١۔ سماجی نظام کے بکھرنے کا خوف
مکہ میں رائج سماجی نظام کے قبائلی ہونے کے اعتبار سے، اور قریش کے پاس بہت ہی زیادہ امتیازات ہونے کی بنا پر ایک طرح سے وہاں قریش کی استکباری حکومت پائی جاتی تھی اور سرداران قریش اس
نظام کے عادی ہوگئے تھے لہٰذا وہ کسی طرح سے تیار نہیں تھے کہ ایک معمولی سی ضرب بھی اس نظام کے ڈھانچہ پر لگے!
یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت محمدۖ کی پیروی کرنے والاپہلا گروہ جوانوں، ضعیفوں، محروموں اور غلاموں کا تھا۔ او رخود آنحضرتۖ بھی سرمایہ داروں میں سے نہیں تھے بلکہ بچپن میں یتیم، جوانی میں نادار اور تہی دست اور قبیلہ کے ا ندر آپ کا شمار دوسرے درجہ کے افراد میں ہوتا تھا۔ آپ کے چچا ابوطالب بھی تمام خاندانی شرافتوں کے باوجود تنگدست تھے اور یہ تمام چیزیں سرداران قریش کو خبردار کر رہی تھیں کہ حضرت محمدۖ کی دعوت تبلیغ نے ان کے نظام اجتماعی کی بنیادوں کو خطرہ میں ڈال دیا اور ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ، تبلیغ کے انھیں ابتدائی دنوں سے جوانوں، محروموں اور غلاموں کے رجحانات کا شکوہ کرتے تھے۔ اور حبشہ سے مہاجرین کو پلٹانے کے لئے قریش کے نمائندوں نے نجاشی کے دربار میں اپنے آپ کو مکہ کے سرمایہ داروں کا نمائندہ بتایا۔(١)
قرآن ان کے اس استکبارانہ نظریات پر معترض ہوا (کیونکہ مکہ یا طائف کا کوئی ثروتمند پیغمبری کے درجے پر فائز نہیں ہوا تھا) اوراس کو اس طرح سے بیان کیا: ''اور یہ کہنے لگے کہ آخر یہ قرآن دو بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا ہے''۔(٢)
ایک تفسیر کی بنیاد پر مرد بزرگ سے مراد مکہ میں ولید بن مغیرہ (بنی مخزوم کا سردار) اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی (مشہور دولتمند) ہے۔(٣) اس آیت کی شان نزول کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایک دن ولید نے کہا: کس طرح سے یہ قرآن محمد ۖ پر نازل ہوا؟ اور مجھ پر نازل نہ ہوا؟ جبکہ میں
______________________
(١) وقد بعثنا فیہم اشراف قومہم۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٥٨.
(٢) ''و قالوا لولا نزل ہذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم'' (سورۂ زخرف، آیت ٣١)
(٣) طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص ٤٦.
قریش کا سید و سردار ہوں!''(١) لہٰذا ابتدا میں قریش حضرت محمد ۖکی دعوت سے اس لئے مخالف ہوگئے کہ وہ ان کے اجتماعی نظام کے لئے خطرہ بن گئے تھے نہ اس لحاظ سے کہ انھوں نے ایک نیا آئین پیش کیا تھا۔
اقتصادی خوف
بعض معاصر محققین نے قریش کی مخالفت کا ایک قوی سبب اقتصادی مقاصدکو قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی مکی آیات کا ایک حصہ ثروتمند وں اور مالداروں کی شدت سے مذمت کرتاہے۔ مکہ کے بڑے سرمایہ داروں او ردولتمندوںنے (جیسا کہ تجارت اور کعبہ کی کنجی کی بحث میں، بعض افراد کی بے شمار دولت سے آگاہ ہوچکے ہیں) ان آیات کو سن کر، خطرے کا احسا س کیا کہ محمد ۖ کے دین کو ترقی ملنے پر، ان کے اقتصادی منافع خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس طرح کی کچھ آیات بطور نمہ پیش ہیں:
''اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے۔ اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے۔ او رنگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دئے ہیں ۔ اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی ہے اور پھر بھی چاہتا ہے کہ او راضافہ کروں۔ ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا''۔(٢)
''ہم عنقریب اسے جہنم واصل کردیں گے۔ اور تم کیا جانو کہ جہنم کیاہے۔ وہ کسی کو چھوڑ نے والا اور باقی رکھنے والا نہیں ہے۔ بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے''۔(٣)
______________________
(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص٣٨٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص٥٠۔
(٢) سورۂ مدثر، آیت ١٦۔ ١١۔
(٣)''سأصلیہ سقر،وماادریٰک ما سقر،لاتبق ولاتذر،لواحة للبشر'' (سورۂ مدثر، آیت ٢٩۔ ٢٦) ، سورۂ مدثر کو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے چوتھا سورہ کہا گیا ہے۔ (التمہید، ج١، ص ١٠٤)
''ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔ نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا او رنہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی۔ وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا''۔(١)
''تباہی اور بردبادی ہے ہر طعنہ زن اور چغلخور کے لئے۔ جس نے مال کو جمع کیا اور خوب اس کا حساب رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔ ہرگز نہیںاسے یقینا حطمہ میں ڈال دیا جائے گا۔ او رتم کیا جانو کہ حطمہ کیا شے ہے۔ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ جو دلوں تک چڑھ جائے گی''۔(٢)
''پھر جس نے خدا کی راہ میںمال عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔اور نیکی کی تصدیق کی۔ تو اس کے لئے ہم آسان راہ کا انتظام کردیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور لاپرواہی برتی۔ اور نیکی کو جھٹلایاہے۔ اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کردیں گے۔ اور اس کا مال کچھ کام نہ آئے گا جب وہ ہلاک ہو جائے گا''۔(٣)
ان آیات میں غور وغوض کرنے سے ا ور ان کی شان نزول کے بارے میں تحقیق کرنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ آیات ان کی مخالفت کے اظہار کے بعد نازل ہوئی ہیں (اور ان کی ابتدائی مخالفت کی علت نہیں تھیں) اور شاید مخالفت اور دشمنی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور مخالفین کی تعداد کے بڑھنے میںمؤثر تھیں۔
بہرحال، مکہ کے بڑے سرمایہ دار اور تاجر حضرت کے اصل مخالفین میں تھے۔
______________________
(١) ''تبَّت یدا ابی لہب و تب، ما اغنی عنہ مالہ و ماکسب، سیصلی ناراً ذات لہب''۔ (سورۂ مسد، آیت ٣۔ ١) سورۂ مسد کو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے چھٹا سورہ کہا گیاہے۔ (التمہید ، ج١، ص ١٠٤)
(٢)سورۂ ھمزة، آیت ٧۔ ١۔
(٣) ''فأما من اعطیٰ و اتقی و صدق بالحسنیٰ، فسنیسرہ للیسری، و اما من بخل و استغنیٰ و کذب بالحسنیٰ فسنیسرہ للعسری و مایغنی عنہ مالہ اذا تردیٰ''
(سورۂ لیل، آیت ١١۔ ٥) اس سورہ کو ترتیب نزول کے اعتبار سے نواں سورہ کہا گیا ہے۔ (التمہید، ج١، ص ١٠٤)
ایک مورخ کہتا ہے: ''چونکہ رسول خدا ۖ اپنی قوم کو راہ راست اور اس نور کی طرف بلا رہے تھے جو ان پر نازل ہوا تھا لہٰذا دعوت کے آغاز میں وہ آپ سے دور نہیں ہوئے اور قریب تھا کہ وہ آپ کی باتوں کو قبول کرلیں۔ اسی اثنا میں آپ نے ان کے طاغوتوں اور خداؤوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور قریش کا ایک ثروتمند اور مالدار گروہ طائف سے آیا(١) اور آپ کی باتوں کو ناپسند کیا اور قبول کرنے سے انکار کردیااور آپ کے ساتھ بری طرح سے لڑنے کے لئے کھڑا ہوگیا اور اپنے چاہنے والوں کو آپ کے خلاف ورغلایا اس وقت کچھ لوگ آپ سے کنارہ کش ہوگئے اور آپ کو چھوڑ دیا۔(٢)
______________________
(١) گویا ان لوگوں نے اپناسرمایہ طائف میں لگا رکھا تھا اور مکہ کے علاوہ وہاں پر بھی تجارت کا ایک مرکز بنا رکھا تھا۔
(٢) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٢١؛ جو لوگ انسانی زندگی اور سماج کی تبدیلیوں کو صرف مادی نظر سے دیکھتے ہیں وہ اسلام سے قریش کی مخالفت کا سبب، اقتصادی مقاصد کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ درحقیقت مسئلے کے صرف ایک پہلو کو نظر میں رکھتے ہیں۔ پطروشف کی (جو کہ روس کا مشہور اسلام اور ایران شناس او رلنینگراڈ یونیورسٹی کے شرق شناسی کالج کا پروفیسر ہے، کو اس قسم کے مسئلہ میں قضاوت اورتفکر کا ایک نمونہ سمجھا جاسکتا ہے، وہ لکھتا ہے کہ ''... بزرگان مکہ، ربا خور اور غلاموں کی تجارت کرتے تے اور کھلم کھلا محمد ۖ کی تبلیغات کی مخالفت کرتے تھے یہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ اس دشمنی کا سبب دینی تعصب تھا بلکہ بت پرستی کے خلاف محمد ۖ کی تبلیغات مکہ کے تاجروں کے سیاسی اور تجارتی منافع کے لئے خطرہ بن گئی تھیں، کیونکہ آپ کی دعوت سے ممکن تھا کہ کعبہ اور بتوں کی پرستش ختم ہو جائے اور یہ نہ تنہا زوار کے ہجوم کو کم کرے گا بلکہ مکہ کے بازار کو بھی ماند اور اس شہر کے تجارتی معاملات کودوسرے علاقوں سے بھی کم کردے گا بلکہ مکہ کے سیاسی نفوذ کے ختم ہونے کا باعث بنے گا۔ یہی وجہ تھی کہ صنادیدمکہ محمد ۖ کی دعوت کو اپنے منافع کے لحاظ بہت زیادہ خطرناک سمجھ رہے تھے اور آپ سے نفرت کرتے تھے (اسلام در ایران، ترجمۂ کریم کشاورزی، ج٧، تہران: انشارات پیام، ١٣٦٣، ص ٢٦)، متن میں جو وضاحت ہم نے کی ہے اس سے پطروشفتکی کے نظریہ کا بے بنیاد ہونا ثابت ہو جاتا ہے اور مزید توضیح کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
پڑوسی طاقتوں کا خوف و ہراس
قرآن مجید نے ان کے خوف و ہراس کے اظہارات کو نقل کیا ہے جو انھیں پڑوسی ملکوں اور طاقتوں سے اسلام قبول کرنے کی صورت میں لاحق تھا۔ اور اس خوف و ہراس کو بے جا قرار دیا ہے۔
''اور کفار کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے تواپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے۔ تو کیا ہم نے انھیں ایک محفوظ حرم پر قبضہ نہیں دیا ہے جس کی طرف ہر شے کے پھل ہماری دی ہوئے روزی کی بنا پر چلے آرہے ہیں لیکن ان کی اکثریت سمجھتی ہی نہیں ہے''۔(١)
ایک دن حارث بن نوفل بن عبد مناف نے پیغمبر اسلامۖ سے کہا: ''ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ لیکن اگر ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کے ہم عقیدہ ہو جائیں تو ہمیں ڈر ہے کہ کہیں عرب ہمیں اپنی سرزمین سے نکال نہ دیںاور ہم عرب سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں''۔(٢)
ان کے اظہارات سے پتہ چلتاہے کہ انھیںایران و روم کے شہنشاہوں(٣) کی ناراضگی کا خوف بھی تھا۔ اور یہ چیز پڑوسی ملکوں کے مقابلہ میں عربوں کی حقارت اور کمزوری کی علامت بھی ہے۔ جیسا کہ ایک دن پیغمبر اسلاۖم نے عرب کے چند بڑے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن کریم کی کچھ آیات کو جو فطری اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ان کے لئے تلاوت فرمائی ؛ تو وہ سب کے سب بے حد متاثر ہوئے اور ہر ایک نے اپنے طور پر آپ کی تحسین و تعریف کی لیکن مثنی بن حارثہ جو، ان کا رأس رئیس اور اصل سرغنہ تھا اس نے کہا: ''ہم دو پانی کے بیچ بسے ہوئے ہیں ایک طرف سے عرب کا دریا اور ساحلی علاقہ اور دوسری طرف سے ایران اور کسریٰ کی نہریں ہم کو گھیرے ہوئے ہیں، کسریٰ نے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ کوئی نئی بات نہ ہونے پائے اور کسی خطاکار کو پناہ نہ دی جائے ۔
____________________
(١)سورۂ قصص، آیت٥٧۔
(٢)طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص٢٦٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص٥١۔
(٣) مناقب، ج١، ص ٥٩۔
لہٰذا شاید آپ کے آئین کو قبول کرنا شہنشاہوں کیلئے خوش آئند نہ ہو۔ اور اگر ہم سے ، سرزمین عرب میں کوئی غلطی ہو جائے تو وہ قابل چشم پوشی ہے لیکن اس طرح کی غلطیاں ایران کے علاقے میں (کسری کی طرف سے) قابل عفو و بخشش نہیں ہیں۔(١)
قبیلہ جاتی رقابت اور حسد
قبائلی ڈھانچے کا ایک اثر یہ ہوا کہ اہم موضوعات پر رقابت اور بے حد فخر و مباہات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے اس قبائلی سماج میں ناانصافی ہونا شروع ہوگئی اور چونکہ پیغمبر اسلاۖم قبیلۂ بنی ہاشم سے تھے لہٰذا سارے سرداران قبائل رقابت اور قبائلی حسد کے جذبہ کے تحت آپ کی نبوت کو (جو کہ بنی ہاشم کی شرافت اور فخر و مباہات کا باعث تھی) قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ابوجہل قبیلۂ بنی مخزوم سے تھا،جو کہ قبائل قریش میں سے ثروتمندترین اور پرنفوذ ترین قبیلہ تھا اس نے اس بات کو کھل کر بیان کیا:
''ہم نے عبد مناف کے لڑکوں سے شرف و بزرگی کی خاطر جنگ کی، وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے لہٰذا ہم نے بھی لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کردیا وہ لوگوں کے لئے سواری کا انتظام کرتے تھے۔ لہٰذا ہم نے بھی ایسا کیا وہ لوگوں کو پیسہ دیتے تھے تو ہم نے بھی ایسا کیا۔ یہاں تک ہم دونوں برابر ہوگئے اور دو گھوڑوں کی طرح دونوں میں مسابقہ ہوا اس وقت وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے ایک پیغمبر ۖ کے درجہ پر فائز ہوا جس کے اوپر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے لہٰذا اب ہم کس طرح سے اس مرتبہ میںا س کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خدا کی قسم ہم ہرگز اس پر ایمان نہ لائیں گے او رنہ ہی اس کی تصدیق کریں گے''!۔(٢)
______________________
(١) محمد ابوالفضل ابراہیم (اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٨٢ھ.ق)،ج٢، ص ٢٥٨؛ ابن کثیر، الدایہ و النہایہ (بیروت: مطبعة المعارف، ط٢، ١٩٧٧ئ)، ج٣، ص ١٤٤۔
(٢)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٣٧؛ ابن شہر آشوب، ج١، ص ٥٠؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٥٠٧۔ ٥٠٦۔
امیہ بن ابوالصلت ، جو کہ طائف کا بہت بڑا شاعر اور رئیس تھا اور پہلے حنفاء میں رہتا تھا۔(١) اور اسی جذبہ کے تحت اس نے اسلام کو قبول نہیں کیا کہ وہ برسوں سے پیغمبر موعود کے انتظار میں تھا لیکن وہ خود ایک حد تک امید لگائے بیٹھا ہوا تھا کہ اس درجہ پر فائز ہوگا۔ لہٰذا اس نے جیسے ہی پیغمبر اسلامۖ کے بعثت کی خبر سنی ، آپ کی پیروی سے کنارہ کش ہوگیا اور اس کی وجہ اس نے زنان ثقیف سے حیاء و شرم بتائی اور کہا: ''مدتوں سے ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم پیغمبر موعود بنیں گے اب کس طرح سے یہ برداشت کریں کہ وہ ہم کو عبد مناف کے ایک جوان کا پیرو دیکھیں''۔(٢)
______________________
(١) مراجعہ کریں: ا س کتاب کے باب ''جزیرة العرب او راس کے اطراف میں ادیان و مذاہب'' میں (حنفا).
(٢) ابن کثیر ، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٣٠.
|