تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

جادوگری کا الزام
حج کا موسم پیغمبر اسلام ۖکی تبلیغ او ردعوت کے لئے مناسب موقع ہوا کرتا تھا کیونکہ عرب کے مختلف قبیلوں کے لوگ اعمال حج بجالانے کے لئے مکہ میں آیا کرتے تھے ،لہٰذا اس موقع پر حضرت محمد ۖ کے لئے صدائے توحید کو جزیرة العرب کے تمام رہنے والوںتک پہنچانا آسان کام تھا۔ لہٰذا اس لحاظ سے حج کا موسم سرداران قریش کے لئے خطرناک بن گیا تھا اور وہ اس سے خوف زدہ رہتے تھے لہٰذا موسم حج کے شروع ہوتے ہی بزرگان قریش کا ایک گروہ، ولید بن مغیرہ (جوکہ ایک سن رسیدہ شخص اور قبیلہ بنی مخزوم کا سردار تھا) کے پاس جمع ہوا ،اس نے کہا کہ حج کا موسم آگیا ہے لوگ ہر طرف سے تمہارے شہر میں آرہے ہیں اور انھوں نے محمد ۖ کے بارے میں سن رکھا ہے۔ لہٰذا تم سب اس کے بارے میں ایک
ہی بات کہو، مختلف باتیں کہہ کر ایک دوسرے کو جھٹلاؤ نہیں۔
ان لوگوں نے کہا: جو کچھ تم کہو وہی ہم بھی کہیں گے۔
اس نے کہا: تم لوگ کہو، میں سنتا ہوں۔
ہم اسے کاہن کہیں گے۔
نہیں، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہے ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے وہ نہ کاہنوں کی طرح پڑھتا ہے اور نہ مسجع کلام کرتا ہے۔
ہم اسے دیوانہ کہیں گے۔
نہیں وہ دیوانہ بھی نہیں ہے۔ ہم نے دیوانگی کودیکھا ہے اور اس کے آثار کو بھی جانتے ہیں نہ اس کا جسم غیر ارادی طور پر لرزتا ہے اور نہ ہی دیو اس میں وسوسہ کرتا ہے۔
ہم اسے شاعر کہیں!
شاعر بھی نہیںہے۔ ہم شعر کی قسموں کو پہچانتے ہیں جو وہ کہتاہے وہ شعر نہیں ہے۔
ہم اسے ساحر اور جادوگر کہیں۔
نہیں وہ ساحر بھی نہیںہے۔ ہم نے ساحروں کے سحر کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ رسیوں کو پھونکتے اور ان کو گرہ لگاتے ہیں۔! اس کا کام سحر نہیں ہے۔
پھر ہم اسے کیا کہیں؟
خدا کی قسم اس کا کلام شیرین اور دلنشین ہے اور اس کا درخت شاداب اور اس کی ٹہنیاں پرثمر ہیں اس طرح کی جتنی باتیں اس کے بارے میں کہوگے، اس کا غلط ہونا واضح ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام چیزوں سے بہتر ہے کہ ہم اسے جادوگر کہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے سحر آمیز کلمات کے ذریعہ باپ بیٹے، بھائی بھائی ، عورت مرد اور ایک قبیلہ کے افراد میں جدائی ڈال دیتا ہے۔!
لہٰذا قریش کے سردار، اس ارادہ سے متفرق ہوگئے اوراس دن سے حاجیوں کے راستے میں بیٹھتے تھے اور ان کو ہوشیار کرتے تھے کہ رسو لخدا ۖ سے ملاقات نہ کریں۔(١)
قریش کی اعلی کمیٹی نے رسول ۖ کے جس کلام کو ''جادو'' کہا وہ قرآن مجید کی دلنشین آیات تھیں کہ جس کو سننے کے بعد ہر شخص متاثر ہو جاتا تھا اور اس کو قرآن کا گرویدہ اور عاشق بنا دیتا تھا۔قرآن کی آیات سننے پر پابندی ا س حد تک لگائی کہ قریش کے سردار، بڑی شخصیتوں سے جیسے اسعد بن زرارہ جو کہ مدینہ سے مکہ آیا ہوا تھا اس سے جاکر کہا کہ طواف کے وقت اپنے کان میں روئی لگالیں تاکہ محمد ۖ کے سحر کے خطرہ سے محفوظ رہیں!!(٢)

طائف کا تبلیغی سفر
طائف مکہ سے ١٢ فرسخ (تقریباً ٧٢ کلومیٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ اور یہاں کی آب و ہوا بہترین اور موسم خوش گوار ہے ۔ اس زمانہ میں طائف کے باغوں کے انگور مشہور تھے۔(٣)
قریش کے بعض ثروتمندوں کے باغ اور زمینیں وہاں تھیں۔ خود طائف کے لوگ بھی دولت مند تھے اور رباخوری میں مشہور تھے اور طائف میں اس وقت ایک قدرت مند قبیلہ ''ثقیف'' رہا کرتا تھا۔
جناب خدیجہ اور جناب ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی جانب سے حضرت محمد ۖ پر دباؤ اور اذیتیں بڑھ گئیں اورمکہ میں تبلیغی کام دشوار ہوگیااور دوسری طرف سے یہ بھی ضروری تھا کہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا کام نہ رکے، لہٰذا پیغمبر ۖ نے ارادہ کیا کہ طائف جائیں اور وہاں کے لوگوں کواسلام کی طرف دعوت دیں، شاید وہاں پر ان کا کوئی ناصر و مددگار پیدا ہوجائے اس سفر میں
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٩۔ ٢٨٨.
(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦.
(٣) یاقوت حموی، معجم البلدان، ج ٤، ص٩.
زید ابن حارثہ (١) اور حضرت علی (٢) آپ کے ساتھ تھے۔
آنحضرت ۖ نے طائف میں قبیلۂ ثقیب کے تین افراد سے، جن میں ایک کی زوجہ، قبیلۂ قریش ''خاندان بنی جمح''(٣) سے تھی ملاقات کی اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان سے مدد چاہی۔ لیکن انھوں نے آپ کی بات قبول نہیں کی اور آپ کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے۔ پیغمبر ۖ نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس بات کو چھپالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز مکہ تک پہنچ جائے اور قریش کی دشمنیاں اور گستاخیاں ہم سے زیادہ نہ بڑھ جائیں۔ لیکن ان لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔
رسول خدا ۖ دوسرے بزرگان طائف کے پاس بھی گئے لیکن ان لوگوں نے بھی آپ کی بات قبول نہیں کی اور اپنے جوانوں کے بارے میں ڈرے کہ کہیں وہ نئے دین کے گرویدہ نہ ہوجائیں۔(٤)
طائف کے بزرگوں نے، اوباشوں کمینوں پست لوگوںاور غلاموں کو ورغلایا اور ان لوگوں نے آنحضرت ۖ کا ہلّڑ، ہنگامہ اور گالم گلوج کرتے ہوئے پیچھا کیا اور آنحضرت ۖ پر پتھر برسائے جس سے پیغمبرۖ کے دونوں پیر اور زید کا سر زخمی ہوگیا۔
پیغمبر ۖ ایک انگور کے باغ میں جو عتبہ اور شیبہ (قریش کے سرمایہ دار) کا تھا وہاں چلے گئے اور ایک
______________________
(١) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٣٠؛ بلاذری، انساب الاشراف۔ تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص ٢٣٧.
(٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمدابوالفضل ابراہیم، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٤، ص٩٧و ج٤، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ مدائنی کی نقل کے مطابق۔
(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٠.
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢.
انگور کے درخت کے سایہ میں پناہ لی اور وہاں بیٹھ کر خدا سے مناجات کی۔
عتبہ اور شیبہ جوانگور کے باغ کے اندر سے آنحضرتۖ کے تعاقب اور اذیت کا منظر دیکھ رہے تھے ان کو آنحضرت ۖ کی حالت زار پر ترس آیا۔ لہٰذا کچھ انگور اپنے مسیحی غلام ''عدّاس'' (جوکہ نینوا کا رہنے والا تھا) کے ذریعہ آنحضرتۖ کے پاس بھیجا۔
پیغمبر ۖ نے اس کو نوش فرماتے وقت ''بسم اللہ'' کہی یہ دیکھ کر ''عداس'' کے اندر تحقیق و جستجو کا جذبہ بھڑک اٹھا۔اور پھر اس نے آنحضرت ۖ سے مختصر گفتگو کے بعد کہ جس میں آپ نے اپنی رسالت کا تذکرہ کیا۔ آپ کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے ہاتھ پیر اور سرکا بوسہ لینے لگا(١) اور مسلمان ہوگیا۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم دس دن طائف میں(٣) رہنے کے بعد ثقیف کی عدم حمایت اور ان کے اسلام نہ قبول کرنے پر مایوس ہوکر دوبارہ مکہ واپس آگئے۔

کیا پیغمبر ۖ نے کسی سے پناہ مانگی؟
کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ۖ نے مکہ میں دوبارہ پلٹنے کے بعد مطعم بن عدی سے پناہ مانگی اور اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے لیکن اس سلسلے میں جو قرائن اور شواہد ملتے ہیں ان کودیکھنے کے بعد یہ بات بالکل بعید نظر آتی ہے. ان میں سے کچھ شواہد یہ ہیں:
١۔ یہ بات کس طرح سے قبول کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر اسلاۖم نے دس سال تبلیغ و دعوت اور بت
______________________
(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٢.
(٢)ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٠.
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٩١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٢؛ طائف میں پیغمبر ۖ کے
قیام کی مدت اس سے بھی زیادہ لکھی گئی ہے۔
پرستوں سے مقابلہ کرنے کے بعد، پناہندگی کی ذلت و خواری کو قبول کیا ہو؟ جبکہ اپنی ساری عمر میں کسی کے احسان مند نہیں ہوئے۔
٢۔ اگر چہ جناب ابوطالب، اس وقت دنیا سے رحلت فرماگئے تھے لیکن بقیہ بنی ہاشم وہاںموجود تھے او ران کے درمیان بہادر افراد جیسے جناب حمزہ موجود تھے جن سے قریش کو ڈر تھا کہ کہیں وہ انتقام نہ لیں جیسا کہ شب ہجرت کے واقعہ میں بھی سردار ان قریش نے پیغمبر ۖ کے قتل کی سازش میں بنی ہاشم کے خون خواہی او ر انتقام کے خوف سے چند قبیلوں کو اپنے ساتھ کرلیا تھا۔
٣۔ بعض تاریخی کتابوںمیں نقل ہوا ہے کہ زید آنحضرتۖ کے ہمراہ تھے اور بعض مورخین کی نقل کے مطابق حضرت علی بھی آپ کے ہمراہ تھے (اصولی طور پر یہ بعید ہے کہ حضرت علی ایسے سفر میں پیغمبرۖ کے ہمراہ نہ رہے ہوں) لہٰذا تین افراد کا ایک گروہ موجودتھا جو اپنا دفاع کرسکتا تھا۔ لہٰذا پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیںتھی۔
٤۔ پیغمبر اسلاۖم عرب کے بہادروں میں سے تھے لہٰذا ان کوایک کمزور اور ضعیف انسان نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو بھی چاہے انھیں ضرر پہنچا دے۔ جیسا کہ حضرت علی نے میدان جنگ میں ان کی شجاعت کی تعریف ا س طرح کی ہے:
''جس وقت جنگ کی آگ شدید شعلہ ور ہوتی تھی تو ہم رسول خدا ۖ کے پاس پناہ مانگتے تھے اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا''۔(١)
٥۔ پیغمبر اسلاۖم نے قبیلہ جاتی نظام سے جو کہ بہت ساری مشکلات اور پریشانیوںکی جڑ تھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرت ۖ ،پناہندگی کی رسم جو کہ قبیلہ جاتی نظام کا ایک حصہ تھی اس کا سہارا لیتے اور اس کی تائید فرماتے ۔
______________________
(١) کنا اذا احمر البأس اتقینا برسول اللّٰہۖ فلم یکن احد منا اقرب الی العدو منہ (نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، ص٥٣٠؛ غریب کلامہ، نمبر ٩٠).
٦۔ بلاذری(١) اور ابن سعد (٢) کی خبر میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتۖ کا طائف کی طرف سفر شوال کے آخری دنوں میں ہوا تھا اگر اس خبر کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبر اسلامۖ کا طائف میں قیام اور پھر مکہ واپسی، حرام مہینے میں ہوئی تھی اور حرام مہینوں میں عام طور سے لڑائی جھگڑا اور خون ریزی بند ہو جاتی تھی اسی بنا پر آنحضرۖت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تاکہ پناھندگی کا مسئلہ پیداہوتا۔
ان قرائن کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آنحضرتۖ طائف سے واپس ہونے کے بعد (کہتے ہیں کہ ایک شب آپ نے ''نخلہ''(٣) میں قیام کیا اور وہاں جنّات کے ایک گروہ نے، قرآن کی آیات کو سنا)،(٤) وادی نخلہ کے راستے سے مکہ آگئے۔(٥)

عرب قبائل کو اسلام کی دعوت
پیغمبر اسلاۖم نے مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے قبائل عرب کو اسلام کی طرف دعوت دی جیسا کہ آپ کِندَہ، کَلب، بَنی حنیفہ اور بنی عامر بن صعصعہ ، قبیلے کے پاس تشریف لے گئے او ران کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابولہب بھی آپ کے پیچھے گیا اور لوگوں کو آپ کی پیروی کرنے سے منع کیا۔(٦)
______________________
(١) انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٧.
(٢) طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢١٠.
(٣) طائف اور مکہ کے درمیان ایک محلہ ہے جس کی دوری ایک رات میں طے ہوتی ہے۔ (السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٣)
(٤)طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣.
(٥) مراجعہ کریں: الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٢، ص ١٦٨۔ ١٦٧.
(٦) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦۔ ٦٥؛ طبری ، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث) ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٨۔ ٢٣٧؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار، ص ٢٣٢؛ نیز قبائل: بنی فزارہ ،غسان، بنی مرہ، بنی سلیم، بنی عبس، بنی حارث، بنی عذرہ، حضارمہ، بنی نضر اور بنی بکاء میں سے ہر ایک کودعوت دی لیکن کسی نے قبول نہیں کیا۔ (ابن سعد، طبقات الکبریٰ)، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ٢١٧۔ ٢١٦)
جس وقت پیغمبر اسلاۖم نے بنی عامر سے گفتگو کی، ان کے بزرگوںمیں سے ایک شخص جس کا نام بحیرہ بن فراس تھا ، اس نے کہا: ''اگر ہم آپ کی بیعت کریں اور دعوت کو قبول کریں او رخدا آپ کو آپ کے دشمنوں پر کامیاب کرے تو کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا جانشین ہم میں سے ہوگا؟''
آنحضرتۖ نے فرمایا: ''یہ کام خدا سے مربوط ہے وہ ا س امر کو جہاں چاہے گا وہاں قرار دے گا''(١)
اس نے تعجب اور انکار کے عالم میں جواب دیا: ہم آپ کی راہ میں قبائل عرب سے مقابلہ کریں اورآپ سینہ سپر بنیں اور جب خدا آپ کو کامیاب کردے تو مسئلہ دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے؟ہم کو آپ کے دین کی ضرورت نہیںہے۔(٢)
منقول ہے کہ ایسی پیش کش قبیلۂ کندہ کی طرف سے بھی ہوئی اور پیغمبر ۖ کا جواب بھی وہی تھا۔(٣)
پیغمبر ۖ کا یہ جواب اور رد عمل دو اعتبار سے قابل توجہ ہے:
اول: یہ کہ پیغمبر اسلامۖ کا تاکید فرماناکہ ان کی جانشینی کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے، خود آنحضرتۖ کی جانشینی کے انتصابی ہونے پر گواہ ہے یعنی یہ منصب ایک الٰہی منصب ہے اور اس سلسلے میں انتخاب، خدا کی طرف سے انجام پاتا ہے نہ لوگوں کی طرف سے۔
دوسرا: سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلاۖم نے انسانی حکمرانوں کے برخلاف جو کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر طرح کی چال چلتے تھے اور اس کی توجیہ و تاویل کرتے تھے ، امر تبلیغ میں غیر
______________________
(١) الأمر للہ ]الی اللّٰہ[ یضعہ حیث یشائ۔
(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ حلبی ، السیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص ١٥٤؛ ذینی دحلان، السیرة النبویہ والآثار المحمدیہ، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢)، ج١، ص ١٤٧؛ سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج ٢، ص ١٧٦۔ ١٧٥
(٣) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط ١، ١٩٦٦.)، ج٣، ص ١٤٠
اخلاقی روش اختیار نہیں کی ۔ جبکہ اس زمانہ میں ایک بہت بڑے قبیلہ کا مسلمان ہو جانا بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن (اس کے باوجود بھی آپ تیار نہیں ہوئے کہ لوگوں سے ایسے وعدے کریں جس کا پورا کرنا آپ کے بس سے باہر ہو)۔
بہر حال حج و عمرہ کے موسم میں، اور حرام مہینوں کے احترام میں، امنیت پیدا ہوئی اور بہت سے گروہ مختلف علاقوںسے مکہ اور منی یا مکہ کے اطراف میں لگنے والی بازاروں جیسے موسمی بازار عکاظ، مجنّہ اورذی المجاز میں جاتے تھے(١) اور پیغمبر ۖ وہاں پر اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھتے اور اس کو اور توسیع دیتے تھے ۔
آپ بزرگان قبائل کے پاس جاتے تھے اور ان کو تبلیغ کرتے اور اگر مکہ کے مسافر اور زائر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے تو کم از کم آپ کے بعثت کی خبر اپنے علاقہ میں پھیلاتے تھے اور یہ کام آپ کی کامیابی کی راہ میں ایک قدم تھا۔
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٦.