چوتھا حصہ
ہجرت سے عالمی تبلیغ تک
پہلی فصل: مدینہ کی طرف ہجرت
دوسری فصل: مدینہ میں پیغمبر اسلاۖم کے بنیادی اقدامات
تیسری فصل: یہودیوں کی سازشیں
چوتھی فصل: اسلامی فوج کی تشکیل
پہلی فصل
مدینہ کی طرف ہجرت
مدینہ میں اسلام کے نفوذ کا ماحول
وادی القریٰ ایک بڑا درّہ ہے جہاں سے، یمن کے تاجروں کا شام جانے کا راستہ مکہ کے اطراف سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس درّے کی لمبائی شمال سے جنوب تک ہے اور اس میں چند ایسی زمینیں بھی تھیں جو آب و گیاہ سے مالا مال اور کھیتی باڑی کے لائق تھیں ۔(١) اور وہاں سے قافلے گزرتے وقت اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ مکہ کے شمال میں ٥٠٠ کلومیٹر کے فاصلہ پر انھیں زمینوں میں سے ایک زمین میں قدیمی شہر ''مدینہ'' پڑتاتھا جو ہجرت رسول خدۖا کے بعد ''مدینة الرسول'' اور پھر ''مدینہ'' کہا جانے لگا۔
اس شہر کے لوگوں کا پیشہ اہل مکہ کے برخلاف کھیتی باڑی اور باغبانی تھا۔ مدینہ کے اجتماعی حالات اور آبادی کا تناسب بھی مکہ سے بالکل الگ تھا۔ اس شہر میں یہودیوں کے تین بڑے قبیلے ''بنی نضیر''، ''بنی قینقاع'' اور ''بنی قریظہ'' رہتے تھے۔ دو مشہور قبیلہ ''اوس اور خزرج'' بھی جن کی اصالت یمنی (قحطانی) تھی مأرب بند ٹوٹنے کے بعد(٢) جنوب سے ہجرت کر کے اس شہر میں یہودیوں کے بغل
______________________
(١) یاقوت حموی ، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ) ج٤ ، ص ٣٣٨.
(١) وہی مصنف، ج٥، ص ٣٦، مأرب بند ٹوٹنے کا تذکرہ ہم اس کتاب کے پہلے حصہ میں کرچکے ہیں.
میں آکر رہنے لگے تھے۔
جس زمانے میں پیغمبر اسلاۖم مکہ میں تبلیغ الٰہی میں سرگرم تھے مدینہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے جن سے ہجرت پیغمبر ۖ کا ماحول ہموار ہو رہا تھا اور پھر یہ شہر اسلام کے پیغام اور تبلیغی مرکز میں تبدیل ہوگیا ان واقعات میں سے چند یہ ہیں۔
١۔ یہودیوں کے پاس شہر کے اطراف میں زرخیز زمینیں تھیں اور ان میں انھوں نے کھجور کے باغات لگا رکھے تھے جن سے ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی تھی(١) کبھی کبھار ان کے اور اوس و خزرج کے درمیان نوک جھوک ہوجایا کرتی تھی۔ یہودی ان سے کہتے تھے کہ عنقریب ایک پیغمبرۖ آنے والا ہے ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کی مدد سے تم کو قوم عاد وارم کی طرح نابود کردیں گے۔(٢)
______________________
(١) مونٹگری واٹ، محمد ۖ فی المدینہ، تعریف: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبة العصریہ) ، ص ٢٩٤ پرکہتے ہیں کہ اوس و خزرج کے مدینہ آنے سے قبل ،قبائل عرب ١٣ قلعوں اور کالونیوں کے مقابلے میںیہودیوں کے پاس ٥٩ قلعہ تھے (گزشتہ حوالہ، ٢٩٣؛ وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٦٥.) اس سے دونوں کی زندگی کے معیار اور فاصلہ کا پتہ چلتا ہے۔
(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج ٢، ص ٧٠؛ طبری ، ج٢، ص ٢٣٤؛ بیہقی، دلائل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١) ج٢، ص١٢٨۔ مراجعہ کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ٥١؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦، جو یہودی بعثت پیغمبر اسلاۖم کے بارے میں اس طرح پیشین گوئی کرتے تھے ،وہی بعثت پیغمبر ۖ کے بعد ان سے دشمنی کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس وجہ سے قرآن ان سے اس طرح سے معترض ہوا ''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جوان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب ان کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔
چونکہ یہودیوں کے کلچر کا معیار بلند تھا اور بت پرست انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں ان کی باتوں کو باور کرتے تھے اور چونکہ یہ دھمکیاں کئی بار دی گئیں تھیں لہٰذا مسئلہ مکمل طور سے اوس و خزرج کے ذھن میں جاگزیں ہوگیا تھا اور ذہنی طور پر مدینہ والے ظہور پیغمبر اسلاۖم کے لئے آمادہ ہوگئے تھے۔
٢۔ برسوں پہلے سے اوس و خزرج کے درمیان کئی مرتبہ جنگ و خونریزی ہوچکی تھی ان میں سے آخری جنگ ''بغاث'' تھی جس کے نتیجہ میں بے انتہا جانی نقصانات او ربربادیاںدونوں طرف ہوئی تھیں اور دونوں گروہ نادم و پشیمان ہوکر صلح کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی معتبر اور بے طرف شخص نہیں مل رہا تھا جو ان کے درمیان صلح کراسکے۔ عبد اللہ بن ابی جو خزرج کے بزرگوں میں سے تھاجنگ بعاث میں بے طرف ہوگیا اور چاہتا تھا کہ دونوں گروہ میں صلح کرا کے ان پر حکومت کرے اور اس کی تاج پوشی کے اسباب بھی مہیا ہوچکے تھے۔(١) لیکن مکہ میں پیغمبر اسلاۖم سے اوس و خزرج کی ملاقاتوں نے (جن کا عنقریب ذکر کریں گے) واقعات کا رخ یکسر بدل دیا۔ اور عبد اللہ بن ابی اپنا مقام کھو بیٹھا۔
مدینہ کے مسلمانوں کا پہلا گروہ
مکہ میں پیغمبر اسلاۖم کے ظاہری پیغام کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے لوگ مکہ کے مسافروں اور زائروں کے ذریعہ آنحضرتۖ کی بعثت سے آگاہ ہوگئے تھے اور ان میں سے کچھ آنحضرتۖ کی زیارت سے مشرف ہوکر مسلمان ہوگئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ رحلت کرگئے یا قتل کر دیئے گئے تھے۔(٢) بہرحال وہ، لوگوں کواسلام کی طرف نہیں بلا سکے تھے۔
______________________
(١) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٨٠.
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٠۔ ٦٧؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص٢٣٨؛ بیہقی ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١١٨.
بعثت کے گیارہویں سال پیغمبر ۖ نے بزرگان خزرج میں سے چھ لوگوں کو حج کے موسم میں منیٰ میں دیکھا اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: جان لو! یہ وہی پیغمبرۖ ہے جس کی بعثت سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اس کے دین کو قبول کرلیں۔ لہٰذا وہ سب اسلام لے آئے اور پیغمبر ۖ سے کہا: ہم اپنی قوم کو دشمنی اور ٹکراؤ کی بدترین حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ کے ذریعہ ان میں الفت ڈال دے گا۔ اب ہم مدینہ واپس جارہے ہیں اور ان کواس دین کی طرف بلائیں گے۔ اگر ان لوگوں نے بھی اس دین کو قبول کرلیا تو کوئی بھی ہماری نظروں میںآپ سے زیادہ عزیز و محترم نہ ہوگا۔
اس گروہ نے مدینہ واپس جانے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ نغمۂ اسلام پورے یثرب میں پھیل گیا اور کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں پیغمبر اسلاۖم کی باتیں نہ ہوتی ہوں۔(١)
عقبہ کا پہلا معاہدہ
بعثت کے بارہویں سال مدینہ کے بارہ لوگوں نے حج کے موسم میں ''عقبۂ منیٰ''(٢) کے کنارے رسول خدا ۖ کی بیعت کی۔(٣) اس گروہ میں دس خزرجی اور دو اوسی تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں قبیلے گزشتہ کدورتوں کو بھول کر ایک دوسرے کے دوش بدوش اسلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے تھے۔
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٣۔ ٧٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٥۔ ٢٣٤؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٢٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٥.
(٢) ''عقبہ''
(٣)گزشتہ سال، بیعت کرنے والے ٥ افراد تھے جن میں ٧ افراد کا اور اضافہ ہوا
اور بیعت کی تھی کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری اور زنا نہیں کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے پر تہمت (زنا کا الزام) نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں پیغمبر ۖ کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔(١)
پیغمبر اسلاۖم نے اس عہد کی پابندی کرنے والوں سے ، اس کے عوض میں بہشت کا وعدہ کیا۔(٢)
وہ موسم حج کے بعد مدینہ آگئے اور پیغمبر ۖ سے تقاضا کیا کہ ایک شخص کو ان کے شہر میں بھیجیں تاکہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دے۔رسول خدا نے مصعب بن عمیرکو بھیجا۔(٣)
مصعب کی تبلیغ اور کوششوں سے مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکہ کے اہم اور خاص لوگ اسلام کی مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے مگر جوانوں اور مستضعفوں نے آپ کا استقبال کیا۔ لیکن مدینہ میں تقریباً اس کے بالکل برعکس ماحول تھا یعنی اہم اور خاص لوگ پیش قدم اور آگے تھے اور عوام ان کے پیچھے چل رہی تھی یہ ایک ایسا سبب تھا جس کی وجہ سے اسلام تیزی کے ساتھ اس شہر میں پھیلا۔
______________________
(١) چونکہ اس عہد میں جنگ و جہاد کی بات نہیںہوئی ۔ لہٰذا اس کو ''بیعة النسائ'' کہا گیا جیسا کہ پیغمبر اسلاۖم نے اس کے بعد فتح مکہ میں اس شہر کی مسلمان عورتوں سے اسی طرح کا عہدو پیمان کیا جس کا ذکر سورۂ ممتحنہ کی آیت ١٢ میں ہوا ہے .
(٢) وہی حوالہ؛ ابن طبقات الکبریٰ ج١، ص ٢٢٠
(٣) مصعب، قریش کے ایک جوان اور قبیلہ بنی عبددار کے ایک ثروتمند اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اوران کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن مسلمان ہو جانے کی وجہ سے انھیں گھر سے نکال دیا اور مال و ثروت سے محروم کردیا، وہ ایک حقیقی اور انقلابی مسلمان تھے اوردوبار حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے (ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٤، ص٣٧٠۔٣٦٨)
|