تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

فتح مکہ کے آثار اور نتائج
چونکہ مکہ مشرکین بلکہ اسلام مخالف تمام طاقتوں کا سب سے اہم اڈا اور سب سے مضبوط قلعہ اور مورچہ تھا اور مخالفین اسلام کی اصل حمایت اور پشت پناہی یہیں سے ہوتی تھی اور اسی کی بنا پر ان کے حوصلے بلند رہتے تھے۔ اس بنا پر اس شہر کی پسپائی اور اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ تاریخ اسلام میں ایک اہم
باب ہے جس کے بعد یہ بالکل مسلم ہوگیا کہ اب یہاں بت پرستی کا کوئی وجود باقی نہیں رہ سکتا۔ دوسری طرف عرب کے دوسرے قبیلے بھی فتح مکہ اور قریش جیسے بڑے قبیلے کے اسلام لانے کے منتظر تھے اورجس وقت مکہ فتح ہوا اور قریش مسلمان ہوگئے تو ہر طرف سے تمام قبائل کے نمائندے یکے بعد دیگرے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے(١)صرف دو قبیلوں ،ہوازن اور ثقیف کے علاوہ تمام عرب قبائل نے اسلام کے مقابلے میں اطاعت کا اظہار کیا، (٢) جن میں مندرجہ ذیل قبیلوں کے نمائندے شامل تھے:
قشیر بن کعب، (٣)باھلہ، (٤) ثعلبیہ، (٥) صُدا،( ٦) بنی اسد، (٧) بلّی، (٨) عذرة، (٩)ثمالہ، (١٠) اور حدّان (١١) ، ان سب نمائندوں نے پیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی اطاعت کا اعلان کردیا۔
______________________
(١) شہاب الدین احمد نویری، نہایة الارب فی فنون الادب، ترجمۂ محمود مہدی دامغانی، (تہران: امیر کبیر، ١٣٦٥) ج ٣، ص ١١.
(٢)حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج ٣، ص ٦١.
(٣)ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٣٠٣.
(٤)گزشتہ حوالہ، ص ٣٠٧.
(٥)گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٨؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧.
(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٦.
(٧)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٢؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٣٨.
(٨)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٠؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٨٩.
(٩)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٣٣١ ؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٨٣.
(١٠)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٥٢؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ١٠٣.
(١١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ.
جنگ حنین (ھوازن) اور جنگ طائف کے بعد جو فتح مکہ کے بعدہوئیں ، قبیلۂ ثقیف، جس کی حیثیت طائف میں وہی تھی جو مکہ میں قبیلۂ قریش کو حاصل تھی اس طاقتور قبیلے کے نمائندے بھی رسول اللہ کی خدمت میں پہونچے اور اسلام قبول کرنے کے لئے آپ کے سامنے کچھ شرائط رکھے لیکن آپ نے ان میں سے کوئی ایک شرط بھی قبول نہیں کی جس کے بعد وہ لوگ کسی شرط کے بغیر اسلام لے آئے(١) جو اسلام کی پیش رفت کے لئے ایک بڑی کامیابی تھی۔

جنگ حنین ٭
پیغمبر اسلاۖم فتح مکہ کے بعد (جو بیس رمضان المبارک( ٢) کو حاصل ہوئی) دو ہفتہ تک اسی شہر میں قیام پذیر رہے۔(٣) اور اس شہر کی صورت حال اور حالات کو درست کیا اور اپنے منادی کے ذریعے یہ اعلان کرایا کہ جس شخص کے گھر میں بھی کوئی بت ہو وہ اس کو توڑ دے۔(٤) اس کے علاوہ آپ نے کچھ لوگوں کو مکہ اور اس کے اطراف کے بتوں اور بتکدوں کو توڑ نے کے لئے مامور کیا۔(٥)
______________________
(١)واقدی، المغازی ، ج١، ص ٩٦٦.
٭ذو المجاز کے قریب ایک درہ جس کا نام حنین تھا۔ یا طائف کے قریب ایک پانی کی جگہ جس کا فاصلہ مکہ تک تین رات تک کا تھا۔(المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٢٨.)
(٢) واقدی، المغازی، تحقیق مارسدن جونس (بیروت: مؤسسة الأعلمی للمطبوعات)، ج٣، ص ٨٨٩؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٢٥.
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، طبری، گزشتہ حوالہ؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط ١، ١٤١٦ھ) ج١، ص ٢٢٦.
(٤)ابن واضح، تاریخ، یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.)، ج٢، ص ٥٠.
(٥) قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٧؛ نویری، نہایة الارب فی فنون الادب، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران: امیر کبیر، ط١، ١٣٦٥) ج٢، ص ٢٨١۔ ٢٨٠؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ص ١٤٧۔ ١٤٥۔
اسی دوران رسول خدا کو یہ اطلاع دی گئی کہ قبیلہ ہوازن، قبائل ثقیف ، نصر ، جشم، سعد بن بکر اور قبیلۂ بنی ہلال کے ایک گروہ کی پشت پناہی میں، مالک بن عوف نصری کی سرکردگی میں مکہ کے اوپر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،(١) جب تحقیق کی گئی تو یہ اطلاع بالکل صحیح نکلی کہ مذکورہ بالا قبائل پر مشتمل ایک بڑی فوج مکہ پر حملہ کرنے کے ارادے سے اوطاس نامی سرزمین پر پڑاؤ ڈال چکی ہے۔ رسول خدا نے مزید تحقیق کے لئے اپنے ایک آدمی کو بھیجا اس نے خفیہ تحقیق کی جس کے نتیجے میںمکہ کی طرف ہوازن کی فوج کی پیش رفت مسلم ہوگئی۔(٢)
اس وقت پیغمبر اکرم ۖ نے یہ فیصلہ کیا کہ فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ ترکیب اپنائی جائے کہ دشمن کو حملے کا موقع ہی نہ ملے اسی لئے آپ نے بڑی سرعت کے ساتھ عتاب بن اسید کو مکہ کا حکمراں قرار دیا(٣) اور بارہ ہزار کی فوج (جن میں دس ہزار آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار مکہ میں تازہ مسلمان ہونے والے شامل تھے)،(٤)لیکر دشمن کی فوج کی طرف چل پڑے اور قبیلۂ بنی سلیم کو اپنی فوج کا مقدمة الجیش قرار دیا۔(٥) راستے میں مسلمانوں کی فوج کی کثرت کو دیکھ کر بعض مسلمانوں کو غرور ہو رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم فوج کی قلت کی بنا پر نہیں ہاریں گے(٦)۔ لیکن عملاً بات اس کے برعکس ثابت ہوئی چنانچہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں اس امر کی صاف یاد دہانی کرائی ہے(٧) کہ اس جنگ میں افراد کی کثرت اور فوجیوں کی زیادتی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
______________________
(١) ابن ہشام، سیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی )، ج٤، ص ٨٠؛ تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٢٦.
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٨٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٢٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٩٣۔
(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٨٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٧.
(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٧؛ ابن سعد طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٠؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ط ٣، المکتبة الاسلامیہ، ص ١١٣؛ ابن واضح، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٢
(٥)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٩٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠.
(٦)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٨٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٣؛ شیخ مفید، الارشاد (قم: مکتبة بصیرتی)، ص ٧٤.
(٧) سورۂ توبہ، آیت ٩.

آغاز جنگ میں مسلمانوں کی شکست اور عقب نشینی
اسلامی فوج صبح کی تاریکی میں وادی حنین پہونچی، وادی حنین میں پہنچتے ہی ہوازن کے جنگجو اور سپاہی جو پہلے ہی پتھروں کے پیچھے شگافوں اور درّوںکے اندر چھپے ہوئے تھے اور وہاں سے مورچے سنبھال رکھے تھے انھوں نے اچانک مسلمانوں پر دھاوا بول دیا،(١) دشمن کا اچانک یہ حملہ اتنا کاری تھا کہ مسلمان بالکل وحشت زدہ ہوکر رہ گئے۔ پہلے قبیلۂ بنی سلیم نے جو مقدمة الجیش تھا عقب نشینی اور راہ فرار اختیار کی ،(٢) اس کے بعد دوسرے لوگ بھی فرار کرنے لگے۔ اور نوبت یہاں تک پہونچی کہ صرف حضرت علی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ رسول خدا کے پاس باقی رہ گئے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا(٣) شیخ مفید کی نقل کے مطابق صرف بنی ہاشم سے نو افراد رسول خدا کے پاس باقی رہ گئے تھے جن میں ایک حضرت علی تھے، عباس بن مطلب آپ کے چچا آپ کے دائیں طرف اور فضل بن عباس رسول خدا کے بائیں طرف تھے اور حضرت علی آپ کے روبرو تلوار سے جہاد کر رہے تھے۔(٤)

مسلمانوں کی عالیشان فتح
اتنے مسلمانوں کے فرار کر جانے کے باوجود پیغمبر اسلاۖم صبر و استقامت، شجاعت اور بہادری کا بہترین نمونہ تھے چنانچہ آپ کے اندر کسی قسم کا ضعف و تزلزل یا گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی اور آپ سکون اوراطمینان کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور فرار ہونے والوں سے فرمایا: اے لوگو! تم لوگ
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٥؛ واقدی، گزشتہ ، ص ٨٩٥؛ طبری ، گزشتہ ، ص ١٢٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ١١٤؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ) ج٢١، ص ١٦٩؛ شیخ مفید، گزشتہ ، ص ٧٥۔
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٩٧؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠.
(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٠٠؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٢.
(٤)الارشاد، ص ٧٤، اس جنگ میں حضرت علی کی شجاعت کے متعلق، رجوع کریں : امالی، شیخ طوسی (قم: دارالثقافہ، ط ١، ١٤١٤ھ)، ص ٥٧٥۔ ٥٧٤.
کہاں بھاگ رہے ہو؟ واپس آؤ کہ میں پیغمبر خدا محمد بن عبد اللہ ہوں اور اپنے چچا جناب عباس (جو اس وقت آپ کے ساتھ میدان جنگ میں بنی ہاشم کے بچے افراد میں سے تھے اوربلند آواز رکھتے تھے) سے فرمایا کہ لوگوں کو آواز دو اور پکارو اور انھوں نے مجھ سے جو عہد و پیمان اور بیعت کی ہے اس کو انھیں یاد دلاؤ، جناب عباس نے ان لوگوں کو بلند آواز سے پکار کر کہا: ''اے اہل بیعت شجرہ! اے اصحاب سورہ بقرہ! تم کہاں فرار کر رہے ہو؟ تم نے پیغمبر اکرم ۖ سے جو عہد اور پیمان کیا تھا اس کو یاد کرو''(١)
پیغمبر ۖ کی استقامت آپ کی ثابت قدمی اور پائیداری نیز مسلمانوں کو باربار واپسی کی دعوت دینے کا یہ اثر ہوا کہ بھاگ جانے والے مسلمان آہستہ آہستہ واپس پلٹنا شروع ہوئے اور رسول خدا کے پرچم تلے دوبارہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے، کچھ دیر نہ گزری تھی کہ دشمن کی فوج کا سپہ سالار اورعلمبردار حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا(٢) اور خداوند متعال کی غیبی امداد(٣) کے ذریعہ ہوازن کی فوج کو بہت سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اورچار ہزار اسیر، بارہ ہزار اونٹ اور بہت زیادہ مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔(٤) جنگ کے اختتام پر جن قبائل کے سردار مسلمان ہوگئے تھے ان کی خواہش اور درخواست کی بنا پر پیغمبر اسلاۖم نے اسیروں کو آزاد کردیا۔(٥) اس جنگ کے شہداء کی تعداد چار افراد ذکر ہوئی ہے۔(٦)
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ١٥١؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ، ج٢، ص ٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار ، ج٢١، ص ١٥٠۔
(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٥٢۔
(٣) سورۂ توبہ، آیت ٢٦۔
(٤) طبرسی، اعلام الوریٰ، ج٢، ص ١١٦،کے مطابق اسیروں کی تعداد اور مال غنیمت کی مقدار چھ ہزار اسیر اور چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زیادہ گوسفند اور چارہزار چاندی، (طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٢.)
(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥۔ ١٥٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٢ اور ١٣٥۔
(٦) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٠١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٢؛ واقدی،گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ص ٥٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص١٣٢۔
خداوند عالم نے اس جنگ میں مسلمانوں کی ابتدائی شکست اور آخر میں امداد غیبی کے سہارے ان کی بہترین کامیابی کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے:
''پروردگار عالم نے بہت سارے مواقع پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی کہ جب تمہاری کثرت نے تم کو غرور میں مبتلا کردیا تھا لیکن تم سے اس نے کوئی خطرہ دور نہیں کیا اور زمین اپنی تمام وسعتوں سمیت تمہارے اوپر تنگ ہوگئی اور تم دشمن کو پیٹھ دکھا کر فرار کر گئے''(١) تب پروردگار عالم نے اپنے رسول اور مومنین کے اوپر اپنا سکون نازل کیا اور ایسے لشکر نازل کئے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا تھا ان پر عذاب نازل کیا اور کافرین کی سزا یہی تھی''۔
______________________
(١) سورۂ توبہ، آیت ٢٦۔ ٢٥۔