جنگ احد
قریش نے جنگ بدر میں شکست کھانے کے بعد، مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے تجارتی قافلہ کے منافع کو خرچ کر کے، مدینہ پر حملہ کرنے کے مقدمات فراہم کرلئے۔(٥) اور بعض قبائل کی حمایت حاصل کرکے بہت سارے جنگی سازو سامان(٦) کے ساتھ مکہ سے نکل پڑے اور میدان جنگ میں
______________________
(٣) گزشتہ حوالہ، ص ١١٢.
(٤) مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں: ڈاکٹر سید جعفر شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا (تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٣٦٥ ھ.ق)، ص ٧٦۔ ٤٤؛ امیر مھنا الخیامی، زوجات النبی و اولادہ، (بیروت: موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ.ق)، ص ٣٢٨۔ ٣٢٢.
(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص٣٧.
(٦) مشرکین کے سپاہیوں کی تعداد تین ہزار تھی جن میں سات سو افراد زرہ پوش، دو سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤۔ ٢٠٣؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢م)، ج١٤، ص ٢١٨.
سپاہیوں کی تشویق کے لئے کچھ عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔(١)
پیغمبر اسلاۖم، مکہ میں اپنے چچا عباس کی مخفی خبر کے ذریعہ قریش کے ارادے سے آگاہ ہوگئے۔(٢) اور آپ نے ایک فوجی کمیٹی بناکر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے، مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ عبد اللہ ابن ابی اور انصار کے کچھ بزرگ نیز بعض مہاجر شخصیتیں جیسے حمزہ، چاہتے تھے کہ شہر کے باہر دشمن سے مقابلہ کریں کیونکہ شہر میں رہنا دشمن کی جرأت کا باعث بنے گا اور مسلمانوں کی ناتوانی اور کمزوری کی علامت قرار پائے گا۔ اور جنگ بدر میں سپاہ اسلام کی قدرت نمائی کے اعتبار سے نامناسب سمجھا جائے گا۔(٣)
آخر کار پیغمبر اسلاۖم نے اس بہادر او رانقلابی گروہ کی رائے کو قبول کیا او رایک ہزار(٤) افراد کے ساتھ احد٭کے پہاڑ کی طرف چل دیئے۔ بیچ راستے میں عبد اللہ بن ابی یہ بہانہ کر کے کہ پیغمبر ۖ نے جوانوں کے مشورے پر عمل کیا اور ہماری رائے کو نظر انداز کیا(٥) اور نیز اس بات کو دلیل بنا کر کہ
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٣۔ ٢٠٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٦.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤ اور ٢٠٦؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٢٧؛ ایک نقل کی بنا پر قبیلہ خزاعہ جو کہ دوست دار پیغمبرۖ اور مسلمان تھا۔ اس موضوع سے پیغمبر ۖ کو باخبرکیا (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٨)، اور ممکن ہے کہ دونوں طریقوں سے خبر پہنچی ہو۔
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢۔ ٢١٠، ٢١٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٣٨.
(٤) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩١؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص١١٧.
٭ احد پہاڑ ، مدینہ کے شمالی سمت میں واقع ہے۔ اور قدرتی روکاوٹوں کی بنا پر دشمن جنوب کی سمت سے مدینہ میں داخل نہیںہوسکتا تھا لہٰذا مجبور تھا کہ اطراف شہر کا چکر لگا کر شمال کی سمت سے حملہ کرے۔ (محمد حمید اللہ، رسول اکرم ۖ در میدان جنگ، ترجمہ سیدغلام رضا سعیدی (تہران: مرکز انتشارات محمدی ، ١٣٦٣ھ.ش)، ص ٨٥۔ ٧٩.
(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٨.
جنگ نہیں ہوگی۔(١) ، تین سو (٣٠٠) افراد کے ساتھ مدینہ پلٹ آیا۔
اسلامی لشکر جس کی تعداد کم ہوکر سات سو (٧٠٠) افراد ہوچکی تھی،(٢) پیغمبر اسلاۖم لشکر اسلام کی تعداد کم ہونے کے باعث انھیں احد پہاڑ کے کنارے روکا۔ اس پہاڑ کو پیچھے، مدینہ کواپنے سامنے، اور عینین پہاڑ کو مسلمانوں کے داہنی طرف قرار دیا(٣) اسلامی لشکر مغرب کی سمت اور مشرکین، مشرق کی سمت میں تھے۔(٤)اس وقت پیغمبر اسلاۖم نے پورے علاقے پر فوجی نقطۂ نظر سے، نظر دوڑائی تو آپ کی توجہ عینین پہاڑ کی طرف مرکوز ہوگئی؛ کیونکہ ممکن تھا کہ دوران جنگ، دشمن اس گوشے سے مسلمانوں کے محاذ کے پیچھے پہنچ جائے۔
اس بنا پر ایک مسلمان کمانڈر عبد اللہ بن جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اس گوشہ کی حفاظت کے لئے مامور کیا اور فرمایا: ''چاہے ہم جیتیں یا ہاریں، تم لوگ یہیں رہنا اور اسپ سوار لشکر کو تیر اندازی کے ذریعہ ہم سے دور کردینا تاکہ پشت کی جانب سے ہم پر حملہ نہ کرسکیں''(٥)٭
______________________
(١) سورۂ آل عمران، آیت ١٦٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٩؛ طبرسی، مجمع البیان (شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق)، ج٢، ص ٥٣٣.
(٢) طبرسی، اعلام اوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٣)، ص ٨٠؛ ابو سعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمد راوندی (تہران: انتشاراتبابک، ١٣٦١ھ.ش)، ص ٣٤٥؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون)، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص ٤٩٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٠.
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٩؛ نور الدین سمہودی، وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص٢٨٤.
(٤) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٠۔
(٥) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٥ و ٤٩؛ رجوع کریں: ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٧٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٠۔ ٣٩؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٥؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک
(بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٤.
ابوسفیان نے بھی لشکر کو آراستہ کیااورعلم دار کا انتخاب کیا، اس زمانہ میں ''علمدار'' میدان جنگ میں
______________________
٭ تاریخی کتابوں میں، مسلمان تیر اندازوں کے مورچہ سنبھالنے کی جگہ کو ''پہاڑ'' یا وادی کا دہانہ کہا گیا ہے۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ احد پہاڑ کے شگاف کی جگہ یہی ہے کہ جہاں سے جنگ کے دوسرے دور میں خالد بن ولیدنے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔ لیکن محمد بن سعد کاتب ، واقدی، جس کے استاد کی رپورٹیں اور خبریں پیغمبر اسلامۖ کے زمانہ کی جنگوں کے بارے میں، خاص طور پر جغرافیائی لحاظ سے معتبر اور مستند ہیں، (المغازی، تحقیق: مارسڈن جونس، مقدمہ، ص ٦، ق٣١)، وہ اس حصہ کو عینین کے نام سے ذکر کرتا ہے (طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٣٩)، کہ جس کے بارے ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک پہاڑ تھا جو لشکر اسلام کے بائیں طرف موجود تھا۔ اور شاید اس لحاظ سے کہ اس کے بغل میں دو چشمے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٣٩)، اس کا نام عینین رکھا گیا ہو؛ کیونکہ عین کا ایک معنی، چشمہ ہے۔ مسلمانوں کے قدیم جغرافیہ دانوں نے اس حصہ کو پہاڑ کہا ہے۔ یاقوت حموی لکھتا ہے: ''عینین احد کا ایک پہاڑ ہے ،اس کے اوراحد کے درمیان ایک وادی ہے'' (معجم البلدان، ج٤، ص ١٧٤؛ مادہ عین، عبد اللہ بکری اندلسی بھی کہتا ہے: ''عینین پہاڑ، احد میں واقع ہے اور پیغمبر اسلاۖم نے جنگ احد میں تیر اندازوں کو اس پہاڑ پر ٹھہرا رکھا تھا'' (معجم مااستعجم من سماء البلاد و والمواضع، ج٣، ص ٩٧٨؛ مادہ عین)تمام دستاویزات اور تاریخی و جغرافیائی قرائن و شواہد اور علاقہ احد کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ عینین سے مراد ایک مٹی کا ٹیلہ تھا جو احد پہاڑ کے سامنے اور شہر مدینہ کے بائیں طرف واقع تھا اور جنگ اس ٹیلہ اور پہاڑ کے بیچ میں ہوئی ہے،اس جنگ کے شہدائ، میدان جنگ ہی میں مدفون ہیں اور ان کی قبریں ان دونوں کے بیچ میںہیں۔ اس بنا پر تیراندازوں کے مورچہ سنبھالنے کی جگہ، احد کے پہاڑ میں نہیں تھی اور جیسا کہ خود مؤلف نے نزدیک سے اس جگہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اصولی طور پر احد پہاڑ میں کوئی ایسا شگاف نہیں موجود جس سے دو سو (٢٠٠)، گھوڑ سوار سپاہی گزر سکیں۔پروفیسر محمد حمید اللہ، جس نے ١٩٣٢۔ ١٩٤٥۔ ١٩٤٧۔ ١٩٦٣، عیسوی میں جنگ احد کے میدان کا دقیق طور سے مطالعہ او رتجزیہ کیا ہے اس سلسلہ میں اس نے اہم اور قیمتی تحقیقات انجام دی ہیں۔ رجوع کریں (رسول اکرم ۖ در میدان جنگ، ترجمہ سید غلام رضا سعیدی، ٩٥۔ ٩٢.
بہت اہم کردار ادا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ علم کو کسی بہادر اوردلیر شخص کے ہاتھ میں دیا جاتاتھا۔ علمدار کی استقامت و پائیداری اور میدان جنگ میںعلم کا لہرانہ، سپاہیوں کے جوش و خروش کا باعث قرار پاتا تھا۔ اوراس کے برخلاف علمدار کا مارا جانا اورعلم کی سرنگونی ان کے حوصلے کے پست اور ثبات قدم میں لغزش کا باعث بنتی تھی۔
ابوسفیان نے علمداروں کو قبیلۂ ''بنی عبد الدار'' سے (جو کہ شجاعت اور بہادری میں مشہور تھے)
انتخاب کیا اوران سے کہا: ہم جانتے ہیں کہ تم عبدالدار علمداری کے لئے ہم سے لائق تر ہواو رعلم کی اچھی طرح سے حفاظت کرتے ہو او رہمارے خیال کو اس طرف سے مطمئن رکھو گے کیونکہ جب لشکرکا علم سرنگوں ہو گیا تو وہ لشکر ٹک نہیں پائے گا''۔(١)
جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کی فتح
ہجرت کے تیسرے سال(٢) ١٥ شوال کو جنگ شروع ہوئی اور زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مسلمان جیت گئے اور مشرکین ہار کھا کر بھاگنے لگے۔ ان کے شکست کی وجہ ،بہت زیادہ نقصان نہیں تھی؛ کیونکہ جنگ کے آخر تک کل نقصان (اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تعداد جو نقل ہوئی ہے) پچاس افراد سے زیادہ کا نہیںہوا تھا۔(٣) اور یہ تعداد لشکر شرک کی کل تعداد کے بہ نسبت، بہت ہی کم تھی۔ بلکہ ان
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢١؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٠٦۔
(٢) مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٨؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، دار احیاء التراث العربی، ط ١، ١٣٢٨ھ.ق، ج١، ص ٣٥٤۔ تیسرے ساتویں، آٹھویں، نویں، اور گیارہوں روز بھی بیان کیا گیا ہے۔ (تاریخ الامم و الملوک، ج ٣، ص ١٤، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج١، ص ٢٨١.)
(٣) رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٥٤٧، کل قتل ہونے والے مشرکین کی تعداد ٢٣ اور ٢٨ افراد نقل ہوئی ہے ۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ، ج١٥، ص ٥٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ ، ج٢، ص ٤٣؛ بلاذری، اسباب الاشراف، ج١، ص ٣٢٨.
کے شکست کھانے کی وجہ علمدار کا مارا جانا تھا۔ ان میں سے نو افراد علی کے قوی ہاتھوں کے ذریعہ ہلاک ہوئے تھے۔(١) اور مسلسل علم کے گرنے کی وجہ سے ان کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ فرار کرنے لگے۔(٢)
علی نے بعد میںاس موضوع کو دلیل بنایا جیسا کہ عمر کے قتل ہو جانے کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چھ افراد پر مشتمل شوریٰ بنی اس میںاس موضوع کو آپ نے اپنے درخشاں کارناموں کا ایک حصہ سمجھ کر تذکرہ کیا جس کی تائید شوریٰ کے افراد نے کی۔(٣)
قریش کے علمدار کے قتل ہونے کے بعد لشکر شرک کی صفوں میں ہلچل مچ گئی اور سب فرار کرنے لگے ۔ اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرتے وقت جب میدان جنگ میں مال غنیمت کودیکھا تواس کو اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اکثر تیر اندازوںنے جب یہ منظر دیکھا تو مال غنیمت جمع کرنے کی لالچ میں اس خیال سے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اپنے محاذ کو چھوڑ دیا اور پیغمبر اسلاۖم کے دستور کے بارے میں عبد اللہ بن جبیر کے خبردار کرنے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔(٤)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) شیخ مفید، الارشاد (قم: الموتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ۔ق)، ص ٨٨؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥١؛ مجمع البیان، (شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج٢، ص ٤٩٦۔
(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤١؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٨٨؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٢٦.
(٣) صدوق، الخصال، (قم: منشورات جامعة المدرسین فی الجامعہ العلمیہ، ١٤٠٣ھ.ق)، ص ٥٦٠.
(٤) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٢.
مشرکوں کی فتح
تیراندازوں کی خلاف ورزی کے سبب جنگ کی صورت حال بدل گئی ؛کیونکہ خالد بن ولید نے دو سو (٢٠٠) سواروں کے ساتھ اس جگہ پر حملہ کردیا جہاں کے بارے میں پیغمبرۖ نے اپنے سپاہیوں کو آگاہ کیا تھا اور عبد اللہ بن جبیر کو بچے ہوئے دس افراد کے ساتھ شہید کردیا اور پشت محاذ سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔
دوسری طرف سے عمرة ـ علقمہ کی لڑکی اور قریش کی ایک عورت جو کہ میدان جنگ میں موجود تھیـ نے علم کو زمین سے اٹھا کر فضا میں لہرا دیا.(١) قریش خالد کے حملے اور پرچم کو لہراتا ہوا دیکھ کرخوشحال ہوگئے اور انھوں نے دوبارہ حملہ کردیا۔(٢) چونکہ اس وقت مسلمانوں کی فوج تتر بتر گئی تھی اور کمانڈروں کا رابطہ سپاہیوں سے ٹوٹ گیا تھا۔ لہٰذا وہ مقابلہ نہیں کرسکے اور بری طرح سے شکست کھاگئے۔ چند دوسرے محرکات بھی اس شکست کا باعث بنے، وہ یہ ہیں:
١۔ پیغمبر اسلاۖم کے قتل ہونے کی افواہ۔(٣)
٢۔ اس زمانے میں دونوں طرف کی فوجیں مخصوص لباس نہیں رکھتی تھیں اور میدان جنگ میں
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥١؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٢، ص ٤٩٦۔ حسان بن ثابت ـ پیغمبر اسلاۖم کا شاعرـ نے اس مناسبت سے ایک شعر میں قریش کی مذمت کی ہے اور کہا ہے: اگر اس دن عمرہ نہ ہوتا تو بردہ فروشوں کے بازار میں بیچ دیئے جاتے (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤ ص ٢١٧.
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢۔ ٤١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٤٩۔٢٦.
(٣)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٢؛ گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٧۔ ٢٦.
صرف نعروں کے ذریعہ ایک دوسرے کی فوج کو پہچانا جاتا تھا۔ جب قریش نے دوبارہ حملہ کیا تو مسلمانوں کی صفیں زیادہ سرگرداں ہوگئیں اور ایک دوسرے کو پہچان نہ سکے اور آپس میںایک دوسرے کے اوپر اس طرح تلوار چلانے لگے(١) کہ حسیل بن جابر( حذیفہ بن یمان کے والد) مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے۔(٢) لیکن جب اپنی حالت سمجھ گئے تو دوبارہ نعرہ بلند کیا اور جنگ کا نقشہ بدلا۔(٣)
٣۔ ہوانے سمت بدلی، اس وقت تک جو ہوا مشرق سے چل رہی تھی۔ وہ مغرب سے چلنے لگی اور جنگ کو مسلمانوں پر دشوار کردیا۔(٤)
بہرحال مسلمانوں کی صفیں اس طرح سے منتشر ہوئیں کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ فرار کر گئے اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹی پر بھاگ گئے جبکہ پیغمبر اسلاۖم نے خود میدان جنگ میں مقابلہ کیا اور بھاگنے والوں سے پائیداری اوراستقامت کے لئے کہا۔(٥)صرف علی اور چند دوسرے افراد میدان جنگ میں ڈٹے رہے۔(٦)
علی ، پیغمبر ۖ کے بغل میں کھڑے ہوکر تلوار چلارہے تھے اور کئی مرتبہ انھوں نے پیغمبر ۖ سے دشمنوں
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٢؛ رجوع کریں: وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٨٦.
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٣ و ٤٥؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٩٣؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٨؛ سید علی جان مدنی، الدرجات الرفیعہ (قم: منشورات مکتبة بصیرتی، ١٣٩٧ھ.ق)، ص ٢٨٣.
(٣) بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط ٣، )، ص ٣٢٢.
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢.
(٥) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٤۔ ١٥٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣١٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٤٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٢٣ و ٢٥.
(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج ١٥، ص ٢١ و ٢٩.
کے حملوں کودور کیا(١) اور آپ کی بے نظیر استقامت و پائیداری کی بنا پر آسمان احد میں صدائے غیبی گونجی: لا فتیٰ الا علی و لاسیف الا ذوالفقار۔(٢)
یہاں تک کہ ایک مسلمان نے پیغمبرۖ کو پہچان لیا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے چند افراد (یافرار کے بعد واپس آنے والے افراد) آنحضرت ۖ کے گرد اکٹھا ہوئے اور جنگ کے عالم میں احد پہاڑ کے کنارے پہنچے(٣) اور جنگ کی گردو غبار بیٹھی۔
اس موقع پر ابوسفیان نے مسلمانوں کے حوصلہ کو کمزور کرنے کے لئے افواہیں پھیلانا شروع کردیں اور نفسیاتی جنگ چھیڑ دی اور نعرے لگانے لگا: اعل ھبل اعل ھبل، سرفراز ہو اے ھبل، سرفراز ہو اے ھبل! پیغمبر ۖ نے اس کے نعرے کے جواب میں فرمایا: اللّٰہ اعلیٰ و اجل۔ خدا بلند و برتر ہے! ابو سفیان نے کہا: لنا العزی و لاعزی لکم۔ ہم عزی بت رکھتے ہیں اورتم عزی نہیں رکھتے ہو۔ پیغمبر ۖ کے حکم سے ایک مسلمان نے اس کے جواب میں کہا: اللّٰہ مولیٰ و لا مولیٰ لکم۔ خدا ہمارا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیںہے۔(٤)
______________________
(١) شیخ مفید، الارشاد، (قم: الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٨٩؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٢٥٠؛ حافظ بن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق (ترجمہ الامام علی ابن ابی طالب)، تحقیق: محمد باقر المحمودی (بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ط ١، ١٣٩٥ھ.ق)، ج١، ص ١٥٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٨٨.
(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤؛ شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص ٨٧؛ مجلسی گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٥٤، ١٠٥، ١٠٧۔
(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٩۔٨٨؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥٤۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٨۔ ٤٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣١۔ ٣٠؛ ابوسعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمۂ نجم الدین محمود راوندی (تہران: انشارات بابک، ١٣٦١ھ.ق)؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٣١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٢و ٤٥.
اس جنگ میں (بنا بر مشہور) ستر(١) افراد مسلمانوں میں سے جن میں جناب حمزہ ـ رسول ۖ کے چچاـ اور مصعب بن عمیر بھی تھے درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ جبکہ احد میں مسلمانوںنے شکست کھائی اور قریش کے سپاہیوںمیں سے کوئی نہیں مرا اور ظاہری محاسبات کی بنیاد پر اگر وہ لوگ ، اس وقت مدینہ پر بھی حملہ کرتے تو کامیاب ہوجاتے لیکن قریش کے سردار، اس اقدام(٢) کے انجام سے پریشان ہوئے اوراس سے چشم پوشی کر کے مکہ واپس چلے گئے اور مسلمانوں سے انتقام لیکر خوش ہوگئے تھے کہ بدر میں جتنے لوگ ان کے مارے گئے تھے اتنے کو انھوںقتل کردیا ہے جبکہ نہ مدینے کو کوئی نقصان پہنچا تھا اور نہ شام کا تجارتی راستہ آزاد ہوا تھا۔ اس خیال سے کہ کہیں دشمن یہ گمان نہ کریں کہ مسلمانوں کو کچل دیا ہے ۔ اور مدینہ پر حملہ کی جرأت نہ کرسکیں، پیغمبر ۖ نے جنگ کے ایک دن بعد، اسلامی سپاہیوں کے ساتھ جو زیادہ تر زخمی تھے، سرزمین ''حمراء الاسد'' تک مشرکوں کا پیچھا کیا اور جب اطمینان حاصل ہوگیا کہ وہ دوبارہ حملے کا ارادہ نہیں رکھتے تو آپ مدینہ پلٹ آئے۔(٣)
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ (تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ط ٣)، ص ٨٢؛ ابوسعیدواعظ خرگوشی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٦؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٩٢۔ ٢٩١؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٤٧.
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٥٠.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٠٧ اور ١١٠؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣٣۔ ٣١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٥٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٤٠، ٤١ اور ٩٩.
|