دوسری فصل
اسلام کا پھیلاؤ
جنگ موتہ
جیسا کہ گزر چکا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد اپنی عالمی رسالت کا آغاز کیا اور دنیا کے شہنشاہان مملکت کو اسلام کی طرف دعوت دی اس زمانے کے ملکوں میں روم اور ایران جیسی بڑی حکومتیں سپر پاور سمجھی جاتی تھیں، قیصر روم تک پیغمبر اکرم ۖ کی نبوت کے بارے میں خبریں پہنچی تھیں جس کی بنا پر وہ اسلام قبول کرنے کی طرف مائل تھا لیکن جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اسے عیسائیوں اور روم کی فوج کی بہت سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنا پر اسے مجبوراً اپنے فیصلہ کو تبدیل کرنا پڑا،(١) اس سے صاف واضح ہے کہ ان کے دوسرے امراء اور عہدے دار اسلام کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے تھے۔ اس زاویہ نگاہ سے جنگ موتہ کی ابتدا کی صحیح علت تلاش کی جاسکتی ہے!! پیغمبر اسلاۖم نے جزیرۂ نمائے عرب سے باہر اپنی دعوت اور تبلیغ کو عام کرنے کے لئے ٨ھ میں حارث بن عمیرازدی کو یہ خط دے کر بُصریٰ ''شام'' کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔(٢)
______________________
(١)زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت : دار المعرفہ ، ط٢) ج٢، ص ١٧٠۔ ١٧١؛ حلبی، السیرة الحلبیة (انسان العیون) ، (بیروت،: دار المعرفة)، ج٣، ص ٢٨٩۔ ٢٩٠.
(٢) حلبی لکھتا ہے کہ یہ خط، روم کے بادشاہ ہرقل کے نام تھا جو اس وقت شام میں رہتا تھا، سیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٨٦.
شرخبیل بن عمروغسانی جو اس وقت قیصر روم کی طرف سے شام کا گورنر تھا(١) اس نے رسول خدا کے سفیر کو قید کرلیا اوران سے ان کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے کے بعد ''موتہ'' نامی گاؤں میں انھیں قتل کر ڈالا، پیغمبر ۖ کے لئے یہ حادثہ تلخ اور ناگوار تھا اور آپ اس سے بہت غمزدہ اور متأثر ہوئے۔(٢)
اگرچہ ایک آدمی کے قتل ہو جانے سے کوئی جنگ نہیں چھڑتی ہے لیکن اس دور میں سفرائے ملت کو جو اہمیت اور حقوق حاصل تھے ان کے مطابق اور دوسرے اخلاقی اصولوں کے برخلاف پیغمبرۖ کے سفیر کا قتل در حقیقت آپ کے لئے ایک طرح کی نظامی اور فوجی دھمکی تھی اور شام کے گورنر کی طرف سے پیغمبر ۖ کی مسالمت آمیز دینی دعوت کے مقابلے میں اپنی قدرت کا اظہار تھا اسی وجہ سے پیغمبر اکرم ۖ نے اس علاقہ میں ایک فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیا آپ کے اس اقدام کو اسلام کا پیغام عزت اوردشمن کے مقابل اپنی نظامی قوت کے اظہار کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر رسول خدا نے ٣ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکرسرزمین موتہ کی طرف روانہ کیا جس کی سپہ سالاری بالترتیب جناب جعفر بن ابوطالب(٣)؛ زیدبن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ کے حوالے کی۔ یعنی اگر ان میں سے کوئی ایک شخص
______________________
(١)وہی حوالہ ، ج٢، ص ٧٨٦.
(٢)واقدی، المغازی، تحقیق مارسڈن جونس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات) ج٢، ص ٧٥٥، طبقات الکبریٰ، ابن سعد، بیروت: دار احیائ، ج٢، ص ١٢٨.
(٣)جعفر بن ابی طالب، حبشہ میں برسوں سکونت کے بعد ٧ھ میں مدینہ پلٹ کر آئے اور فتح خیبر کے بعد اسی علاقہ میں پیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آنحضرت ۖ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٤، ص٣٥؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦ش)،ج١، ص ٢٨٧؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، (حاشیہ اصابہ میں)، ج ١، ص ٢١٠؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقق سید احمد صفر (قم: منشوراتالشریف الرضی، ١٤١٦ھ)، ص٣٠؛ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف) ، ج٤، ص٢٠٦.)
شہید ہو جائے تو دوسرا شخص اس کے بعد فوج کا سپہ سالار ہوگا۔(١)
موتہ نامی ایک دیہات کے کنارے اسلامی فوج کا سامنا روم کی فوج سے ہوا جس کے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ تینوں سپہ سالاروں نے ترتیب واراسلامی فوج کا پرچم اپنے ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے جنگ کی اور منزل شہادت پر فائز ہو گئے اس کے بعد اسلامی فوج کے سپاہیوں نے خالد بن ولید کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اس نے مختلف طریقوں سے پہلے تو دشمن کو مرعوب کیا اور اس کے بعد عقب نشینی کا حکم دیدیا اور اسلامی فوج کو مدینہ واپس لے آیا۔(٢)
واقدی نے... اس جنگ کے شہداء کی تعدادآٹھ(٣) اور ابن ہشام نے بارہ (٤)ذکر کی ہے اور
______________________
(١)طبرسی، اعلام الوریٰ بأعلام الہدیٰ (دار الکتب الاسلامیہ)، ط٣، ص ١٠٧۔ مشہور یہ ہے کہ اس لشکر کی سپہ سا لاری میں جناب زید جناب جعفر پر مقدم تھے لیکن کچھ شیعہ روایات (جیسا کہ طبرسی نے نقل کیا ہے) جناب جعفر کے مقدم ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور قرائن و شواہد بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ (جعفر سبحانی، فروغ ابدیت (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٨، ط٥، ج٢، ص ٢٩٣۔ ٢٩١۔) محمد بن سعد کی ایک روایت بھی اسی مضمون کی تائید کرتی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٢، ص١٣٠) مزید اطلاع کے لئے مجموعۂ مقالات ''دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام''، جعفر مرتضی، ج١، ص٢١٠ کے بعد، مراجعہ کریں۔
(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ ) ج٤، ص٢١۔ ١٩؛ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص١١٠۔ ١٠٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٦٩۔ ٧٥٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٠۔ ١٢٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٩٣۔ ٧٨٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ١٠٤۔ ١٠٢؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٢۔ ٦٨؛ مجلسی، بحار الانوار (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ)، ج٢١، ص ٦٣۔ ٥٠؛ طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ)، ص ١٤١۔
(٣)المغازی، ج٢، ص ٧٦٩.
(٤) السیرة النبویہ، ج٤، ص ٣٠.
بعض جدید کتابوں میں ان کی تعداد سترہ (١٧)(١) ذکر کی گئی ہے آج بھی ان شہداء کی قبریں، شہر موتہ(٢) کے نزدیک موجود ہیں اور تینوں سپہ سالاروں کی قبروں کے اوپر بہترین گنبد موجود ہیں اور جناب جعفر کی قبر کے نزدیک ایک خوبصورت مسجد بھی موجود ہے۔(٣)
فتح مکہ
جیسا کہ گزر چکا صلح حدیبیہ کے معاہدے کی ایک شق دس سال تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جنگ بندی تھی، اس کی بنا پر پیغمبر اسلاۖم کو قریش کی شرارتوں اور ان کے فوجی حملوں کی طرف سے سکون اور اطمینان حاصل ہوگیا تھا۔ اسی کے بعد آپ نے بہت بلند اقدامات کئے اور مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے متعدد لوگوں کو بھیجا اور اپنی عالمی رسالت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مدینہ کے اطراف میں بہت سے دشمن قبائل کو غیر مسلح کردیایاان سے صلح اوردوستی کا معاہدہ کیا اور خیبر جو تمام فتنوں کا اڈہ اور مرکز تھا وہ تو آپ کے ہاتھ پہلے ہی فتح ہو چکا تھا۔
قریش کی عہد شکنی
صلح حدیبیہ کے معاہدے کے دو سال بعد قریش نے اس معاہدے کو توڑ دیا کیونکہ اس صلح نامہ کی چوتھی شق کے مطابق ہر قبیلہ کو یہ اختیار تھا کہ وہ یا پیغمبر ۖ کے ساتھ معاہدہ کرلے یا قریش کے ساتھ دوستی
______________________
(١) محمد ابراہیم آیتی، تاریخ پیامبر اسلامۖ (تہران: ناشر : تہران یونیورسٹی ، ١٣٦١)، ص ٥٠١.
(٢) یہ شہر ملک اردن کے جنوبی صوبہ کرک میں ہے جو کہ شہر امان ( اردن کا دار الحکومت) سے ١٣٥ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے.
(٣) جعفر سبحانی، ملک اردن کے سفر کی رپورٹ (موتہ: ایک یادگاری جگہ ہے) مجلہ ٔ درسہائی از مکتب اسلام، سال ٣٨ شمارہ ٧ ، ماہ مہر ١٣٧٧.
کرلے۔ اسی دوران قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اور قبیلۂ بنو بکر (بنی کنانہ) نے قریش کے ساتھ اتحاد کرلیا۔(١) ٨ ہجر ی، میں قبیلہ بنی بکر نے، قبیلۂ خزاعہ پر حملہ کردیا ،اس حملہ میں قریش نے فوجی سازو سامان اور لاؤ لشکر کے ساتھ بنی بکر کا تعاون کیا اورکچھ خزاعیوں کو قتل کرڈالا۔ جس کی بنا پر حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔(٢) اس کی وجہ سے قبیلۂ خزاعہ کے سردار نے پیغمبر اکرم ۖ سے مدد طلب کی۔ حضرت نے عمومی تعاون کا اعلان کردیا(٣) اور یہ ارادہ کیا کہ مکہ پر حملہ کردیا جائے مگر اس حملہ کی اطلاع قریش کو نہ ہونے پائے اور دشمن کو اس بات کا پتہ نہ چلے اور مکہ کسی طرح کی خونریزی اور جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضہ میں آجائے،آپ نے اپنے مقصد کو پوشیدہ رکھا(٤) اور یہ حکم دیا کہ مکہ کے راستہ کو زیر نظر رکھا جائے(٥) اور خدا سے دعا کی کہ قریش کو آپ کے اس اقدام سے بے خبررکھے۔(٦)پیغمبر اکرم ۖ تمام قوت و طاقت کو جمع کر کے دس ہزار(٧) کا لشکر لیکر مکہ کی طرف روانہ
______________________
(١)ظہور اسلام سے قبل ان دو قبیلوں کے درمیان دشمنی اور خون خرابہ ہوتا رہتا تھا۔ (السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٤، ص ٣١) اسی زمانہ سے خزاعہ نے عبد المطلب کے ساتھ عہد باندھاتھا۔ (المغازی، واقدی، ج٢، ص ٧٨١.)
(٢) السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج١، ص ٣٣، المغازی واقدی، ج٢، ص٧٨٣، تاریخ یعقوبی، ابن واضح (نجف، المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق) ابن ہشام کہتا ہے: ''اس حملہ میںایک شخص قبیلۂ خزاعہ کا مارا گیا''(ج٤، ص ٣٣) لیکن واقدی اور ابن سعد نے مارے جانے والوں کی تعداد ٢٠ عدد لکھی ہے (المغازی، ج٢، ص ٧٨٤، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ١٣٤.)
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ،ج٢، ص ٨٠٠۔ ٧٩٩، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٥.
(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٠٢۔ ٧٩٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٤.
(٥)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧٩٦ ۔ ٧٨٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٤.
(٦) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤٧.
(٧) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٤٢۔ ٤٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٠١.
ہوگئے آپ کی یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور جب تک اسلامی فوج نے مکہ کے دروازہ کے سامنے (مرّ الظہران کے مقام پر) پڑاؤ نہ ڈال دیا قریش کے جاسوس اس سے باخبر تک نہ ہوسکے۔
جناب عباس، پیغمبر ۖ کے چچا اس وقت تک مکے میں موجود تھے اور جب اسلامی لشکر مکہ کی طرف آرہا تھا تو یہ مدینے کی طرف جارہے تھے، جحفہ کی منزل پر وہ پیغمبر اکرم ۖ کی خدمت میں پہونچے اور مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس پلٹ آئے۔ اسلامی لشکر نے مکہ کے باہر جو پڑاؤ ڈال رکھا تھا اس کی آخری شب میں شہر سے باہر ابو سفیان سے آپ کا سامنا ہوا آپ اس کو پیغمبر اکرم ۖ کی خدمت میں لائے(١) ابوسفیان اسلامی لشکر کی عظمت اور کثرت کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا رسول خدا نے اس کو معاف فرما دیا اور جناب عباس کی اس درخواست کے مطابق کہ جو شخص بھی مسجد الحرام میں پناہ لے لے یا اپنے گھر میں بیٹھا رہے یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے، وہ امان میں ہے۔
اسلامی لشکر کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ابوسفیان نے رسول خدا کی طرف سے جاری امان نامے کی اطلاع اہل مکہ کو دیدی اس تدبیر کی وجہ سے آپ کو کسی طرح کے خون خرابے کی نوبت نہیںآئی اوراہل شہر کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت اور مقابلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور مکہ آسانی کے ساتھ فتح ہوگیا، شہر کے صرف ایک حصہ میں جہاں کچھ ہٹ دھرم قسم کے قریش رہتے تھے انھوں نے پیغمبرۖ کا مقابلہ کرنا چاہا جن میں سے کچھ لوگ مارے گئے۔(٢)
پیغمبر اکرم ۖ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد اونٹ پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اس دوران آپ کے ہاتھ میں جو عصا تھا اس کے ذریعہ کعبہ کے چاروں طرف رکھے ہوئے بتوں کو گراتے رہے اور فرماتے رہے: (حق آگیا اور باطل چلا گیا بیشک باطل، تو نابود ہونے والا ہے)۔(٣)
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٤٢، ٤٤، ٤٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨١٩۔ ٨١٧.
(٢)١٥ سے ٢٨ افراد ۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٥٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٢٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٦.)
(٣)(جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقاً)، سورۂ اسرائ، آیت ٨١.
اور اس کے بعد جیسا کہ مورخین اور محدثین کے درمیان مشہور ہے حضرت علی پیغمبر ۖ کے حکم سے آپ کی دوش مبارک پر چڑھے اور وہ بڑا بت جو کعبہ کے اوپر تھا اس کو نیچے گرادیا اور وہ زمین پر گرتے ہی چکنا چور ہوگیا۔(١)
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٥٩؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٣٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٦؛ اسی طرح رجوع کریں، طوسی، امالی (قم: دار الثقافہ، ١٤١٤ھ)، ص ٣٣٦؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دارالمعرفہ)، ج٣، ص ٣٠؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ط١، ١٤١٦ھ)، ج١، ص ٣٢٢؛ علی بن موسی بن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام)، ج١، ص٨١۔ ٨٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج٢، ص ١٣٦۔ ١٣٥؛ جار اللہ زمخشری، تفسیر کشاف، مکتبہ مصطفی البابی الحلبی، ج٢، ص ٢٤٤.
علامہ امینی نے اس واقعہ کو اہل سنت کے ٤١ محدثین سے نقل کیا ہے (الغدیر، ج٧، ص ١٢١، تذکرة الخواص، اور بحار اور دوسری کتابوں میں منقول کچھ روایات کے مطابق) یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کسی سال میں رونما ہوا ہے اور شب میں قریش کی نظروں سے دور انجام پایا ہے اور اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ واقعہ دو طرح سے رونما ہوا ہے۔ پیغمبر اسلاۖم کے شانے پر علی کے سوار ہونے کا واقعہ قدیم زمانے سے متعدد شعراء کے اشعار میں بیان ہوا ہے ان میں سے ابن العرندس حلی نویں صدی ہجری کے شاعر نے ایک بہترین قصیدہ کے ضمن میں کہا ہے: و صعود غارب احمد فضل لہ دون القربة و الصحابہ افضلا (الغدیر، ج٧، ص ٨) یعنی علی کا احمدۖ کے شانے پر سوار ہونا ایک ایسی بڑی فضیلت ہے اور ان کے لئے یہ فضیلت قرابتداری اور صحابی ہونے کے علاوہ ہے۔ اسی طرح ابن ابی الحدید نے اپنے ''سبع علویات'' قصائد میں سے ایک قصیدے میں جو کہ فتح مکہ کے موقع کا ہے، کہا ہے کہ:
رغبت بأسمیٰ غارب احدقت بہ ملائک یتلون الکتاب المسطرا
بغارب خیر المرسلین و اشرف الأ نام و ازکیٰ فاعل و طیء الثّریٰ
''قرآن کی تلاوت کرنے والے ملائکہ جس بلندترین دوش مبارک کا احاطہ کئے ہوئے تھے اس پر آپ سوار ہوئے ، جو اس دنیا میں سب سے بہترین ذات گرامی رسولوںمیں سب سے بہتر لوگوں میں سب سے زیادہ باعظمت اور مقدس جس نے اس زمین پر قدم رکھا ''(دکتر محمد ابراہیم آیتی بیرجندی، تاریخ پیامبر اسلام، انتشارات دانشگاہ تہران، ص ٥٣٠۔ ٥٢٩).
امام جعفر صادق سے منقول روایت کے مطابق حضرت علی نے جس بت کو توڑا تھا اس کانام ''ہبل'' تھا جس کو پیغمبر کے حکم سے باب بنی شیبہ میںدفن کردیا جو مسجد الحرام کا ایک دروازہ ہے تاکہ لوگ مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت اس کے اوپر سے گزر کر جائیں اور اسی بنا پر اس دروازے سے مسجد الحرام میں داخل ہونا مستحب قرار پایا ہے۔(١)
پیغمبر اسلاۖم کی طرف سے عام معافی کا اعلان
اگر چہ قریش اور مشرکین مکہ نے آغاز اسلام سے لیکر اب تک مسلمانوں کی دشمنی، مخالفت اور ان پر دباؤ اور ظلم اور تشدد میں کسی قسم کی فروگزاشت نہیں کی تھی اور اس دن پیغمبر ۖ کے پاس ہر قسم کا انتقام لینے کی قوت اور طاقت تھی اس کے باوجود آپ نے چند لوگوں کے علاوہ کہ جنھوں نے کچھ زیادہ ہی بڑے جرائم کا ارتکاب کیا تھا،(٢) بقیہ سب لوگوں کو عام معافی دینے کا اعلان کر دیا اور فرمایا :
میںاپنے بھائی یوسف کی بات ہی کہوں گا کہ آج تمہارے اوپر کوئی سرزنش نہیںہے خدا تمہیں معاف کرے اور وہ ارحم الراحمین، سب سے زیادہ مہربان ہے(٣)جاؤ تم لوگ جاؤ، تم لوگ آزاد شدہ ہو۔(٤)
______________________
(١)حر عاملی، وسایل الشیعہ (بیروت: دار احیاء التراث الاسلامی)، ج ٩، ص ٣٢٣، ابواب مقدمات الطواف، باب استحباب دخول المسجد الحرام من باب بنی شیبہ، حدیث ١.
(٢)مورخین نے ان کی تعداد آٹھ سے دس تک لکھی ہے (السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج ٤، ص ٥٣ ۔ ٥١؛ المغازی
واقدی، ج٢، ص ٨٢٥، طبقات الکبریٰ ابن سعد، ج٢، ص ١٣٦، البتہ ان میں سے کچھ لوگوں کو معاف کردیا گیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔
(٣)''لاتثریب علیکم الیوم یغفر اللّٰہ لکم و ہو ارحم الراحمین''سورۂ یوسف ، آیت ٩٢.
(٤) حلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون)، ج٣، ص ٤٩؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص ٩٨.
قریش جو ذلت کے ساتھ تسلیم ہوئے تھے اور انھیں حضرت کی طرف سے سخت انتقامی کاروائی کا خدشہ تھا آپ کی اس شرافتمندانہ اور کریمانہ عفو و بخشش سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ رسول خدا نے خانۂ کعبہ کے پاس لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
خداوند عالم نے اول تخلیق سے مکہ کو محترم اور مقدس قرار دیا ہے یہ شہر روز قیامت تک حرم اور مقدس سرزمین ہے کسی مسلمان کو حق نہیںہے کہ اس سرزمین پر خون ریزی کرے اس کا درخت کاٹے، اس شہر کی حرمت مجھ سے پہلے کسی شخص پر حلال نہیں ہوئی اور نہ میرے بعد کسی پر حلال ہوگی اور میرے لئے بھی صرف اسی وقت (یہاں کے لوگوں پر غصہ کی وجہ سے) حلال ہوئی ہے اور اس کے بعد اس کی وہی صورت حال رہے گی یہ بات حاضرین، غائبین تک پہونچادیں۔(١)
پیغمبر اسلاۖم نے فتح مکہ کے بعد وہاں کی مسلمان عورتوں سے یہ عہد لیاکہ کسی کو خدا کا شریک نہ بنائیں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں، اپنے ناجائز بچوں کو بہتان اور حیلے کے ذریعہ اپنے شوہروں کے سر نہ تھوپیں اور نیک کاموں میں پیغمبر ۖ کی نافرمانی نہ کریں۔(٢)
بعض شہرت یافتہ لوگوں نے جو بعد میں بہت ہی مشہور ہوئے اور کسی عہدے یا مقام تک
______________________
(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٥٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج ٢، ص ٨٤٤؛ الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ۔
(٢) سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٩، ص ٢٤٦۔ یہ عہدنامہ سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر ١٠ ''یا ایہا النبی اذا جاء ک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللّٰہ شیئاً و لایسرقن و لایزنین و لایقتلن اولادہن و لایأتین ببھتان یفترینہ بین أیدیہن و أرجلہن و لایعصینک فی معروف فبایعہن و استغفر لہن اللّٰہ ان اللّٰہ غفور رحیم'' کے نازل ہونے کے بعد انجام پایا، اس کو بیعة النساء بھی کہا جاتا ہے۔
پہونچے انھوں نے بھی فتح مکہ میں اسلام کا اظہار کیا ، جس میں ابوسفیان(١)اور اس کا بیٹا معاویہ(٢) بھی شامل تھا۔
فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے سخت اور دشوار گزار حالات کی بنا پر اور فتح مکہ کے بعد اس کی جگہ، امن و سکون اور اطمینان کا ماحول پیدا ہو جانے کی وجہ سے پروردگار عالم نے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو جانے والے افراد کو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے لوگوں سے بہتر اور با عظمت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ''تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے ہو جب کہ آسمان اور زمین کی میراث کا تعلق خدا سے ہے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق اور جہاد کیا ان کا درجہ یقینا ان لوگوں سے زیادہ افضل ہے جنھوں نے بعد میں انفاق اورقتال کیا ہے خدا کا ہر وعدہ نیک ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔(٣)
______________________
(١)ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ١٣٥؛ ابن اثیر ، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦)، ج٤، ص ٣٨٥ و ج٥، ص ٢١٦؛ ابن عبد البر، الاستیعاب (در حاشیہ الاصابة) ج٢، ص ٨٥.
(٢) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٣٨٥؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩٦.
(٣)''وما لکم ان لا تنفقوا فی سبیل اللّٰہ و للہ میراث السمٰوات والارض لایستو منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلًّا و عد اللّٰہ الحسنی واللّٰہ بما تعملون خبیر'' سورۂ حدید ، آیت ١٠.
|