عقبہ کا دوسرا معاہدہ
بعثت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں ٧٥ افراد جن میں سے گیارہ افراد او سی (اور بقیہ خزرجی) اور دو خاتون تھیں قافلۂ حج کے ساتھ مدینہ سے مکہ آئے اور ١٢ ذی الحجہ کو ''عقبۂ منیٰ'' کے کنارے دوسرا عہد شب کی تاریکی میں (مخفی صورت میں) پیغمبرۖ کے ساتھ کیا۔ اس عہد میں انھوں عہد کیا کہ اگر پیغمبر ۖ نے ان کے شہر کی طرف ہجرت کی تو وہ اسی طرح ان کی حمایت کریں گے جیسے وہ اپنی ناموس اور اولاد کی حمایت کرتے ہیں اور جن لوگوں سے پیغمبرۖ جنگ کریں گے ان سے وہ لڑیں گے۔ اس اعتبارسے اس بیعت کو ''بیت الحرب'' بھی کہا گیا ہے۔
عہد کے بعد پیغمبر ۖ کے حکم سے بارہ افراد نمائندے کے طور پر(نقیب) انتخاب ہوئے (مرکزی کمیٹی) تاکہ مدینہ پلٹنے کے بعد ہجرت رسول خدا ۖ کے زمانے تک ان کے امور کی سرپرستی کرسکیں۔(١)
اور یہ پیغمبر اسلاۖم کی کارکردگی کا ایک طریقہ تھا اور موجودہ افراد کو منظم کرنے میں آپ کی سعی و کوشش تھی۔
عہد نامہ کے تمام ممبران کے نام تاریخ اسلام کی مفصل کتابوںمیں تحریر ہیں۔
مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز
تمام مخفیانہ امور کے باوجود جو کہ پیغمبر ۖ اور مدینہ والوں کے درمیان انجام پائے تھے، قریش اس بیعت سے آگاہ ہوکر بیعت کرنے والوں کی گرفتاری میں لگ گئے۔ مگر انھوں نے اتنی تیزی سے کام کیا کہ فوراً مکہ کو ترک کردیا اورصرف ایک شخص کے علاوہ کوئی گرفتار نہ ہوا۔
______________________
(١) بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٠۔ ١٣٢؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ٩٠۔ ٨١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٥٤۔ ٢٤٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٣۔ ٢٢١؛ گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ٦٠۔ ٥٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ١٩، ص ٢٦ ۔ ٢٥.
اہل مدینہ کے کوچ کر جانے کے بعد قریش سمجھ گئے کہ پیغمبر اسلاۖم نے لوگوں کو اپنا حامی اور مدینہ میں اپنا ایک مرکز بنالیا ہے لہٰذا انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اور زیادہ سختی کرنا شروع کردی۔ اور حد سے زیادہ انھیں برا بھلا کہنے لگے اور اس قدر انھیں تکلیفیں پہنچائیں کہ ایک بار پھر (حبشہ کی ہجرت سے پہلے کی طرح) مکہ میں زندگی گزارنا دشوار ہوگیا۔(١)
اس بنا پر پیغمبر اسلاۖم نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دیدی اور فرمایا: مدینہ کی طرف کوچ کرو خداوند متعال نے انھیں تمہارا بھائی اور جائے امن قرار دیا ہے۔(٢) مسلمانوں نے ڈھائی مہینے کے اندر (نصف ذی الحجہ سے آخری صفر تک) آہستہ آہستہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود جو قریش نے سرراہ کھڑی کر رکھی تھیں، مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں پیغمبر ۖ، علی، ابوبکر اور چند افراد کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہ بچا۔
انصار کی تاریخ میں جوافراد مکہ سے مدینہ گئے ''مہاجرین'' او رمدینہ کے مسلمان جنھوں نے پیغمبرۖ کی مدد کی ''انصار'' کہلائے۔
پیغمبر ۖ کے قتل کی سازش
مکہ کے مسلمانوں نے ہجرت کے بعد مدینہ میں قیام کیا ،ادھر قریش کے سردار سمجھ گئے کہ مدینہ رسول خدا ۖ اوران کے چاہنے والوں کے لئے ایک مرکز اور پناہ گاہ بن چکا ہے اور وہاں کے لوگ رسولۖ کے
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٥٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤١۔ ٢٤٠؛ ابن سعد گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦.
(٢) ان اللّٰہ عزوجل قد جعل لکم اخوانأًو داراً تأمنون بہا (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١١١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٢؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج٣، ص ١٦٩.
(٤) حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) بیروت: دار المعرفہ) ج٢، ص ١٨٩.
دشمن سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں اس وجہ سے وہ پیغمبر ۖ کی ہجرت سے ڈرے کیونکہ اس چیز نے قریش کو چند خطرات سے روبرو کردیاتھا۔
١۔ مسلمان ان کی دسترس سے باہر ہوچکے تھے نئی صورت حال کے پیش نظر، حالات کے بارے میں پیش بینی اور حوادث کی راہ میں تاثیر گزاری قریش کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
٢۔ چونکہ اہل مدینہ پیغمبر ۖ سے جنگ میں حمایت کا عہد کرچکے تھے لہٰذا اس بات کا امکان تھا کہ آنحضرتۖ انتقام کی خاطر ان کی مدد سے کہیں مکہ پر حملہ نہ کردیں۔(١)
٣۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ جنگ نہیں ہوئی پھر بھی ان کے لئے ایک بڑا خطرہ لاحق تھا۔ کیونکہ مدینہ، قریش کے تاجروں کے لئے مناسب بازار تھا اور اس شہر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد، بہت بڑا اقتصادی نقصان ان کو ہونے والا تھا۔
٤۔ مدینہ، مکہ سے شام کے تجارتی راستہ کے کنارے پر پڑتا تھا اور مسلمان اس راستے کو ناامن بنا کر کاروبار تجارت میں خلل ڈال سکتے تھے۔
یہ فکریں اور الجھنیں باعث بنیں کہ سرداران قریش ''دار الندوہ'' (قریش کے سازشوں کا اڈہ اورقصی کی نشانی) میں اکٹھا ہوئے اور چارہ جوئی میں لگ گئے۔
کچھ نے مشورہ دیا کہ حضرت محمد ۖ کو شہر بدر یا قید کرلیا جائے لیکن یہ دو مشورے بعض دلیلوں کی بنیاد پر رد ہوگئے۔ آخر کار یہ طے پایا کہ محمد ۖ کو قتل کردیا جائے لیکن ان کو قتل کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد بنی ہاشم سکون سے نہ بیٹھتے اور خون خواہی کے لئے کھڑے ہو جاتے اس بنا پر طے کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک جوان تیار ہو ، تاکہ راتوں رات سب ملکر محمد ۖ پر حملہ کردیں اور ان کو بستر خواب پر ہی قتل کردیں۔ ایسی صورت میں قاتل ایک شخص نہیںہوگا اور بنی ہاشم بھی خون خواہی کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے لئے ان تمام قبیلوں سے جو اس قتل میںشریک تھے، جنگ کرنی ناممکن ہوگی ،لہٰذا
______________________
(١) گزشتہ حوالہ.
وہ مجبور ہوکر خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ماجرا اسی پر تمام ہو جائے گا۔ قریش نے اپنی سازش کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ربیع الاول کی پہلی شب کاانتخاب کیا ۔ خداوند عالم ان کی سازش کو اس طرح سے بیان کرتا ہے:
''اور پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ سا تھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کر رہا تھا او روہ بہترین انتظام کرنے والا ہے''۔(١)
______________________
(١) ''و اذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّٰہ و اللّٰہ خیر الماکرین'' سورۂ انفال، آیت ٣٠.
پیغمبر اسلاۖم کی ہجرت
پیغمبر اسلامۖ وحی کے ذریعہ ''دار الندوہ'' کی سازش سے آگاہ ہوئے اور حکم خدا ہوا کہ مکہ سے باہر چلے جائیں۔ رسول خدا ۖ نے اپنی ماموریت سے علی کو آگاہ کیا اور فرمایا: ''آج کی شب میرے بستر پر سوجاؤ اور میری سبز چادر اوڑھ لو''علی نے بے خوف و خطر اس ذمہ داری کو قبول کیا۔
پیغمبر ۖ اس شب ابوبکر کے ساتھ ''غار ثور'' میں چلے گئے جو مکہ کے جنوبی علاقے (مدینہ کے مخالف سمت) میں واقع تھا۔اور تین روز غار میں رہے تاکہ قریش ان کو پانے سے ناامید ہوجائیں اور راستہ پرامن ہو جائے اور آپ ہجرت کو جاری رکھ سکیں، خداوند عالم نے قرآن مجید میں پیغمبر ۖ کی تنہائی اور بے یاوری کا ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نصر کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا اور وہ بھی اضطراب و پریشانی کا شکار ہوگیا تھا۔ لیکن قریش اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود خدا کی قدرت سے پیغمبرۖ تک نہیں پہنچ سکے۔
''اگر تم پیغمبر ۖ کی مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد خدا نے کی ہے اس وقت جب کفار نے انھیں وطن سے باہر نکال دیا اور وہ ایک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار میں تھے تو وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر پر سکون نازل کردیا اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنھیں تم نہ دیکھ سکے اور اللہ ہی نے کفار کے کلمہ کو پست بنا یا ہے اوراللہ کا کلمہ در حقیقت بہت بلند ہے۔ کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے''۔(١)
عظیم قربانی
حضرت علی اس شب پیغمبر ۖ کے بستر پر سوئے اور قریش کے مسلح افراد نے رات کی تاریکی میں پیغمبر ۖ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور صبح سویرے ننگی تلواروں کے ساتھ گھر کے اندر گھس گئے ،اسی عالم میں علی بستر سے اٹھ گئے اس وقت تک وہ لوگ اپنے منصوبے کو سوفیصد درست اور کامیاب سمجھ رہے تھے لیکن علی کو دیکھتے ہی انھیں سخت حیرت ہوئی اور وہ ان کی طرف لپکے، یہ دیکھ کر علی نے اپنی تلوار کھینچ لی اور مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے جب انھوں نے پیغمبر ۖ کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بتانے سے انکار کردیا۔(٢)
______________________
(١) سورۂ توبہ، آیت ٤٠.
(٢) دارالندوہ اورلیلة المبیت کا واقعہ الفاظ اور عبارتوں کے فرق کے ساتھ اختصار و تفصیل سے مندرجہ ذیل کتابوںمیں نقل ہوا ہے۔
تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص٢٤٥۔ ٢٤٢؛ السرة النبویہ، ج٢، ص١٢٨۔ ١٢٤؛ طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٢٨۔ ٢٢٧؛ دلائل النبوة، ج٢، ص ١٤٩۔ ١٤٧؛ انساب الاشراف، ج١، ص٢٦٠۔ ٢٥٩؛ الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ١٠٣۔ ١٠١؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٢؛ اعلام الوریٰ، ص٦١؛ امالی شیخ طوسی، ص ٤٤٧۔ ٤٤٥ و ص ٤٧١۔ ٤٦٣؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج١، ص ١٨٣۔ ١٨٢؛ مناقب خوارزمی، ص ٧٣؛ کنز الفوائد کراجکی، ج٢، ص٥٥؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٣، ص ١٨٠۔ ١٧٥؛ السیرة النبویہ، ج٢، ص٢٠٦۔ ١٨٩؛ تاریخ بغداد، ج١٣، ص ١٩٢۔١٩١؛ بحار الانوار، ج١٩، ص ٦٥۔ ٤٧۔
اس رات جو شخص بھی پیغمبر ۖ کے بستر پر سوتا اس کے بچنے کی امید نہیں تھی لیکن حضرت علی شعب ابوطالب میں بھی اکثر راتوں میں پیغمبر ۖ کی جگہ سوتے تھے اور اپنے کو سپر قرار دیتے تھے اور خطرہ مول لیتے تھے تاکہ پیغمبر اکرم ۖ کی جان محفوظ رہ سکے خداوند عالم نے ان کی اس قربانی کو اس طرح بیان کیا ہے:
''اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے''۔(١)
مفسرین او رمحدثین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی عظیم قربانی کے سلسلے میں ''لیلة المبیت'' میں نازل ہوئی۔(٢)
حضرت علی نے اپنے ایک بیان میں قریش کی سازش کو ذکر کرنے کے بعد اس خطرناک رات میں اپنی حالت کواس طرح سے بیان فرمایا ہے:
''...پیغمبر ۖ نے مجھ سے فرمایاکہ ان کے بستر پر سوجائوں اور اپنی جان کو ان کے لئے سپر قرار دوں۔ بے خوف اس ماموریت کو میں نے قبول کیا ،میں خوش تھا کہ آپ کی راہ میں قتل کیا جاؤوں ۔ پیغمبر ۖ
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢٠٧۔
(٢) فتال نیشاپوری، روضة الواعظین (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ.ق)، ص ١١٧؛ ابن اثیر ، اسد الغابہ، ج٤، ص ٢٥؛ مومن شبلنجی، نور الابصار (قاہرہ: مکتبة المشہد الحسینی)، ص ٨٦؛ طبرسی، مجمع البیان، ج١، ص ٣٠١؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١.)، ج١٣، ص ٢٦٢؛ سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ص ٣٥؛ تقی الدین ابوبکر حموی، ثمرات الاوراق (حاشیہ المستطرف میں)، ص ٢٠؛ عبد الحسین امینی، الغدیر، ج٢، ص ٨٠؛ مرحوم مظفر نے اہل سنت کے نامور علماء اور مفسرین جیسے ثعلبی، قندوزی، حاکم نیشاپوری، احمد ابن حنبل، ابو السعادات، غزالی، فخر رازی، اور ذہبی سے نقل کیا ہے کہ سبھی نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ہجرت کر گئے اور میں ان کے بستر پر لیٹا رہا۔ قریش کے مسلح افراد کو اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبرۖ کو قتل کردیں گے لہٰذا وہ گھر میں گھس گئے اور جب وہاں پہنچے جہاں میں لیٹا تھا تو میںنے یہ دیکھ کر اور تلوار ہاتھ میں لے لی اور اپنا اس طرح دفاع کیا کہ خدا جانتاہے اور لوگ بھی اس سے آگاہ ہیں''۔(١)
قبا میں پیغمبر ۖ کا داخلہ
رسول خدا ۖ نے علی سے فرمایا کہ میری ہجرت کے بعد اپنے مکہ ترک کرنے سے پہلے، لوگوں کی جو امانتیں ان کے پاس ہیںاسے لوگوںکو واپس کردیں۔(٢) اور ان کی دختر فاطمہ اور بنی ہاشم کے دوسرے چند افراد جواس وقت تک ہجرت نہیں کرسکے تھے ان کی ہجرت کے مقدمات فراہم کریں۔(٣)
حضرت محمد ۖ نے چوتھی ربیع الاول (بعثت کے چودھویں سال) غار کو مدینہ کے ارادہ سے ترک کیا(٤) اور اسی مہینے کی بارہویں تاریخ کو مدینہ کے باہر محلہ ''قبا'' میں قبیلۂ بنی عمرو بن عوف کے رہنے کی جگہ پہنچے(٥) اور چند روز علی کے انتظار میں وہاں ٹھہرے رہے٭ اور اس دوران ایک مسجد
______________________
(١) صدوق، الخصال (قم: منشورات جامعہ المدرسین)، ج٢، ص ٣٦٧، باب السبعہ؛ مفید ، الاختصاص (قم: منشورات جماعة المدرسین)، ص ١٦٥.
(٢) ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٢٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٢٦١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٣.
(٣) شیخ طوسی، الامالی (قم: دارالثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص٤٦٨؛ رجوع کریں: مفید، الاختصاص، ص١٤٧؛ تاریخ الخلفائ، ص ١٦٦؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٦٢۔
(٤) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢٣٢؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٨٧۔
(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٦٤؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٦٣؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرھنگی، ١٣٦١)، ج٢، ١٧٢۔
٭رسول اسلام ۖکے ٹھہرنے کی مدت میں اختلاف ہے۔
وہاں پر تعمیر کی۔(١)
پیغمبرۖ کی ہجرت کے بعد علی تین دن مکہ میں ٹھہرے رہے اور اپنے فریضے کو بہ حسن و خوبی انجام دیا(٢) پھر اپنی والدۂ گرامی فاطمہ بنت اسد، فاطمہ زہرا دختر پیغمبرۖ اور فاطمہ دختر زبیر بن عبد المطلب کودو دوسرے افراد کے ہمراہ لے کر قبا میں پیغمبر ۖ سے جاملے۔(٣)
پیغمبر ۖ کا مدینہ میں داخلہ
حضرت علی کے قبا میں پہنچنے کے بعد پیغمبر اکرم ۖ بنی نجار (عبد المطلب کے مادری رشتہ دار) کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ گئے۔ راستہ میں قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہلی نماز جمعہ پڑھی۔ شہر میں داخل ہوتے وقت لوگوںنے بہت ہی پرجوش انداز میں آپ کا استقبال کیا۔ قبائل کے سرداروں اور بڑی شخصیتوں نے ناقۂ پیغمبر اکرم ۖ کی زمام کو پکڑ کر آنحضرتۖ سے درخواست کی کہ ان کے محلہ میں تشریف لے چلیں۔ پیغمبر ۖ نے فرمایا: ناقہ کے راستہ کو خالی کردو اسے خدا کی جانب سے حکم ملا ہے وہ جہاں بیٹھے گا میں وہیں اتر جاؤوں گا''
گویا رسول خدا ۖ اپنی تدبیر اور حکمت عملی کے ذریعہ چاہتے تھے کہ (حجر اسود کے نصب کے فیصلہ کی طرح) ان کی میزبانی کا شرف و افتخار کسی خاص قبیلہ یا خاندان کو حاصل نہ ہو اور آئندہ سماج میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
آخر کارآنحضرتۖ کا اونٹ محلہ بنی نجار میں ابوایوب انصاری خالد بن خزرجی کے گھر کے قریب بیٹھ گیا اس وقت (ایسی جگہ پر بیٹھا جو دو یتیموں کی تھی جہاں بعد میں مسجد النبی ۖ بنی) ۔
______________________
(١) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٨٥؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٦ و ١٧٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٤٩۔
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٣٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٩۔
(٣)ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٣؛ رجوع کریں: اعلام الوریٰ، ص٦٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٤۔
پیغمبر اکرم ۖ کے چاروں طرف بے شمار لوگ اکٹھا ہوگئے ہر ایک کی آرزو تھی کہ آنحضرتۖ کے میزبان ہم بنیں۔ ابوایوب انصاری آنحضرتۖ کے سامان سفر کواپنے گھر لے گئے اور ساتھ میں آنحضرتۖ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اور اس وقت تک وہاں آپ نے قیام کیا جب تک مسجد النبی اور اس کے ساتھ ہی آپ کی رہائش کے لئے حجرہ نہ بن گیا۔(١)
ہجری تاریخ کا آغاز
ہجرت بڑی تبدیلیوں کی شروعات اور اسلام کی پیش رفت میں ایک اہم موڑ کا نام ہے کیونکہ اسی کے سایہ میں مسلمانوں نے گھٹن اور دشواریوں کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا اور آزادی کے ساتھ ایک نقطہ پر متمرکز ہوگئے اور ایسے حالات میں یہ چیز ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔اگر ہجرت انجام نہ پاتی تو مکہ میں اسلام گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتا اور ہرگز اسے ترقی نہ ملتی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوںنے سیاسی اور نظامی سرگرمیاں شروع کردیںاور اسلام جزیرة العرب میں پھیل گیا۔
اس بنا پر ہجرت، اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز قرار پائی لیکن کس شخص نے پہلی مرتبہ اس تاریخ کی بنیاد ڈالی؟ اور کس وقت سے یہ تاریخ رائج ہوئی؟ مورخین اسلام کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہ کام عمر بن خطاب کے زمانہ میں، اس کے ذریعہ سے اصحاب پیغمبر ۖ کے مشورہ سے انجام پایا۔(٢)
______________________
(١) گزشتہ حوالہ.
(٢) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص١٣٥؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع والنشر، ص٢٥٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص١٠؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (تالیف حافظ ابن عساکر) (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠٧ھ.ق) ، ج١، ص٢٤۔ ٢٣۔
لیکن محققین اورتاریخ اسلام کے تجزیہ نگاروں کی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس امر کے بانی خود پیغمبر اسلاۖم تھے۔ اسلام کے بڑے مورخین کے ایک گروہ نے لکھا ہے کہ پیغمبر ا کرم ۖ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ماہ ربیع الاول میں حکم دیا کہ اسی مہینہ سے تاریخ لکھی جائے۔(١)
اس مطلب کے گواہ پیغمبر ۖ کے کچھ خطوط، مکاتبات اور تاریخی دستاویزات ہیں جو تاریخی کتابوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور ان کی تاریخ نگارش آغاز ہجرت سے ذکر ہوئی ہے اس کے دو نمونہ یہاں پیش ہیں:
١۔ پیغمبر اسلاۖم نے مُقنا کے یہودیوں سے ایک عہدو پیمان کیا اور اس پر آپ نے دستخط فرمائی اس کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ اس عہد نامہ کو علی بن ابی طالب نے ٩ ھ میں تحریر کیا ہے۔(٢)
٢۔ پیغمبر اسلاۖم نے نجران کے مسیحیوں کے ساتھ جو عہد و پیمان کیا اس میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر ۖ نے علی کو حکم دیا کہ اس میں لکھو کہ یہ پیمان ٥ھ میں لکھا گیاہے۔(٣)
بعض قرائن اور شواہد کی بنا پر ٥ھ تک ہجرت کو اصل اور بنیاد بناکر واقعات اور روداد و حوادث کو مہینوںکی تعدا کے لحاظ سے لکھا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں: ''ماہ رمضان کا روزہ تغییر قبلہ کے ایک ماہ بعد، ہجرت کے
______________________
(١)طبری، تاریخ الامم و الملوک، (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص٢٥٢؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص٢٤٨؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج٤٠، ص٢١٨، ابن شہر آشوب کی نقل کے مطابق۔
(٢) بلاذری، فتوح البلدان (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص ٧٢۔ ٧١؛ اس سند کے اصل متن میںعلی بن ابی طالب (واؤ کے ساتھ) لکھا ہوا ہے جس کی وجہ تاریخ کی کتابوں میں بتائی گئی ہیں ۔ رجوع کریں: الصحیح من سیر ة النبی الاعظم، ج٣، ص ٤٨۔ ٤٦.
(٣)الشیخ عبدالحی الکتانی، الترتیب الاداریہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج١، ص١٨١۔
اٹھارویں مہینہ میں واجب ہوا ہے۔(١)
٢۔ سفیان بن خالد سے جنگ کے لئے بھیجے ہوئے لشکر کا کمانڈر عبد اللہ بن اُنیَس کہتا ہے کہ میں پیر کے دن پانچ محرم کو ہجرت کے پچاسویں مہینے میں مدینے سے نکلا۔(٢)
٣۔ محمد بن مسلمہ قبیلۂ قرطا(٣) سے جنگ کے بارے میں لکھتا ہے:میں دس محرم کو مدینہ سے باہر گیا اور انیس دن کے بعد محرم کی آخری رات ، ہجرت کے ٥٥ویں مہینے میں، مدینہ واپس آیا۔(٤)
اس بنا پر ہجری، تاریخ کے بانی پیغمبر اسلاۖم ہی تھے۔ لیکن شاید خلافت عمر کے دور تک اسے بہت زیادہ شدت اور عمومیت نہیں مل سکی تھی۔(٥) اور چونکہ عمر کے دور میں زمان حوادث اور بعض دستاویزات اور مطالبات کی تاریخ میں اختلاف کی کچھ صورتیں پیش آئیں۔(٦) لہٰذا انھوںنے اس مسئلے کو ١٦ھ میں قانونی شکل دی اور ربیع الاول (مدینے میں پیغمبر کے داخلے کا مہینہ )کے بجائے ماہ محرم کو ہجری سال کا آغاز قرار دیا۔(٧)
______________________
(١) الشیخ حسن الدیار بکری، تاریخ الخمیس، (بیروت: مؤسسة شعبان)، ج١، ص ٣٦٨۔
(٢)واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٢، ص٥٣١۔
(٣) بنی بکر کا ایک خاندان ہے۔
(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣٤۔
(٥) سیدجعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٣، ص ٥٥.
(٦) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٥٢؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (بیروت: مکتبة المعارف ط٢، ١٣٩٤ھ.ق)، ج٧، ص ٧٤۔ ٧٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١م)، ج١٢، ص ٧٤؛ ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ١١۔١٠.
(٧) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ١٧٥؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٣، ص ٣٥؛ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: الصحیح من سیر ة النبی الاعظم، ج٣، ص ٥٦۔ ٣٢.
|