تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

جنگ بدر
یہ جنگ، پیغمبرۖ کی فوجی مشقوں ، اور شام کی طرف قریش کے تجارتی راستہ کی دھمکی کے بعد ہوئی اور یہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ تھی جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر اسلاۖم نے جمادی
الآخر کے مہینہ میں قریش کے قافلہ کا جو ابوسفیان کی سربراہی میں شام کی طرف جارہاتھا، سرزمین ''ذات العُشَیرہ'' تک تعاقب کیا لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔اس وجہ سے شام کے علاقہ میں سراغ رسان سپاہیوں کو بھیجا جن کے ذریعہ کفار قریش کے قافلہ کے پلٹنے کی خبر ملی۔(١)
مال و اسباب کے لحاظ سے قافلہ بہت بڑا تھا۔ ان کے اونٹ کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کا سرمایہ ٥٠ ہزار دینار نقل ہوا ہے کہ جس میں تمام قریش شریک تھے۔(٢)
قافلوں کا قدرتی راستہ ، بدر کے علاقہ سے شروع ہوتا تھا۔(٣) پیغمبر اسلاۖم نے قافلہ کو ضبط کرنے(٤) کے لئے تین سو تیرہ افراد(٥) اور بہت کم امکانات(٦) کے ساتھ، بدر کی طرف گئے۔
ابوسفیان شام سے پلٹتے وقت پیغمبر ۖ کے ارادہ سے آگاہ ہوگیا۔ لہٰذا ایک طرف مکہ میں اپنا تیز رفتار نمائندہ بھیج کر قریش سے مدد مانگی(٧) اور دوسری جانب سے قافلہ کے راستہ کو دا ہنی طرف (بحر احمر
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧؛ مجلسی ، بحار الانوار، (تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ١٣٨٥ھ.ق)، ج١٩، ص ٢٤٨۔ ٢٤٥.
(٣) بدر، شہر مدینہ کے جنوب غربی میں پڑتا ہے جو آج ایک شہر کی شکل میں بدل گیا ہے اور علاقائی مرکز اسی نام پر ہے مدینہ کی شاہر اہ ، جدہ اور مکہ کی طرف اسی جگہ سے گزرتی ہے۔اور یہاں سے مدینہ کا فاصلہ ١٥٣ کلو میٹر او رمکہ کا فاصلہ ٣٤٣ کلو میٹر ہے۔ (محمد عبدہ یمانی، بدر الکبریٰ، جدہ: دار القبلہ للثقافہ الاسلامیہ، ط١، ١٤١٥ھ۔ق)، ص ٢٥۔ اور جس وقت سے مدینہ اور مکہ کے درمیان شاہراہ بنی ہے ۔ حج کے زمانہ میں حاجیوں کا سفر اس راستہ سے نہیں ہوتا ہے .
(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٥٨.
(٥) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢٠، طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٧٢.
(٦) مسلمانوں کے پاس ستر (٧٠) اونٹ تھے اور چند افرادایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦٣) اور صرف ایک گھوڑا (شیخ مفید ، الارشاد، ص ٧٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٣٢٣؛ مسند احمد، ج ١، ص ١٢٥؛ اور بنا بر نقل دو گھوڑا رکھتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤۔ ٢٢؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٧)، اور چھ جنگی زرہ اور آٹھ تلوار رکھتے تھے۔ (ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٣٢٣.)
(٧) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٥٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٨.
کے ساحل کی طرف) موڑ دیا اور قافلہ کو تیزی کے ساتھ، خطرے کے مقام سے دور کردیا۔(١)
ابوسفیان کی درخواست پر نوسو پچاس(٢) جنگجو مکہ سے قافلہ کی نجات کے لئے مدینہ کی طرف گئے۔ جبکہ مشرکین راستے میں ہی قافلے کی نجات سے آگاہ ہوگئے تھے لیکن ابوجہل کی لجاجت اور ہٹ دھرمی نے ان کو ٹکراؤ پر مجبور کردیا۔ ابھی مسلمان قافلہ کی جستجو میںتھے کہ پیغمبرۖ کو خبر ملی کہ لشکر قریش بدر کے علاقہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا ایسے موقع پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیاتھا۔ کیونکہ تھوڑے سے سپاہیوں اور اسلحوں کے ساتھ قافلہ کے افراد کو گرفتار کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے نہ کہ ایسی فوج سے جنگ کرنے کے لئے آئے تھے جن کے سپاہیوں کی تعدا، ان کے سپاہیوں کے تین برابر ہو۔ اگر (بالفرض) عقب نشینی بھی کرنا چاہتے تو فوجی مشقوں کے پروپیگنڈہ کا اثر ختم ہوجاتا اور ممکن تھا کہ دشمن ان کا پیچھا کر کے مدینہ پر حملہ کردیتے۔ لہٰذا فوراً ایک فوجی کمیٹی تشکیل پانے کے بعد، پیغمبر ۖ نے مسلمانوں (خاص طور سے انصار) کی رائے اور مشورہ سے اور مقداد اور سعد بن عبادہ کی پرجوش تقریر کے بعد دشمن سے جنگ کا ارادہ کرلیا۔(٣)
١٧ رمضان(٤) کی صبح کو، جنگ کا آغاز ہوا۔ شروع میں حمزہ، عبیدہ اور علی نے شیبہ، عتبہ اور ولید بن عتبہ سے الگ الگ جنگ کی اور اپنے مدمقابل کو قتل کیا(٥) اور یہ سرداران قریش کے حوصلہ پر سخت چوٹ تھی(٦) لہٰذا سی وقت عمومی جنگ شروع ہوگئی۔ لشکر اسلام اتنی تیزی کے ساتھکامیاب ہوا کہ ظہر
______________________
(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤١.
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٦٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٥؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٨٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢١٩.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦٨۔ ٢٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٩۔ ٤٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٤
(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ١٩۔ ١٥ و ٢٠.
(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣۔ ١٧ور ٢٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٧٩؛ ابن اثیر الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٢٥.
(٦) شیخ مفید، الارشاد، (قم: الموتمر العالمی الفیہ الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٦٩.
کے وقت(١) جنگ دشمن کی شکست اور عقب نشینی پر تمام ہوگئی۔ مشرکین میں ٧٠ افراد مارے گئے(٢) اور ستر (٧٠) افراد اسیر ہوئے(٣) اور مسلمانوں میں سے چودہ (١٤) افراد شہید ہوئے۔(٤)
پیغمبر اسلاۖم کی موافقت سے قیدی خون بہا دے کر آزاد ہوگئے اور جن کے پاس پیسہ نہ تھا لیکن پڑھے لکھے تھے ان کے بارے میں رسول اسلام ۖ نے حکم دیا کہ انصار کے دس جوانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں پھر آزاد ہوجائیں۔(٥) اور بقیہ اسیر پیغمبر اکرم ۖ کے احسان پر آزاد ہوئے۔(٦)

مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
مسلمانوں کی درخشاں کامیابی، ان کے پہلے فوجی حملہ میںہی، قریش کے رعب و حشمت کو توڑ دیا اور ان کو سرگرداں اور مبہوت کردیا، لشکر قریش کی شکست اس قدر غیر متوقع تھی کہ جب رسول خدۖا کا نمائندہ، لشکر اسلام کے مدینہ پلٹنے سے پہلے، شہر میں داخل ہوا اور کامیابی کی خبر سنائی، تو مسلمانوں کو
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٢؛ پیغمبر اسلاۖم نے جنگ تمام ہونے کے بعد مدینہ کے راستہ میں نماز عصر پڑھی (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٤۔ ١١٢)
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧۔
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢۔ ١٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، صص ٢٩٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٨٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٩١۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٩۔
(٥) زید بن ثابت نے اس طرح سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔
(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٨۔
شروع میں باور نہ ہوا اور نمائندہ کو جنگ سے فراری اور ہارا ہوا سمجھا۔(١)
لیکن ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اسیروں کو شہر میں لایا گیا۔ اس کامیابی کا چرچہ حبشہ تک پہنچا اور جب نجاشی کو یہ خبر ملی تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور مسلمان مہاجروں کو دربار میں بلایا اور یہ خوش خبری ان کو سنائی۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم نے فرمایا:
''جنگ بدر وہ پہلی جنگ تھی جس میں خداوند عالم نے اسلام کو عزیز اور شرک کو ذلیل و خوار کیا۔(٣)
شیطان، جنگ بدر کے دن اس قدر ذلیل و خوار ہوا کہ (عرفہ کے دن کے علاوہ کہ خدا کی رحمت کے نزول اور بڑے گناہوںکی مغفرت کا مشاہدہ کیا تھا) کبھی ایسا نہیں ہوا تھا''۔(٤)
اس حیرت انگیز کامیابی کے اسباب و علل کو اس طرح سے خلاصہ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے:
١۔ پیغمبر ۖکی لائق اور شائستہ کمانڈری٭ اور آپ کی شجاعت اور دلیری؛ علی جنگ بدر کو یاد کر کے فرماتے ہیں: ''جس وقت جنگ کی آگ سخت شعلہ ور ہوئی تو ہم رسول کی پناہ میں چلے گئے اور
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١١٥۔
(٢) گزشتہ حوالہ، ص ١٢١.
(٣) گزشتہ حوالہ، ص ٢١.
(٤) گزشتہ حوالہ، ص ٧٨.
٭اس کے باوجود کہ پیغمبر اسلاۖم بعثت سے قبل، فوجی سابقہ نہیں رکھتے تھے اور موخین نے صرف ان کی شرکت جوانی میں (یا نوجوانی میں) جنگ ''فجار'' میں نقل کی ہے اوراس میں شک پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ ایک ٹریننگ یافتہ کمانڈر یا تجربہ کار کمانڈر کی طرح، اتنے اچھے طریقہ سے کمانڈری کے فرائض انجام دیئے کہ کبھی بھی مسلمانوں کو اس طرح سے فتح حاصل نہیں ہوئی۔
اس وقت ہم میں سے کوئی بھی، آپ سے زیادہ دشمن سے نزدیکتر نہیں تھا''۔(١)
٢۔ علی کی بے نظیر شجاعت اور جان نثاری؛ اس طرح سے کہ جنگ میں مارے گئے دشمنوں میں سے نصف کو آپ نے اکیلے قتل کیا تھا۔(٢)
شیخ مفید نے ٣٥ لوگوں کا نام لیا ہے۔ جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے، اور کہتے ہیں: شیعہ اور اہل سنت راویوں نے بطور اتفاق لکھا ہے کہ اتنے افراد کو علی نے قتل کیا ہے اس کے علاوہ اور بھی قتل ہوئے تھے جن کے قاتل کے بارے میں اختلاف ہے یا علی ان کے قتل میں شریک تھے۔(٣)
٣۔ اگر چہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے مدینہ سے نکلتے وقت، بے رغبتی اور کھلے انداز میں
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٣؛ مسنداحمد حنبل، ج١، ص١٢٦؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٣، ص٢٧٩۔
(٢) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١، مقدمہ، ص٢٤؛ شیخ مفید، الارشاد، (قم: المؤتمر العالمی لألفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ.ق)، ص٧٢۔
(٣) شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص ٧٢۔ ٧٠؛ بلاذری اور واقدی نے اس گروہ کی تعداد ١٨ افراد نقل کی ہے (انساب الاشراف، ج١، ص ٣٠١۔ ٢٩٧؛ المغازی، ج١، ص ١٥٢؛ اسی طرح سے رجوع کریں؛ بحار الانوار، ج ١٩، ص ٢٩٣) جنگ خندق، جنگ بدر کے تین سال بعد ہوئی۔ جس وقت عمرو بن عبدود، عرب کا مشہور پہلوان، خندق کے کنارے لڑنے کے لئے چیلنج کررہا تھا تو علی اس کے مقابلہ میں گئے اس نے علی سے کہا: تمہارا باپ میرا دوست تھا لہٰذا میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم میرے ہاتھ سے قتل ہو! ۔ ابن ابی الحدید معتزلی، نہج البلاغہ کا مشہور شارح اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ''ہمارے استاد ابو الخیر مصدق بن شبیب نحوی جس وقت اس حصہ کو پڑھاتے تھے تو کہتے تھے: عمرو نے جھوٹ کہا ہے اس نے علی کی جنگ کو بدر و احدمیںدیکھ رکھا تھا لہٰذا اگر ان سے لڑتا تو قتل ہو جاتا، اس وجہ سے بہانہ کیا اور اس طرح سے علی سے لڑنے میں دیر کیا''۔ (شرح نہج البلاغہ، ج١٩، ص ٦٤.)
ناپسندی کا اظہار کیا تھا۔(١) اور نیز کچھ بزرگ مہاجروں نے، فوجی کمیٹی میں، اپنی کمزوری کا اظہار کیا او رناامید کرنے والی باتیں کہیں۔(٢) لیکن زیادہ تر مسلمان ایمان میں غرق اوران کے حوصلہ بلند تھے۔ اور اس طرح سے بہادرانہ انداز میں لڑے کہ مشرکوں کو بہت تعجب ہوا۔
٤۔ خداکی غیبی مدد(٣) چند طریقے سے ہوئی:
الف: جنگ کی رات بارش کا ہونا، جس سے مسلمانوں کی پانی کی ضرورت پوری ہوگئی اور ان کے قدموں کے نیچے کی زمین سخت ہوگئی، اور اس پر چلنا آسان کام ہوگیا ۔(٤)
ب: اس رات مسلمانوں کو بڑی اچھی نیند آئی(٥) اور وہ سکون سے سوئے صرف پیغمبر اسلاۖم صبح تک بیدار رہے اور لشکر اسلام کی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہے۔(٦)
ج: مسلمانوں کی نصرت و مدد کے لئے فرشتوں کا نزول اور ان کا میدان جنگ میں حاضر ہونا۔(٧)
د: مشرکین کے دلوں میں رعب ووحشت کا ڈالنا۔(٨)
______________________
(١) سورۂ انفال، آیت ٦۔ ٥
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٤؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص٣٨٦۔ ٣٨٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٢٤٧۔
(٣) سورۂ آل عمران، آیت ١٢٣
(٤) سورۂ انفال، آیت١١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٥ و ٢٥۔
(٥) سورۂ انفال، آیت ١١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٣٩٢۔ لیکن قریش خوف و اضطراب کی وجہ سے صبح تک بیدار تھے اور تکلیف کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤۔
(٦) شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص٧٣؛ مسند احمد، ج١، ص١٢٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٢٧٩۔
(٧) سورۂ انفال، آیت ٩؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٩۔ ٧٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٨٦
(٨) سورۂ انفال، آیت ١٢.

اسلامی لشکر کی کامیابی کے نتائج اور آثار
اس جنگ میں، اسلامی فوج کی کامیابی سے جو آثار و نتائج حاصل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ خداوند عالم نے پہلے ہی مسلمانوں سے مشرکین کے قافلہ یا مکہ کے فوجیوں کے مقابلہ میں کامیابی کا وعدہ کیا تھا۔(١) اور پیغمبر اسلاۖم نے جنگ کی کمیٹی کے جلسہ کے آخر میں خدا کا یہ وعدہ مسلمانوں کو پہنچادیا تھا۔(٢) اور خدا کی نصرت و مدد سے اس کامیابی کے ملنے پر مسلمان خوش ہوگئے۔ اور ان کا ایمان و اعتقاد قوی اورمستحکم ہوگیا۔
٢۔ منافقین اور مدینہ کے یہودی اس کامیابی سے بہت ناراض ہوئے اور ذلت و خواری کا احساس کیا جس وقت رسول خداۖ کے نمائندہ نے مسلمانوں کی بڑی کامیابی کی اطلاع مدینہ کے لوگوں کو دی۔ منافقین نے افواہیں پھیلانا شروع کردیں اور کہنے لگے: ''محمد ۖ قتل کردیئے گئے ہیں اور مسلمان شکست کھاکر متفرق ہوگئے ہیں''۔(٣)
یہودیوں نے بھی اپنے کینہ کا اظہار کیا۔(٤) کعب الاشرف، جو کہ یہودیوں کے بزرگوں میں سے تھا، اس نے کہا: یہ جو کہتے ہیں کہ جنگ میں مارے جانے والے عرب کے بڑے اور سربرآوردہ لوگ تھے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس روئے زمین کی زندگی سے بہتر زمین کے نیچے دفن ہو جانا ہے''۔(٥)
٣۔ اطراف مدینہ کے قبائل: اس کامیابی کو اسلام کی حقانیت اور خدا کی نصرت کی نشانی سمجھ کر
______________________
(٢) سورۂ انفال، آیت ٧.
(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩.
(٤) گزشتہ حوالہ، ص ١١٥؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ، (قاہرہ: دارالمعارف، ط ٣.)، ج١، ص ٢٩٤.
(٥) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٧.
(٦) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٢١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٥؛ رجوع کریں: بیہقی، ج٢، ص٣٤١۔
اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔
یعقوبی لکھتاہے: جب خداوند عالم نے جنگ بدر میں اپنے پیغمبرۖ کو سرافراز اور کامیاب کردیا اور قریش کے کچھ لوگ قتل ہوگئے تو قبائل عرب، اسلام کی طرف راغب ہوگئے اور کچھ وفود کو پیغمبر ۖکی خدمت میں بھیجا۔ وہ آگے لکھتا ہے کہ جنگ بدر کے چار یا پانچ مہینے بعد قبیلہ ربیعہ، سرزمین ''ذی قار'' میں کسریٰ سے لڑا اور انھوںنے ایک دوسرے سے کہا: کہ میدان جنگ میں اس تہامی (محمدۖ) کے شعار سے استفادہ کرو اس وقت وہ یا محمدۖ، یا محمدۖ کی فریاد کے ساتھ لڑے اور کامیاب ہوئے۔(١)
٤۔ قریش کے لوگ متوجہ ہوئے کہ محمد ۖ کی قدرت اور مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ لگانے میں وہ اپنے محاسبات میں غلطی اور اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ہرگز تصور نہیں کرتے تھے کہ انھیں اتنی سخت شکست، چند فراری لوگوں کے ہاتھ، کاشتکاروں کی مدد سے، اٹھانی پڑے گی۔ قریش اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کی تجارت خطرے میں پڑجائے گی اور اب وہ مکہ کے تجارتی راستے سے شام نہیں جاسکتے ہیں۔
صفوان بن امیہ نے قریش کے سرداروں کے مجمع میں کہا: ''محمدۖ اور اس کے ساتھیوںنے ہماری تجارت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے نہیں معلوم ان کے ساتھ کیا کریں؟ وہ ساحل کو نہیں چھوڑیں گے اور ساحل کے لوگ سب ان کے ہم پیمان اور ساتھ ہوگئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں؟ اس شہر میںہمارے اخراجات، گرمیوں میں شام کے تجارتی سفر سے اور جاڑوں میں حبشہ کے تجارتی سفر سے، پورے ہوتے تھے۔ اگر ہم اسی طرح اس شہر میں رہیں تو مجبور ہوکر ہمیں اپنا سارا سرمایہ کھانا پڑے گا اور اپنی ساری دولت سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور ہماری زندگی ختم ہو جائے گی''۔
آخر کار اس مجمع میں طے پایا کہ عراق کے راستے سے شام جائیںاس وقت صفوان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ، جس میں تنہا اس کا حصہ تین لاکھ درہم تھا، عراق کے راستے سے شام کی طرف روانہ ہوا۔ پیغمبر اسلاۖم اس قافلہ کی روانگی سے باخبرہوکر جمادی الآخر ٣ھ میںایک سو سپاہیوں کا ایک دستہ
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص ٣٨.
زید بن حارثہ کی سربراہی میں ان کے اموال کو ضبط کرنے کے لئے بھیجا۔ جب دستہ وہاں پہنچا تو یہودی قافلہ کے اکثر آدمی فرار کر گئے تھے۔ اسلامی سپاہیوں نے ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ایک یا دو اسیر کے ساتھ مدینہ پلٹ آئے۔(١) تاریخ میں اس ماموریت کو ''سریة القرَدَہ''(٢) کہا گیا ہے۔(٣)

بنی قینقاع کی عہد شکنی
بنی قینقاع، پہلا یہودی قبیلہ تھا جس نے اپنے دوستی اور عدم تجاوز کے عہد کو توڑا۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی، یہودیوں اور منافقوں کے لئے بہت شاق ، اور انھیں ناراض کرنے والی تھی۔ اس بنا پر یہ قبیلہ جنگ بدر کے بعد سے، دشمنی دکھانے لگا۔ پیغمبر ۖ نے ان کو خبردار کیا کہ قریش کے انجام سے نصیحت لواور مسلمان ہو جائو کیونکہ تم لوگوںنے ہمارے صفات اور نشانیوں کواپنی کتاب میں پڑھ رکھا ہے اور میری نبوت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔(٤)
ان لوگوں نے کہا: قریش پر کامیابی نے تم کو مغرور کردیا ہے، قریش تاجر پیشہ لوگ تھے اگر ہم سے جنگ کی تو دیکھنا کہ ہم اہل جنگ ہیں! ان تکبرانہ باتوںکے ذریعہ انھوں نے پیغمبر ۖ کی وارننگ پر خاص توجہ نہیں دی، اور اسی طرح اپنے اختلافات کو برقرار رکھا۔ ایک دن ان یہودیوں میں سے ایک نے ،
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٨۔ ١٩٧.
(٢) ''سریة القرَدہ'' بھی نقل ہوا ہے (بحارالانوار، ج٢٠، ص ٤؛ حوالہ، طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥ .
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٤۔ ٥٣؛ مجلسی، بحارالانوار، ج٢٠، ص ٥۔ ٤.
(٤) ''قل للذین کفروا ستغلبون و تحشرون الی جہنم و بئس المہاد. قد کان لکم آیة فی فئتین التقتا فئة تقاتل فی سبیل اللّٰہ و اخریٰ کافرة یرونہم مثلیہم رأی العین واللّٰہ یؤید بنصرہ من یشاء ان فی ذالک لعبرة لاولی الابصار'' سورۂ آل عمران، آیت ١٣۔ ٢١.
مدینہ کے اطراف میں اس قبیلہ کے ایک بازار میں، ایک انصار کی زوجہ کی اہانت کی۔ اس حرکت سے مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ اس عورت نے مسلمانوں سے فریاد کی تو ایک مسلمان نے اس یہودی کو قتل کردیا۔ اس پر سارے یہودی، اس مسلمان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کردیا۔ اس فتنہ انگیزی کی وجہ سے دو لوگ مارے گئے لیکن اگر وہ حسن نیت سے کام لیتے تو دوبارہ امنیت کا برقرار ہونا ممکن تھا، اور اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آتے۔ لیکن ان لوگوں نے احتیاطی تدبیریں اپنانے کے بجائے قلعہ میں جا کر پناہ لے لی اور مسلمانوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیا۔
پیغمبر اسلاۖم نے ان کے قلعہ کے محاصرہ کا حکم صادر فرمایا۔ پندرہ دن محاصرہ کے بعد، عبد اللہ ابن ابی (خزرجی) جو کہ پہلے ان کا ہم پیمان تھا اس کے کہنے پر پیغمبر اسلاۖم نے موافقت کی کہ وہ اپنے اسلحوں کوچھوڑ کر مدینہ کے باہر چلے جائیں۔ چنانچہ وہ لوگ شام کے ''اذرعات'' علاقہ میں چلے گئے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دوسرے سال ماہ شوال میںپیش آیا۔(١)
بنی قینقاع، شجاع ترین یہودی تھے(٢) اور جیسا کہ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سازو سامان اور قدرت پر مغرور تھے۔ او رشاید اپنے ہم نواؤوں، خزرج اور بنی عوف(٣) کی حمایت سے بھی دلگرم ہوگئے تھے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ خزرجی جو کہ سب سے آگے تھے اور واسطہ بنے ہوئے تھے۔ وہ بھی ان کی سزاؤوں کے کم کرانے میں کچھ نہیں کرسکے(٤) عبادہ بن صامت عوفی بھی ان سے الگ ہوگئے۔(٥)
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٢۔ ٥٠؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٩۔ ٣٠٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٨.
(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٠.
(٤) گویا پیغمبر اسلاۖم نے عبد اللہ بن ابی کے واسطہ بننے کواس اعتبار سے قبول کیا کہ بظاہر وہ مسلمان تھا اور مسلمانوں کی وحدت کی بقاء اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے کوشش کررہا تھا۔
(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٩.
دوسری طرف سے یہودیوں کے دو قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ کے پہلے ہمنوا، اوسی تھے اور گویا اسی وجہ سے وہ بنی قینقاع کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے ۔ اور شاید سعد بن معاذ ۔ اوس کا سردار۔ اس بحران میں ان کے مداخلہ کو روکنے کے لئے اہم کردار رکھتا تھا۔ بہرحال مدینہ سے اس قبیلہ کی جلاوطنی، مسلمانوں کے لئے مفیدثابت ہوئی۔ اور اس طرح سے ان تینوں قبیلوںکی قدرت بھی بٹ گئی اور مدینہ کے بقیہ یہودیوں کے لئے ایک طرح سے وارننگ بھی تھی کہ اس طرح کی غلطیاں وہ آئندہ نہ کریں۔

جناب فاطمہ زہرا سے حضرت علی کی شادی
جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد دوسرا مبارک واقعہ جو خانۂ حضرت محمد ۖ میں رونما ہوا ، وہ علی کی شادی تھی جو آپۖ کی دختر، فاطمہ زہرا سے ہوئی۔(١)
فاطمہ زہرا، پیغمبر اکرمۖ کے خاص اکرام و احترام کے لحاظ سے اور اپنی لیاقت اور ممتاز شخصیت و فضیلت کے اعتبار سے ایسی خاتون تھیں جن کے متعدد لوگ خواستگار تھے۔ پیغمبر اسلاۖم کے چند معروف اصحاب، جن میں بعض سرمایہ دار بھی تھے، ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پیغمبرۖ نے
موافقت نہیں کی(٢) اور فرمایا: ''خدا کے فیصلہ کا منتظر ہوں''(٣) انھوں نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ فاطمہ کی خواستگاری کے لئے جائیں۔
پیغمبر ۖ نے جناب فاطمہ کی رائے معلوم کرنے کے بعد علی کی خواستگاری کی موافقت کردی۔(٤)
______________________
(١) مجلسی، بحارالانوار، ج٤٣، ص ٩٧
(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ١٠٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٤.
(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٨، ص١٩.
(٤) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٣.
اور اپنی دختر سے فرمایا: ''تجھ کو ایسے شخص کی زوجیت میں دے رہا ہوں جو سب سے نیک اور اسلام لانے میں پیش قدم تھا''(١)اور علی سے بھی فرمایا: ''قریش کے کچھ لوگ ہم سے نالاںہیں کہ کیوں اپنی دختر انھیں نہیں دی۔ میںنے ان کے جواب میں کہا: یہ کام خدا کے ارادہ سے ہوا ہے۔ فاطمہ کی ہمسری کے لئے علی کے علاوہ کوئی شائستگی نہیں رکھتا ہے''۔(٢)
یہ شادی نہایت ہی سادگی اور خوشحالی کے ساتھ تھوڑے سے مہر(٣) او رمختصر سے جہیز کے ساتھ انجام پائی(٤) جو اسلام میں ازدواجی روابط کے لئے معنوی قدر و قیمت کے اعتبار سے اعلیٰ ترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔
______________________
(١) امینی، الغدیر، ج٣، ص٢٠.
(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٢.