تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

دوسری فصل
مدینہ میں پیغمبر اسلاۖم کے سیاسی اقدامات
مسجد کی تعمیر
پیغمبر اسلاۖم نے مدینہ میں(١) قیام کے بعد یہ ضرورت محسوس کی کہ ایک مسجد بنائی جائے جو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا سینٹر اور نماز جمعہ اور جماعت کے وقت جمع ہونے کی جگہ قرار پائے۔ اس وجہ سے آپۖ نے اس زمین کو جہاں پہلے دن آپ کا اونٹ بیٹھا تھا اور وہ دو یتیموں کی تھی ان کے اولیاء سے خریدی اور مسلمانوں کی مدد سے وہاں ایک مسجد تعمیر کی(٢) جو آپ کے نام یعنی ''مسجد النبی'' کے نام
______________________
(١) یاقوت حموی، معجم البلدان (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ.ق)، ج٥، ص ٤٣٠، (لغت: یثرب)
(٢)محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٢٣٩؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٥٦؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ محمود مہدی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج٢، ص ١٨٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٨٥؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧.)، ج٣، ص ٢١٥؛ الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص ٢٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٩، ص ١٢٤.
سے مشہور ہوئی۔ ہجرت کے بعد آنحضرتۖ کا یہ پہلا اجتماعی اقدام تھا۔ مسجد کی تکمیل کے بعد، اس کے پہلو میںدو کمرے آنحضرتۖ اور آپ کی ازواج کے رہنے کے لئے بنائے گئے۔(١) اس کے بعد آنحضرتۖ ابوایوب کے گھر سے وہاں چلے گئے۔(٢)اور آخری عمر تک اسی کمرے میں زندگی بسر کی۔

اصحاب صُفّہ
مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد، انصار نے مہاجر مسلمانوں کو جہاں تک ہوسکا اپنے گھر وںمیں ٹھہرایا اور ان کے لئے زندگی کی سہولتیں فراہم کیں۔(٣)
لیکن اصحاب صفہ جوایک فقیر، مسافر بے گھر اور ہر لحاظ سے محروم طبقہ تھا ان کے رہنے کے لئے مسجد کے آخر میں وقتی طور پر ایک سائبان بنادیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلاۖم ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جہاں تک ہوسکتا، ان کے لئے کھانے کی چیزیں فراہم کرتے تھے اور انصار کے سرمایہ داروں کو ان کی مدد کے لئے تشویق کرتے تھے۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ جو انقلابی، مومن او رخوبیوں کا مالک تھا ''اصحاب الصفہ'' کے نام سے معروف ہوا۔(٤)
______________________
(١) ایک کمرہ سودہ اور ایک کمرہ عائشہ کے لئے بنایا گیا (محمد بن سعد، سابق، ص ٢٤٠؛ حلبی، سابق، ص ٢٧٣)
(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة المصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج٢، ص١٤٣؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٦۔
(٣)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٣٤۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٢٥٥؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج٢، ص٤٥٨۔ ٤٥٣؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٧، ص٨١؛ ج٢٢، ص٦٦، ١١٨، ٣١٠، ج٧٠، ص١٢٩۔ ١٢٨، ج٧٢، ص٣٨؛ رجوع کریں: مجمع البیان، ج٢، ص٣٨٦، تفسیر آیۂ: ''للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللّٰہ لایستطیعون ضربًا فی الارض...'' (سورۂ بقرہ، آیت ٢٧٣) و عبدالحی الکتانی، التراتیب الاداریہ، ج١، ص٤٨٠۔ ٤٧٣۔
اس گروہ کی تعداد ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ جن کے رہنے کاانتظام ہو جاتا تھا وہ وہاں سے چلے جاتے تھے اور دوسرے نئے افراد آکر ان میں شامل ہو جاتے تھے۔(١)

عام معاہدہ
پیغمبر اسلاۖم نے مدینہ میں قیام کے بعد ضرورت محسوس کی کہ لوگوں کی اجتماعی حالت کو منظم کریں؛ کیونکہ آپ کے بلند اہداف کی تکمیل کے لئے شہر کی تنظیم ضروری تھی جبکہ اس وقت مدینہ کی آبادی کی ترکیب غیر مناسب تھی۔ عرب کے متعدد گروہ اس شہر میں رہتے تھے اور ان میں سے ہر فرد دو بڑے قبیلہ اوس و خزرج میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتا تھا۔ یہودی بھی اسی شہر میں ان کے اطراف میں بسے ہوئے تھے اور ان سے تعلقات رکھتے تھے اور اب مکہ کے مسلمان بھی ان میں اکثر بڑھ گئے تھے اس عالم میں ممکن تھا کہ کوئی حادثہ پیش آجائے اسی وجہ سے پیغمبر اسلامۖ کی تدبیر سے ایک پیمان نامہ لکھا گیا جسے اسلام میں ''پہلا اساسی قانون'' یا سب سے بڑی قرار داد اور تاریخی دستاویز کہا گیا۔
اس قرارداد نے مدینہ میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کئے اور یہ قانون شہری آبادی میں مسالمت آمیز زندگی اوران کے درمیان نظم و عدالت کو برقرار رکھنے کا ضامن بنا اور ہرطرح کے ہنگامے اوراختلاف کے جنم لینے سے مانع بنا۔ اس عہدنامہ کے چند اہم بند یہ تھے:
______________________
(١) ابونعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء (بیروت: دار الکتاب العربی، ط ٢، ١٣٨٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٤٠۔ ٣٣٩؛ ابونعیم نے اصحاب صفہ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (حلیة الاولیائ، ج١، ص ٣٨٥۔ ٣٤٧)، اس نے اس گروہ کی تعداد ٥١ افراد بتائی ہے اور ان میں سے ہر ایک کا ذکر کیاہے۔ (ان میں کچھ عورتوں کے نام بھی ملتے ہیں)۔ لیکن ان میں سے کچھ کواصحا ب صفہ میں شما رنہیں کیا ہے۔ جن افراد کوابونعیم نے اس گروہ میں شمار کیا ہے ۔ وہ یہ ہیں: بلال، براء بن مالک، جندب بن جنادہ، حذیفہ بن یمان، جناب بن الارت... ذوالبحاین، (عبد اللہ) سلمان، سعید بن ابی وقاص، سعد بن مالک، (ابو سعید خدری)، سالم (مولا ابی حذیفہ) اور عبد اللہ بن مسعود۔
١۔ مسلمان اور یہودی(١) ایک امت ہیں۔
٢۔ مسلمان اور یہودی اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں۔
٣۔ قریش کے مہاجرین، اسلام سے قبل اپنی سابق رسم (یعنی خون بہا دینے) پر باقی رہیں گے اگر ان کا کوئی فرد کسی کو قتل کرے یا اسیر ہو تو عدالت اور خیرخواہی کے جذبہ کے تحت سب مل کر اس کا خون بہا دیں اور فدیہ دے کر اسے آزاد کرائیں۔
٤۔ بنی عمرو بن عوف (انصار کا ایک قبیلہ) اور تمام دوسرے قبیلہ بھی خون بہا اور فدیہ کے سلسلہ میں اسی طرح عمل کریں۔
٥۔ کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ کسی کے غلام، فرزند یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کو بغیر اس کی اجازت کے پناہ دے۔
٦۔ اس عہدنامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں۔
٧۔ مدینہ ایک مقدس شہر ہے اس میں ہر طرح کا خون خرابہ حرام ہوگا۔
٨۔ اس عہدنامہ پر دستخط کرنے والوں میںاگر کبھی اختلاف پیدا ہوا تو اس اختلاف کو دور کرنے والے محمد ۖ ہوں گے۔(٢)
سلسلۂ حوادث کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پیمان (جو پیغمبر ۖ کے مدینہ آنے کے ابتدائی مہینوں میں انجام پایا تھا)،(٣) شہر کے امن و سکون میں موثر ثابت ہوا؛ کیونکہ ٢ھ تک یعنی جنگ بدر کے بعد تک ''بنی قینقاع'' کی فتنہ پردازیوں کی بنا پر اس قبیلہ سے جو جنگ ہوئی، کوئی کشیدگی اہل مدینہ کے درمیان نقل نہیں ہوئی ہے۔
______________________
(١) یہاں پر یہودی سے مراد، بنی عمرو بن عوف اور مدینہ کے تمام مقامی یہودی ہیں لیکن یہودیوں کے تین قبیلے، بنی قینقاع، بنی نضیر، اور بنی قریظہ سے پیغمبر اسلاۖم نے الگ پیمان کیا تھا جس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔
(٢) ابن ہشام، سابق، ج٢، ص ١٥٠۔ ١٤٧؛ اس عہدنامہ کے بندوں سے تفصیلی آگاہی کے لئے، رجوع کریں: فروغ ابدیت ، ج١، ص ٤٦٥۔ ١٦٢
(٣) اسلامی مورخین نے اس عہد و پیمان کی تنظیم مدینہ میں پیغمبر اکرمۖ کے پہلے خطبہ کے بعد نقل کی ہے لہٰذا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کا مدینہ میںاس عہد و پیمان کا منعقد کرنا، آپ کے ابتدائی اقدامات کا جز تھا۔

مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارگی کا معاہدہ
ہجرت کے پہلے سال(١) پیغمبر اکرم ۖ نے دوسرا اہم اجتماعی اقدام یہ کیا کہ مہاجرین و انصار کے درمیان رشتہ اخوت و برادری برقرار کیا۔ ماضی میں مسلمانوں کے ان دو گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ سے تفاوت اور کشمش پائی جاتی تھی؛ کیونکہ انصار، جنوب (یمن) سے ہجرت کر کے آئے تھے اور انکا تعلق ''قحطانی'' نسل سے تھا۔ اور مہاجرین، عرب کے شمالی حصہ سے آئے او ران کا تعلق ''عدنانی'' نسل سے تھا اوردور جاہلیت میں، ان دونوں کے درمیان نسلی کشمش پائی جاتی تھی۔
دوسری طرف سے انصار کا مشغلہ کاشتکاری اور باغ بانی تھا۔ جبکہ مکہ کے عرب، تاجر تھے اور کاشتکاری کو ایک پست مشغلہ سمجھتے تھے۔ اس سے قطع نظر یہ دونوں گروہ دو الگ ماحول کے پروردہ تھے اور اب نور اسلام کے سبب آپس میں دینی بھائی ہوگئے تھے۔(٢) اور ایک ساتھ مدینہ میں رہتے تھے۔ لہٰذا اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت نہ بھڑک اٹھے کیونکہ مسلمانوں کے ان دو گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں باقی رہ گئے تھے۔ لہٰذا پیغمبر اسلاۖم نے ان دو گرہوں کے درمیان رشتہ اخوت و برادری برقرار کیا اور ہر مہاجر کو، انصار میں سے کسی ایک کا بھائی(٣)
______________________
(١) ہجرت کے پانچ یا آٹھ مہینے بعد (سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٦٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٣٠، حاشیہ مقریزی کے نقل کے مطابق)
(٢) ''انما المومنون اخوة'' سورۂ حجرات ، آیت ١٠.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٥٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٣٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٢؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ١٣٠؛ یہ دینی برادری اور دینی تعاون کی بنیاد پر تھی جیسا کہ روایت میں بیان ہوا ہے کہ اخی رسول اﷲ بین الانصار و المہاجرین، اخوة الدین (طوسی، امالی، (قم: دارالثقافہ، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٥٨٧.
بنایا اور علی کو اپنا بھائی بنایا۔(١)
البتہ مہاجرین و انصار کے درمیان رشتۂ اخوت و برادری برقرار کرنے میں ایمان و فضیلت کے لحاظ سے ایک طرح کے تناسب اور برابری کا لحاظ رکھا گیا(٢) اور پیغمبر اسلاۖم کا رشتۂ اخوت علی سے قائم ہوا جبکہ دونوں مہاجر تھے لہٰذا اس زاویۂ نظر سے یہ بات قابل توجیہ و تاویل ہے۔
یہ عہد و پیمان مہاجروں اور انصار کے درمیان مزید اتحاد و اتفاق کا باعث بنا جیسا کہ انصار نے پہلے سے زیادہ، مہاجروں کی مالی امداد کے لئے تیار ہوگئے۔ اور مال غنیمت کی تقسم کے موقع پر ''بنی نضیر''
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٥٠؛ عسقلانی، الاصابہ تمییز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط١، ١٣٢٨ھ.ق)، ج٢، ص٥٠٧؛ الشیخ سلیمان القندوزی الحنفی، ینابیع المودة (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، باب٩، ص٥٥؛ سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص (نجف: المطبعة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ص٢٠، ٢٢، اور ٢٣ کتاب فضال میں احمد ابن حنبل کی نقل کے مطابق؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، (الاصابہ کے حاشیہ)، ج٣، ص٣٥؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٢؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٦٨؛ المظفر، دلائل الصدق (قم: مکتبہ بصیرتی)، ج٢، ص٢٧١۔ ٢٦٨۔
(٢) شیخ سلیمان قندوزی، گزشتہ حوالہ، ج١، باب٩، ص٥٥ احمد حنبل کے نقل کے مطابق؛ امینی، الغدیر، ج٣، ص١١٢؛ مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص٦٠؛ طوسی، الامالی، ص٥٨٧۔
وہ حدیثیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ اس عہد و پیمان میں حضرت علی کی اخوت رسول خدا ۖ کے ساتھ برقرار ہوئی ہے وہ، حدیث شناسی کے معیار کے مطابق قابل انکار نہیںہیں۔اس بنا پر ابن تیمیہ اور ابن کثیر کی باتیں اس سلسلہ میں ان کے خاص جذبہ اور فکر کی دین ہے اور علمی حیثیت نہیں رکھتی ہیں ۔ رجوع کریں: الغدیر ، ج٣، ص ١٢٥۔ ١١٢، ١٧٤۔ ٢٢٧، و ج٧، ص ٣٣٦.
نے مہاجروں کی خاطر اپنے حق کو نظر انداز کردیا۔(١) اور بارگاہ پیغمبر ۖ میں مہاجروں کی طرف سے ان کی کوششوں کا شکریہ، پیغمبر ۖ کے لئے حیرت آور تھا۔(٢) خداوند عالم نے اس موقع پر انصار کی ایثارگری کو اس طرح سراہا ہے۔
''یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنھیں ان کے اموال سے محروم اور گھروں سے نکال باہر کردیا گیا ہے اور وہ صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں کہ یہی لوگ دعوئے ایمان میں سچے ہیں۔ اور جن لوگوںنے دارالہجرت اور ا یمان کو ان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیںاور جو کچھ انھیں دیا گیا ہے اپنے دلوں میںاس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں اور اپنے نفوس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں ، چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔ اور جسے بھی اس کے نفس کی حرص سے بچالیا جائے وہی لوگ نجات پانے والے ہیں''۔(٣)
صحرا نشینوں کا مزاج دو طریقے کا تھا ایک طریقہ ان کا یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ کے اندر اپنے اعزاء و اقرباء کی مدد و نصرت کرتے تھے۔ پیغمبر اسلاۖم نے ان کی اس خصوصیت کو اسلامی وحدت اور اتفاق کی راہ میں استعمال کیا (کہ مہاجروں کے ساتھ انصار کی ایثار و قربانی اس کا ایک جلوہ ہے) اور ان کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ان کے مزاج میں،بیگانہ افراد سے جنگ و جدال کرنا تھا۔ پیغمبر ا کرم ۖ نے ان کے اس جذبہ
______________________
(١)واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس، (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، ص٣٧٩؛ ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورة، تحقیق: فہیم محمد شلتوت (قم: دار الفکر، ١٤١٠ھ.ق)، ج٢، ص٢٨٩۔
(٢) مسند احمد، ج٣، ص ٢٠٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٢؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٢٨؛ ابن شبہ، گزشتہ حوالہ، ص٤٩٠۔
(٣) سورۂ حشر، آیت ٩۔ ٨۔
کو دشمنان اسلام سے جنگ کرنے میںاور ان کے حملوں کا دفاع کرنے میں استعمال کیا۔(١)
______________________
(١) ''محمد رسول اللّٰہ و الذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم''(سورۂ فتح، آیت ٢٩.)
یہودیوں کے ان تین قبیلوں کے اصلی وطن اور نسب کے بارے میں مورخین کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایاجاتا اس سلسلہ میں تاریخی اخبار و اسناد کی آشفتگی اور تناقض کے باعث، حقیقت کی تعیین بہت مشکل و دشوار ہوگئی ہے۔ مشہور یہ ہے کہ جب شام میں یہودیوں کے اوپر، شہنشاہ روم کی جانب سے سختی اور دباؤ بڑھا تو وہ جزیرة العرب کی سمت مدینہ میں چلے گئے اور وہاں جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤، لغت مدینہ، وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٦٠)، قحطانی (اوس و خزرج) مارب بند ٹوٹنے کے بعد وہاں گئے اور اس کے کنارے جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج١، ص ٣٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ٦٥٦) اور جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان دو گروہوں کے درمیان آپس میں کشمکش پائی جاتی تھی۔لیکن کچھ مورخین کا عقیدہ ہے کہ وہ جزیرة العرب کے مقامی عرب تھے اور یہودیوں کی تبلیغات کے نتیجہ میںاس دین کوانھوں نے اپنالیا تھا۔ (احمد سوسہ، مفصل العرب والیہود فی التاریخ، (وزارة الثقافہ و الاعلام العراقیہ، ط ٥، ١٩٨١عیسوی)، ص ٦٢٩۔ ٦٢٩)، اور بعض دوسرے مورخین کا کہنا ہے کہ مدینہ میں یہودیوں کے بسنے کی تاریخ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بتائی گئی ہے جو ایک افسانہ اور من گڑھت قصہ ہے (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤؛ وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٥٧) اور بعض تاریخی کتابوں و نیز کچھ روایات میں یہ نقل ہوا ہے کہ ان کو پیغمبر ۖ کی نشانیوں کے سلسلہ میں جو آگاہی تھی اس کی بنا پر وہ آپ کے محل ہجرت کی تلاش میں، فدک ، خیبر، تیماء اور یثرب ( مدینہ) گئے اور وہاں جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤؛ وفاء الوفائ، ج١، ص ١٦٠؛ کلینی ، الروضہ من الکافی، ص ٣٠٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٢٢٦) یہ مفہوم، پہلے نظریہ کے مطابق اوراس کے ساتھ جمع ہوسکتاہے۔ کیونکہ یہ بات ممکن ہے کہ وہ لوگ روم کے دباؤ کے بعد، پیغمبر اسلاۖم کے عنقریب مبعوث ہونے کے سلسلہ میں جو خبریں رکھتے تھے) اس کی بنا پر وہ اس علاقہ کی طرف چلے گئے ہوں اور روایتیں بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں۔(عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف ابن عساکر، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٥١؛ وفاء الوفاء ، ج ١، ص ١٦٠)، یہودیوں کے ان تین قبیلوں کے نسب کے بارے میں بھی ( گزشتہ حاشیہ کا بقیہ)۔اختلاف نظر پایا جاتاہے کہ کیا یہ بنی اسرائیل کے یہودیوں میں سے تھے یا عرب نسل کے تھے؟ کچھ لوگ دوسرے نظریہ پر زور دیتے ہیں۔ (احمد سوسہ، گزشتہ حوالہ، ص ٦٢٧)۔ یعقوبی بھی قبیلۂ بنی نضیر اور بنی قریظہ کو، نسل عرب سے قرار دیتا ہے۔ (تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤٢۔ ٤٠؛ رجوع کریں: وفاء الوفائ، ج١، ص ١٦٢) شاید یہ کہا جاسکتاہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں یہودیوں کو ''بنی اسرائیل'' کے عنوان سے خطاب کیا گیا ہے جو کہ جزیرة العرب کے یہودیوں پر بھی صادق آتا تھا اور نیز پیغمبر اسلاۖم سے یہودیوں کی مخالفت اس نسلی جذبہ کے تحت کہ وہ بنی اسرائیل سے نہیں ہیںاور اسی طرح عرب کے علمائے نساب کی جانب سے ان کے نسب کو بیان نہ کیاجانا (جبکہ ان کا سارا دارومدار قبائل عرب کے نسب کی حفاظت پر تھا) ایساقرینہ ہے جو پہلے نظریہ کے درست ہونے کو بتاتا ہے۔ بہرحال چونکہ اس سلسلہ میں مزید تنقید و تحقیق اس کتاب کے دائرہ سے باہر ہے لہٰذا اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں.

یہودیوں کے تین قبیلوں کے ساتھ امن معاہدہ
پیغمبر اسلاۖم نے عمومی عہد و پیمان کے علاوہ، (جس میں اوس و خزرج کے علاوہ یہودیوں کے یہ دو قبیلے بھی شریک تھے) یہودیوں کے تینوں قبیلوں بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ میں سے ہر ایک کے ساتھ الگ الگ عہد و پیمان کیا کہ جس کو ''پیمان عدم تجاوز'' کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بیان کرچکے ہیں کہ یہ تینوں قبیلے مدینہ اور اس کے اطراف میں زندگی بسر کرتے تھے اور یہ لوگ اس پیمان میںپابند ہوئے تھے کہ مندرجہ ذیل چیزوں پر عمل کریں گے:
١۔ مسلمانوں کے دشمن کی مدد نہیں کریں گے اوران کو اسلحہ، سواری اور جنگی وسائل نہیں دیں گے۔
٢۔ پیغمبر اسلامۖ اور مسلمانوں کے ضرر میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔اور علی الاعلان اور چھپ کر کسی طرح سے انھیں ضرر نہیں پہچائیں گے۔
٣۔ اگر اس معاہدہ کے برخلاف انھوں نے عمل کیا تو پیغمبر اسلامۖ کو ہر طرح کی سزا دینے کا حق ہے چاہے وہ، ان کو قتل کریںیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں یا ان کی جائیداد ضبط کرلیں۔
اس معاہدہ پر ترتیب وار تینوں قبیلوں کے سرداروں نے یعنی ''مخیریق ، حی بن اخطب، اور کعب ابن اسد'' نے دستخط کئے۔(١)
گویا اس وقت یہودیوں کو مسلمانوں کی طرف سے خطرے کا احساس نہیں تھا۔ یا اپنے لئے بے طرفی بہتر سمجھتے تھے اور سوچتے تھے کہ اسلام کے دوسرے دشمن، مسلمانوں کی شکست کے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے عہد و پیمان کے کرنے میں وہ پیش قدم تھے۔(٢)
______________________
(١) طبری، اعلام الوری باعلام الھدیٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٣)، ص٦٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٩، ص١١١۔ ١١٠؛ رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج١، ص١٧٦، ٣٦٥، ٣٦٧ و ج٢، ص٤٥٤؛ ابن ہشام، السیر ة النبویہ، ج٣، ص٢٣١؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٣۔ بعد میں پیغمبر اسلاۖم نے اس عہدنامہ کی رو سے انہیں سزائیںدیں۔
(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٩ اور ١١٠.
ان اقدامات کی وجہ سے مدینہ اوراس کے اطراف کا ماحول پرامن ہوگیاتھا اور پیغمبر اسلامۖ فتنہ و آشوب سے بے فکر ہوگئے تھے۔ اور وقت اس بات کا آگیا تھا کہ قریش کے خطرے سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی چارہ اور تدبیر اپنائیںاور ایک نئے معاشرے کی بنیاد کے مقدمات فراہم کریں۔

منافقین
یہودیوں کے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ بھی پیغمبر ۖ کی ہجرت کے بعد مدینہ میں وجود میں آئے کہ قرآن نے ان کو ''منافقین'' کہا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر اپنے کو مسلمان کہتے تھے لیکن در حقیقت یہ بت پرست(٢) اور ان میں بعض یہودی(٣) تھے۔
ان لوگوں نے جب اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی قدرت کو دیکھا اور علی الاعلان مقابلہ کرنے سے عاجز ہوگئے تو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خود کو مسلمانوں کی صفوں میں داخل کردیا۔
منافقین، یہودیوں سے راز و نیاز رکھتے تھے اور چھپ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیںکرتے تھے۔ ان کا سرغنہ اور لیڈر عبد اللہ ابن ابی تھا جس کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ مدینہ میںاس کی رہبری کے مقدمات فراہم ہوچکے تھے لیکن پیغمبر اسلاۖم کے تشریف لانے سے مدینہ کے سیاسی حالات بدل گئے اور وہ اس مقام پر پہنچنے سے محروم ہوگیا۔ اور اس کے دل میں پیغمبر ۖ کے لئے
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠ اور ١٦٦؛ نویری، نہایة الارب، ترجمہ: محمود مہدی دامغانی (تہران انتشاراتامیر کبیر، ط ١، ١٣٦٤)، ج١، ص ٣٣٢.
(٢) حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، (بیروت: دار المعارفہ)، ج١، ص ٣٣٧؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٩؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٤.
کینہ و حسد پیدا ہوگیا۔(١)
منافقین کی تخریب کاریاں اس قدر زیادہ تھیں کہ قرآن نے مختلف سوروں میں جیسے، بقرہ ، آل عمران، توبہ، نسائ، مائدہ، انفال، عنکبوت، احزاب، فتح ، حدید، منافقون، حشر و تحریم میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے، لہٰذا پیغمبر ۖ کی لڑائی اس گروہ سے، مشرکوں اور یہودیوں سے زیادہ مشکل اور سخت تھی۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے سامنے، اپنے کو مسلمان بتاتے تھے لہٰذا پیغمبر اکرم ۖ اسلام کے ظاہری حکم کے تحت ان سے جنگ نہیں کرسکتے تھے۔ اسلام کے خلاف اس گروہ کی خراب کاریاں، منظم طریقے سے ایک گروپ کی شکل میں، عبد اللہ ابن ابی کی موت ( ٩ ھ)،(٢) تک اسی طرح جاری رہیں۔ لیکن اس کے بعد سست اور بہت کم ہوگئیں۔
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٣٨۔ ٢٣٧؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٥؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٣٨؛ ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورة، تحقیق: فہیم محمد شلتوت (قم: دار الفکر، ١٤١٠ھ.ق)، ج١، ص٣٥٧؛ احمد زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ط٢)، ج١، ص١٨٤۔
(٢) مسعودی، التنبیہ والاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر)، ص ٢٣٧.