|
جنگ احد کے نتائج
جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست کے کچھ آثار و نتائج یہ ہیں:
١۔ اگر چہ اس جنگ میں فوجی لحاظ سے مسلمانوں نے شکست کھائی۔ لیکن ان کے لئے یہ عبرت تھی کہ آئندہ فرمان پیغمبر ۖ سے سرپیچی نہ کریںاور بعد کی جنگوں میںاس طرح کی خلاف ورزیاں دوبارہ نہ ہوں۔
٢۔ منافقین فتنہ انگیزی پر اتر آئے اور مسلمانوں کی شکست پر خوشی کا اظہار کرنے لگے لہٰذا ان کی مذمت کی گئی۔(١)
٣۔ یہودیوں نے بھی اپنے کینہ کو آشکار کردیا او رکہا: محمدۖ، بادشاہی کے چکر میں ہیں۔ اور کوئی بھی پیغمبر اس طرح سے شکست نہیں کھایا ہے۔(٢)
٤۔ دشمنان اسلام، اطراف مدینہ میں گستاخ ہوگئے اور سازش اور فتنہ انگیزی کرنے لگے۔
مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے قبیلۂ بنی اسد کی ناکام نقل و حرکت کا نمونہ واقعۂ ''رجیع'' اور واقعہ ''بئر معونہ'' ہے۔
٥۔ مسلمانوں کے مدینہ پلٹنے کے بعد غم و اندوہ کا بادل شہر پر چھا گیااور مایوسی اور ناامیدی پورے شہر میں نظر آرہی تھی۔ اور منافقوںاور یہودیوں کے شیطانی وسوسے بھی احد میںابوسفیان کی نفسیاتی جنگ کو مدینہ میں اپنائے ہوئے تھے اور اس طرح نقصان پہنچا رہے تھے. خداوند عالم نے سورۂ آل عمران کی کچھ آیات کے ذریعہ ان کے اثرات کو ختم کیااور مسلمانوں کے حوصلہ کو بلند کیا۔ ابن اسحاق کے کہنے کے مطابق اس سورہ کی ٦٠ آیتیں جنگ احد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔(٣)
خداوند عالم نے ان آیات میں مسلمانوں کو شکست کے راز کی طرف متنبہ کیاہے اور ان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ''فوجی شکست'' کھائے ہیں تو وہ ناامید نہ ہوں کہ ''نفسیاتی شکست'' بھی کھائیں اور نیز ان کو متوجہ کیا کہ ان کے ''شکست کا راز''، ''فوجی قوانین کی عدم پابندی'' اور مال دنیا کی طرف توجہ تھی اگر بدر میں خدا کی مدد سے کامیاب ہوئے تو اس بنا پر تھا کہ صرف خدا کے لئے لڑ رہے تھے لیکن اس جنگ میں مال غنیمت کے چکر میں پڑ گئے اور شکست کھاگئے۔ (یہاں پرسورہ آل عمران کی کچھ آیات کا ترجمہ پیش ہے)
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٨۔ ٣١٧.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٤٩.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٢.
''اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہٰذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ''۔
اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو کہ شاید رحم کے قابل ہو جاؤ ـ خبردار سستی نہ کرنا، مصائب پر محزون نہ ہونا اگر تم صاحب ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ـ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو قوم کو بھی ( دشمنوں)اس سے پہلے ( بدرمیں)ایسی ہی تکلیف پہنچ چکی ہے اور ہم ایام( فتح و شکست) کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ خدا صاحبان ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کوگواہ قرار دے اور وہ ظالمین کودوست نہیں رکھتا ہے۔
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم جنت میں یوں ہی داخل ہو جاؤ گے جب کہ خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو بھی نہیں جانا ہے ـ تم موت کی ملاقات سے پہلے اس کی بہت تمنا کیا کرتے تھے اور جیسے ہی اسے دیکھا، دیکھتے رہ گئے ـ خدا نے اپنا وعدہ اس وقت پورا کردیا جب تم اس کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے او راس وقت خدا کی نافرمانی کی جب ا سنے تمہاری محبوب شے کودکھلادیاتھا۔ تم میں کچھ دنیا کے طلب گار تھے اور کچھ آخرت کے۔ اس کے بعد تم کو ان کفار کی طرف سے پھیر دیا تاکہ تمہارا امتحان لیا جائے اور پھر اس نے تمہیں معاف بھی کردیا کہ وہ صاحبان ایمان پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔
کیا جب تم پر وہ مصیبت پڑی جس کی دوگنی تم کفار پر ڈال چکے تھے تو تم نے یہ کہنا شروع کردیاکہ یہ ایسے ہوگیا تو پیغمبر ۖ آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب خود تمہاری طرف سے ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔(١)
جنگ احد میں شکست سے مسلمانوں کے فوجیوں کا اعتبار ختم ہوگیااو رباعث بنا کہ مدینہ کے اطراف میںدشمنان اسلام، مسلمانوں کے خلاف سازش کریں اور مدینہ پر حملہ کی سازش اور نقشہ تیار کرنے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب، مسلمانوں کی فوجی کمزوری کی خاطر تھا۔(٢) ان سازشوں کے چند نمونے یہ ہیں:
______________________
(١) سورۂ آل عمران، ١٢٣، ١٣٢، ١٣٩، ١٤٠، ١٤٢، ١٤٣، ١٥٢ اور ٦٥ ویں آیتیں .
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٢.
١۔ سریۂ ابوسلمہ : پیغمبر اسلاۖم کو خبر ملی کہ ''قبیلۂ بنی اسد'' نے مدینہ پر حملے کا ارادہ کرلیا ہے لہٰذا آنحضرت ۖ نے، ابوسلمہ کو ایک سو پچاس افراد کا کمانڈر بناکر ان کے علاقہ میں بھیج دیا او رحکم دیاکہ قبل اس کے کہ دشمن حملہ کریں تم ان پر حملہ کردینا۔ لہٰذا یہ لوگ نزدیک راستے سے ، بہت تیزی کے ساتھ بنی اسد کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ جب ان کے قافلہ والوں نے دیکھا تو مبہوت اورہواس باختہ ہوگئے اور فوراً فرار کر گئے اور ابوسلمہ مال غنیمت اور چند اسیروں کو لے کر مدینہ پلٹ آئے۔(١)
اس کامیابی سے کسی حد تک مسلمانوں کے فوجیوں کا اعتبار بلند ہوا او رمنافقین و یہودی اوراطراف مدینہ کے قبائل سمجھ گئے کہ ان کی سوچ و فکر کے برخلاف، مسلمان ابھی کچلے نہیں گئے ہیں۔
٢۔ واقعۂ رجیع: ماہ صفر ٤ھ میں قبیلۂ ''بنی لحیان'' کے ورغلانے پر ''قبیلۂ عضل و قارہ'' کے چند افراد ، مدینہ میں داخل ہوئے اور اظہار اسلام کے ساتھ پیغمبر ۖ سے کہا: ہمارے قبیلہ سے کچھ افراد مسلمان ہوگئے ہیں، کسی کو آپ بھیجئے جو ہم کو قرآن اور اسلامی احکام کی تعلیمات دے، پیغمبر اسلاۖم نے دس افراد٭ کو ان کے ہمراہ بھیجا۔ جب وہ لوگ قبیلۂ ہذیل کے ''رجیع'' نامی مقام پر پانی کے کنارے پہنچے تو قبیلۂ عضل و قارہ کے افراد نے بنی لحیان کی مدد سے ان پر حملہ کردیا، مبلغین اسلام نے دفاع کیا لیکن ایک طرفہ جنگ میں اکثر شہید ہوگئے اور دو افراد اسیر ہوئے۔ مشرکین ان دو اسیروں کو مکہ لے کر گئے اور انھیں جنگ بدر کے مقتولین کے ورثہ کے ہاتھوں بیچ دیا اور ان لوگوں نے ان دو اسیروں کو بہت ہی دردناک اور فجیع طریقہ سے شہید کردیا۔(٢)
______________________
(١) گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٣۔ ٣٤٠؛ محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ ، ج ٢، ص ٥٠.
٭ بعض مورخین کے کہنے کے مطابق چھ یا سات افراد تھے (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧٨؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٤؛ واقدی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٥.)
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٦٢۔ ٣٥٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٦۔ ٥٥؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٢۔ ١٧٨؛ ابن شہر آشوب ، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٥۔ ١٩٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٥٢۔ ١٥١.
ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دو قبیلوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ سازباز کر رکھا تھا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے ایسی خیانت کی۔
٣۔ بئر معونہ کا قصّہ: یہ واقعہ، واقعۂ رجیع سے زیادہ دردناک اوردلخراش تھا۔ اور ماہ صفر ٤ ھ میں رونما ہوا۔ ابوبراء ـ قبیلۂ بنی عامر کا بزرگـ مدینہ میں پیغمبر ۖ کی خدمت میں حاضر ہوااور بغیر اسلام کا اظہار کئے یا اس کی طرف بے رغبتی کا اظہار کئے ہوئے درخواست کی کہ آنحضرتۖ اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو ''نجد'' کے لوگوںکو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے ، اس علاقہ میں بھیجیں ، شاید وہ اسلام کو قبول کرلیں۔
پیغمبر اسلاۖم نے فرمایا: ''میں نجد کے لوگوں سے مسلمانوں کے بارے میں ڈرتا ہوں'' ۔
ابوبراء نے کہا: ''یہ لوگ ہمارے پناہ میں رہیں گے''۔ پیغمبر اسلاۖم نے اپنے بہترین اصحاب اور قاریان قرآن میں سے ستر(١) افراد کو بھیجا ۔ یہ گروہ جب ''بئر معونہ'' پر پہنچا، تو اپنے ایک قاصد کو پیغمبر اسلامۖ کا ایک خط دے کر عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔ اس نے خط کو نہیں پڑھا اور اس کو قتل کردیا۔ اس وقت بنی عامر سے اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لئے مدد مانگی تو ان لوگوں نے ابوبراء کے امان کے احترام میں اس کام سے اجتناب کیا ۔ عامر بن طفیل نے قبیلۂ ''بنی سلیم'' کے کچھ افراد کی مدد سے مبلغین اسلام کے گروہ پر حملہ کردیا تو مجبور ہوکر انھوںنے اپنا دفاع کیا اور صرف کعب بن زید اور عمر و بن امیہ خمری کے علاوہ سب شہید ہوگئے۔(٢)
______________________
(١) ایک نقل کے مطابق چالیس آدمی تھے (طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص٣٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص١٩٤؛ واقدی، المغازی، ج١، ص٣٤٧.)
(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٤۔ ٣٣؛ طبرسی، مجمع البیان، (شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج٢، ص ٥٣٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩٦۔ ١٩٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٤٨۔ ١٤٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٨۔ ٣٤٦؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٣؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٥٣۔ ٥١.
عمرو بن امیہ دشمن کے ذریعہ اسیر ہوا اور پھر آزاد ہوکر مدینہ پلٹتے وقت بنی عامر کے دو افراد کو جو کہ پیغمبر ۖ کے ساتھ عہد و پیمان کئے ہوئے تھے (اور وہ اس سے بے خبر تھا) قتل کردیا۔(١)
بنی نضیر کے ساتھ جنگ(٢)
عمرو بن امیہ کے ذریعہ بنی عامر (پیغمبر اسلاۖم کے ہم پیمان) کے دو افراد کے قتل ہونے پر پیغمبر اسلاۖم نے اس واقعہ پر افسوس اور ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: ''ان کو ہمیںدیت دینی چاہیئے''۔(٣)
دوسری طرف سے قبیلۂ بنی عامر نے ایک خط کے ذریعہ ان سے دیت کا مطالبہ کیا۔(٤)
اس لئے کہ بنی عامر نے قبیلۂ بنی نضیر کے ساتھ بھی عہد و پیمان کیا تھا۔ پیغمبر اسلاۖم ان کو دیت دینے کے لئے مہاجر و انصار کے چند افراد کے ساتھ مدینہ کے اطراف میںان کے ٹیلہ کے پاس گئے اور ان سے باتیں کیں۔ بنی نضیر کے سردار تیار ہوگئے۔ لیکن خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا تاکہ دیوار کے اوپر جاکر جہاں پیغمبر ۖ بیٹھے تھے ایک بڑا پتھر پھینک کر آپ کو قتل کردے.رسول اسلام ۖ غیبی راستے سے ان کی اس سازش سے آگاہ ہوگئے۔(٥) اور فوراً اس جگہ کو ترک کر کے مدینہ واپس چلے آئے اور
______________________
(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣.
(٢) کچھ مورخین اور سیرت نگاروںنے (مشہور قول کے برخلاف) اس واقعہ کی تاریخ، جنگ احد سے قبل اور اس کی وجہ دوسری چیز ذکر کی ہے۔ استادعلامہ سید جعفر مرتضی العاملی نے اس نقل کو ترجیح دیاہے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٦، ص ٤٤۔ ٣٢)
(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٥٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٥؛ طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص ٣٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٢.
(٤) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٢ اور ٣٦٤.
(٥) بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٣٥؛ واقدی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٦٦۔ ٣٦٥؛ طبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ص٨٨.
ان کو خبردار کیاکہ مدینہ کو ترک کردیں اور اپنے ما ل و اثاث کو اپنے ساتھ لے کر چلے جائیں۔ وہ لوگ مرعوب ہوکر مدینہ سے چلے گئے؛ لیکن عبد اللہ بن ابی نے ان کو مقابلہ کرنے کے لئے کہا اوران سے وعدہ کیا کہ جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلح افراد کے ساتھ ان کی مد د کریں گے۔ اوراگر انھیں مدینہ سے نکالا گیا تو وہ بھی مدینہ کو ترک کردیں گے۔(١)
کچھ تاریخی خبریں بتاتی ہیں کہ اس واقعہ سے قبل، قریش نے ان کو مسلمانوں کے خلاف سازش اور جنگ کرنے کے لئے ورغلایا تھا۔(٢) اور اس واقعہ میںان کا بھڑکانا اور ورغلانا بے اثر نہیں تھا۔
بنی نضیر، عبد اللہ کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ کھا گئے اور مدینہ ترک کرنے سے پھر گئے۔ پیغمبر ۖ کے حکم پر لشکر اسلام نے پندرہ دن تک ان کے قلعہ کا محاصرہ کیا۔اس عرصہ میں کہیں سے مدد کی کوئی خبر نہیں آئی لہٰذا وہ مجبور ہوکر، پیغمبر اسلامۖ کی موافقت پر اپنے اسلحوں کو زمین پر ڈال کر اپنے مال و اثاثہ زندگی کو اونٹوں پر لاد کر کچھ لوگ اذرعات شام اور کچھ لوگ جن میں ان کا رئیس حی ابن اخطب بھی تھا۔ خیبر کی طرف چلے گئے۔ اور اہل خیبر نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور ان سے اظہار اطاعت کیا۔(٣)
چونکہ بنی نضیر بغیر جنگ کے تسلیم ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کے مال و اثاثہ کو بہ شکل ''خالصہ''(٤) پیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آنحضرت ۖ نے مہاجر و انصار کے درمیان پیمان اخوت و برادری کی
______________________
(١) سورۂ حشر، آیت ١١؛ طبرسی، مجمع البیان، (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق)، ج١٠، ص ٣٦٤؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٦٥ اور ١٦٩.
(٢) سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.
(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٠٣۔ ١٩٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٩۔ ٣٦؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٨٠۔ ٣٦٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف)، ص ٣٣٩؛ رجوع کریں: سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.
(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٦٦ اور ١٧٣.
بنیاد پر انصار کی مرضی اور موافقت سے اس کو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیا۔(١)
خداوند عالم نے قرآن مجید میں بنی نضیر کی خیانت اوران کے برے انجام کااس طرح سے تذکرہ فرمایا ہے:
''وہی وہ ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو پہلے ہی حشر میںان کے وطن سے نکال باہر کیا تم تواس کا تصور بھی نہیں کر رہے تھے کہ یہ نکل سکیں گے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کے قلعے انھیں خدا سے بچالیں گے لیکن خداایسے رخ سے پیش آیاجس کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں تھا اوران کے دلوں میں رعب پیدا کر دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور صاحبان ایمان کے ہاتھوں سے اجاڑ نے لگے تو صاحبان نظر عبرت حاصل کرو۔ اور اگر خدا نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی توان پر دنیا ہی میں عذاب نازل کردیتا اورآخرت میں تو جہنم کا عذاب طے ہی ہے۔ یہ اس لئے کہ انھوں نے اللہ اور رسول سے اختلاف کیا او رجو خدا سے اختلاف کرے اس کے حق میں خدا سخت عذاب کرنے والا ہے۔(٢)
جنگ خندق (احزاب)
یہ جنگ، ماہ شوال ٥ھ میںہوئی(٣) جنگ کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ ''حی ابن اخطب'' اور ''بنی نضیر'' کے کچھ سردار جو خیبر میں پناہ لئے ہوئے تھے نیز قبیلۂ بنی وائل کا ایک گروہ مکہ میں قریش سے ملا اور ان کو پیغمبر اسلاۖم سے جنگ کے لئے رغبت دلائی اور اس راہ میں ان کی ہر طرح کی مدد و نصرت کا وعدہ کیا۔
______________________
(١) سمہودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٧٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٢۔ ١٧١.
(٢) سورۂ حشر ، آیت ٤۔ ٢؛ ابن عباس سورۂ حشر کو سورۂ ''بنی نضیر'' کہتے ہیں (طبرسی، مجمع البیان، ج١٠، ص ٢٥٨.)
(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٥؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٢٤.
قریش نے ان سے پوچھا: کہا ہمارا دین بہتر ہے یا محمدۖ کا دین؟ وہ یہودی اور خدا پرست تھے اور فطری طور پر انھیں بت پرستی کی تائید نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ کہنے لگے: تمہارا دین، محمدۖ کے دین سے بہتر ہے۔ اور تم حق سے نزدیک تر ہو۔
قریش ان کی باتوں سے خوش حال ہوکر جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے۔ خداوند عالم ان کے دشمنانہ فیصلہ کی اس طرح مذمت فرماتاہے۔
''کیاتم نے نہیں دیکھاکہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دے دیا گیا وہ شیطان اور بتوں پر ایمان رکھتے ہیںاور کفار کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کردے آپ پھر اس کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔(١)
یہودی لیڈروں کا یہ کینہ توز فیصلہ، عدل و انصاف اور منطق سے اس قدر دور تھا کہ آج کے دور کے بعض یہودی، اس فعل کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرائیل ولفنون یہودی، ''سرزمین عرب میں یہودیوں کی تاریخ ''نامی ایک کتاب میں لکھتا ہے:
''ان کو اتنی واضح اور آشکار غلطی نہیں کرنا چاہیئے کہ قریش کے لیڈروں کے سامنے بتوںکی عبادت کو توحید اسلامی سے افضل و برتر بتائیںاگر چہ قریش ان کے تقاضا کو رد کردیتے کیونکہ بنی اسرائیل بت پرستوںکے درمیان صدیوں سے پرچمدار توحیدتھے۔(٢)
بہرحال، یہودیوں کے لیڈر پھر قبیلۂ ''غطفان'' کے پاس گئے اوران سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں ساتھ دینے کے لئے کہا٣) اس قبیلہ سے خاندان بنی فزارہ، بنی مرہ اور بنی اشجع نے
______________________
(١) سورۂ نسائ، آیت ٥٢۔ ٥١.
(٢) محمد حسین ھیکل، حیات محمد (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٨، ١٩٦٣.)، ص ٣٢٩.
(٣) انھوںنے غطفان سے وعدہ کیا کہ اس حمایت و نصرت کے بدلہ میں خیبر میں ایک سال خرمہ کی پیداوار کو انھیں دیدیں گے (بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٤).
حمایت کا اعلان کیا(١) اور اسی طرح قبیلۂ بنی سلیم اور بنی اسد کی بھی حمایت حاصل کر لی۔(٢)
قریش نے بھی اپنے اتحادیوں اور حامیوں، جیسے قبیلۂ ثقیف اور بنی کنانہ کی حمایت حاصل کرلی۔(٣) اور اس طریقے سے ایک طاقتور فوجی اتحاد وجود میں آگیا اورایک دس ہزار کا لشکر (٤) ابوسفیان کی سرکردگی میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ مدینہ کے راستہ میں ، حی ابن اخطب نے ابوسفیان سے وعدہ کیا کہ قبیلۂ بنی قریظہ کو بھی جس کے پاس سات سو پچاس (٧٥٠) جنگجو تھے، ان کے لشکر کی حمایت میں جنگ میں شامل کریں گے۔(٥)
اس لحاظ سے قریش اور یہودیوںنے اس جنگ کی تیاری میں عظیم دولت صرف کردی اور سپاہیوں کو مختلف قبائل سے اکٹھا کیاوہ اس جنگ کو کامیاب ترین جنگ تصور کرتے تھے اور قصد کرلیا تھا کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔
پیغمبر اسلاۖم ، قبیلۂ خزاعہ (جو کہ مسلمانوں کے حامی تھے) کی خفیہ خبروںکے ذریعہ لشکر احزاب کی حرکت سے باخبر ہوگئے۔(٦)
______________________
(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٢٥.
(٢) محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٤٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٩٧.
(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣.
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٦؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠٠.
(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٥٤.
(٦) حلبی، انسان العیون (السیرة الحلبیہ)، (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص ٦٣١.
پیغمبرۖ کے حکم سے ایک فوجی کمیٹی تشکیل پائی اور گویا جنگ احد کے تجربہ کے پیش نظر کسی نے مدینہ سے باہر جانے کا مشورہ نہیں دیا اور سب شہر میں رہنے پر متفق ہوگئے۔(١)
مدینہ کے اردگرد قدرتی روکاوٹیں ، جیسے گھر، کھجور کے باغ وغیرہ، موجود تھیں جودشمن کو شہر میں داخل ہونے سے روک رہی تھیں(٢) سلمان فارسی نے مشورہ دیا کہ اطراف شہر کے جس حصہ میں اس طرح کی روکاوٹ موجود نہیں، ایک خندق کھودی جائے جو لشکر کے گزرنے میں رکاوٹ بنے۔(٣)
پیغمبرۖ اور مسلمانوں کی مسلسل کوشش اور زحمتوںکے ذریعہ اور پیغمبرۖ کی عملی شرکت سے ایک بڑی خندق کھودی گئی۔(٤) پیغمبر اسلاۖم نے عورتوں، بچوں اور عام لوگوںکو شہر کے اندر قلعوں اور
______________________
(١) شیخ مفید، الارشاد (قم: الموتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٩٦؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٧؛
(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٣٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛
(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٣؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٤؛ ابن شہر آشوب ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٠؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢١٨
(٤) ابن سعد کے نقل کے مطابق، خندق کی کھودائی چھ دن میں تمام ہوئی۔ (طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٦٧) پروفیسر محمد حمید اللہ، اس دور کا مسلمان دانشور جس نے ، دشمنان اسلام کے ساتھ رسول اکرم ۖ کی جنگ کے میدانوں کو کئیمرتبہ قریب سے مشاہدہ کیااور اس کے بارے میں تحقیقات کی ہیں وہ معتقد ہے کہ خندق بہ شکلN اور ساڑھے پانچ کلو میٹر لمبی تھی (رسول اکرم ۖ در میدان، ترجمۂ سید غلام رضا سعیدی، (تہران: کانونانتشارات محمدی، ١٣٦٣ش)، ص ١١٤۔ ١١٣؛ گویا اس محاسبہ کا اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ اسلامی سپاہیوں کی تعداد تین ہزار (٣٠٠٠) افراد پر مشتمل تھی اور خندق کھودتے وقت دس دس افراد کے دستے بنائے گئے تھے اور ہر دستہ ٤٠ ہاتھ کھودتا تھا (طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٩٨؛ لہٰذا فطری طور پر ہرایک کے حصہ میں ٤ ہاتھ آیا ہوگا جو تقریباً ٦ ہزار میٹر (٦ کلو میٹر) ہوگا ۔
پناہ گاہوں میں رکھا۔(١) لشکر اسلام میں (قول مشہور کی بنا پر) کل تین ہزار افراد تھے۔(٢) خندق اور ''سلع'' پہاڑ کے بیچ ٹھکانہ بنایا۔ اور پہاڑ کواپنی پشت پر قرار دیا۔(٣)
لشکر احزاب کا کمانڈر سمجھ رہا تھا کہ جنگ احد کی طرح شہر کے باہر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا او رجب وہ شہر کے دروازے کے پاس پہنچے تو خندق دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے! کیونکہ خندق کا استعمال، جنگی ٹکنیک کے لحاظ سے عرب میں رائج نہ تھا۔(٤) ا س وجہ سے مجبور ہوکر خندق کے پیچھے ڈیرہ ڈال کر شہر کا محاصرہ کرلیا۔
محاصرہ بیس روز تک باقی رہا اس دوران طرفین خندق کے دونوں طرف سے ایک دوسرے کے اوپر تیراندازی کرتے تھے اور قریش کے جنگجو مسلمانوں کی صفوں میں رعب و وحشت ڈالنے کے لئے فوجی مشقیں اور تیراندازی کرتے تھے(٥) دشمن کے ذریعہ شہر کا محاصرہ کرنے سے مسلمان مشکلات اور دشواریوں میں پڑ گئے تھے اور شہر کے حالات برے اور خطرناک ہوگئے تھے جس کا تذکرہ خداوند عالم نے اس طرح سے کیا ہے:
______________________
(١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٦۔
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٠، سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٠١۔
(٣) بلاذری، ج٢٠، ص٣٤٣؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٦؛ سمہودی، ج١، ص٣٠١۔
(٤) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٤١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٦و ٦٥٧۔
(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٧۔ ٦٣٦۔
''اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیںاور کلیجے منھ کو آنے لگے اورتم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے۔ اس وقت مومنین کا باقاعدہ امتحان لیا گیا اورانھیں شدید قسم کے جھٹکے دیئے گئے''۔(١)
بنی قریظہ کی خیانت
اس موقع پر ایک دوسرا واقعہ رونما ہوا جس نے مسلمانوں کی حالت کو بدتر کردیا وہ یہ کہ قبیلۂ بنی قریظہ نے عدم تجاوز کے پیمان کو توڑ دیا اور لشکر احزاب کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اس قبیلہ کی خیانت، حی ابن اخطب کے شیطانی وسوسہ کے ذریعہ انجام پائی۔(٢) اس سازش کے فاش ہونے سے بہت سارے مسلمانوں کے حوصلہ پست ہوگئے۔ لیکن پیغمبر ۖ کی کوشش تھی کہ اس کے برے اثرات کو مٹادیں۔
بنی قریظہ نے صرف عہد شکنی پر اکتفا نہ کی بلکہ عملی طور سے دو دوسری بڑی خیانتوں کے مرتکب ہوگئے۔ پہلی یہ کہ لشکر احزاب کے لئے غذائی رسد کا کام انجام دیا جو کہ آذوقہ کے لحاظ سے سخت مشکلات میں گرفتار تھے اسی طرح سے ایک مرتبہ مسلمانوں نے ''قبا'' کے علاقہ میں ایک قافلہ کودیکھا جو خرما، جو اور چارہ لئے ہوئے تھا اور وہ قریظہ کی طرف سے سپاہ احزاب کے لئے بھیجا جارہا تھا، لہٰذا اس کو ضبط کرلیا۔(٣)
دوسری یہ تھی کہ شہر کے اندر پناہ گاہوں میںعورتوں اور عام لوگوں کے درمیان، دہشت گردی کے
______________________
(١) سورۂ احزاب، آیت ١١۔ ١٠.
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٦٧؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٣١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٧۔ ٤٦؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠١۔ ٢٠٠.
(٣) سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٤٧.
ذریعہ ان کے اندر رعب و وحشت پیدا کردیاتھا اور ایک روز ان میں سے ایک شخص قلعہ کے اندر تک پہنچ گیا تھا جو ''صفیہ'' پیغمبرۖ کی پھوپھی کے ذریعہ مارا گیا۔(١)
ایک رات بنی قریظہ نے قصد کیا کہ مرکز مدینہ پر حملہ کریںاس وجہ سے حی ابن اخطب کو قریش کے پاس بھیجا اوران سے کہا کہ ایک ہزار افراد قریش سے اور ایک ہزار افراد غطفان سے اس حملہ میں ان کی مدد کریں۔ اس نقل و حرکت کی خبر پیغمبرۖ کو ملی اور شہر میں سخت رعب و وحشت طاری ہوگیا۔
رسول خداۖ نے پانچ سو افراد کواس شہر کی حفاظت کے لئے مامور کیا ۔ وہ لوگ راتوں کو تکبیر کے نعروں کے ساتھ گشت کرتے تھے اور لوگوں کے گھروں کا پہرہ دیتے تھے۔(٢)
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٦٣۔ ٤٦٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٢.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٦٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٣٦؛ ابوبکر سے نقل ہواہے کہ وہ جنگ احزاب کو یاد کرتے تھے اور بنی قریظہ کی اس خیانت کے بارے میں کہتے تھے: ہم مدینہ میں اپنے بچوں (اور عورتوں) کے بارے میں قریش او رغطفان کے بہ نسبت بنی قریظہ سے زیادہ ڈرتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦٠.)
|
|