چوتھی فصل
لشکر اسلام کی تشکیل
اسلامی فوج کا قیام
پیغمبر اسلاۖم مکہ میں سکونت کے دوران فقط ایک مبلغ تھے اور لوگوں کے لئے عملی میدان میں ایک الٰہی راہنما تھے اور ان کی خدمات، لوگوں کی ہدایت و راہنمائی اور بت پرستوں اور مشرکوں سے فکری اوراعتقادی جنگ تک محدود تھیں۔ لیکن مدینہ میں آنے کے بعد، دینی رسالت کے ابلاغ و راہنمائی کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی رہبری بھی آپ کے ذمہ آگئی تھی؛ کیونکہ مدینہ میں نئی صورت حال پیش آگئی تھی اور آپ نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کے قیام کے سلسلہ میں ابتدائی قدم اٹھایا تھا۔ اس بنا پر آپ احتمالی خطرات اور دشواریوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرکے ایک دور اندیش، شائستہ اور آگاہ سیاسی رہبر کی شکل میں اس کی چارہ جوئی کی فکر میں لگ گئے، مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیا ن رشتہ اخوت و برادری کی برقراری، عمومی عہد و پیمان کی تنظیم و اجراء و نیز یہودیوں کے ساتھ عدم تجاوز کے معاہدہ پر دستخط یہ وہ اقدامات تھے جنھیں آپ نے بطور احتیاط انجام دیئے تھے۔
جو سورے اور آیات مدینہ میں نازل ہوئیں وہ سیاسی اور سماجی احکام و دستورات پر مشتمل تھیں اوروہ پیغمبر ۖ کیلئے سیاسی امور میں مفید اور راہ گشا تھیں۔ جیسے کہ خداوند عالم کی طرف سے جہاد اور دفاع کا حکم صادر ہوا(١) اور اس کے بعد پیغمبر اسلاۖم نے قصد کیا کہ ایک دفاعی فوج تشکیل دیں۔
اس فوج کا قیام عمل میں آنا اس لحاظ سے اہمیت رکھتا تھا کہ اس بات کا گمان تھا کہ مکہ کے مشرکین (جو ہجرت کے بعد مسلمانوں کو سزائیں اور تکلیف نہیںدے پا رہے تھے) اس مرتبہ مرکز اسلام (مدینہ) پر فوجی حملہ کردیں۔ اس بنا پر پیغمبر ۖ نے اس طرح کے گمان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہجرت کے پہلے سال کے آخر میں ایک اسلامی فوج کی بنیاد ڈالی۔ یہ فوج شروع میں تعداد اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے محدود تھی ۔ لیکن بہت جلدی دونوں لحاظ سے اسے ترقی ملی۔ یہاں تک کہ آغاز قیام میں جنگی ماموریت یا گشتی عملیات میں بھیجی جانے والی ٹولیاں ساٹھ افرادسے زیادہ پر مشتمل نہیں ہوتی تھیں۔ اور ان کی سب سے زیادہ تعداد جو بہت کم دیکھنے میںآئی دو سو سے زیادہ نہیں پہنچی۔(٢)
ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر میںان کی تعداد تین سو سے تھوڑا زیادہ تھی۔ لیکن فتح مکہ میں (ہجرت کے آٹھویں سال ) سربازان اسلام کی تعداد دس ہزار افراد تک پہنچ گئی تھی۔ اور فوجی سازوسامان کے اعتبار سے بھی بہت اچھی حالت ہوگئی تھی۔
بہرحال یکے بعد دیگرے، واقعات کے رونما ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کی پیش بینی درست تھی۔ کیونکہ ہجرت کے دوسرے سال طرفین کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں اگر مسلمانوں کے پاس دفاعی طاقت نہ ہوتی تو ان جھڑپوں کے نتیجہ میں مسلمان، مشرکوں کے ہاتھوں بری طرح سے مارے جاتے۔(٣)
______________________
(١) ''اذن.... یقاتلون بانہم ظلموا و ان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر، الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق'' (سورۂ حج، آیت ٤٠۔ ٩٣)، اسی طرح سے رجوع کریں : المیزان، ج١٤، ص ٣٨٣؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٦.
(٢) ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢،ص ١١٢.
(٣) پیغمبر اسلاۖم کے کل غزوات کی تعداد ٢٦ اور سریات کی تعداد ٣٦ نقل ہوئی ہے۔ (ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ١٨٦، طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ٧٢)، کچھ مورخین نے سریات کی تعداد اس سے زیادہ نقل کی ہے (مسعودی، مروج الذھب، ج٢، ص ٢٨٢)، بخاری، ایک روایت میں ان کی تعداد ١٩ ذکرہوئی ہے (صحیح بخاری ، ج٦، ص ٣٢٧.)
فوجی مشقیں
پیغمبر اسلامۖ نے انھیں تھوڑے سے سپاہیوں کے ذریعے ایک طرح کی چھوٹی فوجی نقل و حرکت شروع کردی جس کو درحقیقت ایک مکمل جنگ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اوران مشقوںمیں سے کسی ایک میں دشمن سے نوک جھوک اور جنگ پیش نہیں آئی جیسے حمزہ بن عبد المطلب کا تیس افراد پر مشتمل سریہ (ہجرت کے آٹھویں مہینے میں) جس نے قریش کے قافلہ کو مکہ کی طرف پلٹتے وقت پیچھا کیا تھا۔اور عبیدہ بن حارث کا ساٹھ افراد پر مشتمل سریہ جس نے (آٹھویں مہینے میں) ابوسفیان کے گروہ کا پیچھا کیا۔ اور سعید بن وقاص کا بیس افراد پر مشتمل سریہ جس نے ( نویں مہینے میں )قریش کے قافلے کا پیچھا کیا۔ لیکن اس کو پانہیں سکا۔(١)
اسی طرح سے خود پیغمبر اسلاۖم نے (گیارہویں مہینے میں) مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ، قریش کے قافلے کا تعاقب کیا اور سرزمین ''ابوائ'' تک پہنچ گئے، لیکن کوئی ٹکراؤ نہیںہوا۔
آنحضرت ۖ نے اس سفر میں قبیلۂ ''بنی ضَمرة'' سے عہد و پیمان کیا کہ وہ بے طرف رہیںاور دشمنان اسلام کا ساتھ نہ دیں۔
پیغمبر اسلامۖ نے ربیع الاول کے مہینے (بارہویں مہینے) میں، کرز بن جابر فہری، جس نے گلۂ (ریوڑ) مدینہ کو غارت کردیا تھا اس کا تعاقب، سرزمین بدر تک کیا لیکن وہ مل نہ سکا، جمادی الآخر
______________________
(١) واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جونس، ج١، ص ١١۔ ٩؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٥٩؛ رجوع کریں: ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٤٥۔ ٢٥١؛ ابن اسحاق نے ان سریات کو ٢ھ کے واقعات میں قرار دیا ہے۔ (طبری، گزشتہ حوالہ،) اگر بالفرض اس نقل کو ہم صحیح قرار دیں تو ہمیں قبول کرنا چاہیئے کہ اسلامی فوج کی تشکیل ٢ھ میں ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ مطلب موضوع کی اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلاۖم کے عمل کی تیزی کو بتاتا ہے.
میںایک سو پچاس یا (دوسو) افراد کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلہ کو جو کہ ابوسفیان کی سرپرستی میں (مکہ سے شام) جارہا تھا، اس کا تعاقب کیا (غزوہ ذات العشیرہ) اور اس بار بھی اس کے قافلہ تک نہ پہنچ سکے اور قبیلۂ ''بنی مدلج'' کے ساتھ عہد و پیمان کیا اور مدینہ پلٹ آئے(١) لہٰذا اس طرح کی چھوٹی فوجی نقل و حرکت کو درحقیقت فوجی مشقیں یا قدرت نمائی کہنا چاہیئے نہ واقعی جنگ۔
فوجی مشقوں سے پیغمبر ۖ کے مقاصد
قرائن سے پتہ چلتاہے کہ پیغمبر اسلاۖم کا ان چھوٹے سرایااور غزوات سے مقصد، نہ دشمنوں کو لوٹنا اور غارت کرنا تھا اور نہ ان سے جنگ اور ٹکراؤ کرنا تھا۔ کیونکہ (جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے) ایک طرف سے اسلامی سپاہیوں کی تعداد کم تھی اور دشمن کے سپاہیوں کی تعداد ان کے دو برابر تھی۔ اور دوسری طرف ان سرایا میں سے کچھ میں انصار بھی شریک تھے اور ان لوگوںنے ''عقبہ دوم'' کے عہد و پیمان میں پیغمبر ۖ کے ساتھ مدینہ کے اندر دفاع کا وعدہ کیا تھا نہ کہ مدینہ کے باہر دشمن سے جنگ کرنے کا۔
اس کے علاوہ مدینہ کے لوگ کاشتکار اور باغبان بھی تھے اور بادیہ نشین قبائل کی طرح غارت گری اور لوٹ مار کی عادت نہیں رکھتے تھے۔ اور اگر اوس و خزرج آپس میں جنگ بھی کرتے تھے تو وہ مقامی پہلو رکھتا تھا ۔ او رجنگ کی آگ بھڑکانے والے یہودی ہوتے تھے وہ کبھی قافلوں کے مال کو لوٹا نہیں کرتے تھے یا قبائل کے اموال کو ان کے علاقے سے ہڑپ کرلے نہیں جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اگر ان کا سامنا دشمن سے ہوتا تھا تو جنگ کی رغبت نہیں رکھتے تھے ۔ جیسا کہ حمزہ نے ایک شخص کے ذریعہ جو بے طرف تھا، جنگ کرنے سے پرہیز کیا۔(٢)
ان قرائن و شواہد کے لحاظ سے گویا پیغمبر اسلاۖم ان مشقوں سے خاص مقصد رکھتے تھے ۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
______________________
(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٣۔ ١١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦١۔ ٢٥٩.
(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩.
١۔ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی راستے کو دھمکی اور وارننگ دینا ؛مکے کے تاجروں کے قافلے شہر مدینہ کے پاس سے بحر احمر کے درمیان سے ہوکر گزرتے تھے لہٰذا وہ شہر سے ١٣٠ کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں رکھ سکتے تھے۔(١)
پیغمبر اسلامۖ اپنی اس نقل و حرکت کے ذ ریعہ، قریش کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر وہ چاہیں کہ مدینہ میں بھی (مکہ کی طرح) مسلمانوں کے کاموں میں رخنہ ڈالیں، تو ان کا تجارتی راستہ خطرہ میں پڑجائے گا اور ان کا تجارتی مال مسلمانوں کے ذریعہ ضبط ہوسکتا ہے۔٭
یہ وارننگ قہری طور سے مشرکین مکہ کو، کہ جن کے نزدیک تجارت ایک حیاتی مسئلہ تھا ، روکنے کے لئے ایک قومی محرک تھا اور ایک واقعی دھمکی تھی تاکہ اپنے محاسبات میں، مسلمانوں کے ساتھ رویہ میں تجدید نظر کریں۔
البتہ یہ خیال رہے کہ مسلمانوں کو حق حاصل تھا کہ مشرکین مکہ کے ا موال کو ضبط کرلیں؛ کیونکہ انھوں نے مہاجرین کو مکہ ترک کرنے کے لئے مجبور کیا تھا اور ان کی جائداد کو ہڑپ لیا تھا۔(٢)
______________________
(١) مونٹ گری، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات (بیروت: المکتبہ العصریہ)، ص٥.
٭ بعد میں دھمکی صحیح ثابت ہوئی اور (جیسا کہ ہم بیان کریں گے) قریش شام کے تجارتی راستہ کے مسدود ہونے سے سخت ناراض ہوئے اور شام جانے کے لئے دوسرے راستہ کی تلاش میں لگ گئے۔
(٢) پیغمبر اسلامۖ کی ہجرت کے بعد، عقیل نے مکہ میں خانہ آنحضرتۖ (شعب ابوطالب) اور بنی ہاشم نے مہاجروں کے گھروں پر قبضہ کرلیا۔ پیغمبر اسلاۖم نے فتح مکہ کے موقع پر حجون میں (مکہ کے باہر) خیمہ لگایا ۔ لوگوںنے عرض کیا ''کیوںآپ اپنے گھر تشریف نہیں لے جاتے؟'' آپ نے فرمایا: مگر عقیل نے ہمارے لئے گھر چھوڑ رکھا ہے؟!! (واقدی، مغازی، ج٣، ص ٨٢٨؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٣٦؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ والمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٣١٦ھ۔ق)، ج١، ص ٢١٨؛ بعد میں عقیل کے وارثوں نے اس گھر کو سودینار میں حجاج بن یوسف کے بھائیوں کے ہاتھ بیچ دیا (حلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص ١٠٢۔ ١٠١؛ اسی طرح خاندان بنی جحش بن رئاب کے ہجرت کرنے کے بعد، ان کے گھر مکہ میں خالی پڑے رہے۔ ابوسفیان نے یہ کہکرکہ ان کی لڑکی ان میں سے ایک کی زوجہ ہے، ان کے گھروں کو لے لیا۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٤٥)، اس کے علاوہ صہیب کے مدینہ ہجرت کرتے وقت، مشرکین نے ان کا پیچھا کیا اور مال و دولت کو چھین لیا لیکن اس کی جان بچ گئی (ابن ہشام، ج٢، ص ١٢١.)
لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیئے کہ اسلام کا دائرہ کار، ذاتی انتقام اور فردی حساب چکانے کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر درحقیقت دوبڑی قدرت کے ٹکراؤ میں بدل چکا تھا۔اور طرفین ایک دوسرے کے سپاہیوں کو کمزور کرنے میں لگ گئے تھے۔اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی نظر میں، دشمن کو اقتصادی نقصان پہنچانا اور ان کے اندر رعب و وحشت کا ڈالنا۔ ان کے تجارتی مال، یامال غنیمت سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ جیسا کہ عبد اللہ بن جحش کے سریہ اور جنگ بدر تک مشرکوں کا کوئی مال مسلمانوں کے ہاتھ نہیں لگا تھا۔
٢۔ یہ سرگرمیاں ، ایک طرح سے مسلمانوں کی جنگی قدرت کی نمائش اور مشرکین مکہ کے لئے وارننگ تھیں کہ مدینہ پر فوجی حملہ کرنے کے بارے میں نہ سوچیں۔ کیونکہ مسلمانوں میں دفاعی طاقت پیدا ہوگئی ہے اور وہ ان کے حملوں کا دفاع کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم قریش کی مخالفت کے اسباب و علل کے تجزیہ کی بحث میں پڑھ چکے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اسلاۖم مکہ میں رہ رہے تھے ا ور مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی تو قریش کے سرمایہ دا راپنے اقتصادی تسلط کا زوال دیکھ رہے تھے اور اب جبکہ شہر مدینہ کافی امکانات اور استعداد کے ساتھ ایک اسلامی مرکز میں تبدیل ہوگیا تھا کس طرح ممکن تھا کہ مکہ کے ثروت پرست اپنے کو امان میں سمجھیں ، اس وجہ سے ضروری تھا کہ شروعات مسلمانوں کی طرف سے ہو، تاکہ مشرکین اس شہر پر قبضہ نہ کرسکیں۔
٣۔ شاید یہ فوجی سرگرمیاں ایک طرح سے مدینہ کے یہودیوں کے لئے بھی الٹی میٹم تھیں ( جو اپنی دشمنی کو آشکار کرچکے تھے) تاکہ تخریب کاری سے ہاتھ اٹھالیںاور فوجی کاروائی کا ارادہ نہ کریں ورنہ مسلمان، فتنہ کی آگ کو سختی کے ساتھ خاموش کردیں گے۔(١)
______________________
(١) محمد حسین ھیکل، حیات محمدۖ (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط٨، ١٩٦٣م)، ص ٢٤٨۔ ٢٤.
عبد اللہ بن جحش کا سریہ
ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینہ میں پیغمبر ۖ نے عبد اللہ بن جحش (اپنے پھوپھی کے لڑکے) کو مہاجرین میں سے آٹھ افراد کے ساتھ، خبر رسانی اور خفیہ اطلاعات کی مہم پر بھیجا اوران کو مہر بند خط دیا اور فرمایا: ''دوروز راستہ طے کرنے کے بعد اس خط کو کھولنا اوراس کے مطابق عمل کرنا اور اپنے ہمراہ لوگوںمیں سے کسی کو ہمراہی پر مجبور نہ کرنا'' اس نے دو دن راستہ طے کرنے کے بعد، خط کو کھولا تو حکم اس طرح سے تھا ''جس وقت میرے خط کو پڑھنا اپنے راستہ کو جاری رکھنا اور جب سرزمین ''نخلہ'' میں (مکہ اور طائف کے درمیان) پہنچنا تو وہاں چھپ کر قریش کودیکھنا اور ہم کو وہاں کی صورت حال سے آگاہ کرنا'' عبد اللہ نے اعلان کیا کہ وہ پیغمبرۖ کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے کہا ''جو شخص بھی شہادت کے لئے تیار ہے آئے، ورنہ آزادہے اور پلٹ جائے۔ ان سب نے کہا کہ ہم تیار ہیں۔ یہ گروہ ''نخلہ'' میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ قریش کا ایک قافلہ عمربن الحضرمی کی سرپرستی میں طائف سے مکہ پلٹ رہا تھا ۔عبد اللہ اور اس کے ساتھیوں نے چاہا کہ قافلہ پر حملہ کردیں لیکن ماہ رجب کا آخری دن تھا۔ ایک نے دوسرے سے کہا:اگر یہ لوگ حرم میں داخل ہوگئے تو تقدس حرم کی خاطر ان سے جنگ نہیں ہوسکے گی اور اگر یہاں پر ہم ان سے جنگ کریںتو ماہ حرام کی حرمت کو پائمال کردیںگے۔
آخرکار قافلے پر حملہ کردیا اورعمرو بن الحضرمی کو قتل کر ڈالا اوردو لوگوں کو اسیر کرلیا اور مال غنیمت اور اسیروںکے ساتھ مدینہ پلٹ آئے۔ پیغمبرۖ نے، ان کے اس خود سرانہ اقدام پر افسوس ظاہر کیا اور اسیروں اور مال غنیمت کو لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: ''میںنے نہیں کہا تھا کہ ماہ حرام میں جنگ نہ کرنا''
اس واقعہ کا بہت چرچہ ہوا، ایک طرف اس گروہ کی جنگ و خون ریزی حرام مہینہ میں مسلمانوں کے لئے دشوار بن گئی اور عبد اللہ کی سرزنش کی اور دوسری طرف سے قریش اس واقعہ کا غلط پروپیگنڈہ کر کے کہتے تھے۔ محمد ۖ نے حرام مہینے کے تقدس اور احترام کو پائمال کردیا ہے،اور اس مہینہ میں خون ریزی کی ہے! یہودی بھی اس پر زہر چھڑک کر کہہ رہے تھے : یہ کام مسلمانوں کے ضرر میں تمام ہوگا، اسی وقت فرشتۂ وحی نازل ہوا اور خدا کا فرمان سنایا:
''پیغمبر یہ آپ سے محترم مہینوں میں جہاد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ان میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے اور راہ خدا سے روکنا او رخدا او رمسجد الحرام کی حرمت کا انکار کرنا ہے اور اہل مسجد الحرام کو وہاں سے نکال دینا خدا کی نگاہ میں جنگ سے بھی بدتر گناہ ہے اور فتنہ و فساد برپاکرنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اور یہ کفار و مشرکین برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو تم کو تمہارے دین سے پلٹادیں...''۔(١)
ان آیات کے نزول کے ذریعہ کہ جس میں عبد اللہ کے ضمنی تبرئہ کے ساتھ قریش کو فتنہ کا باعث اور ان کے گناہ کو ماہ حرام میں قتل سے بہت بڑا بتایا گیاہے مسلمانوں کے خلاف جو فضا مکدر ہوگئی تھی وہ ختم ہوگئی اور پیغمبرۖ نے قریش کے نمائندوں کی درخواست پر اسیروں کو رہا کردیا، ان میں سے ایک مسلمان ہو کر مدینہ میں رہ گیا۔(٢)
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی افراد، یا پارٹیاں اپنے حسن نیت (لیکن سوء تدبیر کے ساتھ) کی بنا پر ایسے اقدامات انجام دیتی ہیں جس کے برے اثرات سماج میں پیدا ہوتے ہیںاور ان کی حسن نیت، ان کے اقدامات کے خطرناک نتائج کا جبران نہیں کرسکتی ہے۔ عبد اللہ بن حجش اور ان کے ساتھیوں کا اقدام بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢١٧.
(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، (مطبعہ مصطفی البابی، الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج٢، ص ٢٥٥۔ ٢٥٢؛ ....
|