کی تیسری فصل میں ''پریشان کن'' دینی حالات کے بحث میں توضیح دی گئی ہے۔
(٢) پیغمبر اسلامۖ کا یہ الٹی میٹم اختصاریا تفصیل کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے:
سیرۂ ابن ہشام، ج٤، ص ١٩١؛ تفسیر المیزان، ج٩، ص١٦٣ اور ١٦٥؛ تفسیر المنار، ج ١٠، ص١٥٧؛ البدایہ والنہایہ، ج٧، ص ٥٨؛ الغدیر، ج٦، ص٣٤٧ اور ٣٤٨۔
(٣)طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٥٤؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٢٩١.
(٤) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص١٩١؛ ابن اثیر، البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٣٧۔

نجران کے عیسائی نمائندوں کی انجمن سے پیغمبر ۖ کا مباہلہ٭
پیغمبر اسلامۖ جس طرح دنیا کے مختلف بادشاہوں اوراہل حکومت کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے خطوط لکھتے تھے اسی طرح آپ نے ایک خط اسقف نجران کے پاس بھی لکھا . اس خط میں آپ نے جناب ابراہیم و اسماعیل، اسحاق و یعقوب کے خدا کی حمد و ثنا کیساتھ اس سے (اور دوسرے عیسائیوں سے) یہ تقاضا اور خواہش کی کہ بندوں کی عبادت سے پرہیز کرتے ہوئے خداوند عالم کی اطاعت کریں. اور بندوں کی ولایت و بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی کریں اور اس کی ولایت کے سامنے سر تسلیم خم کردیں یا ٹیکس ادا کرو۔ ورنہ جنگ کیلئے تیار رہیں (١)بعض روایات کے مطابق پیغمبر اسلاۖم نے سورۂ آل عمران کی ٦٤ ویں آیت(٢) کو بھی اپنے خط میں ذکر کیا تھا۔(٣)
______________________
٭نجران یمن کا ایک علاقہ تھا جو مکہ کی سمت تھا۔ (یاقوت حموی، معجم البلدان (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ج٥، ص٢٦٦)، عماد الدین ابوالفدائ( ٧٣٢۔ ٦٧٢) لکھتے ہیں کہ ''نجران ایک چھوٹا سا شہر ہے جو نخلستان سے بھرا پڑا ہے، معتدل راستہ کے ذریعے مکہ سے نجران تک کا فاصلہ تقریباً بیس دن میں طے ہوتا ہے۔ (تقویم البلدان، عبد المحمد آیتی، انتشارات فرہنگ بنیاد ایران، ١٣٤١، ص ١٢٧۔) یہ شہر چند صدیوں کے بعد وسیع و عریض ہوگیا تھا؛ کیونکہ زینی دحلان (١٣٠٤۔ ١٢٣١ھ۔ق)، لکھتے ہیں: کہ نجران ایک بڑا شہر ہے جو مکہ سے سات منزلوں پر ہے ۔ یمن کی سمت جس میں ٧٣ قریہ ہیں، سعودی عرب کے موجودہ نقشہ کے مطابق نجران اسی ملک کا ایک شہر ہے۔ جویمن کی سرحد کے پاس ہے۔
(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٧١۔٧٠؛ رجوع کریں: البدایہ والنہایہ (بیروت: مکتبة المعارف، ١٩٧٧ئ)، ج٥، ص٥٣؛ بحار الانوار، ج٢١، ص ٢٨٥؛ وثائق، محمد حمید اللہ، ترجمہ: ڈاکٹر محمود مہدوی دامغانی، ص٣٤؛ علی احمدی، مکاتیب الرسول، (ط٣، ١٣٦٣ش)، ج١، ص ١٧٥۔
(٢) ''قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللّٰہ و لانشرک بہ شیئاً ولایتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ فان تولوا فقولوا اشہدوا بأنا مسلمون۔''
(٣)سید بن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ فیما یعمل مرة فی السنہ، تحقیق: جواد الفیومی الاصفہانی (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات حوزۂ علمیہ قم، ط٢، ص١٣٧٧)، ج٢، ص٣١١۔
پیغمبر اسلاۖم کا خط ملنے کے بعدنجران کے پادری نے بزرگان نجران او روہاں کی مذہبی اور سیاسی شخصیتوں کو ایک جگہ جمع کیا تاکہ ان سے اس موضوع کے بارے میں گفتگو کرسکے، کیونکہ عیسائی علماء کے پاس بعثت پیغمبر کی قریب الوقوع علامتیں موجود تھیں، لہٰذا ان کی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ ایک وفد مدینہ جائے جو قریب سے پیغمبر سے گفتگو کرے اور آپ کی نبوت کے دلائل کے بارے میں تحقیق کرے۔
نصارائے نجران کا یہ وفد جب مدینے پہونچا۔ تو اس میں اس وقت کی ان کی تینبڑی شخصیتیں بھی موجود تھیں جس میں خود اسقف (پاپ) بھی موجود تھا، پیغمبر اسلاۖم نے ان سے گفتگو کر کے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی نیز ان کے سامنے قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تلاوت بھی فرمائی۔ عیسائیوں نے کہا: ہم آپ سے پہلے ہی مسلمان تھے۔
حضرت نے فرمایا: تم لوگ جھوٹ کہتے ہو اسلام لانے سے تمہارے لئے تین چیزیں مانع ہیں (یعنی تم لوگوں کو تین چیزوں کی بنا پر مسلمان نہیں کہا جاسکتا) تم لوگ صلیب کی عبادت کرتے ہو، سور کا گوشت کھاتے ہو اور خدا کو صاحب اولاد سمجھتے ہو (یعنی جناب عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہو) ۔
اس کے بعد جناب عیسیٰ کی بندگی اورالوہیت کے بارے میں بحث شروع ہوگئی انھوں نے جناب عیسیٰ کے معجزات کو دلیل بنا کر، جیسے آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے، غیب کی خبر دیتے تھے، مریضوں کو شفا عطا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے لہٰذا آپ کو وہ لوگ خدا کہہ رہے تھے۔ جب کہ پیغمبر اسلاۖم آپ کی بشریت اور آپ کے بشر ہونے کے بارے میں تاکید فرما رہے تھے، یہ بحث اور گفتگو کافی طولانی ہوگئی اور انھوں نے بالآخر جناب عیسیٰ کی بشریت کو قبول نہیں کیا، اسی دور ان خداوند عالم کی طرف سے پیغمبر پر یہ وحی نازل ہوئی۔
جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خدا وہی عیسی بن مریم ہے وہ کافر ہوگئے ہیں(١) در حقیقت جناب عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک خلقت آدم کی طرح ہے کہ جن کو خاک سے پیدا کیا او ران سے کہا ہو جاؤ تو وہ
______________________
(١) سورۂ مائدہ، آیت ١٧۔
وجود میں آگئے۔٭(اگر جناب عیسیٰ کا بن باپ کے متولد ہونا ان کے فرزند خدا ہونے کی دلیل ہے تو جناب آدم تو اس منصب کے لئے زیادہ اولیٰ اور برتر تھے کیونکہ نہ ان کا کوئی باپ تھا اور نہ ماں۔ (جو کچھ جناب عیسیٰ کے بارے میں کہا گیا وہ) حق (ہے جو) آپ کے پروردگار کی طرف سے ہے پس آپ انکار کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیں)،(١) پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزندوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔(٢)
ان آیات کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاۖم نے فرمایا: ''خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو میں تمہارے ساتھ ''مباہلہ''(٣) کروں۔''
انھوں نے کہا کہ ہم اس بارے میں غور کریں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی اپنی قیام گاہ کی طرف واپس چلے گئے پھر آپس میں بیٹھ کر مشورہ کیا ان کے پادری اور وفد کے سردار نے ان کو اس خطرے کی طرف متوجہ کردیا کہ دیکھو محمدۖ خدا کے رسول ہیں اوراگر تم ان سے مباہلہ کرو گے تو عذاب نازل ہو جائے گا لیکن اس کے ساتھیوں نے اس کی ایک نہ سنی، مباہلہ پراصرار کرتے رہے۔ آئندہ روز، مباہلے کا
______________________
٭طبری کے نقل کے مطابق سورۂ آل عمران کی تقریباً ستر (٧٠) آیتیں اسی مناسب سے نازل ہوئیں ہیں۔(اعلام الوری، ص١٢٩.)
(١)سورۂ آل عمران، آیت ٦٠.
(٢)سورۂ آل عمران، آیت٦١۔
(٣) حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٢٣٦۔ ٢٣٥؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ، ج٢، ص١٤٤؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٤٧ (تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ) علامہ مجلسی نے عیسائیوں کے وفود کے ساتھ پیغمبر اسلامۖ کے مناظرہ اورملاقات کو بحار الانوار کی ٢١ ویں جلد میں صفحہ ٣١٩ سے ٣٥٥ تک مختلف کتابوں سے جمع کیا ہے۔
وقت طے پایا۔ اس وقت ان کے پادری نے کہا دیکھو کل یہ دیکھنا کہ محمدۖ مباہلہ کے لئے کس طرح آتے ہیں اگر اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ آئیں تو ان سے مباہلہ نہ کرنا کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انھیں اپنی بات پر یقین و اعتماد ہے او روہ اس راستے میں صرف اپنی ہی جان نہیں بلکہ اپنے قریب ترین بچوں اور خاندان والوں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر بالفرض وہ اپنے ساتھیوں اور اصحاب کے ساتھ آتے ہیں تو ان سے مباہلہ کرلو او ریاد رکھو کہ ان کی بات اور دعویٰ بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔ یعنی وہ اپنے ساتھ ان لوگوں کو لاکر اپنے ظاہری عظمت و جلال کو ہمارے اوپر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔(١)
آئندہ روز پیغمبر اکرم ۖ مقررہ وقت پر اپنے ساتھ حضرت علی ، جناب فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین کو لیکر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے۔(٢)
پادری نے آپ کے ساتھ ان حضرات کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ پیغمبر کے ابن عم ہیں وہ آپ کی بیٹی ہیں اور یہ دونوں آپ کی بیٹی کے بیٹے ہیں۔(٣)
پادری نے کہا : میں اس وقت ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر ایک عیسائی بھی باقی نہ رہ جائے گا۔
______________________
(١) طبرسی، اعلام الوری، (تہران: دار الکتب، الاسلامیہ، ط٣)، ص١٢٩؛ مجمع البیان، ج٢، ص٤٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص ٣٣٧۔
(٢)حلبی، سیرة الحلییہ، ج٣، ص٢٣٦؛ زینی دحلان، السیرة النبیویہ والآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٤۔
(٣) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧٢؛ طبرسی، اعلام الوری، ص١٢٩۔
پادری کی اس خطرے کی گھنٹی سے عیسائی مباہلہ کرنے سے باز رہے(١) اور پیغمبر ۖ کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے ٹیکس دینے کے لئے تیار ہوگئے جس کی تفصیل تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔(٢)
______________________
(١) حلبی، گزشتہ حوالہ، زینی دحلان، گزشتہ حوالہ؛ زمخشری، تفسیر الکشاف، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص١٩٣؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، (التفسیر الکبیر) (بیروت: دار التراث الاسلامی)، ج٨، ص٨٢؛ سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج٣، ص ٢٣١ (تفسیر ثعلبی کی نقل کے مطابق)؛ قاضی بیضاوی، انوار التنزیل، ص٧٤۔
(٢) رجوع کریں: تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧٢؛ طبقات الکبری، ج٢، ص ٣٥٨؛ فتوح البلدان، ص٧٦۔ ٧٥. وثائق، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، ص١٣٥۔ ١٣٤؛ السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٤٤؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٢٣٦؛ تفسیر کشاف، ج١، ص١٩١؛ التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، ج٨، ص١٨٢؛ المیزان فی تفسیران ، ج٣، ص٢٣٢۔