تیسری فصل
قریش کی مخالفت کے نتائج او ران کے اقدامات
مسلمانوں پر ظلم و تشدد
مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ جناب ابوطالب سے قریش کی گفتگو کرنے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بنی ہاشم پیغمبر اسلاۖم کی حمایت کے لئے کھڑے ہوگئے تو وہ پیغمبر ۖ کو جانی نقصان پہنچانے سے ناتواں ہوگئے اور مسلمانوں کو نئی نئی اذیتیں اور سزائیں دینا شروع کردیں تاکہ اس طرح سے انھیں اسلام کی طرف جانے سے منع کردیں گے۔(١)
قریش کے لئے مشکل یہ تھی کہ نومسلم افراد صرف ایک دو قبیلہ سے نہیں تھے جن کو آسانی سے روکا جاسکتا ہے بلکہ ہر قبیلہ سے چند افراد اس نئے دین کو اپنائے ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ کے آزار و اذیت سے تنگ آکر جن مسلمانوں نے ٥ ھ میں حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ان کی فہرست پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں اور مرد مختلف قبائل (جیسے بنی عبد شمس، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زہرہ، بنی مخزوم، بنی جمح، بنی عدی، بنی حارث، بنی عامر اور نبی امیہ) سے مسلمان ہوئے تھے۔
______________________
(١) طبری، تاریخ الامم والملوک، (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص٢٢١۔
اس بنا پر مشرکوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہر قبیلہ، اپنے مسلمانوں کو سزائیں دے تاکہ دوسرے قبائل کے افراد کے مداخلہ کرنے سے ان میں تعصب نہ پیدا ہو اور وہ کوئی عکس العمل نہ دکھائیں۔
زیادہ تر تکلیفیں اور سزائیں نومسلم مستضعفوں کو دی جاتیںتھیں کہ جن کے بارے میں ہم نے بتایا ہے کہ وہ غلام، پردیسی اور بغیر کسی قبیلہ کی حمایت کے رہتے تھے۔(١) یاسر اور ان کے فرزند عمار، بلال بن رباح، خبّاب بن ارت، ابوفُکَیہ، عامر بن فُھَیر، صُھَیب بن سنان اور خواتین اور کنیزوں میں سُمَیّہ، ام عُبَیس، (یا اُم عُنَیس)، زِنِّیرہ، لَبیبہ (یا لُبَنیہ) اور نَہدیّہ؛ یہ وہ افراد تھے(٢) جن کو مختلف مواقع پر بھوک اور پیاس، قید و بند، ضرب و شتم اور مکہ کے تپتے ہوئے ریگ زار پر لٹاکر شدید گرمی کے عالم میں سزائیں دی گئیں یا تپتے ہوئے صحرا میں آھنی زرہ پہنا کر یا ان کی گردنوں میں رسی باندھ کر بچوں کے ذریعہ پھرایا گیا۔
حبشہ کی طرف ہجرت
خود پیغمبر اسلاۖم ، جناب ابوطالب اور بنی ہاشم کی حمایت کے سایہ میں قریش کے جانی نقصان سے محفوظ تھے۔ لیکن اور دوسرے مسلمانوں کی بے پناہ اذیتوں اور سزاؤوں کو دیکھ کر (ایک وقتی راہ حل اور امان کی خاطر) آپ نے ان کو سمجھایا کہ، ملک حبشہ ہجرت کرجائیں اور فرمایا کہ ''وہاں کا بادشاہ انصاف پسند اور وہاں کی سرزمین سچی اور با امن ہے۔(٣)
______________________
(١)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: ڈاکٹر محمد حمیداللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط٣)، ج١، ص١٩٧؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص٦٦۔
(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٦۔ ١٥٦؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٠۔ ٦٦۔
(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٤٤؛ تاریخ الامم والملوک، ج٢، ص٢٢٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٧٦۔
اس زمانہ میں صرف حبشہ مسلمانوں کے ہجرت کے لئے مناسب جگہ تھی ۔ ایران و روم یا اس کے زیر اثر دوسرے علاقے جیسے شام اور یمن ہر ایک کے لئے ممکن تھا کہ کسی نہ کسی وجہ سے (قریش کے ورغلانے یا اپنی سیاست کی بنا پر) مسلمانوں کو قبول نہ کریں یا ہجرت کے بعد ان کے لئے مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس کے علاوہ حبشہ مسلمانوں کے لئے ایک جانی پہچانی جگہ تھی۔ کیونکہ اہل مکہ تجارت کی غرض سے وہاں آیا جایا کرتے تھے۔(١)
اس کے علاوہ حبشہ کے لوگ مسیحی تھے۔ خدا پرستی کے عقیدہ میں وہ مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حبشہ کے مسیحی ''یعقوبی'' فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ فرقہ خدا کو اکیلی ماہیت (یک اقنوم) جانتا تھا اور تثلیث (یعنی تین خداؤوں کا عقیدہ) نہیں رکھتا تھا اور اس لحاظ سے ان کا عقیدہ توحید اسلامی سے قریب تھا۔(٢)
بہرحال پیغمبر ۖ کے کہنے پر بعثت کے پانچویں سال(٣) ، مسلمانوں کا ایک ١٥ نفری(٤) گروہ خفیہ طریقے سے مکہ چھوڑ کر، بندر شعیبہ کے راستے سے، بحر احمر کو عبور کرتا ہوا حبشہ پہنچا۔ یہ گروہ دو تین مہینے حبشہ میں رہنے کے بعد قریش کے اسلام لانے کی افواہ اور مسلمانوں پر سے اذیتوں او ردباؤ کے ختم ہونے کی خبر سن کر دوبارہ مکہ پلٹ آیا۔(٥)
______________________
(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢١۔
(٢) عمر فروخ، تاریخ صدر الاسلام و الدولة الامویہ (بیروت: دار العلم، للملایین، ط٣، ١٩٧٦ئ)، ص ٥٤؛ ڈاکٹر عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہ، تہران؛ سروش، ط١، ١٣٧٠)، ص١٦٩۔
(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢٠٤؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص٢٢٨؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص٧٧۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٢٠٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٤؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٢۔ ٢٢١۔
(٥) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٧۔
لیکن چونکہ زور و زبردستی اور سزائیں ویسے ہی برقرا رتھیں لہٰذا پھر مسلمانوں کا ایک دوسرا گروہ اسی راستے سے حبشہ پہنچا۔ اس مرتبہ ان کی تعداد (عورت و مرد ملا کر) ایک سو ایک افراد پر مشتمل تھی(١) اور ان کی سرپرستی جعفر ابن ابی طالب کے ذمہ تھی جب مہاجرین، حبشہ میں امن و سلامتی کے ساتھ رہنے لگے تو ایک مدت کے بعد قریش کو خطرے کا احساس ہوا اور انھوں نے اپنا نمائندہ، نجاشی کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ بادشاہ سے مطالبہ کرے کہ مہاجرین کو ان کے شہر واپس بھیج دیا جائے۔ ادھر جناب ابوطالب اس سازش سے آگاہ ہوگئے اور انھوں نے ایک خط نجاشی کے پاس لکھا اور اس سے مہاجرین کی حمایت کی درخواست کی۔(٢)
نجاشی کے دربار میں قریش کے نمائندوں کے دعوے کے بعد، جناب جعفرابن ابی طالب نے مفصل طریقے سے سنجیدہ الفاظ میں موقع کے لحاظ سے گفتگو فرمائی۔ اور بہت اچھے انداز میں اپنے موقف کا دفاع کیا اور نجاشی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی نجاشی نے پناہ گزینوں کو قریش کے
______________________
(١)ابن سعد، سابق، ص ٢٠٧۔ مہاجرین کی تعداد اس سے بھی کم لکھی گئی ہے لیکن مہاجرین کے ناموں کی تعداد جو کہ تاریخ میں درج ہے وہ پہلی تعداد کی تصدیق کرتی ہے۔ مراجعہ کریں: ابن ہشام، سابق، ص ٣٥٣۔ ٣٤٦؛ ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی، تاریخ ، (انتشارات تہران یونیورسٹی، ط ٢ ، ١٣٦١)، ص ١٣٢۔ ١٢٢.
(٢)ابن ہشام، سابق، ج١، ص ٣٥٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٨، ص ٤١٨؛ نقل طبرسی کے مطابق جناب ابوطالب نے اپنے خط میں یہ اشعار لکھے تھے :
تعلم ملیک الحبش ان محمداً نبی کموسی والمسیح بن مریم
اتی بالہدی مثل الذی اتیابہ و کل بأمر اللّٰہ یہدی ویعصم
وانکم تتلونہ فی کتابکم یصدق حدیث لاحدیث مرجم
فلاتجعلوا للہ ندّاً و اسلموا فان طریق الحق لیس بمظلم
(اعلام الوریٰ، ص٤٥)
نمائندوں کے سپرد کرنے سے انکار کردیا اور ان کو اپنی حمایت میں رکھا۔(١)
البتہ تمام مہاجرین کو سزائیںنہیں ملی تھیں ان میں سے کچھ طاقت ور قبیلے کے لوگ بھی تھے اور مشرکین کی مجال نہیں تھی کہ ان کو اذیتیں یا سزائیں دیتے۔ لیکن بہرحال مکہ کا ماحول بہت پرآشوب اورتکلیف دہ ہوگیا تھا اور شاید پیغمبر اسلاۖم کا مقصد یہ بھی رہا ہو کہ مسلمانوں کوایسے ماحول سے دور رکھ کر حبشہ میں اسلام کی حمایت اور اس کے دین کے مخالفوں کے خلاف ایک مرکز وجود میں آئے۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ حبشہ میں مہاجرین کا بسنا تبلیغی اثرات کے لحاظ سے خالی نہ تھا جیسے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر اسلاۖم سے روابط برقرار کئے۔(٢) گویا قریش نے اس اندیشے کے پیش نظر اپنے نمائندے کو بھیجا تھا۔
کچھ ایسے شواہد اور ثبوت ملتے ہیں کہ پیغمبر اسلاۖم مسلسل مہاجرین کے حالات کی خبرگیری فرماتے تھے جیسا کہ بعض کے ارتداد اور عبد اللہ بن جحش (ایک مہاجر) کے مرنے کی خبر آپ کو ملی۔(٣)
اس مرتبہ حبشہ میں مہاجروں کا قیام زیادہ رہا اور اس عرصے میں گیارہ لوگ وہاں فوت ہوگئے، ٣٩٠ ، افراد رسول خدا ۖ کی ہجرت سے پہلے مکہ پلٹ آئے، کچھ عورتیں اور ٢٦ مرد پیغمبر ۖ کی ہجرت اور جنگ بدر کے بعد مدینہ پلٹ آئے اور آخری گروہ جعفر ابن ابی طالب کی سرپرستی میں ہجرت کے ساتویں سال واپس ہوا اور جنگ خیبر کے تمام ہو جانے کے بعد اس مقام پرپیغمبر اسلاۖم کی خدمت میں پہنچا۔(٤)
______________________
(١)طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٤۔ ٤٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٣٦٠۔ ٣٥٦؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨١۔ ٧٩۔
(٢) بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حبشہ سے پلٹتے وقت جعفر ابن ابی طالب کے ہمراہ وہاں کے ستر افراد تھے ۔ اور پیغمبر اسلاۖم سے گفتگو کے بعد وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (مجمع البیان، ج٣، ص ٢٣٤)
(٣) ابن سعد، سابق، ص ٢٠٨
(٤)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص٩٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٢٣٨؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط١،١٩٦٦ئ)، ج٤، ص١٤٣؛ آیتی، گزشتہ حوالہ، ص١٣٢۔
حضرت فاطمہ زہرا ٭ کی ولادت
شیعہ مورخین کے درمیان مشہور قول کی بنا پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بعثت کے پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔(١) وہ پیغمبر اسلامۖ کی سب سے چھوٹی اولاد تھیں اور آپ کی شریک حیات جناب خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں ان کی شادی علی کے ساتھ ہوئی۔ شہزادی نے اسی کمسنی کے عالم میںاپنے والد بزرگوار کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کیا اور طاقت فرسا مشکلات کو برداشت کیا اور اس زمانہ کے مصائب و آلام کو ہمیشہ یاد رکھا۔
اسراء اور معراج
پیغمبر اسلاۖم کا بطور اعجاز راتوں رات مکہ سے بیت المقدس کی طرف سفر کرنا (اسرائ) اور وہاں سے خداوند عالم کی قدرت کاملہ کے ذریعہ آسمانوںکا سفر کرنا (معراج) کہلایا اور ان دونوں واقعات کو مکہ کے واقعات میں شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں واقعات، مکی سوروں میں نقل ہوئے ہیں لیکن وقوع واقعہ کے سال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلاۖم کے ان دونوں سفر کا مقصد یہ تھا کہ خداوند عالم کی عظمت کی نشانیوں کوا س وسیع و عریض کائنات اور آسمانوںمیں آپ مشاہدہ کریںاور فرشتوں اور پیغمبروں کی روحوں سے ملاقات، بہشت و دوزخ کے اندر کا ماحول، اوراہل بہشت اورانکے درجات وغیرہ کا مشاہدہ فرمائیں جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس بات کا تذکرہ اس طرح سے کیا ہے۔
''پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جواپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لے
______________________
(١) مجلسی، بحار الانوار، ج٤٣، ص٧ کے بعد۔ لیکن اہل سنت کے درمیان ان کی ولادت بعثت کے پانچ سال پہلے مشہورہے۔ (سید جعفر شہدی، زندگی فاطمہ زہرا) (تہران: دفتر نشر فرھنگ اسلامی، ١٣٦٥، ط٧)، ص ٣٢۔ ٢٤۔
گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایاہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے''۔(١)
پیغمبر اسلاۖم نے اس سفر میں جن مراحل کو طے کیا اس کو بیان کرنے کے بعد ''معراج'' کے بارے میں بھی فرمایا: ''اس نے (پیغمبرۖ)اپنے پروردگار کی کچھ بڑی نشانیاں دیکھی ہیں''۔(٢)
ساتویں امام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خدا مکان نہیں رکھتا تو پیغمبر ۖ کو آسمانوں پر کیوں لے گیا؛ تو آپ نے فرمایا: خداوند عالم زمان و مکان سے مبرا ہے اس نے چاہا کہ پیغمبر ۖ کے ذریعے فرشتوں اور آسمانوں کے ساکنوں کو عزیز اور بزرگ قرار دے اور آپ ان کا مشاہدہ کریں اور یہ بھی چاہا کہ آپ کو اپنی عظمت کی نشانیوں کا نظارہ کرائے تاکہ آپ وہاں سے زمین پر آنے کے بعد لوگوں سے سارا ماجرا بیان کریں اور یہ فعل ہرگز اس معنی میں نہیں ہے جس کو فرقۂ مشبہ کہتے ہیں اور خداوند عالم، جسم، مادہ اور مکان سے منزہ ہے۔(٣)
روایات معراج کی تحلیل اور ان کا تجزیہ
پیغمبر اسلاۖم کے آسمانی سفر کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جس کو طبرسی (مشہور و معروف مفسر) نے چار حصوں پر تقسیم کیا ہے:
١۔ وہ روایات جو متواتر ہونے کی بنا پر قطعی اور مسلم ہیں جیسے اصل معراج۔
٢۔ وہ روایات جن میں ایسی باتوں کا تذکرہ ہوا ہے جس کو قبول کرنا عقل کی روسے قباحت نہیں
______________________
(١)سورۂ اسرائ، آیت١۔
(٢) لقد رأی من آیات ربہ الکبریٰ (سورۂ نجم، آیت ١٨.)
(٣) بحرانی، تفسیرالبرہان، (قم: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٣ھ) ، ج٢، ص ٤٠٠.
رکھتا ہے اور جو کسی مسلّم دستور کے خلاف نہیں ہیں جیسے آسمانوںمیں پیغمبر ۖ کا سفر کرنا، پیغمبروں کی زیارت، بہشت و دوزخ وغیرہ کی زیارت۔
٣۔ ایسی حدیثیں جن کا ظاہر، ان مسلّم اصولوں کے خلاف نہیں ہے جو آیات یا اسلامی روایات سے ماخوذ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قابل تاویل و توجیہ ہیں اس طرح کی حدیثوں کی ایسی تاویل کرنا چاہیئے جو صحیح اعتقاد اور محکم دلیل کے موافق ہو جیسے وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ پیغمبر ۖ نے اہل بہشت کے ایک گروہ کو بہشت میں اور اہل دوزخ کے ایک گروہ کو دوزخ میں دیکھا ہے ان مناظر کے بارے میں کہا جائے کہ یہ ایک طرح سے بہشت اوردوزخ واقعی کی مثال اور صورت تھی۔
٤۔ ایسے مطالب جو ظاہراً قابل قبول نہیںہیں اور قابل تاویل و توجیہ بھی نہیںہیں۔ جیسے یہ کہ پیغمبر ۖ نے اس سفر میں خدا کو چشم ظاہری سے دیکھا اور اس سے باتیں کیں اور تخت الٰہی پر ا س کے بغل میں بیٹھے۔ اس طرح کی مطالب باطل اور بے بنیاد ہیں۔(١)
علمائے امامیہ کے عقیدہ کے مطابق پیغمبر اسلاۖم کی معراج جسمانی تھی یعنی وہ اپنے ''جسم'' اور ''روح'' کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔(٢)
اسلامی روایات کی بنیاد پر روزانہ کی پنجگانہ نماز معراج کے سفر میں واجب ہوئی ہے۔(٣) اگر
______________________
(١) مجمع البیان، (تہران: شرکہ المعارف)، ج٦، ص ٣٩٥، تفسیر آیہ ٔ سورۂ اسرائ.
(٢) مجلسی، سابق، ج١٨، ص ٢٩٠؛ تفسیر نمونہ، ج١٢، ص ١٧ کے بعدآج کے علمی قوانین کے اعتبار سے واقعۂ معراج کا رونما ہونا ممکن ہے رجوع کیجئے: تفسیر نمونہ، ج١٢، ص ٣٠۔ ١٧؛ فروغ ابدیت ، ج٢، ص ٣٩٤.
(٣) کلینی، الفروع من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ط٢، ١٣٦٢)، ج٣، ص ٤٨٧۔ ٤٨٢؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢١٣؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی، (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥، مناقب الانصار، باب ١٠٤، ص١٣٤۔ ١٣٢؛ شیخ محمد بن حسن حر عاملی، وسایل الشیعہ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٤)، ج٣، کتاب الصلاة، ص٧، حدیث٥، ص٣٥، حدیث ١٤، ص٦٠، حدیث٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٨، ص٣٤٨؛ سید ہاشم بحرانی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٩٣٣.
معراج سے قبل پیغمبر اسلاۖم یا علی کو نماز پڑھتے دیکھا گیا یا ان سے نماز نقل ہوئی تو وہ نماز غیر واجب یا ایسی نماز تھی جو روزانہ کی پنجگانہ نماز کے شرائط اور خصوصیات کے مطابق نہیں تھی۔(١)
بنی ہاشم کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ
جب قریش کے سرداروں کو جناب ابوطالب سے ملنے پر کوئی نتیجہ نہ نکلا اور حبشہ سے مہاجرین کے پلٹانے میں ناکام رہے اوردوسری طرف سے بڑی اور اہم شخصیتیں اسلام قبول کرنے لگیں اور مختلف قبائل سے اسلام کی پیروی کرنے والے افراد میں اضافہ ہونے لگا تو ناچار ہوکر یہ پلان بنایا کہ دباؤ کے نئے طریقوں کو اپنایا جائے اور وہ یہ کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خاندان کو اجتماعی اور اقتصادی طور پر دبائیں تاکہ رسول خدا ۖ کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیںاور ان کو ہمارے سپرد کردیں۔ اس مشورے کے بعد آپس میں ایک عہدنامہ لکھا گیا کہ بنی ہاشم سے نہ لڑکی لیں اور نہ ان کو لڑکی دیں اور نہ ہی ان سے خرید و فروخت او رمعاملہ کریں۔(٢)
اس سے قبل بیان کرچکے ہیں کہ مکہ کے لوگوں کا ذریعہ معاش صرف تجارت تھا اور اقتصاد و تجارت پر اختیار اور کنٹرول سارا قریش کا تھا۔لہٰذا اگر وہ کسی شخص یا گروہ کا بائیکاٹ کر دیتے تھے تواس کا مطلب، اس کی مکمل محرومیت ہوتی تھی۔ اسی لئے ان کی نظر میں یہ بہت موثر حربہ تھا اور اس بات کی امید تھی کہ بنی ہاشم جلد ہی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے۔
شادی کا بائیکاٹ اور بنی ہاشم کے ساتھ قطع روابط، جس کاکہ بعض کتابوں میں قریش کے عہدنامہ
______________________
(١)علامہ امینی، الغدیر، ج٣، ص٢٤٢۔
(٢) ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٥؛ بلاذری ، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف، ط٣)، ج١، ص ٢٣٤.
کے ایک بند کے طور پر ذکر ہوا ہے(١) زیادہ تراجتماعی پہلو رکھتا تھا گویا وہ لوگ چاہتے تھے کہ بنی ہاشم اس لحاظ سے بھی سخت مشکلات اور دباؤ میں رہیں۔
اس عہدنامہ پر دستخط کے بعد جناب ابوطالب کے مشورے(٢) سے بنی ہاشم کے تمام افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر(٣)، (سوائے ابولہب کے) ''شعب ابوطالب(٤)'' میں جمع ہوئے(٥) اور
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٠٩؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٤، ص ٥٨.
(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٣؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دارالفکر، ط ١، ١٣٩٨ھ)، ص ١٥٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٨.
(٣) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١.)، ج١٤، ص ٦٤؛ قتال نیشاپوری، روضة الواعظین (بیروت: موسسة العلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ، ص ٦٣.
(٤) دو پہاڑوں کے بیچ کے درّہ اورشگاف کو ''شعب'' کہتے ہیں۔ ''شعب ابوطالب'' جو کہ بعد میں ''ابویوسف'' کے نام سے مشہور ہوا، عبد المطلب کی وجہ سے قرار پایا ہے۔ جب ان کی آنکھیں ضعیف ہوگئیں تو انھوں نے اس کو اپنی اولاد کے درمیان تقسم کردیا۔ پیغمبر اسلامۖ کو بھی اپنے والد بزرگوار جناب عبد اللہ کا حصہ ملا۔ اس درّہ میں بنی ہاشم کے گھر تھے (یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٣، ص ٣٤٧) جدید تحقیقات کی روشنی میں شعب ابی طالب۔ بعض لوگوں کے تصور کے برخلاف، حجون میں جو کہ آج اہل مکہ کے درمیان ''جنة المَعلاة'' کے نام سے ا ورا یرانیوں کے درمیان ''قبرستان ابوطالب'' کے نام سے معروف ہے، نہیں ہے۔ بلکہ مسجد الحرام کے قریب، صفا و مروہ پہاڑی کے بغل اورابوقبیس پہاڑ کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ پیغمبر اسلاۖم کی ولادت اور جناب خدیجہ کا گھر اسی درّہ میں تھا اور پیغمبر اسلاۖم ہجرت کے وقت تک اسی درّہ میں رہتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد، عقیل ابن ابی طالب وہاں رہنے لگے اور ان کے بعد محمد بن یوسف ثقفی، (حجاج کے بھائی) نے اس کو عقیل کے لڑکوں سے خریدا اور اپنے گھر میں شامل کرلیا۔ گویا اس کے بعد اس کا نام شعب ابی یوسف پڑ گیا اور بعض قدیمی مورخ ا س کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں،پیغمبر اسلاۖم کی جائے ولادت اسی خاص جگہ پر ہے اور عبد العزیز کے زمانہ میں، مکہ کے میئر نے اسے لائبریری میں تبدیل کردیا اور ١٣٩٩ھ میں عزہ سڑک کی توسیع میںاسے ختم کردیا گیا۔ (فصلنامۂ میقات حج، شمارہ ٣، ماہ بہار ١٣٧٢، مقالہ سیدعلی قاضی عسکر، شعب ابی طالب کے بارے میں تحقیق، ص ١٧١۔ ١٤٩.
(٥)پہلی محرم سات بعثت (ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٠٩) .
تین سال(١) تک جب تک بائیکاٹ جاری رہا) وہاں گزارے۔
اگر چہ قریش کا پیمان اجتماعی اور اقتصادی پہلو رکھتا تھا لیکن چونکہ قریش کو پیغمبر اسلاۖم اور بنی ہاشم سے بہت زیادہ بغض و عناد تھااور وہ اعلان کرچکے تھے کہ ہم میں اور بنی ہاشم میں حل کا واحد راستہ محمد ۖ کا قتل ہے اسی وجہ سے جناب ابوطالب، حضرت رسول خدا ۖ اور بنی ہاشم کی جان کے بارے میں بہت فکرمند تھے لہٰذا انھوں نے درّہ میں جاکر پناہ لی تاکہ ان کی حفاظت اور نگرانی کرنا آسان رہے۔ اور تاریخ میں بنی ہاشم کے مردوں کی تعداد چالیس افراد(٢) نقل ہوئی ہے جنھیں آپ نے شعب کی نگہبانی کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ ہر شب پیغمبر ۖ سے کہتے تھے کہ کچھ دیر استراحت کرنے کے بعد اپنی جگہ بدل دیںاو ران کی جگہ اپنے فرزند علی کو لٹادیتے تھے(٣)تاکہ اس طرح محمد ۖ کی جان قریش کے حملہ اور سوء قصد سے محفوظ رہ سکے۔
اس دوران قریش نے شعب میں راشن غلہ کے پہنچنے میں رکاوٹ کھڑی کردی اور بنی ہاشم، ہر طرح کے لین دین سے محروم اور سخت مشکلات میں گرفتار ہوگئے صرف وہ محرم کے مہینہ میں (حج اور عمرہ کے موسم میں) آذوقہ کی فراہمی کے لئے شہر میں جاتے تھے۔(٤) اس وقت بھی، قریش مکہ کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کو خبردار کردیتے تھے کہ بنی ہاشم کو کوئی چیز فروخت نہ کریں ورنہ ان کے اموال غارت کردیئے جائیں گے۔(٥) اور اگر بنی ہاشم؛ قریش سے کوئی چیز خریدنا چاہتے
______________________
(١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤۔ ٢٣٣؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٥؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)؛ ج٢، ص ٨٧؛ فتال نیشاپوری، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤۔ ٦٣.
(٢) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٣؛ طبرسی، اعلام الوریٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ: ط ٣)، ص ٤٩.
(٣) فتال نیشاپوری، روضة الواعظین، (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ)، ص ٦٣؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤؛ طبرسی گزشتہ حوالہ، ص ٥٠؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٦٤؛ رجوع کریں: گزشتہ حوالہ، ص ١٦٠.
(٤)ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤؛ ابن اسحاق ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٩.
(٥) طبرسی، گزشتہ حوالہ.
تھے تووہ اس کی قیمت بہت زیادہ بتاتے تھے تاکہ وہ خرید نہ سکیں۔(١)
بعض اوقات ابو العاص بن ربیع(٢) اور کبھی حکیم بن حزام (٣)قریش کی نظروں سے بچا کر شعب کے اندر غلہ اور راشن پہنچاتے تھے بنی ہاشم سے حضرت علی راتوںکو چھپ کر شعب سے نکلتے تھے اور کھانے کا سامان فراہم کرتے تھے۔(٤)
اس عرصہ میں جناب رسول خدا ۖ، جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی دولت تمام ہوگئی اور وہ تہی دست اور مشکلات میں گرفتار ہوگئے۔(٥) خاص طور سے جناب خدیجہ نے اپنی ساری دولت شعب میں پیغمبر اسلاۖم کی راہ میں خرچ کردی۔(٦)
تین سال گزر نے کے بعد جب پیغمبر اسلاۖم نے دیمکوں کے ذریعہ اس عہدنامہ کے کھا جانے کی اطلاع ابوطالب کے ذریعہ، قریش کودی۔(٧)اور دوسری طرف سے عہدنامہ پردستخط کرنے والے بعض افراد جو بنی ہاشم کی حالت زار پر رنجیدہ تھے۔(٨) وہ اس عہد سے، بیزار ہوگئے اور ان کی
______________________
(١) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ١٩؛ ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٩.
(٢) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص٥١۔
(٣) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص١٦١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٧٩؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٣٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص١٩۔
(٤) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢٥٤۔
(٥) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٥؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٠
(٦)طبرسی، ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٦٤.
(٧) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٦١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٦٥.
(٨) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٢، ١٦٥، ١٦٦؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٥٩؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٨٨؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٩۔
پیش قدمی سے یہ عہد لغو ہوگیا۔(١) اور اس طرح بنی ہاشم اپنے گھروں کی طرف پلٹ آئے۔(٢)
حضرت علی نے اپنے ایک خط میں معاویہ سے اس مشکل اور پُررنج دور کا تذکرہ اس طرح سے کیاہے:
''... تو ہماری قوم نے ہمارے نبی ۖ کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ دینے کا ارادہ کرلیااور ہمارے خلاف کتنے ہی ناپاک عزائم استوار کئے اور کون سی ناشائستہ حرکت ہوگی جس کا ہمیں نشانہ نہ بنایا ہو۔ ہمارا جینا حرام کردیا اور خوف و ہراس کوہمارا اوڑھنا بچھونا بنادیا اور ہمیںایک دشوار گزار پہاڑ (کی گھاٹی) میں سر چھپانے پر مجبور کردیا اور (آخرکار) ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکادی (اس برے وقت میں) اللہ تعالیٰ نے ہم (بنی ہاشم) کو (ایسی) ہمت عطا فرمائی کہ ہم نے حریم رسالت کا بچاؤ کیا اور آپ کی شان حرمت پرآنچ نہ آنے دی۔ ہمارے مومن یہ خدمات ثواب کی خاطر بجالاتے تھے اور ہمارے کافر خونی قرابت کے پیش نظر حمایت کرتے تھے. قریش کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مصائب سے بچے ہوئے تھے جن میں ہم گرفتار تھے کیونکہ کسی کی حفاظت تو باہمی معاہدہ کر رہا تھا او رکسی کا قبیلہ اس کے بچاؤ کے لئے تیار کھڑا تھا اس لئے اسے قتل ہو جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔(٣)
______________________
(١) بعثت کے دسویں سال میں (ابن سعد، گزشتہ)، ج١، ص ٢١٠، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٣٦۔
(٢) طبرسی ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٢۔ ٥١۔
(٣) نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، مکتوب نمبر ٩.
|