تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

بیعت رضوان
آخرکار پیغمبر اسلامۖ نے عثمان بن عفان کو ان کے پاس بھیجا تاکہ ان کے مقصد سے قریش کو آگاہ کریں۔ عثمان کے پلٹنے میں تاخیر ہوئی تو مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑی کہ قریش نے ان کو قتل کردیا ہے۔(١)
اس موقع پر پیغمبر ۖ نے اپنے اصحاب کوایک درخت کے نیچے جمع کیا او ران کے ساتھ عہد و پیمان پائیدار کیا۔(٢)
بیعت کی رسم ختم ہوئی ہی تھی کہ معلوم ہوا کہ عثمان کے قتل کی خبر غلط تھی یہ عہد نامہ چونکہ درخت کے نیچے کیا گیا او راس میں شرکت کرنے والوں سے خدا نے خوشنودی اور رضایت کا اظہار کیا(٣) لہٰذا اس کو ''بیعت رضوان'' اور ''بیعت شجرہ'' کہا گیا ہے۔

پیمان صلح حدیبیہ (فتح آشکار)
عثمان کے بے نتیجہ پلٹنے کے بعد آخرکار سہیل بن عمرو قریش کا نمائندہ بن کر پیغمبر ۖ کے پاس آیا اور آنحضرتۖ سے مذاکرات کئے او رکہا کہ قریش کی طرف سے ہر طرح کی بات چیت کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اس سال مسلمان عمرہ نہ کریں۔(٤)
اس گفتگو کے ذریعہ جو عہد و پیمان کیا گیا وہ ''صلح حدیبیہ'' کے نام سے مشہو رہوا ،جس کی شرطیں یہ ہیں:
١۔ قریش اور مسلمان اس بات کا عہد کریں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے اور اجتماعی امن و امان برقرار رکھیں گے۔
٢۔ محمد ۖ اور تمام مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیںہوں گے لیکن آئندہ سال قریش اسی موقع پر مکہ سے باہر چلے جائیں گے اور مسلمان تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کریں گے؛ اور مسافر جتنا ہتھیار لے کر چل سکتا ہے اس سے زیادہ وہ اپنے ساتھ ہتھیار نہ رکھیں۔(٥)
______________________
(١) المغازی، ج٢، ص ٦٠٢.
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٧٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩۔ ٩٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٥٠؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٦.
(٣) ''لقد رضی اللّٰہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة فعلم ما فی قلوبہم فانزل السکینة علیہم و اثابہم فتحاً قریباً'' سورۂ فتح، آیت ١٨.
(٤) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٧٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣١.
(٥) اس شرط کی رو سے، پیغمبر اسلام ۖ او رمسلمانوںنے ٧ھ میں عمرہ انجام دیا جس کو ''عمرة القضائ'' کہا گیا ہے۔
٣۔ اگر قریش کا کوئی آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ۖ کے پاس چلا جائے تواس کو مکہ واپس کیا جائے اور اگر محمد ۖ کے ساتھیوںمیں سے کوئی قریش کے پاس آجائے تو قریش اس کو واپس نہیں کریں گے۔
٤۔ ہر قبیلہ آزاد ہے چاہے وہ محمد ۖ کے ساتھ عہد و پیمان کرے یا قریش کے ساتھ ، (اس مقام پر قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان کا اعلان کیا اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہد و پیمان کا اعلان کیا)۔
٥۔ مسلمان اور قریش دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہیں کریں گے اور ان کے دشمن کا ساتھ نہیں دیں گے اور دشمنی کا اظہار نہیں کریں گے۔(١)
٦۔ مکہ میں اسلام کی پیروی آزاد رہے گی ا و رکسی بھی شخص کو ایک خاص دین کی پیروی کی خاطر اذیت نہیں دی جائے گی اور اس کی مذمت نہیں کی جائے گی۔(٢)
٧۔ اصحاب محمد ۖ میں سے جو شخص حج یا عمرہ یا تجارت کے لئے مکہ جائے اس کی جان و مال امان میں رہے گی اور قریش میں سے جو شخص مصر یا شام جانے کے لئے مدینہ کے راستہ سے گزرے گا اس کی جان و مال امان میں رہے گی۔(٣)
______________________
(١) پیمان کی اس شرط کا عربی متن یہ ہے: ''لااسلال و لا اغلال و ان بیننا و بینہم عیبة مکفوفة'' اسلال کے معنی خفیہ چوری اور کسی کی حمایت و مدد کرنا اور نیز رات کو حملہ کرنے کے معنی میںہے ۔ (ابن اثیر، النہایة فی غریب الحدیث والاثر، ج٢، ص ٣٩٢، مادۂ سل) قرائن کے حساب سے، یہاں دوسرے معنی مراد ہیں (احمد میانجی ، مکاتیب الرسول، ج١، ص ٢٧٧)، اسی وجہ سے (بعض معاصر مورخین کے برخلاف) ہم نے اس کا ترجمہ چوری نہیںکیاہے۔
(٢) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٥١۔ ٣٥٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٢؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٧؛ بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٥٢؛ او ررجوع کریں : طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٩٧، ١٠١، ١٠٢۔
(٣) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٧؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٥٠ اور ٣٥٢.

پیغمبرۖ کی پیشین گوئی
پیمان صلح کے اصول پر موافقت کے بعد، جس وقت پیغمبر ۖ کے کہنے پر علی نے صلح نامے کا مضمون لکھا تو نمائندہ قریش نے صلح نامے کے اوپر، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم،اور نام محمد کے بعد'' رسول اللہ'' لکھنے کی مخالفت کی اور اس موضوع پر گفتگو کافی طولانی ہوگئی اور آخرکار رسول خدۖا نے کچھ مصلحتوں کے پیش نظر جو اس عہد و پیمان میں پائی جاتی تھیں، مجبور ہوکر موافقت کی اور علی رسول اللہ کا عنوان مٹانے سے کنارہ کش ہوگئے تو آپ نے فرمایا: ایسے حالات تمہارے لئے بھی پیش آئیں گے او رمجبور ہوکر تمہیں بھی ماننا پڑے گا(١) اور یہ پیشین گوئی جنگ صفین میں مسئلہ حکمیت کے موقع پر معاویہ کے اصرار پر علی کے نام کے آخر سے'' امیر المومنین کا عنوان'' مٹانے پر ، پوری ہوئی۔(٢)

صلح حدیبیہ کے آثار و نتائج
چونکہ مسلمان مستقبل میں اس صلح کے آثار و نتائج سے بے خبر تھے، لہٰذا اس کو ''شکست'' سمجھتے تھے(٣) اور کچھ لوگ اس کو منت و سماجت کہتے تھے۔(٤) تاکہ رسول خدا ۖ کو اس صلح پر دستخط کرنے سے روک
______________________
(١) طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص ١١٨؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٥٠۔ ٣٣٤؛ صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: مکاتیب الرسول، علی احمد میانجی، ج١، ص ٢٧٥ اور ٢٨٧؛ کتاب وثائق، تالیف محمد حمید اللہ، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، (تہران: ط و نشر بنیاد، ط ١، ١٣٦٥)، ص ٦٦و ٦٨.
(٢) نصربن مزاحم، گزشتہ حوالہ، ص ٥٠٩۔ ٥٠٨؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص ١٧٩؛ ابوحنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، تحقیق: عدالمنعم عامر (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیہ ، ١٩٦٠.)، ص ١٩٤؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٣، ص ٣٢؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٠٨.
(٣) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٥٠.
(٤) واقدی، مغازی، ج٢، ص ٦٠٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٣٣١؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک ج٣، ص ٩٧؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٠٦؛ اس واقعہ میں پیغمبرۖ کے ارادہ کی بعض مسلمانوں کی طرف سے کھلی مخالفت ایک طرح سے حکم پیغمبرۖ یادرحقیقت حکم خدا کے مقابلہ میں ان کے بے جا اجتہاد یا خودرائے کی علامت تھی۔ اس قسم کی حرکت جو کہ بعد میں بھی پیغمبر ۖ کے چند صحابیوںکی طرف تکرار ہوئی، تاریخ اسلام میں تلخ و ناگوار واقعات کا سرچشمہ بنی جبکہ مسلمان ہونے کا مطلب حکم خدا اور پیغمبر ۖکی اطاعت اور پیروی ا وران کے ارادہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''و ماکان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی اللّٰہ و رسولہ أمراً أن یکون لہم الخیرة من أمرہم و من یعص اللّٰہ و رسولہ فقد ضل ضلالاً مبیناً'' (سورۂ احزاب، آیت ٣٦.)

سکیں؛ لیکن جیسا کہ پیغمبراسلامۖ نے پیشین بینی کی تھی،اس صلح میں متعدد سیاسی و سماجی اثرات و نتائج پائے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ اس صلح کے نتیجے میں مشرکین نے مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کیا۔ جبکہ اس سے پہلے مشرکین مسلمانوں کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کی نابودی میں لگے ہوئے تھے۔
٢۔ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان جو آ ہنی دیوار حائل تھی وہ اس صلح کے نتیجہ میں گر گئی او رمکہ و مدینہ میںآمد و رفت، اور دونوں طرف کے لوگوںمیں آزادانہ ارتباط اوراعتقادی بحث و مباحثہ کی وجہ سے مشرکین کی ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کے استدلال اور نئی منطق کو سن کر اسلام کی طرف راغب ہوگئی اور مسلمان ہونے والوں کی تعداد اس صلح کے بعد فتح مکہ والے سال تک، ان کی گزشتہ مجموعی تعداد کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگئی۔(١)
اس بارے میں یہ جاننا کافی ہوگا کہ اس سفر میں پیغمبر ۖ کے اصحاب اٹھارہ سو (١٨٠٠) سے زیادہ نہیںتھے جبکہ دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر اسلامی سپاہیوںکی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
امام جعفر صادق ، اسلام کے حق میں حالات کی اس بڑی تبدیلی کے بارے میں فرماتے ہیں: ''ابھی دو سال صلح کا زمانہ تمام نہیںہوا تھا کہ قریب تھا کہ اسلام پورے مکہ پر چھا جائے''۔(٢)
______________________
(١) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٣٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧١.
(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٦٣.
٣۔ قریش کی مخالفتیں او ردشمنیاں اور ان کے فوجی حملوں کی وجہ سے، پیغمبر ۖ کے لئے اتنا موقع فراہم نہیںہوسکا تھا کہ جزیرة العرب کے ا ندر اور باہر اعلیٰ پیمانے پر تبلیغ کرسکیں، لیکن صلح کے بعد رسول خدا ۖ کامیاب ہوئے کہ دشمنوں کو مدینہ کے اطراف سے ختم کر کے متعدد تبلیغی جماعتیں مختلف علاقوںمیں بھیجیں۔ جیسا کہ ہم بیان کریں گے۔ دنیا کے سربراہوں او راہم شخصیتوں کو اسلام کی طرف دعوت کے خطوط، صلح حدیبیہ کے بعد ہی بھیجے گئے ہیں۔
٤۔ یہ صلح ایک طرح سے فتح مکہ کا باعث قرار پائی۔ اس لئے کہ صلح کی چوتھی شرط کے بموجب قبائل کا قریش یا مسلمانوں سے ملنا، آزاد اعلان ہوا تھا اور قبیلہ ''خزاعہ'' مسلمانوں کے ساتھ متحد ہوگئے تھے اور قریش نے اس قبیلے پر حملہ کر کے عہد شکنی کی جس کے نتیجہ میں پیغمبر ۖ نے فتح مکہ کا اقدام کیا۔
یہ صلح اپنے درخشندہ آثار و نتائج کے لحاظ سے، مسلمانوں کے لئے بہت بڑی فتح اور کامیابی قرار پائی۔ جیسا کہ حدیبیہ سے پلٹتے وقت، مدینہ کے راستے میں ''سورۂ فتح'' پیغمبر ۖ پر نازل ہوا(١) اور خداوند عالم نے اس صلح کو ''فتح مبین'' کہا۔(٢)
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٠٥۔ ١٠٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٣٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧١٤.
(٢) ''انا فتحنا لک فتحاً مبیناً''.