تیسری فصل
یہودیوں کی سازشیں
یہودیوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزیاں
یہودی (مسیحیوں کی طرح) پیغمبر ۖ کے عنقریب، مبعوث ہونے سے آگاہ تھے۔ قرآن مجید کے بقول ''اہل کتاب'' پیغمبر اسلاۖم کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے تھے(١) اور انھوں نے جن اوصاف اور نشانیوں کو توریت اورانجیل میں پڑھ رکھا تھا، ان کو آنحضرتۖ کے اندر منطبق پاتے تھے۔(٢)
اس بنا پر امید یہ تھی کہ یہ لوگ اوس و خزرج سے پہلے مسلمان ہو جائیں گے کیونکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اسلام کی طرف ان دو قبیلوں کے رجحانات کا ایک سبب یہ تھا کہ یہودیوں نے پیغمبر اسلاۖم کی بعثت کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کر رکھی تھیں وہ ''وارننگ'' کی صورت میںتھیں۔ لیکن ان میں سے صرف چند افراد نے اسلام قبول کیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دین پر قائم تھے، ہجرت کے ابتدائی سالوںمیںان کے روابط مسلمانوں سے ٹھیک تھے اور اس چیز پرشاہد؛ ان کا وہ معاہدہ ہے
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٦؛ سورۂ انعام، آیت ٢٠.
(٢) سورۂ اعراف، آیت ١٥٧؛ سورۂ آل عمران، آیت ٨١؛ سورۂ انعام، آیت ١١٤؛ سورۂ قصص، آیت ٥٢.
جو''عدم تجاوز'' کے عنوان سے پیغمبر اسلاۖم کے ساتھ کیا گیاتھا۔ لیکن ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ انھوںنے اپنا رویہ بدل دیا اور مخالفت پر اتر آئے ان کی ایک شرارت یہ تھی کہ پیغمبر اسلاۖم کے صفات کو چھپاتے یا بدل دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں پیغمبر ۖ کے صفات اپنی کتابوں میں نہیں ملے ہیں اور اس کے صفات، اس پیغمبر ۖ کے صفات نہیں ہیں جو آنے والا ہے۔(١)
قرآن نے ان کے اس رویہ او رطرز عمل کی مذمت کی ہے:
''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی جوان کے توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوںکے مقابلے میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خدا کی لعنت ہے''۔(٢)
یہودی مختلف طریقے سے مخالفت اور شرارتیں کرتے تھے ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ نامعقول او رغیر منطقی چیزوں کی فرمائش کرتے تھے جیسے وہ مطالبہ کرتے تھے کہ ان کیلئے آسمان سے کوئی کتاب یا (نامہ) نازل ہو۔(٣)
٢۔ الٹے سیدھے اور پیچیدہ دینی سوالات کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے (٤) ذہن پریشان اور چکرا جائیں۔ اگر چہ تمام جگہوں پر پیغمبر اسلاۖم نے متقن اور واضح جوابات دیئے لیکن اس کا نتیجہ وہ برعکس نکالتے تھے۔
______________________
(١)حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٠؛ بیہقی، ج٢، ص ١٨٦؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٥١؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٦٧.
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٨٩.
(٣) سورۂ نسائ، آیت ١٥٣؛ سورۂ آل عمران، آیت ١٨٣.
(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٥٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٢۔ ٣٢١؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ١٨٠۔ ١٧٨.
٣۔ مسلمانوں کی ایمانی اور اعتقادی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے تھے: (جاؤ اور بظاہر) جو کچھ مومنوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لے آؤ اور شام کو انکار کردو (اور پلٹ آؤ ) شاید اس طرح وہ لوگ بھی پلٹ جائیں۔(١)
٤۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ ان میں سے ایک شخص جس کا نام شأس بن قیس تھا وہ چاہتا تھا کہ اوس و خزرج کے درمیان پرانے کینہ و حسد کو جگا کر لڑائی جھگڑے اور جنگ کی آگ کو شعلہ ور کردے لیکن پیغمبر اسلاۖم کے بر وقت اقدام سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔(٢)
یہودیوں کی مخالفت کے اسباب
یہودی دراصل ایک منافع پرست، لالچی(٣)، ہٹ دھرم اور بہانہ باز لوگ تھے۔ قرآن مجید نے یہودیوں اور مشرکوں کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیاہے۔(٤) کیونکہ یہ دونوں گروہ، صاحب منطق اور استدلال نہیں تھے. اپنی کینہ توزی کے باعث ہر طرح کی مخالفت اور خلاف ورزی سے باز نہیں آتے تھے یہودیوں کی اسلام سے مخالفت کے اسباب و علل کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
١۔ یہودیوں کی متعصب فکریں پیغمبر اسلامۖ پر رشک کرتی تھیں لہٰذا وہ کسی ایسے کی پیغمبری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے جو ان کی نسل سے نہ ہو۔(٥)
______________________
(١) سورۂ آل عمران، آیت ٧٢.
(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٤، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٢٠۔ ٣١٩.
(٣) ''و لتجدنہم احرص الناس علی حیوٰة...'' (سورۂ بقرہ، آیت ٩٦.)
(٤) سورۂ مائدہ، آیت ٨٢.
(٥) سورۂ بقرہ، آیت ٩٠، ١٠٩؛ سورۂ نسائ، آیت ٥٤؛ ابن ہشام،گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٦؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٦٥.
٢۔ وہ لوگ (یہودی) نفوذ اسلام سے قبل مدینہ میں اقتصادی اور سماجی لحاظ سے اچھی پوزیشن رکھتے تھے کیونکہ وہ کاروبار، صنعت ، کاشتکاری(١) اور ربا خوری(٢) کے ذریعہ شہر کے اقتصاد کو اپنے کنٹرول میں لئے ہوئے تھے۔
دوسری طرف سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات ڈال کر ان کی قدرت و طاقت کو کمزور کردیاتھا۔ اور بنی قینقاع، خزرجیوں کے ساتھ رہ کر، اور بنی نضیر اور بنی قریظہ، اوسیوں کے ساتھ رہ کر اختلافات اور قبائلی جنگ کی آگ ان کے درمیان بھڑکا چکے تھے۔(٣)
ہجرت کے بعد اوس و خزرج پرچم اسلام کے زیر سایہ اکٹھا ہوگئے اور اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی قدرت و طاقت کا وہ احساس کرنے لگے اور تصور کرتے تھے کہ بہت جلد علاقہ پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی اور وہ اپنا مقام کھو بیٹھیں گے اور یہ چیز ان کے تحمل سے باہر تھی۔
٣۔ علمائے یہود وہاں کے سماج میں اپنا ایک بڑا مقام اور درجہ رکھتے تھے اور عام لوگ بغیر قید و شرط کے ان کی پیروی اور اطاعت کرتے تھے۔ یہاں تک جو احکام وہ خدا کے حکم کے برخلاف کہتے تھے اسے بھی آنکھ بند کرکے وہ قبول کرلیتے تھے۔(٤)
______________________
(١) بنی قینقاع زرگری (زیورات) کا کام کرتے تھے (مونٹ گری واٹ، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات، بیروت: المکتبة العصریہ) ، اور ایک بازار ان کے نام کا مدینہ میں موجود تھا (ابن شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، تحقیق: فہیم محمد شلتوت، قم: دار الفکر، ج١، ص ٣٠٦، یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٤، ص ٤٢٤؛ اور بنی نضیر اور بنی قریظہ نے اطراف مدینہ میں قلعے اور کالونیاں بنا رکھی تھیں و کاشت کاری اور باغ داری کا کام کرتے تھے۔ (یاقوت حموی، گزشتہ حوالہ، ج١، کلمہ بنی نضیر اور بطحان؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص ١٦١.)
(٢) سورۂ نسائ، آیت ١٦١.
(٣) سورۂ نسائ، آیت ١٦١.
(٤) سورۂ توبہ، آیت ٣١.
اور اس سے قطع نظر، ان کے آمدنی کا ذریعہ تحفے تحائف اور خیرات وغیرہ تھیں جسے عام یہودی توریت کی پاسداری اور محافظت کے عنوان سے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ڈرتے تھے کہ اگر یہودیوں نے اسلام کو قبول کرلیا تو یہ آمدنی ختم ہو جائے گی۔(١)
٤۔ وہ لوگ، جناب جبرئیل کے ساتھ (جو کہ خدا کا پیغام لے کر پیغمبر اسلاۖم پر نازل ہوتے تھے) دشمنی کرتے تھے(٢) اور اس بات کو بہانہ قرار دیکر آنحضرت ۖ کی مخالفت کرتے تھے۔
٥۔ قرآن مجید یہودیوں کے بہت سارے عقائد و اعمال اور توریت کی تعلیمات کو باطل قرار دیتا ہے(٣) اور بہت سارے احکام اور پروگراموں میں یہودیوں کی مخالفت کرتا ہے۔(٤)
اس موضوع کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہے؛ ظہور اسلام سے قبل، اہل کتاب، ثقافتی لحاظ سے بت پرستوں کے مقابلے میں بلند درجہ رکھتے تھے اور مشرکین ان کو احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے۔(٥)
ظہور اسلام کے بعد بھی یہ ذھنیت کم و بیش باقی تھی۔ اس بنا پر مدینہ کے مسلمان کبھی دینی مسائل کے بارے میں ان سے سوالات کرلیتے تھے اور وہ توریت کی باتوں کو عربی میں مسلمانوں کے
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ٧٩؛ سورۂ آل عمران، آیت١٨٧؛ سورۂ توبہ، آیت٣٤؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشاراتعلمی و فرہنکی، ١٣٦١)، ج٢، ص١٨٧۔ ١٨٦۔
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٩٨؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص١٧٥؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص٣٢٩۔
(٣) سورۂ نسائ، آیت ٤٦، ١٥٨۔ ١٥٥؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠۔
(٤) مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص١٠٦؛ رجوع کریں: صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دارالقلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ط٧، باب ٤٨٦، حدیث ١١٨٨؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١٤، ص٨٠۔
(٥) مرتضی العاملی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٧٦۔ ١٧٥۔
لئے تفسیر کرتے تھے۔ جبکہ ان کی مذہبی معلومات زیادہ غلط اورتحریف شدہ ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلاۖم نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اہل کتاب کی باتوں کی تصدیق نہ کریں۔(١)
آنحضرتۖ نے ایک دن عمر بن خطاب سے فرمایا: اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر خود حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ میری پیروی کرتے(٢) اس طرح کے مسائل نے یہودیوں کی دشمنی کو بڑھا دیا تھا۔ لہٰذا وہ کہتے تھے کہ یہ شخص ہمارے تمام پروگراموں کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔(٣)
قبلہ کی تبدیلی
پیغمبر اسلامۖ ، مکہ میں اپنی مدت اقامت کے دوران او رہجرت کے بعد کچھ عرصے تک حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے. یہودیوں نے اپنی دشمنی کو آشکار کرنے کے بعد، اس موضوع کو پیغمبر ۖ کے خلاف تبلیغ اور زہر چھڑکنے کے لئے دستاویز قرار دیا اور کہتے تھے: وہ اپنے دین میں استقلال نہیں رکھتا اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے وہ لوگ اس بات پر زیادہ زور دیتے تھے۔
پیغمبر اسلاۖم اس صورت حال سے آسودہ خاطر تھے اور راتوں کو آسمان کی طرف نگاہ کر کے نزول وحی کے منتظر رہتے تھے تاکہ نئے فرمان کے پہنچنے کے ساتھ یہودیوں کی
______________________
(١) صحیح بخاری، گزشتہ طبع، ج٩، باب ١١٩٠، ص٧٧٢۔
(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٧٢؛ رجوع کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص٥٢۔
(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٣٣٢۔
تبلیغات ختم ہو جائیں۔(١)
ہجرت کے سترہ مہینے کے بعد جس وقت پیغمبر اسلاۖم مسلمانوں کے ساتھ ظہر کی دو رکعت نماز ''بیت المقدس'' کی طرف پڑھ چکے تھے فرشتۂ وحی نازل ہوا اور قبلہ کی تبدیلی کا حکم سنایا اور پیغمبر ۖ کو کعبہ کی طرف موڑ دیا اور پیغمبر نے بعد کی دو رکعت نماز کعبہ(٢) کی جانب رخ کر کے پڑھی۔ خدا نے اس چیز
______________________
(١)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٣٤؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٤٢؛ الشیخ للحر العاملی، وسائل الشیعہ،ط٤، ١٣٩١ھ.ق)، ج٣، کتاب الصلوة، ابواب القبلہ، باب٢، حدیث٣، ص٢١٦؛ طباطبائی، المیزان، (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج١، ص ٣٣١۔ قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ، ہجرت کے بعد سات مہینے سے سترہ مہینے نقل ہوئی ہے۔ (وفاء الوفائ، ج١، ص٣٦٤۔ ٣٦١؛ بحار الانوار، ج١٩، ص ١١٣) لیکن علامہ طباطبائی ١٧ مہینے کی تائید فرماتے ہیں۔ (وہی حوالہ).
(٢) مورخین کے ایک گروہ کے کہنے کے مطابق یہ واقعہ، قبیلۂ بنی سلمہ کی ایک مسجد میں رونما ہوا جو ''مسجد القبلتین'' سے مشہور ہوئی۔ (ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٤؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٢؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٣٦٢۔ ٣٦١؛ زمخشری ، تفسیر الکشاف، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ١٠١؛ لیکن ایک دوسرے گروہ نے قبیلۂ بنی سالم بن عوف کی مسجد کو، جہاں پر پیغمبر اسلاۖم نے پہلی نماز جمعہ برگزار کی تھی واقعہ کی جگہ بتایاہے (طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٧١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٢٤؛ علی بن ابراہیم سے نقل کے مطابق) اور کچھ تاریخی خبریں بتاتی ہیں کہ یہ واقعہ خود مسجد النبی میں رونما ہوا (ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤١؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٣٦٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٠١۔ ٢٠٠) مسجد القبلتین محل وقوع کے لحاظ سے جس کی ہمارے زمانے میں تعمیر نو ہوئی ہے اور مدینہ کے شمال میں واقع ہے قبیلہ بنی سلمہ سے میل کھاتی ہے ؛ کیونکہ قبیلہ بنی سالم، مدینہ کے جنوب میں بسا ہوا تھا بہرحال مورخین کے درمیان قبلہ کی تبدیلی کے مکان میں اختلاف نظر کا پایا جانا اس کی عظمت کو کم نہیں کرتا ہے۔
کا تذکرہ اس طرح سے فرمایا ہے:
''اے رسول! ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیجئے اور جہاں بھی رہیئے اسی طرف رخ کیجئے ۔ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوںکے اعمال سے غافل نہیںہے''۔(١)
قبلہ کی تبدیلی سے مسلمانوں کا استقلال پورا ہوگیا اور یہ یہودیوں کے لئے بہت ہی گراں حادثہ تھا۔ لہٰذا انھوں نے اب دوسرے طریقے سے کہنا شروع کردیا کہ کیوں مسلمانوں نے اپنے قدیمی قبلہ سے منھ پھیر لیا؟ خداوند عالم نے قبلہ کی تبدیلی سے پہلے ہی یہودیوں کی حرکت سے پیغمبر ۖ کو آگاہ کردیا تھا اور اس کے جواب کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ کہ مشرق و مغرب اور روئے زمین کا ہر حصہ خدا کا ہے وہ جدھر نماز پڑھنے کا حکم دے، ادھر نماز پڑھنا چاہئے اور زمین کا کوئی حصہ اپنی جگہ پر ذاتی کمال نہیں رکھتا''۔
''عنقریب احمق لوگ یہ کہیں گے کہ ان مسلمانوں کواس قبلہ سے کس نے موڑ دیا ہے جس پر پہلے قائم تھے تو اے پیغمبرۖ! کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب سب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کردیتا ہے''۔(٢)
اس جواب کے بعد پھر یہودیوں کے پاس منفی تبلیغ کا کوئی بہانہ نہیں رہ گیا تھا اور قبلہ کی تبدیلی کے ساتھ دو نئے اور پرانے آئین کے پیرووں کے درمیان مشترک رابطہ ختم ہوگیا اور یہ دو گروہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ان کے درمیان روابط میں خلل پڑ گیا۔
'' آپ ان اہل کتاب کے لئے کوئی بھی آیت اور دلیل پیش کردیں یہ آپ کے قبلہ کو ہرگز نہ مانیں گے اور آپ بھی ان کے قبلہ کو نہ مانیں گے اور یہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے اور
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٤
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٢
اپنے اور اے پیغمبر!آپ علم کے آجانے کے بعد اگر ان کے خواہشات کا اتباع کرلیں گے تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوجائے گا''۔(١)
قرآن مجید کی آیات سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ قبلہ کی تغییرمیں خداوند عالم کی طرف سے یہودیوں پر انتقاد کے علاوہ مومنین کا امتحان بھی لیا گیا ہے کہ کس حد تک وہ ایمان و اخلاص رکھتے ہیں اور خدا کے حکم کے سامنے تسلیم ہیں۔
''اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایاتھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے۔اگر چہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرتا( سابق قبلہ کی طرف تمہاری نمازیں صحیح ہیں ) کیونکہ خدا بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے''۔(٢)
کچھ روایات میں، اس امتحان کی اس طرح تفسیر کی گئی ہے کہ مکہ کے لوگ کعبہ کے فدائی تھے۔ خداوند عالم نے مکہ میں وقتی طور پر، بیت المقدس کو اس لئے قبلہ قرار دیا تاکہ خدا کے نیک اور فرمانبردار بندے (جواپنی خواہشات کے برخلاف صرف خدا اور پیغمبر ۖ کے حکم کی پیروی میںاس کی طرف نماز پڑھتے ہیں) خدا کے نافرمان اور خود رائے بندوں سے الگ پہچانے جائیں۔ لیکن مدینہ میں، جہاں زیادہ تر لوگ بیت المقدس کے طرفدار تھے خداوند عالم نے ان کے لئے کعبہ کو قبلہ قرار دیا تاکہ وہاں بھی یہ دو دستے معین ہوسکیں۔(٣)
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٥
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٣.
(٣) طباطبائی، المیزان (بیروت: موسسة الاعلمی، للمطبوعات، ط ٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج١، ص ٣٣٣؛ بعض روایات و نیز کچھ تاریخی خبروں کی بنیاد پر پیغمبر اسلاۖم مکہ میں بھی کعبہ کی طرف پشت نہیں کرتے تھے۔ (وسائل الشیعہ، ج٣، ص ٢١٦، کتاب الصلاة، ابواب القبلہ، حدیث٤)، بلکہ اس کو بیت المقدس کے ساتھ ایک سمت میں قرار دیتے تھے اوردونوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (حلی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٣٥٧.)
|