|
تجزیہ و تحلیل
اگرچہ اس واقعہ کی تفصیلات (جیسے بنی قریظہ کے سپاہیوں کی تعداد یا جو لوگ فرمان قتل کو بجالائے) کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف موجود ہے لیکن اصل واقعۂ زمانۂ قدیم سے مورخین کے درمیان مشہور اور مسلم تھا اور ہے یہاں پر اگر اس مسئلہ کے بارے میں دو نظریوںکا تجزیہ و تحلیل کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
١۔ بعض یورپی تاریخ نگاروں نے بنی قریظہ کے ساتھ پیغمبر ۖ کے سلوک پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے
ایک وحشیانہ اور غیر انسانی اقدام کہا ہے۔(١) لیکن بنی قریظہ کے جرم و جنایات کودیکھتے ہوئے اس نکتہ چینی کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف عہد شکنی اور جنگ کے اعلان پر اکتفا کی بلکہ جیسا کہ بیان ہوا مدینہ کے اندر دہشت پھیلانے والی کاروائیاں اور نیز لشکر احزاب کے لئے غذائی رسد کا کام انجام دے کر او رحقیقت میں ان کی مالی امداد کے ذریعہ عملی طور پر جنگ میں شریک تھے اور ہم جانتے ہیںکہ اس طرح کے اقدامات جنگ کے مواقع پر کسی قوم کے نزدیک قابل چشم پوشی نہیں ہیں اور اس کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ پیغمبر اسلاۖم اس عہد و پیمان کی رو سے جوان سے کیا تھا ان کو سزائیں دینے کا حق رکھتے تھے لیکن اوسیوں کی درخواست پر فضل کے عنوان سے سعد کی قضاوت کا مشورہ دیا اور اس مشورہ کو اوسیوں اور بنی قریظہ نے قبول کرلیا. لہٰذا اعتراض کا کوئی سوال باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
اس سے قطع نظر، یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عفو و درگزر کہاں اور کس کے بارے میں بہتر او رمناسب ہے؟ کیا وہ لوگ ، جو انسانی صورت تو رکھتے ہیں لیکن انسانی وقار کو پائمال کردیتے ہیں اوراپنے کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوتے ۔
______________________
(١) مونٹ گری واٹ، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبة العصریہ)، ص ٣٢٧، مولف کتاب نے بھی ٢٣ سال تک ان یورپی سیرت نگاروں کا ہم نوا بن کر بنی قریظہ کی مذمت پر اعتراض کیا ہے وہ بنی قریظہکی بڑی خیانت کا تذکرہ کرنے کے باوجود لکھتاہے: ''جنگ خندق میں مدینہ کا محاصرہ کرنے سے مسلمانوںکی زندگی دشوار ہوگئی تھی اور مکہ پر حملہ آوروں کے ساتھ بنی قریظہ کا مل جانا ایک ممکن الوقوع امر تھا اور جب بھی ا یسا ہوتا، مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور احتمال قوی پایا جاتا تھا کہ محمد ۖ کی تحریک بالکل مٹ جاتی...'' اس کے باوجود وہ مزید لکھتا ہے . لیکن محمد ۖ کو ان پر رحم کرنا چاہیئے تھا (مصطفی حسینی طباطبائی، خیانت در گزارش تاریخ (تہران: انتشارات چاپخش، ط ١، ١٣٦٦)، ج٣، ص ١٦٥۔ ١٦٤)
جن کا وجود، دشمنی، کینہ او رہٹ دھرمی سے لبریز ہو، عفو و گزشت کے قابل ہیں؟(١)
کیا بنی نضیر کے یہودیوں کے ساتھ ''حی ابن اخطب'' کی رہبری میں نرمی کا سلوک نہیں کیا گیا تھا؟ لیکن وہ سازش کرنے سے باز نہ آئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ کیا ضمانت پائی جاتی تھی کہ حی ابن اخطب اور کعب بن اسد گزشتہ امور کی تکرار نہیں کریں گے۔ اور دوسرے بڑے لشکر کو اسلام او رمسلمانوں کی نابودی کے لئے اکٹھا نہیں کریں گے؟ کیا ان کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا برتاؤ ، ایک خونخوار جانور پر رحم کرنے جیسا نہیں ہے۔
مدینہ کے محاصرہ کے ایام میں ، ایک دن ابوسفیان نے پیغمبر اسلاۖم کوایک دھمکی آمیز خط میں لکھا: ''لات و عزیٰ کی قسم، اس لشکر کے ساتھ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا ہوں اور ہم چاہتے ہیںکہ ہرگز دوبارہ جنگ کی ضرورت نہ پڑے اس حملہ میں تم کو نیست و نابود کردیں گے۔ لیکن اگر (بغیر جنگ کے) مکہ پلٹ گئے تو روز احد کے مانند تمہارے لئے ایک دن ایسا لائیں گے کہ عورتیں اس دن گریبان چاک کر ڈالیں گی۔(٢) کیااگر ایسی صورت حال پیش آجائے تو بنی قریظہ دوسری بار لشکر احزاب کا ساتھ نہیں دیں گے؟
اس سے قطع نظر کہ سعد کا حکم توریت کے حکم کے مطابق تھا اور شایدوہ یہودیوں سے قریبی تعلقات
______________________
(١) بنی قریظہ کے آخری ایام میںان کے بعض مخفی مذاکرات (جیسے کعب بن اسد کا مشورہ، عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا ) او رنیز پھانسی دینے سے قبل ان کی بعض حرکتوں اور عکس العمل نے، ان کی شدید دشمنی، بے رحمی او رہٹ دھرمی کا پردہ فاش کردیا، جیسا کہ ان میں سے ایک کو بعض مسلمانوں کی درخواست پر پیغمبر ۖ نے معاف کردیا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا اور اسے بھی قتل کرنا پڑا ۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٥٤۔ ٢٥٣.)
(٢) واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٩٢.
اور ہم پیمان ہونے کی وجہ سے ان کے قضائی قوانین سے آگاہی بھی رکھتے تھے۔
توریت میںاس طرح سے نقل ہوا ہے: ''جس وقت کسی شہر کی طرف جنگ کے لئے جاؤ تو پہلے ان تک صلح کا پیغام پہنچاؤ اور اگر وہ تم کو صلح آمیز جواب دیں اور شہر کا دروازہ تمہارے لئے کھول دیں، جس میں تمام قوم کے لوگ پائے جاتے ہوں اور ٹیکس دیکر تمہارے تابع ہو جائیں، تو ان سے جنگ نہ کرنا ۔ اور اگر تم سے صلح نہ کرکے، جنگ کریں تو ان کا محاصرہ کرلو اور چونکہ تمہارے خدا نے کا ان کو تمہارے حوالے کردیا ہے لہٰذا ان کے تمام مردوں کو تلوار سے قتل کرڈالو۔اور ان کی عورتوں، بچوں اورمویشیوں اور جو کچھ ان کے شہر میں ملے یعنی ان کے تمام مال غنیمت کو لوٹ لو اور اسے کھاؤ۔(١)
٢۔ اس دور کا ایک محقق، بنی قریظہ کی سزائوںکا منکر ہوگیاہے اور کچھ دلائل اور قرائن کو دلیل بنا کر پیغمبر ۖ کی جانب سے اس طرح کی سخت سزاؤوں کے دیئے جانے کو بعیدقرار دیتا ہے۔(٢)
یہ نظریہ ـ اگرچہ بعض یورپی تاریخ نگاروںکی تنقید یا صہیونزم کے پروپیگنڈہ کے مقابلہ میں ایک طرح کا دفاعیہ تو ہوسکتا ہے لیکن جیسا کہ بعض بڑے دانشمندوںنے اس نظریہ پر تنقید کی ہے،(٣) یہ دلائل محکم نظر نہیں آتے، خاص طور سے اس استدلال میں سورۂ احزاب کی ٢٦ ویں آیت کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے جو کہ اصل واقعہ کی حکایت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ احزاب کے بعد سے تاریخ میں بنی قریظہ کا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا جبکہ اگر واقعہ صحیح نہ ہوتا تو فطری طور ان کے بعد کے حالات، تاریخ میں ذکر ہوتے۔
______________________
(١) توریت ، ترجمۂ ولیم کلن قیس اکسی، لندن، ١٣٢٧ ھجری ، سفر مثنی، بیسویں فصل اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے سعدکی کتابوںکی طرف رجوع کریں: جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج٢، ص ١٥٧۔ ١٥٤.
(٢) سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان امویان (تہران: مرکز نشر یونیورسٹی، ط ٦، ١٣٦٥)، ص ٧٥۔ ٧٣
(٣) سیدعلی میر شریفی، نگرشی کوتاہ بہ غزوۂ بنی قریظہ، مجلہ نور علم، شمارہ ١١، اور ١٢.
جنگ بنی مصطلق
شعبان ٦ھ (١) میں پیغمبر اسلاۖم کو خبر ملی کہ حارث بن ابی ضرار، بنی مصطلق کا رئیس (قبیلۂ خزاعہ کا ایک خاندان) ، اپنے قبیلہ والوں اوراس کے علاقہ کے کچھ عرب لوگوں کو مدینہ پر حملہ کے لئے تیار کر رہا ہے ۔ پیغمبر اسلام ۖ نے اسلامی سپاہیوں کو آمادہ کیا اور ''مریسیع'' ٭کنواں کے پاس، بحر احمر کے ساحلی علاقہ تک گئے. اس علاقے میں جنگ ہوئی اور بنی مصطلق بہت جلد ہار کھا گئے اوران سے بہت ساری دولت اور اسیر مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔(٢)
جُویریہ ـ حارث کی لڑکی ـ بھی اسیروں میں تھی۔ حارث اپنی لڑکی کی آزادی کے لئے مدینہ میں پیغمبر ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب آنحضرتۖ نے اسے غیب سے خبر دی کہ وہ دو اونٹ اپنی لڑکی کی رہائی کے لئے لایاہے اور راستے میں چھپا رکھاہے، تو وہ مسلمان ہوگیا۔ پیغمبر اسلام ۖ نے جویریہ کو آزاد کردیااور پھر اس سے شادی کرلی۔(٣)
______________________
(١) مورخین کے بعض گروہ، جیسے واقدی، بلاذری، اور محمد بن سعد اس غزوہ کو پانچویں سال کے حوادث میں سے شمار کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس کو جنگ احزاب کے پہلے تحریر کیا ہے۔ بعض قرائن ، ان کے اس نظریہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں۔ رجوع کریں: السیرة النبویہ، ج٣، ص٣٠٢، حاشیۂ؛ وفاء الوفائ، ج١، ص٣١٤.
٭اسی مناسبت سے اس غزوہ کو غزوۂ مریسیع بھی کہا جاتاہے۔
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨۔ ٣٠٢؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٦۔ ٦٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٢٩٠۔ ٢٨١)
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨؛ مفید، الارشاد (قم: المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ١١٩۔ ١١٨؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٢٠١.
مسلمانوں نے پیغمبر ۖ کے احترام میں اسیروں کو جو اب پیغمبرۖ کی زوجہ کے رشتہ دار سمجھے جانے لگے تھے، آزاد کردیا اس وجہ سے جویریہ کو اپنے رشتہ داروں کی بہ نسبت سب سے بابرکت عورت کے عنوان سے یاد کرتے تھے۔(١)
یہ شادی پیغمبر اسلامۖ کی شادیوںمیںایک نمونہ تھی جو بہت سارے اجتماعی فوائد رکھتی تھی اور ذاتی پہلؤوں سے ہٹ کر اجتماعی لحاظ سے انجام پائی تھی۔
عمرہ کا سفر
٦ھ میں پیغمبر اسلام ۖ نے قصد کیا کہ ''عمرہ'' کرنے کے لئے مکہ جائیں۔ ہجرت کے بعد سے اس دن تک مسلمان حج و عمرہ نہیں کرپائے تھے، اس مذہبی سفر میں معنوی پہلؤوں کے علاوہ ایک طرح کی مذہبی نمائش بھی تھی جو تبلیغی اثر رکھتی تھی، کیونکہ اس سے زائرین اوراہل مکہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا اور پیغمبر کو اپنے اصحاب کی کثرت تعداد کو دکھاناتھا۔ اور نیز یہ اقدام اس بات کی بھی علامت تھا کہ حج و عمرہ جو کہ مشرکین کے یہاںایک عظیم اور مقدس عبادت ہے وہ دین محمد ۖ میں بھی موجود ہے اور اسے ایک فریضہ واجب قرار دیاگیاہے ۔ اور یہ چیز ان کے قلوب و جذبات کو جلب کرنے میں موثر تھی. اور اگر قریش عمرہ بجالانے سے روکتے تو لوگوںکے خیالات ان کے حق میں مضر ثابت ہوتے، کیونکہ قریش کعبے کی کنجی کے مالک تھے اور ہمیشہ حجاج کو حج کی تشویق او رترغیب دلاتے تھے اوران کے ٹھہرنے اور کھانے کا انتظام کرتے تھے اور ا س کواپنے لئے ایک افتخار اور سعادت سمجھتے تھے۔ لہٰذا اگر وہ مسلمانوںکو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے تو لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے اور سبھی سمجھ جاتے کہ
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨۔ ٣٠٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤١١؛ طبری، اعلام الوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ص ٩٤؛ بعض تاریخی کتابوںمیں یہ شادی دوسری طرح سے ذکر ہوئی ہے۔
اس کام کا مقصد صرف مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور جھگڑا کے علاوہ اور کچھ نہیںہے۔(١)
پیغمبر اسلام ۖ ذیقعدہ کے مہینہ میںایک ہزار آٹھ سو افراد(٢) کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے اس سفر میں پیغمبر ۖ کے حکم سے تمام افراد، صرف ایک تلوار اپنے ساتھ حمائل کئے تھے (جو کہ اس زمانہ میں ہر ایک مسافر اپنے ساتھ رکھتا تھا) اور نیز قربانی کے اونٹ، مدینہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ قریش کو معلوم ہو جائے کہ وہ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
قریش جب پیغمبر اسلام ۖ کی روانگی سے آگاہ ہوئے تو طے کیا کہ ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور ان کے سراغ میں سپاہیوںکے ساتھ مکہ سے باہر آگئے اورپیغمبر ۖ مجبور ہوکر سرزمین ''حدیبیہ'' میں رک گئے۔ قریش نے کئی نمائندے پیغمبرۖ کے پاس بھیجے تاکہ ان کے مقصد سے آگاہ ہوں ہر مرتبہ آنحضرتۖ نے ان سے فرمایا: ''ہم جنگ کا اراہ نہیں رکھتے ہیںاو رعمرہ کے قصد سے آئے ہیں'' لیکن اس کے باوجود قریش ان کو اسی طرح شدت سے منع کرتے رہے اور مسئلہ مشکل میں پڑ گیا۔
______________________
(١) جیسا کہ جب قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا تومکہ کے ایک بزرگ حلیس بن علقمہ نے قریش کودھمکی دی کہ اگر وہ اس کام سے باز نہ آئے تو اپنے قبیلہ والوں کوان سے جنگ کے لئے اکٹھا کریں گے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٩٦؛ حلبی، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٩٦.
(٢) کلینی، الروضة من الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٦٢)، ص ٣٢٢؛ مورخین نے پیغمبر ۖ کے ہمراہ اصحاب کی تعداد ٧٠٠، ١٣٠٠، ١٤٢٥، ١٦٠٠، ١٧٠٠، تک نقل کی ہے۔ (السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٦٨٩، المغازی، ج٢، ص ٦١٤؛ طبقات الکبری، ج٢، ص ٩٨۔ ٩٥؛ تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٧٢؛ السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٣، ص ٣٣٢؛ مجمع البیان، ج٩ ، ص ١١٠.
|
|