تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

ازواج پیغمبر اسلاۖم
جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں پیغمبر اسلامۖ نے کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی(١) ان کے انتقال کے بعد آنحضرت ۖ نے دوسری خواتین سے شادی کی جن میں حضرت عائشہ کے علاوہ سب بیوہ تھیں۔ان میں سے پہلی سودہ اور ان کے شوہر سکران بن عمرو حبشہ کے مہاجروں میں سے تھے جو وہاں انتقال کرگئے تھے اور وہ بغیر سرپرست کے ہوگئی تھیں۔
بعض مستشرقین نے پیغمبر اسلاۖم کی شادیوں کے بارے میں بزدلانہ تہمتوں کو دستاویز بناکر اس کو ہوس بازی اور شہوت پرستی سے تفسیر کیا ہے۔(٢)
جبکہ مسئلہ کی منصفانہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شادیاں معمولاً عام جذبہ کے تحت نہیں ہوئیں تھیں بلکہ سیاسی، سماجی اور اسلام کی مصلحتوں کے پیش نظر ہوئی تھیں ان میں سے بعض خواتین بے سرپرست اور بیوہ تھیںاور پیغمبر ۖ نے ان سے شادی کر کے ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور بعض دوسرے بڑے خاندان یا قبائل سے تعلق رکھتی تھیں اور پیغمبر ۖ کا مقصد ان قبائل یا خاندان کی حمایت حاصل کرنا تھا۔اور بعض وقت شادی کا مقصد جاہلی رسم و رواج کو مٹانے کی خاطر تھا۔ اس مطالب کی وضاحت کے لئے کچھ قرائن اورشواہد پیش ہیں۔
١۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبر اسلاۖم نے پچیس سال کی عمر میں یعنی مکمل جوانی کے عالم میں جناب خدیجہ کے ساتھ شادی کی جن کی عمر بر بنائے مشہور آپ سے زیادہ تھی اور ان کے جوانی کا دور گزر چکا تھا۔ ٢٥ سال تک ان کے ساتھ زندگی گزاری۔
٢۔ جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ جبکہ ا س دور کے سماج میں متعدد ازواج کا ہونا ایک عام رسم تھی۔
______________________
(١) ابن عبد البر، الاستیعاب، (حاشیہ الاصابہ میں) ، ج ٤، ص ٢٨٢؛ صحیح مسلم؛ امام النووی کی شرح (بیروت: دار الفکر)، ج١٥ھ ص ٢٠١.
(٢) محمد حسین ھیکل، حیات محمد ۖ (قاھرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٨، ١٩٦٣.)، ص ٣١٥و ٣١٦ و ٣٢٥.
٣۔ پیغمبر اسلاۖم کی بعد کی شادیاں ٥٠ سال کے بعد (ہجرت سے پہلے کم ، اور ہجرت کے بعد زیادہ) ہوئی تھیں۔ ایک طرف سے پیری کا زمانہ اور دوسری طرف سے سیاسی، سماجی اور نظامی مشکلات اور پریشانیوں کے عروج کا زمانہ تھا ایسے حالات میں کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شہوت پرستی کی فکر میں لگا ہوگا؟ کیا اصولی طور پر پیغمبر ۖ مدینہ میں اس طرح کے کاموں کی فرصت رکھتے تھے؟
٤۔ کیا ایسی عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا عیش و شہوت پرستی کی خاطر تھا جو مختلف طرح کے سلیقے اور اخلاق رکھتی ہوں اور ان میں سے بعض نے اپنے برے اخلاق او اطوار اور ز نانہ حسادت کی وجہ سے پیغمبر ۖ کو رنجیدہ اور ملول کیاہو۔(١)
٥۔ پیغمبر اسلامۖ کی ازواج میں سے ہر ایک، الگ الگ قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں اوران میں آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ کیاپیغمبر ۖ کا مختلف قبائل سے تعلق رکھنا اتفاقی مسئلہ تھا؟
٦۔ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اسلام وہاں تیزی سے پھیلنے لگا تھا اور لوگوں کے دلوں میں پیغمبر ۖ کے معنوی نفوذ کے علاوہ آپ کی اجتماعی اور سیاسی قدرت بھی زیادہ ہوگئی تھی لہٰذا قبائل عرب کے رؤسا اپنے لئے افتخار سمجھتے تھے کہ پیغمبر ۖ ان کی لڑکی سے شادی کریں لیکن آنحضرت ۖ نے جن خواتین کو شادی کے لئے چنا تھا وہ عموماً ضعیف اور بیوہ اور لاوارث تھیں جبکہ خود آنحضرتۖ مردوںکو کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے تشویق کرتے تھے۔ ہم یہاں پر پیغمبر ۖ کی ازواج میں سے چند کا تذکرہ بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔

1ام حبیبہ:
وہ اسلام کے کٹر دشمن ابوسفیان کی لڑکی تھیں وہ اپنے شوہر عبید اللہ بن جحش (رسول خدا ۖ کی پھوپھی کے لڑکے) کے ساتھ حبشہ چلی گئیں تھیں۔ عبید اللہ وہاں جاکر مرتد اور مسیحی ہوگئے اور شراب نوشی میں افراط کی وجہ سے کفر کی حالت میں دنیا سے گئے۔(٢)
______________________
(١) اس بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ تحریم کی آیت ١ سے ٥ تک مراجعہ کریں۔
(٢) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٧، ص ٩٧؛ شیخ عباس قمی، سفینة البحار ، ج١، لفظ حب ، ص ٢٠٤.
جب پیغمبر اسلاۖم کواس واقعہ کی خبر ملی تو آپ نے ٦ھ میں(١) عمرو بن امیہ ضمیری کو حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ ام حبیبہ کا عقد ان سے کردیا جائے۔نجاشی نے ام حبیبہ کی شادی پیغمبر ۖ سے کردی۔ اس کے بعد وہ ایک سال تک حبشہ میں رہیں اور ٨ھ میں مہاجروں کے آخری گروہ کے ساتھ مدینہ پلٹ آئیں۔(٢) اس وقت ان کی عمر ٣٠ سے ٤٠ سال کے بیچ تھی۔(٣)
ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کا یہ اقدام اس نومسلم خاتون سے دلجوئی کی خاطر تھا۔ کیونکہ وہ اپنے باپ اور خاندان والوں سے الگ ہوکر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں اور پھر عالم غربت میں شوہر کا سایہ بھی اٹھ گیا تھا لہٰذا ان کے ساتھ اس سے بہتر کیا اقدام ہوسکتا تھا کہ انھیں پیغمبر ۖ کی زوجہ ہونے کا شرف ملے؟
جن اسباب کا دعوا مسیحی مورخین نے کیا ہے اگر اس کو فرض کرلیا جائے تو یہ کس طرح سے معقول ہوگا کہ ایک شخص ایسی خاتون سے شادی کرے جو دوسرے ملک میں رہ رہی ہو اور اس کے پلٹنے کی کوئی امید نہ ہو؟!

٢۔ ام سلمہ:
ام سلمہ (ھند) ابی امیہ مخزومی کی لڑکی تھیں ان کے پہلے شوہر ابوسلمہ (عبد اللہ) مخزومی(٤) رسول خدا ۖ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔(٥) ان سے چار لڑکے ہوئے جن میں سے ایک کا نام سلمہ تھا اسی کی مناسبت سے انھیں ''ام سلمہ'' اور ''ابوسلمہ'' کہا جانے لگا۔(٦)
______________________
(١) ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٥٨؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس)، ج٢، ص ٢٨٩، حمد اللہ متوفی، تاریخ خلاصۂ تاریخ، بہ اہتمام عبدالحسین نوالی )تہران: امیر کبیر، ١٣٦٢)، ص ١٦١.
(٢) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٤، ص ١٤٤، حمد اللہ مستوفی، گزشتہ حوالہ، ص ١٦١.
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩؛ شیخ عباس قمی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤.
(٤) عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج٤، ص ٤٥٨، ابن اثیر، اسدالغابہ، ج٥، ص ٥٨٨.
(٥) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٨.
(٦) گزشتہ حوالہ، ص ٥٨٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٩٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٥، ص ٥٨٨.
ابو سلمہ جنگ احد میں زخمی ہوئے اور اسی زخم کے اثر سے جمادی الثانی ٣ھ میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے(١) گویا ام سلمہ اور ان کے شوہر (بنی مخزوم) کے قبیلہ اور خاندان سے مدینہ میں کوئی نہیں رہ گیا تھا۔ اس لئے کہ وہ کہتی ہیں کہ جس وقت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں بہت غمگین ہوئی اور اپنے آپ سے کہا: عالم غربت میں! میں اس طرح سے گریہ کروںگی کہ ہر جگہ میرے گریہ کا تذکرہ ہوگا۔(٢)
پیغمبر اسلامۖ نے ٤ھ میں ان سے شادی کی(٣) اس وقت وہ بڑھاپے اور ضعیفی کی منزلوں میں قدم رکھ چکی تھیں۔(٤) اور ان کا سب سے چھوٹا بچہ شیرخوار تھا۔(٥)
واضح رہے کہ پیغمبر اسلاۖم کا اس شادی سے مقصد یہ تھا کہ اس کی اور اس کے یتیم بچوں کی سرپرستی کرسکیں۔ کیاایک بیوہ اور سن رسیدہ خاتون سے شادی کرنا اور اس کے چاریتیم بچوں کی کفالت اور نگہہ داشت کرنا اپنی جگہ پر ایک ریاضت نہ تھی؟!
ام سلمہ زہد و تقویٰ اور فضیلت کے لحاظ سے حضرت خدیجہ کے بعد رسول خدا ۖ کی ازواج میں سے سرفہرست تھیں(٦) انھیں خاندان امامت سے خاص تعلق اور انسیت تھی اور وہ بارہا خاندان اہل بیت کی طرف سے علوم و اسرار ولایت کی امانتوںکی محافظ رہی ہیں۔(٧)
______________________
(١) ابن عبد البر، الاستیعاب، ج٤، ص ٨٢.
(٢) امیر مھنا الخیامی، زوجات النبی او اولادہ (بیروت: موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ)، ص ١٩٩.
(٣) ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٥٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ٨٧.
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٠، ٩١؛ محمد بن حبیب، المحبر (بیروت: دار الافاق الجدیدہ)، ص ٨٤
(٥) ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٥٨؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ٩١.
(٦) مامقانی، تنقیح المقال، ج٣، (فصل النسائ)، ص٧٢.
(٧) مامقانی، گزشتہ حوالہ، شیخ محمد تقی التستری، قاموس الرجال (تہران: مرکز نشر الکتاب ، ١٣٧٩ھ)، ج١٠، ص ٣٩٦.

٣۔ زینب بنت جحش:
زینب، رسول خدا ۖ کی پھوپھی کی لڑکی تھیں اور اس سے قبل (پیغمبر ۖ کے منھ بولے بیٹے) زید بن حارثہ کی زوجہ تھیں۔(١) اور زید سے جدائی کے بعد پیغمبر ۖ کے عقد میں آگئیں۔
زید پہلے حضرت خدیجہ کے غلام تھے انھوں نے حضرت محمد ۖ کے ساتھ شادی کرنے کے بعد زید کو اپنے شوہر حضرت محمد ۖ کے حوالے کردیا۔ آنحضرتۖ نے بعثت سے قبل اس کو آزاد کردیا اور پھر اپنا منھ بولا بیٹا قرار دیا۔ اس دن سے اس کو ''زید بن محمدۖ'' کہا جانے لگا۔(٢)
بعثت کے بعد خداوند عالم نے منھ بولے بیٹے کی رسم کو باطل اور بے اعتبار قرار دیا۔
''اللہ نے نہ تمہاری منھ بولی اولاد کواولاد قرارنہیں دیا یہ سب تمہاری زبانی باتیںہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے''۔
ان بچوں کوان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں نے قصداً انجام دیاہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔(٣)
پیغمبر اسلامۖ نے ان آیات کے نزول کے بعد زید سے فرمایا: تم زید بن حارثہ ہو اور اس دن سے وہ پیغمبر ۖ کا آزاد کردہ (مولیٰ رسول اللہ) کہا جانے لگا۔(٤)
رسول خدا ۖ نے اس سے زینب کی شادی کرنا چاہی۔ زینب جو کہ عبد المطلب کی نواسی اور جن کا تعلق قریش کے مشہور قبیلہ سے تھا پہلے راضی نہیں ہوئیں کیونکہ زید نہ صرف قریش سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک آزاد
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٢، ص ٢٢٦؛ ابن حجر ، الاصابہ، ج٤، ص ٥٦٤.
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٤؛ ابن حجر ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٦٣.
(٣)سورۂ احزاب، آیت ٤، ٥.
(٤) آلوسی، تفسیر روح المعانی، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٢١، ص ١٤٧.
شدہ غلام تھے لیکن چونکہ پیغمبر اسلاۖم نے اس کی شادی کے بارے میں زیادہ تاکید فرمائی لہٰذا زینب راضی ہوگئیں یہ شادی نسلی اور طبقاتی امتیازات کے خاتمہ کا ایک نمونہ تھی اور پیغمبر ۖ کے اصرار کا راز بھی یہی تھا۔
طرفین میں بدسلوکی اور بدخلقی کی وجہ سے کچھ دن میں اس جوڑے کی مشترک زندگی کی بنیادیں ہلنے لگیں اور جدائی کے قریب پہنچ گئیں۔ چند مرتبہ زید نے چاہا کہ اس کو طلاق دیدیں لیکن پیغمبر ۖ نے اس سے مصالحت کرنے کے لئے کہا اور فرمایا: اپنی زوجہ کو رکھو!۔(١)
آخر کار زید نے اس کو طلاق دیدی، جدائی کے بعد پیغمبر اسلاۖم خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زینب کے ساتھ شادی کریں تاکہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں کے لئے دشوار نہ ہواور غلط رسم و رواج جو کہ زمانہ ٔ جاہلیت سے لوگوں کے درمیان رائج تھا۔ عملی طور سے اسے ختم کردیں۔ کیونکہ عرب منھ بولے بیٹے کو ہر لحاظ سے اپنا واقعی بیٹا سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس کی زوجہ کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں جانتے تھے قرآن مجید نے اس شادی کے مقصد اور سبب کواس طرح سے بیان کیا ہے:
''او راس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو، اور اللہ سے ڈرو اورتم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا(٢) اور تمھیں لوگوںکے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدا رہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠٣.
(٢) مفسروں کے عقیدہ کے مطابق جو کچھ پیغمبر ۖ کے دل میں تھا وہ یہ تھا کہ خداوند عالم نے ان کو باخبر کردیا تھا کہ زید اپنی زوجہ کو طلاق دے گا اور وہ اس کے ساتھ شادی کریں گے تاکہ اس جاہلانہ رسم کوتوڑیں لیکن پیغمبر اسلاۖم نے لوگوںکے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ یہ مطلب چوتھے امام سے نقل ہوا ہے (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٢، ص ٢٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٦٠.)
اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منھ بولے بیٹوںکی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ہو کر رہتا ہے''۔(١)
منافقوں نے پیغمبر ۖ پر تہمت اور بدگوئی کے لئے اس شادی کو دلیل اور بہانہ بنایا کہ محمد ۖ نے اپنے لڑکے کی زوجہ (بہو) کے ساتھ شادی کی ہے۔(٢)
خداوند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے:
''محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیںہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شی کو خوب جاننے والا ہے''۔(٣)
بعض مسیحی مورخین نے اس شادی کوایک عشقیہ داستان کی صورت میں پیش کیاہے اور اس کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔(٤)
______________________
(١) سورۂ احزاب، آیت ٣٧.
(٢) ابن اثیر ، گزشتہ حوالہ، ج٧، ص ٤٩٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٣٨؛ قسطلانی ، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، تحقیق: صالح احمد الشامی، (بیروت: المکتب السلامی ط١، ١٤١٢ھ)، ج٢، ص ٨٧.
(٣) سورۂ احزاب، آیت ٤٠.
(٤) دائرة المعارف الاسلامیہ، عربی ترجمہ احمد السنتناوی (اور اس کے معاونین) ، ج١١، ص ٢٩، کلمۂ زینب؛ محمد حسین ھیکل، حیات محمدۖ ، ص ٣٢٣۔ ٣١٦۔ مغربی مورخین کے کہنے کے مطابق پیغمبر اسلاۖم ایک دن زید کے گھر گئے اور وہاں اچانک ان کی نظر زینب پر پڑی اور وہ اس کے حسن و خوبصورتی کے عاشق ہوگئے جب زید کو اس بات کی خبر لگی تو اس نے زینب کو طلاق دیدی! اور...جبکہ زینب پیغمبر ۖ کے رشتہ داروں میں سے تھی اور حجاب اس زمانہ میں معمول نہیں تھا اور وہ پیغمبر ۖ کے لئے کوئی نئی فرد نہیں تھیں۔ عام طور سے ایک خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے آگاہ رہتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہئے کہ اس طرح کے کچھ واقعات جو مغربی مورخین کے سوء استفادہ کا باعث بنے ہیں وہ غیر معتبر اور بے بنیاد روایتوں سے ماخوذ ہیںجو بعض تاریخ اسلام (جیسے تاریخ طبری ، ج٢، ص ٤٢، طبقات الکبریٰ، ج ٨، ص ١٠١)، میں نقل ہوئے ہیں اور دوسرے مؤلفین نے بھی بغیر توجہ کے ان سے نقل کیا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ قرآن نے بھی اس واقعہ کو وضاحت کے ساتھ دوسرے انداز میں بیان کیا ہے اور علمائے اسلام نے بھی ان روایات کو غیر قابل قبول قرار دیا ہے ان میں سے سید مرتضی علم الہدی، شیعوں کے نامور عالم دین (م: ٤٣٦ھ)، نے اس روایت کو ''روایت خبیثہ'' کہا ہے۔ (تنزیہ الانبیائ، ص ١١٤) اور آلوسی بغدادی نے اس کو واقعہ نگاروںکی ناقابل قبول بات کہی اور شارح مواقف سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ پیغمبر ۖ کو اس ناروا نسبت سے مبرا سمجھنا چاہئے (روح المعانی، ج٢٢، ص ٢٥۔ ٢٤)
لیکن ان کا یہ دعوا، پیغمبر اسلاۖم کی نبوت اور عصمت کی شان کے مطابق نہیں ہے اور اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ مسئلہ کچھ اور تھا جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور قرآن نے بھی اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کی ازواج میں سے ان چند کا تذکرہ آنحضرتۖ کے متعدد ازواج کے ہونے کے مقصد کو واضح کردیتا ہے اور بقیہ کے حالات بھی تقریباً انھیں کے مثل ہیں لہٰذا ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔

قرآن کی جاذبیت
پیغمبر اسلاۖم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں بہت کم اپنی طرف سے کچھ کہتے تھے. ان کی دعوت کا بہترین وسیلہ قرآن کی آیات ہوا کرتی تھیں جو عربوں کی سماعتوں کو سحر انگیز کشش میں بدل دیتی تھیں۔
حضرت محمد ۖ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے جو فصاحت و بلاغت، الفاظ و کلمات، جملوں کی ترکیب، انتخاب الفاظ اور آیات قرآن کی ایک خاص صدا کے لحاظ سے معجزہ ہے جس میں بے انتہا زیبائی ،دلکشی اور جذابیت پائی جاتی ہے کہ جس کا مثل پیش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید ''چیلنج'' کرتا ہے اور منکروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر تمھیں ا س میں کوئی شک ہے تو اس کے ایک سورہ کا جواب لے آؤ۔(١)
حجاز کے عرب، شاعر اور شعر شناس تھے، قرآن کی آیات کی فصاحت و بلاغت اور زیبائی کودیکھ کر وہ اس کے شیدائی اوراس میں مجذوب ہوجاتے تھے۔ وحی کے کلمات ، ان کی سماعتوں میں دلکش نغموں اور دلنشین صداؤوں سے زیادہ، لذت بخش محسوس ہوتے تھے اور کبھی تو شدت تاثیر سے قرآن کی
______________________
(١)سورۂ بقرہ، آیت ٢٣۔
آیات ان کے وجود کی تہوںتک اس قدر نفوذ کرجاتی تھیں کہ کافی دیر تک اپنی جگہ پر لذت و کشش میں غرق کھڑے رہتے تھے!۔
ایک شب قریش کے کچھ سردار جیسے ابوسفیان اورابوجہل ایک دوسرے سے بے خبر حضرت محمد ۖ کے گھر کے اطراف میں چھپ گئے اور صبح تک قرآن کی آیات کو سنتے رہے جو آپ نماز شب میں تلاوت فرماتے تھے اور صبح سویرے پلٹتے وقت جب ایک نے دوسرے کو دیکھا تو ایک دوسرے کی ملامت کرنے لگے اور کہا: پھر ایسی حرکت نہیں کریں گے کیونکہ اگر احمقوںنے ہمیں دیکھ لیا تو ہمارے بارے میں کچھ اور سوچیں گے (سوچیں گے کہ ہم مسلمان ہوگئے) لیکن اس کے باوجود یہ حرکت کئی دوسری راتوں میں پھر انجام دی اور ہر مرتبہ یہ طے کرتے تھے کہ دوبارہ اس طرح کی بے احتیاطیاں نہیں کریں گے۔(١)
______________________
(١) ابن ہشام، الشیرة النبویہ، ج١، ص ٣٣٧.